تبادلۂ خیال صارف:علامہ دانش حنفی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

از علامہ دانش حنفی

(کیا حضور غریب نواز رحمۃ اللہ

علیہ اور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی)
چند غیر معتبر کتابوں میں اس طرح کے واقعات درج ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور غوث پاک اور سرکار غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے دونوں بزرگوں کی آپس میں ملاقات ثابت نہیں ہے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اس پر سارے مؤرخین کا اتفاق ہے سرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ  کا وصال 561 ھ میں ہوا
اس پر بھی قریب قریب اتفاق ہے کہ حضور غریب نواز نے 15 سال کی عمر سے علم ظاہر کے حصول کے لیے سفر کیا ایک مدت تک آپ سمر قند وبخارا میں علم حاصل کرتے رہے  علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد مرشد کی تلاش میں نکلے پھر بیس سال تک مرشد کی خدمت میں حاضر  رہے  بیس سال کے بعد خلافت سے سرفراز فرمائے گئے پھر مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی اب حساب لگائے کی 15 سال کی عمر تک حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے وطن میں رہے اور بیس سال تک  علوم ظاہر طلب فرماتے رہے تو یہ بیس اور پندرہ 35 سال ہوگئے  537 ہجری میں ولادت ہوئی 35 سال تک  علوم ظاہر کی طلب میں رہے 537+ 35 یعنی 572 ھ  میں آپ نے  عراق کا رخ کیا جب کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 561 میں ہو چکا تھا یعنی حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے جب عراق کا رخ کیا اس سے گیارہ سال پہلے ہی حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوچکا تھا پھر ملاقات کیسے ہوئی
(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ نمبر 128)
اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ اور حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ثابت نہیں ہے  اور جب ملاقات ہی ثابت نہیں تو تمام روایت غیر معتبر ہیں جن میں ملاقات کا ذکر ہے مثلا مردہ قوال کا واقعہ  اور فجر کی نماز کا واقعہ جس میں غریب نواز  غوث پاک کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے لوگوں کو جمع کرتے ہیں یہ تمام روایت غیرمعتبر بے سند ہیں لہذا ایسی روایات کرنے سے بچا جائے
واللہ اعلم بالصواب
دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

خوش آمدید![ترمیم]

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب علامہ دانش حنفی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 205,116 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 14:50، 23 جنوری 2023ء (م ع و)

حضرت معاویہ پر اعتراض کا جواب[ترمیم]

*کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی موت پر خوش ہوۓ  حدیث کی مخالت کرتے تھے حضرت حسن کو آگ کا انگارہ کہنے پر خاموش کیوں رہے*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اس بارے میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے کہا تم کیا ان کی موت کو مصیبت سمجھتے ہو,

  نیز ان کی مجلس میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو آگ کا انگارا کہا گیا۔

لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے،

اور مقدام نے کہان تمہارے گھر میں ریشم سونا درندے وغیرہ ہیں کیا یہ حدیث کی مخالفت نہیں یے،

ان سب کا جواب عنایت فرمائیں

سید راکب علی،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

آپ نے جو تحریر مجھے بھیجی ہے، اس کا لکھنے والا یہ ثابت کرنا چاہتا یے، جیسا کی تحریر کے اوپر لکھا ہوا بھی ہے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی موت پر کون خوش ہوا حرام کام کس کے گھر میں ہوتا تھا،

یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں حرام کام ہوتا تھا اور وہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی موت ہر خوش ہوۓ،،

آپ نے جو تحریر ارسال کی اس میں لکھا یے ابو داود کے حوالہ سے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ان کی موت کو تم مصیبت سمجھتے ہو

اول تو یہ ترجمہ ہی غلط کیا ہے حدیث میں الفاظ اس طرح ہے فقال رجل اترھا مصیبتہ۔ یعنی جب حضرت معاویہ کو انتقال کی خبر دی  تو وہاں موجود ایک شخص نے کہا کیا تم ان کی موت کو مصیبت سمجھتے ہو

تو حدیث میں ایک مرد کا ذکر ہے نہ کی حضرت معاویہ کا کیا موت کو مصیبت سمجھتے ہو کہنے سے یہاں یہ مراد ہے موت تو مومن کے لیۓ توحفہ ہے نہ کی مصیبت کہ موت کے سبب تو گناہ معاف ہوتے ہیں نبی علیہ السلام کی زیارت ہوتی ہے نیک انسان کے لیۓ موت مصیبت نہیں بلکہ تحفہ ہے اور حضرت حسن تو عادل متقی  شخص ہیں۔

اس پر وہ شخص کہتا ہے ہاں مصیبت سمجھتا ہوں کہ وہ نبی علیہ السلام کے مشابہ ہیں انکو نبی پاک نے گود میں بٹھایا  ان کا مصیبت کہنا ان معنی میں ہے کے نبی پاک کے وہ مشابہ تھے جب نبی پاک کی زیارت کا دل کرتا تھا تو ہم حضرت حسن کو دیکھ لیا کرتے تھے لیکن آج ان کا انتقال ہو گیا تو یہ ہمارے لیۓ مصیبت ہی ہے۔

تحریر لکھنے والے نے گمراہ کرنے کے لیے حضرت معاویہ کا نام لکھا ہے اس کے غلط معنی بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے حضرت معاویہ کے لیے دل میں کتنی دشمنی ہے

مقدام نے جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا ریشم سونا درندے وغیرہ میں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں اس کا جواب یہ ہے مقدام نے یہ نہیں کہا کی آپ اس کو استعمال کرتے ہیں  

بلکہ کہا میں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں اب ظاہر بات ہے اگر گھر میں سونا ریشم ہو اور اس کو استعمال مرد نہ کرے تو  اس کا مطلب یہ تو نہیں وہ حرام کام کرتا ہے یا حدیث کا مخالف ہے۔

ایسے ہی حضرت امیر معاویہ کے گھر میں سونا ریشم وغیرہ ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا وہ اس کو استعمال کرتے تھے بلکہ گھر میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور عورتوں کے لیے سونا ریشم کا استعمال جائز یے۔

تو یہ اشیائے ان کے لیے تھی نہ کی خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس کو استعمال کرتے تھے اگر یہ مان بھی لیا جاۓ کی وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی استعمال کرتے تھے  

تو اس کا جواب یہ ہے  آپ ان چیزوں کو جنگ کے وقت استعمال کرتے ہوں یا اس کے استعمال کرنے کا جو جائز طریقہ ہے اس جائز طریقہ سے استعمال کرتے ہوں ان جائز مقامات پر استعمال کرتے ہوں جہاں اجازت دی گئ ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو آگ کا انگارہ کہا گیا تو اس کا جواب یہ ہے۔

اس روایت میں لفظ جمرہ آیا ہے جس کے معنی ہیں آگ کا انگارہ

مگر اس روایت میں آگ کا انگارہ مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مضبوط طاقتور کے معنی ہے جب متحد ہونے والے لوگ ایک طاقت بن جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے ھم جمرتہ وہ مضبوت و طاقتور لوگ ہیں

اس معنی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت حسن حضرت معاویہ کے مقابل پہاڑوں کی مانند لشکر لیکر پہنچے تو حضرت عمر و بن عاص نے حضرت معاویہ سے کہا میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں کے جو اپنے مقابل کو پسپا کیۓ بغیر واپس نہیں جاۓ گا۔ یعنی وہ بہت ہی زیادہ مضبوط طاقتور لشکر ہیں اسی لیۓ حضرت حسن کو جمرتہ کہا اور یہاں  مضبوط اور طاقتور کے معنی ہے۔ اس وجہ سے حضرت معاویہ خاموش رہے

ورنہ یہ بات تو غیر بھی جانتے ہے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما

سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلقات بہت اچھے تھے آپ ان

حضرات کو تحفے دیا کرتے تھے ایک بار 40 لاکھ روپے اور ایک بار دونوں حضرات کو بیس بیس لاکھ روپے

عطا فرماۓ

یہ بات خود مخنف ابی مقتل میں ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تحفے دیا کرتے تھے۔

اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتنے سخی تھے اس بات کا پتہ اسی حدیث سے چلتا ہے جو حدیث بطور اعتراض پیش کی ہے۔ جب حضرت معاویہ نے ان حضرات کی حضرت حسن سے اتنی شدید محبت دیکھی تو

مقدام اور ان کے ساتھیوں کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خوب مال عطا کیا اس کا ذکر اعتراض کرنے والے نے نہیں کیا ذکر نہ کرکے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے،

، اب میں پوری حدیث ذکر کرتا ہوں ،،

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَحِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِ يكَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ  أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَتَرَاهَا مُصِيبَةً ؟ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْأَسَدِيُّ:‏‏‏‏ جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ الْمِقْدَامُ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ أَنَا صَدَقْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَدِّقْنِي وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَذِّبْنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُعَاوِيَةُ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ خَالِدٌ:‏‏‏‏ فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَا حِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَس

مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر انا لله وانا اليه راجعون پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا:  یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا: آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے، اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انہوں نے کہا: معاویہ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں، اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے: میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا: ہاں۔ پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے، پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا: معاویہ! قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا: مقدام! مجھے معلوم تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں: پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

9 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:11، 19 فروری 2023ء (م ع و)

امام اعظم کے مقلد کے لیۓ مغفرت کی بشارت[ترمیم]

ا(مام اعظم کے مسلک کی پیروی کرنے والوں کے لیۓ مغفرت کی بشارت)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ  آپ اس درجہ عابد و زاہد، متقی اور صاحب ورع تھے کہ چالیس سال تک آپ نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی اور آپ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اپنے رب عزوجل کا سوبار خواب میں   دیدار فرمایا، آپ نے اپنے آخری بار حج میں حِجَبَۃُ الْکَعْبَہ  محافظین کعبہ سے کعبہ کے اندر داخل ہو کر اندرون عمارت کعبہ نماز ادا کرنے کی اجازت چاہی آپ اندر داخل ہوئے اور دوستونوں کے درمیان عالَمِ شوق میں صرف داہنے پیر پر کھڑے ہو کر بایاں پیر سیدھے پیر کے اوپر رکھ لیا یہاں تک کہ اسی حالت میں قرآن پاک نصف پڑھ لیاپھر رکوع و سجدہ کیا دوسری رکعت میں بائیں پیر پر کھڑے ہو کر داہنا پیر اٹھا کر بائیں پیر پر رکھا اور نصف آخر قرآن پاک ختم فرمایا، جب سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوئے تو بے ساختہ روتے ہوئے اپنے رب عزوجل سے مناجات کی اور عرض کیا: اے میرے معبود !اس کمزور و ضعیف بندے نے تیرا کچھ بھی حقِ عبادت ادا نہیں کیا لیکن تیری معرفت حاصل کرنے میں   حق معرفت ادا کیا پس تو اس کے حقِ عبادت کی ادائیگی میں   نقصان کو اس کے کمال معرفت کے بدلے بخش دے۔ اس وقت خانہ کعبہ کے ایک گوشہ سے یہ غیبی آواز آئی: اے ابوحنیفہ !بے شک تو نے حقِ معرفت ادا کیا اور ہماری عبادت کی اور بہترین عبادت کی یقیناً ہم نے تیری مغفرت فرما دی اور اس کی بھی جس نے تیری اتباع کی اور جس نے تیرا مسلک اختیار کیا یہاں   تک کہ قیامت آجائے۔حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رحمہ اللّٰہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں   کبھی بخل نہیں کیا اور جو مجھے نہیں آتا تھا اس میں   دوسروں سے استفادہ کرنے سے میں کبھی نہیں رکا

ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض گزار ہیں اۓ اللہ ہم تیرے اس پیار عبد کے غلام ہیں اور انہیں کے مقلد ہیں ہمارا مذہب حنفی ہے یا اللہ ہماری بھی مغفرت فرما ہمیں بلا حساب بخش دے آمین

#دانش حنفی

9917420179

الدر المختار۔ المقدمتہ ج1 ص 120 ۔127 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:24، 26 فروری 2023ء (م ع و)

فقہ حنفی کی فضیلت[ترمیم]

فقہ حنفی کی فضیلت

فقہ حنفی کی فضیلت میں   بعض علماء کا ایک قول یہ ہے کہ سیدنا حضرت عیسٰی علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس مذہب کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فقہ حنفی کے پیرو ہوں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآنی احکام کا استفادہ براہِ راست حضرت خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمائیں گے، کیونکہ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہی خلیفہ ہوں گے لیکن حنفی مسلک اس اِستفادہ کے عین مطابق ہوگا۔  اسی طرح سیدنا حضرت امام مہدی  جب ظہور فرمائیں   گے تو چونکہ وہ خود مجتہد مطلق ہوں گے اس لیے وہ خود مسائل کا استنباط فرمائیں گے، لیکن ان کا استنباط بھی فقہ حنفی پر مُنطَبق ہوگا۔ یہ تمام اُمور اس امرکے شاہد ہیں کہ  ﷲ تبارک و تعالیٰ نے جمیع علماء اسلام میں امام اعظم رحمہ اللہ کو وہ فضیلت و شرافت اور وہ امتیاز و خصوصیت عطا فرمائی تھی جو آپ کے سوا کسی دوسرے امام کو نہ ملی

الدر المختار صفحہ 139

# دانش حنفی علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:31، 26 فروری 2023ء (م ع و)

صاحب ہدایہ کو تربتہ المحمدین میں دفن نہ ہونے دیا[ترمیم]

صاحب ہدایہ کو تربتہ المحمدین نامی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا

       امام اعظم  کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کا مسلک و مذہب اس درجہ شائع و ذائع ہے کہ دنیا کے تمام ممالک، بلادو اَمصار میں   پھیلا ہوا ہے بعض ممالک اور علاقے ایسے ہیں  جہاں   آپ کے مسلک کو ماننے والے بھاری اکثریت میں  ہیں   اور دیگر ائمہ ثلاثہ کے متبعین کی تعداد اقل قلیل ہے نیز علمائے احناف کی کثرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ علاقہ ماوراء النہر اور سمرقند میں   ایک ایسا قبرستان تھا جس میں   فقہ حنفی کے ماہر علماء جن میں   سے ہر ایک کا نام محمد تھا چار سو کی تعداد میں   دفن ہوئے اس قبرستان کا نام ہی’’  تُرْبَۃُ الْمُحَمَّدِین ‘‘ تھا اسی لئے جب صاحب ہدایہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی کا وصال ہوا تو وہاں   کے لوگوں   نے انہیں’’   تُرْبَۃُ الْمُحَمَّدِین ‘‘ میں   دفن نہیں   ہونے دیا کیونکہ آپ کا نام محمد نہیں  تھا حالانکہ آپ اپنے وقت کے جلیل القدر اورماہر و کامل عالم تھے، مجبوراً آپ کو اسی قبرستان کے قریب دوسری جگہ دفن کیا گیا۔ایک روایت یہ ہے کہ جن علماء نے امام اعظم علیہ الرحمہ کے مسلک و مذہب کونقل کیا اور پھیلایا ان کی تعداد چار ہزار ہے پھران میں سے ہر ایک کے تلامذہ اور روایت کرنے والے ان کی تعداد بھی اس قدر ہے اس سے بھی فقہ حنفی کی عظمت و مقبولیت اور اس کے علماء کی کثرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

شامی المقدمہ صفحہ 137

# دانش حنفی علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:36، 26 فروری 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام نے امام اعظم کو لعاب دہن عطا فرمایا[ترمیم]

نبی علیہ السلام  نے اپنا لعاب دہن امام اعظم کو عطا فرمایا

حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ

اور عرض کی یا رسول اللہ حضرت لقمان کے پاس حکمت کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا اگر وہ اپنے خرمن حکمت سے ایک دانا بیان فرماتے تو ساری دنیا کی حکمتیں آپ کے سامنے دست بستہ کھڑی ہو جاتی۔ یہ سنکر نبی علیہ السلام کو خیال آیا میری امت میں کوئ شخص ایسا ہوتا جو حضرت لقمان کی حکمت کا سرمایا ہوتا۔ حضرت جبرائیل دوبارہ حاضر ہوۓ اور عرض کی آپ کی امت سے ایک شخص ہوگا جو حکمت کے خزانے سے ہزاروں حکمتیں بیان کریگا اور امت کو احکامات سے آگاہ کریگا۔ یہ سنکر آپ علیہ السلام نے حضرت انس کو اپنے پاس بلایا اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن عنایت فرمایا اور وصیت فرمائ ابو حنیفہ کے منہ میں یہ امانت ڈالنا۔ نبی علیہ السلام کی یہ امانت امام اعظم کو حضرت انس کی وساطت سے ملی

امام اعظم صفحہ 3

نوٹ اس روایت پر محدثین نے جرح کی ہے

# دانش حنفی

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:02، 27 فروری 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے ابو حینفہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا[ترمیم]

نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے ابو حینفہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا


مسافر بن کرام یا بقول امام شامی مِسعر بن کدام کہتے ہیں   جس نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو اپنے اور اللّٰہ  عزوجل کے درمیان میں لے لیا مجھے اُمید ہے کہ پھر اسے کوئی خوف نہ رہے گا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے مجھ پر فخر فرمایا اور میں   اپنی اُمت میں سے ایک شخص پر فخر کروں گا جس کا نام نعمان اور اس کی کنیت ابو حنیفہ ہے۔ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام مجھ پر فخر کریں گے اور میں ابو حنیفہ پر فخر کروں گا جو اس سے محبت کرے گا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اس سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا


[حضرت سہل بن  عبداللّٰہ  التستری رحمۃاللّٰہ تعالٰی علیہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول  اﷲ   صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:اگر امت موسٰی اور عیسٰی میں   امام ابوحنیفہ رحمۃاللّٰہ تعالٰی علیہ جیسے ہوتے تو ان کی اُمت یہود اور نصاری نہ بن سکتی

یعنی اُن کی امت میں   اس طرح کے عقائد ضالہ باطلہ داخل نہ ہوسکتے اگر ان امتوں   میں   امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللّہ تعالٰی علیہ جیسا روشن دماغ،صاحبِ فہم و اِدراک ،صاحبِ عقل وبصیرت،علومِ دینیہ کا ماہر و کامل، صاحبِ صدق و صفااور عارف بالحق ہوتا تو وہ ان کے عقائد باطلہ اور نظریات فاسدہ ضالہ کا رد کرتا اور ان امتوں   کو ہلاکت کے گڑھے میں   گرنے سے روک دیتا

الدر المختار المقدمہ


#دانش حنفی علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:09، 27 فروری 2023ء (م ع و)

معاویہ کا پیٹ نہ بھرے اعتراض کا جواب[ترمیم]

*معاویہ کا پیٹ نہ بھرے اعتراض کا جواب*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ حضرت امیر معاویہ کو نبی کریم نے بد دعاء دی اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے،

کیا ایسی کوئی حدیث ہے، اور کیا یہ صحیح ہے کی بد دعاء دی تھی

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ غلط ہے جھوٹ ہے، کہ نبی کریم نے بد دعاء دی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو، اس بات کا جھوٹ ہونا اس بات سے ہی ثابت ہو جاتا ہے،

نبی علیہ السلام کو گالیاں دینے والے پتھر مارنے والوں کو کبھی بد دعاء نہ دی تو حضرت معاویہ کو بلا قصور بد دعاء کیوں دیں گے،،

جس روایت کا ذکر کیا گیا وہ یہ ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى قُلْتُ لِأُمَيَّةَ مَا حَطَأَنِي قَالَ قَفَدَنِي قَفْدَةً

محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی  ۔  ۔  الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں  ۔  ۔  دونوں نے کہا :  ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی ،  انہوں نے کہا :  ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی ،  انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ،  کہا :  میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ،  میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ،  کہا :  آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی  ( مقصود پیار کا اظہار تھا )  اور فرمایا :   جاؤ ،  میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔     میں نے آپ سے آ کر کہا :  وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔  آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا :   جاؤ ،  معاویہ کو بلا لاؤ ۔     میں نے پھر آ کر کہا :  وہ کھانا کھا رہے ہیں ،  تو آپ نے فرمایا :   اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔   

صحیح مسلم حدیث نمبر 6626

اس روایت میں یے اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے_ ان الفاظ سے بد دعاء دینا مراد نہیں ہے، چونکہ

کھانا دیر تک کھانا نہ تو شرعی جرم ہے اور نہ ہی قانونی جرم یے، اور پھر سیدنا ابن عباس نے حضرت معاویہ سے یہ کہا بھی نہیں کی آپ کو نبی علیہ السلام بلا رہے ہیں، صرف دیکھ کر واپس اۓ اور واقعہ عرض کردیا پھر حضرت معاویہ کا یہ فعل نہ خطا ہے ، اور نبی کریم یہ بد دعاء دیں یہ نا ممکن ہے، اتنا غور کرنے سے ہی اعتراض ختم ہو جاتا ہے،

محاورے عرب میں اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بولے جاتے ہیں،ان سے بد دعاء مقصود نہیں ہوتی ،،، اللہ عزوجل فرماتا یے،

: سورة الأحزاب  ایت 72

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا

بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اٹھا لی ، بیشک انسان ظالم و جاہل ہے،۔۔۔۔۔۔

،

انسان نے امانت الہیہ کا وہ بوجھ اٹھایا جسے آسمان زمین پہاڑ نہ اٹھا سکے اور رب نے انسان کو جاہل و ظالم کا خطاب دیا ۔ معلوم ہوا یہاں یہ کلمات غضب کے لیۓ نہیں بلکہ کرم کے لیۓ ارشاد ہوۓ ہیں۔ نبی کریم نے حضرت ابو ذر کو ایک سوال کے جواب میں فرمایا ،علی رغم انفی ابی ذر ،، ابو ذر کی ناک خاک الود ہو جاۓ کسی سے فرمایا ،تجھے تیری ماں رودے، کسی سے فرمایا یاقاتلہ اللہ اسے خدا غارت کرے، اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے متعلق جب حج میں پتہ لگا کہ انہیں ایام مخصوص آگۓ ہیں، وہ طواف وداع نہیں کرسکتی تو فرمایا

عقری حلقی منڈی باندھ وغیرہ ان سب موقع ہر اظہار پیار ہے نہ کی بد دعاء  جیسا کی ہمارے یہاں بھی پیار میں بول دیتے ہے پاگل، بیوقوف وغیرہ الفاظ بولتے ہیں، ۔۔ اور اگر یہ مان بھی لیابھی جاۓ نبی علیہ السلام نے حضرت معاویہ کو بد دعاء دی تھی تو بھی یہ دعاء حضرت معاویہ کو دعاء بنکر لگی،۔ اسی دعاء کا نتیجہ یہ ہوا اللہ نے حضرت معاویہ کو اتنا بھرا اتنا مال دولت دیا کہ انہوں نے سنیکڑوں کا پیٹ بھردیا  ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھ روپیہ انعام میں دیا  کیونکہ نبی علیہ السلام نے اللہ سے یہ عہد لے لیا تھا ،کہ جب بھی میں کسی مسلمان کو لعنت یا بد دعاء کردوں تو اسے رحمت اجر پاکی کا ذریعہ بنا دینا مسلم شریف میں ہے،،

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ سَالِمٍ مَوْلَى النَّصْرِيِّينَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنَّمَا مُحَمَّدٌ بَشَرٌ يَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ وَإِنِّي قَدْ اتَّخَذْتُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ آذَيْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ أَوْ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ كَفَّارَةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

نصریوں کے آزاد کردہ غلام سالم نے کہا :  میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ،  کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،  آپ  ( دعاء کرتے ہوئے )  فرما رہے تھے :   اے اللہ! محمد ایک بشر ہی ہے ،  جس طرح ایک بشر کو غصہ آتا ہے ،  اسے بھی غصہ آتا ہے اور میں تیرے حضور ایک وعدہ لیتا ہوں جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ جس مومن کو بھی میں نے تکلیف پہنچائی ،  اسے برا بھلا کہا یا کوڑے سے مارا تو اس سب کچھ کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دینا اور ایسی قربت میں بدل دینا جس کے ذریعے سے قیامت کے دن تو اسے اپنا قرب عطا فرمائے ۔   

صحیح مسلم حدیث نمبر 6622

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 3️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:11، 27 فروری 2023ء (م ع و)

کیا حضرت عمار کو ابو الغادیہ صحابی نے قتل کیا تھا[ترمیم]

(کیا حضرت عمار کو ابو الغادیہ صحابی نے قتل کیا تھا)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ مسند احمد کی روایت  میں ہے حضرت عمار کا قتل ایک صحابی نے کیا ہے جن کا نام ابو الغادیہ ہے وہ خود اس کا اقرار کرتے ہیں کے عمار کو میں نے قتل کیا ہے ان صحابی پر کیا حکم ہوگا روایت یہ رہی

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْعَنَزِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ كُنَّا بِوَاسِطِ الْقَصَبِ عِنْدَ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ فَإِذَا عِنْدَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو الْغَادِيَةِ اسْتَسْقَى مَاءً فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ مُفَضَّضٍ فَأَبَى أَنْ يَشْرَبَ وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا شَكَّ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ فَإِذَا رَجُلٌ يَسُبُّ فُلَانًا فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْكَ فِي كَتِيبَةٍ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ إِذَا أَنَا بِهِ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ قَالَ فَفَطِنْتُ إِلَى الْفُرْجَةِ فِي جُرُبَّانِ الدِّرْعِ فَطَعَنْتُهُ فَقَتَلْتُهُ فَإِذَا هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ قَالَ قُلْتُ وَأَيَّ يَدٍ كَفَتَاهُ يَكْرَهُ أَنْ يَشْرَبَ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ وَقَدْ قَتَلَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ

ترجمہ:

کلثوم بن حبر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ شہر واسط میں عبدالاعلی بن عامر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران وہاں موجود ایک شخص جس کا نام ابوغادیہ تھا نے پانی منگوایا، چناچہ چاندی کے ایک برتن میں پانی لایا گیا لیکن انہوں نے وہ پانی پینے سے انکار کردیا اور نبی ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے یہ حدیث ذکر کی کہ میرے پیچھے کافر یا گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اچانک ایک آدمی دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے لشکر میں مجھے تیرے اوپر قدرت عطاء فرمائی (تو تجھ سے حساب لوں گا) جنگ صفین کے موقع پر اتفاقا میرا اس سے آمنا سامنا ہوگیا، اس نے زرہ پہن رکھی تھی، لیکن میں نے زرہ کی خالی جگہوں سے اسے شناخت کرلیا، چناچہ میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو حضرت عمار بن یاسر تھے، تو میں نے افسوس سے کہا کہ یہ کون سے ہاتھ ہیں جو چاندی کے برتن میں پانی پینے پر ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہی ہاتھوں نے حضرت عمار کو شہید کردیا تھا۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

صحابہ کرام کے درمیان جو کچھ  اس طرح کے معاملات ہوۓ ہیں اس سے انسان کو دور ہی رہنا چاہئے کسی صحابی پر لعنت ملامت جائز نہیں، اللہ عزوجل نے ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمادیا ہے، سارے صحابہ جنتی ہیں، کسی صحابی کی ادنا سے بھی گستاخی جائز نہیں صحابہ کا گستاخ جہنم کا کتا ہے جس روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے ہر چند کے حضرت ابو الغادیہ یہ فرماتے ہیں کے عمار کو میں نے شہید کیا ہے، لیکن حضرت ابو الغادیہ کا یہ دعویٰ یقینی اور قطعی نہیں ہے جب جنگ ہو رہی ہو اور ہر طرف سے تیر کی بارش ہو رہی ہو نیز زرہ بھی پہنی ہوئ ہو

تو یہ بات یقینی طور پر نہیں کی جا سکتی کی میرا تیر ہی لگا ہے ممکن ہے کسی اور کا تیر لگا ہو۔ اور دیکھنے میں یہ محسوس ہوا ہو کہ میرا ہی تیر لگا ہے اس لیۓ یقینی قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ابو الغادیہ نے ہی قتل کیا ہے ، کیوں کہ حضرت عمار کے قتل کے 2 لوگ اور دعوے دار ہیں جیسا کی مسند احمد میں ہے

عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ خُوَیْلِدٍ الْعَنْزِیِّ قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ جَائَہُ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِی رَأْسِ عَمَّارٍ یَقُولُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا: أَنَا قَتَلْتُہُ،  


حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا یعنی قتل کے بارے میں، ہر ایک کا دعویٰ یہ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،

( مسند احمد حدیث 6538)

اس روایت میں ابو الغادیہ کے علاوہ دو لوگ اور قتل کے دعوے دار ہیں اس طرح ایک قتل کے تین دعوے دار ہو گۓ اور ان میں سے ہر ایک یہ کہتا ہے میں نے حضرت عمار کو قتل کیا ہے،،

لہٰذا حضرت عمار کے قتل کی نسبت یقینی قطعی طور پر حضرت ابو الغادیہ کی طرف نہیں کی جا سکتی،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 115 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:13، 27 فروری 2023ء (م ع و)

اج یہ امت بزرگوں کی وجہ سے پکی ہوئ روٹیاں کھا رہی ہے[ترمیم]

آج یہ امت بزرگوں کی وجہ سے پکی ہوئ روٹیاں کھا رہی ہے

علماء محققین فرماتے ہیں، فقہ کی کاشت سیدنا  عبداللّٰہ بن مسعود  رضی اللّٰہ عنہ  نے فرمائی، حضرت علقمہ  رضی اللّٰہ عنہ  نے اس کی آبیاری کی ۔ حضرت ابراہیم نخعی  رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اس کھیتی کو کاٹا، حضرت حماد علیہ الرحمۃ نے اس کا دانہ جدا کیا، حضرت امام ابوحنیفہ    رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ   نے اس کو باریک پیسا، حضرت امام ابویوسف نے اس کا آٹا گوندھا اور حضرت امام محمد رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ  نے اس کی روٹیاں   پکائیں   اب تمام اُمت ان روٹیوں   سے شکم سیر ہورہی ہے اور حضرت امام محمد رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ  کی عظمت اور جلالت علم ان کی تصانیف سے ظاہر ہے جیسے جامع صغیر ،جامع کبیر، مبسوط ،زیادات اور النوادر وغیرہ۔

ہم ان بزرگوں کے احسان تلے دبیں ہیں ہماری سانسیں ان کی مقروض ہیں کہ ان حضرات نے رات دن محنتیں کر کے قران و حدیث میں تدبر کر کے اصول و ضوابط بنائیں جس سے آج پوری امت فائدہ حاصل کر رہی ہے ۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوں آخری سانس تک ان بزرگوں کی غلامی میں رکھیں ہماری آنے والی نسلوں میں بھی ان کے گستاخ پیدا نہ ہوں نہ ہی احسان فراموش ہوں بلکہ ان کا احسان ماننے والے انکی غلامی کا پٹہ اپنی گردن میں ڈالنے والے ہوں آمین

#دانش حنفی

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 22:08، 27 فروری 2023ء (م ع و)

وہ مشہور اولیاء کرام جو حنفی تھے[ترمیم]

*وہ مشہور اولیاء کرام جو حنفی تھے*

امام اعظم  رحمۃ اللّٰہ علیہ  کے مسلک و مذہب کی ایک عظیم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مسلک کو اولیاء کرام کی بہت بڑی تعداد نے اختیار فرمایا جو اپنے سخت مجاہدہ میں ثابت قدم رہے اور مشاہدہ حق سے سرفراز ہوئے جیسے حضرت ابراہیم ابن ادھم بن منصور   البَلخی، شقیق البَلخی بن ابراہیم الزاہد تلمیذ امام ابویوسف القاضی متوفی  ۱۹۴ ھ،حضرت معروف الکرخی بن فیروز استاذ سری السقطی متوفی  ۲۰۰ ھ یہ وہ بزرگ ہیں   جن کی قبر سے بارانِ رحمت طلب کیا جاتا تھا ،ابی یزید بسطامی آپ کا نام طیفور بن عیسیٰ ہے آپ کے دادا مجوسی سے مسلمان ہوئے متوفی ۱۶۱ھ، فضیل بن عیاض الخراسانی متوفی ۱۸۷ھ، یہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور حضرت امام شافعی کے استاد ہیں اور بخاری و مسلم نے ان سے روایت کی ہے۔ حضرت دائود طائی ابن نصر بن نصیر بن سلیمان الکوفی تلمیذ امام اعظم متوفی  ۱۶۰ھ، خلف بن ایوب تلمیذ حضرت امام محمد و زفر علیہما الرحمہ متوفی  ۲۱۵ھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ  اللّٰہ  تبارک و تعالیٰ نے اپنا علم محمد رسول  اللّٰہ     صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو عطا فرمایا جتنا چاہا آپ سے وہ علم صحابہ کو منتقل ہوا، پھر تابعین کو، ان کے بعد حضرت امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ  کو اب جو چاہے خوش ہو اور جو چاہے وہ ناخوش و ناراض ۔ ابی حامد اللفاف ان کا نام احمد بن خضرویہ  البلخی  ہے متوفی  ۲۶۰ھ ،کبار مشائخ خراسان سے ہیں ۔ عبد  اللّٰہ بن المبارک، آپ نہایت عابد و زاہد، فقیہ اور محدث تھے۔ ادب ونحو، لغت اور فصاحت و بلاغت میں   بھی ماہر و کامل تھے۔ آئمہ اربعہ میں   سے حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے اساتذہ میں   سے ہیں اورحضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ      کے تلامذہ میں سے ہیں  ۱۸۱ھ میں   وفات پائی ۔ وکیع بن الجراح بن ملیح بن عدی الکوفی  رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ صائم الدھر تھے، ہر رات ایک بار ختم قرآن فرماتے۔ حضرت امام ابوحنیفہ    رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ  کے تلامذہ میں سے ہیں اور حضرت امام شافعی کے شیوخ میں ہیں   ۱۹۸ھ میں وفات پائی۔ ابو بکر الوراق ان کا نام محمد بن  عَمْرْو   الترمذی  ہے، اولیاء کرام سے ہیں  ، ان اَکابر اولیاء کرام کے علاوہ حاتم اصم اور سید محمد الشاذلی بکری حنفی صاحب کشف و کرامت ہیں  غرض ساڑھے بارہ سو سال میں   مسلک احناف کے جس قدر اولیائے کرام گزرے ان کا شمار کرنا مشکل ہے

الدر المختار ج 1 صفحہ 140

اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوں مولا کریم دم آخر تک امام اعظم کا مقلد رکھیں آپ کے مسلک کا پابند رکھیں اس مسلک کی برکتیں عطا فرماۓ

# دانش حنفی

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:38، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

توراتہ میں امام اعظم کا ذکر کا آنا[ترمیم]

*توراتہ میں امام اعظم رحمہ اللہ کا ذکر کا آنا*

امام اعظم رحمہ اللہ کے فضائل

مناقب بے شمار ہیں شوافع حضرات نے بھی آپ کے فضائل میں کتب مرتب فرمائ ہیں جس میں آپ کی تعریف و مناقب کو بیان کیا ہے آپ کی فقہات اپ کی محدثانہ شان کو بیان کیا ہے اور جن لوگوں نے حسد کی وجہ سے آپ پر تنقید کی ہے ان کا رد کیا ہے یہ سب ان حضرات کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں امام اعظم کے بے شمار فصائل ہیں انہیں میں سے ایک فضیلت یہ ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ امام اعظم رحمہ اللہ کا ذکر توراتہ میں ہے۔ حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو توراتہ اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمائ اس میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ السلام کی امت میں ایک نور ہوگا جس کی کنیت ابو حنیفہ ہوگی۔ امام اعظم کے لقب سراج الامتہ سے اس کی تائد ہوتی ہے۔

امام اعظم باب 1 صفحہ 1

اللہ کریم ہمیں دم آخر تک اپنے امام کا مقلد رکھے اور حنفیوں میں ہمیں اٹھائے آمین۔

# دانش حنفی

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:39، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ عزوجل کو بھگوان کہنا کیسا[ترمیم]

اللہ کو بھگوان یا ایشور  کہنا کیسا ہے


کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام کہ اللہ کو بھگوان کہنا کیسا ہے

اس قسم کے الفاظ جو ہندو اپ نے معبود باطل کے لیۓ بولتے ہیں اگر کوئی مسلمان اللہ کے لیۓ ایسے الفاظ بولے تو اس پر کیا حکم ہے ، بینوا و توجروا

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ کریم کو اللہ کے ذات و صفات والے نام سے پکارا جائے۔ اللہ کو بھگوان کہنا کفر ہے۔ ایشور کہنا ناجائز ۔

۔ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ نمبر 246 پر۔

فرماتے ہیں ۔

اللہ عزوجل کو بھگوان کہنا کفر ہے۔کہنے والے پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔ایشور کہنا بھی جائز نہیں یہ ہندوں کا شعار ہے۔ ہندوں نے بہت سے الفاظ خاص کئے ہیں ان میں کچھ کفر ہیں اور حرام سبھی ہیں

واللہ تعالی اعلم

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:52، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

تقدیر کا انکار کرنا کیسا[ترمیم]

کیا فرماتے ہیں۔ علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں۔

ایک مفتی صاحب نے علمی گفتگو کے دوران مجھ سے یہ کہا۔ اگر کوئ شخص تقدیر کا انکار کردے ۔تو اس کے اوپر حکم کفر نہیں ہوگا ۔چونکہ تقدیر ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔

برائے مہر بانی تفصیل سےمدلل جواب عطا فرمائے

بینوا و توجروا

الجواب ھو الھادی الی الصاب

تقدیر پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تقدیر اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ تقدیر کا انکار کرنا کفر ہے۔ انکار کرنے والے پر  توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔

تقدیر کا ثبوت

کتاب سنت صحابہ مجتہدین سلف و خلف اجماع سے اس کا اثبات ہے۔ تقدیر کا منکر کافر ہے ۔

قران کریم میں اللہ عزول فرماتا ہے۔( انا کل شیء خلقنہ بقدر ۔بیشک  ہر چیز  کو ہم نے تقدیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ القمر۔ایت 49)

اس ایت سے ائمہ اہلسنت تقدیر کو ثابت کرتے ہیں۔جو کی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی لکھی جا چکی ہے۔

صحیح مسلم شریف میں یے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ،  کہا :  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :   اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دی تھی ۔  فرمایا : اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔

تقدیر پر ایمان ان چھ ارکان میں سے ہے جن کے بغیر انسان مومن نہیں ہو سکتا۔جیسا کی

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کے جبریل نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا۔ تو اپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ان تو مؤمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الآخر و تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ۔ اللہ فرشتوں کتب سماوی رسولوں اور یوم آخرت ہر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لایا جاۓ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر93۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے، اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا“۔

سنن ترمذی حدیث نمبر 2144،

تقدیر کا انکار کرنا تو دور رہا۔ ہمیں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ بولنے سے بھی منع فرمایا ہے جن الفاظ میں تقدیر کے انکار کا شک ظاہر ہوتا ہو۔

امام مسلم  کتاب القدر

مسلم شریف میں روایت کرتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،  کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :    طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے ،  جبکہ خیر دونوں میں  ( موجود )  ہے ۔  جس چیز سے تمہیں  ( حقیقی )  نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو  ( مایوس ہو کر نہ بیٹھ )  جاؤ ،  اگر تمہیں کوئی  ( نقصان )  پہنچے تو یہ نہ کہو :  کاش! میں  ( اس طرح )  کرتا تو ایسا ایسا ہوتا ،  بلکہ یہ کہو :   ( یہ )  اللہ کی تقدیر ہے ،  وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس لیے کہ  ( حسرت کرتے ہوئے )  کاش  ( کہنا )  شیطان کے عمل  ( کے دروازے )  کو کھول دیتا ہے ۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے جب کوئ امر واقع ہو جائے تو پھر یہ نہ کہا جائے ۔کہ اگر میں فلاں کام کرلیتا تو مصیبت نہ اتی ۔اگر وہ یہ بات جزم یقین کے ساتھ کہتا ہے یعنی اگر میں یہ کام نہ کرتا تو یقینا مصیبت نہ آتی تو ایسا کہنا حرام ہے ۔ کیوںکہ اس سے تقدیر کا انکار ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر اظہار افسوس کے لئے کہتا ہے تو مکروہ تنزیہی ہے۔

تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔

تقدیر کے منکر کے بارے میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا ۔

سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4692

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  قدریہ  ( منکرین تقدیر )  اس امت  ( محمدیہ )  کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو

سنن ابودؤد حدیث نمبر 4691

امام ترمذی روایت کرتے ہے

حضرت عائشہ بیان کرتی ہے

نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں چھ شخصوں پر لعنت کرتا ہوں اور ہر نبی نے ان پر لعنت کی ہیں۔ 1 جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے 2 جو تقدیر کا انکار کرے 3 جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہو جاۓ 4 جس کو اللہ نے حرام کیا اس کو حلال کرے 5 اور میری اولاد پر ان کاموں کو حلال کرے جن کاموں کو اللہ نے حرام کیا 6

اور میری سنت کو بطور اہانت ترک کرے۔

تقدیر پر ایمان نہ لایا جاۓ تو اعمال قبول نہیں ہوتے ۔

امام مسلم روایت کرتے ہے

کہمس سے ا بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ‌ ‌ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کو درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ‌ ‌ کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کو اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما‌ نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ،

صحیح مسلم حدیث نمبر 93

خلاصہ کلام یہ ہے

کتاب سنت  بزرگو کی

ان تصریحات سے معلوم ہوا تقدیر کا انکر کرنا کفر ہے۔

جو کوئ انکار کرے اس پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔

مفتی صاحب نے غلط کہا تقدیر کے منکر پر حکم کفر نہ ہوگا

واللہ تعالی اعلم

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:56، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

انسان افضل ہے یا فرشتہ[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

🌿انسان افضل ہے یا فرشتہ🌿

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ

یہ وقت تو عید سے متعلق احکام سے آگاہی کا ہے

البتہ علماءکرام سے سوال کے ذریعے راہنمائی درکار ہے

کہ

یہ تو علما کا اجماع ہے کہ انبیاء افضل ہیں کسی بھی غیر نبی اور فرشتوں سے

سوال یہ ہے کہ غیر نبی (صحابی ،ولی ،صالح انسان وغیرہ) اور فرشتوں میں فضیلت سے متعلق کیا حکم یا درجہ بندی ہے

مختصرا یہ کہ

کیا فرشتوں پر کوئی صحابی یا ولی الله فضیلت رکھتے ہیں یا کوئی دیگر حکم وغیرہ ہے

سائل ابو معاویہ افضال مدنی

راہنمائی فرمائیں

الجواب ھو الھادی الی الصواب

انسان اور فرشتوں کی افضلیت کے بارے میں اہلسنت کا موقف یہ ہے فرشتوں سے افضل انسان ہیں۔ البتہ اس میں تفصیل یہ ہے

،خاص انسان یعنی نبی رسل۔فرستوں میں جو رسل ہے ان سے افضل ہے اور نیک صالحین انسان اولیاء سے خاص فرشتے ۔فرشتوں میں جو رسل ہے وہ افضل ہے ۔عام فرشتوں سے افضل نیک صالحین انسان  ہیں،اور عام فرشتے ،عام مسلمان سے افضل ہیں،

اہلسنت کی انسان کی افضلیت کے بارے میں دلیل یہ ہے،

اللہ عزوجل قران کریم میں فرماتا ہے۔

ان الذین امنو و عملوا الصلحت اولئک ھم خیر البریہ (البینہ)

ترجمہ ،جو لوگ ایمان لاۓ اور نیک اعمال کرتے رہے وہی ساری مخلوق سے افضل ہیں۔

اور ابن ماجہ میں روایت ہے

عن ابی ہریرتہ قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم، سورتہ المؤمن اکرم علی اللہ من بعض ملائکتہ سورتہ ۔رواہ ابن ماجہ

ترجمہ۔بعض مؤمن نبی رسل۔نیک صالحین مسلمان۔

اللہ کے یہاں فرشتوں سے

افضل ہے،

ترمذی میں روایت ہے

کہ ”فرشتے طالب علم کے کام  ( و مقصد )  سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔

ترمذی حدیث نمر 3536

امام عبد الرحمان بن حمد بن ادریس ابن ابی حاتم رازی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

حضرت بو ہریرہ بیان کرتے ہیں، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فرشتوں کا اللہ کے نزدیک جو مرتبہ ہے، کیا تم اس ہر تعجب کرتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، قیامت کے دن بندہ مؤمن کا جو مرتبہ اللہ کے نزدیک ہوگا ،ضرور فرشتوں کے مرتبہ سے زیادہ ہوگا، اور تم چاہو تو اس آیت کو پڑھو،

جو لوگ ایمان لاۓ نیک عمل کیۓ وہ تمام مخلوق سے بہتر ہیں

(البینہ)

اللہ کریم قران پاک میں فرماتا ہے

ولقد کرمنا بنی ادم ،

بیشک ہم نے اولاد ادم کو ضرور مکرم بنایا

(بنی اسرائیل)۔

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم،

بیشک ہم نے انسان کو حسین ترین ساخت میں بنایا ہے ( التین)۔

مؤمنین صالحین کے فرشتوں سے افضل ہونے کی خصوصی دلیل یہ ہے، کہ تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا۔

نیز اللہ نے بعض فرشتوں کو بشر اور انسان کی خدمت پر مامور کیا،  حضرت جبرئیل انبیاء کرام پر وحی لاتے ہیں۔ حضرت میکائیل انسانوں کے لیۓ رزق فراہم کرتے ہیں، حضرت عزرائیل ان کی روح قبض کرتے ہیں۔

ملائکہ سیا چین ان کے ذکر کو اللہ کے پاس پیش کرتے ہیں،

کچھ فرشتے  نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم پر

بڑھے ہوۓ صلاتہ و سلام روضہ انور میں پہنچاتے ہیں

کچھ فرشتے بناتے ہیں تقدیر کے امور لکھتے ہیں اور لیلتہ القدر کے عبادوں پر وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آکر شب قدر کے عابدوں کی عظمتوں پر طلوع فجر تک سلام پڑھتے رہتے ہیں

ان کے علاوہ وہ مؤمنین صالحین کے لیۓ اور بھی بہت خدمت انجام دیتے ہیں، اور ان شواہد سے آفتاب نیم روز سے زیادہ واضح ہوجاتا ہے مؤمنین صالحین فرشتوں

بدرجہا افضل ہیں۔

نیز امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں

حدیث میں ہے رب العزۃ جل و علا فرماتا ہے:عبدی المؤمن احب الیّ من بعض ملئٰکتی[

۔میرا مسلمان بندہ مجھے میرے بعض فرشتوں سے زیادہ پیارا ہے۔

ہمارے رسول ملائکہ کے رسولوں سے افضل ہیں،اور ملائکہ کے رسول ہمارے اولیاء سے افضل ہیں،اور ہمارے اولیاء عوام ملائکہ یعنی غیر رسل سے افضل ہیں اور یہاں عوام مومنین سے یہی مراد ہے۔نہ فسّاق و فجار کہ ملائکہ سے کسی طرح افضل نہیں ہوسکتے۔انسان صفت ملکوتی و بہیمی وسبعی وشیطانی سب کا جامع ہے جو صفت اس پر غلبہ کرے گی اس کے منسوب الیہ سے زائد ہوجائے گا کہ اگر ملکوتی صفت غالب ہوئی کروڑوں ملائکہ سے افضل ہوگا۔اور بہیمی غالب ہوئی تو بہائم سے بدتر

فتاوی رضویہ 29 جلد صفح 390

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:14، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ اسمان میں ہے روایت کی تفہیم[ترمیم]

اللہ آسمان میں ہے اس روایت کا کیا مطلب ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس

مسئلہ کے بارے میں ۔نبی کریم نے ایک لونڈی سے فرمایا ،اللہ کہاں ہے۔تو اس لونڈی نے جواب دیا آسمان میں۔سوال یہ ہے

اس حدیث کو دلیل بناکر ۔ اللہ  آسمان میں ہے کہنا جائز ہوگا یا نہیں، اور اس حدیث کا مطلب کیا ہے کہ اللہ آسمان میں ہے ،بینوا و توجروا

سائل سگ عطار

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ عزوجل کو آسمان میں ماننا

یا اللہ کے لیۓ کوئ جگہ مقرر کرنا یہ کفر ہے۔ اللہ کریم کو اگر آسمان میں مانا جائے تو اللہ کو جسم والا تسلیم کرنا پڑیگا۔ کیوںکہ اللہ کے لیۓ مکان جہت ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہوجاتے ہے۔،

1، اللہ خالق ہے اور آسمان مخلوق ، خالق ازل سے ہے، اگر اللہ کو آسمان میں مانا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے، جب آسمان نہیں تھا تو اللہ کہاں تھا،۔

2،  آسمان میں اللہ کے ہونے کی تین صورتیں ہیں،

الف، اللہ عرش کے محاذات میں ہوگا

ب، اسمان سے متجاوز ہو گا،

ج، عرش سے کم ہوگا

اگر آسمان کے محاذات میں مانیں، تو آسمان چونکہ محدود ہے، اللہ عزوجل کا محدود ہونا لازم ائےگا، متجاوز مانیں تو اللہ کی تجزی لازم ائےگی، آسمان سے کم  مانیں تو آسمان مخلوق ہے ، اللہ خالق ہے، تو خالق سے مخلوق کو بڑا ہونا لازم آئےگا، جبکہ یہ تینوں صورتیں ناممکن محال ہیں۔،

3، اللہ خالق ہے غیر محدود آسمان مخلوق ہے جو کہ محودود ہے،

اگر اللہ کو آسمان میں مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا، کیا غیر محدود،محدود میں سما سکتا ہے،

4، اگر اللہ کو حقیقتا اسمان پر مانیں، تو آسمان اللہ کے لیۓ مکان ہوگا، اللہ مکین ہوگا، اور ضابطہ یہ ہے مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے اس عقیدہ سے اللہ اکبر والا عقید ٹوٹ جائےگا

5، اگر اللہ کا آسمان پر ہونا مانیں تو  جہت فوق لازم آئےگی اور جہت کو حد بندی لازم ہے , اور حد بندی کو جسم لازم ہے، جبکہ اللہ جسم سے پاک ہے ،

6، اگر اللہ کو فوق اسمان مانیں تو اسمان اس کے لئے مکان ہوگا اور مکان مکین کو محیط ہوتا ہے جبکہ قران کریم میں ہے

و کان اللہ بکل شیء محیطا ترجمہ اللہ ہر چیز کو محیط ہے۔،

عبد القہر بن طاہر البغدادی

رحمہ اللہ المتفی 439 ھ) ،

فرماتے ہیں، و اجمعوا علی انہ لا یجریہ مکان ولا یجری علیہ زمان، ۔ترجمہ

اس پر اجماع ہے کہ اللہ کو کسی مکان نے گھیرا نہیں ہے نہ اس پر زمان یعنی وقت کا گزر ہوتا ہے۔

امام اعظم ابو حنیفتہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

این اللہ تعالی فقال یقال لہ کان اللہ تعالی ولا مکان قبل ان یخلق الخلق و کان اللہ تعالی و لم یکن این ولا ولا خلق کل شیء،

(فقہ اکبر)

ترجمہ ۔، جب تم میں سے کوئ معلوم کرے اللہ کی ذات کہاں ہے، تو اس سے کہو اللہ وہیں ہے جہاں مخلوق کی تخلیق سے پہلے کوئ مکان نہیں تھا،

صرف اللہ موجود تھا اور وہی اس وقت موجود تھا جب مکان نام کی مخلوق کی کوئ شیء نہیں تھی۔،

جس روایت کے متعلق اپ نے سوال کیا وہ روایت یہ ہے،

عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: قلت:" يا رسول الله، جارية لي صككتها صكة، فعظم ذلك علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: افلا اعتقها؟، قال: ائتني بها، قال: فجئت بها، قال: اين الله؟، قالت: في السماء، قال: من انا؟، قالت: انت رسول الله، قال: اعتقها، فإنها مؤمنة".

معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مارا ہے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تھپڑ کو عظیم جانا، تو میں نے عرض کیا: میں کیوں نہ اسے آزاد کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لے آؤ“ میں اسے لے کر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان کے اوپر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے“۔

صحیح مسلم حدیث نمبر 1199۔

اس روایت کو بنیاد بناکر اس سے یہ عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے اس روایت کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے

1۔ اس روایت کے بارے میں امام بہیقی فرماتے ہیں، یہ روایت مضطرب ہے

( کتاب الاسماء و الصفات)

2۔،حافظ ابن حجر اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوۓ فرماتے ہے و فی اللفظ

مخالفتہ کثیرتہ

کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے (التلخیص)

3۔،امام بزار نے بھی اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوۓ یہی فرمایا حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے،۔

4۔، علامہ زاہر الکوثر نے بھی اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہے۔

5۔، نیز نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتنے لوگ حاضر ہوکر ایمان لائے ہیں، لیکن کسی سے بھی یہ سوال نبی کریم نے نہیں کیا جو اس حدیث میں ذکر ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئ تعلق نہیں  بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا، کہ مشرک ہے یا موحدہ۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک شاذ اور معلول روایت سے،  عقیدہ کا استنباط نہیں کیا جا سکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بناکر اللہ کو آسمان میں مان لینا گمراہیت ہے۔، بالفرض اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ سوال اللہ کہاں ہے، اللہ کے مکان کے لئے نہیں بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لئے ہوگا ،یعنی ہمارے اللہ کا مرتبہ کیا ہے یا یہ کے اللہ کے احکام و اوامر کا مکان کونسا ہے وغیرہ۔،

خلاصہ کلام یہ ہے اللہ جہت مکان سے پاک ہے،  کوئ پوچھے اللہ کہاں ہے تو جواب میں یہ کہنا چاہیے  ھو موجد بلا مکان کہ اللہ تعالی بغیر مکان کے موجود ہے

واللہ اعلم

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال، علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:16، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں[ترمیم]

مرنے کے بعد روحیں کہاں

رہتی ہیں

اسلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کے  مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں

تفصیلی مدلل جواب عطا فرمائے

المستفتی جنید احمد آسام

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

روحوں کے بارے میں عمومی خیالات عام طور پر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مکان میں رُوح کا ڈیرا ہے ،وہ مار دیتی ہے،فلاں جگہ ایک آدمی قتل ہوا تھا وہاں اس کی روح بھٹک رہی ہے،قتل ہونے والوں کی روحیں  دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں،اس حویلی میں کافر  روحوں کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بے سَروپا  تَوَہُّمات  ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلّق نہیں، شرح الصدور میں ہے: وفات کے بعد مؤمنین کی روحیں ”رِمیائیل“ نامی فرشتے کےحوالےکی جاتی ہیں، وہ مؤمنین کی روحوں کے خازِن ہیں۔ جبکہ کفّار کی روحوں پر مقرر فرشتے کا نام”دَومہ“ہے۔(شرح الصدور، ص237) روحوں کے مقامات کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقَرّر ہیں اور انہیں اورمقامات پرجانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُناامام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالِق فرماتے ہیں:مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔نبیّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمنین کی اَرواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی:اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجّین میں قید ہوتی ہیں۔ بہارِ شریعت میں ہے: مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف(یعنی زم زم شریف کے کنویں ) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قِنْدیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیِّین میں مگر کہیں ہوں  اپنے جسم سے اُن کو تعلّق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قَفَس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔(بہارِ شریعت،ج1،ص101)

خبیث روحیں کافروں کی خبیث روحوں کے بھی مقام مقرّر ہیں وہ آزاد نہیں گھومتیں بلکہ بعض کی اُن کے مَرگھٹ (مردے جلانے کی جگہ) یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ(یعنی وادی) ہے ، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختِیار نہیں، کہ قید ہیں۔یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسُخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔(بہارِ شریعت،ج1،ص103)

فتاوی رضویہ میں ہے

امام اجل عبداﷲبن مبارک وابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم حضرت عبدا ﷲ بن عمر وبن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے موقوفاً اور امام احمد مسند اورطبرانی معجم کبیر اور حاکم صحیح مستدرک اور ابونعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مرفوعاً راوی۔

وھذا لفظ ابن المبارک قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن، وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی السجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض یتفسح فیھا

(اور یہ ابن مبارک کے الفاظ ہیں، ت) بیشک دنیا کافر کی بہشت اور مسلمان کا قید خانہ ہے، جب مسلمان کی جان نکلتی ہے توا س کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص زندان میں تھا اب آزاد کردیا گیا تو زمین میں گشت کرنے اور بافراغت چلنے پھرنے لگا

فاذ امات المؤمنین یخلی بہ بسرح حیث شاء

جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے۔

امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں،

انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عجب الذنب کہتے ہیں وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، انھیں پر روز قیامت ترکیب جسم ہوگی، عذاب وثواب روح وجسم دونوں کے لیے ہے۔ جو فقط روح کے لیے مانتے ہیں گمراہ ہیں، روح بھی باقی اور جسم کے اجزائے اصلی بھی باقی، اور جو خاک ہوگئے وہ بھی فنائے مطلق نہ ہوئے، بلکہ تفرق اتصال ہوا اور تغیر ہیأت۔ پھر استحالہ کیا ہے۔ حدیث میں روح وجسم دونوں کے معذب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے۔ ایک لنجھا ہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں وہ اس باغ کے باہر پڑا ہوا ہے،پھلوں کو دیکھتا ہے مگر ان تک جا نہیں سکتا، اتنے میں ایک اندھا آیا اس لنجھے نے اس سے کہا: تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے، یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا، اور لنجھا اسے نہ بتاتا تووہ نہ دیکھ سکتا، وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعال جو ارح نہیں کرسکتی ۔ا ور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے اورادراک نہیں رکھتا۔ دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزا ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم

روح کا مقام بعد موت حسب مراتب مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بعض کی روحیں قبر پر رہتی ہیں اور بعض کی چاہِ زمزم میں اور بعض کی آسمان وزمین کے درمیان، اور بعض آسمانِ اول دوم ہفتم تک،ا ور بعض اعلٰی علیین میں، اور بعض سبز پرندوں کی شکلیں میں زیر عرش نور کی قندیلوں میں، کفار میں بعض کی روحیں چاہ وادی برہوت میں، بعض کی زمین دوم سوم ہفتم تک، بعض سجین میں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

کبھی پڑتا ہے کبھی نہیں، دونوں قسم کے خواب شرح الصدور میں مذکور ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم

روح میرے رب کے حکم سے ایک شے ہے اور تمھیں علم نہ دیا گیا مگر تھوڑا، روح کے ادر اکات علم وسمع و بصر باقی رہتے، بلکہ پہلے سے بھی زائد ہوجاتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم

قبر پر آنے والے کو میّت دیکھتا ہے۔ ا س کی بات سنتاہے۔ اگر زندگی میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا ہے اگر اس کا عزیز یا دوست ہے تو اس کے آنے سے انس حاصل کرتا ہے:

فتاوی رضویہ جلد 9 صفح 658،

ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا:

نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت۔،

ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں۔

ابن المبارک کتاب الزہد وابوبکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :

قال ان ارواح المؤمنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت ونفس الکافر فی سجین

بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے۔

ابن ابی الدنیا مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:

قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت۔،

فرمایا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزادہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔

اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:

رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت

امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں،

علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:

ان الروح اذا انخلعت من ھذا الھیکل وانفکت من القیود بالموت تحول الی حیث شاءت

بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہاہوتی ہے جہاں چاہتی ہے جولاں کرتی ہے

فتاوی رضویہ 9 جلد صفح 652

فرعونیوں کی روح کے بارے میں امام اہلسنت فرماتے ہیں

ان ارواح اٰل فرعون فی اجوان طیر سود یعرضون علی النار کل یوم مرتین تغدو و تروح الی النار فیقال یا اٰل فرعون ھذہ مأوٰکم حتی تقوم الساعۃ

فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں ڈال کر انھیں روزانہ دوبار نار پر پیش کیا جاتا ہے، صبح وشام کو نار کی طرف جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے اے فرعون والو! یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت قائم ہو

فرعون اور فرعونیوں کو ڈوبے ہوئے کتی ہزار برس ہوئے ہر روز صبح وشام دو وقت اگ پر پیش کیے جاتے ہیں جہنم جھنکا کر ان سے کہا جاتا ہے یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت آئے۔ اور ایك انھیں پرکیا موقوف ہر مومن و کافر کو یونہی صبح وشام جنت ونار دکھاتے اور یہی کلام سناتے ہیں صحیح بخاری صحیح مسلم وموطائے امام مالك و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اذامات احدکم عرض علیہ مقعدہ، بالغداۃ والعشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ وان کان من اھل النار فمن اھل النار یقال لہ ھذا مقعدك حتی یبعثك اﷲ الی یوم القیامۃ

جب تم میں سے کوئی مرتا ہے اس پر اس کا ٹھکانا صبح وشام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت سے تھا تو اہل جنت کا مقام اور اہل نار سے تھا تو اہل نار کا مقام دکھا یا جاتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ خدا تجھ کو روز قیامت اس کی طرف بھیجے۔

یو نہی اموات کی باہم ملاقات، آپس کی گفتگو ، قبر کا ان سے باتیں کرنا، ان کی حد نگاہ تك کشادہ ہونا احیاء کے اعمال انھیں سنائے جانا، اپنے حسنات وسیئات اور گاؤماہی کا تماشا دیکھنا وغیرہ وغیرہ امور کثیر جن کی نظر صدر مفصد دوم میں اشارہ گزرا، جن کے بیان میں دس بیس نہیں صدہا حدیثیں وارد ہوئیں ان مطالب پر شاہد ہیں جس طریقے سے ہو ان چیزوں اور آوازوں کو دیکھتے سنتے ہیں اور قیامت تك جس کے گلنے خاك میں ملنے کے بعد بھی دیکھیں سنیں گے، یونہی زائروں قبروں کے سامنے گزرنے والوں اور ان کے کلام کو۔ طرفہ یہ کہ مولوی اسحاق صاحب نے بھی جواب وسوال ١٩ میں تسلیم کیا مردے زندوں کا سلام سنتے ہیں۔ حضرت! جن کانوں سے سلام سنتے ہیں انہی سے کلام ۔ یہ تو ہماری طرف سے کلام تھا، اب جانب منکرین نظر کیجئے ان کا انکار بھی قطعا عام ہے، صرف آلاتِ جسمانیہ سے خاص نہیں، کاش وہ ایمان لے آئیں کہ اموات اصوات کا ادراك

تام کرتے ہیں مگر نہ گوشِ بدن

فتاوی رضویہ 9 جلد صفح 874

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال۔9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:21، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

پرشاد کھانا کیسا ہے[ترمیم]

*کیا پرشاد کھانا جائز ہے*

اسلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں۔،

ہنود جو اپ نے معبودان باطلہ کو طعام شیرنی و غیرہ چڑھاتے ہیں ۔، اور اس کو پرشاد نام رکھتے ہیں۔، اس کا کھانا حلال ہے یا نہیں ۔، بینوا توجروا

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب۔،

اس پرشاد کو ہنود اگر تصدق بانٹ رہے ہوں۔، تو ہر گز نہ لے مگر یہ کی بضرورت شدیدہ۔،

کے صدقہ کے طور پر لینے میں مسلمان کی ذلت اور گویا کافر کا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بالا کرنا ہے ۔، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔،

اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے۔اور دینے والا ہاتھ اونچا ہے مانگنے والا ہاتھ نیچا ہے ۔، اسی وجہ سے بلا ضرورت شدیدہ پرشاد نہ لیا جائے ۔ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں۔، امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں

پرشاد بھوگ کا لینا

حلال ہے لعدم المحرم(حرمت کی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے۔ت)مگر مسلمان کو احتراز چاہئے لخبث النسبۃ(نسبت خباثت کی وجہ سے )عالمگیریہ میں ہے:

مسلم ذبح شاۃ المجوسی لبیت نارھم اوالکافر لالھتہم توکل لانہ سمی اﷲ تعالٰی ویکرہ للمسلم کذا فی التاتارخانیۃ ناقلا عن جامع الفتاوٰی۔، اقول: فاذا حلت ھذہ وھی ذبیحۃ فالمسئول عنہ اولٰی بالحل۔

اگر کسی مسلمان نے آتش پر ست کی بکری اس کے آتشکدہ کے لئے یا کافر کے جھوٹے خداؤں کے لئے ذبح کر ڈالی تو اسے کھایا جائے گا(یعنی کھانا چاہے تو کھاسکتاہے)اس لئے کہ مسلمان نے اس پر خدا کا نام لیاہے لیکن ایسا کرنا مسلمان کے لئے مکروہ ہے تاتارخانیہ میں جامع الفتاوٰی کے حوالہ

سے اسی طرح منقول ہے،۔اقول:(میں کہتاہوں)جب یہ ذبیحہ ہونے کے بعد حلال ہے تو پھر جس مسئلہ کے متعلق سوال کیا گیا وہ بطریق اولٰی حلال ہے۔

اور شیخ محقق رحمۃ اﷲ تعالٰی نے مجمع البرکات میں فرماتے ہیں:

مایاتی المجوس فی نیروز ھم من الاطعمۃ یحل اخذ ذلك ولا حتراز عنہ اسلم کذا فی مطالب المومنین ناقلا عن الذخیرۃ

اقول فاذا کان الاحتراز عن ھذا اسلم مع انہ لیس الاطعاما صنعہ لیوم زینتہم فالمستفسر عنہ اجدر بالاحتراز واحری کما لا یخفی۔

آتش پرست اپنی عیدمیں جو کھانے وغیرہ لاتے ہیں ان کالینا حلال ہے ہاں البتہ ان سے بچنا زیادہ سلامتی کی راہ ہے۔اسی طرح مطالب المومنین میں ذخیرہ کے حوالے سے منقول ہے ،اقول(میں کہتاہوں)جب اس سے بچنا زیادہ سلامتی ہے باجود کہ یہ صرف وہ کھانا ہے جو انھوں نے اپنی زیب وزینت کے دن کے لئے تیار کیا ہے لہذا جس کے متعلق سوال کیاگیا وہ بچنے کے زیادہ قابل اور لائق ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں

اگر کفار اس پرشاد کو بطور تصدق بانٹ رہے ہوں جب تو ہر گز پاس نہ جائے مگر بضرورت شدیدہ کہ صدقہ کے طور پر لینے میں معاذ ﷲ مسلمان کی ذلت اور گویا کافر کے ہاتھ اس کے ہاتھ پر بالا کرنا ہے۔حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

الیدالعلیا خیر من الید السفلی والید العلیا ھی المنفقۃ والید السفلی ھی السائلۃ اخرجۃ الشیخان وغیرھما عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔وﷲ تعالٰی اعلم۔

اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے اور دینے والا ہاتھ اونچا ہے اور مانگنے والا نیچا،(بخاری،مسلم اور ان دو کے علاوہ باقی لوگوں نے عبدﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے اس کی تخریج کی۔ وﷲ تعالٰی اعلم

۔

فتاوی رصویہ 21 جلد صفح 697

مزید فرماتے ہیں

مشرکین اپنے بتوں کے لئے سانڈ  چھوڑتے اسے سائبہ کہتے جسے کان چیر کر چھوڑتے اسے بحیرہ کہتے اور ان جانوروں کو حرام جانتے،الله تعالٰی نے ان کو رد فرمایا کہ:

" مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ وَ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ

الله نے مقرر نہیں کیا ہے کان چرا ہوا اور نہ بحار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی،ہاں کافر لوگ الله پر جھوٹا افتراء باندھتے ہیں اور ان میں اکثر نرے بے عقل ہیں،

یعنی یہ باتیں الله نے تو ٹھہرائیں نہیں لیکن کافر ان پر جھوٹ باندھتے ہیں،تو ان جانوروں کو حرام بنانا کافروں کا

قول،اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔اور آیہ مااہل بہ لغیر ﷲ اس جانور کے لئے ہے جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا جائے، چھوڑے ہوئے جانور سے اسے کوئی تعلق نہیں نہ کہ مٹھائی تك پہنچے،یہ تعصب وہابیوں کے جاہلانہ خیال ہیں کہ"جانداریا بے جان ذبیحہ ہو یا غیر،جس چیز کو غیر خدا کی طرف منسوب کرکے پکاریں گے حرام ہوجائیں گی"ایسا ہو تو ان کی عورتیں بھی ان پر حرام ہوں کہ وہ بھی انھیں کی عورتیں کہہ کر پکاری جاتی ہیں الله تعالٰی کا نام ان پر نہیں لیا جاتا،ایسے بیہودہ خیالوں سے بچنا لازم ہے۔ہاں بت کے چڑھاوے کی مٹھائی پر شاد مسلمانوں کو نہ لینا چاہئے کہ کافر اسے صدقہ کے طور پر بانٹتے ہیں،وہ لینا ذلت بھی ہے اور معاذالله جو چیز انھوں نے تعظیم بت کے لئے بانٹی اس کا ان کے موافق مراد استعمال بھی ہے بخلاف چھوڑے ہوئے جانور کے کہ اس کا کھانا کافروں کے خلاف مراد اور ان کی

ذلت ہے،اس میں حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ فتنہ نہ ہو،ورنہ فتنہ سے بچنا لازم ہے۔

قال اﷲ تعالٰی " الْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِۚ ۔،واﷲ تعالٰی اعلم۔

الله تعالٰی نے فرمایا:فتنہ قتل سے شدید تر ہے۔والله تعالٰی اعلم۔

مزید فرماتے ہیں

ذبح میں ذابح کی نیت شرط معتبر ہے،اگر کافر اپنے معبودوں کے لئے ذبح کرائے اور مسلمان الله عزوجل کے لئے اس کانام لے کر ذبح کرے جانور حلال ہوجائے گا مگریہ فعل مسلمان کے لئے مکروہ ہے،اور اس گوشت کا اس سے لینا بھی نہ چاہئے کہ اس میں کافر کے زعم میں اس کے مقصد باطل کو پورا کرنا ہے اور یہ گوشت گویا اس کی طرف سے تصدق لینا ہے۔

والید العلیا خیر من الید السفلٰی،

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔تو یہ

فتاوی رضویہ 20 جلد صفح 62

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال۔،

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:27، 3 مارچ 2023ء (م ع و)

فقہ حنفی کی برکت سے ہیمں ایک عظیم مجتہد ملا[ترمیم]

*فقہ حنفی کی برکت سے ہمیں ایک عظیم مجتہد ملا*

امام طحاوی رحمہ اللہ کی

شخصیت کوئ تعرف کی محتاج نہیں ہے آپ فقہ حنفی کے بہت بڑے فقیہ محدث ہیں آپ کی کتب آپ کی فقہات و محدثانہ شان کی گواہی دیتی ہیں۔

لیکن یہ نایاب انمول ہیرا بھی ہمیں امام اعظم رحمہ اللہ کے مسلک کی برکت سے ملا ہے ورنہ یہ نایاب و انمول ہیرا وجود میں ہی نہیں آتا۔ ابتدا میں آپ امام شافعی کے مسلک پر تھے پھر فقہ حنفی کے متبع ہو گۓ۔

اس کی وجہ یہ بنی کہ ایک دن آپ اپنے ماموں سے پڑھ رہے تھے کہ آپ کے سبق میں یہ مسئلہ آیا کہ اگر کوئ حاملہ عورت مر جاۓ اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو بر خلاف مذہب امام اعظم کے امام شافعی کے نزدیک عورت کا پیٹ چیر کر بچہ نکالنا جائز نہیں۔ آپ اس مسئلہ کے پڑھتے ہی کھڑے ہوۓ اور کہنے لگے میں اس شخص کی ہر گز پیروی نہیں کرتا جو مجھ جیسے آدمی کی ہلاکت کی کچھ پرواہ نہ کریں کیونکہ آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے کے آپکی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور آپ کو پیٹ چیر کر نکالا گیا یہ حال دیکھ کر آپ کے ماموں نے کہا خدا کی قسم تو ہر گز فقیہ نہیں ہوگا پس جب آپ خدا کی عطا سے فقہ و حدیث میں امام بے عدیل فاضل بے مثل ہوۓ تو اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے ماموں پر خدا کی رحمت نازل ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنے مذہب شافعی بموجب ضرور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتے۔

امام طحاوی کی سند صرف دو واسطوں سے امام اعظم رحمہ اللہ سے مل جاتی ہے آپ کی سند اس طرح ہے

عن احمد بن ابی عمران عن محمد بن سماعتہ عن ابی یوسف عن ابی حنیفتہ

حالات فقہا و محدثین صفحہ 134

#دانش حنفی

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:31، 4 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا بندر بندر بنی اسرائیل میں سے ہے[ترمیم]

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں۔،

کے بندر بنو اسرائیل کی نسل میں سے ہے یا نہیں کہا جاتا ہے بندر ان ہی کی نسل سے ۔،

بینوا و توجروا

الجواب ھو الھادی الی الصواب

موجودہ بندر ۔،

مسخ شدہ بنو اسرائیل میں سے نہیں ہے۔،

تمام مسخ شدہ بنو اسرائیل تین دن بعد مر گۓ تھے۔،

امام ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس کی ایک طویل  روایت ذکر کی ہے۔،

جن لوگوں نے ہفتہ کا دن مچھلی کا شکار کیا تھا۔، ان کی معصیت کی وجہ سے اللہ نے انکو بندر بنادیا وہ زمین میں صرف تین دن زندہ رہے ۔، انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ ان کی نسل چلی۔، اور اللہ نے بندروں خنزیروں اور باقی تمام مخلوق کو چھ دنوں میں پیدا کیا تھا۔،

جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔، اور اللہ نے اس قوم کو بندروں کی صورت میں مسخ کردیا اور وہ جس کے ساتھ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔،

اس پر تمام مفسرین محدثین متکلمین کا اتفاق ہیں

بنو اسرائیل کی مسخ شدہ نسل نہیں چلی۔،البتہ علامہ ابن العربی نے اس میں اختلاف کیا ہے بعض روایات کو لیکر مثلاً بندریہ کو رجم کیا گیا جو کی بخاری کے بعض نسخوں میں یہ روایت ہے ۔،

ذبح شدہ گوہ کو پتیلوں میں سے پھینک دیا گیا اس کو کھایا نہیں گیا حب کہ تمام صحابہ بھوکے تھے۔، یا جو روایت چوہوں کے بارے میں آئی  ہے ان سب روایات کو لیکر علامہ ابن عربی نے اختلاف کیا ہے۔، اب ہم ان سب کو ذکر کرے تو گفتگو بہت طویل ہوجائے گی۔، بہر حال

خلاصہ کلام یہ ہے ۔، بنو اسرائیل کی نسل آگے نہیں چلی اس کی دلیل میں ہم اوپر حدیث ذکر کر آئے ہے۔، جس سے پتہ چلا وہ سب تین دن بعد ہلاک ہوگۓ تھے ان کی نسل نہیں چلی۔ نیز

صحیح مسلم میں ۔،

حضرت عبداللہ ابن مسعود

رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ هِيَ مِمَّا مُسِخَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُهْلِكْ قَوْمًا أَوْ يُعَذِّبْ قَوْمًا فَيَجْعَلَ لَهُمْ نَسْلًا وَإِنَّ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ

  ۔، ایک آدمی نے پوچھا :  اللہ کے رسول! یہ بندر اور خنزیر کیا انہی میں سے ہیں جو مسخ ہو کر بنے تھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :     اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک  کیا یا  کسی قوم کو عذاب دیا تو پھر ان  ( لوگوں )  کی  نسل نہیں چلائی بندر اور خنزیر تو ان سے پہلے بھی موجود تھے

صحیح مسلم حدیث نمبر 6772

یہ حدیث زیر بحث مسئلہ میں صاف تصریح ہے کہ موجودہ بندر  اور خنزیر مسخ شدہ بنو اسرائیل میں سے نہیں یے ۔،

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:54، 4 مارچ 2023ء (م ع و)

قران افضل ہے یا نبی علیہ السلام[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، اس مسئلہ ذیل کے بارے م🌿

*کہ قران افضل ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،، میں نے ایک شخص سے سنا ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو قران الکریم سے افضل بتایا ہے، کیا یہ صحیح ہے، میں نے سنا یے کہ قران مخلوق نہیں یے،اور نبی کریم مخلوق یے*


سائل، مصباح الدین چینئ

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس میں نبی کریم نے فرمایا ہو کہ میں قران سے افضل ہوں

ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

اصل مسئلہ سمجھنے کے لیے پہلے قران کے دو اطلاق کو ذہن نشین کر لیجیے،۔ قران حقیقت میں اللہ عزوجل کا کلام اور اس کی صفت ہے، جو واجب قدیم غیر مخلوق ہے، یہ قران کا حقیقی معنی ہے، لیکن ہمارے عرف میں قران اس مصحف یعنی کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں قرآن لکھا ہو، مثلاً بولتے ہیں، یہ قرآن مجید بہت خوب صورت لکھا ہوا ہے,  اس قرآن مجید کا ہدیہ کیا ہے، فلاں نے قرآن مجید مسجد میں وقف کیا، قرآن مجید کی سنہری جلد بندھوادو وغیرہ و غیرہ، ان تمام محاورات میں قرآن سے مراد مصحف اور کتاب یے، اور یہ بلا شبہ حادث اور مخلوق ہے،

قرآن مجید بہ معنی اول یعنی اللہ عزوجل کی صفت قدیم تمام مخلوقات سے حتی کے خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل ہے،

اس معنی کر کسی کو قرآن سے افضل بتانا کفر ہے،۔ لیکن بہ معنی مصحف مخلوق اور حادث یے ، اس سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل ہونا بلکل واضح ہے

کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے افضل ہیں ،

مجدد اعظم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

قرآن سے مراد اگر مصحف ہو یعنی کاغز روشنائی کتاب، تو کوئی شک نہیں کہ وہ حادث ہے، اور ہر حادث مخلوق ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل ہے،، اور قرآن سے مراد اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہو تو کوئی شک نہیں کے اللہ تعالی کی صفات تمام مخلوقات سے افضل ہے اور جو غیر باری تعالی ہے وہ اس کے کیسے برابر ہو سکتا ہے جو اس کا غیر نہیں،

اسلیے یہ کہنا کہ قرآن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم افضل ہے ایک اعتبار سے کفر ہے

جب کہ قائل کی نیت قرآن سے قرآن کا حقیقی معنی ہو،۔ یعنی اللہ کا کلام جو اس کی صفت ہے ۔، اور قرآن سے اس کا عرفی معنی مراد ہو مصحف اور کتاب تو درست ہے، بہر حال ایسے کلام سے بچنا ضروری ہے جس کا ایک معنی کفر ہو اور جس سے عوام

میں انتشار پیدا ہو

📗فتاوی شارح بخاری

جلد 1 صفحہ  275

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

📲 *9917420179* علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:59، 4 مارچ 2023ء (م ع و)

سنی حنفی کی تعریف کیا ہے[ترمیم]

سنی حنفی کی تعریف کیا ہے

*الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ سنی، حنفی، بریلوی، کی تعریف کیا ہے برائے کرم جواب عنایت فرمایں بہت مہربانی ہوگی سائل محمد انور خان رضوی*

و علیکم السلام  ورحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

عقائد اہلسنت پر جو عمل پیرا ہو انکو اہلسنت کہا جاتا ہے

امام اعظم ابو حنیفہ کی تقلید کرنے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے

ضروریات مذہب اہلسنت وہ  مسائل ہے، جو دلیل قطعی سے ثابت ہوں لیکن ان میں تاویل کا احتمال ہو، مذکورہ تعریف کی روشنی میں، علمائے عظام و فقہاۓ کرام، نے ضروریات اہلسنت و عقائد اہلسنت کی، جو تفصیل بتائ ہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔،

شیخین کو تمام صحابہ سے افضل سمجھنا، موزو پر مسح کو جائز سمجھنا، تمام صحابہ و اہلبیت کا ادب کرنا، شیخین کی خلافت تسلیم کرنا،، معراج کا جسمانی ہونا، حضرت علی حضرت عثمان سے محبت کرنا،

خلفاۓ اربع رضی اللہ عنھم کی خلافت تسلیم کرنا،،

مجتہد کی تقلید کو واجب جاننا

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال9917420179

5⃣

https://chat.whatsapp.com/D5UAlgbt8yJCCCqXLBaAHm علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:03، 4 مارچ 2023ء (م ع و)

میرا دل قران کی طرح پاک ہے کہنا کیسا[ترمیم]

میرا دل قران کی طرح پاک ہے کہنے والے پر کیا حکم ہوگا ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

زید نے کہا میرا دل قران کی طرح پاک ہے۔، تو زید پر کیا حکم کفر ہوگا، کیوں کہ زید نے اپ نے دل کو قران کی طرح پاک کہا ہے

الجواب ھوالھادی الی الصواب

زید پر کوئی حکم کفر نہیں ہوگا زید کا قول قران کی طرح میرا دل پاک ہے۔، اس کا مطلب یہ ہے جیسے قران پاک جھوٹ اور عیب سے پاک اس میں کوئی عیب نہیں ہے ایسا ہی میرا دل

پاک ہے۔، جھوٹ اور عیب سے پاک ہے میرے دل میں کوئی برائی نہیں۔، اس لیۓ زید پر حکم کفر تو نہ ہوگا ہاں زید اگر اپنے قول میں جھوٹا ہو۔  کے میرا دل پاک ہے تو گناہگار ہوگا جھوٹ بولنے کے سبب

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:05، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

کفری گانے پر ہوٹ ہلانا کیسا[ترمیم]

کفریہ گانے پر ہوٹ ہلانا کیسا

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے مارے میں۔،

ہمنیں تو اپنا مانکر انکو گلے لگایا تھا، پتھر کو ہمنیں پوج اپنا خدا بنایا تھا،اگر کوئ بندا ان جملوں پر اپ نے ہونٹ ہلاکر ویڈیو بناکر ، فیسبک ڈالتا ہے اور لوگ کمینٹ میں تعریف کریں تو ان سب کا کیا حکم ہے، اس بارے میں رہنمائ فرمائے،

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھوالھادی الی الصواب

پتھر کو ہمنیں پوج خدا بنایا تھا، یہ جملہ کفر ہے اس پر ہونٹ ہلانے والا توبہ تجدید ایمان نکاح کرے، اور جن لوگوں نے اس پر کمینٹ کیا ہے وہ سب بھی توبہ کرے کمینت کرنے والوں نے گانے کو صحیح سمجھکر اس پر کمینٹ کیا تو وہ بھی توبہ تجدید ایمان نکاح کرے اور اگر صرف اس کی ایکٹنگ دیکھکر کمینٹ کیا ہے تو بھی توبہ کرے

کے گناہ کے کام پر اس کی تعریف ہے،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینتال،9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:11، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ بھی عبادت کرتا ہے کہنا کیسا[ترمیم]

اللہ بھی عبادت کرتا ہے کہنا کیسا


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس جملہ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ بھی عبادت کرتا ہے؟

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ بھی عبادت کرتا ہے یہ جملہ کفریہ ہے کہنا والا توبہ تجدید ایمان نکاح کرے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:16، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

ابلیس جن تھا یا فرشتہ[ترمیم]

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں

ابلیس فرشہ تھا تفصیلی اور مدلل جواب عنایت فرماۓ

سائل مزمل دنیاپور

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ابلیس جن تھا یا فرشتہ اس میں اختلاف ہے، علامہ قرطبی لکھتے ہیں،  جمہور کے قول کے مطابق  ابلیس فرشتوں میں سے تھا حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود حضرت  ابن المسیب اور حضرت قتادہ و غیرہ ہم کا یہی مختار ہے,  امام ابو الحسن اشعری کا بھی یہی نظریہ ہے، امام جریر طبری اس کو ترجیح دی ہے، حضرت ابن عباس نے کہا کہ ابلیس کا نام عزازیل تھا اور یہ معزز فرشتوں میں تھا اور چار پروں والا تھا اس کے بعد یہ اللہ کی رحمت سے مایوس کردیا گیا، جمہور مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھا، ان کی دلیل سورہ بقر کی یہ آیت ہے، اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا آدم کو سجدہ کروں تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ، ابلیس کو سجدہ کا حکم اسی وقت ہوگا جب وہ فرشتہ ہو کیوں کہ اس آیت میں سجدہ کا حکم فرشتوں کو ہیں، اور جو علماء یہ کہتے ہے ابلیس جن تھا  فرشتہ نہیں تھا وہ یہ کہے سکتے ہیں کہ ابلیس جن تھا فرشتوں کے درمیان چھپا رہتا تھا اس لیے بہ طور تغلیب فرشتوں میں داخل تھا دوسرا جواب یہ ہے جنوں کو بھی سجدہ کرنے کا حکم تھا لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ جب اکابر کو کسی کی تعظیم کرنے کا حکم دیا جاۓ تو اس سے معلوم ہوجاتا ہے جب اکابر کو تعظیم کا حکم ہے تو اصاغر کو اس کی تعظیم کا حکم بہ طریق اولی حکم ہے

امام ابن جریر طبری علامہ،  قرطبی امام رازی قاضی بیضاوی اور علامہ آلوسی کی تحقیق یہ ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا اس کے برخلاف علامہ سیوطی علامہ نسفی علامہ زمخشری بعض دیگر مفسرین اور متکلمین کی تحقیق یہ ہے کہ ابلیس جن تھا اور قران پاک کی ظاہری آیات اسی کے موافق ہے،

علامہ تفتازانی لکھتے ہے  ابلیس جن تھا اس نے اپ نے رب کی نافرمانی کی لیکن چونکہ وہ فرشتوں کے طرف عبادت گزار تھا اور ان میں چھپا رہتا تھا، اس لیے اسے تغلیبا فرشتوں میں شمار کرلیا گیا

(شرح عقائد)

ابلیس کے جن ہونے پر حسب ذیل دلائل قائم کئے گۓ ہیں،

اللہ کا ارشاد ہے

کان من الجن (الکہف)

اس ایت میں ابلیس کے جن ہونے کی تصریح ہے،۔

2 فرشتوں کی نسل نہیں چلتی اور ابلیس کی نسل ہے،

کیو نکہ قرآن مجید میں ہے

۔،افتتخذونہ و ذریتہ اولیاء،۔

کیا تم شیطان اور اس کی اولاد کو دوست بناتے ہو  (الکہف)

3  اللہ کا ارشاد ہے،

لا یعصون اللہ ما امر ھم و یفعلون مایؤمرون،

وہ اللہ کے کسی حکم کی  نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے،

       (التحریم)

جب کہ ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی

اور اس ایت میں صاف تصریح ہے کے ابلیس جن تھا

فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ

(الکہف)

ترجمہ، ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی،،

4 امام مسلم صحیح مسلم میں روایت کرتے ہے

رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہیں،۔،

اور قران مجید میں تصریح ہے کی ابلیس کو نار سے پیدا کیا گیا ہے

خلاصہ کلام یہ ہے ابلیس کے فرشتہ ہونے نہ ہونے میں اختلافات ہیں

لیکن زیادہ اور قوی دلائل یہ ہے کہ ابلیس جن تھا

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📲

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:22، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

کسی سنی نماز جنازہ گستاخ نے پڑھائ تو کیا حکم ہے[ترمیم]

کسی سنی کی نماز گستاخ رسول نے پڑھائی تو کیا حکم ہے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

سنی امام گستاخ رسول کی نماز جنازہ پڑھائی تو کیا حکم ہے ، اور کوئی گستاخ رسول سنی کی نماز جنازہ پڑھادے تو کیا حکم ہے

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

گستاخ رسول نبی پاک کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر ہے، اگر اس کی نماز جنازہ پڑھائی تو پڑھانے والے اور پڑھنے والوں پر توبہ تجدید ایمان نکاح ضروری ہے،

فتاوی رضویہ میں حلیہ کے حوالے سے  ہے

فی حلیتہ نقلا عن القرا فی و اقراہ دعاء بالمغفرہ للکافر کفر

اور اگر کسی گستاخ رسول نے کسی سنی کی نماز جنازہ کی نماز پڑھائی تو یہ نماز نہیں ہوئی اس نماز کو لوٹایا جاۓ اور اگر اس کو دفن کردیا گیا ہو تو جب تک جسم سڑا گلا نہ ہو تو

اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ ادا کی جاۓ

بہار شریعت  جلد 1 صفحہ

833 پر ہے

  اور مٹی دے چکے تو اب نہیں  نکال سکتے، لہٰذا اب اُس کی قبر پر نماز پڑھیں  کہ پہلی نماز نہ ہوئی تھی

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420129


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:56، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

شریعت کب نافذ ہوئ[ترمیم]

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

حضور

احکا مات دین  کب لاگو ہونا شروع ہوئے

مطلب یہ ہے کہ دین کے احکام کب لاگو ہوۓ تھے۔ شریعت کب نافظ لاگو ہوٸی تھی۔  مکہ میں یا مدینہ میں اور معراج سے پہلے یا بعد میں؟

و علیکم السلام

شرریعت تو شروع سے ہی لوگو پر نافذ ہے

جب انسان کو وجود دیا گیا

اور وہ دنیا میں ایا تب سے ہی شرع شریف نافذ ہے

اللہ فرماتا ہے

ہمنیں انسان اور جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا

خلاصہ کلام یہ ہے انسان کو وجود جب ملا اور وہ دنیا میں ایا تب سے شرع شریف نافذ ہے

کبھی بھی منقطع نہیں ہوئ جس دور میں کوئ نبی نہیں ایا اس دور میں بھی لوگو کو ایمان لانا ضروری تھا اس دور میں بھی شریعت منقطع نہیں ہوئ

واللہ اعلم البصواب

دانش حنفی علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:09، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

راکھی بندھوانا کیسا[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں  علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کہ

ہندوں کا تیوہار راکھی بندھن، والے دن اگر کوئ مسلمان راکھی باندھے یا اپنے بندھواتا ہے تو اس پر کیا حکم شرع ہے،

الجواب ھو الھادی الی الصواب

راکھی باندھنا بندھوانا ناجائز ہے ،  جو کوئ مسلمان  مرد یا عورت  یہ کام کرے  وہ سب فاسق فاجر گنہگار مستحق عذاب نار ہیں ,

فتاوی شارح بخاری

جلد 2 صفحہ 565۔

مسلمان کو چاہیے ان ناجائز کاموں سے بچیں،

اللہ اور رسول کو راضی کرنے ولے کام کرے، تاکہ دنیا و آخرت بہتر بنجاۓ

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:15، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

نقش نعلین پاک میں اللہ و رسول کا نام قرانی آیات لکھنا کیسا[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کہ نقش نعلین پاک میں اللہ اور رسول کا  نام اور قرآن پاک کی آیات مبارک لکھنا کیسا ہے، اس طرح لکھنے میں کوئی گستاخی تو نہیں ہے، بینوا و توجروا

