تادم تحریر
تا دم ِتحریر صدیق سالکصا حب کی لکھی ہو ئی ایک کتاب کا نام ہے-یہ ایک ہلکی پھلکی طنز و مزاح کی کتاب ہے جس کے با رے میں مصنف کا کہنا ہے:“حا لیہ مردم شما ری سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں فی مربع میل آبادی بڑھ گئی ہے لیکن بعض خفیہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ فی گھرا نہ مسکرا ہٹیں کم ہو گئی ہیں لہذا اس قومی ضرورت کے پیش نظر یہ کتاب لکھی گئی ہے‘اللہ کرے اس کی اشا عت سے یہ ضرورت کسی حد تک پوری ہو سکے- یہ مسکرا ہٹیں خالص مسکرا ہٹیں نہیں کیونکہ فی زمانہ کوئی چیز بھی خالص نہیں ملتی لہذا اس میں بھی آپ کو مسکرا ہٹوں کے تیور اور نا را ضگی کی تیوریاں ساتھ ساتھ ملیں گی-“
اس کتاب کی تحاریر کو فہرست میں ہی چا ر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے: ایکسرے رپورٹ، سفر نامچے، قندِ مکرر اور ریڈی میڈ تقریریں-
ایکسرے رپورٹ
[ترمیم]ایکسرے رپورٹ یعنی دریچہء اول میں کل چھ مضا مین یا ایکسرے رپورٹس شامل ہیں جو مختلف مو ضو عات پر ہیں- مثلا اسلامی جمہوریہ پاکستان،مار شل لا، جمہو ریت وغیرہ- مصنف نے ان ایکسرے رپورٹس کے حوالے سے دیباچے بعنوانِ “دروازہ“ میں لکھا ہے :“دریچہء اول میں آپ کو پاکستان اور اس کے چند اعضا ئے رئیسہ کی ایکسرے رپورٹیں ملیں گی مثلا اسلامی جمہوریہ پاکستان،مار شل لا، اقتدار، جمہو ریت اور آئین وغیرہ- ہر ایکسرے رپورٹ تشویشناک نہیں لیکن جس ایکسرے میں کو ئی داغ نظر آئے اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے-“
سفر نا مچے
[ترمیم]سفر نا مچے جیسا کہ نام سے ظا ہر ہے کہ اس دریچے میں مصنف نے اپنے مختلف ملکوں اور شہروں کے سفر کا احوال مختصرا لکھا ہے-اس حصے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے - سوئے مغرب، مشرقِ وسطی، سو ئے مشرق- دریچہ دوم مصنف کے الفاظ میں: “دریچہ دوم میں سے آپ کئی غیر ملکی شہروں مثلا نیو یارک،لندن، انقرہ، بیجنگ وغیرہ میں جھانک سکتے ہیں، تاک جھانک کی کوئی فیس یا ٹکٹ نہیں البتہ ان سفر نامچوں سے مشتعل ہو کر عزمِ سفر باندھنے کا ہر جانہ ضرور ہے اور وہ بھی زرِ مبادلہ کی شکل میں- محتاط رہئے-“
قندِ مکرر
[ترمیم]قندِ مکرر یا دریچہ سوم میں متفرق موضو عات پر کل سات مزا حیہ مضامین ہیں جن میں بو ڑھوں کی یونین، بابا خیرا، موڈرن تعزیت نامہ وغیرہ شامل ہیں-اس دریچے کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے :“ دریچہء سو ئم ماضی کی طرف کھلتا ہے، اس میں وہ مضا مین ہیں جنہیں گذشتہ دس پندرہ برس میں مختلف مدیرانِ جرائد مزاحیہ تحریریں سمجھ کر چھاپتے رہے ہیں، امید ہے اس عرصے میں یہ نو نہال جوان ہو چکے ہوں گے(مدیر نہیں،مضامین) اور آپ کی بالغ صحبت میں شرکت کے اہل ثابت ہوں گے-“
ریڈی میڈ تقریریں
