تاریخ امت مسلمہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تاریخ امت مسلمہ
(اردو میں: تاریخ امت مسلمہ ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف محمد اسماعیل ریحان
اصل زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع تاریخ اسلام  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
او سی ایل سی 1108816658  ویکی ڈیٹا پر (P243) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تاریخ امت مسلمہ اردو زبان میں تحریر کی جانے والی ایک ضخیم تاریخ ہے جو مولانا محمد اسماعیل ریحان کی تصنیف ہے۔ اب تک اس کتاب کی پانچ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں جب کہ مزید ایک جلد زیر طباعت ہے.[1]

چھ جلدوں کے موضوعات[ترمیم]

  • پہلی جلد کے شروع میں علم تاریخ کے تعارف اور اسلامی تاریخ کے بنیادی مصادر و مآخذ پر تبصرے پہ مشتمل ایک رسالہ بطور مقدمہ شامل ہے۔
    • پھر پہلی جلد میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی تک تمام مشہور پیغمبروں کے حالات اختصار سے درج ہیں۔پھرسیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم اور  مہات المؤمنین، عشرہ مبشرہ، خلافتِ حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓ، سیرتِ خلفائے راشدین کو انتہائی تفصیل سے تحریر کیا گیا ہے۔
  • دوسری جلد کا آغاز تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کے اصولوں اور صحیح و سقیم کی پہچان کرنے کے قواعد و ضوابط پر مبنی رسالے سے ہوتا ہے۔
    • پھر اس میں مشاجرات صحابہ یعنی صحابہ کرام کے باہمی اختلافات اور لڑائیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ خلافتِ حضرت علی ؓ، جنگ جمل، جنگ صفین، خلافتِ حضرت حسن ؓ، خلافتِ حضرت امیر معاویہ ؓ، حضرت حسین ؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کی جدوجہد، خلافت و شہادت حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ، مشاہیر صحابہ اور تابعین کا تعارف۔  اس جلد میں انتہائی حزم و احتیاط کے ساتھ صحابہ کرام کا دفاع اور اہلِ سنت کے موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔ نیز واقعہ کربلا و واقعہ حرہ کو بھی مفصل بیان کیا گیا ہے۔ 35 ہجری تا 73 ہجری۔
  • تیسری جلد اموی اور عباسی خلفا کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
    • خلافتِ بنو امیہ و بنو عباس، محمد بن قاسم کے کارنامے، فاتح اندلس (اسپین) طارق بن زیاد کے کارنامے، خلافتِ عباسیہ کی معاصر آزاد مسلم حکومتیں، ائمہ اربعہ اور مجددین و مصلحین کے کارنامے، فرقوں کے آغاز اور ظہور کی تاریخ، باطل فرقوں کی حکومتیں۔ 74 ہجری تا 656 ہجری۔
  • چوتھی جلد سلاطین اسلام سے متعلق ہے۔
    •  صلیبی جنگیں، تاریخ صقلیہ، اتابک امرا، ایوبی حکمران، سلطنت خوارزم شاہی، یورشِ تاتار، خلافتِ عباسیہ مصر، مملوک سلاطین، تاتاریوں میں اشاعت اسلام، سلطنتِ عثمانیہ دور تاسیس تا دور عروج۔ پانچویں تا دسویں صدی ہجری۔
  •       جب کہ آئندہ دو جلدیں عثمانی، صفوی، ایوبی، فاطمی، موحدین اور مغل حکمرانوں، اندلسی مسلمان حکومت کے آغاز و انجام، عالم اسلام پر انگریزی و مغربی استعمار کی ابتدا و انتہا کی داستانء، حالیہ اسلامی ملکوں کے تعارف، غیر مسلم ملکوں میں آباد مسلمانوں کے تذکرے اور ہر دور کے بڑے بڑے علما و فضلا اور مجددین و مصلحین امت کے ذکر پر مشتمل ہوں گی۔
  • نیز چھٹی جلد میں برطانوی استعمار کی حکومت تحریکات آزادی اور تحریک پاکستان اور مسلمانوں کے سائنسی و علمی کارناموں اور اسلامی تہذیب و تمدن کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔ نیز اس میں موجودہ اسلامی دنیا کے تمام اہم ممالک کا تعارف اور ان کی مختصر تاریخ بھی مذکور ہو گی۔

خصوصیات[ترمیم]

  • ·       کتاب انتہائی آ سان زبان میں لکھی گئی ہے اورتحقیق و استناد کے ساتھ ساتھ مصنف کا لکھنے کا انداز دلچسپ اور سلیس ہے پڑھنے والا اکتاتا نہیں بلکہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔۔
  •       ہربات باحوالہ درج ہے۔
  • ·       صحابہ کرام کے دفاع کا بالخصوص التزام کیا گیا ہے۔
  • ·       کتاب میں موقع بموقع اسلاف امت کے متعلق بعض تاریخی روایات سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔
  • بعض ضمنی اور ذیلی فقہی اور کلامی مباحث کو بھی موقع کی مناسبت سے اختصاار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
  • ·       مشکل الفاظ اور عربی اسماء رجال و اماکن پر اعراب بھی لگائے گئے ہیں تاکہ ان کا تلفظ قاری غلط ادا نہ کرے۔
  • ·       تاریخی واقعات سے اخذ نتائج کو بھی لکھا گیا ہے۔
  • ·       یہ کتاب محض مسلمانوں کی عسکری و سیاسی تاریخ پر مشتمل نہیں بلکہ ہر عہد کے علما و فضلا اور مجددین و مصلحین کے تذکرے کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
  • کتاب نے متعدد اہلِ علم کی داد و تحسین پائی ہے اور اس کے کافی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی کی رائے[ترمیم]

مفتی محمد تقی عثمانی نے مذکورہ کتاب کے لیے چار صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ تحریر کیا ہے، جو کتاب کے نئے ایڈیشن کے آغاز کے علاوہ ماہنامہ البلاغ کراچی کے اداریے میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ جس میں کتاب کے متعدد پہلوؤں کی تحسین و تعریف کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

"آج کل اسفار و اشغال کے ہجوم میں مجھے اپنے شوق کی کتابیں پڑھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے لیکن اس کتاب نے مجھے کچھ عرصے کے لیے گرفتار کر لیا۔ میں نے خاص طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے کے حالات تک یہ کتاب بالاستعیاب دیکھی۔۔۔۔۔"[2]

مزید براں مفتی صاحب نے مصنف کو فون کال پر بھی توصیفی کلمات سے نوازا اور کہا: "آپ نے جس طرح توازن کے ساتھ، اعتدال کے ساتھ اور تمام متعلقہ مواد کو پیشِ نظر رکھ کر، جس طرح آپ نے لکھا ہے،بس یہ اللہ کی عطا ہے۔ میں کہتا ہوں اللہ نے آپ سے تاریخ کی یہ تجدیدی خدمت لی ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق آپ نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہی میں نے "حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق میں اختیار کیا تھا۔"[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کی 'تاریخ امت مسلمہ' کا تحقیقی جائزہ 
  2. ماہنامہ البلاغ کراچی، جمادی الاولی 4214ھ/جنوری 2020ء اداریہ، ص 5
  3. https://web.facebook.com/100002753389339/videos/2409995852435504/