سائل جنید احمد عطاری،اسام

و علیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نقش نعلین پاک پر اللہ و رسول کا نام لکھنا یا بسم اللہ لکھنا، میں کوئی حرج نہیں اور نہ کوئی گستاخی ہے، حضرت عمر فارق اعظم رضی اللہ عنہ نے جانور جو کی صدقہ کے تھے ان کی رانوں پر ،جیسے

فی سبیل اللہ

اللہ کی راہ میں وقف ہے، داغ فرمایا تھا حالانکہ ان کی رانیں بہت محل بے احتیاطی ہے،

اسی طرح کے سوال کے جواب میں امام اہلسنت فرماتے ہیں،

اپ سے سوال ہوا ،،،

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تبرك آثار شریفہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے کیسا اور اس کے لئے ثبوت یقینی درکارہے۔یا صرف شہرت کافی ہے اور نعلین شریفین کی تمثال کو بوسہ دینا کیسا ہے اور اس سے توسل جائز ہے یانہیں؟ اور بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ تمثال نعل شریف کے اوپر بعد بسم اللہ لکھتے ہیں:

اللھم ارنی برکۃ صاحب ھذین النعلین الشریفین۔

یا اللہ! مجھے ان نعلین پاك کی برکت سے نواز۔(ت)

اور اس کے نیچے دعائے حاجت لکھتے ہیں۔یہ کیسا ہے؟ بینوا توجروا

الجواب:

فی الواقع آثار شریفہ حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے تبرك سلفا وخلفا زمانہ اقدس حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے آج تك بلا نکیر رائج ومعمول اور باجماع مسلمین مندوب ومحبوب بکثرت احادیث صحیحہ بخاری ومسلم وغیرہما صحاح و سنن وکتب حدیث اس پر ناطق جن میں بعض کی تفصیل فقیر نے کتاب البارقۃ الشارقۃ علی مارقۃ الشارقۃ میں ذکر کی۔اور ایسی جگہ ثبوت یقینی یاسند محدثانہ کی اصلا حاجت نہیں اس کی تحقیق وتنقیح کے پیچھے پڑنا اوربغیر اس کے تعظیم وتبرك سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے ائمہ دین نے صرف حضور اقدس صلیﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔ امام قاضی عیاض شفا شریف میں فرماتے ہیں:

من اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ و اکرام مشاھدہ وامکنتہ من مکۃ و المدینۃ ومعاھدہ ومالمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام او اعرف بہ [1]۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام متعلقات کی تعظیم اور آپ کے نشانات اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے مقامات اور آپ کے محسوسات اور آپ کی طرف منسوب ہونے کی شہرت والی اشیاء کا احترام یہ سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم وتکریم ہے۔

اسی طرح طبقۃ فطبقۃ شرقًا غربًا عربا عجما علمائے دین وائمہ معتمدین نعل مطہر حضور سید البشر علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بناتے کتابوں میں تحریر فرماتے آئے اور انھیں بوسہ دینے آنکھوں سے لگانے سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور دفع امراض وحصول اغراض میں اس سے توسل فرمایا کئے،اور بفضل الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثار اس سے پایا کئے۔علامہ ابو الیمن ابن عساکر وشیخ ابواسحٰق ابراہیم بن محمد بن خلف سلمی وغیرہما علماء نے اس باب میں مستقل کتابیں تصنیف کیں اور علامہ احمد مقتری کی فتح المتعال فی مدح خیر النعال اس مسئلہ میں اجمع وانفع تصانیف سے ہے۔محدث علامہ ابوالربیع سلیمن بن سالم کلاعی وقاضی شمس الدین ضیف اﷲ رشیدی وشیخ فتح اﷲ بیلونی حلبی معاصر علامہ مقتری وسید محمد موسی حسینی مالکی معاصر علامہ ممدوح وشیخ محمد بن فرج سبتی وشیخ محمد بن رشید فہری سبتی وعلامہ احمد بن محمد تلمسانی موصوف وعلامہ ابوالیمن ابن عساکر وعلامہ ابوالحکم مالك بن عبدالرحمن بن علی مغربی وامام ابوبکر احمد ابو محمد عبداﷲ بن حسین انصاری قرطبی وغیرہم رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہم اجمعین نے نقشہ نعل مقدس کی مدح میں قصائد عالیہ تصنیف فرمائے ان سب میں اسے بوسہ دینے سرپر رکھنے کا حکم واستحسان مذکور اوریہی مواہب لدنیہ امام احمد قسطلانی وشرح مواہب علامہ زرقانی وغیرہما کتب جلیلہ میں مسطور وقد لخصنا اکثر ذٰلك فی کتابنا المزبور

(اور ہم نے اکثر کا خلاصہ اپنی مذکور کتاب میں ذکر کیا ہے۔ت)

علماء فرماتے ہیں جس کے پاس یہ نقشہ متبرکہ ہو ظلم ظالمین وشر شیطان وچشم زخم حاسدین سے محفوظ رہے عورت دردزہ کے وقت اپنے داہنے ہاتھ میں لے آسانی ہو،جو ہمیشہ پاس رکھے نگاہ خلق میں معزز ہو زیارت روضہ مقدس نصیب ہو یا خواب میں زیارت حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مشرف ہو،جس لشکر میں ہونہ بھاگے جس قافلہ میں ہو نہ لٹے،جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے جس مال میں ہو نہ چُرے،جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو جس مراد کی نیت سے پاس رکھیں حاصل ہو،موضع درد ومرض پر اسے رکھ کر شفائیں ملی ہیں،مہلکوں مصیبتوں میں اس سے توسل کرکے نجات وفلاح کی راہ ہیں کھلی ہیں،اس باب میں حکایت صلحاء وروایات علماء بکثرت ہیں کہ امام تلسمانی وغیرہ نے فتح المتعال وغیرہ میں ذکر فرمائیں اور بسم ﷲ شریف اس پر لکھنے میں کچھ حرج نہیں،اگریہ خیال کیجئے کہ نعل مقدس قطعا تاج فرق اہل ایمان ہے مگر اﷲ عزوجل کانام وکلام ہر شے سے اجل واعظم وارفع واعلٰی ہے۔یوہیں تمثال میں بھی احتراز چاہئے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔اگر حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی جاتی کہ نام الہٰی یا بسم ﷲ شریف حضور کی نعل مقدس پر لکھی جائے تو پسند نہ فرماتے مگر اس قدر ضروری ہے کہ نعل بحالت استعمال وتمثال محفوظ عن الابتذال میں تفاوت بدیہی ہے اور اعمال کا

مدارنیت پر ہے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے جانور ان صدقہ کی رانوں پر جیس فی سبیل ﷲ

(ﷲ کی راہ میں وقف ہے۔ت)

داغ فرمایا تھا حالانکہ ان کی رانیں بہت محل بے احتیاطی ہیں۔ بلکہ سنن دارمی شریف میں ہے:

اخبرنا مالك بن اسمعیل ثنا مندل بن علی الغزی حدثنی جعفر بن ابی المغیرۃ عن سعید بن جبیر قال کنت اجلس الی ابن عباس فاکتب فی الصحیفۃ حتی تمتلی ثم اقلب نعلی فاکتب فی ظہورہما،، واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

مالك بن اسمعیل نے خبرد ی کہ مندل بن علی الغذی نے بیان کیا کہ مجھے جعفر بن ابی مغیرہ نے سعید بن جبیر کے حوالے سے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے پاس بیٹھا ایك کاغذ پر لکھ رہا تھا کہ وہ کاغذ پر ہوگیا پھر میں نے اپنا جو تا الٹا کر کے لکھا،وﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم

فتاوی رضویہ جلد 21

صفحہ 413

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:20، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

غوث اعظم رفع یدین کرتے تھے تو آپ کیوں نہیں کرتے[ترمیم]

*🌿السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ مشہور ہےکے حضورغوث اعظم عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔۔۔کی کتاب میں لکھا ہے آپ رفع یدین کے ساتھ  نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔اب اہلسنت پے سوال اٹھتا ہے جب آپ کے پیر رفع یدین کےساتھ نماز ادا کرتے تھے تو آپ کیوں ان کی طرح نہیں پڑھتے؟؟؟؟ رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

*المستفتی رضا پاکستان*

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ

حنبلی مذہب کے پیروکار تھے جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ اپ حنبلی تھے،

امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہوۓ اپ نے رفع یدین کیا،

ہم چونکہ حنفی ہے اور مسائل میں امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں ، اس وجہ سے ہم رفع یدین نہیں کرتے، ہم چونکہ حنفی ہے اور

ہم حنفیوں کو مسائل میں تقلید کا حکم امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کا یے

نہ کے غوث پاک کی تقلید کا غوث پاک حنبلی تھے ، تو اپ نے امام احمد کی تقلید کرتے ہوۓ رفع یدین کیا

واللہ اعلم

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:23، 9 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ہے[ترمیم]

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

کہ کیا وسیلہ سے دعا مانگ سکتے ہیں اوراسکا طریقہ کیا ہو گا؟

رہنماٸی فرما دیں

بنت محمد پاکستان

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

وسیلہ سے دعا بلکل مانگ سکتے ہے جائز ہے، وسیلہ سے دعا مانگنا  جائز ہے اور اس کا طریقہ بھی اس حدیث میں بتایا گیا یے ،

امام ترمذی روایت کرتے ہیں

ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں دعا  کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر  ( و سود مند )  ہے“۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ”وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه ”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر

ترمذی حدیث نمبر 3578

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نبمر 25 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:22، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا قاضی شریح نے امام عالی مقام کے قتل کا فتوی دیا تھا[ترمیم]

السلام عليكم  و رحمة الله و بركاته

قاضی شریح کیسے انسان تھے؟

شیعہ ان کے خلاف لکھتے ہیں کہ انھوں نے امام حسین کے قتل کا فتوی صادر کیا تھا۔

کیا یہ بات اہل سنت کے مطابق درست ہے؟

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ بات کسی معتبر کتاب میں نہیں ہے کی امام حسین کے قتل کا فتوی دیا ہو

اگر امام حسین کے قتل کا فتوی اپ نے دیا ہوتا

تو مختار اپ کو بھی مار دیتا کیوں کہ اس نے تمام اہل بیت کے قاتلوں کو مار ڈالا تھا قاضی شریح کو نہ مارنا اس بات پر دلالت کرتا ہے ،

اپ نے امام حسین کے قتل کا فتوی نہیں دیا تھا

واللہ اعلم

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:24، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر کے یہاں فاتحہ دینا کیسا[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

کے کافر کے یہاں قرآن پاک پڑھنا فاتحہ دینا کیسا ہے،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ہندو کے یہاں فاتحہ دینا یا قران پاک پڑھنا جائز ہے ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں

کافر کے یہاں کسی مباح کام کے لیے جانے کی اجازت ہے، تمام مسلمانوں کا اس پر عمل درآمد ہے، اس لیے کسی ہندو کے گھر جاکر قران مجید پڑھنا اور کسی بزرگ یا مسلمان کو ایصال ثواب کرنا درست و جائز ہے، کفر تو کیا ہوگا گناہ بھی نہیں، جب کہ ہندوؤں کے دیوتاؤ کی تصویر وہاں نہ ہو جہاں قرآن خوانی ہوئی

📗فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 550

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:25، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

انگلش زبان میں بیان کرنا کیسا[ترمیم]

انگلش زبان میں بیان کرنا کیسا


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں ایک صاحب بول رہے ہیں

میں اسلامی بیان اس وجہ سے نہیں سنوں گا کے اس میں انگلش ورڈ استعمال کرتے ہیں

جیسا کی عبد الحبیب عطاری وہ اپنے بیان میں انگلش استعمال کرتے ہیں ،۔۔

ساہل مرزا

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

بیان انگلش میں ہو یا اردو میں یا  عربی میں جس زبان میں چاہے کریں

ساری زبان اللہ کی بنائی ہوئی ہیں ، ہاں جس زبان کو لوگ سمجھتے ہو جانتے ہوں اس زبان میں بیان کیا جاۓ

یا پھر خاص بیان ہی ان لوگوں کے لیے ہو جن کو حاضر کیا گیا ہے

اور انگلش یا کوئی اور زبان میں بیان ہو اور سن نے والے اس زبان کو جانتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں،

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی بھی زبان میں بیان ہو سکتا ہے لیکن جس زبان کو لوگ جانتے ہو اسی زبان میں وہاں بیان کیا جاۓ،

بعض اوقات دوران بیان کچھ ورڈ انگلش کے بولے جاتے ہیں

جس کو عام طور پر سب جانتے بھی ہوتے ہیں ، تو انکو استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانینینیتال


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:28، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

روزہ کیا ہے کہنا کیسا[ترمیم]

روزہ کیا ہے کہنا کیسا

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں، ایک شخص بول رہا ہے روزہ کیا ہے

یعنی روزہ کے ساتھ اور بھی تو فرض ہیں ، اس کے گھر میں کئ لوگ بیمار تھے ان کو بول رہا تھا روزہ کیا ہے روزہ کے ساتھ اور بھی تو فرض ہیں جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو جواب دیا کوئی صرف روزہ رکھے اور نماز نہ پڑھے تو یہ فاقہ ہے ،

تو ایسا کہنے والے پر کیا حکم ہے

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

روزہ نام ہے جمع کھانے پینے سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک رک جانے کا نام ہے،

اگر کوئی روزہ رکھے نماز نہ پڑھے تو وہ نماز نہ ادا کرنے کے سبب گنہگار ہوگا لیکن اس کا روزہ ہوجاۓگا،

اس کو فاقہ سے تعبیر کرنا جھالت یے، اور بعض صورتوں میں کفر بھی ہے،

اگر بیمار ہو اور روزہ پورا کرنے پر قادر نہ ہو تو روزہ چھوڑ دے بعد میں قضا کرے، روزہ کیا ہے اگر اس کو ہلکہ جانکر حقارت کی نیت سے کہا تو یہ کفر ہے ،روزہ کیا ہے کہنے سے مراد اگر یہ تھی کہ روزہ رکھنا فرض ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اور بھی تو فرائض ہیں اس کو ادا کرنا بھی تو ضروری ہے

صرف روزہ ہی تھوڑی ہے نماز زکوٰۃ حج وغیرہ بھی تو فرض ہیں ان کو بھی ادا کرو تو اس پر کوئی حکم نہیں،

بلکہ تمام فرائض کو ادا کرنے پر نیکی کا حکم دینا ثواب ہے،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:29، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

دعوت اسلامی کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے[ترمیم]

دعوت اسلامی کے بارے میں

اپ کا کیا موقف ہے،

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

اپ کی کتاب مشہور موضوع روایات کا تحقیقی جائزہ پڑھی

بہت اچھی کتاب ہے اللہ اپ کے علم عمر عمل میں برکت عطا فرماۓ

، اس میں کی کچھ روایات دعوت اسلامی والوں نے اپنی کتابوں میں بھی لکھی ہیں ، اور ان میں سے پڑھکر جمعہ کے دن میں نے بیان بھی کیا ہے، لیکن ان روایات پر اپ نے اپنی کتاب میں ان روایات پر کلام کیا ہے

، اپ کا دعوت اسلامی کے تعلق سے کیا موقف ہے قبلہ حضور

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

دعوت اسلامی اہلسنت کی عظیم تحریک ہے، جو کی دین سنت کی خدمت انجام دے رہی ہے

دعوت اسلامی والے بھی سنی حنفی قادری رضوی ہے،  دعوت اسلامی کو ہم سنی حنفی جانتے ہے، اور دعوت اسلامی کا سپورٹ بھی کرتے ہیں ، ہمارا ان سے بعض مسائل میں اختلاف ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہم ان کو اہلسنت سے

خارج گمراہ ہر گز نہیں مانتے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:30، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

اگر کوئ مسلمان ہونے آیا اس سے کہا غسل کر کے آؤ تو کیا حکم ہے[ترمیم]

اگر کوئی مسلمان ہونے ایا اس سے کہا غسل کر کے آؤ تو کیا حکم ہے اس پر�

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام اس بارے میں ،۔ کسی عالم کے پاس کوئی کلمہ پڑھنے آیا اس نے کہا پہلے غسل کرکے آؤ تو اس عالم پر کیا حکم ہے،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

صورت مسئولہ میں عالم دین پر توبہ تجدید نکاح لازم ہے،

📗فتاوی تاوی فقیہ ملت جلد 1

صفحہ 17 پر ہے،

عالم دین پر توبہ تجدید ایمام نکاح لازم ہے ، کہ وہ غسل کرنے کے وقت تک

اتنا دیر کفر پر راضی رہے ،

کہ جس وقت کافر نے کہا مجھے کلمہ پڑھا دیجئے تو ان پر فرض تھا فوراً کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے، مگر انہونے ایسا نہیں کیا بلکہ غسل کرنے کا حکم دیا جبکہ کلمہ اور ایمان لانے کے لیۓ غسل کرنا ضروری نہیں یے،

شرح فقہ اکبر میں ہے

کافر قال لمسلم اعرض علی الاسلام فقال اذھب الی فلان العالم کفر لانہ رضای ببقائہ

فی الکفر الی حین  ملازمتہ العالم و لقائہ،

اور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں،


و من المکفرات ایضا ان یرضی بالکفر  و لو ضمنا کان یسائلہ کافر یرید الاسلام ان یلقنہ کلمتہ الاسلام فلم یفعل او یقول لہ اصبر حتی افرغ من شغلی او ج

خطبتی لو کان خطیبا

📗فتاوی تاوی مصطفویہ حصہ اول صفحہ 22

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:32، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

چھین لونگا خدا سے گانا گانا کیسا[ترمیم]

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،،

ایک گانا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے، کے چھین لونگا خدا سے یا

مامنگ لاؤنگا ۔، یہ گانا کیسا ہے یا اپ نے اسٹیٹس پر یہ گانا لگانا کیسا ہے

الجواب ھو الھادی الی الصواب خدا سے چھین لونگا یہ جملہ کفر ہے

گانے والا توبہ تجدید ایمان کرے۔، نیز اسٹیٹس پر لگانے والا بھی توبہ کرے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:35، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

شرک جلی شرک خفی کسے کہتے ہیں[ترمیم]

السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

،

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

*شرک خفی شرک جلی دونوں کیا ہے اور دونوں میں فرق کیا ہے*

سائل رضوان

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

شرک جلی یہ ہے، کے اللہ کے علاوہ کسی اور کو مستحق عبادت یا واجب الوجود سمجھنا

علامہ تفتازانی شرح عقائد

میں فرماتے

الاشراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیتہ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقاق العبادتہ کما لعبدہ الاصنام،

ترجمہ ،شرک یہ ہے کسی کو الوہیت میں شریک مانا جائے، خواہ کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے جیسا کے مجوس مانتے ہیں، یا کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے جیسا کے بت پرست مانتے ہیں،،

شرک خفی یہ ہے کے اعمال کو لوگوں کو دکھانے نمائش کرانے کے لیۓ اعمال کیا جائے،

نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم

نے فرمایا

جس چیز کا مجھے تم پر زیادتی خوف ہے وہ شرک اصغر ہے،

صحابہ کرام نے عرض کی

وما الشرک الاصغر یا رسول اللہ، یعنی یا رسول اللہ شرک اصغر کیا ہے،ارشاد فرمایا،  الریاء یعنی دکھاوا کرنا،،

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو،، واجب الوجود ماننا یا اسکو عبادت کا مستحق جاننا یہ شرک جلی کہلاتا ہے،

دکھاوا اور نمائش کے لیے اعمال کرنا یہ شرک خفی کہلاتا ہے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،

9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:36، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

اگر کوئ سوا کلمہ کفر بول دے تو کیا حکم ہے[ترمیم]

اگر کوئ سہوا کلمہ کفر بول دے تو کیا حکم ہے

🌿السلام علیکم  و رحمتہ اللہ و برکاتہ🌿

کیا فرماتے ہے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

1  اگر  کوئی یہ نہ جانتا ہو کی اللہ عزوجل پر اعتراض کرنا کفر ہے تو اس پر کیا حکم ہے ،،

2 اتنے سارے لوگ جو کفریہ بول بول دیتے ہیں،  کس کس کو سمجھایا جاۓ اور بعض تو سمجھانے پر کفر اور بول دیتے ہیں،

سائل رضوان قادری

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

1   الجواب ھو الھادی

الی الصواب

اگر کوئ سہوا کفر بول دے تو اس پر توبہ کافی  ہے ، تجدید ایمان اور نکاح ضروری نہیں  ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی جلال الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

سہوا کفر اگر کوئی بول دے تو اس پر توبہ کافی ہے تجدید ایمان نکاح ضروری نہیں ،

فتاوی فقیہ ملت جلد 1 صفحہ 5

2 جو لوگ سمجھانے پر توبہ کرلے تو تھیک اور اگر نہ مانے اور کفر بولے تو اس کا بوال اس پر ہے تجدید ایمان نکاح توبہ سب کرنا ضروری ہے ایسے شخص پر

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:37، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

قبر میں سوالات کے وقت کیا نبی تشریف لائیں گے[ترمیم]

*🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے

بارے میں کہ قبر میں جب سوالات ہونگےتو نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف فرماہوں گےاس کا جواب درکار ہےآپ کی عین نوازش ہوگی

اسلامی بہن پاکستان

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

قبر میں نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم خود تشریف لائیں گے یا آپ کی شبیہ مبارک دکھائی جائے گی ، اس کا حدیث پاک میں

  تعین نہیں ہے، البتہ حدیث میں اتنا آیا ہے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ نصَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے ، اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں ، تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ۔ (اسی اثنا میں) دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تم اس شخص محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے  جو مومن ہے ، تو وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اسے کہا جاتا ہے : جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو ، اللہ نے اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے ۔ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھتا ہے ، رہا منافق و کافر شخص ، تو اسے بھی کہا جاتا ہے ۔ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ، میں وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے ، اسے کہا جائے گا : تم نے (حق بات) سمجھنے کی کوشش کی نہ پڑھنے کی ، اسے لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ ایک ساتھ مارا جائے گا تو وہ چیختا چلاتا ہے جسے جن و انس کے سوا اس کے قریب ہر چیز سنتی ہے ۔‘

مشکات حدیث 126

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں

البتہ یہ سوال بہت اہم ہے شارحین نے اس کی تین توجیہیں کی ہیں، قبر سے گنبد خضری تک سارے حجابات اٹھا دیے جائیں گے اور مردہ نبی علیہ السلام کا دیدار سے مشروف ہوگا آب اس سے  نکیرین نبی کریم کی طرف اشارہ کرکے سوال پوچھیں کے دوسری توجیہ یہ ہے، نبی علیہ السلام کی شبیہ مبارک نکیرین کے پاس ہوگی اس کی طرف اشارہ کرکے پوچھیں گے،  تیسری توجیہ یہ ہے کہ نبی کریم خود تشریف لاتے ہیں، مگر ان تینوں میں سے کوئی قطعی نہیں کے ان میں سے کسی کا انکار کرنے والا کافر مردتد یا گمرہ ہو

واعظین اپنا بازار چمکانے کے لیے وعظوں میں تیسرے احتمال کو اس زور شور سے بیان کرتے ہیں ے گویا یہی قطعی یقینی ہے،  اور دوسرے احتمالات باطل ہے، عوام واعظوں سے سنکر قطعی سمجھنے لگے ہیں

📗فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 405

واللہ اعلم بصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

  9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:40، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

حضرت بلال نے اذان نہ دی تو کیا صبح نہ ہوئ[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿السلام علیکم  و رحمۃاللہ وبرکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی اذان نہیں دیا تھا تو صبح نہیں ہوئی تھی...

یہ واقعہ اگردرست نہیں تواس پر حوالہ درکارہے؟؟

اسلامی بہن پاکستان

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

بہت مشہور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے منہ سے شین کی جگہ سین نکلتا تھا اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہونٹ موٹے تھے جس وجہ سے شین نہیں نکلتا تھا  جس وجہ سے ان کو اذان پڑھنے سے روکا تو آپ نے فجر کی اذان نہیں دی تو سورج نہیں نکلا یعنی صبح نہیں ہوئی یہ دونوں روایتیں

موضوع ہیں من گھڑت ہے  باطل ہے

محدثین نے اسے باطل موضوع جھوٹ قرار دیا ہے علامہ علی قاری علامہ طاہر پٹنی تحریر فرماتے ہیں  علی السنتہ عوام  ولم نرہ  فی شیء من الکتاب

عوام کی زبانوں پر یہ بات چل پڑی ہے حالانکہ ہمیں یعنی محدثین حضرات کو یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نظر نہیں آئی  علامہ عجلونی حضرت علامہ ناجی کا قول نقل کرکے لکھتے ہیں اس حدیث کے موضوع ہونے کا  یقین اس درجہ کا تھا کی علامہ فرماتے تھے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھا کر کہتا ہوں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کبھی اسہد سین  کے ساتھ کبھی نہیں پڑھا علامہ عجلونی کشف الخفاء میں یہ بھی لکھتے ہیں محدثین نے حضرت بلال کی سوانح حیات میں یہ بھی لکھا ہے حضرت بلال کی آواز اونچی تھی حسین خوبصورت تھی امام سخاوی فرماتے ہیں اگر حضرت بلال کی آواز میں لکنت ہوتی تو بہت سارے ذریعہ  سے یہ بات معلوم ہوتی نیز منافقین گمراہ لوگ اسی کو لے کر ایک نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیتے حافظ ابن کثیر نے فرمایا انہ  لیس لہ اصل اس کی کوئی اصل نہیں ہے  محدثین کی تصریحات سے پتا چلا یہ روایت جھوٹی باطل بنائی ہوئی ہے

حضرت بلال پر محض یہ الزام بہتان ہے ایک عام مومن پر الزام بہتان لگانا گناہ ہے تو ایک صحابی پر جھوٹی تہمت الزام لگانا کتنا بڑا جرم گناہ ہوگا

جب یہ بات ثابت ہوگئی حضرت بلال کی زبان کے تعلق سے کہی جاتی ہے باطل محض ہے تو اس سے پتا چلا صبح نہ ہونے والا  قصہ بھی جھوٹا ہے آئیے اب میں آپ کو بخاری کی روایت بتاتا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ صبح  نہ ہونے والا  قصہ بھی جھوٹا باطل ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے جب اپکو نیند آنے لگی تو اتر پڑے اور حضرت بلال سے کہا ہمارے لئے تو رات کا خیال رکھنا یعنی فجر میں اٹھانا حضرت بلال نے جتنا مقدر میں تھا نفل ادا کیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سو گئے جب فجر قریب ہوئی تو حضرت بلال نے اپنی اونٹنی کے ساتھ ٹیک لگا دی اسی حالت میں آپ پر نیند غالب آگئی جس وجہ سے آپ کی آنکھ نہیں کھلی اور نہ کسی صحابی کی یہاں تک کے ان کو دھوپ محسوس ہونے لگی تو سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور فرمایا بلال یہ کیا ہوا بلال نے عرض کی میری جان کو اسی نے روکے رکھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو روکے رکھا اپ نے  اونٹوں کو چلانے کا حکم دیا تھوڑی دور  اونٹوں کو چلایا  پھر آپ نے وضو کیا اور

نماز پڑھائی

دیکھا آپ نے حضرت بلال نے آذان بھی نہیں پڑھی  بلکہ سورج بھی نکل آیا اب اس واقعے کی روشنی میں صبح نہ ہونے والے کی کیا حیثیت ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ لوگوں کا بنایا ہوا ہے اس کی کوئی اصل نہیں  ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتا دوں جو  حضرات حضرت بلال کے رنگ کو کالا بولتے ہیں یہ بھی صحیح نہیں ہے  بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ گندمی تھا  اگر میں اس پر بحث کروں تو یہ کتاب اسی سے پر ہو جائے گی اور ہمارا اصل مقصد رہ جائے گا اس لئے میں اس پر بحث نہیں کرتا  ہاں البتہ

اگر کسی کو حضرت بلال کے رنگ اور وہ حبشی تھے یا نہیں

جاننے کا شوق ہو تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں جمال بلال رضی اللہ عنہ تحقیق سے آپ کے رنگ اور حبشی نہ ہونے پر کلام کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے

( المقاصد الحسنہ جلد 1 صفحہ 397)

( کشف الخفاء جلد 1)

(موضوعات کبیر حدیث نمبر 297)  (بخاری حدیث نمبر 595)

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 33 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:42، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

ذرہ ذرہ سمیٹکر بنایا شعر کہنا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ🌿

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

ذرہ ذرہ سمیٹکر خود کو بنایا ہے ہمنیں، مجھ سے یہ نہ کہنا بہت ملیں کے تم جیسے

اس طرح کے شعر کہنا کیسا

سائل محمد سعید لطیفی. نعیمی

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

.مذکورہ شعر میں شاعر پر کوئی حکم نہیں، شاعر اس شعر میں اپنی محنت بتانا چاہتا ہے کہ میں بہت محنت کر کے اس مقام پر آیا ہوں، میری محنت کی وجہ  سے یہ مقام ملا ہے یہ نہ کہنا مجھ سے بہت ملیں گے یعنی میری طرح محنت ہر کوئی نہیں کر سکتا،

واللہ اعلم بصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوا نمبر 34 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:43، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر کے مذہب کی تیہوار کی مبارکباد دینا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿کافر کے مذہبی تیوہار کی مبارک باد دینا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

اس مسئلہ کے بارے میں کافر غیر مسلم کے  مذہبی تیوہار کی ہولی دیوالی کی  مبارک باد دینا کیسا ہے،

سائل محمد ہاشم

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

کافر کے مذہبی تیوہار کی مبارکباد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے

فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 566 پر  

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں

کافر کے مذہبی تیوہار کی مبارکباد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر جو مسلمان ایسا کرتے ہے ان پر توبہ تجدید ایمان لازم ہے...

فتاوی عالمگیری میں ہے

و یخرجہ الی نیروز المجوس و الموافقتہ معھم فیما یفعلون فی ذلک الیوم الی ان قال

و یا ھدائہ ذلک الیوم للمشرکین ولو بیضتہ

تعظیما لذلک الیوم،،،

اور مجوسیوں کے تہوار نوروز میں شریک ہونے اور اس دن کے مشرکانہ افعال میں، ان کی موافقت کرنے کی وجہ سے مزید فرمایا اور اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے مشرکین کو اس دن تحفہ دینے کی وجہ سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے، اگرچہ تحفہ میں ایک انڈا ہی کیوں نہ دے،،،

ہولی جو کی غیر مسلموں کا شعار ہے اس میں شرکت حرام بد کام بد انجام  شریک ہونے والوں پر توبہ فرض ہے اور تجدید ایمان و تجدید نکاح بھی کرلیں

فتاوی تاج الشریعہ جلد 2 صفحہ 74

ہولی کے موقع پر رنگ کو برا جانتے ہوئے تھوڑا سا لگوانا ناجائز و گناہ  ہے

فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد 2صفحہ 380

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 35 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:45، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کے لیۓ جمع کا صیغہ بولنا کیسا[ترمیم]

*اللہ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسا؟ 🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

حضور سنی کے شعائر کیا ہیں؟

وضاحت فرمائیں

نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے جمع و واحد کے صیغہ استعمال کرنے پر دلائل موقفات دیجیے

بنت راحت اللہ

کراچی پاکستان

و علیکم السلام و رحمۃاللہ  وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

1 عقائد اہلسنت پر جو عمل پیرا ہو انکو اہلسنت کہا جاتا ہیں اور انہی کو سنی کہا جاتا ہیں.

فتاوی حامدیہ جلد 1 صفحہ 134 پر ہے

ضروریات مذہب اہلسنت وہ  مسائل ہے، جو دلیل قطعی سے ثابت ہوں لیکن ان میں تاویل کا احتمال ہو،

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں مذہب اہلسنت کی ضروریات کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ اس کا مذہب اہلسنت سے ہونا سب عوام و خواص سب اہلسنت کو معلوم ہو، جیسے عذاب قبر اعمال کا وزن،

نزہتہ القاری ج 1 ص 239

مذکورہ تعریف کی روشنی میں، علمائے عظام و فقہاۓ کرام، نے ضروریات اہلسنت و عقائد اہلسنت کی، جو تفصیل بتائی ہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔،

اور انہی میں سے شعائر اہلسنت ہیں

شیخین کو تمام صحابہ سے افضل سمجھنا، موزو پر مسح کو جائز سمجھنا، تمام صحابہ و اہلبیت کا ادب کرنا، شیخین کی خلافت تسلیم کرنا،، معراج کا جسمانی ہونا، حضرت علی حضرت عثمان سے محبت کرنا،

خلفاۓ اربع رضی اللہ عنھم کی خلافت تسلیم کرنا،،

مجتہد کی تقلید کو واجب جاننا

میلادالنبی کے استحسان کا اعتقاد

2 اللہ عزوجل کو واحد کے صیغہ سے ہی یاد کرنا چاہیے اور یہی بہتر ہے، لیکن اگر کوئی تعظیما جمع کا صیغہ استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں

تعظیما جمع کا لفظ  بولنے میں

حرج نہیں اور بہتر صیغہ واحد ہے کہ واحد احد کے لیے وہی انسب ہے، قرآن عظیم میں ایک جگہ رب عزوجل سے خطاب جمع ہے رَبِّ ارْجِعُوۡنِ وہ بھی زبان کافر سے ہے

فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 209

امام اہلسنت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں

ﷲ عزوجل کو ضمائر مفردسے یاد کرنا مناسب ہے کہ وہ واحد احد فرد و تر ہےاور تعظیمًا ضمائر جمع میں بھی حرج نہیں،اس کی نظیرقرآن عظیم میں ضمائر متکلم ہیں توصدہا جگہ ہے:(مثلا)

" اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ

لَحٰفِظُوۡنَ

بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور   بیشک ہم خود  اس کے نگہبان ہیں

اورضمائر خطاب میں صرف ایک جگہ ہے وہ بھی کلام کافر سے کہ عرض کرے گا:رب ارجعون لعلی اعمل صٰلحا (اے میرے رب مجھے واپس پھیردیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں۔، اس میں علماء نے تاویل فرمادی کہ یہ"ارجع"کی جمع باعتبار تکرارہے یعنی"ارجع ارجع ارجع"ہاں ضمائر غیبت میں بے ذکر مرجع صیغ جمع فارسی،اور اردو میں بکثرت بلانکیر رائج ہیں

،بہرحال یوں ہی کہنا مناسب ہے کہ ﷲ تعالٰی فرماتاہے،مگر اس میں کفروشرك کا حکم کسی طرح نہیں ہوسکتا،نہ گناہ ہی کہاجائے گا

فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 655

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

https://t.me/fatawahanfiya

سوال نبمر 36 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:46، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

میرے پیر پر کروڑوں درود کہنا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿میرے پیر پر کروڑوں درود ہو کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے اپنے پیر کے لیے کہ میرے پیر صاحب پر کروڑوں درود تو کیا اس طرح کہنا صحیح ہے یا کوئی حکم ہے اس پر!؟

سائل  نوشاد صابری جلگاؤں

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اگر کوئی  شخص یہ کہتا ہے میرے پیر پر کروڑوں درود تو کہنے والے پر کوئی حکم نہیں

اس طرح کہنا درست ہے اور درود کے معنی یہاں رحمت اور سلامتی کے ہے

اللہ عزوجل قرآن پاک میں

فرماتا ہے

اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ   ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾

یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی دروُ دیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں ،

سورتہ البقرہ آیت 157

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 37 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:47، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا نبی نعلین پہنکر عرش پر گۓ[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿کیا نبی کریم نعلین پاک عرش پر پہن کر گئے🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

کہ معراج کی رات میں کیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعلین مبارک پہن کر عرش پر گئے تھے

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نعلین مبارک  پہن کر گئے تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتارنا چاہا تو آواز آئی اے حبیب نعلین کے ساتھ تشریف لائیں تاکہ عرش کو عزت زینت حاصل ہو مذکورہ روایت کے متعلق امام   اہل سنت اعلٰی حضرت

رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ  محض چھوٹ ہے موضوع ہے  

(  احکام شریعت حصہ دوم صفحہ 160)

ملفوظات اعلٰی حضرت میں بھی ہے کہ یہ روایت محض باطل موضوع ہے  

( ملفوظات اعلٰی حضرت صفحہ 293)

شارح بخاری شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں اس روایت کے موضوع ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ روایت حدیث کی کسی معتبر

کتاب میں نہیں ہے جو صاحب یہ روایت بیان کرتے ہیں ان سے پوچھے کہ کہاں لکھا ہے ایسا ( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ 370)

حضرت علامہ امجد علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ مشہور ہے کہ شب معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نعلین مبارک پہن کر عرش پر تشریف لے گئے اور  واعظین اس کے متعلق ایک اور روایت بیان کرتے ہیں اس کا ثبوت نہیں اور یہ بھی ثابت نہیں کہ برہنہ پاؤں تھے لہذا اس کے متعلق سکوت کرنا بہتر ہے  

( بہار شریعت حصہ 16 مجلس خیر مسئلہ نمبر 6)

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال 37 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:48، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

پیر اگر عورتوں سے زنا کرے تو اس سے مرید ہونا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿پیر اگر زنا کرے عورتوں سے مصافحہ کرے تو اس سے مرید ہونا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

پیر اگر زنا کرتا ہو اور عورتوں سے مصافحہ کرتا ہو تو اس پیر سے مرید ہونا کیسا ہے،

و علیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

پیر اگر عورتوں سے مصافحہ کرتا ہو اور زنا بھی کرتا ہو،

تو ایسے پیر سے مرید نہیں ہو سکتے ایسا پیر فاسق و فاجر ہے اگر اس سے بیعت کی ہو تو بیعت توڑدی جائے

کسی نیک صالح پیر سے مرید ہو، اور ایسے جاہل پیر کا بائیکاٹ کیا جائے میل جھول سب بند کردیا جائے یہاں تک کے وہ راہ راست پر آجائیں

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوا نمبر 39 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:49، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی اللہ کے محتاج ہیں کہنا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محتاج ہیں کہنا کیسا ہے*

نبی کریم اللہ کے محتاج ہے یا نہیں

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ صحیح ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محتاج ہیں، لیکن جوہ مخوہ بار بار محتاج بولنا ناپسند دیدہ ہے

بلکہ بعض صورتوں میں کفر بھی ہے

لہذا نبی کریم کو مالک مختار جیسے  القاب سے پکارا جائے، ہاں اگر ضروری طور پر کوئی کہے تو کوئی گستاخی بھی نہیں ہے،

اللہ عزوجل قرآن پاک میں

فرماتا ہے

سورة فاطر آیت 15

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ  اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ  ھوَ  الۡغَنِیُّ   الۡحَمِیۡدُ

اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے

اس عموم میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں

یہ صحیح ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے محتاج ہیں

علاوہ ازیں اس کی دلیلیں اہلسنت کا بنیادی عقیدہ ہے کے نبی علیہ السلام کے سارے کمالات عطائی ہیں اور ہر

معطی لہ معطی کا محتاج ہوتا ہے، مگر عرف عام میں محتاج استخفاف کے لے بولا جاتا ہے،

اس لے بلا ضرورت خوہ مخوہ یہ کہتے پھرنا حضور اقدس اللہ کے محتاج ہیں، سخت ناپسند دیدہ ہے،

بلکہ بہ نیت استخفاف ہو تو کفر ہے،

فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 366

امام اہلسنت ایک مقام پر لفظ محتاج کے بارے میں فرماتے ہیں

یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام دوسروں کے محتاج نہیں لیکن سیدانبیاء صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سب کو محتاجی ہے،جیسا کہ انبیاء سے اخذِ میثاق والی آیت کریمہ اور صحیح مسلم کی یہ حدیث اس پر شاہد عادل ہے کہ تمام مخلوق میری طرف راغب ہے حتی کہ جناب ابراہیم خلیل ﷲ علیہ الصلوۃ والسلام بھی۔اس قسم کی حدیثیں کسی عقیدہ کے مخالف نہیں

فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 390

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 40 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:51، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

شب معراج اللہ نے کیا لغت علی پر کلام کیا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿کیا شب معراج اللہ نے نبی پاک سے  لغت  علی پر کلام🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے

کہ معراج کی رات اللہ نے نبی علیہ السلام سے حضرت علی کی لغت پر کلام کیا تھا

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ عزوجل نے معراج کی رات حضرت علی کی لغت پر کلام کیا یہ ایک روایت ہے جو شیعوں نے گھڑی ہے، یہ جھوٹ

منگھڑت روایات

عبداللہ بن عمر سے لوط بن یحیی ازدی بیان کرتا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے پوچھا گیا کہ شب معراج آپ سے اللہ نے کس  لغت پر کلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابی طالب کی لغت میں کلام کیا مجھے الہام ہوا کہ یوں کہو کہ اے اللہ تو نے مجھے خطاب کیا یا پھر علی المرتضی  نے تو اللہ نے فرمایا اے احمد میں دنیاوی چیزوں کی طرح کوئی چیز نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے لوگوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے میں نے تجھے اپنے نور سے بنایا اور پھر تیرے نور سے علی کو پیدا فرمایا میں نے تیرے دل کے رازوں کو دیکھا تو آپ کے دل میں علی سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ پایا لہذا میں نے ان کی لغت میں تمہیں خطاب فرمایا تاکہ تمہارا دل مطمئن رہے یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے شیعوں کی بنائی ہوئی ہے   

میزان الکتب صفحہ373

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 42 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:52، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا غوث پاک فرشتوں کے پیر ہیں[ترمیم]

*🌿کیا غوث پاک فرشتوں کے بھی پیر ہیں🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ہم نے ایک تقریر میں سنا ہے  غوث اعظم فرشتوں کے بھی پیر ہیں، اگر یہ صحیح ہے تو اس کا کیا معنی جب کہ پیر راہ راست سے بھٹکے لوگو کو راہ دکھاتا ہے اور فرشتے تو ہر دم عبادت کرتے رہتے ہیں، تو کیا فرشتوں کو بھی راہ دکھاتے ہیں غوث اعظم

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

جی یہ بات صحیح ہے غوث اعظم انسانوں جنوں  کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے بھی پیر ہے، خود غوث اعظم فرماتے ہیں میں فرشتوں کا بھی پیر ہوں،

امام اہلسنت فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں

قال رضی الله تعالٰی عنہ وعزّۃ ربّی ان السعداء و الاشقیاء یعرضون علی وان بؤبؤ عینی فی اللوح المحفوظ انا حجۃ الله علیکم جمیعکم انا نائب رسول الله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم ووارثہ فی الارض و یقول الانس لھم مشائخ والجن لھم مشائخ و الملٰئکۃ لھم مشائخ وانا شیخ الکل،رضی الله تعالٰی عنہ،ونفعنابہ

حضورسیدنا غوث اعظم رضی الله تعالٰی عنہ نے فرمایا "مجھے عزت پروردگار کی قسم!بے شك سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں،بیشك میری آنکھ پُتلی لوح،محفوظ میں ہے،میں تم سب پر الله کی حجت ہوں،میں رسول الله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کا نائب اور تمام زمین میں ان کا وارث ہوں۔اورفرمایا کرتے:آدمیوں کے پیر ہیں،قوم جن کے پیرہیں،فرشتوں کے پیر ہیں اور میں ان سب کا پیر ہوں۔"ملا علی قاری اسے نقل کر کے عر ض کرتے ہیں:الله عزوجل کی رضوان حضور پر ہو اورحضور کے برکات سے ہم کو نفع دے۔

فتاوی رضویہ  جلد 28 صفحہ 396

غوث اعظم فرشتوں کے پیر ہے کے یہ معنی ہے. کے وہ فرشتوں کے بھی پیارے ہیں. محبوب ہیں، نہ کی یہ کے فرشتے راہ راست سے بھٹکتیں ہیں اور انکو راہ  غوث پاک دکھاتے ہیں

واللہ بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 41 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:53، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

اختلافی مسائل میں تفسیق کرنا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

از قلم علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

🌿 *اختلافی مسائل میں کسی کو گمراہ یا فاسق کہنا کیسا؟*🌿

فتاوی رضویہ کی روشنی میں

اختلافی مسائل میں تفسیق کرنا کیسا

فروعی   مسائل میں اختلاف رحمت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اختلاف میری امت کے لئے رحمت ہے  لیکن کچھ لوگ اس رحمت کو زحمت بنائے ہوئے ہیں اگر کسی مسئلہ میں کسی بزرگ سے اختلاف کیا جائے اختلاف کرنے والے نے اپنی تحقیق  اور دلائل سے اختلاف کیا  ہو  تو کچھ لوگ اس کو گمراہ یا اس کو  فاسق کہتے ہوئے نظر آتے ہے  اور اس اختلاف سے ان کا ہاضمہ اس قدر خراب ہو جاتا ہے  ان کو ذرا بھی ہضم نہیں ہوتا جس بنا پر وہ لعن طعن تفسیق تضلیل کرتے نظر آتے ہیں  جبکہ اجتہادی مسائل میں کسی کو برا بھلا کہنا جائز نہیں   اعلی حضرت فرماتے ہیں

ولا تفسیق بالاجتھادیات

اور اجتہادی مسائل میں کسی کو فاسق کہنا جائز نہیں

اجتہادی مسائل میں کسی پر طعن بھی جائز نہیں نہ کہ معاذ اللہ  ایسا  خیال کے گمراہ یا کافر کہا جائے

  اعلی حضرت مزید فرماتے ہیں

جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دیکھاۓ تو وہ بے باک نڈر اور بے  احتیاط ہے،  پس راسخ علماء اور محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف اجتہادی مسائل میں کسی ایک طرف یقین نہیں رکھتے ۔

فتویٰ شارح بخاری میں مفتی شریف الحق رحمہ فرماتے ہیں

جب علماء کا کسی مسئلے میں

اختلاف ہو تو یہ درست نہیں ایک دوسرے کو فاسق کہا جاے،

صدر الافاضل نعیم الدین صاحب کے پیر مرشد سید شاہ علی حسین کے مرید اور خلیفہ تھے اور اعلی حضرت کے انتہائ نیاز مند اور محبوب تھے مگر اعلیٰ حضرت نے کبھی بیعت فسخ کرنے کا حکم نہیں فرمایا اعلی حضرت کی یہ عادت تھی وہ کیسی فاسق کی تعطیم نہیں کرتے تھے َور امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے

مولانا اشرف رحمۃاللہ علیہ مزامیر کے ساتھ قوالی سنا کرتے تھے اور یہ بات اعلیٰ حضرت کے علم میں تھی اس کے باوجود اعلیٰ حضرت ان کی قیام تعظیم کرتے تھے اور ان کی دست بوسی بھی کرتے تھے بلکہ آپ نے اپنی خلافت سے انکو نوازا تھا،، یہی حال مفتی اعظم ہند اور علامہ حامد رضا کا تھا سید محمد صاحب کی دست بوی کرتے ان کی قیام تعظیم  کرتے،، بات در اصل یہی ہے، جب ایک مسئلہ میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو فاسق فاجر نہیں کہا جاے گا،،،

فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 277

امام اہلسنت سے سوال ہوا مزار قبر کا بوسہ لینا چاہیے کہ نہیں،،.

