بینک آف انگلینڈ

متناسقات: 51°30′51″N 0°05′18″W / 51.51406°N 0.08839°W / 51.51406; -0.08839
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(بنک آف انگلینڈ سے رجوع مکرر)
بینک آف انگلینڈ
Logo
Logo
ہیڈکوارٹر تھریڈ نیڈل اسٹریٹ، لندن، انگلینڈ
متناسقات 51°30′51″N 0°05′18″W / 51.51406°N 0.08839°W / 51.51406; -0.08839
قیام 27 جولائی 1694
Governor Sir Mervyn King
مرکزی بینکِ برطانیہ
کرنسی پاؤنڈ سڑلنگ
ISO 4217 Code جی بی پی
ذخائر £7,334,000,000 (سونے کی صورت میں)

£229,599,000,000 (total assets) [1]

Base borrowing rate 0.5%[2]
ویب سائٹ http://www.bankofengland.co.uk

بینک آف انگلینڈ یا بینکِ انگلستان (Bank of England) مملکت متحدہ کا مرکزی بینک ہے، جس کو انگلستان کا بینک بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ 1694ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک نجی ادارہ تھا۔ 1946ء میں اسے بظاہر قومیا لیا گیا۔

قیام کا پس منظر[ترمیم]

انگلینڈ فرانس کے ساتھ 50 سالہ جنگ کے نتیجے میں بڑا خستہ حال ہو چکا تھا۔ حکومت عوام سے لیا گیا قرضہ لوٹانے میں اکثر ناکام رہتی تھی۔ 1666ء میں لندن میں آگ لگی جس سے شہر کا بڑا حصہ جل گیا۔ 1673ء میں بادشاہ چارلس دوم نے عوام سے لیے گئے دس لاکھ پونڈ کا قرضہ واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور اس طرح دس ہزار لوگ اپنی جمع پونجی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکے تھے۔[3]

27 جولائی 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے چارٹر پر مہر لگائی جا رہی ہے۔[4]
لگ بھگ 1548ء میں بنائی گئی منی چینجر کی ایک تصویر۔

1687ء میں William Phips نامی ایک مہم جو واپس انگلینڈ پہنچا۔ وہ ویسٹ انڈیز میں ساحل کے نزدیک کسی ڈوبے ہوئے ہسپانوی جہاز کے ملبے سے بڑی مقدار میں چاندی اور ہیرے نکال کر لایا تھا۔ اُس نے اِس مہم میں سرمائیہ کاری کرنے والوں کو 50 گنا زیادہ رقم واپس کری جس سے انگلینڈ میں سرمائیہ کاری کو بڑی ترغیب ملی۔[5]

1688ء میں انگلینڈ میں انقلاب (Glorious Revolution) آیا اور رومن کیتھولک بادشاہ جیمز دوم کی جگہ بغیر کسی خون خرابے کے اس کے ڈچ نژاد پروٹسٹنٹ داماد ویلیئم آف اورینج اور اس کی بیوی (بادشاہ جیمز دوم کی بیٹی) میری تخت نشین ہوئے۔[6] 1692ء میں، جب انگلینڈ اور فرانس کے درمیان میں جنگ چل رہی تھی، انگلینڈ کی حکومت نے عوام کو دس لاکھ پاونڈ کے حکومتی قرضے(بونڈز) بیچنے کی پیشکش کری لیکن اس وقت یورپی عوام حکومتی ضمانت پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دس فیصد سالانہ سودکی پیشکش کے باوجود حکومت صرف ایک لاکھ آٹھ ہزار پاونڈ کے بونڈز بیچ سکی۔ اس ناکامی کے بعد شرح سود بڑھا کر 14 فیصد کر دی گئی لیکن پھر بھی سارے بونڈز نہ بکے۔ اس وقت انگلینڈ کے 80 ہزار فوجی 6 سال سے فرانس کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔ ایسے موقع پر اسکاٹ لینڈ کے بینکار William Patterson نے حکومت کو 12 لاکھ پاونڈ قرض کی پیشکش صرف 8 فیصد سود پر اس شرط کے ساتھ کری کہ اسے بینک آف انگلینڈ بنانے کا چارٹر دیا جائے جسے درج ذیل مراعات حاصل ہوں:

  1. حکومت کے سارے قرضوں کا نظم و نسق یہ بینک سنبھالے گا۔
  2. حکومت صرف اسی بینک سے قرضے لے گی۔
  3. یہ بینک جوائنٹ اسٹاک بینکنگ کمپنی ہو گا۔
  4. یہ کمپنی لمیٹڈ ہو گی۔
  5. یہ بینک فریکشنل ریزرو کی بنیاد پر کاغذی کرنسی جاری کرے گا۔ (اس وقت فریکشنل ریزرو کی حد صرف دو گنا تھی۔)

