بنگالی مسلمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بنگالی مسلمان
বাঙালি মুসলমান
1909 کے وقت مسلمان زیادہ آبادی والے اضلاع
کل آبادی
192 ملین[حوالہ درکار][حوالہ درکار]
گنجان آبادی والے علاقے
بنگلہ دیش153,010,000[1]
بھارت (مغربی بنگال اور آسام)33,000,000 (2021)[2][3]
پاکستان3,150,000 (1980)[4]
سعودی عرب2,200,000[5]
متحدہ عرب امارات700,000[6]
انگلینڈ اور ویلز376,128[7]
ملائیشیا552,000[حوالہ درکار]
قطر550,000[8]
کویت445,000[حوالہ درکار]
ریاست ہائے متحدہ امریکہ643,619[حوالہ درکار]
اٹلی415,746[حوالہ درکار]
عمان130,000[9]
زبانیں
بنگالی زبان, اردو (ثانوی زبان خاص طور پر وہ لوگ جو پاکستان میں رہتے ہیں
مذہب
سنی اسلام (اکثریت)
شیعہ الاسلام (اقلیت)
متعلقہ نسلی گروہ
بنگالی لوگ, پاکستانی مسلمان, ہندوستانی مسلمان

170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

مضامین
بنگالی

بنگالی مسلمان ((بنگالی: বাঙালি মুসলমান)‏; تلفظ: [baŋali musɔlman])[10][11] بنگالی مسلمان وہ لوگ جو لسانی اور نسبی طور پر بنگالی ہیں اور اسلام کے پیروکار ہیں۔ اس وقت، بنگلہ دیش لوگوں کی اکثریت بنگالی مسلمان ہے، جب کہ بھارت کے مغربی بنگال اور آسام کا ایک بڑی اقلیتی آبادی بنگالی مسلمان ہیں۔[12] [13]

پہچان کے آغاز[ترمیم]

بنگال میں نسلی اور لسانی روایت کے مطابق رہنے والے اور بنگالی زبان میں بولنے والے لوگ بنگالی ہیں۔ اسلام نے پہلی صدی تک پہنچ کر مقامی بنگالی ثقافت کو متاثر کیا۔ فارسی، ترکی، عرب اور مغل آباد کاروں کی شراکت نے خطے کے ثقافتی تعارف کو متنوع بنا دیا۔ [14]

جدید اصطلاح بنگلہ 14ویں صدی کے وسط سے نمایاں ہے جس کا آگاز بنگالی سلطنت کے قیام سے ہوئی. اس سلطنت کے پہلے حکمران تھے سلطان شمس الدین الیاس شاہ جو شاہ-اِ- بنگلہ کے نام سے مشہور ہوا کرتے تھے.[15] انھیں جدید بنگالی پہچان کا آغازکار کہا جاتا ہے۔[16]

اُس وقت سے ہی بنگالی مسلمانوں کی شروعات ہوئی. حالانکہ بنگال کے قائم ہونے سے بہت پہلے اس خطے میں مسلمان موجود تھے۔ مورخین کے مطابق، بنگالی مسلمانوں کے تعارف کی ابتدا وسطی ایشیائیوں، ترکوں اور عربوں کی قرون وسطیٰ کے بنگال میں ہجرت سے ہے، جنہیں منگولوں نے اپنی آبائی سرِ زمین سے کھدیڑ دیا تھا۔ بنگال میں مسلم آبادی میں زرعی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ مزید اضافہ ہوا، خاص طور پر ہندوستانی دور میں مشرقی بنگال میں۔ مغلوں نے مشرقی بنگال میں وسیع غیر آباد جنگلات کا صفایا کر دیا اور مغل، وسطی ایشیائی، فارسی اور عثمانی امرا، جنگجو، تاجروں اور صوفیا کو زمین کی ملکیت دی، جنھوں نے ان علاقوں کو پیداواری زرعی زمین میں تبدیل کر دیا، جس کی وجہ سے اس علاقے کی معاشی اور اقتصادی ترقی ہوئی۔ آبادیاتی ترقی ہوئی. اِس وقت زیادہ تر بنگالی مسلمان چوتھی بڑی مسلم اکثریت والے بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مغربی بنگال اور آسام میں رہتے ہیں۔[17]

تہذیب[ترمیم]

زبان[ترمیم]

شہید منار 1952 کے احتجاج کا ایک یادگاری منار

بنگالی لوگوں کی مادری زبان بنگلہ زبان ہے۔ جب بنگلہ دیش، پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا، تب بنگالی زبان کو "قومی زبان" کے مطالبے پر ہونے والے احتجاج میں پولیس کی فائرنگ سے بہت سے لوگ مارے گئے اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ اُس دن کو انٹرجاٹک مادری زبان کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔[18]

اور دیکھیں[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Religions in Bangladesh | PEW-GRF"۔ 09 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2022 
  2. Dipanjan Roy Chaudhury۔ "Bengali-speaking Muslims languish in Pakistan"۔ The Economic Times 
  3. "Microsoft Word — Cover_Kapiszewski.doc" (PDF)۔ United Nations۔ 09 مئی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2016 
  4. "Labor Migration in the United Arab Emirates: Challenges and Responses"۔ Migration Information Source۔ 18 September 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2013 
  5. CT0341_2011 Census – Religion by ethnic group by main language – England and Wales ONS.
  6. Jure Snoj (18 December 2013)۔ "Population of Qatar by nationality"۔ Bqdoha.com۔ 22 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2016 
  7. "Oman lifts bar on recruitment of Bangladeshi workers"۔ News.webindia123.com۔ 10 December 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2016 
  8. "The Calcutta Review"۔ 1 January 1941 – Google Books سے  [Mussalman also used in this work.]
  9. A. K. Choudhury (1 January 1984)۔ "The Independence of East Bengal: A Historical Process"۔ A.K. Choudhury – Google Books سے  [Mussalman also used in this work.]
  10. Richard Eaton (8 September 2009)۔ "Forest Clearing and the Growth of Islam in Bengal"۔ $1 میں Barbara D. Metcalf۔ Islam in South Asia in Practice۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 275۔ ISBN 978-1-4008-3138-8 
  11. Meghna Guhathakurta، Willem van Schendel (30 April 2013)۔ The Bangladesh Reader: History, Culture, Politics۔ ISBN 978-0822353188۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2016 
  12. https://books.google.com/books/about/The_Rise_of_Islam_and_the_Bengal_Frontie.html?id=gKhChF3yAOUC
  13. Perween Hasan (2007)۔ Sultans and mosques : the early Muslim architecture of Bangladesh۔ London: I.B. Tauris۔ ISBN 978-1-84511-381-0۔ OCLC 72868799 
  14. BANGLA Pedia۔ "شمس الدین الیاس شاہ"۔ شمس الدین الیاس شاہ۔ Asiatic Society Bangladesh۔ 02 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2022 
  15. Richard Maxwell Eaton (1993)۔ The rise of Islam and the Bengal frontier, 1204-1760۔ Berkeley۔ ISBN 978-0-520-91777-4۔ OCLC 43476319 
  16. Archive Ph (22.02.2020)۔ "International mother's language Day"۔ Current Affairs۔ Same۔ 22 جون 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22.06.2022