تان رس خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قطب بخش تان رس خان (پیدائش: 1801ء - وفات: 1885ء) ہندوستان کا ایک عظیم موسیقار جو بہادر شاہ ظفر اور میر محبوب علی خان دونوں کے دربار سے وابستہ رہا۔ اصل نام قطب بخش تھا لیکن تان رس خان سے شہرت حاصل کی، اس کا خاندان محمد شاہ کے زمانے سے مغل دربار میں خاصا رسوخ رکھتا تھا، تان رس خان کے والد قدیر بخش شاہ عالم ثانی کے عہد میں درباری گویّا تھے۔[1] تان رس بہادر شاہ ظفر کی درباری گائنوں کا اتالیق بھی رہا۔ اس کے دو فرزند تھے، غوث اور امراؤ خان۔[2]

دربار دلی[ترمیم]

تان رس خان انتہائی ذہین تھا، چنانچہ جلد ہی اپنے آبائی پیشے میں مہارت حاصل کرلی۔ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں اس کی فنی مہارت کا ذکر ہوا تو اسے شاہی دربار میں پیش کیا گیا۔ اس زمانے میں شاہی ملازمین کی تنخواہیں کم ہوتی تھیں لیکن شاہی نوازشوں کی فراوانی کی بنا پر تنگ دستی کی شکایت نہیں رہتی۔ چنانچہ تان رس خان کو بھی یخنی اور میوے کا یومیہ خرچ ملتا۔ اپنی مہارت اور فراست کی بنا پر دربار میں جلد ہی ترقی کی اور "تان رس خان" کا خطاب شاہی حاصل کیا۔

تان رس خان بہادر شاہ ظفر کی گائنوں کو سنگیت کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ چنانچہ پیاری بائی، چندر بائی، مصاحب بائی، سلطان بائی وغیرہ کل اٹھارہ گائنیں تھیں اور ہر ایک اپنے فن میں طاق۔

کچھ عرصے بعد دربار میں تان رس خان اور پیاری بائی کے تعلقات کے چرچے عام ہوئے تو عتاب شاہی نازل ہوا اور قلعہ معلی سے نکالے گئے۔ اس افتاد کی وجہ سے تان رس خان انتہائی متفکر تھے کہ بادشاہ کی جانب سے پیغام آیا:

خطاب، تنخواہ و معاش بدستور بحال و جاری ہے لیکن آئندہ کے لیے دربار بند اور قلعہ میں آنے کی اجازت نہیں۔

بعد ازاں ان اٹھارہ گائنوں کو بھی بہادر شاہ نے اپنے دربار سے برطرف کر دیا۔[3]

دربار دکن[ترمیم]

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مغل سلطنت کا دربار اجڑ گیا، تو تان رس خان نے ریاست الور، ریاست جے پور اور ریاست جودھ پور میں ملازمتیں کیں اور خوب انعام و اکرام پائے۔ ریاست حیدرآباد کے دربار کا چرچا سن کر حیدرآباد جا پہنچا اور میر محبوب علی خان کے دربار سے وابستہ ہو کر انتہائی عروج حاصل کیا۔[4]

انتقال[ترمیم]

تان رس خان کا انتقال حیدرآباد میں ہوا اور شاہ خاموش کی درگاہ کے قرب میں تدفین ہوئی۔ انتقال کے بعد ان کے فرزندوں کی خواہش تھی کہ کچھ روز حیدرآباد میں سپرد خاک رکھ کر لاش کو واپس دلی لے جائیں لیکن نظام دکن کے منع کرنے پر اس سے باز رہے۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سوَر گنگا
  2. قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 46
  3. قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 47 تا 50
  4. قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 51، 52
  5. قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 52

بیرونی روابط[ترمیم]