حکومت قرضے بیچنے میں ناکام ہو چکی تھی لیکن بینک آف انگلینڈ نے صرف دس دنوں میں مطلوبہ رقم اکٹھی کر لی۔[7] ایسا ہی ایک نظام اٹلی میں کئی صدیوں سے چل رہا تھا۔[8]
ایمسٹرڈیم کا بینک ادائیگی کا نظام بہتر بنانے کے لیے بنایا گیا تھا (یعنی تاجروں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا)۔ اس کے برعکس بینک آف انگلینڈ (1694ء) اور فرانس کا روئیل بینک (1718ء) بنائے ہی اس نیت سے گئے تھے کہ کاغذی کرنسی چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کیے جائیں (یعنی عوام کی دولت خفیہ طریقے سے حکومت کو منتقل کریں)۔[5]

بینک یا دولت کا کارخانہ؟[ترمیم]

ایک مضحکہ خیز کارٹون جو 1797 میں جیمز گلرے نے کاغذی کرنسی کے خلاف بنایا تھا۔ نوٹوں کے کپڑے پہنے خزانے پر بیٹھی خاتون سے مراد بینک آف انگلینڈ ہے جبکہ مرد ولیم پٹ ہے جو اس وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔

فریکشنل ریزرو بینکنگ کا تصور نیا نہیں تھا اور صدیوں پہلے نائٹ ٹیمپلار (Knights Templar) بھی اسے استعمال کرتے رہے تھے جنھوں نے بعد میں اسکاٹ لینڈ میں پناہ لی تھی۔[9] لیکن بینک آف انگلینڈ کے چارٹر میں عجیب و غریب بات یہ تھی کہ حکومت کی ضمانت (IOU) کے عوض بینک نہ صرف حکومت کو رقم قرض دیتا تھا بلکہ اُسی ضمانت کے عوض عوام کو بھی قرضے دیتا تھا اور اس طرح دونوں سے سود وصول کرتا تھا۔ یہ درحقیقت قرض اور سود کا دھندا نہیں تھا بلکہ نئی کرنسی تخلیق کرنے کا دھندا تھا جسے بینکنگ کی آڑ میں چھپایا گیا تھا اور جو نجی ادارے کی ملکیت تھا۔ لیکن اس سے حکومت کو بھی زبردست مالی فائیدہ تھا۔

یہ معلوم نہیں کہ ویلیم پیٹرسن کی پشت پر کون کام کر رہا تھا۔ چند مہینوں بعد ہی پیٹرسن کو بینک آف انگلینڈ سے نکال دیا گیا۔[10] Sir Edmundbury Godfrey اور دوسرے چند لوگ جو ویلیم پیٹرسن کی پشت پناہی کر رہے تھے ان کا تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی سے تھا۔[11]
Chancellor Charles Montagu جو 1691ء میں پارلیمنٹ کا رکن بنا تھا وہ بھی پیٹرسن کے ساتھ شریک تھا۔[12]

"ملک میں سانحے پہ سانحے آتے رہے کیونکہ حکومت اس نجی کاغذی کرنسی کی طرف لاپروائی برت رہی تھی۔ 1694ء میں جیسے ہی بینک آف انگلینڈ بنا، خود بادشاہ ویلیئم اور پارلیمنٹ کے ممبروں نے تیزی سے اس بینک کے شیئر خریدنے شروع کر دیے جو در حقیقت ان کی اپنی تخلیق کردہ دولت بنانے کی فیکٹری تھی"
"حکومت اور بینک کا یہ گٹھ بندھن ایک دوسرے سے وفاداری پر قائم نہیں تھا لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو پورا تحفظ دیتے تھے۔ کیونکہ دونوں جانتے تھے کہ اگر ان میں سے ایک ناکام ہوا تو دوسرے کا ڈوبنا بھی یقینی ہے۔"

صرف دو سالوں میں بینک نے اتنی زیادہ کاغذی کرنسی جاری کر دی کہ لوگوں کو وعدے کے مطابق کاغذی کرنسی کے عوض سونے کے سکے دینا ممکن نہ رہا۔ اس موقع پر حکومت نے بینک آف انگلینڈ کو بچانے کے لیے مداخلت کری اور پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا جس کے تحت بینک کو سونے کے سکے کی ادائیگی سے روک دیا گیا اور وعدے کی صریح خلاف ورزی کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔

