تبادلۂ خیال:حجۃ اللہ البالغہ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

غیر متعلقہ حصہ[ترمیم]

Deobandi Books[ترمیم]

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ رسالہ

5 - 17

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرہٴ آفاق تصنیف
حجة اللہ البالغہ

مفتی امانت علی قاسمی

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہندوستان کی ان منتخب اور چنندہ شخصیتوں میں سے ہیں جن کے علمی وفکری نظریات کو سب سے زیادہ فروغ حاصل ہواہے، جن کی فکر ایک دبستان کی حیثیت سے آج سب سے زیادہ مقبول ہے، اور” فکر ولی اللہی“ اور ”مکتب ولی اللہی“ اہل علم کے حلقوں میں زبان زد ہے، شاہ صاحب کی تصانیف پچاس سے زائد ہیں اور ان کی تمام تصانیف حقائق ومعارف کے موتی بکھیرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن ان کی قابل قدر تصنیف، لازوال شہرت کی حامل اور شریعت کے اسرار وحکم کو واضح کرنے والی کتاب،جن کے بارے میں تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں اب تک کسی خامہٴ نگار کے گوہر قلم سے ایسی کتاب منصہ شہود پر نہیں آئی، یعنی ”حجة اللہ ا لبالغہ“ جس نے اشاعت کے وقت سے ہی علمی حلقوں میں ایک غلغلہ پیدا کردیا ہے اور ارباب فکر ودانش کو دعوت فکر دی ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب عربی زبان میں دوجلدوں پر مشتمل ہے،مختلف مطابع سے متعدد بار تصحیح وتحشیہ کے ساتھ شائع ہوچکی ہے، مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں،نیز مختلف مدارس اور یونیورسٹیوں میں اس کے منتخب ابواب داخل نصاب ہیں۔

صاحب کتاب کا تعارف
شاہ صاحب رحمة الله علیہ بارہویں صدی کی ان نابغہ روزگار شخصیتوں میں سے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، آپ نے نئے عہد اور نئے دور کی بنیاد ڈالی اور ہندوستان کی اسلامی تاریخ کو نئی علمی وعقلی بنیادوں پر تعمیر کیا، اسلامی ہندکے زوال سے آج تک جو کچھ بھی علمی ودینی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں وہ سب اسی خانوادہٴ ولی اللہی کا فیض ہے، شاہ صاحب کی ولادت عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات سے چار سال قبل 14/ شوال 1114ھ مطابق 21/ فروری 1703ء چہارشنبہ کے دن طلوع آفتاب کے وقت قصبہ ”پھلت“ ضلع مظفر نگر میں ہوئی، آپ کا نام ولی اللہ قطب الدین احمد ہے اور تاریخی نام” عظیم الدین“ہے، کنیت ”ابو عبد العزیز“ اور” ا بو الفیاض“ہے، آپ کے والد ماجد کا نام عبد الرحیم اور دادا کا نام وجیہ الدین ہے، آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے حضرت عمر فاروق تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے موسی کاظم تک پہنچتا ہے۔( مفتی سعید احمد پالنپوری ، رحمہ اللہ الواسعة 1/25، مکتبہ حجاز دیوبند،سن طباعت2001)

شاہ صاحب کا خاندان قدیم زمانے سے اسلامی وسیاسی علم وفضل کاجامع چلا آتا ہے، ان کے خاندان میں شجاعت، سخاوت اور علم فضل کی بلند پایہ شخصیتیں پیدا ہوئیں، آپ کے خاندان کے سب سے پہلے شیخ شمس الدین مفتی ہندوستان تشریف لائے، آپ کے جد امجد شیخ وجیہ الدین زندگی بھر کفار ہند کے خلاف نبردآزما رہے اور دنیائے شجاعت میں محیر العقول کارنامے چھوڑے، آخر کار سلطان محی الدین محمد عالمگیر کے عہد میں شہادت پائی، شیخ وجیہ الدین کے تین لڑکے تھے شیخ ابو رضاء محمد شیخ عبد الحکیم شیخ عبد الرحیم، جن کی ولادت 1054ھ ہے۔