آپ نے جواب دیا، فی الواقع بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے، اور تحقیق یہ ہے وہ ایک؛ مر ہے، دو چیشوں داعی و مانع کے درمیان، دائر داعی محبت ہے، اور  مانع ادب تو جسے غلبہ محبت ہو  تو اسپر مواخذہ نہیں، پھر اس پر مزید کلام کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں،،.

امام علامہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں:

المسئلۃ متی امکن تخریجھا علی قول من الاقوال فی مذھبنا او مذھب غیرنا ، فلیست بمنکر یجب انکارہ والنھی عنہ وانما المنکر ماوقع الاجماع علٰی حرمتہ والنھی عنہ  وﷲ تعالٰی اعلم

جب کسی مسئلہ کا ہمارے مذہب یا دیگر ائمہ کے مذہب پر جواز نکل سکتا ہو تو وہ ایسا منکر نہیں کہ اس پرانکار اور اس سے منع کرنا واجب ہو۔ ہاں گناہ وہ ہے کہ وہ اس کے حرام ہونے اور اس کے منع ہونے پر اجماع ہو۔ وﷲ تعالٰی اعلم

فتاوی رضویہ 9 جلد 530

قارئین دیکھا آپ نے امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والے فاسق ہے بلکہ کہا اس سے کوئ مواخذہ نہیں،، اور آخر میں تو یہ فرما دیا یہ وہ منکر نہیں جس پر انکار واجب ہو،، اس سے ان مفتیوں کو سبق لینا چاہیے جو اختلافی مسائل میں فاسق کا فتویٰ داغ دیتے ہے، اور ایک عالم مفتی کی ذات کو مجروح کردیتے ہیں،،،

ایک اور مقام پر امام اہلسنت سے وال ہوا

بوسہ قبر جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ت)

الجواب:

اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے۔بکثرت اکابر جواز و منع دونوں طرف ہیں اور عوام کے لئے زیادہ احتیاط منع میں ہے۔

فتاوی رضویہ جلد 22 ،ص 421

یہاں بھی امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والے فاسق، ہے، صرف یہ کہا عوام کے لیے احتیاط منع ہے،

ایک اور مقام پر سوال ہوتا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت وطریقت و مفتیان راز داران معرفت وحقیقت اس مسئلہ میں کہ بعض شیوخ ومرشدین نے اپنے کچھ مریدین کو ہدایت وتاکید کررکھی ہے کہ وہ ان کے پاؤں کو بوسہ دیا کریں یعنی چوما کریں۔بزرگان دین رحمہم اﷲ تعالٰی کے مزارات پر جھک کر سلام کیا کریں اور ان کی قبور کو روافض کی طرح بوسہ دیا کریں بقول ان کے ایسا کرنا جائز ہے۔کیا واقعی شریعت وطریقت میں ایسا کرنے کی اجازت ہے اور یہ شرک وکفرنہیں ہے؟ کتب اسلامی کے حوالے سے بیان فرمائیں تاکہ اﷲ تعالٰی کے ہاں ماجور ہوں اور لوگوں کے ہاں مشکور

الجواب:

بوسہ قبر بمذہب راجح ممنوع است فی شرح عین العلم لعلی قاری ولا یمس ای القبر ولا التابوت والجدار فورد النھی عن مثل ذٰلک بقبرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فکیف بقبور سائر الانام و

صحیح اور قابل ترجیح مذہب میں کسی بھی قبر کو بوسہ دینے یعنی چومنے کی اجازت نہیں بلکہ ممانعت ہے۔چنانچہ محدث ملا علی قاری رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کی شرح عین العلم میں ہے کہ قبر، تابوت اور دیوا رکو ہاتھ نہ لگایا جائے کیونکہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی قبر اطہر کے بارے میں اس طرح کرنے سے روکا اور منع کیا گیا ہے،،

قارئین کرام یہاں بھی امام اہلسنت نے یہ نہیں فرمایا کی بوسہ دینے والا فاسق ہے، بلکہ آپ نے صحیح اور قابل ترجیہ مذہب منع ہے فرمایا،، اس کے باوجود آپ نے یہ نہیں فرمایا بوسہ دینے والا فاسق ہے،،

اگر آپ کو منصب افتاء ملا ہوا ہے تو آپ کسی مفتی یا عالم کا نام لیکر وہ بھی ایسے مسئلہ میں جس میں اکثر علماء مشائخ جواز کے قائل ہیں

اس کو فاسق قرار دے، تو میں سمجھتا ہوں یہ کام سراسر اصول افتاء کے خلاف ہے آپ کا یہ فتویٰ صرف فرد واحد کے لیے نہیں پھر ان مجوزین کے لیے بھی ہوگا، اور ان کو فاسق بنانا ہوگا لا حول ولا قوۃ الا باللہ،،

احتیاط تو یہ ہے آپ نے موقف میں امکان خطا سمحتے ہوئے اپنے فتاوی میں نرمی اور احتیاط کا پہلو اپنایا جاے چونکہ مسئلہ قطعی نہیں، بلکہ اجتہادی ہے اور وہ بھی ایسا جس میں اکثریت. مبتلاء ہیں،، کسی عالم یا مفتی کو فاسق کہنا گویا کہ کیا آپ کے پاس وحی الہی آی ہے یا آپ کو یہ غیب سے بتایا گیا کہ آپ ہی اس مسئلہ میں حق پر ہے، باقی ناحق فاسق فاجر ہے،،.

اللہ کریم ہمیں منصب افتاء کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے فہم فقہ اور فہم افتاء عطا فرمائے

بہت سارے ایسے مسائل ہیں  جن میں خود سیدی اعلی حضرت نے اکابر علماء سے اختلاف کیا  اور اعلی حضرت سے بعد کے علماء نے اختلاف کیا    مثال کے طور پر  پیشاب کی بہت باریک چھنٹیں کپڑے پر پڑ جائے تو کپڑا ناپاک نہ ہوگا لیکن وہ کپڑا تھوڑے پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک ہوگا یا نہیں اس بارے میں اعلی حضرت  فرماتے ہیں کہ ناپاک ہو جائے گا لیکن اس کے بعد صدر الشریعہ نے یہ موقف اختیار کیا کے ناپاک نہیں ہوگا  اسی طرح اعلی حضرت نے سیب کا چونا کھانا فتاوی رضویہ میں حرام لکھا ہے   لیکن علمائے بہار نے اسے حلال قرار دیا ہے  اس طرح کے  بہت سارے مسائل ہیں لیکن  کسی نے کسی پر لعن طعن نہیں کیا نہ ہی  تفسیق کی نہ جانے کیوں آج لعن طعن والی بلا میں عالم مفتی کہلانے والے بھی مبتلا ہیں ذرا سا کسی عالم کو کسی مسئلہ میں اختلاف کرتا پایا تو اس پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں

اللہ کریم ہمیں صحیح فہم فقہ و افتاء عطا فرمائے

خاکسار عاجز  اسیر  بارگاہ امام اعظم ابو حنیفہ،، دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:55، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

تین جمعہ چھوڑنے والا کیا کافر ہے[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿تین جمعہ چھوڑنے والا کیا کافر ہے🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں اگر کسی نے تین جمعہ نماز چھوڑی تو کیا وہ کافر ہوجائے گا؟

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نماز ترک کرنا نہ پڑھنا گناہ ہے، جہنم میں جانے کا سبب ہے، لہذا نماز کو ہرگز نہ ترک کیا جائے،

اگر کسی نے تین جمعہ ترک کردیئے ہو تو وہ کافر نہ ہوگا ہاں نماز ترک کرنے کا گناہ اس کے اوپر ہوگا

امام اہلسنت فرماتے ہیں

جمہور علماء تارک نماز کو فاجر جانتے میں، مگر کافر نہیں کہتے جمہور جن میں ہمارے علماء بھی شافعی مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بھی کی بھی رائے یہ ہے کہ کافر نہیں کہا جائے گا،،

فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 107

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 46 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:56، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر کو سجدیں کے فائدیں بتانا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿کافر کو سجدے کے فائدے بتانا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں،

کسی کافر کو سجدے کے فائدے بتانا کیسا، اور وہ اس فائدے کی وجہ سے سجدے کرنے کا اس کا دل کرے تو، کیا حکم ہے اس بارے میں ذرا بتائیے آپ،،

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

کسی کافر کو سجدے کرنے کے فائدے نہ بتائیں جائیں ہاں اگر وہ بیمار ہو اور آپ ڈاکٹر ہے تو اتنا کہدے آپ زمین پر سر رکھوگے تو فائدہ ہوگا،،

سجدے کے فائدے آپ نے بتایا تو اس فائدہ کی وجہ سے وہ کافر سجدہ زیادہ سے زیادہ کرےگا اور ظاہر سے بات ہے کافر اللہ کو نہیں بلکہ اپنے معبودوں کو سجدہ کرتے ہے، تو اس وجہ سے وہ اپنے معبودوں کو زیادہ سجدہ کرےگا، لہذا اس کو صرف اتنا بتادیا جائے آپ بیمار ہو تو زمین پر سر رکھے،  اس سے یہ فائدہ ہوگا

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبمر 47 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:57، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

بات پر فتاوی سے گھر برباد ہوگا کہنا کیسا[ترمیم]

https://t.me/fatawahanfiya

*🌿بات بات پر فتووں سے گھر برباد ہوگا کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کہ

جب تمہاری شادی ہوگی تو شیطان تمہیں ایک سبق پڑھائے گا،، چلو بیوی کی اصلاح کرتے ہیں

بیوی کی اصلاح نہیں کی جاتی، اس سے عشق کیا جاتا ہے،

تم فتووں سے گھر چلاؤگے تو اپنا گھر  برباد کروگے محبت سے گھر چلاکر دیکھو ہمیشہ آباد رہےگا،.   اگر کسی نے یہ کہا تو اس پر کیا حکم ہے،،،

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب مذکورہ سوال میں گھر فتووں سے چلاؤگے تو اپنا گھر برباد کروگے یہ جملہ صحیح نہیں اس طرح کے جملے استعمال نہ کیا جائے،،

اگر اس کا مطلب فتووں کی توہین کرنا ہے، چونکہ فتوی حکم شرع ہوتا ہے اور حکم شرع کی توہین کفر ہے یا

یہ ہے خلاف شرع کام سے اس کو روکوگے بات بات پر اس کو کہوگے یہ حرام ہے، یہ ناجائز ہے، بار بار اس سے یہ کہوگے تو یہ کفر ہے، کی اس نے حرام کام سے روکنے اور اس پر اصلاح کرنے کو گھر برباد کرنے سے تعبیر کیا جو کی کفر ہے،، توبہ کرے

حرام کام اور خلاف شرع کام سے روکنے پر گھر برباد نہیں بلکہ گھر آباد ہوتا ہے،

اور اگر اس کا مطلب یہ ہے بار بار اس کو ٹوکا جائے اور یہ ٹوکنا دنیاوی کام پر ہو یا دینی کام پر یا کوئی اور کام ہو الغرض بار بار ٹوکوگے تو اس سے گھر برباد ہوگا،، اس جملہ پر کوئی حکم نہیں، لہذا قائل کی جو بھی ان میں سے نیت ہوگی اس پر اسی اعتبار سے حکم شرع نافذ ہوجائے گا

واللہ اعلم بالصواب


علامہ دانش حنفی  

ہلدوانی نینیتال

📲 9917420179

سوال نبمر 48 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:59، 12 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر لڑکی سے محبت کرنے پر کیا کافر ہو جاۓ گا[ترمیم]

*🌿کافر لڑکی سے محبت کرنے پر کیا کافر ہوجائے گا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

اس بارے میں کسی کافر لڑکی سے محبت کی ہو تو کیا محبت کرنے والا کافر ہوجائے گا

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

کسی کافر لڑکی سے صرف محبت کرتا ہے، تو یہ کافر نہ ہوگا،، ہا اگر کوئی کام اس کی محبت میں ایسا کیا جو کفر یا شرک ہو تو اس پر حکم کفر ہوگا اور اسے توبہ اور تجدید ایمان کرنا ہوگا،

بیوی والا ہو تو تجدید نکاح بھی،،  فقط

محبت کرنا اور اس بیچ جو تمام طرح کے معاملات پیدا ہوتے ہیں ، یہ حرام ہیں جہنم میں لیکر جانے والے کام ہیں ،  ایسے کام  سے توبہ کرے اور اللہ سے معافی طلب کرے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:21، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر کے لیۓ مغفرت کی دعا کرنا کیسا[ترمیم]

*🌿کافر کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

رھنمائی فرمائیں ھندو کے گھر قرآن خوانی کرنا جب قرآن خوانی جائز توپھربرکت مغفرت کے لیئے دعاکاکیاحکم

ھوگابینووتواجرو۔۔۔ سائل فقیراحمدرضاعطاری

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب کسی کافر کے لئیے ایصال ثواب کرنا یہ جانتے ہوئے کی یہ کافر ہے، ضرور کفر ہے، کہ اس نے کافر کو ثواب کا مستحق جانا اور یہ کثیر نصوص قطعیہ کے خلاف ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ ضروریات دین سے نہیں ہے، اس لیے کافر کو ایصال ثواب کرنے والے کو قطعی طور پر کافر نہیں کہا جا سکتا، اس کی نظیر دعائیں مغفرت ہے.

علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 551 پر فرماتے ہیں

چونکہ یہ مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے، کہ کافر کے لیے مغفرت دعا جائز ہے یا نہیں، علماء کی ایک جماعت نے کہا جائز ہے، دوسری جماعت نے فرمایا کفر ہے اور یہی صحیح ہے,,.

علامہ شامی فرماتے ہیں،

قد علمت ان الصحیح خلافہ فادعاء بہ کفر لعدم جوازہ عقلا

ولا شرعا و لتکذیبہ النصوص قطعتہ,

رد المحتار ج 2 صفحہ 238،،

کافر کے لیے مغفرت کی دعاء اور ایصال ثواب کرنا ناجائز وحرام گناہ اور کرنے والا فاسق ضرور البتہ احتیاطاً کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا،،

در مختار میں ہے،،

لا یفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان  فی کفرہ خلاف ولا کان ذلک روایتہ ضعیتہ، ،،

مگر چونکہ مذہب صحیح یہی ہے کہ یہ کفر ہے، اس لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرنے والے کو توبہ تجدید ایمان نکاح کا حکم دیا جائے گا

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:23، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

زنا کرنا کیا کفر ہے[ترمیم]

*🌿زنا کرنے سے کیا کافر ہوجاتا ہے🌿*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کیا زنا کرنے والا کافر ہوجاتا ہے، زنا کرنے کی وجہ سے،،

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

زنا ایک بہت بڑا گناہ ہے،

  جہنم میں لیکر جانے والا کام ہے،

زنا کرنے والو کو بہت شدید عذاب دیا جائے گا جیسا کی حدیث پاک میں وارد ہے،،  مسلمان کو اس فعل بد دور رہنا چاہیے، البتہ اگر کسی نے زنا کیا تو اس سے اس کا ایمان نہیں جائے گا وہ کافر نہیں ہوگا

مسلم شریف میں روایت ہے،،

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:    أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَبَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ

معرور بن سوید نے کہا : میں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نبی ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے پاس جبرئیل آئے اور مجھے خوش خبری دی کہ آپ کی امت کا جو فرد اس حالت میں مرے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ ‘‘ میں   نے کہا : چاہے اس نے زنا کیاہو اور چوری کی ہو ؟

آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔ ‘‘

صحیح مسلم حدیث نمبر 272

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 51 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:24، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کافر سے جھاڑ پھونک کروانا کیسا[ترمیم]

*🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کسی کافر سادھو پنڈت سے جھاڑ پھونک کرانا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

کسی کافر پنڈت سادھو سے جھاڑ پھونک کرانا ناجائز حرام ہے،، بلکہ کفر کی طرف لیکر جانے والا کام ہے،

ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں

ہندو عموماً اپنے منترو میں معبدان باطل کی دہائی دیتے ہے، اس لیے کافر سے ہر گز ہرگز نہ کرائے حدیث میں ہے،،

انا لا نستعین بمشرک،

مسلمان کو ہندوں کے منتر نہیں پڑھنا چاہئے کہ عموماً اس میں ان کے معبدان باطل کی دہائی ہوتی ہے،، اور یہ کفر ہے،

جو مسلمان ایسا منتر پڑھےگا وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا اس پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہوگا

فتاوی شارح بخاری  جلد 3 صفحہ 140،،

اور ایسا ہی جلد 2 صفحہ 419

فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 52 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:25، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا مختار ثقفی نے نبوت کا دعوی کیا تھا[ترمیم]

*🌿کیا مختار ثقفی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا،🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کیا مختار ثقفی نے  نبوت کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں،

مصباح الدین

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مختار ثقفی نے بہت ہی شاندار کام کیا تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کیا تھا لیکن بعد میں اس ملعون نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور بولا میرے پاس وحی آتی ہے، اور مرتد ہوگیا، مختار کذاب کے بارے میں نبی کریم نے پہلے ہی خبر دے دی کہ وہ کذاب ہوگا

امام جلال الدین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت عبداللہ بن زبیر کے کو دور میں مختار ثقفی ملعون نے نبوت کا دعویٰ کیا، جب آپ کو اس کے دعوے نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر روانا فرمایا جو مختار پر غالب ہوا، اور ماہ رمضان 67 ہجری میں یہ بد بخت ملعون کذاب  مارا گیا،

تاریخ الخفا  مترجم صفحہ 215

مشکات شریف میں ہے

وَعَنِ ابْنِ

عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ: الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ثقیف (قبیلے) میں ایک شخص کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔‘‘ عبداللہ بن عصمہ نے کہا : کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور ظالم سے مراد حجاج بن یوسف ہے ، ہشام بن حسان نے کہا : حجاج نے جن افراد کو باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچتی ہے ۔ ، رواہ الترمذی ۔

مشکات حدیث 5993

ترمذی میں روایت ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُصْمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ   ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ يُقَالُ الْكَذَّابُ:‏‏‏‏ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُبِيرُ:‏‏‏‏ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے

ترمذی حدیث 2220

شارح صحیح مسلم امام نووی فرماتے ہیں،

اتفقو علماء علی ان المراد بالکذب ھنا المختار بن ابی عبید و باالمبیر حجاج بن یوسف،

علماء کا اتفاق ہے، کہ یہاں کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور مبیر سے مراد حجاج بن یوسف ہے

امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں، یہ کذاب ہے، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ نہ یہ صرف خود گمراہ بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا، یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوتے تھے

خلاصہ کلام یہ ہے، مختار ثقفی نے نبوت کا دعویٰ کیا جس وجہ سے وہ مرتد ہے، اس کے نیک کام اس کو بچا نہیں سکتے

واللہ اعلم الصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 53 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:27، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

عمار کو باغی گروہ قتل کریگا روایت کا جواب[ترمیم]

*🌿حضرت عمار کو باغی گروہ قتل کریگا کا جواب🌿*

السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نبی کریمﷺ حضرت عمار کو باغی گروہ قتل کریں گا وہ اُنہیں (باغی گروہ کو) جنت کی طرف بلائے گے مگر وہ اُنہیں جہنّم کی طرف بلائے گا اور وہ باغی گروہ امیر معاویہ کا تھا

ایک تفضیلی یہ سنّیوں کو بہکا رہا ہے اِس کی کیا حقیقت ہے حضرت رہنمائی فرمائے

سید راکب علی، امراؤتی ضلع مہاراشٹر

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس حدیث پاک میں جو باغی گروہ کی بات کہی گئ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہے،

جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس سے حضرت امیر معاویہ ہرگز مراد نہیں، اور نہ ہی انکا نام موجود ہے،  اس طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی شامل تھے، تو باغی گروہ سے مراد وہ لوگ ہے، جو خارجی شامل تھے، اس لیے الزام نہ تو حضرت علی پر ہوگا اور نہ ہی حضرت معاویہ پر،، اگر بضد ہوکر یہی بولے، چونکہ قتل حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا ہے، تو الزام انہی پر ہوگا، تو پھر ہم کہیں گے حضرت علی کے لشکر میں موجود ایک شخص نے حضرت زبیر بن عوام کو قتل کردیا تھا، اور اس قتل کرنے والے کے لیے جہنم کی خوشخبری نبی علیہ السلام نے پہلے ہی سنا دی تھی،، چونکہ وہ حضرت علی کے گروہ کا شخص تھا تو کیا اب، الزام حضرت علی پر ہوگا اور جو بات حضرت امیر معاویہ کے لیے کہی آپ نے تو کیا وہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے  بھی کہیں گے

حدیث یہ ہے،،

حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلٰی عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَأَنَا عِنْدَہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ، ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  یَقُولُ: ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ۔)) سَمِعْت سُفْیَانَ یَقُولُ: الْحَوَارِیُّ النَّاصِرُ۔

زربن جیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابن جرموز نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  نے کہا: سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  کے بیٹےیعنی سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو۔ اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  ہر نبی کا ایک حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ امام سفیان نے کہا: حواری سے مراد مددگار ہے۔

مسند احمد حدیث 11701

حضرت زبیر بن عوام کو

قتل کرنے والا یہ شخص حضرت علی کے لشکر میں موجود تھا تو کیا اس وجہ

اب  حضرت علی پر جہنمی ہونے کا الزام لگائیں گے،،

جس طرح حضرت علی پر کوئی الزام نہیں ہوگا، اسی طرح حضرت معاویہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہ ہوگا، الزام انہی باغی خارجیوں پر ہوگا جو اس میں شامل تھے

اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ باغی تھیرے تو، پھر امام حسین اور حضرت حسن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، کیونکہ ان دونوں حضرات نے نہ صرف بیعت کی حضرت معاویہ سے بلکہ مسلمانوں. کا  امیر بھی بنا دیا،

کیا حضرت حسن و حسین ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں

اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں،، کیا یہ حدیث حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی،، اس حدیث کا مفہوم یہ دونوں حضرات زیادہ بہتر سمجھتے تھے، جو ان سے بیعت کی، یا پھر یہ شیعہ تفضیلی زیادہ بہتر جانتے ہیں،،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروہ میں صلاح کروائے گا، تو پھر گروہ باغی کیسے ہو سکتا ہے،، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ باغی گروہ سے صلاح کیوں کریں گے،،

حضرت امیر معاویہ کا مطالبہ کوئی حکومت حاصل کرنے یا خلیفہ بننے کا نا تھا بلکہ ان کا مطالبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے اس کا قصاص لیا جائے یہ آپ کا مطالبہ تھا

امام ذہبی رحمۃاللہ نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے،، حضرت معاویہ سے معلوم کیا گیا آپ حضرت علی سے خلافت کے معاملے میں اتنا تنازعہ کیوں کرتے ہیں،، آپ نے جواب دیا حضرت علی مجھ سے افضل ہیں، خلافت کے  زیادہ حقدار ہے،

میں یہ چاہتا ہوں حضرت

عثمان جو کے میرے چچازاد بھائی ہے، ان کو ظلما قتل کردیا گیا، میں یہ چاہتا ہوں حضرت علی ان قاتلوں کو میرے حوالے کردے،،،

خلاصہ کلام یہ ہے، باغی گروہ سے وہ خارجی مراد ہیں جو دونوں لشکر میں موجود تھے، اور الزام بھی انہی لوگوں پر ہیں، نہ کے حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ پر

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 54 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:29، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا نبی علیہ السلام جسم مبارک نہیں ہے[ترمیم]

*🌿الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ🌿*

🌿 *حضور ﷺ کی جسم مبارک نور ہے یا نہیں🌿*

اس موضوع پر دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی

قاری سہیل احمد نعمانی آسامی

و علیکم السلام و رحمۃاللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نور ہیں، اور تمام مخلوق حضور کے نور سے ہیں، نبی علیہ السلام کے نور ہونے  پر قرآنی آیات احادیث طیبہ علماء دین کے اقوال گواہ ہیں،

اللہ عزوجل قرآن پاک میں

فرماتا ہے،

قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین، 📗(سورہ مائدہ)

بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا اور روشن کتاب،

ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے،مثل

نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ

📗(، سورہ نور)

رب کے نور محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے،

وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک چمکتا ہوا تارا ہے،،

پہلی آیات میں نو سے مراد نبی علیہ السلام ہیں، اور دوسری آیت میں بھی نور سے مراد نبی علیہ السلام ہیں، پہلی آیت ہم نے جو ذکر کی اس آیت کے ماتحت تفسیر جلالین میں،

ھو نور النبی صلی اللہ علیہ وسلم، نور سے مراد نبی علیہ السلام ہیں،

تفسیر صاوی میں اسی آیت کے ماتحت ہے،، قولہ ھو النبی ای سمی نور لانہ ینور البصائر ولیھدیھا الرشاد ولانہ اصل کل نور حسی و معنوی،،،

رب نے اس آیت میں حضور کو نور اس لیے فرمایا حضور بصارتوں کو نورانی کرتے ہیں اور کامیابی کی طرف ہدایت دیتے ہیں اور حضور حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں،،

اور جو ہم نے دوسری آیت ذکر کی اس کے ماتحت تفسیر خازن میں ہے،

وقیل قد آتی ھذاالتمثیل نور محمد صل اللہ علیہ وسلم،

قال ابن عباس بکعب الاخبار اخیونی عن قولہ تعالیٰ مثل نورہ قال کعب ھذا مثل ضربہ اللہ لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ،

حضرت عبداللہ ابن عباس نے حضرت کعب سے اس آیت نور کے بارے میں پوچھا تو حضرت کعب نے فرمایا اللہ نے یہ مثال اپنے نبی علیہ السلام کی دی ہے،،

ان آیات اور اس کی تفسیر سے معلوم ہوا قرآن پاک نے. نبی علیہ السلام کو نور کہا ہے،،

اس کے علاوہ بھی آیت مبارکہ ہیں جو نبی علیہ السلام کے نور ہونے پر دلالت کرتی ہیں،،

نبی علیہ السلام رب کا نور ہے، اس پر بے شمار احادیث طیبہ بھی وارد ہیں

مثلاً نبی علیہ السلام کے نور سے اندھیرے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی سوئی کا مل جانا، نبی کریم کا سایا مبارک زمین پر نہ ہونا اس طرح کی تمام احادیث مبارکہ نبی علیہ السلام کے نور ہونے پر دلالت کرتی ہیں

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 55 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:30، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا انبیاء علیہ المسلام سے گناہ ہو سکتا ہے[ترمیم]

*🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ*🌿

کیا انبیاء سے گناہ ہو سکتا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کیا انبیاء علیہم السلام سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں، یا نہیں، تو پھر آدم علیہ السلام کی طرف گناہ کی نسبت کیوں کی جاتی ہے،،

بنت مہرالدین چشتی

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ کا صدور نہیں ہوتا، اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے،

ان عبادی لیس لک علیھم سلطان

ترجمہ،  اے ابلیس میرے خاص  بندوں پر تیری دسترس نہیں،

معلوم ہوا کی انبیاء تک شیطان کی پہنچ نہیں، اور نہ تو وہ انہیں گمراہ کرسکتا ہے، اور نہ انہیں بے راہ چلا سکے پھر گناہ کیونکر سرزد ہو،

صدر الشریعہ بہار شریعت جلد 1 صفحہ 38 پر فرماتے ہیں،

نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے، اور یہ عصمت نبی اور ملک کا خاصہ ہے، نبی اور فرشتوں کے سوا کوئی معصوم نہیں، عصمت انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو لیا جس کے سبب ان سے صدور گناہ شرعاً محال ہے،،

امام تفتازانی فرماتے ہیں

الانبیاء علیہم السلام معصومون عن الکذب خصوصاً فیما یتعلق بامر الشراءع و تبلیغ الاحکام و ارشاد الامتہ

انبیا علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں، خصوصاً شرعی معاملات میں تبلیغ احکام اور امت کی رہنمائی میں،،

(شرح العقائد)

حضرت آدم علیہ السلام کو شجر ممنوع کےجانے کو منع کیا تھا انہوں نے اس درخت سے کھایا، جس کی وجہ سے بعض لوگ گناہ کی نسبت حضرت آدم کی طرف کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے،  حضرت آدم علیہ السلام نے اس نہی کو تنزیہہ پر محمول کیا یا وہ کھاتے وقت بھول گئے،

، حضرت آدم علیہ السلام نے اجتہاد کیا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کوئی جھوٹی نہیں کھا سکتا، اور انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اللہ نے تنزیہا منع کیا ہے، یا انہوں نے یہ اجتہاد کیا اللہ نے خاص اس درخت سے،. منع فرمایا ہے، میں اس نوع کے کسی اور درخت سے کھا لیتا ہوں دونوں صورتوں میں ان کے اجتہاد کو خطاء لاحق ہوئی ، اور یہ بھول گئے اللہ نے اس نوع شجر سے منع کیا تھا، اور یہ واضح رہے، اجتہادی خطا اور نسیان عصمت کے منافی نہیں ہے، باقی رہا ان کا توبہ استغفار کرنا تو یہ ان کا کمال تواضع اور انکسار ہے

جسے گناہ کہنا ہر گز جائز نہیں ہے،، اگر انبیاء سے معاذاللہ گناہ صادر ہو تو ان کی اتباع حرام ہوگی، حالانکہ ان کی اتباع کرنا واجب ہے کیونکہ کی اللہ فرماتا ہے،

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی آپ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو،( العمران 31)

اگر نبی سے گناہ کا صدور ہو تو انکو معاذاللہ ملامت کرنا جائز ہوگا، اور اس سے نبی کو ایذا ہوگی اور انبیاء کو ایذا دینا حرام ہے، اللہ فرماتا ہے،

ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرتہ

جو لوگ اللہ و رسول کو ایذا پہونچاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے،

انبیاء لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اگر وہ خود گناہ کریں، تو اللہ ان پر ناراض ہوگا، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے،

کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون

اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناراضگی کی موجب ہے وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے

اگر انبیاء سے معاذاللہ گناہ صادر ہو تو وہ مستحق عذاب ہوتے، کیونکہ. اللہ فرماتا ہے

و من یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خلدین فیھا ابدا،

   ، جن 23

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو لاریب اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہےگا،،،،

اور امت کا اس پر اجماع ہے

انبیا جہنم سے محفوظ اور مامون ہیں اور ان کا مقام جنت خلد ہے

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ کا صدور نہیں ہوتا ،اور ان کی طرف گناہ کی نسبت کرنا ناجائز

و گمراہیت ہے

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179


علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:37، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

ما کان وما یکون کا انکار کرنے والا کیا کافر ہے[ترمیم]

*🌿السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ* 🌿

ما کان وما یکون کا انکار کرنا کیسا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

اگر کوئی شخص نبی علیہ السلام کے ما کان وما یکون علم کا انکار کرے تو اس پر کیا حکم شرع ہے وہ گمراہ ہے یا کافر

سائل مصباح الدین

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم غیب حاصل ہے، وہ اللہ کی عطا سے ہے یعنی عطائی ہے، اللہ عزوجل  انبیاء علیہم السلام کو علم غیب عطا فرماتا ہے،  جیسا کی قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے،

اللہ کریم فرماتا ہے

ما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب

و لکن اللہ یجتبی من رسلہ

من یشاء

اور  اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ اے عام لوگوں تم کو غیب کا علم دے، ہاں وہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے

مشکاتہ باب المعجزات روایت ہے

فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیامۃ فاعلمنا احفظنا،

ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دی جو قیامت ہونے والے ہیں،

پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے،،،

اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے نبی علیہ السلام کو ذرا بھی غیب نہیں ہے، تو ایسا انسان کافر ہے، کیوں کہ ایسا انسان اس قرآن کی آیات کا انکار کرتا ہے، جس میں سراحت کے ساتھ غیب کا علم عطا کیا جاتا ہے فرمایا،،

اور اگر کوئی شخص بعض مانتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے یعنی ما کان وما یکون کا انکار کرتا ہے لیکن بعض علم غیب کی تصدیق کرتا ہے، تو ایسا شخص کافر تو دور گمراہ بھی نہیں ہے،

امام اہلسنت فرماتے ہیں،

ہاں اگر تمام خباثتوں سے پاك ہو اور علم غیب کثیر وافر بقدر مذکور پر ایمان رکھے اور عظمت کے ساتھ اس کا اقرار کرے صرف احاطہ جمیع ماکان وما یکون میں کلام کرے اور ان میں ادب وحرمت ملحوظ رکھے تو گمراہ نہیں صرف خطا پر ہے

فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 541

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

📲 9917420179

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:38، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

میں مسلمان ہوں یا نہیں اللہ جانے کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿میں مسلمان ہوں یا نہیں اللہ و رسول جانے، کہنا کیسا🌿*

کیافرماتے ہیں علماء کرام

کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانے والا مسلمان نہیں ہے

اور یہ حضور نےفرمایا ہے اور اگر کوئی شخص اس سے پوچھے کہ آپ نے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچایا ہے

تو کہتاہے ہاں پہنچایا ہے تو پھر آپ مسلمان ہو یا نہیں اس کے جواب میں کہتا ہے اللہﷻ اور اس کا رسول ﷺ جانے جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تکلیف پہنچانے والا مومن نہیں، اس روایت کا مطلب یہ نہیں ہے، کہ وہ کافر ہے، بلکہ وہ کامل درجہ کے مومن نہیں ہے، مذکور سوال میں جس سے معلوم کیا گیا آپ مسلمان ہو یا نہیں، اس نے جواب میں کہا اللہ و رسول جانے،، اگر اس کی مراد یہ ہے، کامل مسلمان میں ہوں یا نہیں اللہ و رسول جانے جب تو اس پر کوئی حکم نہیں،، اور اگر نفس ایمان کے بارے میں یہ مراد ہو میں ایمان والا ہوں یا نہیں،

اللہ و رسول جانے،، تو اس توبہ اور تجدیدِ ایمان نکاح والا ہو تو نکاح لازم ہے،، چونکہ اللہ و رسول اور ضروریات دین کا زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تصدیق کرنا ضروری ہے،، جو زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق نہ کرے وہ مومن مسلمان نہیں ہے،،

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 56 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:39، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا جانور کے اندر روح ہوتی ہے[ترمیم]

*🌿کیا جانور کے اندر روح ہوتی ہے🌿*

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں

انسانوں کے اندر روح ہوتی ہے؟ کیا جانوروں کے اندر بھی روح ہوتی ہے یا جان ہوتی ہے کسی نے کہاکہ جانوروں کے اندر روح نہیں ہوتی ان کے اندر جان ہوتی ہے

سائل

عبد الوحید عطاری

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

انسانوں کے اندر اور

جانوروں کے اندر بھی روح ہوتی ہے، البتہ جانوروں کی ارواح کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، راجح قول کے مطابق جانوروں کی ارواح ہوا میں معلق رہتی ہیں، یا اللہ کو جہاں منظور ہو وہاں معلق رہتی ہیں،، جیسا کی علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ نے روح المعانی میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے،،

یسئلونک عن الرح،،الایتہ،،،

ثم ان ارواح سائر الحیوانات من البھائم و نحوھا قیل تکون بعد المفارقتہ فی الھواء ولا اتصال لھا بالا بدان

روح المعانی پارہ 15

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 57 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:40، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام کا نام سنکر انگوٹھے چومنا کیسا[ترمیم]

*🌿نبی علیہ السلام کا نام پاک سن کر انگوٹھے چومنا 🌿*

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھوں کو چومنا کیسا اس حوالے سے ہمارے علماء کی کیا رائے ہے حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

جنید احمد عطاری اسام

و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد سن کر چومنا جائز مستحب ہے، بزرگوں کا طریقہ ہے،

خود صحابی رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے چومنا ثابت ہے،، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک سن کر چومنا برکت اور فضیلت کا سبب ہے،،

امام سخاوی رحمۃاللہ علیہ

نقل کرتے ہیں،،

لما سمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللہ، قال ھاذا وقبل باطن الا نملتین السبابتین و مسح علی عینہ فقال صلی اللہ علیہ وسلم من فعل مثل ما فعل خلیلی فقد حلت لہ شفاعتی،

جب مؤذن کو کہتا ہو سنا اشھد ان محمدارسول اللہ، تو انہونے یہی کہا اور اپنی انگشتان شہادت چوم کر آنکھوں پر لگایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرے اس پیارے دوست کی طرح کریگا میری شفاعت اس کے لیے حلال ہو گئ،،

امام سخاوی مزید فرماتے ہیں،،

من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحببی و قرتہ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم

و یقول ابھامیہ و یجعلھما علی عینہ لم یعم ولم یرمد،،

جو کوئ مؤذن سے نبی علیہ السلام کا نام سنیں اور یہ کہے قرتہ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگائے اس کی آنکھیں نہیں دکھیں گی نہیں،،

مزید فرماتے جو نام محمد چوم کر آنکھوں پر لگائے،،

لم یعم ولم یرمد

وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ آنکھیں دکھیں گی

مقاصد الحسنہ حدیث نمبر) 1021

علامہ شامی رد المحتار شرح در مختار میں فرماتے ہیں

کذا فی کنذ العباد قھستانی و نحوہ فی الفتاوی صوفیہ و فی کتاب الفردوس، من قبل ظفری ابھامیہ عند سماع اشھد ان محمدا رسول اللہ فی الاذان انا قائدہ و مد خلہ فی صفوف الجنتہ و تمامہ فی حواشی البحر للرملی،،

ایسا ہی کنذ العباد  قھستانی میں اور اسی کی مثل فتاوی صوفیہ میں ہے، اور کتاب الفردوس میں ہے، جو شخص اذان میں نبی علیہ السلام کا نام سنکر اپنے انگوٹوں کو چوم کر آنکھوں پر لگائے اس کے متعلق نبی کریم نے فرمایا میں اس کا قائد بنو نگا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کراؤں گا اس کی پور بحث بحر کے حواشی رملی میں، ہے،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 58 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:41، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا نبی علیہ السلام اعلان نبوت سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے[ترمیم]

*🌿کیا نبی علیہ السلام اعلان نبوت سے پہلے لکھنا پرھنا جانتے تھے🌿*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

علماء و مفتیان اکرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے

کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم قبل نبوّت پڑھنا لکھنا جانتے تھے ؟

سہیل اشرفی

راجستھان

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

نبوت کے بعد لکھنا پڑھنا جانتے تھے، یہ تو درست ہے، جن لوگوں نے  نبوت کے بعد کی بھی نفی کی ہے،، ہم اس پر کلام نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کا جواب دینا مقصود ہے، اصل سوال کا جواب جو طلب کیا گیا ہے، اس کی طرف میں آتا  ہوں،،نبی علیہ السلام کا ایک لقب امی ہے، جس کے کئ معنی ہیں میں صرف دو کو ذکر کرتا ہوں، امی کا ایک معنی ہے، جو پڑھا لکھا نہ ہو،

اور دوسرا معنی ہیں، جو مکہ. مکرمہ کا رہنانے والا ہو،، ہمارے نزدیک امی کا یہی دوسرا معنی  مراد صحیح ہے،، کیونکہ کہ، نبی علیہ السلام نبوت سے قبل بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، یہ الگ بات ہے، آپ اس میں مشغول نہیں رہے، کیونکہ اس دور میں مکہ مکرمہ میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوا کرتے تھے، اور ان پڑ کے سامنے لکھنےسے کوئی فائدہ نہیں ہے، جیسا کی ہمارے یہاں کہا جاتا ہے، جو انپڑ ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے، کالا اکسر  بھینس برابر،، نبی علیہ السلام نبوت سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،اس کی دلیل یہ ہے،،. نبی علیہ السلام 8 سال کی عمر سے ابو طالب کی کفالت میں رہے ہیں یعنی نبی علیہ السلام کی تعلیم تربیت ابو طالب نے ہی کی ہے،

یہا تک کے تجارت کی بھی تربیت کی اور 12 سال کی عمر میں ملک شام کو اپنے ساتھ لیکر گئے تجارت کی غرض سے،

چونکہ ابو طالب لکھنا پڑھنا جانتے تھے، جیسا کی ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے، جب قحط پڑا تھا اور نبی علیہ السلام کو کھانے کعبہ میں لیکر گئے اور بارش ہونے لگی، اس وقت آپ نے نبی علیہ السلام کی شان میں

ایک قصیدہ  پڑھا

و ابیض یستفی الغمام

شمائل اللتیامی و عصمتہ للارامل

اس قصیدہ کے 80 اشعار ہے، ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں

ابو طالب نے اس قصیدہ کو بعثت کے بعد لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے، ابو طالب لکھنا پڑھنا جانتے تھے، نیز نبی علیہ السلام کے نکاح کے وقت ولولہ خیز جو خطبہ پڑھا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے، ابو طالب پڑھے لکھے انسان تھے، چونکہ نبی کریم کی پرورش ابو طالب نے کی ہے، تو آپ علیہ السلام کو لکھنا پڑھنا بھی سکھایا ہوگا قرین قیاس یہی ہے، جب بچپن میں ہی ملک شام ساتھ لیجاکر تجارت کی تربیت دیتے ہو تو ظاہر بات، لکھنا پڑھنا بھی سکھایا ہوگا، کیونکہ تجارت میں لکھائی پڑھائی  کا کام ہوتا ہے،،

نبی علیہ السلام لکھنا پڑھنا جانتے تھے نبوت سے قبل اس پر قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ بھی دال ہے،

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ  بُکۡرَۃً   وَّ اَصِیۡلًا

اور بولے اگلوں کی کہانیاں ہیں جو انہوں نے لکھ لی ہیں تو وہ ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ،

الفرقان آیت 5...

اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے،، کفار بولے یہ اگلوں کی کہانیاں ہے، جو انہونے لکھلی ہے،،

اس آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے، نبی کریم لکھانا جانتے تھے، اور یہ بات کفار کے علم میں تھی، تبھی تو کفار نے کہا یہ انہونے لکھ لی ہے، اگر نبی علیہ السلام. نبوت سے قبل لکھنا نہیں جانتے تھے اور یہ بات کفار کو بھی معلوم ہو، یہ لکھنا نہیں جانتے، پھر بھی ایسا کہے اپنے پاس سے لکھ لی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا، کفار کو معلوم بھی ہو یہ لکھنا جانتے نہیں پھر بھی کہے اپنے پاس سے لکھلی ہے، اگر نبی علیہ السلام لکھنا نہیں جانتے اور یہ بات کفار کو معلوم بھی ہو تو، کفار اس طرح کہتے، یہ اگلوں کی کہانیاں ہے، جو انہونے لکھوالی ہے،، کفار کا یہ کہنا لکھ لی ہیں ، صاف ظاہر کرتا ہے، نبی علیہ السلام لکھنا جانتے تھے چونکہ تقریباً 53 سال مکہ میں رہے تو کفار کو یہ. معلوم تھا، یہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں،، تبھی انہوں نے کہا،، انہوں نے لکھ لی ہیں،،

چونکہ یہ سورہ بھی مکی ہے، اور مکہ والے یہ جانتے تھے، نبی علیہ السلام کو لکھنا آتا ہے، تبھی انہوں نے ایسا، کہا، اگر نبی لکھنا نہیں جانتے تو کفار کو تعجب ہوتا کہ انہونے یہ کیسے لکھدیا جبکہ یہ جانتے نہیں لکھنا، یا پھر یہ کہتے آپ. نے لکھوایا ہے، نہ تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور نہ ہی کہا لکھوایا ہے، بلکہ کہا انہو نے لکھ لی ہے،

اور یہ جو بعض نے کہا ہے نہ نبوت سے پہلے اور نہ ہی نبوت کے بعد لکھنا جانتے تھے، اور دلیل میں یہ آیت لاتے ہیں

: سورة العنكبوت -48

وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ  بِیَمِیۡنِکَ اِذًا  لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿۴۸﴾

اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل ضرور شک لاتے

اس آیت سے ان کا استدلال کرنا صحیح نہیں، اس آیات اس بات کی نفی نہیں ہے، کی آپ لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے بلکہ، اس کہا گیا ہے، لکھتے اور پڑھتے نہیں تھے، نفی ہونا الگ بات ہے لکھنا پڑھنا نہیں آیا الگ بات ہے،

اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ نہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، بلکہ نبی علیہ السلام کے پاس کوئی اور دوسری اللہ کی کتاب نہیں تھی جس کو آپ پڑھتے یا لکھتے، جب قرآن پاک اللہ نے آپ علیہ السلام کو عطا کردیا تو لکھا بھی اور پڑھا بھی،، لہذا  جن حضرات نے اس آیت کو دلیل بنا کر قبل نبوت اور بعد نبوت لکھنے پڑھنےکی نفی کی ہے، ان کا

استدلال اس آیت سے صحیح نہیں،،،

اعتراض،، تمام علماء نے لکھا ہے، بعد نبوت لکھنا پڑھنا یہ معجزہ ہے، اگر آپ کی تحقیق کو قبول کیا جائے تو ان علماء نے جو کہا یہ معجزہ ہے،  بعد نبوت لکھنا پڑھنا، اور کسی سے نہ سیکھنا، تو اس پر اعتراض لازم آئےگا ،،

جواب  دونوں قول میں اس طرح تطبیق کی جاسکتی ہے،، قبل نبوت لکھنا پڑھنا جو سیکھا اپنے، اس وقت کے لکھنے پڑھنے

میں مہارت حاصل نہ تھی، لیکن بعد نبوت اللہ نے آپکی زبان مبارک اور ہاتھ مبارک پر مہارت کے ساتھ لکھنا پڑھنا  جاری فرما دیا،،،، اس طرح دونوں قول میں تعرض ختم ہوجائے گا

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 59 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:43، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

طبری نے امیر معاویہ پر لعنت کیوں کی[ترمیم]

*🌿طبری نے حضرت امیر معاویہ پر لعنت کیوں بھیجی🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اس مسئلہ میں کہ امام طبری نے حضرت امیر معاویہ پر لعنت ہو لکھا ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائے ،،،

مصباح الدین

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ابن جریر طبری شیعہ سنی کے درمیان متنازع شخصیت ہے، طبری کا جھکاؤ شیعہ کی طرف تھا، طبری کا بھانجا خود اپنے ان اشعار میں فخریہ انداز میں ذکر کرتا ہے،،

با مل مولدی و بنو جریر فاخو الی و یحکی المرء خالہ فھا انا رافضی عن کلا لہ

(الکنی والا لقاب جلد اول)

ترجمہ مقام مل میری جاۓ پیدائش ہے, اور جریر کے بیٹے میرے ماموں یے، اور ادمی اپنے ماموں کے مشابہ ہوتا ہے،ہاں ہاں میں جدی پشتی شیعہ ہوں،،اور میرے سوا شیعہ کہلانے والا جدی پشتی نہیں بلکہ دور کا شیعہ ہے،، اس شعر میں خود اقرار کیا یے ابن جریج طبری شیعہ ہے،،،،اس لیے جو بات طبری کی عقائد اہلسنت کے موافق ہوں گے ،

اس کو تو ہم قبول کرسکتے ہے، لیکن اگر طبری کی کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی اس کو ہم قبول نہیں کریں گے،، لہٰذا جس روایت کے تعلق سے اپنے سوال کیا یے،

طبری نے دو جگہ سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے، میں ایک مقام کا ذکر کرتا ہوں ،، طبری 13 جلد میں اس طرح لکھتے ہے،،

و قد روی نوفل بن معاویہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و تو فی نوفل بالمدینتہ فی خلافتہ یزید بن معاویہ لعنھما اللہ،،،

ترجمہ ،،نوفل بن معاویہ نے نبی علیہ السلام سے روایت حدیث کی ہے، اور یہ نوفل مدینہ منورہ میں، یزید بن معاویہ

(،ان دونوں پر لعنت ہو) ،کی خلافت  کے دوران فوت ہوا،،

اس میں طبری نے سیدنا امیر معاویہ پر لعنت کی ہے، اور یہ عقیدہ اور فعل ہر گز کسی  سنی کا نہیں ہو سکتا ، اس سے بھی  طبری کی شیعیت ظاہر ہوتی ہے،،اس کے علاوہ اور جگہ۔ طبری میں ہی سیدنا امیر معاویہ پر لعنت بھیجی ہے،،

تاریخ طبری میں طبری نے ایسی روایات بھی ذکر کی ہے، جو اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے، ان ہی روایات کو شیعہ سنیوں کو دکھاکر گمراہ کرنا چاہتے ہیں

اوپر مذکورہ روایات بھی اسی کا حصہ ہے، طبری میں ایک اور روایت موجود ہے، جس میں حضرت عمر آگ لیکر حضرت عائشہ کے گھر کو جلانے کے لیے گۓ کسی نے کہا یہاں حضرت فاطمہ بھی ہے ، تو جواب دیا ہوا ہو،،اور یہ سب اس وجہ سے کیا کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت بیعت کا انکار کیا تھا،، یہ روایت بھی اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے،اور اس سے بھی طبری کی شیعیت ظاہر ہو رہی ہے،، نیز طبری شیعہ حضرات کے لیے حدیث گھڑھتا تھا ،،

لسان المیزان  اور میزان اعتدال میں یے،،

احمد ابن علی السلیمانی الحافظ  فقال کان یضع للروافض

ترجمہ حافظ احمد بن علی سلیمانی کہتے ہیں ، کہ ابن جریر رافضیوں کے لیے حدیث گھڑا کرتا تھا،،

البدایہ و النہایہ میں ہے طبری کو 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا ،اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا گیا، حنبلی لوگوں نے اسے شیعہ کی طرف منسوب کیا، طبری کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا،،

اسی البدایہ و النہایہ میں ہے،،

طبری وضو کے دوران پاؤں کے مسح کا قول کیا کرتا تھا یعنی پاؤں کو دھویا نہ جاۓ ،،یہ بات اس کی بہت مشہور تھی،

انہ کان یقول بجواز مسح القدمین فی الوضوء و انہ لا یجب غسلھما وقد اشتھر عنہ ھذا،،

اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہم نے ذکر کیا کی پاؤں کا مسح کا قول کیا کرتا تھا،،

شیعہ سنی میں جہاں عقائد کا اختلاف ہے ،،وہی اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے،اہلسنت وضو میں پاؤں دھونے کے قائل ہے، اور شیعہ مسح کرنے کے قائل ہے،،،

اور ابن جریر طبری فرماتے ہیں

،ابن جریر طبری نے تفسیر طبری جلد 2 میں لکھا ہے،

ہمارے نزدیک پاؤں کا مسح کرنا صحیح ہے ،اللہ نے پاؤں کو دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دیا ہے،،

ان سب دلائل سے واضح ہوجاتا ہے ابن جریر طبری کا میلان شیعہ کی طرف تھا، لہذا طبر کی اگر کوئی بات عقائد اہلسنت کے خلاف ہوگی تو اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا سوال میں جس روایت کے تعلق سے پوچھا وہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے، اس لیے اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاۓ گا

واللہ اعلم بالصوب



دانیش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 60 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:44، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

روٹی نہیں جلی روایت کا حکم[ترمیم]

*🌿روٹی نہیں جلی یہ روایت کاکم 🌿*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کے بعد عرض ہے ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے روٹی لگائی تو ویسی کی ویسی رہ گئی اس کے بارے کیا فرماتے ہیں اور وہ روایت بھیج بھی دیں

جزاک اللہ خیرا

لیاقت عطاری

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مذکورہ روایت کبھی حضرت فاطمہ تو کبھی حضرت عائشہ کے تعلق سے بیان ہوتی ہے،

کہ اپ روٹی بنا رہی تھی تو نبی علیہ السلام نے بھی روٹی ڈالی لیکن روٹی کو آگ نے جلایا نہیں ،اس روایت کو بعض تو بخاری کے حوالہ سے بھی ذکر کر دیتے ہے کہ بخاری میں ہے یہ روایت ،

اس روایت کو کافی تلاش کیا گیا لیکن یہ روایت نہیں ملی، ہاں

📗 خطبات فقیر صفحہ 92 پر یہ روایت ہے ،لیکن وہاں بھی حوالہ نہیں ہے،، البتہ ایسی روایت بیان نہ کی جاۓ، اس کے بجائے دوسری روایت بیان کی جاۓ، جس کو محدثین نے روایت کیا ہے، جس روایت میں نبی علیہ السلام کا رومال نہ جلنے کا ذکر ہے،،

تاریخ بغداد ، شواہد النبوتہ

اور حافظ نعیم نے بھی اس کو ذکر کیا ہے،

"وأخبرنا الحسن حدثنا عبد الرحمن حدثنا أبو عمير الإنسي بمصر حدثنا دينار مولى أنس قال: صنع أنس لأصحابه طعامًا فلما طعموا قال: يا جارية هاتي المنديل، فجاءت بمنديل درن فقال: اسجري التنور واطرحيه فيه ففعلت، فأبيض فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه و سلم، وإن النار لاتحرق شيئًا مسته أيدي الأنبياء"

واللہ اعلم بالصواب

ہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال :

9917420179📲

سوال نبمر 60 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:46، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا اویس قرنی نے اپنے دانت توڑ ڈالے تھے[ترمیم]

🌿 *السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے، حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دانت توڑ ڈالے تھے ، اس کا مدلل جواب عطا فرماۓ

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

عوام میں

یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی  عنہ کو پتہ چلا کہ جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تمام دانتوں کو شہید کر دیا پھر آپ کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیئے کیلے (ایک مشہور پھل) کو پیدا فرمایا تاکہ آپ کو کھانے میں تکلیف نہ ہو ۔

یہ واقعہ کئی لوگوں کو اس طرح یاد ہے جیسے مانو انہیں پانی میں گھول کر پلا دیا گیا ہو اور شعبان کا مہینہ آتے ہی وہ اسے اگلنا شروع کر دیتے ہیں

لیکن سچ یہ ہے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت نہیں ہے

کچھ علمائے اہل سنت نے اس واقعے کو تحریر فرمایا ہے لیکن وہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نہ تو اس کی کوئی سند ہے اور نہ کوئی معتبر مآخذ ، چنانچہ فیض ملت ، حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے والے دانت غزوہ احد میں شہید ہوئے اور جب یہ خبر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے سامنے والے چاروں دانت نکال دیئے اور کتب سیرت و تاریخ کی مشہور روایت میں ہے کہ یہ خبر سننے پر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دانت اپنے آپ جھڑ گئے ۔

📗(فتاوی اویسیہ، جلد1، صفحہ نمبر288،

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں جو یہ عوام میں مشہور ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عشق رسول میں اپنے دانتوں کو شہید کر دیا ، سراسر جھوٹ اور افترا ہے اور جاہلوں کا گڑھا ہوا ہے ،

اگرچہ بعض تذکرہ کی کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ بے دینوں کی ملاوٹ ہے، اس کا ثبوت کسی مستند اور محفوظ کتاب سے نہیں ملتا بلکہ  

جس طرح یہ واقعہ نقلاً ثابت نہیں اسی طرح عقلاً بھی قابل تسلیم نہیں ہے

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کوئی بھی دانت مکمل طور پر شہید نہیں ہوا تھا بلکہ سامنے والے دانت شریف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جدا ہوا تھا جس سے نور کے موتیوں کی لڑی میں ایک عجیب حسن کا اضافہ ہوا تھا، جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے

  آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جڑ سے اکھڑ گیا ہو اور وہاں رخنہ پیدا ہو گیا ہو بلکہ ایک ٹکڑا شریف جدا ہوا تھا

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے داہنی کے نیچے کی چوکڑی کے ایک دانت شریف کا ایک ٹکڑا ٹوٹا تھا، یہ دانت (مکمل) شہید نہ ہوا تھا ۔

📗(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد8، صفحہ نمبر105،چشتی)

خیال رہے کہ آج تک اکثر دنیا یہی سمجھتی رہی ہے کہ سامنے کے اوپر کے دانت شریف کو کچھ ہوا حالانکہ حقیقت یہی ہے جو ہم نے بیان کی؛ نیچے کے دانت شریف کا مسئلہ ہے اور یہی بات ہمارے مستند محققین علماء نے لکھی ہے ۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا کوئی دانت مکمل شہید نہیں ہوا تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ بات جوڑنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟

جب بنیاد ہی ثابت نہیں تو اس پر محل کیسے تعمیر ہو سکتا ہے ؟

خیال رہے کہ حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے تھے یعنی جڑ سے نکل گئے تھے لہذا اس رسالے کی تحقیق درست نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ کافروں کی طرف سے تھا نہ کہ آپ نے خود کیا تھا تو سوال اٹھتا ہے کہ دانت توڑنا کافروں کی سنت ہے یا نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی ؟

اسی جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انور کو زخمی کیا اور سر مبارک پر بھی زخم لگائے اور اسی طرح مکہ مکرمہ میں نماز کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈالی گئی تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سارے کام اپنے ساتھ کیوں نہ کیئے ؟

اس لیے کہ ایک تو یہ جہالت شمار ہوگا اور دوسرا خلاف شرع بھی ۔

جو لوگ اس واقعے کی تائید کرتے ہیں انہیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی اپنے دانتوں کے ساتھ ایسا کرو کیونکہ تمھارے نزدیک یہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سنت ہے اور صرف حضرت اویس قرنی کی تخصیص کیوں ، جتنے بھی انبیاء علیہم السّلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے ویسا ہی انہیں بھی اپنے ساتھ کرنا چاہیئے ۔

یہ واقعہ سب سے پہلے صرف 📗“تذکرۃ الاولیاء” میں ملتا ہے

جس کے مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ رافضیوں کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کی کتب رافضیوں کے ظلم و زیادتی کا شکار رہی ، ایسے میں ان روایات پر اعتماد کر لینے کے بجائے اہل تحقیق اس کی چھان بین کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ،

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی کا اپنے دانت شہید کرنے کا واقعہ جسے شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں بغیر کسی سند اور معتبر مآخذ کے درج کیا ہے ، جس سے صرف شیعہ حضرات اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ماتم پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ روایت ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک موضوع روایات کی لمبی فہرست میں شامل ہے اور ۔ پھر جو کیلے (مشہور پھل) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاص آپ کے لیئے اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا ، اس سے پہلے دنیا میں اس پھل کا نام و نشان نہ تھا ، بالکل غلط ہے

کیونکہ تمام کتابوں میں جہاں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غذا کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ آپ کی غذا روٹی اور کھجور تھی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بغیر دانت کے ان کو کھانا مشکل ہے ۔

اب ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے تو اپنے ساتھ عجوہ کھجور ، لیموں اور کیلا لائے ۔

محترم قارئین کرام : اب ہم یہ کَہہ سکتے ہیں کہ اگر دلائل کی رو سے دیکھا جائے تو اس واقعے کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے

اس کو سب سے پہلے ’’📗تذكرة الأولياء‘‘ میں فخر الدین العطار المتوفی 607 ہجری نے نقل کیا ہے جو کہ ایک سنی عالم تھے، انہوں نے بغیر سند کے اسے نقل کیا ہے:

"ثم قال لهما: أنتما محبّي محمد، فهل كسرتم شياَ من أسنانكم كما كسر سنه عليه السلام؟ قالا: لا. فقال: إني قد كسرت بعض أسناني موافقةً له".

ترجمہ: پھر اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ کیا تم محمد ﷺ کے محب ہو؟

کیا تم نے اپنے دانت توڑے  جیسے کہ ان کے دانت ٹوٹے تھے؟

دونوں نے کہا: نہیں۔ پھر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے کچھ دانتوں کو توڑا تھا جیسا کہ نبی ﷺ کے دانت ٹوٹے تھے۔ 📗(تذكرة الأولياء، )

اس کے علاوہ، علی بن ابراہیم حلبی نے ’’السیرة الحلبیة‘‘ میں علامہ شعرانی کی ’’الطبقات الكبرى‘‘ سے نقل کیا ہے:

’’وقد روى … قال: والله ما كسرت رباعيته صلى الله عليه وسلم حتى كسرت رباعيتي، ولا شج وجهه حتى شج وجچهي ولا وطئ ظهره حتى وطئ ظهري. هكذا رأيت هذا الكلام في بعض المؤلفات، والله أعلم بالحال هذا كلامه‘‘.

ترجمہ: اور مروی ہے کہ ۔۔۔ اویس قرنی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں اپنے دانت توڑوں گا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا دانت ٹوٹا۔ اور میں اپنے چہرے کو چوٹ پہنچاؤں گا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے کو چوٹ پہنچی۔ اور میں اپنی کمر پر قدم رکھواؤں گا جیسے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی کمر پر قدم رکھے۔ (مصنف فرماتے ہیں) میں نے اس روایت کو اس طرح سے بعض کتب میں دیکھا ہے اور اللہ ﷻ بہتر جانتا ہے اس کا حال (کہ یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں)۔

علی بن ابراہیم حلبی نے مزید اس پر کلام کیا:

’’ولم أقف على أنه عليه الصلاة والسلام وطىء ظهره في غزوة أحد‘‘.

ترجمہ: میں نے یہ بات کہیں بھی نہیں پائی کہ نبی پاک کی کمر مبارک پر قدم رکھے ہوں لوگوں نے غزوہ احد میں۔

📗 (السيرة الحلبية، )

ملا علی بن سلطان القاری  نے اپنی کتاب ’’المعدن العدني في فضل أويس القرني‘‘ میں نقل کیا ہے:

’’اعلم أن ما اشتهر على ألسنة العامة من أن أويساً قلع جميع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سنّ النبي صلى الله عليه وسلم أصيب يوم أحد ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد، فلا أصلَ له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لايصدر إلا عن السفهاء‘‘.

ترجمہ: جان لو کہ لوگوں کی جانب سے جو مشہور کیا جاتا ہے کہ اویسِ قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ دیے تھے رسول اللہ ﷺ کے دندان کے ٹوٹنے کے غم میں؛ کیوں کہ انہیں متعین طور پر  معلوم نہیں تھا کہ آپ ﷺ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے (تو سارے توڑ دیے)۔ علماء کے نزدیک اس بات کی کوئی بنیاد نہیں، اور یہ خلافِ شریعت ہے۔

اس ہی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے (جو اعلیٰ درجے کے عاشق تھے) کسی نے بھی ایسا نہ کیا؛ کیوں کہ یہ ایک عبث فعل ہے اور نادان لوگوں سے ہی صادر ہوسکتا ہے۔ (المعدن العدنی فی فصل

اویس قرنی)

شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ  روایت جھوٹ ہے غلط ہے

کہ حضرت اویس قرنی نے اپنے دانتوں کو توڑ دیا تھا اور انہیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ دیا تھا

📗(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 114)

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 61 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:48، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا حیلہ کرنا ناجائز ہے[ترمیم]

🌿کیا حیلہ کرنا  ناجائز ہے🌿

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

حیلہ شرعی کا ثبوت کہاں سے ہے،  غیر مقلیدین حیلہ کو ناجائز بتا رہے ہیں ،

اس کا مدلل اور تفصیلی جواب عطا فرمائے ،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

جائز کام کے لیے شرعی حیلہ کیا جاۓ تو حیلہ کرنا جائز ہے،،۔

حیلہ کا جواز قران حدیث سے ثابت ہے،،  اللہ عزوجل قرآن پاک میں فرماتا یے،،

  سورة ص

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا  فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ  اَوَّابٌ ﴿۴۴﴾

اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے ،،،،،

حضرت ایوب علیہ السلام کسی وجہ سے اپنی زوجہ سے ناراض ہو گئے اور یہ قسم کھائی کہ وہ صحت یاب ہو جایں گے تو سو 💯 کوڑے اپنی بیوی کو ماریں گے

صحت یاب ہونے کے بعد اپ کو یہ پریشانی ہوئی اگر وہ قسم پوری کرتے ہے، تو خدمت گزار بیوی کو تکلیف پہنچے گے،، تب انکو حکم ہوا قسم نہ توڑے تنکو کی جھاڑو لیکر انکو ماریں ،اور قسم نہ توڑے،، اس آیت سے بھی حیلہ کے جواز کا ثبوت ملتا ہے،،

حیکہ کے جواز کی دوسری دلیل یہ ہے،، حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بنیامن کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے،، تو ان کے کارندے نے شاہی پیمانہ بنیامن کے سامان میں رکھ دیا،، اور اس ملک کو قانون یہ تھا، جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہو اس شخص کو بطور سزا اس ملک کے مالک کے حوالہ کردیا جاتا تھا،

سو جب شاہی پیمانہ بنیامن کے سامان سے برآمد ہوا تو ،بنیامن کو یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا گیا،،

اللہ عزوجل قران کریم میں فرماتا ہے

سورة يوسف آیت 76

فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ  کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا  کَانَ  لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ  دِیۡنِ الۡمَلِکِ  اِلَّاۤ  اَنۡ  یَّشَآءَ  اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ  عِلۡمٍ  عَلِیۡمٌ ﴿۷۶﴾

تو اول ان کی خُرجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خُرجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرجی سے نکال لیا ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ خدا چاہے ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے،،،،

حیلہ کے جواز پر ان احادیث سے استدلال کیا گیا ہے،

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏   أَنَّهُ اشْتَكَى رَجُلٌ مِنْهُمْ حَتَّى أُضْنِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَادَ جِلْدَةً عَلَى عَظْمٍ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ جَارِيَةٌ لِبَعْضِهِمْ فَهَشَّ لَهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ رِجَالُ قَوْمِهِ يَعُودُونَهُ أَخْبَرَهُمْ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَفْتُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي قَدْ وَقَعْتُ عَلَى جَارِيَةٍ دَخَلَتْ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا رَأَيْنَا بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مِنَ الضُّرِّ مِثْلَ الَّذِي هُوَ بِهِ لَوْ حَمَلْنَاهُ إِلَيْكَ لَتَفَسَّخَتْ عِظَامُهُ مَا هُوَ إِلَّا جِلْدٌ عَلَى عَظْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذُوا لَهُ مِائَةَ شِمْرَاخٍ فَيَضْرِبُوهُ بِهَا ضَرْبَةً وَاحِدَةً  .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ انصاری صحابہ نے انہیں بتایا کہ انصاریوں میں کا ایک آدمی بیمار ہوا وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا باقی رہ گیا، اس کے پاس انہیں میں سے کسی کی ایک لونڈی آئی تو وہ اسے پسند آ گئی اور وہ اس سے جماع کر بیٹھا، پھر جب اس کی قوم کے لوگ اس کی عیادت کرنے آئے تو انہیں اس کی خبر دی، اور کہا میرے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، کیونکہ میں نے ایک لونڈی سے صحبت کر لی ہے، جو میرے پاس آئی تھی،

چنانچہ انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اور کہا: ہم نے تو اتنا بیمار اور ناتواں کسی کو نہیں دیکھا جتنا وہ ہے، اگر ہم اسے لے کر آپ کے پاس آئیں تو اس کی ہڈیاں جدا ہو جائیں، وہ صرف ہڈی اور چمڑے کا ڈھانچہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ درخت کی سو ٹہنیاں لیں، اور اس سے اسے ایک بار مار دیں۔

ابو داود 4472

اس حدیث میں حیلہ کے ذریعہ سزا کو پورا کیا گیا ہے،،،،،،

بخاری میں روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ :    أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ ، فَقِيلَ : تُصُدِّقَ عَلَى بَرِيرَةَ ، قَالَ : هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ    .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے بطور صدقہ کے دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ان کے لیے یہ صدقہ ہے اور ہمارے لیے  ( جب ان کے یہاں سے پہنچا تو )  ہدیہ ہے۔“

صحیح بخاری 2577۔،،

ایک اور روایت بخاری میں ہے،،

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا    ، فَقَالَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ ، فَقَالَ :    لَا تَفْعَلْ ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا    ،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی  ( سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ )  کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور  ( اس سے خراب )  دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ  ( اگر اچھی کھجور لانی ہو تو )  ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔

📗صحیح بخاری 4244

اس حدیث میں سود سے بچنے کا حیلہ بتایا گیا

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال ،9917420179📲

سوال نبمر 62 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:49، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام کل کی بات جانتے ہیں جس نے کہا اس نے جھوٹ کہا[ترمیم]

*🌿نبی علیہ السلام کل کی بات جانتے ہے، جو کہے اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا🌿*

السلام علیکم  و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

حضرت عائشہ فرماتی ہیں ،،جو یہ کہے نبی کریم کل کی بات جانتے ہیں، تو اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا،،۔ تو کیا نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی علیہ السلام کو اللہ عزوجل نے علم غیب عطا فرمایا تھا ،اور نبی غیب جانتے تھے،،اپنے جو ذکر کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے، تعلق سے ،،کہ و من زعم انہ یعلم ما فی غد فقد اعظم الفریتہ علی اللہ،،، اس سے مراد بالذات نہ جانتے تھے ،ورنہ صدہا حدیث قرانی ایات کی مخالفت لازم آئے گی ،نبی علیہ السلام نے،

قیامت کی دجال کی امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت کی بلکہ مولیٰ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ،جنگ بدر ہونے سے پہلے کفار کے قتل کی اور جگاہ قتل کی خبر دی،،نیز حضرت صدیقہ رضی اللہ عنھا کے فرمان کے ظاہری معنیٰ کیے جائیں ، تو مخالفین کے بھی تو خلاف ہے، کہ وہ بھی بہت سے غیب کا علم مانتے ہیں اور اس قول میں بلکل نفی ہے، ،،خلاصہ کلام یہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا یہ قول بالذات نہیں جانتے تھے ،یعنی اپ اپنی ذات سے نہیں جانتے تھے، بلکہ اللہ نے اپکو عطا کیا ، تو اپ جانتے تھے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،  9917420179📲

سوال نبمر 62 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:50، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کو شیداۓ محمد کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ کو شیداے محمد کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ  و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

امتی کیا خود خدا ہے شیدا ہے تمہارا اقا لے لو سلام ہمارا

یہ شعر پڑھنا کیسا ،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مذکورہ شعر پڑھنا جائز نہیں ہے،

اس شعر میں اللہ عزوجل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدا کہا گیا ہے، اور اللہ کو شیدا کہنا جائز نہیں ،شیدا کا معنی ہے

اشفتہ فریفتہ مجنون اور عشق میں ڈوبا ہوا ہے، اس میں سے کسی معنی کا انتساب ذات باری کی طرف ہر طرف ہر گز درست نہیں اللہ عزوجل  ان تمام باتوں سے منزہ مبرا ہے ،  اس لیے یہ شعر پڑھنا ناجائز و گناہ ہے،

شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

اللہ کو فداے محمد کہنا کفر ہے،

فدا کا معنی ہے اپنی جان دیکر کسی کو بچانا اللہ کریم حی قیوم ہے اس کے لیے موت نہیں  اور شیدائے  محمد کہنا بھی جائز نہیں  کے اس میں معنی سوء کا احتمال ہے شیدا کا معنی ہے

اشفتہ فریفتہ مجنون عشق میں ڈوبا ہوا عاشق ہے،

اللہ ان تمام باتو سے منزہ ہے

فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 141

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:51، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

تقلید کسے کہتے ہیں[ترمیم]

*🌿تقلید کسے کہتے ہے،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کہ تقلید کے کیا معنی ہے ، اور تقلید کسے کہتے ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

تقلید کے دو معنی ہیں، ایک لغوی ، اور ایک شرعی، لغوی معنی ہیں، قلادہ در گردن بستن ، گلے میں ہار یا پٹہ ڈالنا،،

تقلدی کے شرعی معنی یہ ہیں، کسی کے قول و فعل کو اپنے پر لازم شرعی جاننا یہ سمجھ کر کے اس کا کلام اس کا کام ہمارے لیۓ حجت ہے، کیونکہ یہ شرعی محقق ہے،  جیسا کی ہم مسائل شرعی میں ،

امام اعظم رحمہ اللہ کا قول و فعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں، اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے ،،،

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

التقلید ھو قبول قول بلا حجتہ،،،

مسلم الثبوت میں ہے،

التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجتہ،،

ان کا ترجمہ وہی ہے، جو اوپر ہم ذکر کر اۓ ہے،

حاشیہ حسمای باب متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شرح مختصر المنار سے نقل کیا ،اور یہ عبارت نور الانوار بحث تقلید میں بھی ہے،

التقلید اتباع الرجل غیرہ فیما سمعہ یقول او فی فعلہ علی زعم انہ محق بلا نظر فی الدلیل،،

یعنی ، تقلید کا معنی ہے، کسی شخص کا اپنے غیر کی اطاعت کرنا اس میں جو اسکو کہتے ہوئے یا کرتے ہوۓ سن لے یا سمجھ کر کہ وہ اہل تحقیق میں سے ہے بغیر دلیل میں نظر کیۓ ہوۓ ،،

اس تعریف سے یہ بھی معلوم ہو گیا نبی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہ سکتے ، کیونکہ آپ کا ہر قول و فعل دلیل شرعی ہے تقلید میں ہوتا ہے دلیل شرعی کو نہ دیکھنا ، لہذا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کہلایں گے نہ کے مقلد ،اسی طرح صحابہ کرام و ائمہ دین نبی علیہ السلام کے امتی ہیں نہ کے مقلد ،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

📲9917420179

سوال نبمر 7️⃣6️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:52، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

لوگ علی کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ جہنم نہ بناتا[ترمیم]

اللہ جہنم نہ بناتا لوگ علی کی

محبت پر جمع ہوجاتے تو

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کے یہ روایت کیسی ہے،

لوگ علی کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ جہنم نہ بناتا،

علی قادری

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ روایت اس طرح بیان کی جاتی ہے،

لو اجتمع الناس علی حب علی لما خلق  اللہ النار ابدا

لوگ اگر علی کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ کبھی جہنم نہ بناتا،،

یہ روایت موضوع ہے شیعہ کی بنائی ہوئی یے،

اللہ عزوجل قرآن پاک کی

: سورة ص  آیت 85  میں فرماتا ہے،

لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکَ وَ مِمَّنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ  اَجۡمَعِیۡنَ

بیشک میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے اور ان میں سے جتنے تیری پیروی کریں گے سب سے

ایک اور مقام پر فرماتا ہے،

: سورة السجدة ایت 13

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ  وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡن﴾

اور اگر ہم چاہتے ہر جان کو اس کی ہدایت فرماتے مگر میری بات قرار پا چکی کہ ضرور جہنم کو بھر دوں گا ان جِنوں اور آدمیوں سب سے

ایک اور جگہ فرماتا ہے،

: سورة الكهف ایت -102

اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ  اَوۡلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ  اَعۡتَدۡنَا جَہَنَّمَ  لِلۡکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا

تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی بنا لیں گے بیشک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے ،

ایک اور جگہ ارشاد باری ہے،

: سورة هود ایت 119

اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَئَنَّ  جَہَنَّمَ  مِنَ الۡجِنَّۃِ  وَ النَّاسِ  اَجۡمَعِیۡنَ

مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا اور لوگ اسی لیے بنائے ہیں اور تمہارے رب کی بات پوری ہو  بیشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 8️⃣6️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:53، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا مجتہد پر تقلید واجب نہیں ہے[ترمیم]

*🌿کیا مجتہد پر تقلید واجب نہیں ہے،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، کیا مجتہد پر تقلید کرنا واجب نہیں ہے،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مکلف مسلمان دو طرح کے ہیں، ایک مجتہد دوسرا غیر مجتہد ،،مجتہد وہ ہے، جن میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہو کہ قرآنی اشارات سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے اس سے مسائل نکال سکے، ناسخ منسوخ پورا علم رکھتا ہو، علم صرف و نحو و بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو، احکام کی تمام ایات اور احادیث پر اس کی نظر ہو، اس کے علاوہ ذکی ہو، خوش فہم ہو ،، جو اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیر مجتہد مقلد ہے غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے ،رہا مجتہد تو اس کو تقلید کرنا منع ہے، اسی لیے تبع تابعین کے دور سے لیکر اج تک جتنے مسلمان ہوۓ سب مقلد تھے،

ان میں اجلہ اوکیاء کرام بھی وۓ اور علماۓ ذوی الافہام بھی ،مثلا امام رازی ، امام غزالی ، امام بخاری، امام ترمذی، امام ابو داود ، سرکار غوث اعظم سرکار غریب نواز ، و غیرہم ، یہ بزرگان دین جن پر امت کو ناز ہے، یہ بھی باں علم جلال کسی نہ کسی امام کے مقلد تھے،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 9️⃣6️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:54، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی کو غیب کا علم تھا تو زہر آلود گوشت کیوں کھایا[ترمیم]

*🌿نبی کریم کو غیب کا علم تھا تو زہر الود گوست کیوں کھایا،،🌿*

السلام علیکم و رحمت اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں، خیبر میں نبی کریم کو زہر الود گوشت دیا گیا ، اور آپ نے اس گوشت کو کھایا بھی، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے، جواب عنایت فرماۓ،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس وقت نبی علیہ السلام کو اس بات کا علم تھا اس میں زہر ہے،

اور یہ بھی خبر تھی زہر ہم پر بحکم خدا اثر نہ کرے گا ،اور اس کا بھی علم تھا رب تعالی کی مرضی یہی تھی ہم اسے کھالیں ، تاکہ بوقت وفات اس کا اثر لوٹے اور ہم کو شہادت کی وفات عطا فرمائی جاۓ ، راضی برضا تھے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 0️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:55، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کو گاڈ کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ کو گاڈ کہنا کیسا ہے؟🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

اس مسئلہ کے بارے میں،،

کہ اللہ کو گاڈ کہنا کیسا ہے،،

سگ رضا،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ عزوجل کو اللہ عزوجل کو جو نام ہے انہی سے یاد کیا جائے تو بہتر ہے، ،،

علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

گاڈ انگریزی لفظ  ہے اس کے معنی محافظ کے ہے ان کے عرف میں خدا کو گاڈ کہتے ہے، اس لحاظ سے اللہ عزوجل کو گاڈ کہنے میں کوئی حرج نہیں،

لیکن یہاں ایک خاص بات یہ ہے کے گاد کہنا انگریزوں کا عرف ہے،اگر کوئی کسی اجنبی کے سامنے کہے گاڈ نے چاہا یہ کام ہو جاۓ گا

تو سامنے والا اس کو عیسائی سمجھےگا ،، اس لیے مسلمان  گاڈ کہنے سے احتراز کریں،،

فتاوی شارح بخاری

جلد 1 صفحہ 173

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 1️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:56، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

گوشت کے حلال ہونے کا ثبوت کہاں سے ہے[ترمیم]

*🌿نون ویج کھانا کیا گناہ ہے گوشت کے حلال ہونے کا ثبوت کہاں سے ہے،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ  و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

کہ نون ویج اگر نہ کھایا جاۓ تو کیا گناہ ہے، اور گوشت کے حلال ہونے کا ثبوت کہاں سے ہے،

و علیکم السلام و حمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب


نان ویج ہو یا ویج ہو، یہ انسان کے کھانے کے لیے ہی اللہ کریم نے پیدا فرمایا ہے،

اس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے،

اگر کوئی ویج ہی کھاتا ہو نان ویج نہ کھاۓ تو اس پر کوئی گناہ نہیں اسی طرح اگر کوئی ویج کھاتا ہو ،

نان ویج نہ کھاتا ہو ،

تو بھی گناہ نہیں۔

ہاں اگر اس وجہ سے نہ کھاتا  ہے نان ویج کے اس کا کھانا گناہ ہے،  یا اس کا کھانا جائز نہیں یے، تو ضرور گناہگار ہے،

کے اللہ نے جس کو حلال کردیا انسان اس کو حرام نہیں کر سکتا ، اللہ عزوجل قرآن پاک میں فرماتا ہے،

: سورة المائدة  آیت 87

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ  اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا  یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ

اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو ، بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں ،

بعض لوگ گاۓ کا گشت حرام بتاتے ہیں یہ ان کی جہالت ہے

گوشت نہ کھانا الگ بات ہے، لیکن اس کو ناجائز حرام کہنا گناہ ہے،

امام اہلسنت  الملفوظ میں فرماتے ہیں

گاۓ کا گوشت بیشک حلال ہے اور نہایت ہے گب پرور اور کچھ چیزوں میں تو بکرے و بکری کے گوشت سے زیادہ بخش یے بہت سے گوشت کے شوکین اسے پسند کرتے ہیں اور بکری کے گوشت کو بیمار کی خوراک کہتے ہیں،

اس کی قربانی کا خاص قرآن پاک میں ارشاد ہے، خود نبی علیہ السلام نے ازواج مطہرات کی طرف سے فرمائی،،،۔ گوشت اگرچہ حلال ضرور ہے اس کے فائدے بھی بہت ہے لیکن اس کے استعمال میں اعتدال اپنایا جاۓ کیوں کہ کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال نقصان کا سبب بن جاتا ہے،

گوشت ایک بہت عمدہ کھانا ہے نبی علیہ السلام بھی کھانے میں گوشت کا استعمال کیا کرتے تھے ،،📗مشکاتہ شریف میں ہے

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزٍ وَلَحْمٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَكَلَ وَأَكَلْنَا مَعَهُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَلَمْ نَزِدْ عَلَى أَنْ مَسَحْنَا أَيْدِيَنَا بِالْحَصْبَاءِ. رَوَاهُ ابْن مَاجَه

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی خدمت میں روٹی اور گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے تناول فرمایا

اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ کھایا ، پھر آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی ۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی ، اور ہم نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ ہم نے کنکریوں کے ساتھ اپنے ہاتھ صاف کر لیے ۔ ، رواہ ابن ماجہ ۔

مشکاتہ حدیث نمبر4213

ابن ماجہ میں یے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏  لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ .

ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے

ابن ماجہ حدیث نمبر 3313

ان احادیث کے علاوہ بخاری مسلم اور تمام کتب حدیث میں ملتا ہے نبی علیہ السلام گوشت کھایا کرتے تھے،

خلاصہ کلام یہ ہے، اگر کوئی گوشت نہیں کھاتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، ہاں اگر اس کو حرام یا ناجائز کہے تو ضرور گناہ گار ہے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

991742017📲

سوال نبمر 2️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:57، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

جب سب تقدیر میں لکھا ہوا ہے تو دعا کیوں کرتے ہیں[ترمیم]

*🌿جب سب تقدیر میں لکھا ہوا ہے تو دعاء کیوں کرتے ہے،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں ، جب ہر چیز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے ۔ تو دعائیں کیوں مانگی جاتی ہیں۔ جو ہونا ہے ، وہ تو ہوکر ہی رہےگا،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

دعا مانگنا بھی تقدیر میں آچکا ہے،۔ کہ بندہ یہ دعاء کرےگا ۔ تب یہ نعمت پاۓگا اسی لیے بیماری کی دوا۔ رزق کے لیے  کاروبار ۔

بیماری میں پرہیز کرایا جاتا یے ۔

کہ اگرچہ صحت۔ رزق۔ سب مقدر ہے۔ مگر یہ اسباب بھی تقدیر میں لکھے ہوۓ ہیں،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 4️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:58، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

جے ہند کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿جے ہند بولنا کیسا🌿*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ کیا جے ہند بولنا جائز ہے۔

سائل- فیضان عطاری مرادآباد

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مسلمان کو ہر اس کام سے بچنا لازم ہے جس میں کفار سے مشابہت ہوتی ہو،،

جے بولنے میں بھی کفار سے مشابہت ہے اگرچہ جے کا معنی صحیح ہو چونکہ اس میں کفار سے مشابہت ہے

اس لیے جے ہند بولنا جائز نہیں، امام اہلسنت فرماتے ہے،

مسلمان کی بھی جے بولنا منع ہے،

کی اس میں مشابہت کفار ہے،

📗فتاوی رضویہ جلد 15 صفحہ 269

شارح بخاری علامہ شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں

جے ہند جے جھارکھند

بولنا شعار کفار ہے جب کوئی جے بولتا ہے تو اس سے یہی سمجھ آتا ہے کی سامنے والا ہندو ہے

اس لیے مسلمان کو جائز نہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرے ، حدیث میں ہے،

و ایاکم ورزی الاعجم عجمیوں کے طریقہ سے دور رہوں


📗فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 463

مذکورہ اقوال سے ظاہر ہوا جے کے معنی اگچہ صحیح ہو لیکن جے بولنا پھر بھی جائز نہیں ہے

مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 6️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 21:00، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا شاہ ولی اللہ مقلد نہیں تھے[ترمیم]

کیا شاہ ولی اللہ مقلد نہیں تھے،


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ شاہ ولی اللہ کسی مذہب کی تقلید نہیں کرتے تھے کیوں کہ اللہ نے ان کو بہت علم عطا کیا تھا اس وجہ سے آپ تقلید نہیں کرتے تھے ،،

اور ان کے مقلد ہونے کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے ،

کیا یہ صحیح ہے رہنمائی فرمائیں ،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

شاہ صاحب ، اپنی وسعت علم وقت نظر قوت استدلال ملکہ استنباط ، سلامت فہم صفائی قلب ، اتباع سنت جمع بین العلم و العمل و غیرہ کمالات ظاہری و باطنی کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اپنے لیے تقلید کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس کے با وجود فرماتے ہیں،،

استفدت منہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثلاثہ امور خلاف مکان عندی وما کانت طبعی تمیل الیہ اشد میل فصارت ھذہ الاستفادہ من براھین الحق تعالی علی احدھا الوصاتہ بترک الالتفات الی التسب ، و ثانیھا الوصاتہ بالتقلید  بھذہ المذھب الا ربع لا اخراج منھا و التوفیق ما استطعت و جبلتی تابی التقلید و تانف منہ راسا ولکن شئ طلب منی التعبد بہ بخلاف نفسی و ھھنا نکتہ طویت ذکرھا وقد تفطنت بحمداللہ ھذہ الحیلتہ و ھذہ الوصاتہ۔،

میں نے اپنے عندیہ اور اپنے شدید میلان طبع کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

سے تین تین امور استفادہ کۓ تو یہ استفادہ میرے لیے برہان حق بن گیا ۔، ان میں سے ایک تو اس بات کی وصیت تھی کی میں اسباب کی طرف سے توجہ ترک کردوں، اور دوسری یہ تھی کہ میں مذاہب اربع کا اپنے آپ کو پابند کروں اور ان سے نہ نکلوں اور تابا مکان تطبیق و توفیق کروں لیکن یہ ایسی چیز تھی جو میری طبیعت کے خلاف مچھ سے بطور تعبد طلب کی

گئ تھی اور یہاں پر ایک نکتہ ہے جسے میں نے ذکر نہیں کیا اور الحمد للہ مجھے اس حیلہ اور اس وصیت کا بھید معلوم ہو گیا ہے معلوم ہوا اپ کی طبیعت اور جبلت کے خلاف نبی علیہ السلام کی جانب سے آپکو تقلید کرنے پر مامور کیا گیا اور دائرہ تقلید سے خارج ہونے سے منع کیا گیا لیکن کسی خاص مذہب کو معین نہیں کیا گیا بلکہ مذاہب اربعہ میں دائرہ منحصر رکھا گیا البتہ مذاہب اربعہ کی تحقیق و تفتیش اور چھان بین کے بعد جب ترجیح کا وقت آیا اور اس کی جستجو کے لیے آپ کی روح مضطرب ہوئی تو دربار رسالت سے اس طور پر رہنمائی ہوئی ۔۔ عرفنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذھب الحنفی طریقہ انیقہ ھی ادق الطرق بالسنتہ المعروفتہ التی ،ای الامام و صحابیہ، قول اقربھم بھا فی المسئلتہ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفین الذین کانوں ا من علماء الحدیث فرب شئ سکت عنہ الثلاثتہ فی الاصول وما یعرضو انفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ و الکل مذھب حنفی،،

نبی علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ مذھب حنفی میں ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جو دوسروں طریقہ کی بہ نسبت اس سنت مشہورہ کے زیادہ موافق ہے، جس کی تدوین اور تنقیح امام بخاری اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں ہوئی اور وہ یہ ہے کہ

ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ ابو یوسف اور امام محمد ، سے جس کا قول سنت معروفہ سے قریب تر ہو لے لیا جاۓ پھر اس کے بعد ان فقہاء حنفیہ کی پیروی کی جاۓ جو فقیہ ہونے کے ساتھ حدیث کے بھی علم تھے۔ کیونکہ بہت سے ایسے مسائل ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اصول میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہا اور نفی بھی نہیں کی لیکن احادیث انہیں بتلا رہی ہیں تو لازمی طور پر اس کو تسلیم کیا جاۓگا  اور یہ سب مذہب حنفی ہی ہے،،،

اس عبارت سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے شاہ ولی اللہ دربار رسالت سے کس مذہب کی طرف رہنمائی کی گئ، نیز سارے مذاہب میں کون اوفق بالسنتہ المعروفہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ مذہب حنفی ہے، جیسا کی فیوض الحرمین کی اس عبارت سے معلوم ہوا تو بلا شبہ شاہ صاحب کے نزدیک وہی قابل ترجیح اور لائق اتباع ہے،،،،

(فیوض الحرمین )

خدا بخش لائبریری میں پٹنہ میں بخاری شریف کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے، جو شاہ صاحب کے درس میں رہا۔ اس میں اپ کے تلمیذ محمد بن پیر محمد بن شیخ ابو الفتح نے پڑھا ہے تلمیذ مذکور نے درس بخاری کے ختم کی تاریخ 6 شوال 1159 ھ لکھی ہے، اور جمنا کے قریب جامع فیروزی میں ختم ہونا لکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنے دست مبارک سے اپنی سند امام بخاری تک تحریر فرماکر تلمیذ مذکور کے لیے سند اجازت تحدیث لکھی اور آخر میں اپنے نام کے ساتھ یہ کلمات تحریر فرماۓ،۔