Murray Rothbard نامی مصنف اپنی کتاب What Has Government Done to Our Money? میں لکھتے ہیں کہ بینکوں کو اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی اجازت دے کر حکومت دراصل انھیں چوری کرنے کا سرکاری اجازت نامہ دیتی ہے۔

1696ء میں حکومت نے بینک آف انگلینڈ کو بچا کر جس روایت کی بنیاد ڈالی وہ آج تک زندہ ہے۔ پچھلے سوا تین سو سالوں میں دنیا بھر میں بے شمار بڑے بینکوں کو بچانے کے لیے حکومت نے مداخلت کی ہے۔

"اس بینک کا نام اگرچہ کہ بینک آف انگلینڈ تھا مگر یہ نہ انگریزوں کا بینک تھا نہ ان کی حکومت کا۔ یہ تو ایک نجی بینک تھا جو ذاتی منافع کے لیے دھوکا دہی کرتا تھا۔"[13]

لگ بھگ 1750ء تک پورے انگلینڈ میں سونے چاندی کے سکوں کی بجائے بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی چھا چکی تھی۔[10]
یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے باہر کے لوگ کاغذی کرنسی سے بالکل واقف نہ تھے (سوائے چین)۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے خوب ترقی کری۔

ایک کمپنی، ایک اسٹاک مارکیٹ اور ایک سینٹرل بینک
ادارہ کب بنا
نیدرلینڈ (ڈچ)
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 1602ء
ایمسٹرڈیم اسٹاک ایکسچینج 1602ء
بینک آف ایمسٹرڈیم 1609ء
برطانیہ
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء
لندن اسٹاک ایکسچینج 1669ء
بینک آف انگلینڈ 1694ء

اسٹاک کا بلبلہ[ترمیم]

تاریخ سے یہ بات مٹا دی گئی ہے کہ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے صرف چند مہینے بعد 1694ء میں اسٹاک مارکیٹ کا بلبلہ پہلی دفعہ پھٹا۔ اور اس کے بعد بھی تواتر سے پھٹتا رہا۔[11]

ساوتھ سی ببل[ترمیم]

ساوتھ سی کمپنی کے شیئر کی قیمتیں تیزی سے دس گنا بڑھنے کے بعد اتنی ہی تیزی سے گر گئیں۔ شدید نقصان اٹھانے والوں میں مشہور طبیعیات دان نیوٹن بھی شامل تھا۔

1720ء میں جب South Sea کمپنی کے شیئرز کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی اُس وقت برطانوی عوام میں بے چینی پھیل گئی۔ عوام سخت ناراض تھے کہ قرض دینے والا سب سے بڑا ادارہ بینک آف انگلینڈ اس مرحلے پر ساوتھ سی کمپنی کو قرضہ فراہم کر کے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا۔ لوگوں کو شک ہونے لگا تھا کہ بینک کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جتنا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ اس موقع پر بینک آف انگلینڈ نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے ایک عجیب و غریب چال چلی۔ بینک کے خفیہ ایجنٹ بینک کاونٹر پر بڑی رقم کا چیک دے کر سکے طلب کرتے۔ بینک انھیں بوری بھر کے چھوٹے سکوں میں ادائیگی کر دیتا جسے لے کر وہ باہر نکل جاتے اور ایک دوسرے ایجنٹ کے حوالے کر دیتے جسے دوسرا ایجنٹ لے کر بینک میں جمع کرانے داخل ہوتا۔ اس طرح عوام پر یہ تاثر پڑا کہ بینک کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے اور بڑے تاجروں سے اس کی لین دین حسب معمول جاری ہے۔ اس طرح بینک رن کو شروع ہونے ہی سے پہلے روک دیا گیا۔ یہی ڈراما ستمبر 1745ء میں بھی رچایا گیا جب اسکاٹ لینڈ میں بغاوت ہوئی تھی۔[11]

حکومت کی قرضوں سے نجات[ترمیم]

عوام کا خواہ کتنا ہی نقصان ہوا ہو مگر بینک آف انگلینڈ، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور ساوتھ سی کمپنی نے برطانوی حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں خاطرخواہ کمی کر دی کیونکہ ان کمپنیوں نے قرض کو شیئر میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی طرح مسی سیپی کمپنی نے فرانس کے حکومتی قرضوں کا بوجھ بہت ہلکا کر دیا۔[5]

مسی سیپی ببل[ترمیم]

