تبادلۂ خیال:جنم جہنم

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کی کہانیاں شہر وجود کے خارجی احوال و مقامات کی سیر بھی کراتی ہیں اور حاضر و موجود کا طلسم توڑ کر غائب اور نارسا کی جستجو میں ان گنت گہرے خیالوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محمد حمید شاہد نے ملا وجہی سے لے کر انتظار حسین تک ”سب رس“ سے لے کر ”شہر افسوس“ تک اردو فکشن کے تمام تر اسالیب کو سوچنے سمجھنے اور دیکھنے بھالنے کے بعد افسانہ نگاری کی اقلیم میں قدم رکھا ہے۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کی پہلی کتاب”بند آنکھوں سے پرے“ میں ہر دو روایات الگ الگ اپنا جادو جگا رہی ہیں” برف کا گھونسلا“ اور ”مراجعت کا عذاب“ میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتے ہیں وہاں” آئینے سے جھانکتی لکیریں “ اور ”اپنا سکہ“ میں ہمیں شہر باطن کے شہر کی سیر کراتے اور کرداروں کے غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتے ہیں ۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ”جنم جہنم“ میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے یہ دو اسالیب باہم دگر آمیز ہونے لگتے ہیں۔ ”نئی الیکٹرا“ ”ماخوذ تاثر کی کہانی“ اور جنم جہنم “ ہمارے افسانوی ادب کی اس نئی جہت کے نمائندہ فن پارے ہیں۔محمد حمید شاہد فلسفہ و تصوف میں اپنے انہماک کو مادی زندگی کے مصائب و مشکلات سے فرار کا بہانہ ہر گز نہیں بناتے ۔ چنانچہ اسی کتاب میں ‘انہی افسانوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال پر ”تماش بین“ اور ”واپسی“ کی سی دل پگھلا دینے والی کہانیاں بھی موجود ہیں ۔ وہ حقیقت کے باطن اور باطن کی حقیقت تک رسائی کے تمنائی ہیں

(پروفیسر فتح محمد ملک )