تاریخ ولادت محمد بن عبد اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیغمبر محمد کی ولادت کا سال، مہینہ، تاریخ اور دن دیگر قدیم شخصیات کی طرح بعض پہلوؤں سے اختلافی رہے ہیں۔ کیوں کہ قدیم دور میں ایسے ذرائع دستیاب نہیں تھے، نہ ہی سرکاری سطح پر ایسے اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی طریقہ کار تھا۔ پیغمبر محمد کی ولادت جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ میں ہوئی، جہاں اس وقت قبائلی نظام رائج تھا، وہ لوگ لکھنے کو برا خیال کرتے اور مضبوط حافظے کو ترجیح دیتے، البتہ نسب کو یاد کرنا اور اہمیت دینا ان کا خاصہ تھا۔ پیغمبر محمد کی ولادت کا سال عام طور پر عام الفیل مہینہ ربیع الاول دن پیر (یا جمعہ کا دن بمطابق اہل تشیع) جبکہ تاریخ میں 9 یا 12 (یا 17 اہل تشیع کے نزدیک) کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عیسوی حساب سے قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی تحقیق کے مطابق 22 اپریل 571ء جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے مطابق 20 اپریل 571ء ہے۔ عام طور پر دنیا بھر میں مسلمان 12 ربیع الاول ہی کو یوم ولادت قرار دیتے اور محافل، جلوس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ کئی ممالک میں اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔

سنہ ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت کا سال عام الفیل کو قرار دیا جاتا ہے، جس کا ماخذ حدیث بھی ہے، ترمذی شریف کی حدیث ہے جس کے روای قیس بن مخزومہ ہیں: وہ کہتے ہیں کہ: میری اور رسول اللہ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی۔ ہم دونوں ہم عمر ہیں۔[1] اسی طرح ایک دوسری روایت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود بیان کیا ہے کہ ان کی ولادت عام الفیل میں ہوئی۔ ابن کثیر،[2] محمد مصطفٰی مراغی،[3] عبد الماجد دریابادی،[4] مفتی محمد شفیع عثمانی،[5] عبداللہ یوسف علی[6] اور پیر کرم علی شاہ[7] وغیرہ مفسرین نے سورت فیل کی تفسیر میں سال ولادت عام الفیل کا ہی ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق، ابن ہشام، جلال الدین سیوطی، ابن جوزی، احمد بن حجر، عنایت احمد کاکوروی، عنہاج الدین عثمان، ابن قیم، شبلی نعمانی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری جیسے مورخین، محدثین و سیرت نگاروں نے سال ولادت عام الفیل کو قرار دیا ہے۔ ابراہیم بن منذر نے لکھا ہے کہ اس بات میں کسی کو شک و شبہ نہیں، نبی صل للہ علیہ والہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی۔

ماہ ولادت[ترمیم]

جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ربیع الاوّل کے مہینہ میں ہوئی ۔

یوم ولادت[ترمیم]

اس بات پر تمام محدثین، مورخین، قدیم و جدید سیرت نگار متفق ہیں کہ پیغمبر محمد کی ولادت پیر (دوشنبہ) کے دن ہوئی۔ اور اس کا ذکر صحیح احادیث میں بھی ملتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ

مسند احمد بن حنبل میں عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ،

تمہارے نبی پیر کے دن پیدا ہوئے، پیر ہی کو ان کی بعثت ہوئی، اسی دن ہجرت کی اور پیر ہی کو مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔[8]

ابن کثیر کا کہنا ہے کہ: اس امر میں ذرا اختلاف نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام پیر کے دن پیدا ہوئے۔ عبدالرحمن جوزی لکھتے ہیں:

علما کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل کے ماہ ربیع الاول میں پیر کے روز اس دنیا میں جلوہ فرما ہوئے۔[9]

تاریخ ولادت[ترمیم]

فقہ حنفیہ[ترمیم]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول شریف کو ہوئی۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول ترجمہ :

عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے راوی کہ یہ دونوں (حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔[10]

اس روایت کی سند بھی صحیح ہے تو ثابت ہوا کہ جلیل القدر دو صحابہ کرام سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔

  1. اس کے پہلے راوی خود امام ابوبکر بن شیبہ ہیں جو امام بخاری و امام مسلم کے استاد ہیں۔ جو جلیل القدر ائمہ محدیثین کی تصریحات کی رو سے ثقہ حافظ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد 6، صفحہ 3۔4،) متصل سند کے ساتھ امام بخاری نے ان سے 22 روایات صحیح بخاری میں۔ امام مسلم نے 1528 روایات صحیح مسلم میں امام نسائی نے 6 روایات سنن نسائی میں امام ابوداؤد نے 21 روایات سنن ابوداؤدمیں امام ابن ماجہ نے 1151 روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔
  2. اس روایت کے دوسرے راوی عقان ہیں جو بلند پایہ امام ثقہ صاحب ضبط اور اتقان تھے۔[11] امام عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ اور صاحب سنت تھے[12] امام ابن معین نے ان کو اصحاب الحدیث بلند پایہ میں شمار کیا ہے۔[13] امام ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے۔ امام ابن خراش نے کہاکہ وہ ثقۃ من خیار المسلمین تھے۔ ابن قانع نے کہا کہ وہ ثقہ اور مامون تھے۔ ابن حبان نے ان کوثقات میں شمار کیا ہے [14] امام ذہبی نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلامیں سے تھے۔ آئمۃ العلام میں سے تھے۔ امام عجلی نے ثبت اور صاحب سنت کہا [15] امام ابن معین نے ان کو پانچ بلند اصحاب الحدیث میں شمار کیا۔ امام ابو حاتم نے ثقہ متقن متین کہا[16]
  3. تیسرے راوی سعید بن مینار ہیں۔ امام ابن معین اور امام ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا۔ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا۔ امام نسائی نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا[17]
    امام ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

وھذا ھو المشہور عند الجمھور۔ جمہور علما کے نزدیک یہی مشہور ہے۔[18] عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ولد انبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من ربیع الاوّل

حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔[19]

امام ابن جریر طبری کا قول : امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الاوّل۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔[20]

ابن اسحاق اور امام ابن ہشام امام ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کا قول نقل فرمایا کہ ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر ربیع الاوّل عام الفیل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔[21]

محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ

قال ابن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الاوّل

امام ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔[22]

امام ابن اسحاق کا یہ قول ان کتب میں بھی موجود ہے[23] امام ابن جوزی نے اپنی دیگر کتب میں بھی سرکار اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کو قرار دیا ہے[24][25] علامہ ابن خِلدون لکھتے ہیں کہ

ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت عام الفیل کو بارہویں ربیع الاوّل کو ہوئی۔[26]

امام ابو الفتح محمد بن محمد بن عبد اللہ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی لکھتے ہیں کہ

ولد سیدنا و نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شہر ربیع الاوّل عام الفیل[27]

ہمارے سردار اور ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل شریف کو عام الفیل میں ہوئی امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
وکان مولدہ لیلۃ الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر ربیع الاوّل [28] اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کی رات بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی
امام حاکم کے مطابق: عن محمد بن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الاوّل [29]

امام المغازی محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔

امام علی بن برہان الدین حلبی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں
عن سعید بن المسیب ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عندالبھار ای وسطہ و کان ذلک لمض اثنی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الاوّل [30]

حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت بہار نہار کے قریب یعنی وسط میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔

جلیل القدرمحدث امام بیہقی لکھتے ہیں کہ

ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الاوّل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیر کے دن عام الفیل میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے[31]

جلیل القدر محدث امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ

قال ابو حاتم ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شہر ربیع الاوّل

امام ابو حاتم نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت عام الفیل کے سال پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی[32]

محدث جلیل امام سخاوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ

(ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) فی یوم الاثنین عند فجرہ لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت ربیع الاوّل عام الفیل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عام فیل ربیع الاوّل پیر کے دن فجر کے وقت 12 کی رات میں پیدا ہوئے [33]

امام ابو الحسن علی بن محمد ماوردی لکھتے ہیں کہ

لانہ ولد بعد خمسین یومامن الفیل و بعد موت ابیہ فی یوم الاثنین الثانی عشرمن شہر ربیع الاوّل

عام الفیل کے پچاس روز بعد والد گرامی کے وصال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔[34]

معروف سیرت نگار ملامعین واعظ کاشفی لکھتے ہیں

مشہور ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور اکثر کہتے ہیں کہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ تھی۔[35]

عبدالرحمٰن جامی لکھتے ہیں کہ:

ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتاریخ 12 ربیع الاوّل بروز پیر واقعہ خیل سے پچیس دن بعد ہوئی۔[36]

محدث جلیل سید جمال حسینیؒ رقمطراز ہیں کہ

مشہور قول یہ ہے اور بعض نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ربیع الاوّل کے مہینہ میں پیدا ہوئے۔ 12 ربیع الاوّل مشہور تاریخ ہے۔[37]

امام ابو معشر نجیع ذہبی لکھتے ہیں کہ
و قال ابو معشر نجیع ولد لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل

ابو معشر نجیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے[38]

محدث جلیل ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ
و المشہور انہ ولد فی یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاوّل

اور مشہور یہی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پیر کے روز بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی[39]

شارح بخاری امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ:-
و المشہور انہ دلد یوم الاثنین ثانی عشر شہر ربیع الاوّل

اور مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیر بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔[40]

امام زرقانی لکھتے ہیں کہ:-
و قال ابن کثیر وھو المشہور عند الجمھورو بالغ ابن جوزی و ابن الجزار نقلا فیہ الاجماع وھو الذی علہہ العمل

