بھارت میں ناموسی قتل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حالانکہ ناموسی قتل کے معاملے بھارت کے کئی شہری اور دیہی علاقوں میں رونما ہوئے ہیں، تاہم ان واقعات کی کثرت گاؤں کے علاقوں میں زیادہ ہے۔

کھیپ پنچاہت[ترمیم]

کھیپ پنچایتیں بھارت کے خود ساختہ ادارے ہیں۔ یہاں لڑکیوں کی اپنی مرضی سے شادی بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ ہریانہ کے کچھ گاؤں میں لڑکیوں کو دھمکایا جانا، بے عزت کیا جانا یا پنچایتی فیصلے کے تحت قتل ہونا ایک عام بات ہے۔ یہاں خاندان والے ہی کئی بار اپنی لڑکیوں کو کیڑاکُش ادویہ دے کر مار ڈالتے ہیں اور پولیس کو اطلاع دیے بغیر لاشوں کو جلا دیتے ہیں۔ اگر لڑکی کہیں لڑکے کے ساتھ فرار ہوتی ہے، تب پورے خاندان کا مقاطعہ کیا جاتا ہے اور خاندان کو بھاری جرمانہ دینا ہوتا ہے۔ مگر عمومًا لڑکے کے لوگوں کو کوئی اُف تک نہیں کہتا۔

قتل کے معاملوں کو روکنے کی پہل[ترمیم]

(الف) عدالتی پہل

22 جون، 2010ء کو سپریم کورٹ نے ایک غیر سرکاری تنظیم کی مفاد عامہ درخواست پر مرکزی حکومت اور نو ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا کہ قتل کے معاملوں میں کچھ بھی عزت و تعظیم کا پہلو نہیں ہے۔

(ب) قانونی پہل

قومی کمیشن برائے خواتین (National Commission for Women) نے ایک اکائی قائم کی ہے جو جرائم کو دیکھتی ہے اور متاثرین قانونی جارہ جوئی میں مدد کرتی ہے۔

(ج) قانون سازی کی کوشش

بھارت کی حکومت کے زیر غور ایک تجویز ہے تعزیرات ہند کی دفعہ 300 میں ایک ذیلی دفعہ جوڑ دی جائے جو عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملوں پر مرکوز ہو۔ یہ دفعہ قتل کے جرم پر روشنی ڈالتی ہے، جس کی سب سے بڑی سزا موت ہے اور کم ترین سزا جرمانہ ہے۔ یہ بھی زیر غور ہے کہ ان معاملوں میں مدد کے لیے بھارت کے قانون شہادت (Indian Evidence Act) اور خصوصی شادی کے قانون (Special Marriage Act, 1954) میں ترمیم کی جائے تاکہ دو الگ سماجی پس منظر کے لوگ شادی کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کرنے کے بعد انھیں شادی کی قانونی کارروائی کے لیے لازمی 30 دنوں کے انتظار کے مرحلے سے گذرنا نہ پڑے۔ یہ ترمیم اس لیے ضروری سمجھی جا رہی ہے کیونکہ ان شادی بیاہ کے مواقع پر جوڑوں کے بیچ قانونی طور پر رشتہ تسلیم کیے جانے جانے کے لیے عموماً 45 دن لگتے ہیں۔ اس دوران لڑکے اور لڑکی دونوں کی جانوں کو خطرہ ہوسکتاہے۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ”Honor Killing”, Shivam Joshi, Journal of IPEM (Noida), Volume 8, No.2, July-Dec 2014, ISSN 0974-8903 pp 80-85.