تبادلۂ خیال:قومی احتساب بیورو

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پرانا مسودہ[ترمیم]

قومی احتساب بیورو پاکستان کا سرکاری ادارہ ہے، جس کا کام بدعنوانی کے خلاف تفتیش و تحقیق ہے۔ اس کے انگریزی نام (National Accountability Bureau) کا مخفف نیب (NAB) ہے۔ یہ 16 نومبر، 1999ء کو صدارتی فرمان کے اجرا کے ذریعہ معرض وجود میں آیا۔ جو پرویز مشرف کے 12 اکتوبر، 1999ء کی فوجی تاخت کے فوراً بعد ہوا۔

اپنی ویب سائٹ کے مطابق اس کا نصب العین یہ ہے:

بدعنوانی کو ختم کرنے کا کام، بذریعہ بچاؤ، آگاہی، نگرانی، اور حربی، کا احاطہ کرتی ہوئی جامع طریق[1]

چیئرمین نیب[ترمیم]

چیئرمین نیب کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟

اس حوالے سے قانون میں طریقہ کار درج ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے سب سے پہلی ترجیح ایسے شخص کو دی جاتی ہے جو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس یا جج یا پھر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہو۔

دوسرے نمبر پر پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل یا دیگر مسلح افواج میں سے ان کے عہدے کے برابر کوئی ریٹائر افسر بھی اس عہدے کے اہل ہوتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر بائیسویں گریڈ سے ریٹائر ہونے والے وہ سرکاری افسران ہیں جو نیب کے چیئرمین کے عہدے کے لیے اہل سمجھے جاتے ہیں۔

نامزد افراد کے ناموں پر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مشاورت کرتے ہیں اور جس نام پر دونوں کو اتفاق ہو، وہی شخص ایک مخصوص مدت کے لیے قومی احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔[2]

تنقید[ترمیم]

سپریم کورٹ کے ریمارکس[ترمیم]

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو ملک میں بدعنوان عناصر کا سہولت کار بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے قومی احتساب بیورو کے 'پلی بارگین' کے اختیار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دیے۔[3]

نیب افسران کا حصہ[ترمیم]

تفتیش کے مرحلے میں پلی بارگین ہونے کے بعد اس معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر کو وصول ہونے والی رقم کا 25 فیصد حصہ ملتا ہے۔[4]

مشتاق احمد ریئسانی[ترمیم]

بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق احمد ریئسانی پر 40 ارب روپے کی خردبرد کا الزام تھا۔ نیب نے صرف 2 ارب روپے لے کر اُسے چھوڑ دیا۔ اُس کے گھر چھاپہ مارنے پر 75 کروڑ روپے کی رقم اور سونا برآمد ہوا تھا۔[5]

۔<

جسٹس یحییٰ آفریدی کا بیان[ترمیم]

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو کوئی ایگزیکیوٹنگ ایجنسی نہیں ہے جو لوگوں کے معاملات طے کریں اور ان کے لیے وصولیاں کریں۔ چیف جسٹس اور جسٹس اکرام اللہ خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ ریمارکس ایڈووکیٹ شمائل احمد بٹ کی وساطت سے اسٹیل ملز مالکان سے پیسکو کی واجب الادا رقم کی ریکوری کے خلاف دائر رٹ درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیے۔[6]

۔

=

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. About us - National Accountability Bureau
  2. "چیئرمین نیب کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟"۔ نئے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کون ہیں اور انھیں کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد۔ 5 مار چ 2023  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت);
  3. "نیب کرپشن کر لو اور کرپشن کرالو کے اشتہارات کیوں نہیں دیتا؟"
  4. نیب: پلی بارگین کیوں اور کیسے؟
  5. نیب کا مشتاق رئیسانی کو دو ارب میں چھوڑنے کے فیصلے کا دفاع
  6. نوائے وقت

_ نور جی __☺_ 12:28، 7 مارچ 2023ء (م ع و)