[ترمیم]اس دریچے میں آٹھ تقاریر شامل ہیں - مصنف کے مطا بق:“دریچہ چہارم میں آپ کو مقررین تقریریں کر تے ہو ئے ملیں گے، مرغبا نی کے افتتاح سے لے کر پہلے بچے کی پیدائش تک کئی مو ضوع ان کے رحم و کرم پر ہیں- ضرورت مند بے دریغ اور بلا اجازت ان ریڈی میڈ تقریروں سے استفا دہ کر کے ریڈی میڈ مقرر بن سکتے ہیں۔ البتہ ان تقاریر کے لیے سامعین مہیا کرنا اور ان کے دوران وقفوں وقفوں سے تالیاں بجا نے کا بندوبست کر نا ان کا اپنا کام ہے-“
کتاب:مصنف کی نظر میں
[ترمیم]مجموعی طور پر اس کتاب کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ:“ان چار دریچوں پر مبنی یہ کتاب سراسر غیر سنجیدہ کو شش ہے جس کے کسی حصے پر سنجیدگی سے غصے ہونا اس کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہوگا اس کے با وجود اگر دلآزاری کا پہلو نکلتا ہو تو پیشگی اور تحریری معذرت حاضر ہے-“
منتخب جملے
[ترمیم]- انھوں نے تو اپنے پہلے اور اکلوتے وزیرِ اعظم ہی کو لال و جواہر سمجھ کر برسوں سینے سے لگائے رکھا لیکن ہم نے اسی عرصے میں سات آٹھ وزیرِ اعظم پیدا کر ڈالے (یہ پیداواری ریٹ ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ہے)، بعض ممالک تو اپنی سو سالہ تا ریخ میں بھی اتنے وزیرِ اعظم پیدا نہ کر سکے۔۔۔۔۔
- اس بے رنگ و بو جوڑے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے محض تصویر چھپوانے کے لیے شادی کا روگ مول لیا ہے-
- آپ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آج پرواز بروقت روانہ ہوگی، جو لوگ پرانے تجربے کی بنا پر لیٹ آئے اور فلا ئٹ سے رہ گئے خود ذمہ دار ہوں گے- شکریہ
- ما تحت افسر کو ہر کام میں باربار رکا وٹ ڈالتے دیکھ کر بوس نے اس کی پرسنل فائل میں لکھ دیا کہ اسے ‘‘خاندانی منصوبہ بندی“ میں بھیج دیا جائے-
- اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملک پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہاں وزیرِ اعظم صرف سیا ست کی کیاری سے پیدا ہو تے رہے جبکہ ہمارا پورا چمنستان وزیر اعظموں اور سر براہوں سے مہکتا رہا ہے-کو ئی وزیرِ اعظم سول سروس سے آیا اور کوئی سازش سے، کوئی سر براہ سیا ست کے پچھواڑے سے داخل ہوا اور کوئی عسکری دروازے سے، ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔۔۔۔
- 1946ء کے لگ بھگ شیراں والا گیٹ کے قریب آپ جس مکان میں رہتے تھے میں اس کے ساتھ والے مکان میں آج کل شیخ صاحب کا کرایہ دار ہوں۔ کہئے کیسے مزاج ہیں، بال بچے ٹھیک ہیں۔ کبھی پرانے مکان کی طرف آنا ہو تو اپنے نئے پڑوسیوں کو بھی یاد کر لیجئے۔ ہاں یاد آیا ذرا میڈیکل کالج میں میرے لڑکے کا داخلہ تو کروادیجئے۔
- مجھے ویسے بھی اپنی عصمت سے زیادہ اپنی شہرت کا خیال رہتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے ناک منہ رگڑ کر گناہ تو رائٹ آف کرائے جا سکتے ہیں لیکن پبلک کے سامنے ناک منہ رگڑ کر چکنا چور شہرت کو دوبارہ نہیں جو ڑا جا سکتا ۔
حوالہ جات
[ترمیم]http://ibaliterary.blogspot.com/2011/09/taa-dam-e-tehreer.html