العمری نسبا، الدھلوی وطنا، الاشعری عقیدتہ، الصوفی طریقتہ الحنفی عملا، والشافعی تدریسا، خادم التفسیر والحدیث ، والفقہ والعربیتہ والکلام،۔،،

اس تحریر کے نیچے شاہ رفع الدین صاحب دہلوی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ،، بیشک یہ تحریر بالامیر  میرے والد محترم کے قلم کی لکھی ہوئی یے، نیز شاہ عالم کی مہر بھی بطور تصدیق  ثبت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📲 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 21:03، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام ہماری آواز سنتیں ہیں تو درود پہنچایا کیوں جاتا ہے[ترمیم]

*🌿نبی علیہ السلام ہماری آواز سنتے ہیں، تو درود آپکی بارگاہ میں فرشتے کیوں پہنچاتے ہیں🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ  و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماے کرام کی حدیث میں ہے نبی کریم نے فرمایا جو ہماری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے اس کا درود ہم سنتیں ہیں ، اور جو دور سے پڑھتا ہے اس کا درود ہم تک پہنچایا جاتا ہے،،، تو کیا نبی ہماری آواز  نہیں سنتے اگر دور سے پکارے تو کیونکہ حدیث تو یہی بتا رہی ہے ،،

و علیکم السلام و رحمتہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی علیہ السلام ہمارا درود سنتے بھی ہیں اور ہماری پکار کو بھی سنتے ہیں

جس حدیث کا ذکر سوال میں ہوا اس کو بہیقی میں روایت کیا گیا ہے، ، من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی نائیا ابلغتہ۔

جو شخص ہم پر ہماری قبر مبارک کے پاس درود بھیجتا ہے

تو ہم خود سنتے ہیں اور جو دور سے بھیجتا ہے تو ہم تک پہنچایا جاتا ہے، ،،،

اس حدیث میں یہ کہاں ہے کہ درود ہم نہیں سنتے ۔ مطلب بالکل ظاہر ہے کہ قریب والے کا درود صرف خود سنتے ہیں۔اور دور والے کا خود سنتے بھی ہیں اور پہنچایا بھی جاتا ہے،،،

جیسا کہ دلائل الخیرات کے خطبہ میں ہے ،،

و قیل لرسول اللہ ارءیت صلوتہ المصلیین علیک ممن غاب عنک و من یا تے بعد ما حالھما عندک فقال اسمع صلوتہ اھل محبتی و اعرفھم و تعرض علی صلوتہ غیرھم عرضا۔،،

نبی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ سے دور رہنے والوں اور بعد میں آنے والوں کے درود ان کا آپ کے نزدیک کیا حال ہے تو فرمایا کہ ہم محبت والوں کے درود تو خود سنتے ہیں اور انکوں پہچانتے ہیں اور غیر محبین کا درود ہم پر پیش کردیا جاتا ہے،۔

پہنچائے جانے سے لازم نہیں آتا کہ آپ اس کو سنتے ہی نہیں ہے۔

ورنہ ملائکہ بندے کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش کرتے ہیں۔

تو کیا رب کو خبر نہیں۔ درود کی پیشی میں بندوں کی عزت ہے کہ درود پاک کی برکت سے ان کا یہ رتبہ ہوا کہ غلاموں کا نام شہنشاہ انام کی بارگاہ میں آگیا ۔

کتاب جلا الافہام  مصنف ابن قیم ابن تیمیہ کے شاگرد ، فرماتے ہیں لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان قلنا بعد وفاتک قال و بعد وفاتی،۔،

یعنی، کوئی کہیں سے درود شریف پڑھے مجھے اس کی آواز پہنچتی ہے ۔ یہ دستور بعد وفات بھی رہیگا۔،

امام جلالدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

اصحابی اخوانی صلوا علی فی

کل یوم الاثنین و الجمعتہ بعد وفاتی فانی اسمع صلواتکم بلا واسطتہ،،

یعنی ہر جمعہ وہ پیر کو مجھ پر درود زیادہ پڑھو میری وفات کے بعد کیونکہ میں تمہارا درود بلا واسطہ سنتا ہوں۔۔

انیس الجلیس  222

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📲

سوال نبمر 8️⃣7️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 21:04، 13 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ ہر جگہ موجود ہے کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ ہر جگہ موجود ہے کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں اللہ ہر جگہ موجود ہے کہنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ عزوجل جگہ سے پاک ہے

اللہ کے لیے جگہ کا لفظ بولنا کفر ہے

البتہ کہنے والے کی تکفیر نہ کی جاۓ گی

کہ اس میں تاویل ہے

اللہ ہر جگہ سے مراد اللہ کا علم ہے، اور بعض اوقات لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ بول دیا جاتا۔ ہے اللہ ہر جگہ ہے

یعنی اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے،

خلاصہ کلام یہ ہے اللہ ہر جگہ ہے کہنے والے کو توبہ کا حکم دیا جاۓ گا

لیکن اس کو قطعی طورپر اس کی تکفیر نہیں کی جاۓ گی

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 0️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:12، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا حضرت علی کی تلوار جنت سے ائ تھی[ترمیم]

*🌿کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار جنت سے آئی تھی🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو تلوار تھی ذالفقار کیا وہ تلوار جنت سے آئی تھی،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کسی بھی صحیح روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کی ذوالفقار نامی تلوار  جنت سے نازل ہوئی ہو مختلف آحادیث سے اتنا ثابت ہے،

یہ ذوالفقار نامی تلوار نبی کریم کی تھی جو کی آپ کو غزوہ بدر میں بطور صفی ملی تھی یہ ذوالفقار نامی

تلوار نبی علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی تھی

اس تلوار کا ذکر کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے،،

اور یہ جو کہا جاتا ہے یہ تلوار جنت سے نازل ہوئی تھی شیعہ حضرات کئ گھڑی ہوئی بنائی ہوئ ہے،،،

مسند احمد میں ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَنَفَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ ذَا الْفَقَارِ یَوْمَ بَدْرٍ وَھو الَّذِی رَأٰی فِیہِ الرُّؤْیَا یَوْمَ أُحُدٍ

۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہمابیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ذوالفقار تلوار جنگ بدر کے دن بطور انعام دی،

یہ وہی تلوار ہے جس کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد کے دن خواب دیکھا تھا،

مسند احمد حدیث 7853

ابن ماجہ میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  تَنَفَّلَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے دن اپنی ذوالفقار نامی تلوار  

( علی رضی اللہ عنہ کو )  انعام میں دی ۱؎۔

ابن ماجہ حدیث 2808

مشکاتہ شریف میں ہے

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنَفَّلَ سيفَه ذَا الفَقارِ يومَ بدْرٍ

وَهُوَ الَّذِي رَأَى فِيهِ الرُّؤْيَا يَوْم أحد

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ بدر کے روز اپنی تلوار ذوالفقار حصہ سے زیادہ لی ۔ ابن ماجہ اور امام ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں ،

اور یہ وہی ہے جو آپ ﷺ نے غزوہ احد کے روز خواب میں دیکھی تھی ۔ ،

مشکاتہ حدیث 4018،،

یہ ساری روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے یہ تلوار نبی کریم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی تھی نہ کی یہ جنت سے نازل ہوئی تھی،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 1️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:14، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا انسان کے جسم میں جن داخل ہوجاتا یے[ترمیم]

*🌿کیا انسان کے بدن میں جن داخل ہو جاتا ہے،،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ انسان کے اندر میں جن داخل ہوجاتا ہے یا نہیں

بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے

ان کے اندر سے جن کے بول نے کی آواز آتی ہے،

اس کی کیا حقیقت ہے، ،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

انسان کے بدن میں آسیب وغیرہ داخل ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں بعض نے یہ کہا ہے انسان کے جسم میں جن آسیب داخل نہیں ہوتا،

اور یہ قول معتزلہ وغیرہ کا ہے، لیکن علمائے کرام نے اس کا رد کرتے ہوۓ یہ فرمایا ہے جن انسان کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور جو اس کی زبان پر بولتا ہے وہ جن ہی تو ہوتا ہے،،علماء فرماتے ہیں حدیث میں ہے شیطان تمہارے جسم میں خون کی طرح دورہ کرتا ہے،،،،

فتاوی حدیثہ میں ہے امام احمد رحمہ اللہ سے عرض کیا گیا کی ایک گروہ یہ کہتا ہے ، انسان کے بدن میں جن آسیب داخل نہیں ہوتا ،، آپ رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا، وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ جن آسیب  داخل نہیں ہوتا،،

وہ جن ہی تو ہے جو آسیب زدہ انسان کی زبان پر بولتا ہے، پس جن کا آسیب زدہ انسان کے اندر دخول اہلسنتہ کا مذہب ہے،،

یعنی امام احمد رحمہ اللہ کے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہلسنتہ والجماتہ کے مذہب کے مطابق آسیب زدہ انسان کے بدن میں جن داخل ہوتا ہے،،،،

فتاوی حدیثیہ مترجم صفحہ 241

متعدد طرق کے ساتھ منقول ہے نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک مجنون شخص کو لایا گیا تو آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کے دشمن نکل جا اور وہ نکل گیا،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 2️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:15، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

بزرگوں کے نام کا چراغ جلانا کیسا[ترمیم]

*🌿بزرگوں کے نام کا چراغ جلانا کیسا🌿*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غوث پاک یا دیگر بزرگوں کے نام کا چراغ جلانا کیسا ہے،،

و علیکم السلام وحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس دور میں  تمام طرح کی لائٹ موجود ہیں تو اب چراغ جلانے کی ضرورت نہ رہی پہلے کا دور چراغ والا دور تھا

اس وقت لائٹ نہ ہوا کرتی تھی تو چراغ جلایا جاتا تھا، اور اس سے مقصود اہل خانہ اور راہ چلنے والوں کو  روشنی دینا ہوتا تھا اور چونکہ یہ کام بھی نیک اور ثواب کا کام ہے

تو اس کی نسبت غوث پاک یا کسی بزرگ کی طرف کردی جاتی ہے کی اس کا ثواب فلاں بزرگ کو ملے،،لیکن آج کے دور میں چراغ کی ضرورت نہ رہی اس لیے بلا وجہ اس کو جلانا فضول خرچی اور اسراف ہے، جو ممنوع ہے قران مجید میں ہے ،،

ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین

فضول خرچ کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں،،

یہ وجہ اسراف و اتلاف مال قبور عوام میں پائی جاتی ہے جبکہ وہاں نہ مسجد نہ قبر سر راہ نہ تلاوت وغیرہ میں مشغول، بخلاف مزار کرام کے وہاں قبر یعنی خشت و گل کی تعظیم نہیں بلکہ ان کی روح کی تعظیم ہے جیسا کی امام نابلس نے فرمایا،،تعظیما الروحہ المشرفتہ،،

فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد 2 صفحہ 404 پر ہے📗

چراغ جلانا فضول خرچی ممنوع و اسراف ہے ،،

خلاصہ کلام یہ ہے اگر کہیں ضروت ہو اور اسی نیت سے آج بھی جلایا جاۓ جو اوپر ہم ذکر کر اۓ ہے تو جائز ہے و مستحسن ہے، اگر وہ صورت حال نہ ہو بلا وجہ جلانا ناجائز و اسراف ہے،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 3️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:18، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

سب صحابہ کرنے والا کیا کافر ہے[ترمیم]

*🌿سب صحابہ کرنے والا کیا کافر ہے🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ کے بارے میں اگر کوئی صحابہ کو نہ مانتا ہوں

ان کو سب کرتا ہو اور ولیوں کو نہ مانے تو کیا وہ مسلمان ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

صحابہ کرام کو یا ولی اللہ کو نہ ماننا سخت محرومی کا سبب ہے،

اور کفر پر خاتمہ کا خوف ہے، کہ یہ اللہ کے مقبول بندے ہیں، اور جو ان کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے، جو ان سے جنگ کرے وہ اللہ سے جنگ کرتا ہے،

البتہ تکفیر اور ایمان کا معاملہ الگ ہے،

امام محمد غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایمان و کفر کی بڑی واضح تعریف بیان کی ہے ، ایسی تعریف جس کے بعد شکوک شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، حق و باطل مجسم شکل میں سامنے آجاتا ہے، نیز اس کے توسط سے تکفیر کا نہایت پیچیدہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے،

امام غزالی رحمہ اللہ ایمان وہ کفر کی تعریف کرتے ہے،، الکفر ھو تکذیب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ،، والایمان تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ،،

یعنی نبی کریم کی لائی ہوئی باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی اپ علیہ السلام کی تکذیب کفر ہے،

اور ان باتوں کی تصدیق ایمان ہے ،،

(فیصل التفریقہ بین الاسلام و الزندقہ)

فقیر حنفی قدری کے محدود مطالعے کی حد تک کفر و ایمان یہ سب سے واضح اور مختصر تعریف ہے ،،امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کو مزید واضح کیا ہے، فرماتے ہے،

کل مکذب للرسول فھو کافر فھو مکذب رسول ،

گویا ایمان کی بنیاد تصدیق رسالت ہے، اور کفر کی بنیاد تکذیب رسالت ہے،  جو شخص نبی علیہ السلام کی تصدیق کرنے والا ہو وہ مومن ہے اور جب تک تکذیب رسالت کا مرتکب نہ ہوگا وہ مومن ہی ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کی ایمان کا مرکز و محور ذات پاک نبی علیہ السلام ہے، ،بندہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو اگر وہ ذات پاک نبی کی تصدیق و تسلیم کرنے والا ہو تو وہ مومن ہی ہوگا

اگرچہ ایسا انسان کمال ایمان اور حلاوت ایمان سے محروم ہے، اور یہ کی اسے اپنے کیے کی سزا دوزخ میں جھیلنا ہوگی،،

امام غزالی کی مذکورہ بالا توضیح سے یہ بھی معلوم ہوا کی ایمان کا تعلق کسی شیخ عالم فقیہ مجتہد حاکم مرشد یا غوث و قطب اور محدث و مجدد کے ماننے نہ ماننے پر موقف نہیں ہے،یہاں تک کے کسی صحابی کے ماننے نہ ماننے پر بھی ایمان کا موقف نہیں ہے ،

جب تک براہ راست تکذیب رسالت نہ ہو تو ایمان ہی ہوگا کفر نہ ہوگا، یہ الگ بات ہے وہ گمراہ یا خاطی ٹھہرے ،، ذات رسالت کے علاوہ کوئی دوسری ذات خواہ وہ علم و تقویٰ کی کسی بھی چوٹی پر کیوں نہ ہو ایمان کے معاملہ میں وہ مرکز و معیار نہیں بن سکتی۔ عقیدت و محبت میں ایسی باتیں کہ جانا الگ بات ہے اور مقام تحقیق الگ ہے ۔ شان صحابہ اور منکرین خلافت شیخین کے تعلق سے بلعموم فقہا نے تکفیر کا قول کیا ہے،،،۔

کتب فقہ سے اس سیاق میں درجن بھر سے زائد تکفیری عبارتیں نقل کرنے کے بعد امام اہلسنت نے لکھا ہے کہ اگر ایسے بدتمیز لوگ کسی امر ضروری دینی کے منکر نہ ہوں، تو متلکمین ان کی بھی تکفیر نہیں کرتے اور اس حوالے سے میرا موقف بھی یہی ہے۔  اپ فرماتے ہیں ،والاحوط فیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار لا کفار و بہ ناخذ

یعنی اس میں محتاط متکلمین کا قول یہ ہے کہ وہ گمراہ اور جہنمی کتے ہیں کافر نہیں اور یہی ہمارا مسلک ہے،،

فتاویٰ رضویہ حلد 14 صفحہ 259

علامہ شامی صاب الاختیار علامہ مجد الدین ابو الفضل حنفی کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، اس کلام میں خوارج کی عدم تکفیر کی قطعیت ہے اور اس میں اس بات پر صریح دلالت موجود ہے کہ سب صحابہ اگر کسی تاویل کی بنیاد پر ہو، خواہ وہ تاویل فاسد ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاۓ گی،۔

اور اس بات پر بھی اس حکم میں سارے صحابہ یکساں ہیں، اس میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ وہ بدعت موجب اعتقاد و عمل دلیل قطعی کے خلاف ہو ۔اس صاحب بدعت کی سے مانع شبہ قرار نہیں دیا جاۓ گا ، مثلا اس کی بدعت سیدہ عائشہ پر تہمت کی طرف لے جاتی ہو کی براءت اللہ پاک نے قرآن کی نص قطعی سے فرمادی۔ یا صدیق اکبر کی صحبت کے انکار کی طرف لے جاتی ہو جن کی صحبت قرآن سے ثابت ہے، یا وہ یہ کہتا ہو کہ وحی پہنچانے میں جبریل سے غلطی ہو گئ، یا اس قسم کی اور باتیں کرتا ہو، تو اس کی تکفیر کی جاۓ گی،،

مجموعہ رسائل ابن عابدین، 2۔، 360

واضح رہے کہ علماء کی ایک بڑی تعداد مطلقا سب صحابہ کو کفر کہتی ہے،، لیکن اس پر مزید کلام کر کے جواب کو ہم طویل نہیں کرنا چاہتے،،، اخر میں امام اہلسنت کا اہک فتویٰ نقل کرت ہے،،

امام اہلسنت سے شیعہ عورت کے تعلق سے سوال ہوا ،، ہم سوال اور جواب دونوں ہی ذکر کرتے ہیں

مسئلہ از پٹنہ لودی کٹرہ مرسلہ مولانا مولوی عبدالوحید غلام صدیق صاحب بہاری ١٠ ربیع الآخر ١٣١٤ھ

حضرت مولانا اعزکم الله فی الدارین تسلیم،ایك شیعہ عورت سے سنی نے نکاح کیا آیا درست ہوگا یا نہیں؟ جلد فتوی مرتب فرماکر روانہ کیجئے ضرورت شدیدہ ہے۔میری خاص رائے عدم مناکحت پر ہے۔منکرین ضروریات دین کافر ہیں اورکفر کے سبب نکاح مسلمان سے کب درست ہے،والسلام!

الجواب:

شیعہ تین قسم ہیں:

اول غالی کہ منکر ضروریات دین ہوں،مثلا ۱قرآن مجید کوناقص بتائیں،بیاض عثمانی کہیں یا امیر المومنین مولاعلی کرم الله وجہہ خواہ دیگر ائمہ اطہار کوانبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم خواہ کسی ایك نبی سے افضل جانیں یار ب العزت جل وعلا پر بدع یعنی ۲حکم دے کرپشیمان ہونا،پچتا کر بدل دینا،یا پہلے مصلحت کا علم نہ ہونا بعد کو مطلع ہوکر تبدیل کرنا مانیں،یا حضور پر نور سید المرسلین صلی الله تعالٰی علیہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں الی غیر ذلك من الکفریات اس کے علاوہ دیگر کفریات)یہ لوگ یقینا قطعاً اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد،فتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی ہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے: احکامھم احکام المرتدین ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔آج کل کے اکثر بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم جاہل مرد عورت سب شریك ہیں الا ماشاء ﷲ(مگر جو الله تعالٰی چاہے۔) جوعورت ایسے عقیدہ کی ہو مرتدہ ہے کہ نکاح نہ کسی مسلم سے ہوسکتا ہے نہ کافر سے نہ مرتد سے نہ اس کے ہم مذہب سے۔جس سے نکاح ہوگازنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا۔

دوم تبرائی کہ عقاید کفریہ اجماعیہ سے اجتناب اور صرف سَبّ صحابہ رضی الله تعالٰی عنہم کا ارتکاب کرتاہو،ان میں سے منکران خلافت شیخین رضی الله تعالٰی عنہما اور انھیں برا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیك کافر و مرتد ہیں نص علیہ فی الخلاصۃ والھندیۃ وغیرھما(خلاصہ اور ہندیہ میں اس پر نص ہے۔)مگر مسلك محقق قول متکلمین ہے کہ یہ بدعتی ناری جہنمی کلاب النار ہیں مگر کافر نہیں،ایسی عورت سے نکاح اگرچہ صحیح ہے مگر شدید کراہت مکروہ ہے،

فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 350

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینتال

9917420179📲

سوال نبمر 4️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:19، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کو حاضر ناظر کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ کو حاضر ناظر کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر کہنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ عزوجل کے لیے حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا ممنوع ہے خواہ لغوی معنی میں ہو یا عرفی معنی میں ہو کہ حاضر ناظر اللہ کے اسماۓ توفیقیہ میں سے نہیں ہے اور ان الفاظ کے بعض معنی شان الوہیت کے خلاف ہے، لیکن اگر کسی نے کہا تو کفر نہیں ،۔

در مختار مع شامی میں ہے

یا حاظر و ناظر لیس بکفر،،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 5️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:20، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

انبیاء علیھم السلام کا تقابل کرنا کیسا[ترمیم]

*🌿انبیاء علیھم السلام کا تقابل کرنا کیسا🌿*

سائل محمد ابراہیم رضا قادری دہلی


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے دورانے خطاب کہا کہ ہمارے مذہب میں سب طریقہ ہے عیسائی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرے مذہب میں سارا طریقہ ہے اس کے مذہب میں سارا طریقہ نہیں ہے عیسائی سے کہو شادی کیسے کریگا تیرے نبی حضرت عیسیٰ نے تو شادی ہی نہیں کی اگر عیسائی کو شادی کرنا ہوگا تو میرے نبی کی زندگی کو دیکھے گا

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  نے اپنی 63 سالہ عمر میں زندگی کے ہر شعبے پر کام کیا  جبکہ جنہیں 500 یا 900 سالہ زندگی ملی انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کام نہیں کیا مزید زید نے انفرادی طور پر کہا کہ حضرت نوح 900 سال دنیا میں تشریف فرما رہے ظاہری زندگی تقریباً 1000 سال لیکن زندگی کے ہر شعبے پر کام  نہیں ملے گا آپ کو حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے پر کام نہیں ملے گا آپ کو حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے میں کام نہیں ملے گا آپ کو

اب دریافت طلب امر یہ ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دگر انبیاء کرام کے درمیان اس طرح کا تقابل جائز ہے یا نہیں؟

اور اس طرح کا تقابل کرنے والے کے لیے کیا حکم ہے؟ اور مذکورہ بالا صورت میں جو حضرات اس تقابل میں نارہ لگا کر داد و تحسین سے نواز رہے تھے ان کے لیے شرع کا کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

السلام علیکم و حمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب،

غیر مذہب میں کس کا کیا طریقہ ہے اس سے ہم کو غرض نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے،

ہر مذہب میں طریقہ موجدود ہے،

یہ کہنا شادی کا طریقہ نہیں غلط ہے،

چونکہ جو غیر مذہب کا شادی کرتا ہے، وہ بھی ایک طریقہ ہے اور طریقہ کے مطابق ہی کرتا ہے،،، حضرت عیسی نے شادی نہ کی تو اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کی طریقہ ہی نہ ہو،، اگر اس خطیب سے بدلے میں کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسٰی آپ کے بھی تو نبی ہے، چونکہ وہ نبی تھے، اب انہونے شادی نہیں کی، تو کیا جو اس وقت حضرت عیسٰی علیہ السلام تھے آپ کی شریعت میں کیا شادی کا طریقہ موجود نہیں تھا،

کیونکہ آپ ہی بولے ہو انہوں نے شادی نہیں کی تو طریقہٴ نہیں پتہ عیسائی کو، تو کا اس دور کے مسلمانوں نے بلا طریقہ کے شادی کی تھی کیوں کے ان کے نبی نے تو شادی کی نہیں،،، تو اس خطیب کو جان،چھڑانا بھاری ہو جاۓ گا،، تو اس طرح کی بے بنیاد فضول کی باتیں بیان نہ کی جاۓ،،،

خطیب کا یہ کہنا 500 ، 900 سالہ زندگی میں بھی وہ کام نہ کیا ،، اور انہوں نے، ہر شعبے میں کام نہ کیا،،مراد تمام نبی ہے،،، بلکل غلط ہے، اس طرح کہنا جائز نہیں، میں حسن ظن رکھتے ہوۓ گستاخی تو نہیں کہوں گا،،خطیب کی کم علمی پر محمول کرتا ہوۓ جواب دیتا ہوں،، اس طرح انبیاء کے لیے کہنا فلاں نبی نے ہر شعبے میں کام نہ کیا،، جائز نہیں ان کی شان کے خلاف ہے،،،

تمام انبیاء اپنی امت کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتے ہیں  اس کو ہر شعبے کا علم عطا کرتے ہے،،،خطیب صاحب ذرا بتاۓ وہ کون کون سے نبی ہے ،اور کون کون سے شعبے ہے جن میں انبیاء نے معاذ اللہ کام نہ کیا یا اپنی امت کو نہیں بتایا،،،بلکہ ہم دیکھتے ہے چاہے جنگ کے معاملات ہو یا کاروباری، یا زندگی گزارنے کے، ہر شعبے میں انبیاء اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہے،،اور یہ جو خطیب نے انبیاء کے درمیان تقابل کیا،، ہے یہ بھی جائز نہیں، کہ نبی علیہ السلام فرماتے، ہے،،

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى    .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔“

3416 صحیح بخاری

اس حدیث کا مطلب یہ ہے، جب میری شان بیان کی جاۓ تو اس طرح بیان نہ کروں کی یونس علیہ السلام یا دیگر انبیاء کی توہین یا ان کی شان کم ہوجاۓ،،،

خلاصہ کلام یہ ہے، خطیب کا یہ کہنا انبیاء نے ہر شعبے میں رہنمائی نہ کی علم نہ دیا جائز نہیں،، اور نہ ہی اس طرح تقابل کرنا جائز ہے،، خطیب کو چاہئے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے خطابات نہ کرے،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنففی۔،

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 6️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:22، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کو میاں کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اللہ تعالیٰ کو میاں کہنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ تعالی اللہ عزوجل، اللہ جلالہ اللہ سبحانہ  جلاشانہ وغیرہ کہنا چاہیے،،میاں نہیں کہنا چاہیے،،،

فتاوی مفتی اعظم جلد 2 صفحہ 7 پر ہے،،عوام میں یہ لفظ بولا جاتا ہے،اس سے انہیں احتراز کرنا چاہیے،۔ تفصیل کے لیے احکام شریعت دیکھیں، اس میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے مفصل تحریر فرمایا ہے،گناہ نہیں مگر یہ لفظ اس کی جناب میں بولنا برا ہے،۔ اس کی شان و عزت کے لائق نہیں،،

واللہ اعلم بالصوا

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 7️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:23، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

تاویل کرنے والے کی تکفیر کیوں نہیں کی جاتی[ترمیم]

*🌿تاویل کرنے والے کی تکفیر کیوں نہیں کی جاتی🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں اگر کسی قول میں تاویل نکلتی ہو تو تاویل قبول کیوں ہوتی ہے جبکہ جملہ کفریہ ہوتا ہے،،تفصیلی جواب عطا ہو،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

تاویل عربی لفظ ہے۔، اس کا مادہ الف واو اور لام ہے یعنی اول ہے،۔

اول کے معنی رجوع عود لوٹنے کے آتے ہیں۔، تاویل جہاں ہوگی وہاں لوٹنے کا مفہوم پایا جاۓگا

  اصل سے عدول پایا جاۓ گا اور ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف پھیرنا پایا جاۓ گا،۔بلاغت کی اصطلاح میں لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے غیر ظاہر معنی کی طرف پھیرنے کو تاویل کہتے ہیں،۔ التاویل ھو صرف اللفظ عن ظاھرہ الی غیرہ،،۔

اہل اصول اور ارباب کلام کی تعریفات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے،،۔ علامہ سید الدین آمدی۔، فرماتے ہیں،،

تاویل لفظ کو ظاہری معنی کے احتمال کے ساتھ اسے غیر ظاہری معنی پر محمول کرنے کا نام ہے ،لیکن تاویل قبول ہونے کے لیے وہاں کوئی ایسی دلیل ہو جو غیر ظاہری معنی کے مراد ہونے کو تقویت بخشتی ہو،،۔

ھو حمل اللفظ علی مدلو لہ الظاھر منہ۔، مع احتمالہ لہ۔، و اما التاءویل المقبول الصحیح فھو حمل اللفظ علی غیر مدل لہ الظاھر منہ مع احتمالہ،۔ بدلیل یعضدہ،،۔

(الاحکام فی اصول الاحکام)

یہاں ایک سوال پیدا ہوگا جب قول کفری ہے تو پھر اس میں تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے،۔ جب ظاہر معنی کفری ہے تو اسے کفر پر محمول کرنا چاہیے نہ کی تاویل کر کے کفریات گوئی کے جواز کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہے ، اس کا مختصر جواب یہ ہے یہ بات بلکل درست ہے قول و عمل میں اصل یہی ہے ،

کہ کلام کو اس کے ظاہر پر رکھا جاۓ، اس میں تاویل نہ کی جاۓ تاویل خلاف اصل ہے، اور خلاف اصل کے لیے کوئی اضافی قرینہ دلیل اور علمی ضروت مطلوب ہوتی ہے،،لیکن اس کے باوجود مسلمان کے بظاہر کفری قول و عمل میں تاویل اس لیے کی جاتی ہے ، وہاں تاویل کے لیے قرینہ دلیل موجود ہوتی ہے،،،

وہ یہ ہے ایک مسلمان اسلام پر قائم ہے تو بظاہر اس سے اسلام کا انکار متصور نہیں ہو سکتا،، اسلام قبول نہیں ہوتا تو اسلام پر قائم کیوں رہتا ،،ایسے میں اس کے قول یا عمل سے کفری معنی نکل رہا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی بات بتانے میں یا ہم اس کی بات سمجھنے میں کہیں نہ کہیں خطا کر رہے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ اس کے قول و عمل کا ایسا محمل و معنیٰ تلاش کیا جاۓ جو اصول اسلام اور مقتضیات سے ہم اہنگ ہو،۔،

رہے وہ لوگ جو پہلے سے ہی ملت کفر کا حصہ ہوں۔، تو اب ان کے کفری اقوال و اعمال کا ظاہر معنی یہی ہے کہ ان کی مراد وہی کفر ہے،۔ بھلا ایک شخص جو پہلے سے ہی کافر ہو وہ کفری قول بول کر ایمانی معنیٰ کیوں مراد لے گا کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت اس کے کفری قول و عمل میں ایمانی معنیٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جاۓ،۔ یہ جاننے کے بعد کے تاویل کفر نہیں ہے  اور یہ کہ اہل قبلہ کی تاویل مقبول ہے، اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا ہر تاویل قبول ہے ،۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اہل قبلہ تاویل اسی وقت قبول ہوگی، جب ان کے قول و عمل میں تاویل کی گنجائش ہو،۔

اگر وہ صراحت کے ساتھ دین کی بنیادی باتوں ضروریات دین کا منکر ہو یا ان کی اہانت کرتا ہو جسے علمائے کرام نے انکار کے ہم معنیٰ قرار دیا ہے،۔ تو ایسی صورت میں وہ اہل قبلہ میں شامل ہی نہ رہے۔، لہٰذا اب ان کے کسی قول و عمل میں تاویل نہیں کی جاۓ گی اگر اس صورت میں بھی کوئی تاویل کرتا ہے تو یہ تاویل غیر مقبول باطل ہوگی،۔ البتہ اگر کوئی اہل قبلہ ہے،۔ وہ دین کی بنیادی باتوں کو تسلیم کرتا ہے، فروعی باتوں کا انکار کرتا ہے، جو ضروریات دین میں شامل نہیں ہیں۔، تو ایسا شخص اس انکار کے باوجود اہل قبلہ اور مسلمان ہی رہے گا،۔

واضح رہے کہ تاویل صرف اہل قبلہ کے قول و عمل میں کی جاۓ گی،۔ اب تاویل قبول کیوں کی جاتی ہے ،۔ اس کا سیدھا سادھا سا جواب یہ ہے کہ، قول و عمل میں اصل یہ ہے اس کو ظاہر پر محمول کیا جاۓ، قول و عمل میں تاویل ضرورت کے پیش نظر کی جاتی ہے،۔ اور اس ضرورت کا تحقق صرف اہل قبلہ یا اہل اسلام کے قول و عمل میں ہوتا ہے،۔ دوسروں میں نہیں ہوتا ہے،۔  اس لیے دوسروں کے قول و عمل میں تاویل بھی نہیں کی جاۓ گی ۔، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں تاویل سے مراد یہ ہے کہ کسی کے بظاہر کفری قول و عمل کو کفر پر محمول نہ کر کے اسلام پر محمول کیا جاۓ،۔ ظاہر ہے ایسا ہمیں اسی وقت کرنے کی ضرورت پڑے گی جب ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ شخص متعلق پہلے سے مسلمان ہے،۔ اہل قبلہ ہے،۔ اب ایک مسلمان سے کسی ایسے کفری قول و عمل کا صدور ہو تو ہم یہی سمجھیں گے کہ اس کی مراد کچھ اور کہنا یا کرنا رہا ہوگا ایک مسلمان بھلا کفر کیوں کرے گا اس ضرورت کے پیش نظر ہم اس کے بظاہر کفری قول و عمل میں کوئی مناسب تاویل تلاس کریں گے اور اگر اس کو دور سے بھی کوئی اسلامی معنیٰ پہنانا ممکن ہوگا۔،تاویل کی کوئی صورت بھی نکل رہی ہوگی خواہ تاویل بعید ہی سہی۔، تو تاویل کریں گے اور اس کے ظاہر کفری قول و عمل کو ایمان پر محمول کریں گے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی


دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📲

سوال نبمر 6️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:24، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ اور رسول نے چاہا کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہنا کیسا،،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، اللہ اور اس کے رسول نے چاہا تو یہ کام ہوجاۓ گا کہنا کیسا ہے، تفصیلی جواب عطا فرماۓ،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ایسا کہنے سے حضور علیہ السلام نے یہود کے اعتراض کرنے شرک کا چرک اگلنے پر ممانعت فرمائی تو جس چیز سے نبی علیہ السلام نے منع فرمادیا اس سے باز رہنا چاہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ مَاۤ  اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ  فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ  عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا

اور  جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ،،۔،،

اگر کہنا ہو تو اس طرح کہا جاۓ اللہ نے چاہا پھر اس کا رسول چاہے،۔۔،

سنن ابن ماجہ باب النہی ان یقال ماشاء اللہ و شئت،، میں یہ حدیث ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  إِذَا حَلَفَ أَحَدُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقُلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ وَلَكِنْ لِيَقُلْ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شِئْتَ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب کوئی شخص قسم کھائے تو «ما شاء الله وشئت»  جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں  نہ کہے، بلکہ یوں کہے: «ما شاء الله ثم شئت»  جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں ،۔۔۔،

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَأَى فِي النَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ لَقِيَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ نِعْمَ، ‏‏‏‏‏‏الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُونَ:‏‏‏‏ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَاءَ مُحَمَّدٌ وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَعْرِفُهَا لَكُمْ قُولُوا:‏‏‏‏ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ .

مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک شخص سے ملا تو اس نے کہا: تم کیا ہی اچھے لوگ ہوتے اگر شرک نہ کرتے، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس مسلمان نے یہ خواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ کی قسم! میں اس بات کو جانتا ہوں  ( کہ ایسا کہنے میں شرک کی بو ہے ) ۔ لہٰذا تم «ما شاء الله ثم شاء محمد»  جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں  کہو ۔۔،

سنن نسائی حدیث 3804  پر یہ حدیث ہے،،۔

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ قُتَيْلَةَ امْرَأَةٍ مِنْ جُهَيْنَةَ أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّكُمْ تُنَدِّدُونَ وَإِنَّكُمْ تُشْرِكُونَ تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ وَتَقُولُونَ وَالْكَعْبَةِ فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادُوا أَنْ يَحْلِفُوا أَنْ يَقُولُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ وَيَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شِئْتَ

جہینہ قبیلے کی ایک عورت حضرت قتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی شخص نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آیا اور کہا : تم بھی شرک کرتے ہو اور غیراللہ کو معبود بناتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو : جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں ۔ اور تم کعبہ کی قسم کھاتے ہو ۔ تو نبی اکرم  ﷺ  نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانے لگیں تو کہیں : رب کعبہ کی قسم ! اور کہیں جو اللہ تعالیٰ چاہے‘ پھر آپ چاہیں.،۔۔

ان حدیثوں سے معلوم ہوا صحابہ کرام نبی کریم کی بارگاہ میں یہ عرض کرا کرتے تھے،۔ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں،، اللہ اور اپ چاہیں نبی کریم نے اول  نہ روکا،، پھر بعد میں اس سے ممانعت کی،، حضور علیہ السلام نے جب اس سے روکا ہے تو ایسا ہرگز نہ کہا جاۓ، کہنا ہو تو اس طرح کہا جاۓ، جو اللہ چاہے پھر رسول چاہے

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال، 9917420179📲

سوال نبمر 7️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:28، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام اللہ کے بھید جانتے ہیں کہنا کیسا[ترمیم]

🌿 *السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں حضورﷺ اللہ کے بھید جانتے ہیں کہنا کیسا ہے

و علیکم السلام و حمتہ اللہ  وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بھید جانتے ہیں یہ کہنا صحیح ہے،،،، ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،،، یہ کہنا صحیح ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بھید جانتے ہیں،،

مگر یہ کہنا غلط ہے، کہ ہر بھید کو جانتے،،،

فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 131،،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،، 9917420179📲

سوال نبمر 8️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:30، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ اکبر کو اکبار پڑھنا کیسا[ترمیم]

*🌿 آللہ اکبر اللہ اکبار پڑھنا کیسا ہے🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے  ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،

اللہ اکبر کو آکبر یا اکبار کہنا کیسا ہے،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اگر کسی نے جان بوجھ کر اللہ  اکبر آللہ اکبر پڑھ دیا تو یہ کفر ہے،، اکبر کو اکبار پڑھا تو یہ بھی کفر ہے،،

📗فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد 2 صفحہ 75 پر ہے،،

اللہ اکبر کو آللہ اکبر کہنا کفر ہے

اللہ کے ہمزے کے ساتھ مد لگانے سے یہ فقرہ سوال انکاری کا بن جاۓ گا

اور ترجمہ ہوگا کیا اللہ سب سے بڑا ہے اور یہ کفر ہے،

یا اکبر کو اکبار پڑھا تو یہ بھی کفر ہے

کہ اکبار شیطان کا نام ہے،،،

📗 فتاوی ہندیہ میں ہے و المد فی اول التکبیر کفر،، و فی اخرہ خطا فاحش،،

باب الاذان جلد 1 صفحہ 56

منیتہ المصلی میں ہے ،،،

و ان قال اللہ اکبار لا یصیر شارعا و ان وال فی خلال الصلوتہ تفسد صلوتہ عند اکثر المشائخ،،

باب تکبیر تہ الافتتاح ص 238

تکبیرات انتقال میں   اللّٰہ     یا   اکبر  کے الف کو دراز کیا   آللّٰہ  یا   آکبر  کہا یا بے کے بعد الف بڑھایا  اکبار  کہا نماز فاسد ہو جائے گی اور تحریمہ میں  ایسا ہوا تو نماز شروع ہی نہ ہوئی۔

📗بہار شریعت جلد 1 حصہ سوم صفحہ 614

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،

9917420179،📲

سوال نبمر 0️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:32، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

پردے کے پیچھے نبی علیہ السلام تھے روایت کا حکم[ترمیم]

*🌿 پردے کے پیچھے نبی کریم تھے،،، روایت کی حقیقت کیا ہے🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس روایت کے بارے میں،،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تم وحی کہاں سے اور کس سے لاتے ہو،، آپ نے عرض کیا ایک پردے سے آواز آتی ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا کبھی تم نے پردے کو اٹھاکر دیکھا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ میری یہ مجال نہیں کہ پردے کو اٹھاؤں ،، آپ نے فرمایا اب کی بار پردے کو اٹھاکر دیکھنا،،حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایسا ہی کیا،، کیا دیکھتے ہیں کہ پردے کے اندر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور عمامہ سر پر باندھے ہیں اور سامنے شیشہ رکھا ہے،، اور فرما رہے ہیں کہ میرے بندے کو یہ ہدایت کرنا ،،یہ روایت کیسی ہے، اور اس کا بیان کرنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ روایت محض جھوٹ اور کذب و افتراء ہے، اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے، اس کا بیان کرنے والا ابلیس کا مسخرہ اور اس کے ظاہری معنی کا معتقد ہے تو صریح کافر ہے، معلوم ہے یہ روایت بلکل جھوٹ منگھڑت ہے اس کا بیان کرنے والا دو حال سے کھالی نہیں،

اس کے ظاہری معنی یعنی خدا و رسول ایک ہی ہے یہ اعتقاد رکھ کر بیان کرتا ہے،یا یہ اعتقاد نہ رکھ کر بیان کرتا ہوگا،،،

بصورت اول کفر ہے اور بصورت ثانی حرام گناہ کبیرہ کا مرتکب ،،

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،

9917420179📲

سوال نبمر 9️⃣8️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:33، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ سے زیادہ اپنے شوہر سے محبت کرتی ہوں کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿اللہ سے زیادہ اپنے شوہر سے پیار کرتی ہوں کہنا کیسا،،🌿*

شوہر نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو اسکی بیوی نے جواب دیا کہ اپنے رب سے زیادہ تم سے محبت کرتی ہوں

اس پر شوہر نے انکار بھی نہیں کیا

اب دونوں کے لئے حکم شرع کیا ہے

السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ کلمہ محتمل تاویل ہے،، پیار کرتے ہیں میں، محبت طاعت مراد نہ ہو بلکہ محبت شہوت مراد ہو جیسے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتی ہے یا محبت طبیعت مراد ہو جیسے کی انسان کو مال و غیرہ کی محبت ہوتی ہے،،

تو حکم تکفیر نہیں ہاں تجدید ایمان و نکاح کا حکم ہوگا،،،

اور اگر مراد محبت طاعت ہو تو ضرور یہ کفر و موجب اکفار ہے،،،

فتاوی ہندیہ میں ہے،،، و لو قال

لائمراتہ انت آحب الیی من اللہ  

تعالی یکفر کذا فی الخلاصتہ

جلد 2 صفحہ 281📗

اور بحر الرائق میں ہے،،📗

یکف بقولہ لائمراتہ انت احب الیی من اللہ تعالی و قیل لا،،

ج 5 ص 203

اور اس کا یہ یہ قول تو اللہ سے زیادہ محبوب ہے کفر ہے،، اور کہا گیا ہے کفر نہیں ہے،،،،

اس مسئلہ کے تحت امام اہلسنت

فرماتے ہیں،،

اگر کسی نے کہا تو میرے نزدیک اللہ سے زیادہ محبوب ہے ،،،۔اگر اس کی مراد طبعی محبت ہو تو تکفیر نہیں کی جاۓ گی،، اور یہی حق ہے، اور جب اس کی مراد معلوم نہیں تو محض شک کی وجہ سے اس کے کفر کا حکم نہیں دیا جاۓ گا،، اور یہی درست ہے،،،،

تعلیقات رضویہ بر فتاوی📗 عالمگیریہ صفحہ 36،،📗

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 1️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:35، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا بھوت چڑیل ہوتے ہیں[ترمیم]

*🌿بھوت چڑیل سرکٹا کی کیا حقیقت ہے،،🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

دیو پری چڑیل سرکٹا یا پھر آسیب کا اثر انسان پر ہوتا ہے، ان کی حقیقت کیا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ سب جنات کا اثر ہوتا ہے، اور انہی کو بھوت سرکٹا،کہا جاتا ہے،

اور اگر یہ اپنے آپ کو عورت ظاہر کرے تو اس کو چڑیل کہا جاتا ہے،،، مفتی وقار الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں،،

کافر جب مرتے ہیں تو وہ مختلف شکلوں میں نظر آتے ہیں ، اس کے اعتبار سے لوگوں نے مختلف نام گھڑ لیے ہیں،،،کسی انسانی  کی روح کا کسی پر سایہ نہیں ہوتا،

صرف انسان پر جنات کا اثر ہوتا ہے،،

اگر وہ جن اچھی صورت میں نظر آتا ہے اور کبھی واقعی مسلمان ہوتا ہے،،اور کبھی جھوٹ بول کر اپنا مسلمان ہونا بتاتا ہے اسے لوگ مسلمان روح قرار دیکر مختلف معنیٰ گھڑ لیتے ہیں،

اور اگر کافر ہوتا ہے، کفریات کرتا ہے، تو اسے بھوت کہنے لگتے ہے،، اور اگر اپنا عورت ہونا ظاہر کرتا ہے تو اسے لوگ چڑیل کہتے ہیں،،

📗 وقار الفتاوی جلد 1 صفحہ 254

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 4️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:36، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا بد مذہب کافر ہے[ترمیم]

*🌿کیا بدمذہب کافر ہے🌿*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بدمذہب کو کافر کہنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و حمتہ اللہ وبرکاتہ

جس کا کفر یقینی طور سے ثابت نہ ہوجاۓ تب تک اس کو کافر نہیں کہا جاۓ گا،،

اسی طرح ہر بد مذہب کافر نہیں ہے، پر ہر بد مذہب  گمراہ ضرور ہے،،،کافر اسی کو کہا جاۓ گا جس کا عقیدہ حد کفر تک پہنچ جاۓ،

مفتی وقار الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں،،

ہر بدمذہب کو کافر نہیں کہ سکتے، اس کو کافر کہا جاۓ گا جس کی بد مذہبی اور اعتقادات