امام ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور کے نزدیک بارہ ربیع الاوّل کو ولادت مشہور ہے۔ ابن جوزی اور ابن الجزار نے مبالغہ سے اس اجماع نقل کیا ہے۔یہ وہ قول ہےجس پر (امت کا ) عمل ہے۔[41]

علامہ حسین بن محمد دیاربکری لکھتے ہیں کہ
والمشہور انہ ولد فی ثانی عشر ربیع الاوّل وھو قول ابن اسحاق

اور مشہور یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی اور یہ ابن اسحاق کا قول ہے[42]

شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ

و قیل لاثنتی عشرۃ و ھو االمشہور۔

اور کہا گیا ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل ہے اور یہی مشہور قول ہے [43]

علامہ یوسف بن اسمعٰیل بنھانی لکھتے ہیں کہ

فی یوم الاثنین ثانی عشرمن شہر ربیع الاوّل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی[44][45]

فقہ جعفریہ[ترمیم]

سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت 17 ربیع الاول جمعہ کو ہوئی۔

مزید پڑھیے[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ترمذی، جلد دوم، صفحہ 637
  2. تفسیر ابن کثیر، جلد پنجم، نور محمد کتب خانہ، کراچی، صفحہ 104
  3. تفسیر مراغی، جلد دہم، مطبوعہ داد الفکر، بیروت، صفحہ 242
  4. قرآن مجید ترجمہ و تفسیر، جلد دوم، صفحہ 634
  5. معارف القرآن، جلد ہشتم، صفحہ 817
  6. قرآن مجید ترجمہ و تفسیر، عبد اللہ یوسف علی، بیروت، صفحہ 451
  7. تفسیر ضیا القرآن، جلد پنجم، صفحہ 665
  8. مسند احمد بن جحنبل، احمد بن حنبل
  9. النبی الاطہر سیرت خیر البشر، عبد الرحمان جوزی، مترجم محمد علیم الدین، مکتبہ مجددیہ دینہ، جہلم، 1989ء، صفحہ 35
  10. سیرۃ انبویہ لابن کثیر جلد ا صفحہ 199، البدایہ والنھایہ جلد 2، صفحہ 260
  11. خلاصۃ التہذیب صفحہ 268،
  12. تہذیب التہذیب جلد 7، صفحہ 231،
  13. تہذیب التہذیب جلد 7، صفحہ 233،
  14. تہذیب التہذیب جلد 7، صفحہ 234،
  15. میزان الاعتدال ،جلد 3، صفحہ 81
  16. میزان الاعتدال ،جلد 3، صفحہ 82
  17. تہذیب التہذیب جلد 4، صفحہ 91
  18. سیرۃ النبویہ جلد 1، صفحہ 199
  19. تلخیص المستدرک ،جلد 2، صفحہ 603
  20. تاریخ طبری ، جلد 2، صفحہ 125
  21. السیرۃ النبویہ، لابن ہشام ، جلد1، صفحہ 181
  22. الوفاء جلد 1 صفحہ90
  23. سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 1، صفحہ 334، شیعب الایمان بیہقی، جلد 2، صفحہ 458، السیرۃ النبویہ مع الروض الانف جلد 3 ص 93
  24. المیلاد النبوی، ص 31
  25. مولد العروس ،ص 14
  26. تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 710
  27. عیون الاثر، جلد 1 ،ص26
  28. النعمۃ الکبری علی العالم، ص 20
  29. مستدرک جلد 2،ص 603
  30. سیرت حلبیہ، جلد1،ص 57
  31. دلائل النبوت بیہقی، جلد 1،ص 74
  32. سیرۃ البنویہ و اخیار الخلفاء، ص 33
  33. التحفۃ اللطیفۃ، جلد 1، ص 7
  34. اعلام النبوۃ، جلد 1، ص 379
  35. معارج النبوت،ج1 ،ص 37،باب سوم
  36. شواہد البنوت فارس، ص،22۔اردو،ص56
  37. رسالت مآب ترجمہ روضۃ الاحباب از مفتی عزیز الرحمٰن ص 9
  38. سیرت النبویہ للذہبی ،ج1،ص،7
  39. الموردالروی،ص98
  40. مواہب اللدنیہ،ج1،ص 142
  41. زرقانی علی المواہب، ج1، ص132
  42. تاریخ الخمیس، ج1،ص 192
  43. ماثبت بالسنۃ،ص149۔مدارج النبوت ،ج2،ص 23
  44. حجۃ اللہ علی العالمین ص 176
  45. ان کے علاوہ متعد د ائمہ نے باریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کی ہی صراحت کی ہے۔ مزید چند حوالہ جات درج ذیل ہیں
    نسیم الریاض،ج3،ص275۔صفۃ الصفوۃ ،ج1،ص52۔اعلام النبوۃ ،ج1،ص 192۔ فقہ السیرۃ للغزالی،ص 20۔ تواریخ حبیب الہٰ ،ص 12۔وسیلۃ الاسلام ،ج1،ص44۔ مسائل الامام احمد ،ج1،ص 14۔سرور المخزون ص14۔