تعلیم
پانچ سال کی عمر میں آپ کو مکتب میں داخل کیا گیا، ابھی آپ کی عمر سات برس کی نہیں ہوئی تھی کہ قرآن مجید حفظ کرلیا، چناں چہ اسی سال آپ کے والد ماجد نے روزہ رکھنے اور تمام ارکان اسلام کی پابندی کرنے کی وصیت کی، ساتویں سال میں آپ نے فارسی شروع کی، ایک سال میں فارسی کی تعلیم سے فارغ ہوکر صرف ونحو کی درسی کتابیں شروع کیں، دس برس کی عمر میں آپ شرح ملا جامی پڑھنے لگے، آپ نے لغت، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تصوف، عقائد، منطق، طب، فلسفہ، ہیئت اور حساب کی بیشتر کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں ا ور پندرہ برس کی عمر میں یہ کتابیں ختم کرلیں۔( محمد منظور الوحیدی، مترجم حجة اللہ ا لبالغہ1/9، مکتبہ تھانوی دیوبند، سن طباعت 1986ء)

1131ھ میں آپ نے اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ مدرسہ رحیمیہ میں پڑھانا شروع کیا اور بارہ برس تک اپنے فکروفن کو عام کرتے رہے اور علم ومعرفت کے روشن چراغ سے مغلیہ سلطنت کے تاریک دور میں شمع فروزاں کرتے رہے، بارہ سال بعد 1143ھ میں حرمین کی زیارت اور حج کے ارادے سے حجاز تشریف لے گئے، دو سال حجاز میں رہ کر وہاں کے علماء سے سند حدیث حاصل کی، حجازکے اساتذہ میں شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم الکردی سب سے ا ہم ہیں ، علماء حرمین سے علوم ظاہری وباطنی میں بھر پور استفادہ کے بعد شاہ صاحب 14/ رجب 1145ھ کو دہلی پہنچے اور دوبارہ مدرسہ رحیمیہ میں مسند درس پر جلوہ افروز ہو کر کتاب وسنت کے علوم پھیلانے میں مشغول ہوگئے،بڑے بڑے ماہرین فن آپ کی شاگردی کو مایہٴ فخر سمجھتے تھے، شاہ صاحب کے عہد میں حدیث سے بے اعتنائی بہت زیادہ تھی اور فقہی تصلب پوری شدت سے تھا،اسی لیے شاہ صاحب نے حدیث کی اہمیت واضح کی اور لوگوں کو کتاب وسنت کے مطالعہ کرنے اور ان کو سب سے پہلا مقام دینے اور ہر اختلافی امر میں کتاب وسنت کو مرجع تسلیم کرنے کی طرف توجہ دلائی، 63/ سال کی عمر میں 1176ھ میں علم وحکمت کا آفتاب نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، لیکن ان کی تصنیف وتالیف کی برقی قمقموں سے آج بھی علم وفن کے مدرسے روشنی ہیں۔

شاہ صاحب کی تصنیفات ایک سو سے زائد ہیں، جن میں سے پچاس کے قریب تالیفات کا پتہ چلتا ہے، شاہ صاحب کی تفسیر، حدیث، تصوف اور دوسرے اسلامی موضوعات پر ایسی تالیفات ہیں جن کو دیکھ کر علوم ظاہر وباطن میں شاہ صاحب کی امامت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں، شاہ صاحب کی تصنیفات میں ”فتح ا لرحمن ترجمة القرآن“ سب سے اہم ہے، یہ قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ ہے اور یہ قرآن کریم کا کسی دوسری زبان میں پہلا ترجمہ ہے، اس پر شاہ صاحب کو بہت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑاتھااور مصائب وآلام کی پرخار وادیوں سے بھی گزرنا پڑا تھا، اصول تفسیر میں” الفوز الکبیر“ اور حدیث میں ”المسوی من احادیث الموطا“ اور” ا لمصفی شرح موطا“ اور” تراجم ابواب بخاری“ تصوف میں سطعات، ہمعات، لمعات، انتہائی قابل قدر اورغیر معمولی شہرت کی حامل تصانیف ہیں۔   ★★سلطنت عثمانیہ کا پرچمابنِ سیفپاکستان کا پرچم★★  06:44، 10 اکتوبر 2022ء (م ع و)