جس وقت برطانیہ میں ساوتھ سی کا بحران جاری تھا اس وقت فرانس میں بھی Mississippi Company کا بحران پرورش پا رہا تھا۔ مئی 1719ء سے دسمبر 1719ء کے درمیان میں مسی سیپی کمپنی کے شیئر کی قیمت 500 بلیور سے بڑھ کر دس ہزار بلیور ہو چکی تھی جس پر چار فیصد منافع (ڈیویڈنڈ) کا وعدہ کیا گیا تھا۔[14] 1720ء میں جب ان کاغذی شیئرز کی قیمتیں گرنے لگیں تو حکومت فرانس نے سونے کی مانگ کم کرنے کے لیے سونے کی فروخت پر سزائے موت کا قانون جاری کیا۔ چند دنوں بعد جب یہ قانون منسوخ ہوا اس وقت تک 50 لوگ سزائے موت پا چکے تھے۔

اس سازش کا ماسٹر مائنڈ John Law تھا جو فرانس سے بھاگ نکلا اور مفلس ہو گیا۔ مگر اس کی پشت پر کام کرنے والا بینکر Richard Cantillon کروڑ پتی بن گیا۔[15]

رکارڈ کینٹیلون وہ پہلا آدمی تھا جس نے 300 سال پہلے یہ لکھا کہ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے دولت تخلیق نہیں ہوتی۔ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے کسی کی دولت کرنسی اور شیئر کے تخلیق کنندہ کو منتقل ہوتی ہے۔[16]

1720ء میں ساوتھ سی کمپنی اور مسی سیپی کمپنی کے ایک ساتھ ڈوبنے سے پورے یورپ میں شدید مالی بحران آیا۔ ایمسٹرڈیم کا بینک 1683ء سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا۔ لیکن چونکہ یہ بینک فریکشنل ریزرو بینکنگ نہیں کرتا تھا (یعنی قرض نہیں دیتا تھا اور 100 فیصد ریزرو رکھتا تھا) اس لیے 1720ء کے بحران میں بھی ڈچ گلڈر کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن 1763ء میں بینکوں کو جس بحران کا سامنا کرنا پڑا اس میں لندن، ایمسٹرڈیم، ہیمبرگ اور اسٹاک ہوم کے سارے بینک نادہندہ ہو گئے۔[5]

گریگور میک گریگور[ترمیم]

اسکاٹ لینڈ کا ایک فوجی میک گریگور جو وینیزویلا کی 1812ء کی جنگ آزادی میں لڑ چکا تھا اور جنرل کے عہدے تک پہنچ چکا تھا، 1821ء میں لندن پہنچا اور اس نے اپنے آپ کو جنوبی امریکا کی ایک فرضی مملکیت "Poyais" کا حکمران ظاہر کیا۔ اس کے بیان کے مطابق اس کا ملک برطانیہ کا دوست تھا اور وہاں پہلے ہی سے بہت سارے برطانوی آباد ہو چکے تھے۔ میک گریگور نے اپنے ملک کی بڑی تفصیلات شائع کرئیں جس میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہاں کے دریا میں سونے کے ذرات ملتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا۔ جس علاقے کا وہ ذکر کرتا تھا وہ موجودہ ہونڈراس کے بلیک ریور کے آس پاس کا دلدلی اور ناقابل رہائیش علاقہ تھا جہاں ملیریا عام تھا۔
میک گریگور نے لندن میں اپنے اس فرضی ملک کی کاغذی کرنسی اور زمین بیچنا شروع کی۔ اس کے علاوہ دو لاکھ پاونڈ کے بانڈز (حکومتی قرضے) بھی بیچے جو اس زمانے کے معروف بینک Sir John Perring, Shaw, Barber & co. کی وساطت سے بیچے گئے۔ میک گریگور کے جاری کردہ شیئر لندن اسٹاک ایکسچینج میں باقاعدہ listed تھے۔
1822ء اور 1823ء میں 270 افراد وہاں جا بسنے کے ارادے سے لندن سے روانہ ہوئے۔ جب 1823ء میں ان میں سے بچ جانے والے 50 افراد واپس لندن پہنچنے میں کامیاب ہو سکے تو یہ جھوٹ کھلا۔ اس وقت تک میک گریگور فرار ہو کر پیرس پہنچ چکا تھا اور وہاں بھی انہی کاموں میں مصروف تھا۔ اسے اپنے فراڈ کی کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں برطانیہ میں اگرچہ 800 بینک کاغذی کرنسی جاری کرتے تھے مگر مرکزی حیثیت صرف بینک آف انگلینڈ کو ہی حاصل تھی۔[17]

[18]

