تبادلۂ خیال:راجپوت

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تصدیق کے بعد مجوزہ اضافہ[ترمیم]

آریائوں اور قدیم ہندوئوں کے زمانے میں جو راجہ ہندوستان کے حکمران ہوتے تھےـ وہ کشتری تھے۔ بدھ مت کے زمانے میں بھی جیسا کہ بدھ خود تھاـ اکثر راجا اور سردار کھشتری ہوتے تھے۔ گو بعض مثلاً چندر گپت اور اشوک - شودر تھے بدھ مت کے عہد کے وسط سے لے کر مسیح کی پیدائش سے تقریباً پانچ سو سال بعد تک شمال مغربی ہند کے علاقوں میںستھین یا سکا قوم کے راجا راج کرتے تھے۔راجہ بکرم اجیت کے زمانے سے ستھین اور کھشتری راجائوں اور ان کی سلطنتوں کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔بجائے ان کے 600ء سے 120٠ء تک جدھر نظر جاتی ہے راجپوت راجائوں کے راج دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راجپوت کون تھے؟راجپوتوں کا اپنا دعوی ـ یہ ہے کہ ہم کھشتری ہیں۔ رام چندر جی اور سری کرشنسے اور قدیم زمانے کے دوسرے کھشتری خاندانوں سے ہمارے نسب نامے ملتے ہیں۔ اور بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ یہ دعوی صحیح ہے۔ لفظ راجپوت کے معنی ہیں راجائوں کے بیٹے یا راجائوں کی اولاد زمانہ سلف کے کھشتری واقعی راجائوں کے بیٹے پوتے ہوتے تھے اور ایسا بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ دفعتاً کھشتریوں کی طاقتور قوم کا خاتمہ ہوگیا ہو۔بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ راجپوت ستھین یا سکا قوم سے ہیں جو سن عیسوی کے ابتدائی پانچ سو سال میں بڑی کثرت سے شمالی مغربی ہند میں آکر آباد ہوئی۔ اور اس فرقہ اہل یونان سے ہیں جو بھگشی میں آباد تھا۔ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے اور اڑیسہ کی خاص خاص قومیں مثلاً وہ جو دہلی، قنوج اور ہندوستان کے مرکز میں حکمراں تھیں اصل کھشتری نسل سے ہیں اور بعض دیگر قومیں جن کا نام ابتدا میں راجپوتا نے. مالوے اور گجرات میں سننے میں آتا تھا بعد میں سکا کے خیل کے خیل حملہ آور ہو کر آباد ہوئے خدا کی اولی. نسل سے ہیں۔ راجپوت بڑی شریف اور اعلی، قوم سے ہیں۔ بڑے بہادر ہیں۔ چونکہ یہ لوگ جنگ و جدال کے بڑے مرد ہیں وہ بدھ کے رحم دلانہ دھرم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ بدھ کہتا ہے کہ نہ کسی جاندار کو مارو اور نہ ستائو۔ انہوں نے جہاں تک ہوا برہمنوں کی مدد کی، بدھ مت کو دبایا اور پرانے ہندو مذہب کو از سر نو پھیلایا۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں بہت سے راجپوت راجا ہوئے ہیں۔ اس سبب سے کہہ سکتے ہیں کہ 600ء سے 120٠ء تک راجپوتوں کی سلطنت کا زمانہ ہے۔ آریائی عہد میں گجرات کو سری کرشن کی دوار کا کہتے تھے۔ بعد میں اس کا نام سورٹھ یا سوراشٹر ہوا۔ یہاں 416ء سے لے کر تقریباً300 سال تک بلبھی خاندان کے راجا راج کرتے تھے۔ جب چینی سیاح ہیوان سانگ سوراشٹر میں آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ ایک زبردست سلطنت ہے، جہاں بلبھی راجائوں کا راج ہے۔ ملک خوشحال اور مالدار ہے اور دور دراز ملکوں سے تجارت ہوتی ہے۔ 746ء سے مسلمانوں کے زمانے تک سوراشٹر میں راجپوتوں کی عملداری تھی۔ یہ چالوکیہ کہلاتے تھے۔ انھلواڑہ یا انھل پٹن جس کو اب فقط پٹن کہتے ہیں، ان کی راجدھانی تھی۔ + راجپوت جس کے معنی راجاؤں کے بیٹے کے ہیں اور وہ اپنا سلسلہ نسب دیو مالائی شخصیات سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدا اور اصلیت کے بارے میں بہت سے نظریات قائم کئے گئے ہیں۔ ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ ویدک دور کے چھتری ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ سیھتن اور ہن حملہ آوروں میں سے بعض رجپوتانہ میں مقیم ہوگئے تھے اور انہوں نے اور گونڈوں اور بھاروں کے ساتھ برہمنی مذہب کو قبول کرکے فوجی طاقت حاصل کر لی تھی۔ − مالوے میں بکرم اجیت کی اولاد حکمراں رہی۔ اس خاندان کا سب سے بڑا راجہ بکرماجیت کے بعد شلا دتیہ نامی تھا۔ جس کا حال چینی سیاح ہیوان سانگ کے سفرنامے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے بعد راجپوتوں کا دور شروع ہوا۔ بعد کے زمانے میں مالوہ راجپوتوں کی نہایت زبردست سلطنتوں میں شمار ہوتا تھا۔ اڑیسہ قدیم زمانے میں اندھر کی سلطنت کے نام سے مشہور تھا۔ 474ء سے 1132ء تک یہاں کیسری خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ بھوونیشور ان کا پایہ تخت تھا جہاں انہوں نے بڑے بڑے خوبصورت اور شاندار مندر بنائے۔ اس خاندان کے اول راجہ کا نام یتاتی کیسری تھا۔ اس کی راجدھانی کے نام سے ظاہر ہے کہ گو زمانہ سلف میں اڑیسہ میں بدھ مت کا دور تھا اس وقت وہاں سارے ملک میں ہندو مذہب پھیلا ہوا تھا اور شوجی کی پرستش ہوتی تھی۔کیسری راجائوں کے بعد گنگا پتر خاندان کا دور شروع ہوا۔ یہ بھی راجپوت تھے۔ 1132ء سے 1534ء تک انہوں نے اڑیسہ پر حکومت کی۔ 1560ء میں یہ ملک مسلمانوں نے لے لیا۔ گنگا پتر وشنو کی پرستش کرتے تھے۔ پوری میں جگن ناتھ جی کا جو مشہور مندر ہےـ وہ اسی خاندان کے ایک راجہ کا بنایا ہوا ہے۔دریائے نربدا سے لے کر دریائے کرشنا تک سارے دکن میں سات سو برس یعنی 500ء سے 1200ء تک چالوکیہ خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ اس خاندان کی دو شاخیں تھیں ـ مشرقی شاخ کا پایہ تخت دریائے گوداوری پر راج مندری تھا۔ مغربی شاخ کا پایہ تخت مہاراشٹر میں کلیان تھا۔ اب ان راجائوں کے فقط نام ہی نام باقی ہیں۔ میسور کے ملک میں 900ء سے 1310ء تک بلال خاندان کے راجپوت فرمانروا تھے۔ ان کا پایہ تخت دوار سمدر تھاـ جہاں انہوں نے ہلے بید کا مشہور مندر تعمیر کیا۔ مسلمانوں نے اس خاندان کو شکست دی اور خود ملک کے حاکم اور فرمانروا بنے۔تلنگانہ میں تقریباً 1100ء سے لے کر 1323ء تک ککاتی خاندان کے راجپوت راج کرتے تھے۔ ان کا پایہ تخت وارنگل تھا۔ 1323ء میں مسلمانوں نے وارنگل لے لیا اور اس کو اپنا دارالخلافہ بنا کر گولکنڈے کی سلطنت قائم کی۔ بنگالے میں پانچ سو برس تک پال اور سین خاندانوں کے راجا راج کرتے تھے۔ 800ء کے قریب سے لے کر 1050ء تک پال راجائوں نے راج کیا اور 1050ء سے 1300ء کے قریب تک سین خاندان کا دور دورہ رہا۔ اس کے بعد یہ ملک بھی مسلمانوں نے فتح کر لیا۔دیوگری واقع مہاراشٹر میں 1100ء کے قریب سے ١٣٠٠ء کے قریب تک یادو بنسی راجپوت راج کرتے تھے۔ یہ کہتے تھے کہ ہم سری کرشن کی نسل سے یادو بنسی کھشتری ہیں۔ 130٠ء کے قریب مسلمانوں نے دیوگری کو فتح کر کے اس کا نام دولت آباد رکھ دیا۔راٹھورـ راؤ بهتى راجپوتوں کے مشہور خاندان ہوئے ہیں۔ 1190ء کے قریب قنوج ـ اجمیر اور دہلی میں ان کی حکومت تھی۔--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 00:33, 11 جولا‎ئی 2015 (م ع و)

تلوکر جٹ بھی راجپوت ہیں جو میانوالی بھکر خوشاب اور ہری پور کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہیں.. اشفاق تلوکر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:36, 11 دسمبر 2017 (م ع و)

معتبر حوالہ جات کی عدم فراہمی[ترمیم]

تحریر میں حوالہ جات مناسب جگہ پر اور مضمون میں مناسب مقام پر نہیں دیے گئے، کچھ جگہوں پر حوالہ جات سرے سے غائب ہیں اور حوالہ جات کے حصہ میں میں موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے حوالہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ محمد جہانزیب عادل (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:55، 16 نومبر 2022ء (م ع و)