کفریات تک پہنچ جاۓ

📗وقار الفتاوی جلد 1 صفحہ 287

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 5️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:37، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

دنبہ کا گوشت کہاں گیا[ترمیم]

*🌿دنبہ کا گوشت کہاں گیا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس بارے میں،

کہ قربانی کے لیے جو دنبہ آیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو ذبح کیا تھا تو اس کا گوشت کہاں گیا،، اس کو بانٹا گیا یا پھر کیا ہوا،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب

اس بارے میں تفاسیر میں مختلف اقوال بیان کیے گۓ ہیں۔

مگر مشہور یہ ہے اس کا گوشت جانور کھا گۓ تھے

📗وقار الفتاوی میں ہے

اس پر تو سب کا اتفاق ہے

کہ دنبہ کے سینگ خانہ کعبہ میں رکھے گۓ تھے اور حضور علیہ السلام کی حیات ظاہری تک محفوظ تھے۔حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے کعبہ پر حملہ کیا تھا، جس سے خانہ کعبہ میں آگ لگ گئ تھی اور کعبہ منہدم ہو گیا تھا۔

تو سینگوں کا کیا ہوا۔ اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا ، گوشت کے متعلق زیادہ مشہور قول یہ ہے جس کو علامہ صاوی نے ،تفسیر صاوی میں لکھا ہے، کہ اس کا گوشت جانور کھا گۓ تھے،،

📗وقار الفتاوی جلد 1 صفحہ 70

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال،

9917420179📲

سوال نبمر 6️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:37، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

مجتہد کسے کہتے ہیں[ترمیم]

*🌿مجتہد کسے کہتے ہے🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں مجتہد ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ،

اور مجتہد کی تعریف کیا ہے،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مجتہد کی تعریف یہ ہے، کہ مجتہد وہ عالم ہے جس کا علم، کتاب اللہ قرآن کریم کے تمام اقسام وجوہ معنی،

اور حدیث کی مسانید و متن اور تمام اقسام وجوہ معانی کو جامع و حاوی ہو ۔ اور قیاس کا بجمیع اقسام کا علم رکھتا یو۔،

اور شرائط اجتہادیہ امور ہیں،۔

قرآن و حدیث کے لغت،۔ 1 مفردات،۔ 2 مرکبات۔3صرف4 نحو 5 معانی 6 بیان 7 بدیع 8 معانی شرعیہ 9، اور اقسام قرآن و حدیث 10 خاص 11 عام 12 مطلق 13 مقید 14 مشتر 15 مؤول 16 ظاہر 17 نص 18 مفسر 19 محکم 20 خفی 21 مشکل 22 مجمل 23 متشابہ 24 صریح 25 کنایہ 26 حقیقت 27 مجاز 28 عبارتہ النص 29 اشارتہ النص 30 دلالتہ النص 31 اقتضاء النص 32 مفہوم مخالف 33 مفہوم وصف 34 مفہوم شرط 35 بیان تقریر 36 بیان تفسیر 37 بیان تغیر 38 بیان تبدیل 39 بیان ضرورتہ 40 سبب 41 علت 42 شرط 43 علامت اقسام 44 متواتر 45 مشہور 46 خبر واحد 47 مرفوع 48 موقوف 49 مقطوع 50 متصل 51 منقطع 52 معلق 53 مرسل 54 معضل 55 مدلس 56 مضطرب 57 مدرج 58 شاذ 59 مردود 60 محفوظ 61 معلل 62 متابع 63 شاہد 64 صحیح 65 حسن 66 ضعیف 67 غریب 68 عزیر اور احوال روایت سے 69 حجت 70 حافظ 71 ثقہ 72 صدوق 73 لاباس بہ 74  جید الحدیث 75 صالح الحدیث 76  شیخ وسط 77  شیخ حسن الحدیث 78 صلوح 79 دجال  80 کذاب 81 وضاع 82 متہم 83 متفق علی الترک 84 متروک 85 ذاہب الحدیث 86 ہالک 87 ساقط 88 واہ 89 ضعیف 90 لیس بالقوی 91 یعرف و ینکر 92 فیہ مقال 93 سی الحفظ 94 مبتدع 95 مجہول 96 اقوال اصحابہ 97 اقوال تابعین 98 اقوال تبع تابعین  قیاس اور اقسام  99 جلی 100 خفی صحیح و فاسد وغیرہ  سب سو 100 امور پر کامل طور پر واقف ہونا اور ان سب علموں کا جامع ہونا،،،، یہ میں نے 100 علوم کا ذکر کیا ہے، اور کچھ کو میں نے چھوڑ دیا ہے، جیسے ناسخ منسوخ،، وغیرہ ان علوم کے علاوہ اور بھی علوم جو کی کتب میں مذکور ہے،، مجتہد کو انکا علم ہونا ضروری ہے،،۔

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 7️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:38، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا بزرگوں کی سواری آتی ہے[ترمیم]

*🌿کیا بزرگوں کی سواری اتی ہے🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں، کسی عورت یا مرد پر بزرگ کی سواری آ سکتی ہے یا نہیں؟

اور ان سے سوال کرنا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

کسی مرد یا عورت پر کوئی بزرگ کی سواری نہیں اتی،،

یہ صرف جنات کا اثر ہوتا ہے، وہ بھی کسی کسی پر  مگر ان جنات سے ائندہ کا حال معلوم کرنا ،،

یا ان سے سوال کرنا ناجائز ہے، قران پاک میں اللہ فرماتا ہے،،

فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ

، پھر جب سلیمان زمین پر آیا جِنوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے،،،،

سورہ 34 سباء آیت 14

ان سے سوال کرنا جو خود نہیں جانتے عقل کے بھی خلاف ہے،،

اور اس وعید میں داخل ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ہیں ،

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»

  ۔  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کی ،  کہ آپ نے فرمایا  :  جو شخص کسی غیب کی خبر یں سنا نے والے( کاہن) کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس راتوں تک اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔  

صحیح مسلم حدیث#5821

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 8️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:39، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی یا ولی سے مدد مانگنا کیسا[ترمیم]

*🌿نبی یا ولی سے مدد مانگنا کیسا ہے🌿*

السلام علیکم حضرت خیریت سے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ سرکار کے وصال کے بعد سرکار سے یا کسی بزرگوں سے مدد طلب کرنا جیسے

یا رسول اللہ المدد

یا غوث المدد

یا دیگر اور بھی اس طریقے کا قرآن وحدیث سے مکمل جواب چاہیے کسی کو بتانا ہے بڑا کرم ہوگا آپکا

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اولیاء اللہ اور انبیاۓ کرام سے مدد مانگنا جائز ہے، جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو اللہ عزوجل کی ہے،، یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے، کوئی جاہل بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا ،،

غیراللہ سے مدد مانگنے کا ثبوت قرآنی آیات  احادیث صحیحہ اور اقوال فقہا و محدثین کے اقوال ثابت ہے،،

اللہ عزوجل قرآن پاک میں

فرماتا ہے  سورہ محمد آیت 7

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ  وَ  یُثَبِّتۡ  اَقۡدَامَکُمۡ

اے ایمان والو اگر تم دین خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا

: سورة التحريم - آیت 4

فَاِنَّ اللّٰہَ  ہُوَ مَوۡلٰىہُ  وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ  بَعۡدَ  ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ

بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبرئیل اور نیک ایمان والے ، اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں

: سورة المائدہ آیت 55

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ  الزَّکٰوۃَ  وَ ہُمۡ  رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾

تمہارے مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں

مشکاۃ شریف حدیث نمبر 896 میں ہے

وَعَن ربيعَة بن كَعْب قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: «سَلْ» فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: «أَو غير ذَلِكَ؟» . قُلْتُ هُوَ ذَاكَ. قَالَ: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفسك بِكَثْرَة السُّجُود» . رَوَاهُ مُسلم

حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کے ہاں رات بسر کیا کرتا تھا ، میں آپ کے لیے وضو کا پانی اور آپ کی دیگر ضروریات کا انتظام کیا کرتا تھا ، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :’’ مجھ سے کوئی چیز مانگو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، میں آپ سے ، جنت میں آپ کے ساتھ ہونے کا سوال کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس کے علاوہ کچھ اور ؟‘‘ میں نے عرض کیا : بس یہی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پس اپنی ذات کے لیے کثرت سجود سے میری مدد کر ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

اس حدیث پاک میں نبی پاک سے جنت مانگی گئ اور آپ نے عطا بھی فرما دی، اور فرمایا سجود کی کثرت سے میری مدد کروں ،،

ان آیات قرآنی نی اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا

غیراللہ سے مدد مانگنا جائز ہے

واللہ اعلم بالصواب


دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 9️⃣9️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:40، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا گلاب نبی کے پسینہ سے ہیدا ہوا[ترمیم]

*🌿کیا گلاب نبی کریم کے پسینہ مبارک سے پیاد ہوا ہے🌿*

سلام

کیا گلاب کا پھول آقا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ اطہر سے اگا؟

کیااس کے بارے مستند روایت ھے ؟گلاب کے پھول اگر زمین پہ تشریف لائے تو کیا یہ بے ادبی ھے؟

راہنمائی مطلوب است۔۔۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

بعض موضوع  من گھڑت حدیث قدیم زمانے سے چلی آرہی ہیں

اور حضرات محدثین و علماء دین برابر اعلان کرتے رہے ہیں کتابوں میں لکھتے رہے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ ہے اور موضوع ہے

  گھڑی  ہوئی ہے

اس کو بیان کرنا نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہے ان کا سننا سنانا ناجائز ہے

لیکن افسوس ایک طبقہ ایسی جھوٹی روایت بیان کرنے کا دل  فیک عاشق ہے  انہیں جھوٹی من گھڑت روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے

کی گلاب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک پسینے سے پیدا کیا گیا ہے

اور ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے جو کہ فقیر حنفی نے بھی سنی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گلاب میرے عرق خوش رنگ سے پیدا کیا گیا ہے

جو میری خوشبو سونگھنے کی خواہش رکھتا ہو اس کو چاہیے گلاب کو سونگ لے اور ایک روایت یہ بھی ہے

شب معراج کی رات میرا کچھ پسینہ زمین پر گرا تو اس سے گلاب نکلا ہے

جو میری خوشبو سونگنا چاہے وہ گلاب کو سونگ لے

  ایک روایت یہ بھی ہے سفید گلاب میرے پسینے سے اور لال گلاب جبرئیل کے پسینے سے اور پیلا گلاب کو براق کے پسینے سے بنایا گیا ان روایات کی سندوں میں ایسے راوی ہیں جو کذاب  وضع مہتم متروک ہے  اسی لیے یہ روایت موضوع اور من گھڑت قرار دی گئی ہے

علامہ عسقلانی نے المواہب میں بھی ذکر کی ہے ،،

لیکن ساتھ ہی لکھ دیا ،،یہ روایت میں نے اسلیے ذکر کی تاکہ اپ کو علم ہوجاۓ کی یہ روایت موضوع ہے،،،

امام ابن جوزی نے الموضوعات میں ان سب روایات کی تحقیق کرنے کے بعد موضوع من گھڑت ہونے کا حکم دیا ہے

امام ابن حجر نے اس کے موضوع ہونے کا حکم دیا ہے ان سے پہلے ابن عساکر نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے امام سیوطی نے اسے موضوع کہا علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے موضوع کہا

امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

قال النووی لا یصح وکذا قال شیخنا انہ موضوع و سبقہ لذلک ابن عساکر

امام نووی نے کہا یہ صحیح نہیں ہے اور ہمارے شیخ ابن حجر نے اسے موضوع کہا ہے

ان سے پہلے ابن عساکر نے موضوع کہا ہے،

(مقاصد الحسنہ حدیث نمبر 260)

(موضوعات کبیر حدیث نمبر 298)

  (کشف الخفاء حدیث نمبر  798)

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 0️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:41، 17 مارچ 2023ء (م ع و)

سیدہ فاطمہ خطاۓ اجتہادی پر تھیں کہنا کیسا[ترمیم]

*🌿سیدہ فاطمہ پاک رضی اللہ عنہا🌿*

*مطالبہ فدک کے وقت خطاۓ (اجتہادی) پر تھی کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت کہ:

(1)۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جانب سے فدک کے مطالبہ کو یہ کہنا کہ:

جب وہ مانگ رہی تھیں تو خطاء(متکلم کی وضاحت خطاءاجتھادی)  پر تھیں اور جب اپنے باباجان کی حدیث سنی تو سر تسلیم خم کرلیا۔یہ کہنا کیسا؟

(2)۔اجتھاد کب ہوتا ہے؟

نام: محمدکاشف

پتا: ضلع گجرات،پنجاب،پاکستان

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

حضرت سیدہ پاک فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب فدک کا مطالبہ کیا،چونکہ یہ مطالبہ اجتہاد پر مبنی تھا،، تو اس اعتبار سے یہ کہنا کوئی عیب نہیں اور نہ ہی یہ گستاخی ہے،، کہ جب آپ مطالبہ کر رہی تھی تو خطا اجتہادی پر تھی،،، چونکہ مجتہد اجتہاد میں مصیب بھی ہوتا ہے اور مخطی بھی ،، لیکن عند اللہ ماجور وہ دونوں صورتوں میں ہوگا،،

اجتہاد کے لغوی معنی ہے طاقت مشقت سے ماخوذ ہے،، اصطلاحی معنی یہ ہے

اسلام میں ایسے لوگ جو اپنی صلاحیت علمی میں ممتاز ہوں شرعی امور میں ایک خاص درجہ مقام رکھتے ہوں،، ان کو مجتہد کہا جاتا ہے،

مجتہد جب کوئی حکم اخذ کرتا ہے

اجتہاد سے تو اگر وہ صحیح ہے تو بھی اجر ملتا ہے اور اگر مخطی ہے تو بھی اجر پاتا ہے،

امام تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اور مجتہد کبھی خطا کرتا ہے،، فرماتے ہیں،  ان المجتہد قد یخطئ،،

کہ مجتہد کبھی خطا بھی کرتا ہے،، مزید فرماتے ہیں

الاحادیث والآثار الدالتہ علی تردید الاجتھاد بین الصواب والخطا، بحیث صارت متواترتہ المعنی  قال علیہ السلام  ۔۔، ان اصبت فلک عشر حسنات و ان اخطاءت فلک حسنتہ واحدتہ۔۔ و فی حدیث آخر جعل للمصیب اجرین و للمخطی اجر او احدا،،،

احادیث اور آثار متواتر المعنی ہیں جو اجتہاد کے خطا اور صواب کے ما بین دائر ہونے پر دال ہے، نبی علیہ السلام نے فرمایا اگر تم مصیب ہوگے تو تمہارے لیے دس نیکییاں ہیں اور خطا کروگے تو ایک نیکی ہے،،دوسری حدیث میں ہے،، مصیب کے لیے دو اور خطا کرنے والے کے لیے ایک اجر کی بات کہی گئ ہے،،،،

آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں ۔۔

و عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ۔،

ان اصبت فمن اللہ و الا فمنی و من الشیطان،، وقد اشتھرت تخطءتہ الصحابتہ بعضھم بعضا فی اجتھادیات ،،،

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،،

اگر میں درستگی کی راہ پر رہا تو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر خطا کرگیا تو یہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے،،،

اور اجتہادی مسائل میں بعض صحابہ کرام کا بعض کو خطا کار قرار دینا مشہور ہے،،

شرح العقائد،،،۔

بخاری شریف میں روایت ہے،،

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ :    إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ

حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے

صحیح البخاری حدیث 7352۔۔،

فقہ حنفی کی مشہور کتاب المنار کی شرح میں علامہ احمد جیون حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،، المجتھد یخطی و یصیب والحق فی موضع الخلاف واحد،،

مجتہد صحیح فیصلہ کرتا ہے اور غلط بھی اگرچہ موضع اختلاف میں حق ایک ہی کے ساتھ ہوگا،،،،

نور الانوار مبحث الاجتھاد 251

صدر الشریعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، خطاۓ اجتہادی یہ مجتہد سے ہوتی ہے،،اور اس میں اس پر عند اللہ اصلا مؤاخذہ نہیں،،

بہار شریعت صحہ 1 صفحہ 258

مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا،کہ اجتہاد کرنے والا،، مجتہد چاہے مصیب ہو یا مخطی وہ اللہ کی طرف سے اجر پاتا ہے جس فعل پر اجر ملے وہ محمود و مقبول ہی ہوگا مذموم و مقبوح نہیں ہو سکتا،،،معظم و مکرم شخصیات کی طرف خطاۓ اجتہادی کی نسبت توہین و تنقیض شمار نہیں کی جا سکتی،،اگر محض نسبت کرنا ہی توہین یا تنقیض ہوتا تو،، معاذ اللہ انبیاء و رسل

علیہم السلام کی جانب نسبت کرنا کفر ہوتا کیوں کہ انبیاء کرام کی توہین و تنقیض کرنا کفر ہیں،،

جب یہ ثابت ہو گیا اجتہادی خطا کوئی عیب نہیں ہے اور نہ کوئی توہین ہے،، تو اس طرح کہنے میں بھی کوئی توہین و تنقیض نہیں کہ،،

سیدہ فاطمہ پاک مطالبہ کے وقت خطاۓ اجتہادی پر تھی،،

2 جب کوئی ایسا مسئلہٴ درپیش اۓ جس کا ذکر کتاب سنت حدیث میں نہ ہو،، تو پھر اجتہاد کیا جاتا ہے،،

و اللہ اعلم بالصواب

علامہ داش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 1️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:39، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

انبیاء علیہم السلام کا کوئ وارث نہیں ہوتا یہ روایت سیدہ پاک کے علم میں نہ تھی؟[ترمیم]

@*🌿انبیاء علیہم السلام کا کوئی وارث نہیں ہوتا،کیا یہ حدیث سیدہ پاک کے علم میں نہ تھی🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کیا فدک کے مطالبہ پر اجتہاد کیا تھا،،اگر کیا تھا  تو وہ اجتہاد کیا تھا،، کیوں کہ سیدہ پاک نے قرآن کی آیت سے استدلال کیا تھا، جب صریح آیت سے استدلال کیا تھا تو اجتہاد کیا سیدہ نے یہ کہنا غلط ہے،

اور کیا سیدہ رضی اللہ عنہا کے علم میں وہ حدیث پہلے سے تھی یا نہیں،،،

براۓ کرم تفصیلی جواب عطا فرماۓ،،

سائل عبداللہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ سوال مجھ سے پہلے بھی کچھ اور لوگوں نے کیا ہے،،

فدک والے مسئلے میں سیدہ پاک نے اجتہاد نہیں کیا تھا، بلکہ آیت کے عموم سے استدلال کیا تھا،، انبیاء علیہم السلام کا ترکہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوتا،، یہ روایت سیدہ پاک کے علم میں ہی نہ تھی تو اجتہادی خطا کہنا بھی غلط ہے،،,, اگر سیدہ کے علم میں ہوتی تو آپ مطالبہ نہ کرتی

یہ اعتراض شیعوں کا ہے،، وہ اس مسئلے پر مذکورہ اعتراض کرتے ہے،، لیکن اب یہ اعتراض وہاں سے نکل کر سنیوں میں بھی آگیا ہے،، کچھ لوگ یہی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں،، اس اعتراض کا جواب بھی ہم ذکر کریں گے

دوسرا اعتراض ۔،،۔

آیت سے جب استدلال کیا،، صریح آیت کے ہوتے ہوۓ اجتہاد نہیں کیا جاتا،، جب آیت سے استدلال کیا تو پھر خطا اجتہادی کہنا بھی غلط ہے،،

جبکہ سیدہ پاک نے اجتہاد کیا تھا،، ایت کے عموم اور قیاس سے استدلال کیا تھا،،  سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی،،، ان سب کا ذکر میں تفصیلی طور پر کرتا ہوں،،

سب سے پہلے اس پر کلام کرتے ہیں اپ کے علم میں وہ حدیث تھی یا نہیں،،،

فنقول وباللہ التوفیق،،،،

نبی علیہ السلام نے اس حدیث پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی مطلع فرما دیا تھا،،کہ امام مسلم نے حضرت مالک بن اوس سے روایت کیا ہے،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے قسم دیکر پوچھا ،،،کہ کیا تم کو علم ہے رسول اللہ نے فرمایا تھا ہم کسی کو وارث نہیں بناتے،،ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے،،حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے فرمایا ہاں،، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں اس حدیث پر مطلع تھے تو یقیناً سیدہ پاک بھی اس حدیث پر مطلع ہوں گی،،،،،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث میں نے ذکر کی ہے، وہ حدیث بہت طویل ہے،، اس کو میں بعد میں نقل کرتا ہوں،، اس سے پہلے ایک حدیث نقل کرتا ہو جو ہماری اس بات کی تائید کرتی ہے، کہ سیدہ پاک کو علم تھا اس حدیث کا،،،،، اس کے بعد صحیح مسلم کی طویل روایت نقل کروں گا،،،،،،

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَيْمُونٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام يَقُولُ:‏‏‏‏ اجْتَمَعْتُ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَبَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏وَفَاطِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عند النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَفَعَلَ ذَلِكَ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏

عبد الرحمان بن ابی لیلی نے کہا

میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولچ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئیے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا،۔،،۔۔

ابو داود باب خمس کے مصارف قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان حدیث ،،2984،،

اس حدیث پاک میں سیدہ پاک بھی موجود ہیں،، حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی،، اس حدیث میں تقسیم کرنے کی بات کہی جارہی ہے، کہ نبی علیہ السلام کا جو کچھ ترکہ ہے وہ تقسیم ہوتا رہا ،،،کسی کی ذاتی ملک میں نہیں آیا ،،نبی علیہ السلام کے بعد بھی،، اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے،، انبیاء علیہم السلام کا وارث نہیں ہوتا،،، یہ حدیث سیدہ پاک کے علم میں تھی،، کہ سیدہ کی موجودگی میں ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی تھی،، اور اجازت مل بھی گئ تھی،،،،پتہ چلا سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث پاک تھی انبیاء کا وارث نہیں ہوتا،،،سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی اس کی تائید ان حدیثوں سے بھی ہوتی ہے،، جن میں یہ ذکر آیا ہے،، کہ سیدہ پاک نے مطالبہ کیا تھا،،، اس حدیث میں ہمیں تین طرح کا ذکر ملتا ہے ایک یہ کی سیدہ پاک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا،، دوسری روایت میں سیدہ پاک خود گئیں اور مطالبہ کیا،، تیسری روایت میں ہے،، سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ،، گئیں تھی،،،اور مطالبہ کیا،،،یہ تینوں حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ سیدہ کے علم میں وہ حدیث تھی،، خاص طور سے جس میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کا ذکر ہے کیونکہ اوپر ہم ذکر کر ائے ہیں اس حدیث کا علم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی تھا،، اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے علم میں ہونے کے بعد بھی سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں،،تو اب یہ نہیں کہا جا سکتا کی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی اس حدیث کا علم نہ تھا،، جس طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علم تھا پھر بھی سیدہ پاک کے ساتھ جاتے ہیں،، اسی طرح سیدہ پاک کو بھی اس حدیث کا علم تھا،،،اس حدیث کا علم ہونے کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر مطالبہ کرنا بھی صاف ظاہر کرتا ہے کی آپ کے علم میں وہ حدیث تھی،،بلکہ سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں ،،اور ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی مطالبہ کرنے جاتے ہیں،،اب اس سے زیادہ صاف صریح کونسی بات کی ضرورت ہے،،،وہ حدیث آپ سب کے علم میں ہونے کے بعد بھی کیوں مطالبہ کیا بار بار،،،اس کا جواب میں آگے استدلال کی بحث میں کروں گا،،،

پہلے میں ان تیوں حدیثوں کو نقل کرتا ہوں

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ    أَنَّ فَاطِمَةَ ، وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ ، وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ .

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عباس رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور خیبر میں بھی اپنے حصہ کا،،،،

صحیح بخاری حدیث 6725

بخاری شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جاتی،،،،،

اور ترمذی شریف میں روایت ہے،،،

، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَنْ يَرِثُكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَهْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ:‏‏‏‏ فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏    لَا نُورَثُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،،سے روایت ہے،،

فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس آکر کہا : آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟

انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم  ( انبیاء )  کا کوئی وارث نہیں ہوتا“  ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا )  لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔،،،،

ترمذی حدیث 1608

ترمذی شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک کا تنہا جانا ذکر ہے،،،،اور سنن ابو داؤد میں روایت ہے،،،

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏   لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ  ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے  ( کسی کو )  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:  ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے  ( یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے )  ، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے  ( بطور وراثت )  کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ ۔۔،،

سنن ابو داؤد حدیث 2968

ابو داؤد کی اس حدیث میں سیدہ پاک نے کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا،،، یہ ذکر ہے،،

اب میں مسلم شریف کی وہ طویل روایت نقل کرتا ہوں جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا،،

وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ ]، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدَا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ، لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: {مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} [الحشر:7 ]- مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا - قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللهِ، مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا، بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ، أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَق

امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ،  انہوں نے کہا :  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ،  دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔  کہا :  میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ،  انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ،  تو انہوں نے مجھ سے کہا :  اے مال  ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ،  اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔  کہا :  میں نے کہا :  اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں  ( تو کیسا رہے؟ )  انہوں نے کہا :  اے مال! تم لے لو ۔  کہا :   ( اتنے میں ان کے مولیٰ )  یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے :  امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ،  عبدالرحمان بن عوف ،  زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم  ( کے ساتھ ملنے )  میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  تو اس نے ان کو اجازت دی ۔  وہ اندر آ گئے ،  وہ پھر آیا اور کہنے لگا :  کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما  ( کے ساتھ ملنے )  میں  دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔  تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا :  امیر المومنین! میرے اور ان کے  درمیانن فیصلہ کر دیں ۔  کہا :  اس پر ان لوگوں نے کہا :  ہاں ،  امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو  ( جھگڑے کے عذاب سے )  راحت دلا دیں  ۔  ۔  مالک بن اوس نے کہا :  میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا  ۔  ۔  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :  تم دونوں رکو ،  میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :     ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ،  ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا   ؟ ان سب نے کہا :  ہاں ۔  پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا :  میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :     ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ،  ہم جو کچھ چھوڑیں گے ،  صدقہ ہو گا   ؟ ان دونوں نے کہا :  ہاں ۔  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :  بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ،  اس نے فرمایا ہے :     جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے     ۔  ۔  مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں  ۔  ۔  انہوں نے کہا :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ،  اللہ کی قسم! آپ نے  ( اپنی ذات کو )  تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ،  حتیٰ کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ،  پھر جو باقی بچ جاتا اسے  ( بیت المال کے )  مال کے مطابق  ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے )  استعمال کرتے ۔  انہوں نے پھر کہا :  میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی  ( اور کہا )   :  کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا :  جی ہاں ۔  پھر کہا :  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے ،  آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے ۔  تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :     ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ،  ہم جو چھوڑیں گے ،  صدقہ ہے ۔

صحیح مسلم باب فے کا حکم حدیث 4577،،،۔۔

اس حدیث مبارکہ میں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ قسم دیکر معلوم کرتے ہیں،، کیا آپ کو اس حدیث کا علم نہیں تو ان دونوں حضرات کی جانب سے جواب ہاں میں ملتا ہے،،،اس حدیث سے غور کرنے پر ایک اور بات معلوم ہوئی ،،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا،، آپ دونوں حضرات  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی مطالبہ کرنے گۓ تھے،،انہوں نے فرمایا تھا، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے،،، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دونوں حضرات مطالبہ کرنے آتے ہیں،،،

یہ ساری روایات اس بات پر صریح طور پر دلالت کرتی ہیں،، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے،، اس حدیث کا علم سیدہ پاک کو بھی تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی تھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی تھا،،، اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے جب ان سب حضرات کو اس حدیث کا علم تھا،، تو کیوں بار بار مطالبہ کیا آخر کیا وجہ تھی حدیث معلوم ہونے کے بعد بھی مطالبہ کیا،،، تو اس کا جواب یہی ہے آپ سب حضرات نے اجتہاد کیا تھا،، جس وجہ سے مطالبہ کیا اجتہاد کیا تھا،، اسے میں تفصیلی طور پر ذکر کرتا ہوں

البدایتہ والنھایتہ میں ہے،،

وقد روینا ان فاطمتہ رضی اللہ عنھا احتجت او لا بالقیاس و بالعموم فی الآیتہ،،۔ فاجابھا الصدیق بالنص علی الخصوص بالمنع فی حق النبی،،،،

ہم نے روایت کیا ہے پہلے سیدہ پاک نے قیاس اور آیت کے عموم سے استدلال فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص کے ذریعہ جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کے ساتھ یہاں پر منع خاص ہے۔،،،

البدایتہ و النھایتہ ج 5 ص 289،،۔

مذکورہ عبارت میں تین چیز بیان کی گئ یے،،

ایک سیدہ پاک نے آیت کے عموم سے استدلال فرمایا،،

دوم یہ کی سیدہ پاک نے قیاس سے استدلال فرمایا،،

سوم یہ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص مختص سے جواب دیا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو وارثوں میں تقسیم کرنا ممنوع ہے،،،

آپ سیدہ پاک نص مختص سے واقف تو تھی لیکن آپ نے یہ سوچا کہ یہ خبر واحد ہے، اور کتاب اللہ کے حکم عام کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے جائز نہیں ہے،، اسی لیے آپ نے مطالبہ فرمایا جیسا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی، رحمہ اللہ فرماتے ہیں،،

و اما عذر فاطمتہ فی طلبھا مع روایتہ لھا الحدیث فیحتمل انہ لکونھا رائت ان خبر الواحد لا یخصص القران کما قیل بہ فاتضح عذرہ فی المنع و عذرھا فی الطلب فلا یشکل علیک ذلک و تاملہ فانہ مھم،،

ترجمہ،، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ میں جو عذر پیش کیا ہے اس حدیث مبارکہ  میں تو احتمال یہ کہ انہوں نے دیکھا کہ خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں تخصیص نہیں کی جا سکتی جیسا کہ کہا گیا ہے تو پس منع و طلب میں دونوں کے عذر کی وضاحت ہو گئ تو اب کوئی اعتراض باقی نہ رہا غور کیجیے کیوں کہ یہ بہت اہم ہے،۔۔،

الصواعق المحرقہ صفحہ 127،،

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے تو پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تخصیص کیوں کی،، تو اس کا جواب یہ

ہے اگرچہ ہماری طرف نسبت کرتے ہوۓ حدیث احاد سے ہے، لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی علیہ السلام کی زبان حق ترجمان سے اپنے کانوں سے سنا ان کے لیے یہ حدیث متواتر، قطعی ہے اور متن کی قطعیت میں آیت موارث کے برابر  ہے رہا اپ کا اپنے فہم کے مطابق محمول کرنا تو تمام ممکن احتمالات کو قرینہ حالیہ سے انتفاء کرکے آپ کے نزدیک وہ آیت کی عمومیت کو مخصوص کرنے کی قطعی حجت بن گئ

کیوں کہ محسوسات کا درجہ متواترات سے اوپر ہے،،،،اور یہ کہنا بھی غلط ہوگا کی یہ روایت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے روایت کی ہے،، بلکہ ہم اوپر صحیح مسلم کی روایت نقل کر آۓ ہیں ، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اس حدیث میں پوری صحابہ کی جماعت ہے اور قسم کھاکر اس روایت کی تصدیق کرتی ہیں، کہ ہم نے نبی علیہ السلام سے یہ سنا ہے،،، تو بتہ چلا اس روایت کو صرف تنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے روایت نہیں کیا بلکہ صحابہ کی جماعت نے اس کو روایت کیا ہے،

ان روایتوں کو ذکر کرکر مزید جواب طویل نہیں کرنا چاہتا انصاف پسندوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے

جب ایسا ہے تو یہ خبر واحد نہ رہی،،،

اب جب یہ ثابت ہو گیا سیدہ پاک نے اجتہاد کیا تھا آیت کے عموم سے،، اور یہی اجتہاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کیا تھا،،تو اب ہم اس طرف آتے ہے آپ نے قیاس سے استدلال کس طرح کیا تھا،،،

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قیاس سے استدلال فرمایا جیسا کی سنن ترمذی میں روایت ہے،

:‏‏جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَنْ يَرِثُكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَهْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ:‏‏‏‏ فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏    لَا نُورَثُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ   ،

‏‏‏

فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم  ( انبیاء )  کا کوئی وارث نہیں ہوتا“  ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا )  لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔

(سنن ترمذی حدیث 1608)۔،،

مسند احمد میں روایت ہے،،

عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّ فَاطِمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  قَالَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مَنْ یَرِثُکَ اِذَا مِتَّ؟ قَالَ: وَلَدِیْ وَأَھْلِیْ، قَالَتْ: فَمَا لَنَا لَانَرِثُ االنَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرَثُ۔)) وَلٰکِنِّیْ أَعُوْلُ مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعُوْلُ وَأُنْفِقُ عَلٰی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُنْفِقُ۔

۔ سیدنا ابو سلمہ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  نے سیدنا ابوبکر  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: جب آپ فوت ہوں گے تو آپ کا وارث کون ہوگا؟ انہوں نے کہا: میری اولاد اور میری بیوی، سیدہ  فاطمہ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا   نے کہا: پھر ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے وارث کیوں نہیں بن سکتے؟ انہوں نے کہا:کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایاکہ  بیشک نبی کا وارث نہیں بنا جاتا۔  ہاں میں (ابو بکر) ان کی کفالت کروں گا کہ جن کی کفالت رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کیا کرتے تھے اور میں ہر اس شخص پر خرچ کروں گا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  جس پر خرچ کیا کرتے تھے۔

(مسند احمد حدیث 6349)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

نے قیاس سے استدلال فرمایا تھا، کیونکہ سیدہ پاک نے دیکھا جب کسی مومن مسلمان کا وصال ہوتا ہے تو اس کی وراث اس کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوتی ہے حتی کے کہ خلیفتہ المسلمین حضرت ابوبکر  کی وراثت ان کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوگی تو میرے والد محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وراثت بھی اسی طرح توتقسیم ہونی چاہے جیسا کی سیدہ پاک نے فرمایا لیکن جب حضرت ابوبکر سے حدیث سنی اور آپ پر دلیل واضح ہو گئ تو اپنے موقف سے رجوع فرما لیا اور پھر کبھی مطالبہ نہ فرمایا،،

اگر یہ باتیں ٹھیک سے پڑھنے کے بعد غور کرے اگر سیدہ پاک کے اس موقف کو اس معاملہ میں حق پر مانا جاۓ تو خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ضرور یہ ماننا پڑیگا کہ آپ سے اپنے اس موقف میں خطاۓ اجتہادی ہوئی حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کو ، تمام صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ خود سیدہ پاک  نے قبول فرمایا،،

جیسا کی تفسیر رازی میں ہے،،

ان فاطمتہ علیھا السلام رضیت بقول ابی بکر بعد ھذہ المناظرتہ، و انعقدالاجماع علی صحتہ ذھب الیہ ابو بکر،،،

سیدہ پاک پر سلامتی ہو بیشک وہ اس مباحثہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کی صحت پر اجماع منعقد ہوگیا۔،،

(تفسیر رازی جلد 9 ص 514)

وہ حضرات ان عبارتوں پر غور فرمائیں جو سرے سے ہی اس معاملہ میں اجتہاد کا انکار کرتے ہیں، کیا ان عبارتوں احادیث اور اقوال سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدہ پاک نے اجتہاد فرمایا تھا،،

سیدہ پاک کا مطالبہ اس وجہ سے تھا کہ آپنے سوچا آیت میراث کے مقابلے میں جو حدیث ہے وہ خبر واحد ہے، جس سے تخصیص جائز نہیں لیکن بعد میں آپ پر معاملہ واضح ہوگیا ،اسی کو اجتہاد کہا جاتا ہے مجتہد حکم شرع کے حصول کے لیے حتی الوسع کوشش کرے اگر دلیل کے مخفی ہونے کے سبب درست حکم کو نہ پا سکے تو مخطی ہے اور اگر مراد کو پہنچ جاۓ تو مصیب ہے اگر اجتہاد نہ کہا جاۓ تو کیا کہا جاۓ گا،،۔

جب سیدہ مطالبہ کر رہی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اپ کو حدیث سنائی تو سیدہ پاک پر بھی یہ واضح ہو گیا کی اس معاملہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اجتہاد مصیب ہے، اور حدیث انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے، کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زیادہ بہتر جانتے ہیں،،خود سیدہ پاک نے یہ فرما دیا ،،مسند احمد میں روایت ہے

۔عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَۃُ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ: أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْ أَہْلُہُ؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، بَلْ أَہْلُہُ، قَالَتْ: فَأَیْنَ سَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِیًّا طُعْمَۃً ثُمَّ قَبَضَہُ، جَعَلَہُ لِلَّذِییَقُومُ مِنْ بَعْدِہِ۔)) فَرَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَتْ: فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ۔

سیدنا ابوطفیل  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کا انتقال ہوا تو سیدہ فاطمہ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  نے سیدنا ابو بکر  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے ہاں  پیغام بھیجا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے وارث آپ ہیں یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے گھر کے افراد؟ سیدنا ابو بکر صدیق  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  نے کہا: جی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وارث میں نہیں ہوں، بلکہ آپ کے اہل خانہ ہی ہیں، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  نے کہا: تو پھر رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کا حصہ کہاں ہے؟ سیدنا ابوبکر ‌ صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ  نے کہا کہ رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ جب آپ نے کسی نبی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور اسکے بعد اپنے نبی کی روح کو قبض کر لیتا ہے تو وہ چیز اس کے خلیفہ کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔  پس میں نے سوچا ہے کہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  نے کہا: تو پھر آپ ہی اس کو جو آپ نے رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کی حدیث سنی ہے، بہتر جانتے ہیں۔

(مسند احمد حدیث 12168)

اس حدیث میں سیدہ پاک واضح فرما رہی ہے،، کہ آپنے جو نبی پاک سے حدیث سنی ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں،،

اسی وجہ سے سیدہ پاک نے مطالبہ ترک کردیا تھا،،،،

جو فیصلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، اس فیصلہ کے متعلق حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،،

قال زید واللہ لو رفع الامر فیھا الی لقضیت بقضاء ابی بکر۔۔،

حضرت زید نے فرمایا اللہ کی قسم اگر یہ معاملہ میرے پاس آتا تو میں وہی فیصلہ کرتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا ،،،

( الصواعق المحرقتہ صفحہ 127،،۔،،

اب نہ جانے جو لوگ سیدہ پاک کے اجتہاد کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کیا وجہ ہے،،۔ ورنہ علمائے کرام کی اقوال و عبارات احادیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ ، اجتہاد کرکے فرمایا تھا،،،

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینتال،

9917420179 📲

سوال نبمر 2️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:42، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

فاسق سے ممبر رسول پر نعت پرھوانا کیسا[ترمیم]

*🌿فاسق سے ممبر رسول پر نعت پڑھوانا کیسا🌿*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسلٔے کے ذیل میں کہ

ایک شخص داڑھی منڈا ہے فرض نماز کا پابند بھی نہیں ہے اور وہ ممبر رسول پر بیٹھ کر حضور صلی االلہ علیہ وسلم کی شان میں نعت خوانی کر رہا ہے اور عوام اس پر پیسے لٹا رہی اور اسکی واہ واہ کر رہی ایسے شخص کے اوپر کیا حکم شرع ہوگا

برائے کرم با حوالہ تفصیلی جواب عنایت فرمادیں

ساںٔل محمد فیضان رضا عطاری

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ان افعال کا قبیحہ کا مرتکب سخت ترین کبائر کا مرتکب ہے،،اور ان افعال کا ارتکاب فاسق فاجر بلکہ نہایت سخت ترین فاسق فاجر مستحق عذاب نار ہے ایسے شخص کو ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھانا اور اسے مجلس یا جلسہ یا کانفرنس وغیرہ میں بلاکر نعت پڑھوانا حرام ہے،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں

افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں، ان کا مرتکب اشد فاسق مستحق عذاب نار اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت وہوں ان  خوش اوازی خواہ کسی علت نفسانی کے باعث اسے منبر و مسند پر کہ حقیقتہ مسند حضور پر نور صلی اللہ علیہ والم ہے تعظیما بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے،، تبین الحقائق و فتح المعین  و طحطاوی علی مراقی الفلاح و غیرہ میں ہے،،

فی تقدیم الفاسق تعظیمہ و قد وجب علیہم اھانتہ شرعا،،

فاسق کو اگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے، حالانکہ بوجہ فسق لوگوں پر شرعاً اس کی توہین کرنا واجب اور ضروری ہے

📚 الفتاوی الرضویہ الجلد الثالث و العشرون الصفحتہ 734  مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 3️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:14، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

اعلی حضرت نے اسماعیل دہلوی کی تکفیر کیوں نہ کی[ترمیم]

*🌿اعلی حضرت نے اسماعیل دہلوی کی تکفیر کیوں نہ فرمائی🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں، اسماعیل دہلوی کی تکفیر فضل حق خیر آبادی نے فرمائی، اور دیگر علمائے کرام نے تکفیر کی، لیکن فاضل بریلوی امام احمد رضا نے تکفیر کیوں نہ فرمائی،، کیا وجہ تھی جس وجہ سے کف لسان کیا،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب

مولوی اسماعیل دہلوی اپنی عبارات کفریہ کے سبب کافر مرتد ہے،،چونکہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمہ اللہ کا وصال 1278 ھ میں ہوا اور اس وقت تک اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور نہیں ہوئی تھی، جس کی بنا پر آپ نے اس کی تکفیر فرمائی،، بر خلاف اس کے امام اہلسنت محدث بریلوی کی ولادت  1272 ھ میں ہوئی ،، اور آپ کا وصال 1340 ھ میں ہوا،،۔

اس وقت تک اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہو چکی تھی اس لیے آپ نے احتیاطاً اس کی تکفیر سے کف لسان فرمایا،،۔ جیسا کی خود تحریر فرماتے ہیں،،کہ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اکفار سے کف لسان ماخوذ و مختار و مرضی و مناسب ،،،

فتاوی رضویہ جلد 15 صفحہ 242

اور احتیاط کی وجہ اسماعیل دہلوی کا اپنے اقوال کفریہ ملعونہ سے توبہ کی خبر مشہور ہونا ہے،،

یہی وجہ تھی جس وجہ سے امام اہلسنت نے تکفیر سے کف لسان فرمایا،،، صدر الافاصل مرادآبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،،

چونکہ اسماعیل کی نسبت یہ مشہور تھا کہ اس نے اپنے تمام اقوال سے توبہ کرلی تھی اس لیے علماۓ محتاطین نے اس کو کافر کہنے سے احتیاطا زبان روکی،،،۔۔

آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں،،

جن علمائے کرام نے سنا اس کی نسبت توبہ شہرت ہے انہوں نے احتیاط کی اور مفتی کو ایسا ہی چاہے جیسا کی ائمہ دین نے یزید کی تکفیر سے احتیاط کی،،

اطیب البیان صفحہ 339

واللہ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📲

سوال نبمر 4️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:15، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

مداری سلسلہ میں بیعت ہونا کیسا[ترمیم]

*🌿مداری سلسلہ میں بیعت ہونا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مداری سلسلہ میں بیعت ہونا کیسا ہے،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں امام اہلسنت محدث بریلوی فرماتے ہیں،،،

حضرت شاہ بدیع الدین مدارقدس سرہ الشریف اکابر اولیائے عظام سے ہیں،

مگر ولی ہونے کو یہ ضروری نہیں کہ اس سے سلسلہ بیعت بھی جاری ہو۔ہزاروں صحابہ کرام رضیﷲ تعالٰی عنہم میں صرف چندصاحبوں سے سلسلہ بیعت ہے،

باقی کسی صحابی سے نہیں۔پھر ان کی ولایت کو کس کی ولایت پہنچ سکتی ہے۔اس خاندان کاجوسلسلہ اکابر میں چلاآیاہے وہ محض تبرك کے لئےہے۔جیسے حدیث شریف کاسلسلہ،باقی افاضہ کااجراء اس سے نہ ہوا،جیساکہ حضرت سیدنا میرعبدالواحد بلگرامی قدس سرہ السامی نے سبع سنابل شریف میں فرمایا:توجسےبیعت صحیحہ سلاسل نافذہ منفقہ میں ہو وہ اپنے مشائخ سے تبرکًا اس سلسلہ کی بھی سندلے لے توحرج نہیں،اوراسی پراکتفاء،اورخصوصًا اہل فسق جواکثر اس سلسلہ کاغلط نام بدنام کرنے والے ہیں ان سے رجوع،یہ باطل اورممنوع ہے

📚 فتاوی رضویہ جلد 26 صفحہ 556

۔وﷲ اعلم بالصواب

علامہ دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 5️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:16، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی اور رسول کسے کہتے ہیں[ترمیم]

نبی اور رسول کسے کہتے ہیں

*🌿السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ🌿*  

امید ہے بخیر ہونگے حضور والا کی بارگاہ میں عرض ہے۔ کہ  نبی اور رسول کی وضاحت فرمائیں قرآن و احادیث کی روشنی میں؟

