تبادلۂ خیال:لالہ لاجپت رائے

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تصورِ پاکستان کے خالق[ترمیم]

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یا لالہ لاج پت رائے؟

’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ از زاہد چوہدری میں درج ہے کہ ’لالہ لاج پت رائے نے 1924 میں لاہور کے ایک اخبار ’ٹربیون‘ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پہلی مرتبہ برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا، جس کے مطابق مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی، صوبہ سرحد، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال۔ اگر ہندوستان کے کسی اور علاقے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد یکجا ہو کر ان کا صوبہ بن سکے تو ان کی بھی اسی طرح تشکیل ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیر مسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘ اس منصوبے میں بلوچستان کا ذکر نہیں تھا۔ یہ حقیقت دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1947 میں جو پاکستان وجود میں آیا وہ لالہ لاج پت رائے کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ اس لیے ایک رائے یہ بھی دی جاتی ہے کہ تصور ِ پاکستان کا ابتدائی خالق علامہ اقبال نہیں بلکہ آریہ سماج کا ایک ہندو رہنما لالہ لاج پت رائے تھا۔

یہ لالہ لاج پت رائے کون تھا اور اس نے یہ تصور کیوں دیا تھا ؟ لالہ لاج پت رائے کی کتاب ’ینگ انڈیا‘ مطبوعہ 1916 میں مصنف کے تعارف کے طور پر لکھا ہے کہ لالہ لاج پت رائے 1865 میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں وکالت کی اور پھر آریہ سماج سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے لاہور سے ہفت روزہ پنجابی ’آریہ گزٹ‘ جیسے اخبارات شروع کیے۔ 1914 میں وہ وکالت ترک کر کے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوگۓ۔

