تبادلۂ خیال:تری دیو رائے

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آنجہانی تری دیو رائے[ترمیم]

’’بیٹا! میں تمہیں واپس (بنگلہ دیش) لے جانے کے لیے آئی ہوں۔ ‘‘ماں نے نم ناک لہجے میں مجھے فون پر بتایا۔

اگلے دن نیویارک میں اپنے ہوٹل میں میری اپنی ماں سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے کافی پریشان نظر آئیں۔ ایک سال پہلے جب میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی،اس کی نسبت، وہ مجھے اب کافی بوڑھی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن ان کی آواز پہلے کی طرح مستحکم تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد انہوں نے کافی مشکل حالات کا سامنا کیا تھا، لیکن یہ انہیں توڑ نہ سکے تھے۔

شیخ مجیب اور ان کے وزیرخارجہ نے میری ماں کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ مجھے واپس بنگلہ دیش لا سکے۔ شیخ مجیب کے رویے میں یہ تبدیلی بھارت کے کہنے پر آئی تھی۔ ورنہ اس سے قبل جب میری ماں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس سلسلے میں پیغام بھجوایا تھا تو اس کا جواب تھا ’’اسے کہہ دو کہ وہ مغربی پاکستان چلی جائے۔ ‘‘

لیکن اب اس کے بالکل برعکس رویہ اپنائے ہوئے میری ماں کو اس نے یہ کہا تھا :’’ہاں اسے (راجا تری دیورائے) میری جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ مغربی پاکستان میں اسے دھمکا کر روکا گیا ہے۔ اسے واپسی پر آمادہ کرو، ہم ایک ہیرو کی طرح اس کا استقبال کریں گے۔ ‘‘

1972ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 27واں اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ اقوام متحدہ کا پہلا اجلاس تھا۔ اس میں اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی رکنیت کی درخواست زیر بحث آنا تھی۔ پاکستان اصولی طور پر بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے خلاف نہیں تھا، لیکن اس کا موقف تھا کہ پہلے اسے رکنیت کے لیے ضروری ضابطے پورے ہونے چاہئیں۔ذوالفقار علی بھٹو، جو اس وقت صدر پاکستان تھے، نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے راجا تری دیو رائے کا انتخاب کیا اور انہیں اقوام متحدہ میں اپنے وفد کا سربراہ بنا کر بھیجا۔

راجا تری دیو نے 1970ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن مشرقی پاکستان سے آزاد حیثیت سے جیتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 نشستوں پر شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی، عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی اور صرف راجا تری دیورائے اور نورالامین (جو بعد ازاں مغربی پاکستان کے نائب صدر بنے) ہی ایسے کامیاب امیدوار تھے، جن کا عوامی لیگ سے تعلق نہیں تھا۔

ادھر شیخ مجیب نے راجا تری دیورائے کی ماں کو اپنے وفد میں شامل کرکے نیویارک بھیجا تاکہ وہ اپنے بیٹے کو قائل کر سکے کہ وہ واپس بنگلہ دیش آ جائے۔ اوپر کی سطور جو کہ راجا تری دیورائے کی خودنوشت (The departed Melody) سے لی گئی ہیں میں اس ملاقات کا ہی ذکر کیا گیا ہے۔

اپنی ماں کے اصرار کے باوجود راجا تری دیورائے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ جب پاکستانی وفد اقوام متحدہ پہنچا تو سو کے قریب ممالک بنگلہ دیش کو تسلیم کر چکے تھے اور وہ بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ میں شمولیت کے لیے بظاہر رضامند تھے لیکن پاکستانی وفد نے کامیاب لابنگ کی اور کئی ممالک کو اپنے موقف پر قائل کیا۔ چین، ایران اور ترکی نے پاکستانی موقف کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی وفد کو کامیابی حاصل ہوئی اور بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ میں رکنیت کو ملتوی کر دیا گیا۔

اس زبردست کامیابی پر ذوالفقار علی بھٹو نے فون کر کے راجا تری دیورائے کو مبارکباد دی۔ جب وفد چکلالہ ائیرپورٹ راولپنڈی پہنچا تو استقبال کے لیے صدر ذوالفقار علی بھٹو خود اپنی پوری کابینہ اور دوسرے حکومتی عہدے داروں کے ساتھ موجود تھے۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی جذباتی تقریر کی اور کہا کہ بنگلہ دیش اور ہندوستانی حکومتوں کی پوری کوشش کے باوجود راجا تری دیورائے نے پاکستان کا مقدمہ بہت موثر انداز میں لڑا ہے اور تمام پیشکشوں کو ٹھکرایا ہے، جو انہیں پاکستانی وفدکو چھوڑکر بنگلہ دیش واپس آنے کے لیے کی گئی تھیں۔

انہوں نے حب الوطنی کے بڑے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے جس کے لیے ساری پاکستانی قوم ان کی شکرگزار ہے۔ صدر نے کہا کہ راجا صاحب جب تک چاہیں ہمارے بھائی کی حیثیت سے پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔ جس دن آپ نے مشرقی پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا ہم خوشی سے آپ کو اس کی اجازت دیں گے اور آپ کے بارے میں ہمارے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں ہو گی۔ ‘‘