گریگور میک گریگور پہلا آدمی نہیں تھا جس نے ایسا فراڈ کیا تھا۔ خود بینک آف انگلینڈ کا بانی پیٹرسن بھی اسکاٹ لینڈ کی حکومت کے تعاون سے ایک ایسا ہی ڈراما رچا چکا تھا۔ اس نے پناما (جسے اس زمانے میں Darien کہا جاتا تھا) میں آباد کاری کا ایک عظیم منصوبہ بنایا اور خوب شیئر بیچے۔ اس کے بعد 1200 لوگوں کو اسکاٹ لینڈ سے ڈاریئن اسکیم کے تحت پناما منتقل کیا جہاں ملیریا عام تھا۔ تقریباً سارے آباد کار مر گئے اور شیئر کی قیمتیں صفر رہ گئیں۔ [10]

قومیانہ[ترمیم]

1946ء میں بظاہر بینک آف انگلینڈ کو حکومتی ملکیت میں لے لیا گیا۔ لیکن در حقیقت حکومت نے قیمت ادا کر کے بینک کو خریدا۔ چونکہ حکومت نقد ادائیگی کے قابل نہ تھی اس لیے حکومت نے یہ بینک شراکت پر لیا (یعنی شیئر جاری کیے) اور پرانے مالکوں کو اس پر منافع (dividend) ادا کرنا شروع کیا۔ اس "قومیانے" میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ حکومت یہ شیئرز خود نہیں خرید سکتی۔ اس قومیانے کے باوجود برطانیہ کی 97 فیصد کرنسی حکومت کی بجائے نجی کمرشیئل بینک جاری کرتے تھے۔[19]

مئی 1997ء میں بینک آف انگلینڈ کو دوبارہ مکمل آزادی دے دی گئی۔[20][21][22][23][24]

اقتباس[ترمیم]

  • The end of World War II marked the unequivocal victory of fiat money... the nationalization of both the Bank of England and Bank of France. The BoE and BoF were insolvent due to their ownership of huge quantities of war bonds that would never be repaid so these losses were dumped onto the British and French taxpayers.[25]
  • When plunder becomes a way of life for a group of men in a society, over the course of time they create for themselves a legal system that authorizes it and a moral code that glorifies it.– Frédéric Bastiat[26]
  • اگرچہ بینک آف انگلینڈ کو بینکاروں کا بینک کہا جاتا جاتا ہے لیکن یہ حکومتوں کا حاکم بن چکا ہے۔
"From being what is known as a bankers' bank, it has become now almost the Government's government." [27]

بیرونی ربط[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 31 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2012 
  2. "– UK reduces interest rates to 0.5%"۔ BBC News۔ 5 مارچ 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2010 
  3. The Unbroken Record Of Fraud, Booms,Busts, Economic Chaos
  4. 27 جولائی 1694: the Bank of England is created by Royal Charter[مردہ ربط]
  5. ^ ا ب پ ت A Concise Financial History of Europe by Jan Sytze Mosselaar
  6. The Guardian
  7. The Origins of Central Banking
  8. London Starts an Exchange
  9. The Occult Connection II: The Hidden Race By Ken Hudnall
  10. ^ ا ب پ History Of Fractional Reserve Banking Which Became Model For The Federal Reserve System, The Unbroken Record Of Fraud, Booms,Busts, Economic Chaos
  11. ^ ا ب پ THE THEORY AND PRACTICE OF BANKING, 1883
  12. "Bank of England History and Timeline"۔ 07 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2017 
  13. Global Banking – A Criminal Syndicate Of Tyrants And Thieves! by Gabriel Donohoe
  14. Coronavirus And Credit – A Perfect Storm
  15. Richard Cantillon: The Founding Father of Modern Economics
  16. MMT – Not Modern, Not About Money, & Not Really Much Of A Theory
  17. Gregor MacGregor
  18. How A Central Bank Caused One Of History's Biggest Cons
  19. "BANK OF ENGLAND BILL 1945"۔ British Parliament 
  20. "How the Bank of England was set free"۔ Ft.com 
  21. "1997: Brown sets Bank of England free"۔ بی بی سی 
  22. "Brown gives Bank independence to set interest rates"۔ دی گارڈین 
  23. "Bank of England Bill"۔ British Parliament 
  24. "The Independent Bank of England--20 Years On"۔ ۔federalreserve.gov 
  25. "دوسری جنگ عظیم میں فاتح حکومتی کرنسی تھی اور مفتوح عوام تھے"۔ 20 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2020 
  26. Financial Feudalism - The New American 'Dream'
  27. Money Manipulation and Social Order by REV. DENIS FAHEY-1944[مردہ ربط]