تبادلۂ خیال:رچرڈ فرانسس برٹن

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سفر مکہ و مدینہ[ترمیم]

رچرڈ برٹن کا سفرنامہ حج پڑھ رہا ہوں۔ ایک تو اس کی تحریر بے حد دلچسپ ہے۔ پھر اس نے سفر پونے دو سو سال پہلے کیا تھا، یعنی 1853 میں۔ مزید یہ کہ میں نے بھی اسی کی طرح حج کیا تھا، یعنی نجات کے بجائے زیارت کی خواہش کے ساتھ۔ بہت لطف آرہا ہے۔ جو لوگ نہیں جانتے، ان کے لیے مختصر تعارف کروادیتا ہوں۔ وہ انگریز تھا۔ دنیا بھر کی زبانیں جانتا تھا۔ متعدد مشرقی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جن میں کاماسترا اور الف لیلہ مشہور ہیں۔ بھیس بدل کر حجاز مقدس گیا اور حج کے علاوہ مدینے کی زیارت کی۔ سر پہلے ہی منڈوالیا تھا اور داڑھی لمبی بڑھالی تھی۔ کوئی رنگ یا مختلف لہجے پر حیرت کرتا تو کہتا کہ میں پشتون ہوں۔ اس نے لکھا ہے کہ مدینے کے روضے میں قبروں کی ترتیب اس طرح ہے، رسول پاک، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، پھر حضرت عیسی کے لیے قبر کی جگہ خالی ہے، اور پھر بی بی فاطمہ۔ برٹن کے مطابق کہ بی بی فاطمہ کی قبر رسول اور خلفا کی قبر کی چاردیواری سے باہر الگ ان کے حجرے میں تھی۔ اس نے ایک روزن سے قبر کی زیارت بھی کی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اب یہ صورت نہیں۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علی نے بی بی کا جنازہ رات میں پڑھ کر خاموشی سے تدفین کردی تھی کیونکہ یہ بی بی کی وصیت تھی کہ ان کی قبر کی خبر کسی کو نہ دی جائے۔ آپ جنت البقیع جائیں گے تو ہر قبر کے قریب جاسکتے ہیں، سوائے ایک قطعے کے، جہاں رکاوٹیں لگاکر شرطے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں چھ قبروں کے نشان ہیں۔ چار قبریں اہل تشیع کے آئمہ یعنی امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی ہیں۔ پانچویں قبر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بی بی فاطمہ کی قبر ہے لیکن بعض روایات کے مطابق وہ حضرت علی کی والدہ کی قبر ہے۔ ان کا نام بھی فاطمہ تھا۔ چھٹی قبر رسول کے چچا عباس کی ہے۔ ابن جبیر نے اپنے سفرنامے میں اس مقام پر صرف دو قبروں کا ذکر کیا ہے یعنی امام حسن اور حضرت عباس کی قبر، جن پر گنبد بنا ہوا تھا۔ برٹن نے ابن جبیر کا حوالہ دیا ہے لیکن اس نے چھ قبروں کی زیارت کی۔ ابن جبیر کا زمانہ برٹن سے سات سو سال پہلے کا ہے۔ اس کا تعلق اندلس یعنی اسپین سے تھا۔ برٹن نے مدینے میں ایک مقام کے بارے میں بتایا ہے کہ اسے فاطمہ کی کیاری کہتے تھے۔ ابن جبیر کے سفرنامے میں درج ہے کہ اس کے زمانے میں وہاں پندرہ درخت تھے لیکن برٹن لکھتا ہے کہ اس کے وقت میں بارہ رہ گئے تھے۔ اس کے قریب ایک کنواں تھا اور اس کا نام بھی زمزم تھا۔ ممکن ہے کہ اب بھی ہو۔ برٹن احد کی طرف بھی گیا۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ کا مقبرہ پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ وہاں مسجد تھی اور درخت بھی لگے تھے۔ اب وہاں صرف چار دیواری ہے اور کوئی درخت نہیں۔ سعودیوں نے جس طرح جنت البقیع کے روضے شہید کیے، حضرت حمزہ کا روضہ بھی شہید کردیا تھا۔ میں جب پہلی بار مدینہ گیا تو ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ جنت البقیع کے مرکز میں ایک قبر کو حضرت عثمان بن عفان کی قبر بتایا جاتا ہے لیکن وہ عثمان بن مظعون کی قبر ہے۔ برٹن کے سفرنامے میں اس کی تصدیق ہوئی۔ وہ مہاجرین میں سے پہلے شخص تھے جن کا مدینے میں انتقال ہوا۔ روضہ نبی کے باہر ایک بھکاری برٹن کے پیچھے پڑگیا اور بھیک لے کر ٹلا۔ آپ یہ سن کر ہرگز حیران نہیں ہوں گے کہ وہ ہندوستانی تھا۔ برٹن کا کہنا تھا کہ مدینے میں ہندی کم ہیں لیکن بازاروں میں اردو سنائی دیتی ہے۔ ہندوستانی عورتیں کھلے منہ پھرتی ہیں اور چست پاجامے پہنتی ہیں جس کی وجہ سے عرب ان سے حقارت سے پیش آتے ہیں۔ ااس کی یہ بات کچھ لوگوں کو حیرت اور افسوس میں مبتلا کرسکتی ہے کہ مدینے میں شراب پی جاتی تھی۔ ترک ایک قسم کی عراقی شراب بناتے تھے۔ برٹن بے چارے کو مدینے کے پورے قیام میں صرف ایک بوتل پر گزارہ کرنا پڑا۔(مبشر زیدی) امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:12، 23 جولائی 2022ء (م ع و)