بھچر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ خاندان دنیا کے بہترین خاندانوں میں سے ایک ہے۔اس کے جد امجد حضرت عباس علمدار ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بیٹے ہیں۔ وہ بے حد حسین و جمیل تھے اسی وجہ سے لوگ ان کو عرب کا چاند کہتے تھے۔ یہ وہی نوجوان ہے جو کربلا کے پیاسوں کے لیے دریائے فرات سے پانی بھرنے گیا۔ حضرت امام حسین نے یزید کے لشکر سے لڑنے سے منع فرمایا۔ لیکن جب حضرت عباس علمدار کربلا کے پیاسوں کے لیے دریائے فرات سے پانی بھرنے کے لیے گئے تو یزید کے لشکر نے ان پر حملہ کر دیا۔ اپنا بچاؤ کرتے ہوئے آپ کا ایک بازو کٹ گیا۔ آپنے پانی سے بھری مشق اپنے دوسرے بازو میں اٹھالی۔ ظالموں نے وہ بازو بھی کاٹ ڈالا۔آپ نے مشق اپنے گلے میں اٹھا لی۔ ظالموں نے تیروں سے مشق کو چھید ڈالا۔ یہ قبیلہ آلات حرب میں ماہر تھا اور بڑا دلیر تھا۔ خدا تعالیٰ نے جسم بھی بڑے عظیم دیے تھے۔گیارھویں صدی عیسوی میں بابا عون قطب شاہ جو بھچر اعوان قبیلہ کا جد امجد ہے وہ محمود غزنوی کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوا۔ ہندوستان کے راجے اور سردار ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔اور محمود غزنوی نے سارا علاقہ فتح کر لیا،،بعد میں محمود غزنوی اپنے اصلی ملک افغانستان لوٹ گیا،مگر اپنے کچھ سپاہیوں اور بابا قطب شاہ کو سون سکیسر کے وسیع علاقے پر حکومت دے کر یہیں چھوڑ گیا،، بابا قطب شاہ جو اعوان اور بھچروں کے بزرگ ہیں وہ یہیں بس گئے۔ اعوان اور بھچر پیچھے جا کر ایک باپ کی اولاد ہیں۔پندرہویں صدی عیسوی میں اس اعوان قبیلے کے ایک سردار جس کا نام اس کے پیر نے" بھچر "رکھا تھا اس کے اپنے نام پر ایک قبیلہ معرض وجود میں آیا،، جو گجرات سے چلا اور مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا بگی بکھی نام کے ایک گاؤں جو ضلع سرگودھا میں ہے وہاں آیا اور یہی رہائش پزیر ہوئے۔ وہاں پہلے سے کمبوہ قبیلہ آباد تھا۔جن سے پانی اور چراگاہ کے معاملات پر ان کے اختلافات بڑھ گئے۔ نوبت قتل و غارت پر آپہنچی۔ اور ایک لڑائی میں بھچروں نے کمبوہ قبیلے کے آٹھ افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں دریاے جہلم میں بہا دیں،اس دشمنی کیوجہ سے اب بھچروں کا یہاں رہنا دشوار ہو چکا تھا۔تو وہ اپنے سردار ملک بندہ خان بھچر کی قیادت میں وہان سے نقل مکانی کر کے واں کیلا ضلع خوشاب میں آباد ہو گئے،،جہاں شیر شاہ سوری کا بنایا ہوا پانی کا ایک بڑا کنواں موجود تھا،،یہی سردار ملک بندہ خان بھچر

"بندیال خاندان "کا جد امجد بھی ہے،،واں کیلا میں آبادی کی بعد کچھ خاندان اور اگے مغرب کی جانب چلتے چلتے کندیاں میں دریاے سندھ کے کنارے پر آ کر آباد ہو گئے۔ یہاں کا سردار سنبل پٹھان تھا۔یہاں بسنے والے بھچروں کے بچے جب جوان ہو چکے ۔ تو اب مقامی قبائل سے ان سے لڑائی جھگڑے ہونے لگے،،تو بھچروں کو سمجھ میں آگئی کہ اب سنبلوں سے بھی لڑائی ناگزیر ہے۔ یہاں بھی دونوں خاندانوں کے درمیان شدید قسم کی لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف سے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ بالآخر سنبل قبیلے کو شکست ہوئی اور وہ بھچر قبیلے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ مگر تعداد میں کم ہونے کیوجہ سے بھچروں نے مزید اس علاقے میں رہنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے بعد وہاں سے بھچروں نے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کی جن میں واں بھچراں کا نیا فتح شدہ علاقہ بھی شامل تھا۔واں بھچراں میں شیر شاہ سوری کے دور میں تعمیر ہونے والے کنواں کے قریب پہلے ہی بہت سے بھچر خاندان کے افراد رہائش پزیر تھے اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر بھچروں نے ڈیرہ ڈالا جن میں ضلع سرگودھا کا چک نمبر 67 بھچرنوالہ، موضع بندیال،موضع گنجیال، شمار،،موضع تلوکر ضلع خوشاب،ہڈالی ،39 چک پیرووال ضلع خانیوال ،علووالی اور جال ،دوآبہ تحصیل پپلاں شامل ہیں۔ بھچر خاندان کی کچھ شاخیں جو واں بھچراں پر آباد ہیں جن میں وڈوخیل،محمد خیل پہلوان خیل، طاہر خیل، بیگوخیل، آخوند خیال،میاں آحمد خیل،،اروڑی خیل،کوڑے خیل،بشارت خیل،،میاں شیر خیل بندیال بھچر،،بیگو خیل بھچر بندیال،،مبارزخیل،،شاہو خیل اور جانے خیل وغیرہ شامل ہیں۔ وڈوخیل برادری کے کچھ افراد کوٹ جائی اور رحمانی خیل ڈیرہ اسماعیل خان،جال ،اور سوریاں ضلع چکوال میں آباد ہیں۔ وڈوخیل اور واں بھچراں کی "ملک" فیملی کے زیادہ تر افراد پڑھے لکھے ہیں اور مختلف اعلی محکموں میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں،واں بھچراں کی ملک فیملی سیاسی طور ضلع میانوالی اپنا ایک مقام رکھتی ہے،،اس خاندان کے سردار کو انگریز سرکار نے خان بہادر کا لقب عطا کیا،،خان بہادر ملک مظفر خان اپنے خاندان بندیال اور قبیلے بھچر کے آخری سردار تھے،،جن کا اپنے دور میں بہت عروج تھا،،وہ بیک وقت بہت سے عہدوں پر رہنے والی میانوالی کی واحد شخصیت ہیں،،خان بہادر ملک مظفر خان تین بار لگاتار MLA بھی منتخب ہوئے،،اس وقت ضلع میانوالی اور ضلع بھکر ایک ہی حلقہ انتخاب تھا،،