بیگم اختر
بیگم اختر | |
---|---|
ذاتی معلومات | |
مقامی نام | بیگم اختر |
پیدائشی نام | اختر بائی فیض آبادی |
پیدائش | 7 اکتوبر 1914ء |
تعلق | فیض آباد، موجودہ اتر پردیش، بھارت |
وفات | 30 اکتوبر 1974ء[1](عمر: 60 سال) |
اصناف | غزل، ٹھمری، دادرا |
پیشے | گلوکارہ |
سالہائے فعالیت | 1929–1974 |
اختری بائی فیض آبادی (ولادت: 07 اکتوبر 1914ء - وفات: 30 اکتوبر 1974ء) جو بیگم اختر کے نام سے مشہور ہیں، ایک مشہور ایک ہندوستانی گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ بیگم اختر کی آواز میں ایسی شعلگی جاگزین تھی جو سامع کے دل کو پگھلا کراس میں سوز بھر دیتی ہے۔ بیگم اختر نے چارد ہائیوں تک سر اور ساز و آواز کی خدمت انجام دی اور اس کے صلے میں انھیں کروڑوں قدر دانوں کا پیار ملا۔ ان کو مالکہ غزل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[2][3][4]
بیگم اختر کو 1972ء میں موسیقی کے لیے سنگت نٹک اکیڈمی ایوارڈ ملا ، انھیں بھارت کا چوتھا بڑا شہری اعزاز پدم شری سے نوازا گیا اور بعد میں ہندوستان کی حکومت نے بعد میں بھارت کا تیسرا بڑا شہری اعزاز پدم بھوشن ایوارڈ دیا۔[5]
ابتدائی زندگی
[ترمیم]اختری بائی فیض آبادی[6] کی پیدائش 7 اکتوبر 1914ء کو اودھ کے تہذیبی قصبہ فیض آباد کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی تھی۔[7] اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ننھی بچی اختری بائی آسمانِ گلو کاری پر چاند بن کر چمکے گی اور نصف صدی تک سامعین کے ذہن و دل پر ملکہٴ غزل بن کرحکمرانی کرے گی۔ یگم اختر کو قدرت نے بے حد سریلی آواز عطا کی تھی اور ان کو گانے کا بے حد شوق تھا۔ اسی لیے ان کے چچا نے انھیں سارنگی کے مشہور استاد امداد علی خاں کے پاس پٹنہ بھیجا، جہاں انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں پٹیالہ گھرانے کے عطا محمد خاں نے ان کی تربیت کی۔[8]
پہلا عوامی پروگرام
[ترمیم]بیگم اختر نے اپنا پہلا عوامی پروگرام صرف 15سال کی عمر میں بہا ر کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے کلکتہ میں کیا تھا۔ ان کی فنی مہارت دیکھ کر بلبلِ ہند سروجنی نائڈو نے کہا تھا کہ آپ کے گلے کی تربیت تو قدرت نے خود کی ہے، اس میں جو سوز و ساز ہے وہ بالکل فطری ہے اور انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔
غزل گائیکی
[ترمیم]یوں تو بیگم اختر نے کلاسیکی موسیقی کی بھی تعلیم حاصل کی اور ان کو ٹھمری اور دادرا گانے میں کمال حاصل تھا مگر ان کی اصل شناخت غزل گائیکی کے سبب ہے۔ غزل کے اشعار کی ادائیگی میں انھیں جو کمال حاصل تھا، وہ اب تک کسی گلو کار کو حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اسی لیے کیفی اعظمی کہتے تھے ”میرے نزدیک غزل کے دو معنی ہیں۔ ایک تو لغوی یعنی معشوق سے باتیں کرنا اور دوسرے بیگم اختر۔“
بہزاد لکھنوی کی غزلیں
[ترمیم]یوں تو انھوں نے بہت سے شعراکی غزلیں گائی ہیں لیکن بہزاد لکھنوی کی 100سے بھی زائد غزلوں کو انھوں نے اپنی آواز دے کر ان میں نئے مفاہیم پیدا کر دیے۔ ان کی ریشمی آواز میں بہزاد کی غزلوں کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے:
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانا بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے
اے دیکھنے والوں مجھے ہنس ہنس کر نہ دیکھو
تم کو کہیں تقدیر بھی مجھ سا نہ بنا دے
شادی
