ام کيو-1 پریڈیٹر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ام کيو-1 پریڈیٹر
 

نوع ڈرون (بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑی)  ویکی ڈیٹا پر (P279) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری نام Q-1 (اطالیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا)  ویکی ڈیٹا پر (P798) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کل پیداوار
معلومات
آغاز خدمات 1995  ویکی ڈیٹا پر (P729) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام خدمات 9 مارچ 2018  ویکی ڈیٹا پر (P730) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پہلی پرواز 3 جولا‎ئی 1994  ویکی ڈیٹا پر (P606) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صارفین
لمبائی
بلندی

ام کيو-1 پریڈیٹر یا ڈرون (انگریزی زبان میں:MQ-1 Predator) یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب نر ہو گا۔ وجہ یہ کہ اس جہاز کی شکل آلہ تناسل سے ملتی ہے۔

ایک ڈرون سسٹم میں چار جہاز شامل ہوتے ہیں[ترمیم]

  • اصل میں میل مخفف ہے ’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘ کا۔ ابتدا میں بغیر پائلٹ کے جہاز یا ’پریڈیٹر‘ کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیے گئے۔
  • سن انیس سو پچانوے سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیے جا چکے ہیں۔
  • ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔

پینٹاگن اور سی آئی اے انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔ انیس سو نوے میں سی آئی کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہو گیا۔ ڈرون انیس سو نوے کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور انیس سو پچانے میں پہلی مرتبہ اسے بالکان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

افغانستان[ترمیم]

افغانستان پر فوجی چڑھائی سے قبل امریکی فضائیہ ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر چکی تھی اور ان میں بیس مختلف کارروائیوں میں ضائع ہو گئے تھے۔ ضائع ہونے والے زیادہ تر موسمی خرابیوں کی وجہ سے تباہ ہوئے۔ انتہائی کم درجہ حرارت کی وجہ سے پیدا ہونے والی فنی خرابیوں کے باعت بعد میں ان طیاروں کو برف پگھلانے والے آلات اور ٹربو چارج انجنوں سے لیس کر دیا گیا۔ ڈرون کی کم از کم دو پروازوں میں قندہار کے قریب ترناک کے فارمز پر سفید لباس میں ملبوس ایک طویل قامت شخص جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن تھے دیکھا گیا۔ سن دو ہزار ایک میں افغانستان میں پریڈیٹر جہاز کے جاسوسی مشن کے نتائج دیکھنے کے بعد سی آئی کے انسداد دہشت گردی کے مرکز کے سربراہ کوفر بلیک نے اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون جہازوں پر میزائل نصب کرنے کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔ بائیس مئی اور سات جون سن دو ہزار ایک میں ڈرون سے میزائل داغنے کے مزید تجربات کیے گئے اور جون کے پہلے ہفتے میں امریکا کے نیواڈا صحرا میں افغانستان کے صوبے قندہار کے علاقے ترناک میں اسامہ بن لادن کے گھر کی طرح کا ایک گھر بنایا گیا اور اس پر ڈرون سے میزائل داغا گیا۔ یہ میزائل اس گھر کے کمرے میں پھٹا اور یہ فرض کیا گیا کہ اس کمرے میں موجود بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔ تاہم ستمبر دو ہزار ایک میں امریکا پر ہونے والے حملوں سے پہلے ڈرون کو میزائل داغنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ سی آئی اے اور پینٹاگن نے سن دو ہزار میں مشترکہ طور پر افغانستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کا پلان بنایا۔ اس پلان کو ’افغان آئیز‘ کا نام دیا گیا اور ڈرون طیاروں کا ساٹھ دن کی تجرباتی پروازیں شروع کی گئیں۔ اس سلسلے کی پہلی تجرباتی پرواز سات ستمبر دو ہزار کو کی گئی۔ وائٹ ہاؤس کے سیکیورٹی چیف رچرڈ اے کلارک ان تجرباتی پروازوں کے نتائج سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مستقبل میں اسامہ بن لادن کو ڈرون سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ رچرڈ کلارک، سی آئی اے کے کاونٹر ٹریورزم کے سینٹر کے چیف کوفر بلیک اور سئی آئی اے کے خفیہ معلومات اکھٹی کرنے والے آپریشن کے انچارج چارلس ایلن امریکی انتظامیہ کے وہ تین اعلی اہلکار تھے جنھوں نے فوری طور پر ڈرون کی تجرباتی پروازوں کی حمایت کی۔ ڈرون کی افغانستان کے اوپر پندرہ میں سے دس پروازوں کو کامیاب قرار دیا گیا۔ ڈرون کی کم از کم دو پروازوں میں قندہار کے قریب ترناک کے فارمز پر سفید لباس میں ملبوس ایک طویل قامت شخص جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن تھے دیکھا گیا۔ اُس سال اکتوبر کے مہینے میں موسم سرد ہو جانے کے ساتھ ازبکستان سے ڈرون کی پروازیں کرنا ممکن نہیں رہا۔ چار ستمبر دو ہزار ایک کو بش انتظامیہ کی طرف سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی کی منظوری دینے کے بعد سی آئی اے کے چیف جان ٹینٹ نے ڈرون کی پروازوں کی اجازت دی۔ اس وقت تک ڈرون سے میزائل داغنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی تھی لیکن ازبکستان کی حکومت کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے ڈرون پر میزائل نصب نہیں کیے گئے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا نے فوری طور پر ڈرون کے لیے ہیل فائر میزائل روانہ کر دیے اور سولہ ستمبر تک یہ ازبکستان میں امریکی اڈوں پر پہنچ گئے تھے۔ اٹھارہ ستمبر دو ہزار ایک کو کابل اور قندہار کے اوپر پہلی مرتبہ ڈرون جہازوں نے پروازیں کیں لیکن اس وقت ان پر میزائل نصب نہیں تھے۔

ڈرون کے بارے میں حقائق[ترمیم]

  • بنیادی کام: جاسوسی اور اہداف کو نشانہ بنانا
  • بنانے والے: جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم انکارپویٹڈ
  • انجن: روٹیکس 914 ایف چار سلنڈر
  • قوت: ایک سو پندرہ ہارس پاؤر
  • پروں کا پھیلاؤ: اڑتالیس اعشاریہ سات فٹ
  • لمبائی: ستائس فٹ
  • اونچائی چھ اعشاریہ نو فٹ
  • وزن: ایک ہزار ایک سو تین پاؤنڈ
  • اڑان کا وزن: دو ہزار دو سو پچاس پاؤنڈ
  • ایندھن کی گنجائش: چھ سو پینسٹھ پاؤنڈ
  • رفتار: چوراسی میل فی گھنٹہ سے ایک سو پینتیس میل فی گھنٹہ
  • مار: چار سو پینتالیس میل
  • پرواز کی بلندی: پچیس ہزار فٹ
  • ہتھیار: دو لیزر گائڈڈ میزائل

مسلمان شکن[ترمیم]

امریکا کا 2012ء تک جنگی ڈرون کا استعمال مسلمانوں کے خلاف مخصوص ہے۔[1]

بیرونی روابط[ترمیم]

  1. "اکبر احمدDeadly drones come to the Muslims of the Philippines"۔ الجزیرہ انگریزی۔ 5 مارچ 2012ء۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