علامہ اقبال نے 29 دسمبر 1930 کو الہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو خطبہ دیا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کا تصور اس میں دیا گیا تھا۔ علامہ تب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے۔ اس خطبے میں علامہ نے کہا تھا کہ ’مسلمانوں کا یہ مطالبہ قطعاً منصفانہ ہو گا کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم انڈیا قائم کیا جائے میں دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ خواہ یہ سلطنت ِ برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت ِ برطانیہ کے باہر ہو اور ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل بالآخر مسلمانوں کی یا کم از کم شمالی مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘ علامہ کے اس خطبے میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے کسی آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کا تصور نہیں پیش کیا گیا تھا بلکہ ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق کے اندر ایک مسلم ریاست کا تصور دیا گیا تھا اس میں آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں، بنگال اور کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس لیے علامہ نے ڈاکٹر ایڈورڈ ٹامسن (جو برطانوی سکالر اور صحافی تھے اور ٹیگور کے انگریزی میں تراجم کر چکے تھے) کے نام چار مارچ 1934 کو لکھے گئے ایک خط میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ جو تجویز میں نے اپنے خطبے میں پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبے کے قیام کی تجویز تھی جو آئندہ کی انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔‘ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد سے چھ سال پہلے کانگریس کے صدر لالہ لاج پت رائے پاکستان کا تصور دے چکے تھے۔ ان کی شہرت ہندوستان کے قومی رہنما کے طور پر ہو چکی تھی اور انگریز حکمران ان سے خائف تھے کیونکہ وہ انہیں غاصب اور ہندوستان کو ایک عظیم سلطنت اور تہذیب کے طور پر پیش کرتے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی عظمت رفتہ کی بحالی اور انگریز اقتدار کے خلاف پانچ کتابیں لکھ رکھی تھیں، جن کی وجہ سے 1907 میں انہیں خفیہ طور پر غائب کر کے برما میں چھ ماہ تک قید رکھا گیا۔ ان پر غداری اور بغاوت کا الزام تھا مگر بعد ازاں انہیں بری کر دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران وہ امریکہ چلے گئے جہاں ہندوستان کی آزادی کے لیے 32 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تیار کی جسے امریکی سینیٹ میں بحث کے لیے منظور کر لیا گیا۔ 1919 میں واپس انڈیا آئے۔ 1920 میں انہیں کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1921 سے 1923 کا عرصہ انہوں نے جیل میں گزارا۔ 1928 میں جب برطانوی حکومت کی جانب سے ہندوستان کے سیاسی حالات کے بارے میں ایک کمیشن سر جان سائمن کی قیادت میں ہندوستان بھیجا گیا تو ہندوستان کی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس بنا پر اس کا بائیکاٹ کیا کہ اس میں ایک بھی ہندوستانی کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ جب کمیشن نے 30 اکتوبر 1928 کو لاہور کا دورہ کیا تو لالہ لاج پت رائے کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا جس میں مظاہرین نے سیاہ پرچم لہرا کر ’سائمن واپس جاؤ‘ کے نعرے لگائے۔ انگریز ایس پی جیمز سکاٹ نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور بالخصوص لالہ لاج پت رائے پر شدید تشدد کیا جس کی وجہ وہ سے انہیں شدید زخم آئےاور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 17 نومبر کو انتقال کر گئے۔ انہوں نے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’مجھ پر لگنے والی ہر ضرب برطانوی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔‘ لالہ لاج پت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے دس دسمبر 1928 کو ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک آرمی کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں بھگت سنگھ بھی شریک ہوئے۔ 17 دسمبر کو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی راج گرو نے انگریز ڈی ایس پی سانڈرز کو جیمز سکاٹ سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر بھگت سنگھ نے دہلی میں مرکزی اسمبلی پر بم پھینک کر خود گرفتاری دے دی۔ لاہور سازش کیس جس میں ایس پی سانڈرس کو قتل کیا گیا تھا اس کی پاداش میں بھگت سنگھ کو سات اکتوبر 1930 کو سزائے موت سنائی گئی۔ لالہ اوتار نرائن ایڈووکیٹ جن کے بیٹے اندر کمار گجرال بھارت کے وزیراعظم بنے، انہوں نے 1931 میں لالہ لاج پت رائے کے نام سے جہلم میں ایک لائبریری بنائی تھی جسے اب علامہ اقبال پبلک لائبریری کہا جاتا ہے (بحوالہ تاریخ ِ جہلم صفحہ 322مطبوعہ 2017 از انجم شہباز)۔ علامہ اقبال کے خطبہ الہ ٰآبادسے پہلے30 دسمبر 1929 کو مسلم لیگ کے رہنما نواب ذوالفقار علی خان شمالی ہند اور مشرقی بنگال میں ایک مسلم صوبے کے قیام کی بات کر چکے تھے تاہم مسلمانوں کے لیے ایک وطن کا تصور سب سے پہلے لالہ لاج پت رائے نے ہی دیا تھا۔ جس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی تھی کہ ’مجھے ہندو مسلم اتحاد کا مسئلہ پریشان کر رہا ہے۔ میں سات کروڑ مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کے ساتھ افغانستان، وسطی ایشیا، عرب، میسو پوٹیمیا اورترکی کے مسلح جتھے مل گئے تو ان کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں ہو گی۔‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب لالہ لاج پت رائے جیسے کانگریسی رہنما یہ لکھ رہے تھے تب قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے۔ مزید دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مارچ 1947 میں آل انڈیا کانگریس کی مجلس عاملہ نے پنجاب کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے حق میں جو قرارداد منظور کی تھی وہ بھی لالہ لاج پت رائے کی سکیم کے مطابق تھی اور پھر اپریل 1947 میں سردار پٹیل، جواہر لال نہرو اور گاندھی نے برصغیر کی تقسیم جس اصول کی بنیاد پر منظور کی تھی وہ بھی بالکل وہی اصول تھا جو لالہ لاج پت رائے نے 1924 میں پیش کیا تھا۔ تحریک پاکستان کے نامور رہنما ایم اے ایچ اصفہانی (بحوالہ ’زندہ رود‘ از ڈاکٹر جاوید اقبال) نے بھی لکھا ہے کہ ’بلاشبہ علامہ اقبال کی فکر، شاعری اور خطبات اس سمت اشارہ کرتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔‘ سجاد اظھر --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:19، 16 اگست 2020ء (م ع و)