[ترمیم]بیگم اختر کا فن عروج پر تھا تب انھوں نے لکھنئو کے ایک نامور فرزند بیر سٹر اشتیاق احمد عباسی سے 1945ء میں شادی کر لی۔ چونکہ عباسی صاحب کا خاندان پرانے خیالات کا تھا۔ اس لیے ان کے گانے بجانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح وہ پانچ برسوں تک ساز و آواز کی دنیا سے قطعی الگ رہیں۔ لیکن لحن،ساز اور موسیقی بیگم اختر کی شریانوں میں رچ بس گئے تھے۔ اس لیے ان سے الگ رہ پانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔
گائیکی میں واپسی
[ترمیم]لیکن ایک روز وہ شدید طور پر بیمار ہو گئیں، یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بھی مایوسی کا اظہار کر دیا۔ تب انھیں لکھنئو ریڈیو اسٹیشن پر ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور وہ دادرا پیش کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ لیکن اس کے بعد ہی وہ صحت یاب ہو تی گئیں اور انھوں نے اپنا گانا بجانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
فلمی گائیکی
[ترمیم]ان کے سوز کو محسوس کر کے فلم ساز بھی ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کی آواز سے استفادہ کرنے کے علاوہ انھیں فلموں میں کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ بیگم اختر نے ایک دن کا بادشاہ ( 1930ء)، ممتاز بیگم (1934)، امینہ ( 1934ء )، روپ کماری ( 1934ء ) جوانی کا نشہ ( 1935)، نصیب کا چکر (1936ء)، نلدمینتی (1937ء)، انار بالا ( 1940ء ) روٹی ( 1942ء ) اور جل ساگر (1958ء ) میں کام کیا۔ اس زمانے میں اداکارخود ہی اپنے گانے گایا کرتے تھے اور پس پردہ گلو کاری کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے ان فلموں میں اپنے گانے بھی بیگم اختر نے خود ہی گائے تھے۔
فلموں سے کنارہ کشی
[ترمیم]تاہم فلموں کا ماحول بیگم اختر کے مزاج کے مطابق نہیں تھا اس لیے 1958ء کے بعد انھوں نے فلم لائن کو خیرباد کہہ دیا لیکن گلو کاری کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف کمپنیاں ان کے گانوں کی صدا بندی کرتی رہیں۔ بیگم اختر نے میر تقی میر سے لے کر غالب، سودا، مومن کے علاوہ ہم عصر شعرا کی غزلوں کو اپنی آواز دے کر ان کے نئے معنی پیدا کر دیے۔ فیض احمد فیض اور شکیل بدایونی کی انھوں نے متعدد غزلیں گائی ہیں۔ مثلاً فیض کی
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عزا ب آئے یا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
اور شکیل بدایونی کی
کچھ تو دنیاکی عنایات نے دل توڑ دیا
اور اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
انتقال
[ترمیم]بیگم اختر نے اپنا آخری پرو گرام 30 اکتوبر 1974ء کو احمد آباد میں پیش کیا تھا وہیں ان کا دل کا شدید دورہ پڑا اور یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔[3] انھوں نے جو آخری غزل گائی وہ کیفی اعظمی کی تھی :
سنا کرو مری جاں ان سے ان کے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے
ایوارڈ اور پہچان
[ترمیم]- 1968: پدم شری، بھارت کا چوتھا بڑا شہری اعزاز[9][10][11]
- 1972 : سنگت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ[12][11]
- 1975 : پدم بھوشن، بھارت کا تیسرا بڑا شہری اعزاز[13][10][11][3]
کتابیات
[ترمیم]- In Memory of Begum Akhtar, by Shahid Ali Agha. US Inter Culture Associates, 1979.[14]
- Great Masters of Hindustani Music, by Susheela Misra. Published by Hem Publishers, 1981. Chapter 26.
