بیگلار نامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بیگلار نامہ سندھ کی تاریخ میں اہم ترین وقائع پر مبنی کتاب ہے۔ بیگلار نامہ میں 1626ء تک سندھ کی تاریخ کے واقعات موجود ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

مصنف بیگلار نامہ[ترمیم]

یہ تاریخ شاہ قاسم بن امیر سید قاسم بیگلار کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ سے بیگلار نامہ کہلاتی ہے۔ بیگلار اِس کے ممدوح کا خاندانی نام تھا۔ اِس سے مراد ترکی کا بیگلار بیگ نہیں جو حاکم یا صوبہ یا نائب السلطنت ہوتا تھا۔ خاندانِ بیگلار کا اصل وطن ترمذ تھا۔ بعد ازاں اِس خاندان کے افراد سمرقند میں مقیم ہو گئے اور آخر کار سندھ ہجرت کر آئے۔ بیگلار خاندان کے کسی فرد کا تعلق کسی زمانہ میں ترکوں سے بھی رہا تھا جس کے باعث انھیں ارغون بھی کہا جاتا تھا۔ شاہ قاسم کے والد، شاہ حسین ارغون کے زمانے میں سندھ آئے تھے۔ شاہ حسین ارغون نے عمر کوٹ کے بھٹی راجپوت خاندان میں شادی کی اور یہیں شاہ قاسم پیدا ہوئے ۔ شاہ قاسم شاہ حسین ارغون سے لے کر میرزا جانی بیگ کے دورِ حکومت تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔سندھ پر جب مغلوں کی حکمرانی قائم ہوئی تو شاہ حسین ارغون میرزا جانی بیگ کے ہمراہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبرکے دربارِ شاہی میں حاضر ہوئے۔بعد ازاں شاہ حسین ارغون حاکم سندھ میرزا غازی بیگ ترخان کے ہمراہ سندھ میں متعین ہوئے اور عمر دراز تک اپنے خاندان کے ساتھ مقیم رہے۔ [1] حاکم سندھ میرزا غازی بیگ ترخان کا دربار علمی شخصیات و شعرا سے مزین تھا جبکہ شاہ قاسم بھی اِس دربار میں بطور مؤرخ منسلک رہے۔ [2]

مواد[ترمیم]

بیگلار نامہ میں مصنف نے 1035ھ مطابق 1626ء تک کے واقعات تحریر کیے ہیں۔قیاس کیا جاتا ہے کہ بیگلار نامہ کا سالِ تکمیل 1035ھ مطابق 1626ء ہی ہے۔ ایلیٹ کو جو نسخہ بیگلار نامہ کا فراہم ہوا تھا، وہ محض 275 صفحات پر مشتمل تھا۔ ہر صفحہ پر 17 سطریں موجود تھیں اور تقطیع 9 ضرب 17 تھی۔ [3]

مشمولاتِ کتاب[ترمیم]

بیگلار نامہ کے مشمولات یہ ہیں:

  • سندھ کی اِبتدائی تاریخ کا ملخص حملہ عرب تک، یہ 22 صفحات پر مشتمل تھا۔
  • خاندان ارغون کا مختصر ذکر، میر قاسم بیگ کے حالاتِ زندگی تک۔ یہ18 صفحات پر مشتمل تھا۔
  • خاندان ترخان کے افراد کے باہمی تنازعات و باہمی جنگ کا تذکرہ جس میں شاہ قاسم خود بھی شامل تھے۔
  • کتاب ہذا میں سندھ کے بعض علاقوں کا بالتفصیل ذکر موجود ہے جس سے وہاں کے گاؤں اور ندی نالوں کے علاوہ قبیلوں اور اُن کے رسوم و رواج اور اُس زمانے کے علاقائی تمدن پر تفصیلی جائزہ ملتا ہے۔ [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ، صفحہ521۔ مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 2016ء
  2. سید حسام الدین راشدی، مرزا غازی بیگ ترخان اور اُس کی بزم ادب، انجمن ترقی اردو پاکستان، 1970ء، ص 177-179
  3. ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ، صفحہ521۔ مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 2016ء
  4. ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ، صفحہ521۔ مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 2016ء

مزید دیکھیے[ترمیم]