راجا تری دیورائے ذہنی طور پر اس استقبال کے لیے تیار نہیں تھے اور انہوں نے بھٹو سے کہا کہ یہ غیر ضروری تھا لیکن بھٹو کا جواب تھا یہ ضروری تھا تاکہ ملک کے لیے جنہوں نے خدمات انجام دی ہیں ان کی پذیرائی کی جا سکے۔

راجا تری دیورائے 14 مئی 1933ء کو پیدا ہوئے ان کا تعلق چٹاگانگ پہاڑی علاقوں میں بسنے والے چکما قبیلے سے تھا۔ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں کی اپنی ایک الگ تاریخ رہی ہے۔ یہاں مختلف قومیں، قبائل اور مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہ خودمختار علاقے تھے جن کو مقامی نظام کے مطابق راجا چلایا کرتے تھے۔ لیکن انگریزوں نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور تقسیم کے بعد جب بنگالی کی حدبندی ہوئی تو انہیں مشرقی پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا۔ وہاں کے مقامی رہنمائوں کا مطالبہ تھا کہ ہماری جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں آزاد علاقہ قرار دیا جائے۔

جہاں وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق گزر بسر کر سکیں۔ 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ کا دورہ کیا تو مختلف قبائل کے سرداروں نے یہ مطالبہ ان کے سامنے دہرایا۔ قائداعظم نے یقین دلایا کہ انہیں پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے مکمل آزادی دی جائے گی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں خانہ جنگی زور پکڑ گئی اور بالآخر 1997 میں بنگلہ دیش حکومت کو ان کے ساتھ امن معاہدہ کرنا پڑا۔

1953ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد انہیں چکما راجا بنایا گیا۔ وہ 50ویں چکما راجا تھے۔ وہ دو دفعہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اپنے قبائل اور علاقے کے لیے سپیشل سٹیٹس کے پرزور حامی تھے اور انہوں نے یہ مطالبہ جاری رکھا۔ 1970 کے الیکشن جیتنے کے بعد مجیب نے انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے دوبارہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل حصے کے لیے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا جس کے لیے مجیب تیار نہیں تھا۔ اس لیے الیکشن جیتنے کے بعد وہ مرکزی حکومت کے بلانے پر 9 نومبر 1971ء کو وہ مغربی پاکستان چلے آئے۔

بعد ازاں بھٹو نے انہیں اپنی حکومت میں اقلیتی امور کا وزیر بنا دیا۔ انہیں سیاحت کے محکمے کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ مختلف ممالک میں سفیر کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ راجا تری دیورائے کا مذہب بدھ مت تھا اور وہ بدھ مت سوسائٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ اس لئے ایسے ممالک، جہاں بدھ مت مذہب کے پیروکار رہتے ہیں، انہیں خصوصی عزت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا۔

2003ء میں وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی نے انہیں تاحیات وفاقی وزیرکا عہدہ دیا۔ راجا تری دیورائے 17 ستمبر 2012ء کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کی آبائی علاقے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے میں دفنایا جائے۔ لیکن آج کل وہاں خانہ جنگی کے حالات ہیں، اس لئے اس پر عمل درآمد حکومت کے لیے مشکل ہے۔

راجا تری دیو رائے کی ادبی خدمات

ایک کامیاب قبائلی سردار (راجا)‘ سیاستدان اور سفارت کار ہونے کے ساتھ ساتھ‘ راجا تری دیو رائے ایک ادیب کی حیثیت سے بھی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔

انگریزی میں ان کے افسانوں کے دو مجموعے “The Windswept Bahini” اور “They Simply Belong” کے ناموں سے شائع ہوئے۔ ایک کتاب کا پیش لفظ فیض احمد فیض نے لکھا۔ “The Windswept Bahini” میں شامل ایک کہانی The Jewel Of a Girl انٹرمیڈیٹ کی سطح پر نصاب کا حصہ رہی ہے۔ ان کے منتخب افسانوں کا اردو ترجمہ ’’انسان خطا کا پتلا ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے، جسے نیشنل بک فائونڈیشن نے چھاپا ہے۔ اپنے افسانوں کے اردو ترجمے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ سے لوگ پڑھیں، اور ان سے استفادہ کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی کہانیوں کے بعض کردار ان کے اپنے لوگ ہیں، جن کے ساتھ انہوں نے وقت گزارا ہے۔ اور کچھ ایسے مقامات کا بھی ذکر ہے، جہاں ان کی زندگی کا ایک حصہ گزرا ہے۔

جنوب امریکی ممالک ارجنٹینا‘ چلی‘ ایکواڈور‘ میکسیکو اور پیراگوئے میں انہوں نے ایک طویل عرصہ تک پاکستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان ممالک میں ان کی مصروفیات کے حوالے سے ان کی کتاب “South American Diaries” کو خاصی شہرت حاصل ہے۔ ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب “The Departed Melody”بھی شائع ہو چکی ہے۔ جس میں انہوں نے چکما راجائوں کی تاریخ اور اپنے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے علاقے کے مقامی لوگوں کا مقدمہ بھی بڑے احسن طریقہ سے پیش کیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنی خودنوشت کے نام کا انتخاب انہوں نے علامہ اقبال کی مشہور رباعی ’’سرود رفتہ باز آید کہ ناید‘‘ سے کیا ہے اور سرود رفتہ کو “The Departed Melody” کا نام دیا ہے۔--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:59، 17 دسمبر 2018ء (م ع و)