بیت الرضا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بیت الرضا، حاکم علی شاہ ابوالرضا کے مزار دربار شریف بیت الرضا کا ایک نظارہ، 2007 میں سالانہ عرس پر لی گئی تصویر لاہور، پاکستان

بیت الرضا لاہور میں واقع ایک مشہور خانقاہ ہے جس کی بنیاد سید حاکم علی شاہ المعروف ابوالرضا نے 1920ء سے 1925ء کے درمیانی عرصے میں رکھی۔ اس کے بارے میں مزید معلومات[1] لاہور اسلام آباد، موٹروے، نیازی انٹر چینج سے لاہور میں داخل ہوں تو تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر چوک یتیم خانہ ملتان روڈ سے ایک سڑک پکی ٹھٹھی کی طرف جاتی ہے۔ اس سڑک پر جاتے ہوئے انجمن حمایت اسلام کی قدیم عمارت کے بالمقابل دیگر عمارات میں چھپا ہوا ایک انتہائی خوبصورت سبز گنبد اور فن تعمیر کا شاہکار اچانک دکھائی دیتا ہے۔ ایک تو عمارت کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے اور دوسرے وہ کچھ اس انداز سے نئے آنے والوں کے سامنے آتی ہے کہ انسان مسحور ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ یہ ہشت پہلو عمارت جو مغلیہ اور وسطی فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے دربار بیت الرضا ہے۔ ولیء کامل قطب الاقطاب حضرت سید حاکم علی شاہ ابوالرضا کا مزار مباک۔ اعلیٰ حضرت شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری جن کا مزار شریف شرقپور ضلع شیخوپورہ میں مرجع خلائق ہے، ان کے چار خلفاء میں سے پہلا نام جناب حضرت سید حاکم علی شاہ ابوالرضا کا ہے جن کو آپ نے سب سے پہلے خلافت عطا فرمائی آپ کے بعد خلافت پانے والے باقی تینوں اولیاء کرام بھی نابغہ ء روزگار ہیں جن میں حضرت پیر سید اسمعیل شاہ بخاری المعروف پیر کرمانوالہ سرکار جن کا مزار شریف کرمانوالہ شریف نزد ضلع اوکاڑہ مرجع خلائق ہے دوسرے حضرت میاں رحمت علی شاہ صاحب کنگھ شریف جن کا مزار مبارک لاہور سے رائے ونڈ جاتے ہوئے ایک چھوٹے سے گاؤں کنگھ شریف میں واقع ہے۔ حضرت شیر ربانی کے چوتھے خلیفہ سرکار کیلیانوالے کے نام سے مشہور ہیں اور ان کا مزار شریف ۔۔۔۔ میں ہے۔

دربار بیت الرضا ایک نسبتاً چھوٹی سی جگہ پر ہونے کے باوجود اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ مزار کی بناوٹ، تناسب، رنگوں کی میچنگ اور مجموعی تاثر جو زائر پر پڑتا ہے ان سب کی بنا پر اگر اسے مزارات اولیاء کا تاج محل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ بیت الرضا نام کی وجہ تسمیہ ایک روایت میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ سرکار حاکم علی شاہ جب اپنی منازل کی تکمیل کے مرحلے میں تھے تو آپ کو حق کی طرف سے دو تحفے عطا کیے گئے ایک یہ جگہ جو اس وقت کے ایک پسماندہ گاؤں پکی ٹھٹھی کے جوار میں واقع تھی اور اس جگہ کا نام بھی بیت الرضا آپ کو حق کی طرف سے عطا ہوا۔ دوسرا آپ کو ابوالرضا کا لقب عطا ہوا اور یہ لقب اس قدر مشہور ہوا کہ لوگوں کو اصل نام تو یاد نہ رہا لیکن ہر کوئی آپ کو ابوالرضا اور بیت الرضا کے نام سے جانتا ہے۔

جنوری 1940 ء میں آپ کا وصال ہوا تو آپ کے ایک صاحبزادے بقید حیات تھے جن کو آپ آغاز سلوک میں اپنی دیگر خاندان کے ہمراہ گاؤں میں ہی چھوڑ آئے تھے جو آپ کے وصال سے چند سال پہلے بیت الرضا میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم اگر ایک یتیم بن کر میرے پاس رہو تو اجازت ہے ورنہ میرا اور تمھارا رشتہ اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب میں نے تمھارا جنازہ پڑھ دیا تھا

آپ کے صاحبزادے جناب سید محمد صدیق شاہ صاحب نے اس شرط کو قبول کیا اور ایک مرید بن کر بیت الرضا میں قیام کیا۔ بیت الرضا کی ابتدا 1930 کے لگ بھگ رویات سے معلوم ہوتی ہے جب حضرت ابوالرضا سرکار نے اپنی منازل کی تکمیل کے بعد اور حق سے بیت الرضا کی بشارت کے بعد اس جگہ کو اپنا مسکن بنایا۔

1940 میں آپ کے وصال کے بعد صاحبزادہ سید محمد صدیق شاہ صاحب نے بیت الرضا کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری اپنے سر لی اور انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں جبکہ پاکستان بننے والا تھا اور آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا، مزار کی تعمیر کا آغاز کیا۔ مزار کی تعمیر کے سلسلے میں بھی حضرت صاحب نے رہنمائی فرمائی اور اپنے مرید کو نام معلوم نہیں کس کو لیکن ایک مزار دکھایا کہ میرا مزار اس نقشے پر بناؤ اور وہ مزار جالندھر میں بہت قدیم مغلیہ طرز تعمیر کا شاہکار تھا۔ صاحبزادہ سید محمد صدیق شاہ صاحب نے اپنے معتمد دوستوں کو جالندھر روانہ کیا اور نقشہ منگوا کر اس کی تعمیر شروع کرائی

اصل مزار جو جالندھر میں ہے وہ کافی کشادہ بیان کیا جاتا ہے لیکن یہاں جگہ کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی نقشے کو تناسب میں کم کر لیا گیا۔ مزار کی تعمیر قیام پاکستان کے کئی سال بعد تک جاری رہی۔ صاحبزادہ صاحب اسلامیہ ہائیاسکول میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور یہ انہی کی ہمت لگن جذبہ اور اس جگہ سے عشق تھا کہ انھوں نے دن رات ایک کر کے سالہا سال کی انتھک محنت سے ایک تاج محل کھڑا کر دیا جو آج کے دور میں ایک ناممکن امر معلوم ہوتا ہے۔

صاحبزادہ سید محمد صدیق شاہ صاحب نے مسلسل 34 سال دربار بیت الرضا کی تعمیر و تزئین میں صرف کر دیے اور 1974 میں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا تو یہ ذمہ داری ان کے سب سے بڑے صاحبزادے اور دربار شریف کے موجودہ منتظم اعلیٰ سید محمد یوسف الرضا شاہ صاحب نے سنبھالی اور انتہائی احسن انداز میں دربار شریف کو مزید خوبصورت بنانے کی سعی جاری رکھی

آپ نے دربار شریف سے ملحقہ مسجد کو از سر نو توسیع کے ساتھ تعمیر کرایا اور درس تصوف کا ہفتہ وار ایسا سلسلہ شروع کیا کہ آج دورونزدیک سے سینکڑوں متلاشیان حق اپنی روحانی منازل کی تکمیل کے لیے ہر جمعے دربار شریف میں صاحبزادہ صاحب کے درس میں جمع ہوتے ہیں اور سیراب ہو کر جاتے ہیں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "HugeDomains.com - Shop for over 350,000 Premium Domains"۔ 12 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2021