بورجن ڈش اورجنشاگاڈری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بورجن ڈش اورجنشاگاڈری
(منگولی میں: ᠳᠠᠰᠢᠳᠣᠷᠵᠢ ᠨᠠᠴᠤᠭᠳᠣᠷᠵᠢ)،(منگولی میں: Дашдоржийн Нацагдорж ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Natsagdorj

معلومات شخصیت
پیدائش 1906-11-17
توو صوبہ
وفات جون 1937
اولان‌ باتور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت منگولیا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان چنگیز خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر، مصنف
مادری زبان منگولیائی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان منگولیائی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بورجن ڈش اورجنشاگاڈری ( Dashdorjiin Natsagdorj) ((منگولی: Боржгин Дашдоржийн Нацагдорж)‏ (17 نومبر 19٠6- جون 1937) منگولیا کے اہم شاعر اور ڈراما نگار :: ان کو جدید منگولین ادب کا بنیاد گزار کہا جاتا ہے۔ نظریاتی طور پر وہ منگولیا کے “کلاسیک سوشلسٹ“ کہلاتے ہیں۔ بورجن منگولیا کے صوبے “ٹوایمنگ“ کی ایک جھیل “لن“ کے کنارے ایک غریب خاندان میں پیدا ھوئے۔ ان کے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ گھر پر ایک استاد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گیارہ (11) سال کئی عمر میں فوج میں بحثیت “ مصنف“ بھرتی ھوئے۔ لینین گراڈ (روس) کی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کی۔ 1929 سے 1929 تک فرانس اور جرمنی میں قیام کیا اور منگولین ادیبوں کی یونین تشکیل دی اور اس کے پہلے صدر منتخب ھوئے۔ 1917 کے روسی انقلاب نے منگکلیں ادب پر گہرے اثرات ثبت کیے۔ برجن کا تعلق 1917 سے شروع ھوکر 1989 تک ھونے والی “ سوشلسٹ حقیقت پسندی“ سے ہے۔ 193٠ میں کمیونسٹ نظریات کے سبب وہ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ 1932 میں گرفتار ھوئے اور اسی سال جیل سے رہا ھوئے۔ اسی سال انھوں نے شادی کی۔ صرف اکتیس (31) سال کے عمر میں انتقال ھوا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیوی بچون نے منگولیا کو خیر باد کہ دیا۔ ان کی نظموں مین حب الوطنی،قرم پرستی، رومانویت، انقلابی اور تعلیمی نوعیتوں کے تصورات نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جس میں منگولیا کے کی خوب صورتی کا رومانس اور جمال کا احساس ملتا ہے۔ ان کی علمی نظموں میں۔ ۔،:ستارا“۔۔ “دیوار پر مصوری“۔۔ ہیں۔ ان کی المیہ عشقیہ کہانی کو “ تین اداس پہاروں “ کے نام سے نظمیہ روپ میں پیش کیا گیا بعد میں اسے ڈرامے کی صورت میں بھی پیش کیا گیا۔ 193٠ میں ان کی ایک کہانی “سیاہ پتھر“ میں روح اور محبت کے فلسفے کو گہرائی سی بیاں کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے اپنی شادی کی ناکامی کا خدشے کا اظہار کیا تھا۔ ان کی دیگر نظمیں ۔۔ “ مادر وطن“۔۔ “شاعری کی تاریخ“،۔۔ کو انقلابی لہجے کی نظمیں قرار دیا جاتا بورجن نے مضامین بھی لکھے ہیں۔ جن کا عنوانات ۔۔۔“خزاں، بہار، چار موسم، پرانے وقتوں کا لڑکا،نیا سال اور سیاہ آنسو“۔۔ ہیں۔

بیرونی روابط[ترمیم]