- Begum Akhtar: The Queen of Ghazal, by Sutapa Mukherjee. Rupa & Co, 2005, آئی ایس بی این 81-7167-985-4.
- Begum Akhtar: The Story of My Ammi, by Shanti Hiranand. Published by Viva Books, 2005, آئی ایس بی این 81-309-0172-2.
- Ae Mohabbat… Reminiscing Begum Akhtar, by Jyoti Sabharwal & Rita Ganguly, 2008, آئی ایس بی این 978-81-904559-3-0.
- Begum Akhtar: Love's Own Voice, by S. Kalidas. 2009, آئی ایس بی این 978-8174365958.
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ In Memory of Begum Akhtar The Half-inch Himalayas, by Shahid Ali Agha, Agha Shahid Ali, Published by Wesleyan University Press, 1987. ISBN 0-8195-1132-3.
- ↑ "Begum Akhtar's 103rd Birthday (her profile)"۔ Profile on Google Doodle website۔ 7 October 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ^ ا ب پ Begum Akhtar (1914–1974) – Begum Akhtar Profile NRCW, Government of India website, Published 19 March 2006, Retrieved 1 October 2020
- ↑ "Uttar Pradesh Government approved new guidelines for Begum Akhtar Award"۔ Jagranjosh.com۔ 12 August 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ "Begum Akhtar birth anniversary: The queen of ghazal who enthralled millions with her silken voice, see playlist"۔ Hindustan Times (newspaper)۔ 7 October 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر اختری فیض آبادی
- ↑ "Uttar Pradesh Government approved new guidelines for Begum Akhtar Award"۔ Jagranjosh.com۔ 12 August 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ Begum Akhtar (1914–1974) – Begum Akhtar Profile NRCW, Government of India website, Published 19 March 2006, Retrieved 1 October 2020
- ↑ "Padma Awards Directory (1954–2013)" (PDF)۔ وزارت داخلی امور، حکومت ہند۔ 15 اکتوبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ^ ا ب "Begum Akhtar birth anniversary: The queen of ghazal who enthralled millions with her silken voice, see playlist"۔ Hindustan Times (newspaper)۔ 7 October 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ^ ا ب پ "Uttar Pradesh Government approved new guidelines for Begum Akhtar Award"۔ Jagranjosh.com۔ 12 August 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ "SNA: List of Akademi Awardees"۔ سنگیت ناٹک اکادمی website۔ 31 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ "Padma Awards Directory (1954–2013)" (PDF)۔ وزارت داخلی امور، حکومت ہند۔ 15 اکتوبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- ↑ "In Memory of Begum Akhtar"۔ www.goodreads.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2020
- بیسویں صدی کی بھارتی گلوکارائیں
- ہندوستانی گلوکار
- بھارتی فلمی گلوکارائیں
- بھارتی غزل گائیک
- 1914ء کی پیدائشیں
- 1974ء کی وفیات
- بیسویں صدی کی بھارتی اداکارائیں
- بیسویں صدی کے ہندوستانی گلوکار
- بھارتی فلمی اداکارائیں
- بھارتی گلوکارائیں
- بھارتی مسلم شخصیات
- پدم بھوشن وصول کنندگان
- پدم شری وصول کنندگان
- سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ وصول کردہ شخصیات
- ضلع فیض آباد کی شخصیات
- علوم و فنون میں پدما بھوشن اعزاز وصول کردہ شخصیات
- فنون میں پدم شری وصول کنندگان
- لکھنوی شخصیات
- ٹھمری
- ہندوستانی خواتین موسیقار
- ہندی سنیما کی اداکارائیں
- لکھنؤ کے گلوکار
- بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان