بھارت چین سرحدی جھڑپیں، 2020ء
بھارت چین سرحدی جھڑپیں، 2020ء (انگریزی: 2020 China–India skirmishes) 5 مئی 2020ء کو اس وقت شروع ہوئیں جب دونوں فوجیں بھارت چین سرحد پر ایک دوسرے سے دست۔و گریباں ہو گئیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق 15/16 جون 2020ء کی جھڑپوں میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے[14] اور کم از کم 43 چینی فوجی زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک کی جان بھی گئی ہے۔[11][15] متعدد ذرائع سے یہ خبر بھی آئی کہ چین نے 1ہ بھارتی فوجی بشمول 4 افسر کو حراست میں لے لیا ہے جنہیں 18 جون کو رہا کر دیا گیا۔[9] مگر بھارت نے اس طرح کی کسی بھی خبر کی نفی کی ہے اور چین ن بھی حراست میں لینے کی بات کو نکارا ہے۔[16] بھارت نے چین پر 6 جون کے معاہدہ کو توڑنے کر دریائے گلوان میں بھارتی گشتی جوانوں پر حملہ کا الزام لگایا ہے۔ چین نے دونوں جانب سے نقصان کا اعتراف کیا ہے مگر کو ئی اعداد و شمار جاری نہیں کیا ہے۔ البتہ بھارت پر بھارت چین سرحد کو عبور کرنے کا الزام لگایا ہے۔[17][18] جھڑپوں کا یہ واقعہ متنازع سکم کے قریب سرحد اور تبت خود مختار علاقہ اور لداخ کے قریب پینگونگ جھیل]] کے قریب پیش آیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین جاری یہ جھڑب لداخ کے مشرقی علاقہ وہی خطہ ہے جہاں 1962ء چین بھارت جنگ کے نتیجہ میں سرحد تشکیل دی گئی تھی۔ جون کے وسط میں چینی افواج نے دریائے گلوان میں بھارت کی سڑکوں کی تعمیر پر اعتراض جتایا تھا۔[19][20]
اسی تنازع کے دوران میں بھارت نے مزید 12,000 مزدوروں کو تعمیری کام جلد از جلد مکمل کرنے پر لگا دیا ہے۔[21][22] اس سلسلہ کی پہلی ٹرین 1600 مزدوروں کو لے کر14 جون 2020ء کو جھارکھنڈ سے ادھم پور کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ لوگ بھارت چین سرحد پر تعمیری کام میں بارڈر روڈ آرگنائیزیشن کا تعاون کریں گے۔[23][24] ماہرین کا ماننا ہے کہ لداخ میں ڈربوک-شیوک-ڈی بی او سڑک منصوبہ کے خلاف چین احتیاطا جوابی کارروائی میں مبتلا ہے۔[25] چین نے بھی ان متنازع سرحدی علاقوں میں تعمیری کام شروع کر دیا ہے۔[26][27]
پس منظر
[ترمیم]بھارت چین سرحد 20 مقامات پر متنازع ہے،۔ 1980 کی دہائی سے با تک دونوں ممالک کے درماین میں کوئی 20 بار سرحدی تنازعات پر بات چیت ہو چکی ہے۔[28] او آر ایف (آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 2010ء سے 2014ء کے درمیاں میں سرحدی واقعات سے متعلق کوئی 1 یا 2 فیصد ہی خبریں ذرائع ابلاغ تک پہنچیں۔[28][29] 2019ء میں، بھارت نے پیپلز لبریشن آرمی کی ایل اے سی (لائن آف ایکچئل کنٹرول) کی 660 سے زیادہ خلاف ورزیوں اور 108 فضائی خلاف ورزیوں کی اطلاع دی جو 2018ء کے واقعات کی تعداد سے نمایاں طور پر زیادہ تھی۔[30] ایل اے سی کے بھارتی ورژن کی عکاسی کرنے والا کوئی عوامی سطح پر دستیاب نقشہ موجود نہیں ہے اور محض سروے آف انڈیا کے نقشے ہی بھارتی کے لیے سرکاری سرحد کا واحد ثبوت ہیں۔[31] ایل اے سی کا چینی ورژن زیادہ تر لداخ خطے میں دعوؤں پر مشتمل ہے، لیکن چین شمال مشرقی بھارت میں اروناچل پردیش پر بھی دعوی کرتا ہے۔[31] 2013ء میں، بھارتی سفارت کار شیام سرن نے دعوی کیا تھا کہ چینی گشت کے ذریعہ "علاقے سے انکار" کی وجہ سے بھارت 640 کلومیٹر2 (247 مربع میل) کھو چکا ہے،[32] لیکن بعد میں انھوں نے چینی دراندازی سے علاقے کے کسی بھی نقصان کے بارے میں اپنے دعوے واپس لے لیے۔[33] تنازعات، جھڑپوں اور سرحد پر فوج کو حالت جنگ جیسی صروت حال میں کھڑے کرنے کے باوجود، دونوں ممالک کے مابین 50 سال سے زیادہ عرصے سے سرحد پر ایک بھی گولی چلائی نہیں گئی ہے۔[34]
ستمبر 2014ء میں، چینی اعلیٰ ترین رہنما شی جن پنگ[6] کے دورۂ نئی دہلی کے موقع پر وزیر اعظم بھارت نریندر مودی نے سرحد کی حد بندی پر بات چیت سے کسی حل تک پہنچنے پر زور دیا تھا۔ مودی نے یہ بھی دلیل دی کہ سرحدی امور کے حل سے دونوں ممالک کو "ہمارے تعلقات کی صلاحیت کا احساس" کرنے میں مدد ملے گی۔[35] تاہم، 2017ء میں، چین اور بھارت ڈوکلام میں ایک بڑی محاذ آرائی میں آمنے سامنے آئے جو 73 دن تک جاری۔[36][37]
اسباب
[ترمیم]متعدد وجوہات کو ان جھڑپوں کا محرک قرار دیا گیا ہے۔ایم آئی ٹی کے پروفیسر ٹیلر فراویل نے کہنا ہے کہ چین کی جانب سے لداخ میں یہ رد عمل بھارتی انفراسٹرکچر (پل، سڑکیں وغیرہ) خاص طور پر ڈربوک شیوک – ڈی بی او روڈ کی تعمیر کی وجہ سے تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کووڈ-19 وبا کے دوران میں چین کا اپنی قوت کا مظاہرہ ہے، کیوں کہ وبا کی وجہ سے چینی معیشت اور اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔[38] تبتی حکومت کے جلاوطن صدر، یوبسانگ سانگے کا کہنا ہے کہ یہ چین کے اندرونی مسائل کی وجہ سے چین سرحدی معاملات اٹھا رہا ہے اور کووڈ 19 پر چین پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔[39][40]
واقعات
[ترمیم]پینگونگ تساو
[ترمیم]5 مئی کو، پہلا تنازع بھارت اور چین کے درمیان میں مشترکہ جھیل پینگونگ تساو جو تبت، چین اور بھارت کے ساتھ مشترکہ ہے، اس کے کنارے پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان میں تصادم کے طور پر شروع ہوا۔ ایل اے سی جھیل سے بھی گزرتی ہے۔[41][42]ایک ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے سپاہی لائن آف ایکچول کنٹرول کے ساتھ مکہ بازی اور پتھراؤ کرنے میں مصروف ہیں۔[43]
سکم
[ترمیم]بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق، 10 مئی کو، چینی وادی موگوتھنگ میں گھسے اور بھارتی فوجیوں پر چیخنے لگے کہ: یہ تمھاری سرزمین نہیں ہے۔ یہ بھارت کا علاقہ نہیں ہے … تو، بس واپس جاؤ۔ جوابا ایک بھارتی لیفٹینینٹ نے چینی میجر کی ناک پر مکا مار ديا۔[44]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب "Galwan Valley face-off: Indian, Chinese military officials meet to defuse tension"۔ Hindustan Times۔ 18 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2020
- ↑ Anirban Bhaumik (18 جون 2020)۔ "Galwan Valley: Indian, Chinese diplomats to hold video-conference soon"۔ Deccan Herald۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2020
- ↑ "IGP Ladakh reviews security arrangements"۔ Daily Excelsior۔ 9 اپریل 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2020
- ↑ "PLA Death Squads Hunted Down Indian Troops in Galwan in Savage Execution Spree, Say Survivors"۔ News18 India
- ↑ "India, Chinese troops face-off at eastern Ladakh; casualties on both sides"۔ 16 جون 2020۔ 16 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2020
- ^ ا ب Nan Li (26 فروری 2018)۔ "Party Congress Reshuffle Strengthens Xi's Hold on Central Military Commission"۔ The Jamestown Foundation۔ 26 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2020۔
Xi Jinping has introduced major institutional changes to strengthen his control of the PLA in his roles as Party leader and chair of the Central Military Commission (CMC)۔۔۔
- ^ ا ب پ ت "The Chinese generals involved in Ladakh standoff"۔ Rediff.com۔ 13 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2020
- ↑ Michael Safi and Hannah Ellis-Petersen (16 جون 2020)۔ "India says 20 soldiers killed on disputed Himalayan border with China"۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2020
- ^ ا ب
- ↑ "India, China skirmishes in Ladakh, Sikkim; many hurt"، The Tribune، 10 مئی 2020
- ^ ا ب "China suffered 43 casualties during face-off with India in Ladakh: Report"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 16 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2020
- ↑ Vedika Sud، Ben Westcott (11 مئی 2020)۔ "Chinese and Indian soldiers engage in 'aggressive' cross-border skirmish"۔ سی این این۔ 12 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2020
- ↑ Paul D. Shinkman (16 جون 2020)۔ "India, China Face Off in First Deadly Clash in Decades"۔ U.S. News & World Report۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2020
- ↑ "India soldiers killed in clash with Chinese forces"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 16 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2020
- ↑ "Commanding Officer of Chinese Unit among those killed in face-off with Indian troops in Galwan Valley"۔ Asian News International۔ 17 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2020
- ↑ "China denies detaining Indian soldiers after reports say 10 freed"۔ Al Jazeera۔ 19 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2020
- ↑ "India needs to rid two misjudgments on border situation: Global Times editorial"۔ Global Times۔ 17 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2020
- ↑ "Chinese military urges India to return to correct track of dialogue, negotiations"۔ People's Daily۔ 17 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2020
- ↑
- ↑
- ↑ Rahul Singh، Sunetra Choudhury (31 مئی 2020)۔ "Amid Ladakh standoff, 12,000 workers to be moved to complete projects near China border"۔ ہندوستان ٹائمز (بزبان انگریزی)۔ 4 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2020
- ↑ "Amid border tension, India sends out a strong message to China"۔ دکن ہیرالڈ (بزبان انگریزی)۔ 1 جون 2020۔ 4 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2020
- ↑ Rajesh Kumar (14 جون 2020)۔ "CM flags off train with 1,600 workers for border projects | Ranchi News"۔ دی ٹائمز آف انڈیا (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2020
- ↑ "Special Train Carrying Construction Workers For BRO Work in Ladakh Reaches J&K's Udhampur"۔ سی این این نیوز 18۔ PTI۔ 15 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2020
- ↑ "Indian border infrastructure or Chinese assertiveness? Experts dissect what triggered China border moves"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 26 مئی 2020۔ 1 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2020
- ↑
- ↑ Shweta Desai (3 جون 2020)۔ "Beyond Ladakh: Here's how China is scaling up its assets along the India-Tibet frontier"۔ Newslaundry (بزبان انگریزی)۔ 5 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2020
- ^ ا ب Walter Ladwig (21 مئی 2020)۔ "Not the 'Spirit of Wuhan': Skirmishes Between India and China"۔ Royal United Services Institute۔ 28 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2020
- ↑ Mihir Bhonsale (12 فروری 2018)۔ "Understanding Sino-Indian border issues: An analysis of incidents reported in the Indian media"۔ Observer Research Foundation۔ 3 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2020
- ↑ Jeff M. Smith (13 جون 2020)۔ "The Simmering Boundary: A "new normal" at the India–China border? | Part 1"۔ ORF (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2020
- ^ ا ب Sushant Singh (2 جون 2020)۔ "Line of Actual Control: Where it is located, and where India and China differ"۔ دی انڈین ایکسپریس (بزبان انگریزی)۔ 1 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جون 2020
- ↑ P Stobdan (26 مئی 2020)۔ "As China intrudes across LAC, India must be alert to a larger strategic shift"۔ دی انڈین ایکسپریس (بزبان انگریزی)۔ 3 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2020
- ↑ "Shyam Saran: Shyam Saran denies any report on Chinese incursions"۔ دی ٹائمز آف انڈیا (بزبان انگریزی)۔ 6 ستمبر 2013۔ 6 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2020
- ↑ Staurt Lau (6 جولائی 2017)۔ "How a strip of road led to China, India's worst stand-off in years"۔ South China Morning Post (بزبان انگریزی)۔ 16 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2020
- ↑ Lt Gen Vinod Bhatia (2016)۔ China’s Infrastructure In Tibet And Pok – Implications And Options For India آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cenjows.gov.in (Error: unknown archive URL)۔ Centre for Joint Warfare Studies. New Delhi.
- ↑
- ↑
- ↑
- ↑ "China raking border issue to curb internal issues, COVID-19 paranoia: Lobsang Sangay"۔ The Statesman (بزبان انگریزی)۔ 16 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2020
- ↑ "LAC stand-off will go on unless Tibet issue is resolved, says exiled govt"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 17 جون 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2020
- ↑ "India and China face off along disputed Himalayan border"۔ The Nikkei (بزبان انگریزی)۔ 29 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2020
- ↑ Sushant Singh (22 مئی 2020)۔ "India-China conflict in Ladakh: The importance of Pangong Tso lake"۔ دی انڈین ایکسپریس (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2020
- ↑ "'All-out combat' feared as India, China engage in border standoff"۔ Al Jazeera۔ 28 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2020
- ↑ Subir Bhaumik (11 مئی 2020)۔ "Sikkim clash: 'Small' Indian lt who punched a 'big' Chinese major"۔ دی کوینٹ۔ 12 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2020