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی کا لغوی معنی ہے اللہ عزوجل کی طرف سے خبر دینے والا۔، پیشن گوئی کرنے والا خدا تعالیٰ کے متعلق خبریں دینے والا،، اور رسول کے معنی ہے بھیجا ہوا،،،نبی اور رسول دونوں کا اصطلاحی معنی ہے وہ انسان اور بشر جس کو اللہ نے اپنے احکام کی تبلیغ کے لیے مخلوق کی طرف بھیجا ہو،

اور ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا جاتا ہے کہ نبی وہ ہے جس پر وحی نازل کی گئ ہو عام ازیں کہ اس پر کتاب بھی نازل کی گئ ہو یا نہیں، اور رسول وہ انسان ہے اس پر کتاب بھی نازل کی گئ ہو اور وحی بھی نازل کی گئ ہو،،،،

شرح عقائد میں علامہ تفتازانی رحمہ اللہ لکھتے  ہیں ،،

والرسول انسان بعثہ اللہ تعالی الی الخلق لتبلیغ الائحکام، وقد یشترط فیہ الکتاب بخلاف النبی فانہ اعم،،

اور رسول وہ انسان ہے جسے اللہ عزوجل نے تبلیغ احکام کے لیے مخلوق کی طرف مبعوث کیا ہو۔، کبھی اس میں کتاب کی بھی شرط لگائی جاتی ہے، بر خلاف نبی کے، لہٰذا نبی  عام ہے،،

میر سید شریف علی بن جرجانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں،،

الرسول انسان بعثہ اللہ الی الخلق لتبلیغ الاحکام ،،،

رسول وہ انسان ہے جسے اللہ احکام کی تبلیغ کے لیے مخلوق کی طرف بھیجتا ہے،،

کتاب التعریفات صفحہ 81،۔

علامہ کمال الدین  ابن ھمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں،،

النبی انسان بعثہ لتبلیغ ما اوحی لیہ و کذا الرسول،،،

نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ نے اس کی طرف کی ہوئی وحی کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہو رسول کی بھی یہی تعریف ہے،،۔

المسائرہ مع المسئرہ صفحہ 207

علامہ عبد العزیز  پر ہاروی رحمہ اللہ نے یہ تعریف نقل کی ہے،،

والرسول انسان بعثہ اللہ تعالی الی  الخلق لتبلیغ الاحکام الشرعیہ،،

رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ نے مخلوق کی طرف احکام شرعیہ پہنچانے کے لیے بھیجا ہے،،

النبراس صفحہ 79

صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں،،۔

انبیاء وہ بشر ہے جن کے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے،  یہ وحی کبھی فرشتہ کی معرفت سے آتی ہے کبھی  بے واسطہ

کتاب العقائد صفحہ 8

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ لکھتے ہیں،،

نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو،،اور رسول بشر ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ملائکہ میں بھی رسول ہیں،،۔

بہار شریعت جلد 1 صفحہ 30

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179📲

سوال نبمر 3️⃣🔟 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:16، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

میں مسلمان بعد میں پہلے ہندوستانی ہوں کہنا کیسا[ترمیم]

سوال نمبر 104

*🌿میں مسلمان بعد میں پہلے ہندوستانی یا انسان ہوں کہنا کیسا🌿*

السلام علیکم حضرت خیریت سے ہیں

حضرت ایک شخص نے دورانِ تقریر یہ جملہ استعمال کیا کہ ہم ہندو ہوں مسلم ہوں سکھ ہوں عیسائی ہوں مگر ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں اس کے لیے کیا حکم شرع ہوگا

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

ہم ہندوستانی پہلے ہیں مسلمان بعد میں،،  یہ کلمہ بھی کہا جاتا ہے، ہم انسان پہلے ہیں مسلمان بعد میں ،،یہ دونوں جملے کفر ہیں توبہ و تجدید ایمان کرے،،،

اس طرح کے کلمات سیکولروں کے اجاد کیۓ ہوۓ ہیں عوام کو پھسانے یا یہ کہو گمراہ کرنے اور الحاد کی طرف لیکر جانے والی ایک خوشنما دلیل ہے،،

چونکہ مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے میں اصلا و حقیقتاً خدا کا بندہ ہوں ایمان والا ہوں،، اور

کیا اس حقیقت کے علاوہ کوئی اور بھی ہماری حقیقت ہے جس کا یہ اقرار کرانا چاہتے ہیں ان کلمات سے کہ ہندوستانی یا انسان پہلے ہوں بعد میں مسلمان ہوں

،،اصل میں اس کے دو جواب ہیں ایک یہ کہ میں خدا کا بندہ مسلمان ہوں،،،دوسرا یہ کہ میں آزاد و قائم بالذات ہوں،، مسلمان ہونے سے قبل انسان یا ہندوستانی ہونے کی دعوت کا اصل مطلب اس بات کا اقرار کروانا ہے کہ میں اصلا آزاد ہوں میرا کوئی مذہب کوئی خدا نہیں ہے،، اور یہ جو اپنے کو مسلمان سمجھا جاتا ہے تو یہ اسی آزاد ہستی کے اپنے ارادے کے تحت اختیار کردہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ تصورات ہیں،،جو اصل حقیقت نہیں ،یعنی آسان الفاظ میں یہ سمجھے میں حقیقت کے اعتبار سے آزاد ہوں،،کسی کا پابند نہیں اور اسی آزادی نے یہ اختیار دیا ہے،،کی مسلمان ہونے کا جو تصور ہے وہ اپنایا  جاۓ لیکن اسلام کو جو تصور ہے وہ حقیقی نہیں ہے،،

،،یعنی اصلا میں مسلم نہیں،،، جب ان کلمات میں آزادی کا اظہار ہے اور اللہ کے احکام کا پابند نہ ہونے کا اظہار ہے اور ایک خدا کو نہ ماننے کا اظہار ہے تو یہی الحاد کی بنیاد ہے جو کہ کفر ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کہنا میں مسلمان بعد میں انسان یا ہندوستانی پہلے ہوں یہ کہنا کفر ہے، کہ اس میں اپنی اصل کو خدا اور ایمان سے الگ قرار دینا  ہے جو کہ کلمہ کفر ہے،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420170

سوال نبمر 104 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:17، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

امام عالی مقام کے قاتل کیا کافر ہیں[ترمیم]

(امام عالی مقام کے قاتل کیا کافر ہیں)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب سے عرض ہے کہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے بیٹے عمر بن سعد کے متعلق اہلسنت کا کیا عقیدہ ہے؟

وہ مسلمان تھے وغیرہ

سائل عبداللہ ملتان

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے والے فاسق و فاجر ضرور ہیں، لیکن وہ کافر نہیں ہیں،، ہاں اگر امام عالی مقام کو قتل اس وجہ سے کیا جاتا کہ وہ نبی علیہ السلام کے نواسے ہیں یا یہ کہ نبی علیہ السلام کے جانشین ہیں، تو ضرور کافر ہیں،،۔

علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو اس وجہ سے قتل کیا جاتا کہ وہ نبی علیہ السلام کے نواسے یا جانشین ہیں تو ضرور کافر ہیں،، مگر کربلا میں امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو نواسے رسول جانشین رسول ہونے کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا،، بلکہ وہ ظالم یزید کو خلیفہ برحق مانتے تھے،۔ اور امام عالی مقام کو باغی،، اس لیۓ امام عالی مقام کو شہید کرنے والے کافر نہیں،،۔

البتہ بدترین فاسق فاجر جفاکار ضرور ہیں،،۔ اس لیۓ کے ان کا گمان فاسد تھا،۔ یزید خلیفہ برحق نہ تھا، اور نہ ہی امام عالی مقام باغی تھے۔، یزید غاصب متغلب تھا،، حق خلافت اس کو حاصل نہ تھا اور نہ اس کا وہ اہل تھا۔، شبہ کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے،۔ اسی بنا پر علماء نے انہیں کافر نہیں کہا۔، علامہ ابن حجر ہیتمی الصواعق المحرقہ میں فرماتے ہیں،،۔ قاتل حسین کی تکفیر نہیں کی جاۓ گی۔، اس نے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔ قتل پر صرف اس قاتل کی تکفیر کی جاۓ گی جو نبی کا قاتل ہو۔،

(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 48)

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نمبر 105 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:18، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

شیعہ کا ذبیحہ کھانا کیسا[ترمیم]

*🌿شیعہ کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے🌿*

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شیعہ کے یہاں کا ذبح کرا کھانا، کیسا ہے ،، اس پر روشنی ڈالیں۔،

الجواب ھو الھادی الی الصواب

شیعہ کے یہاں کا ذبح کیا ہوا کھانا ناجائز مثل مردار ہے،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں،،

آج کل کے رافضی تبرائی علی العموم کافر مرتد ہیں، شاید ان میں گنتی کے ایسے نکلیں جو اسلام سے کچھ حصہ رکھتے ہوں،ان کا عام عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن شریف جو بحمدالله تعالٰی ہمارے ہاتھو ں میں موجود ہے یہ نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے بعد پورا نہ رہا،اس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یاآیتیں صحابہ کرام اور اہلسنت نے معاذ الله کم کردیں،اور یہ بھی ان کے چھوٹے بڑے سب مانتے ہیں کہ حضرت مولا علی ودیگر ائمہ اطہار کرم الله تعالٰی وجوہہم اگلے انبیائے کرام علیہم الصلوٰتہ والسلام سے افضل تھے، یہ دونوں عقیدے خالص کفر ہیں جو شخص

قرآن مجید سے ایک حرف،ایک نقطہ کی نسبت ادنٰی احتمال کے طور پر کہے کہ شاید کسی نے گٹھادیا یا بڑھادیا یابدل دیا ہو وہ کافر ہے اور قرآن عظیم کا منکر،  یونہی جو کسی غیرنبی کو کسی نبی سے افضل بتائے وہ بھی کافر، اور جبکہ ان اشقیاء نے باوصف ادعائے اسلام عقائد کفر اختیار کئے تو مرتد ہوئے، فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

ھؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام و احکامہم احکام المرتدین ،،

یہ قوم ملت اسلامیہ سے خارج ہے ان کے احکام مرتدین والے ہیں،۔

اور مرتد کے ہاتھ کا ذبیحہ نرا حرام ومردار سوئر کی مانند ہے۔، اگرچہ اس نے لاکھ تکبیریں پڑھ کر ذبح کیا ہو، درمختارمیں ہے:

لاتحل ذبیحۃ غیر کتابی من وثنی ومجوسی و مرتد،۔

غیر کتابی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے خواہ وہ بت پرست ہو مجوسی ہو یا مرتد ہو۔،،۔

اسی طرح جس مذہب کا عقیدہ حد کفر تک پہنچا ہو، جیسے نیچیری کہ وجود ملائکہ ووجود جن وجود شیطان وجود آسمان وصحت معجزائے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام وحشر ونشر وجنت و نار بطور عقائد اسلام وغیرہا بہت ضروریات دینیہ سے منکر ہیں۔یونہی وہ وہابی کہ حضور پر نور سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے مثل سات یا چھ یا دو یا ایک خاتم النبیین کسی طبقہ زمین میں کبھی موجود مانے یا ہمارے نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو نبوت ملنی جائز جانے اور اسے آیۃ وخاتم النبیین کے مخالف نہ سمجھے،یانبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی توہین شان اقدس کے لئے حضور کو بڑا بھائی،اپنے آپ کو چھوٹا بھائی کہے،یا حضور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت یہ ناپاک کلمہ لکھے کہ مرکر مٹی میں مل گئے، وعلی ہذالقیاس جو بد مذہب ضروریات دین اسلام میں سے کسی عقیدہ کا منکر ہو یا اس میں شرک کرے یا تاویلیں گھڑے،باجماع تمام علماء اسلام وہ سب کے سب کافر ومرتد ہیں اگر چہ لوگوں کے سامنے کلمہ،نماز قرآن پڑھتے، روزہ رکھتے، اپنے آپ کو سچا پکا مسلمان جتاتے ہوں کہ جب وہ ضروریات اسلام کے منکر ہوئے تو انھوں نے خدا ورسول وقرآن کو صاف صاف جھٹلایا،پھریہ جھوٹے طورپر کلمہ وغیرہ کیا نفع دے سکتاہے۔نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق لوگ کلمہ ونماز پڑھتے اور اپنے آپ کوقسمیں کھا کھا کر مسلمان بتاتے تھے اور الله تعالٰی نے ان کی ایک نہ سنی اور صاف فرمایا " وَ اللہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ،،۔

الله گواہی دیتاہے کہ یہ لوگ نرا جھوٹے ہیں،، دعوی اسلام کرتے ہیں،،،۔

خاص ایسے لوگوں کے کفر میں ہر گز شک نہ کیا جائے کہ جو ان کے عقیدہ پر مطلع ہوکر پھر سمجھ بوجھ کر ان کے کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہوجاتاہے۔درمختارمیں ہے:

من شك فی کفرہ وعذابہ فقد کفر واما ارتدادہم فہو الصحیح الثابت المنصوص علیہ کما اوضحناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی السیر من فتاوٰینا وفی رسالتنا" المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ المکفرۃ"۔

جو ان کے کفر وعذاب میں شک کرے وہ کافر ہے ،۔ لیکن ان کا ارتداد توصحیح ثابت منصوص علیہ ہے جیسا کہ ہم نے الله تعالٰی کی توفیق سے اپنے فتاوٰی کے باب السیر میں واضح کر دیا ہے نیز اس اپنے رسالہ"المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ المکفرۃ" میں بیان کیا ہے۔،۔

اس قسم کے ہر بدمذہب کا ذبیحہ مردار وحرام، ان کے ساتھ نکاح حرام وباطل ومحض زنا، ان کے ساتھ کھانا پینا بیٹھنا اٹھنا،ملنا جلنا، کوئی برتاؤ مسلمان کا ساکرنا ہر گز ہرگز کسی طرح جائز نہیں،ہاں جو مذہب دین اسلام کی ضروری باتوں سے کسی بات میں شک نہ کرتاہو،صرف ان سے نیچے درجہ کے عقیدوں میں مخالف ہوں،جیسے رافضیوں میں تفضیلی،یا وہابیوں میں اسحاقی وغیرہم وہ اگرچہ گمراہ ہے کافر نہیں اس کے ہاتھ کاذبیحہ حلال ہے،۔

(فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 246)

والله تعالٰی اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نمبر 106 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:19، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

شاہ است حسین یہ شعر کس کا ہے[ترمیم]

*🌿(شاہ است حسین یہ شعر کس نے لکھا ہے)🌿*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماءکرام  مفتیان شرع

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

.............

یہ شعر کس نے لکھا  اور اس کا پڑھنا کیسا ہے

حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائے

السائل..غلام احمد رضا

جھارکھنڈ

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ سوال

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس بارے میں فقیر کی کوئی تحقیق نہیں ہے ،، البتہ

اس سوال کے متعلق علامہ شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔،، باجود تتبع تام اسقراء حتی الامکان کے تا ہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ یا ان کے سلسلے کے بزروگوں یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں۔، قصاص قسم کے واعظین بڑے طم طراق سے اسے حضرت غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں،، میں نے ان قصاص سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کر سکا کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا کسی نے کسی واعظ کا حوالہ دیا۔ حد یہ ہے غریب نواز کی طرف ایک دیوان منسوب ہے۔، اس میں بھی یہ رباعی نہیں ہے۔، غرض کے اب تک یہ ثابت نہیں کہ سلطان الہند کی رباعی ہے۔، حضرت غریب نواز کے آستانہ عالیہ پر میں نے کہیں کندہ نہیں دیکھی۔، ہو سکتا ہے کندہ ہو میں نے دسوں بار کی حاضری کے باوجود کتابت پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔، میرا ذوق یہ ہے کہ جتنی دیر کتابت کے پڑھنے میں مصروف رہوں اتنی دیر مواجہ اقدس میں کیوں نہ وقت گزاروں۔، اور اگر بالفرض یہ رباعی وہاں کندہ ہو بھی تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ رباعی حضرت کی ہو ،۔۔

📔 *(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 204)*

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

سوال نمبر 107 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:20، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

بھارت ماتاکی جے کہنا کیسا[ترمیم]

بھارت ماتا کی جے کہنا کیسا

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانا کیسا ہے؟

کوئی لگا دے تو کیا حکم شرع ہوگا؟ قرآن وحدیث کہ روشنی میں جواب عنایت فرمائیں  

سید ابوالفرح امجھر شریف

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

بھارت ماتا کی جے بولنا کفر ہے،

بھارت ماتا ہندوؤں کی ایک دیوی ہے جو کہ معبود باطل ہے ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس ملک کی مٹی ہم کو کھانا رہنا دیتی ہے ، یہ ہماری ماتا دیوی ہے جو کہ معبود ہے ، اس لیۓ بھارت ماتا کی جے ہم  لوگ کہا کرتے ہیں،،

مسلمان کو بھارت ماتا کی جے کہنا کفر ہے کہنے والا توبہ و تجدید ایمان کرے،،

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ

فرماتے ہیں بھارت ماتا کی جے کہنا کفر ہے،، بھارت ماتا کی جے وندے ماترم مہاتما گاندھی کی جے لگانے والا دین سے  خارج ہو گۓ، ان کے سارے اعمال حسنہ اکارت ہو گۓ ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے نکل گئیں ان سب پر فرض ہے بلا تاخیر ان کفری اقوال سے توبہ و تجدید ایمان کریں،،

(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 589)

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نمبر 109 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:21، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

جس میں تمام مذہب کے لوگ جمع ہوں اس پروگرام میں جانا کیسا[ترمیم]

*🌿ایسے پروگرام جس میں تمام مذہب کے لوگ جمع ہو بھارت ماتا کی جے کہا جاۓ تو اس میں جانا کیسا🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ پندرہ اگست کا ایک پروگرام رکھا گیا ہے مسجد اور مندر کے درمیان کی جگہ پر وہاں تمام مذہب کے لوگ ہاتھ میں جھنڈا لیۓ حاضر ہوں گے اور بھارت ماتا کی جے اور راشٹرگان بھی پڑھا جاۓ گا،، اس پروگرام میں جانا کیسا ہے، نیز امام مسجد اور دیگر لوگوں کی بھی اجازت ہے اس پروگرام کرنے کی،،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب

اس طرح کے پروگرام کی اجازت دینا اشد حرام ہے اور اس طرح کے پروگرام میں جانا بھی حرام ہے،، جن گڑ من گڑ پھڑنا بھی ناجائز ہے،،اور بھارت ماتا کی جے لگانا کفر ہے،، لہذا اس طرح کے پروگرام میں ہرگز نہ جایا جاۓ، اور نہ ہی اس پروگرام کی اجازت دی جاۓ،، اگر پروگرام ہوتا ہے اور اس میں یہ سب امور کو انجام دیا جاتا ہے تو حرام و کفر ہے،،

بھارت ماتا کی جے بولنا کفر ہے،

بھارت ماتا ہندوؤں کی ایک دیوی ہے جو کہ معبود باطل ہے ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس ملک کی مٹی ہم کو کھانا رہنا دیتی ہے ، یہ ہماری ماتا دیوی ہے جو کہ معبود ہے ، اس لیۓ بھارت ماتا کی جے ہم  لوگ کہا کرتے ہیں،،

مسلمان کو بھارت ماتا کی جے کہنا کفر ہے کہنے والا توبہ و تجدید ایمان کرے،،

مفتی شریف الحق رحمہ اللہ

فرماتے ہیں بھارت ماتا کی جے کہنا کفر ہے،، بھارت ماتا کی جے وندے ماترم مہاتما گاندھی کی جے لگانے والے دین سے  خارج ہو گۓ، ان کے سارے اعمال حسنہ اکارت ہو گۓ ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے نکل گئ ان سب پر فرض ہے بلا تاخیر ان کفری اقوال سے توبہ و تجدید ایمان کریں،،

(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 589)

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نمبر 110 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:22، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

شریعت کی ایسی کی تیسی کہنے والے پر کیا حکم ہے[ترمیم]

*🌿(شریعت کی ایسی کی تیسی کہنے والے پر کیا حکم ہے )🌿*

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس بارے میں،، ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں سے چلی جاؤ اپنے گھر،،

اس پر بیوی بولی اکیلے کیسے جا سکتی ہوں میں،،

تو اس پر شوہر نے بولا شریعت کی ایسی کی تیسی

تو شوہر پر کیا حکم ہوگا جواب عنایت فرماۓ،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب

یہ کہنا شریعت کی ایسی کی تیسی کفر ہے اس میں شریعت کی توہین ہے ، اور پھر ایک شرعی مسئلہ کی ضد میں اس طرح کہنا شریعت کی ایسی کی تیسی بہت بڑا جرم کفر ہے ، توبہ تجدید ایمان و تجدید نکاح کرے،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179

سوال نمبر 111 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:23، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

محرم کو کاروبار بند رکھنا کیسا[ترمیم]

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*

*کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ نو دس محرم الحرام کو کاروبار کر سکتے ہیں مطلب دوکان وغیرہ کھول سکتے ہیں یا بند کرنی چاہیے اس حوالے سے رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں المستفتی نعمان شیخ پاکستان*

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب ھو الھادی الصواب

شرع شریف کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں کہ دوکان وغیرہ بند کرے، رہا یہ کہ تعظیم یا ادبا ، تو نہ تو اس طرح کوئی تعظیم ہے اور نہ ہی کوئی یہ ادب ہے، بہتر ہے دوکان کھولے کاروبار کرے حلال کمائیں اور اپنے اہل عیال پر خرچ کریں ، اس میں ثواب بھی پاۓ گا،، نہ کہ یہ کہ دوکان بند کرے اور خود بھی پریشان ہو اور گھر والوں کو بھی پریشانی میں ڈالے،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

9917420179

سوال نمبر 112 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:23، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

میں چاہوں تو زید کا رزق بند ہوجاۓ کہنا کیسا[ترمیم]

(میں چاہوں تو اس زید کا رزق بند ہو جاۓ کہنا کیسا)

*السلام علیکم* ورحمتہﷲوبرکاتہ۔

کی فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین

ذیل کے مسئلے کے بارے میں

کہ

زید ایک نعت خواں ہے جسے عوام و خواص میں کافی مقبولیت حاصل ہے

اور بکر ایک مکتب کا سرپرست ہے زید سے کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے بکر کہتا ہے کہ

*زید شکر منائے کہ ہم نے ابھی تک اسکے رزق پر لات نہیں ماری ہے اگر میں چاہوں تو اس کا رزق بند ہو جائے دانے دانے کے لئے وہ محتاج ہوجائے*۔

اب سوال یہ ہے کہ

بکر کے مذکورہ جملوں پر شریعت کا کیا حکم نافذ ہوگا،

قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں  کرم ہوگا۔

فقط والسلام

خدا حافظ

*محمد رہبر القادری*

بلرامپور

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

رزق دینے والی ذات اللہ عزوجل کی ہے وہ اپنی مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے جسے جتنا چاہے عطا فرماتا ہے،، ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے وہی رزق دینے والا ہے۔

اللہ کریم قران پاک میں فرماتا ہے،،

وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے

البقرتہ ایت 212

بکر کا یہ جملہ خلاف شرع ہے بکر خود اللہ کا محتاج ہے اگر اللہ اپنا رزق روک لے تو بکر کو اتنی طاقت نہیں کہ وہ خود کہیں سے کچھ رزق کھا سکے ، بکر کو اللہ سے ڈرنا چاہۓ کے اس طرح کے الفاظ سے اللہ کریم ناراض ہو گیا تو اس کا کیا بنے گا اپنے ان الفاظ سے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے کلمات نہ بولے اللہ کریم کا عاجز بندہ بنکر زندگی گزارے اور اللہ سے ہر دم ڈرتا رہے،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 113 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:24، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

مسلمان کا کوئ مذہب نہیں ہنود کا مذہب صحیح ہے کہنا کیسا[ترمیم]

(مسلمانوں کا کوئ مذہب نہیں ہنود کا مذہب صحیح ہے کہنا کیسا)

السلام علیکم  و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں، کی زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی شریعت کا حکم یہ ہے کہ اب حلالہ ہوگا یہ قانون بتانے پر زید کے والدین اور بہن نے اس قانون کو مان نے سے انکار کردیا اور اس کی شد و مد  کے ساتھ مخالفت کی اور مغلظات بکی، والد نے کہا کی اہل ہنود کا مذہب صحیح ہے اور وہ صحیح کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کوئ دھرم نہیں ہے۔ اور شریعت کو گالی بھی دی والدہ نے کہا کی ہم اس قانون کو نہیں مانیں گے ایسا کچھ نہیں ہے،

بہن نے بھی اس قانون کو مان نے سے انکار کردیا اور علماء کی ماں کو گالیاں دی حضور ایسے لوگوں پر شریعت کا کیا حکم ہے جو دین اسلام کی مخالفت کرے اور گالیاں دیں،،

ہمیں اس جواب کا فتوی عطا فرمائیں ،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ ۔

الجواب ھو الھادی الی الصواب ۔

جن لوگوں نے اس حکم کو مان نے سے انکار کیا اور علمائے کرام کی ماں کو گالیاں دی ،، اگر اس حکم کو اس لیے مان نے سے انکار کیا کہ چونکہ یہ شریعت کا حکم ہے اور شریعت کے حکم کو ہم نہیں مانتے اور علماء کو گالیاں اس لیے دی کہ وہ مذہبی رہنماء ہیں وہ دین کے عالم ہیں تو یہ کفر ہے،، توبہ وہ تجدید ایمان وہ نکاح کرے،، اور اگر صرف اس حکم کو نفس کی شرارت کی وجہ سے نہیں مانا اور علماء کو گالیاں بھی صرف نفس کی شرارت کی وجہ سے دیں اگرچہ یہ بہت بڑا جرم و گناہ ہے لیکن کفر نہیں  اپنے اس جرم سے توبہ کرے کہ یہ جرم کفر تک لے جانے والا ہے،،،

اور جن لوگوں نے شریعت کو مغلظات بکے ہیں ہنود کے مذہب کو صحیح ٹھرایا ہے ،، اور مسلمانوں کے مذہب کا انکار کیا ہے وہ سب کافر مرتد ہو گۓ بیوی والے ہیں تو نکاح بھی ختم ہو گیا ،،توبہ و تجدید ایمان و تجدید نکاح کریں،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 114 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:25، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

حضرت عمار کو کیا ابو الغادیہ صحابی نے قتل کیا[ترمیم]

(کیا حضرت عمار کو ابو الغادیہ صحابی نے قتل کیا تھا)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ مسند احمد کی روایت  میں ہے حضرت عمار کا قتل ایک صحابی نے کیا ہے جن کا نام ابو الغادیہ ہے وہ خود اس کا اقرار کرتے ہیں کے عمار کو میں نے قتل کیا ہے،  ان صحابی پر کیا حکم ہوگا،،، روایت یہ رہی

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْعَنَزِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ كُنَّا بِوَاسِطِ الْقَصَبِ عِنْدَ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ فَإِذَا عِنْدَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو الْغَادِيَةِ اسْتَسْقَى مَاءً فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ مُفَضَّضٍ فَأَبَى أَنْ يَشْرَبَ وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا شَكَّ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ فَإِذَا رَجُلٌ يَسُبُّ فُلَانًا فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْكَ فِي كَتِيبَةٍ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ إِذَا أَنَا بِهِ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ قَالَ فَفَطِنْتُ إِلَى الْفُرْجَةِ فِي جُرُبَّانِ الدِّرْعِ فَطَعَنْتُهُ فَقَتَلْتُهُ فَإِذَا هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ قَالَ قُلْتُ وَأَيَّ يَدٍ كَفَتَاهُ يَكْرَهُ أَنْ يَشْرَبَ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ وَقَدْ قَتَلَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ

ترجمہ:

کلثوم بن حبر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ شہر واسط میں عبدالاعلی بن عامر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران وہاں موجود ایک شخص جس کا نام ابوغادیہ تھا نے پانی منگوایا، چناچہ چاندی کے ایک برتن میں پانی لایا گیا لیکن انہوں نے وہ پانی پینے سے انکار کردیا اور نبی ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے یہ حدیث ذکر کی کہ میرے پیچھے کافر یا گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اچانک ایک آدمی دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے لشکر میں مجھے تیرے اوپر قدرت عطاء فرمائی (تو تجھ سے حساب لوں گا) جنگ صفین کے موقع پر اتفاقا میرا اس سے آمنا سامنا ہوگیا، اس نے زرہ پہن رکھی تھی، لیکن میں نے زرہ کی خالی جگہوں سے اسے شناخت کرلیا، چناچہ میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو حضرت عمار بن یاسر تھے، تو میں نے افسوس سے کہا کہ یہ کون سے ہاتھ ہیں جو چاندی کے برتن میں پانی پینے پر ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہی ہاتھوں نے حضرت عمار کو شہید کردیا تھا۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

صحابہ کرام کے درمیان جو کچھ  اس طرح کے معاملات ہوۓ ہیں اس سے انسان کو دور ہی رہنا چاہئے کسی صحابی پر لعنت ملامت جائز نہیں، اللہ عزوجل نے ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمادیا ہے، سارے صحابہ جنتی ہیں، کسی صحابی کی ادنا سے بھی گستاخی جائز نہیں صحابہ کا گستاخ جہنم کا کتا ہے،، جس روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے ہر چند کے حضرت ابو الغادیہ یہ فرماتے ہیں کے عمار کو میں نے شہید کیا ہے، لیکن حضرت ابو الغادیہ کا یہ دعویٰ یقینی اور قطعی نہیں ہے جب جنگ ہو رہی ہو اور ہر طرف سے تیر کی بارش ہو رہی ہو نیز زرہ بھی پہنی ہوئ ہو

تو یہ بات یقینی طور پر نہیں کی جا سکتی کی میرا تیر ہی لگا ہے ممکن ہے کسی اور کا تیر لگا ہو۔ اور دیکھنے میں یہ محسوس ہوا ہو کہ میرا ہی تیر لگا ہے اس لیۓ یقینی قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ابو الغادیہ نے ہی قتل کیا ہے ، کیوں کہ حضرت عمار کے قتل کے 2 لوگ اور دعوے دار ہیں جیسا کی مسند احمد میں ہے،،۔

عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ خُوَیْلِدٍ الْعَنْزِیِّ قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ جَائَہُ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِی رَأْسِ عَمَّارٍ یَقُولُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا: أَنَا قَتَلْتُہُ،  


حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا یعنی قتل کے بارے میں، ہر ایک کا دعویٰ یہ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،

( مسند احمد حدیث 6538)

اس روایت میں ابو الغادیہ کے علاوہ دو لوگ اور قتل کے دعوے دار ہیں اس طرح ایک قتل کے تین دعوے دار ہو گۓ اور ان میں سے ہر ایک یہ کہتا ہے میں نے حضرت عمار کو قتل کیا ہے،،

لہٰذا حضرت عمار کے قتل کی نسبت یقینی قطعی طور پر حضرت ابو الغادیہ کی طرف نہیں کی جا سکتی،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 115 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:26، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

نبی علیہ السلام اللہ کے نور میں سے نور ہیں یہ عقیدہ رکھنا کیسا[ترمیم]

(نبی علیہ السلام اللہ کے نور میں سے نور ہیں یہ عقیدہ رکھنا کیسا)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں

علمائے کرام اس بارے میں کہ

حضور صلی اللہ علیہ و السلم۔ اللہ کے نور میں سے نور ہیں، اور اگر کوئ یہ نہیں مانتا تو اس پر کیا حکم ہے، جواب عنایت فرمائیں

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

نبی علیہ السلام  کو یہ کہنا کہ وہ اللہ کے نور میں سے ہیں،  یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے،، اللہ کے نور میں سے ہیں کا معنی ہے کہ اللہ کا نور ٹکڑے ہو گیا، اور نبی کریم خدا کا جز بن گۓ،، اور یہ عقیدہ رکھنا سراسر کفر شرک ہے،،

بلکہ یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ اللہ نے نبی کو اپنے نور سے بنایا ، جس کا معنی یہ ہے، نبی کریم

صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ سے بلا واسطہ فیض لینے والے ہیں اور تمام خلقت نے نبی کریم کے واسطے سے فیض حاصل کیا ہے،

نبی کریم کا نور ہونا قران حدیث  سے ثابت ہے ، جس کا انکار کرنے والا گمراہ ہے،، البتہ ایسا انسان کافر نہیں،،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

9917420179

سوال نمبر 116 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:27، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

خدا مجھے مداری لگا کہنا کیسا[ترمیم]

(خدا مجھے مداری لگا کہنا کیسا)

السلام علیکم  و رحمتہ اللہ

مداری مجھے خدا لگا جب چھوٹا تھا تب، خدا مجھے  مداری لگا جب بڑا ہوکر دیکھتا ہوں تماشے اس کے، اگر کوئ یہ کہتا ہے تو اس پر کیا حکم ہے،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس طرح کہنا کفر ہے توبہ و تجدید ایمان کرے بیوی والا ہے تو تجدید نکاح بھی کرے،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

9917420179

سوال نمبر 117 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:28، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

اعلی حضرت سے کسی مسئلہ میں خطا نہیں ہو سکتی کہنا کیسا[ترمیم]

(اعلی حضرت سے کسی مسئلہ میں خطا نہیں ہو سکتی کہنا کیسا)

السلام علیکم

بد مذہب اعتراض کرتے ہیں کہ احکام شریعت میں لکھا ہے

*کہ  اعلی حضرت کے قلم  کا یہ حال دیکھا کہ مولا تعالیٰ نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا اور قلم و زبان سے ذرا برابر خطا ممکن نہیں*

جبکہ  ایسا دعویٰ الانبیاء کرام کے متعلق بھی نہیں ہے کہ ان سے خطائے اجتہادی نہیں ہو سکتی بلکہ حضور ﷺ سے بھی خطائے اجتہادی ہوتی ہے

تو اعلی حضرت سے ناممکن ٹھہرانا گستاخی نہیں

توہین نہیں ؟

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

جو کوئ بھی اس طرح کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے، امام اہلسنت نے اپنی کسی کتاب میں اپنے متعلق یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا ہے بلکہ

احتیاط تو یہ ہے اپنے موقف میں امکان خطا سمجھتے ہوئے اپنے فتاوی میں نرمی اور احتیاط کا پہلو اپنایا جاے چونکہ مسئلہ پر حکم قطعی نہیں، لگایا جاتا بلکہ خطا کا امکان ہوتا ہے،

اگر کوئ یہ دعویٰ کرے کہ خطا کا امکان بھی نہیں ہے تو پھر ایسے شخص کے

  پاس یا تو وحی الہی آی ہے یا آپ کو یہ غیب سے بتایا گیا کہ آپ ہی اس مسئلہ میں حق پر ہیں،

اور پھر اس طرح کہنے والا خود امام اہلسنت کی تعلیم کے خلاف کہتا ہے، امام اہلسنت

فرماتے ہیں

جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دیکھاۓ تو وہ بے باک نڈر اور بے  احتیاط ہے،  پس راسخ علماء اور محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف اجتہادی مسائل میں کسی ایک طرف یقین نہیں رکھتے ،

فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 176

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 118 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:29، 27 مارچ 2023ء (م ع و)

حکم شرع کو فرضی کہنا کیسا[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

ہولی دیوالی کرسمس وغیرہ کو اچھا سمجھنا اور اس کی مبارکباد دینا کفر ہے، کسی صاحب نے کہا ہے یہ فرضی ہے تو ایسا کہنے والے پر کیا حکم ہوگا جواب ارشاد فرمائیں ۔،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

حکم شرع کو فرضی بتاتا ہے

توبہ و تجدید ایمان کرے بیوی والا ہے تو تجدید نکاح بھی کرے

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 119 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:23، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

بدمذہب کی تحقیق پر اعتماد کرنا کیسا[ترمیم]

(بد مذہب کی تحقیق پر اعتماد کرنا کیسا)

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ

سوال یہ کرنا تھا حضرت

بعض لوگ بدمذھب کی حدیث دانی کے دیوانے ہیں اور انکی تخریج و تحقیق وتحکیم پر پورا اعتماد کا اظہار کرتے ہیں

ایسا کرنا کیسا

اور کیا سنی علماء نے حدیث پر کام کم کیا  ہے کیا

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الصواب

بدمذہب کی تحقیق پر اعتماد کرنا

جائز نہیں

بد مذہب حدیث کی تحقیق و تشریح اپنے مذہب کے مطابق کرتا ہے، اس لیۓ نہ تو اس سے تحقیق کرانا جائز اور نہ ہی اس کی تحقیق پر اعتماد کرنا جائز،

علمائے اہلسنت نے اس پر بہت کام کیا ہے، انہی کی  کتب پر اعتماد کیا جاۓ اور انہی کی کتب پھڑھنا چاہئے،

فقیر کی ان 2 کتابوں کا بھی مطالعہ فرماۓ 1 مشہور موضوع روایات کا تحقیقی جائزہ 2 واقعات کربلا کی تحقیق و تردید

دونوں کتاب کی PDF  گوگل سے مل سکتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 120 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:24، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

قادیانیوں کا اعتراض کا جواب[ترمیم]

(قادیانی کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہوں گے یا امتی)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

حضرت عیسی علیہ السلام  نبی بنکر اس امت میں آیں گے  یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے امتی بنکر،،

کیوں کے قادیانی سنیوں کو گمراہ کرنے کے لیۓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آخری نبی ہیں تو عیسی علیہ  السلام کے بارے میں کیا کہوگے،،

اور اگر وہ امتی بنکر آیں گے تو کیا وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہوں گے،، اس کا جواب دیں کہ بہت سے لوگ ان وسوسوں کا شکار ہیں،،

سائل عاقب

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

حضرت عیسی علیہ السلام جب اس دنیا میں تشریف لایں گے تو وہ ہمارے نبی علیہ السلام کے امتی بنکر ایں گے، حضرت عیسی کا امتی بنکر آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اللہ ان کی نبوت کو چھین لیا گیا ہو ،، بلکہ یہ معنی ہیں حضرت عیسی کوئ دوسری نئ شریعت نہیں لایں گے، بلکہ اسی شریعت پر عمل کی دعوت دیں گے،، اسی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے،

اور حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہیں، یعنی وہ بطور نبی وہ پہلے اس دنیا میں تشریف لیکر آچکے ہیں،،اب دوبارہ آنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اب ان کو دوبارہ نئ نبوت ملے گی اور آپ پھر دوبارہ نبی بنیں گے ایسا نہیں ہے،، اور حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آخری نبی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ رہے، یہ بات تو اس وقت کہی جا سکتی تھی ، جب حضرت عیسی کی آمد پہلے نہ ہوئ ہوتی ، اور ہمارے نبی کی آمد ہو گئ ہوتی، اور اب حضرت عیسی بطور نبی آتے تو اعتراض ہو سکتا تھا، کہ آخر میں بطور نبی جو اۓ ہیں وہ حضرت عیسی ہیں نہ کے محمد علیہ السلام،، جب کی ایسا نہیں ہے، کہ حضرت عیسی کی آمد پہلے ہو چکی ہے، اور سب سے آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاۓ ہیں، اور آپ کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے، اور اب کوئ نیا نبی نہیں اۓ گا،،جیسا کہ قران حدیث سے اس کا ثبوت ہیں،، قران پاک میں اللہ عزوجل فرماتا ہے،،

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ  اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ  النَّبِیّٖنَ وَ  کَانَ اللّٰہُ  بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا         

  لوگو  تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد  ( صلی اللہ علیہ وسلم )  نہیں , لیکن   آپ اللہ تعالٰی کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں  اور اللہ تعالٰی ہرچیز کا  بخوبی جاننے والا

(سورتہ الاحزاب آیت 40)

قران پاک کی یہ آیت نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر نص قطعی ہے اس آیت سے آپ علیہ السلام کا آخری نبی ہونا یقینی ہے،،

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت  کو تمام کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو بہ طور دین پسند فرمایا

(سورتہ المائدتہ ایت 3)

یہ ایت اس بات پر دلالت کرتی ہے  کہ دین کو نبی علیہ السلام پر کامل و تمام کردیا گیا ہے،  نبی علیہ السلام پر دین کا کامل ہونا تمام ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ آخری نبی ہو،،

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ  الشّٰہِدِیۡنَ

جب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔   فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہّ لے رہے ہو۔ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے ،  فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔

(سورتہ آل عمران آیت 81)

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہوں تبھی تو تمام نبیوں سے آپ کی نصرت مدد  کرنے اور  ایمان لانے پر اقرار لیا گیا ہے ،، اگر نبی علیہ السلام کے بعد دوسرا نبی آنا ممکن ہو تو یہ آیت اس بات کا تقاضا کرے گی کہ اس نبی کی مدد کرنے اس پر ایمان لانے کا اقرار آپ سے بھی لیا گیا ہو ،، اور اپ کے بعد کوئ اور رسول اۓ گا جس کے تعلق سے اقرار لیا گیا ہے،، حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ باطل ہے،، قران حدیث سے بالکل واضح ہے کہ آخری نبی ہمارے نبی ہیں یہی وہ نبی ہیں جن کے تعلق سے نبیوں سے اقرار لیا گیا ہے اور آپ ہی سب سے آخر میں آنے والے ہیں

وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ  سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا

جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول   ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے  ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے  ،  وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے ۔  

(سورتہ النساء آیت 115)

یہ آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے جب ہدایت کی راہ واضح ہوجاۓ جو کوئ اس راہ کو نہیں اپناۓ تو وہ دوزخ میں ڈالا جاۓ گا،،  عہد رسالت سے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے نبی علیہ السلام ہی آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئ نبی نہیں اۓ گا، ،تو جو کوئ اس عقیدہ کے خلاف عقیدہ رکھے تو وہ ضرور دوزخ میں ڈالا جاۓ گا اور وہ اس آیت کی وعید میں شامل ہے

قران پاک کی ان ایات سے یہ واضح ہو جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ،حدیث پاک میں ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ ، قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ    .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“

(صحیح بخاری حدیث 3535)

ترمذی میں ہے

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي   ، ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے  ( دعویدار )  نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی  ( دوسرا )  نبی نہیں ہو گا“۔

(ترمذی حدیث 2219 )

مسند احمد میں ہے

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ((اِنِّیْ عِبْدُ اللّٰہِ فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَاِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیْلِ ذٰلِکَ، دَعْوَۃِ أَبِیْ إِبْرَاھِیْمَ وَبَشَارَۃِ عِیْسٰی قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّیْ اَلَّتِیْ رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَائَ تْ لَہُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّھَاتُ النَّبِیِّیْنَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ۔))

۔ سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ ہوں، جس کو ام الکتاب میں اس وقت خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا، جب آدم علیہ السلام ابھی تک اپنی مٹی میں پڑے ہوئے تھے، اور میں عنقریب تم کو اس کی تأویل کے بارے میں بتلاؤں گا، میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں، میری ماں نے خواب دیکھا تھا کہ اس سے ایک ایسا نور نکلا، جس نے اس کے لیے شام کے محلات روشن کر دیئے اور نبیوں کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی رہی ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان پررحمتیں ہوں۔

(مسند احمد حدیث 10457 )

ان قرانی ایات و احادیث سے واضح ہو جاتا ہے ہمارے نبی آخری نبی ہیں اب کوئ نبی نہیں آے گا،، اب رہا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام امتی ہوں گے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے تمام نبی ہمارے نبی کے امتی ہیں، بخاری شریف میں ہے،،

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ . ح قَالَ : وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ النَّضْرِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ الْفَقِيرُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي ، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ ، وَأُحِلَّتْ لِي الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً ، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً    .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو  ( جہاں بھی )  پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

( صحیح بخاری حدیث 335)

بہار شریعت میں ہے

سب سے پہلے مرتبۂ نبوّت حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ملا۔ روزِ میثاق تمام انبیا سے حضور  (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لانے اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا اور اِسی شرط پر یہ منصبِ اعظم اُن کو دیا گیا۔ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نبی الانبیا ہیں   اور تمام انبیا حضور (صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے اُمّتی، سب نے اپنے اپنے عہدِ

میں   حضور (صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت میں کام کیا، ﷲ عزوجل نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے نُور سے تمام عالَم کو منوّر فرمایا

(بہار شریعت جلد 1 صفحہ 85)

اب رہا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام افضل ہیں یا پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،، تو ولی ہو یا صحابی کوئ بھی غیر نبی۔ نبی سے افضل نہیں ہو سکتا جو کوئ کسی ولی یا صحابی کو کسی نبی سے افضل مانے تو وہ کافر ہے۔

بہار شریعت میں ہے

انبیائے کرام، تمام مخلوق یہاں   تک کہ رُسُلِ ملائکہ سے افضل ہیں  ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں   ہوسکتا۔ جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔،

(بہار شریعت جلد 1 صفحہ 47)

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 121 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:24، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

دیوالی کے دن فاتحہ لگوانا کیسا[ترمیم]

(دیوالی کے دن درود فاتحہ لگوانا کیسا)

السلام علیکم.

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

حضرت سوال عرض یہ ہے کی آج دیوالی ہے اور اس دن مسلمان درود لگ واتے ہیں

پوچھتے  ہیں کس کی درود لگ واتے ہو تو کہتے ہیں کہ آج کے دن حضرت زکریا علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا

پوچھنا یہ ہے کہ کیا آج کے دن زکریا علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا،

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اسی دن آگ میں ڈالا گیا تھا

حضرت آج کے دن کی حقیقت کیا ہے ارشاد فرما دیں

سلام اللہ آپ کو سلامت رکھے۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ۔

الجواب ھو الھادی الی الصواب

دیوالی کا تعلق نہ تو کسی نبی سے ہے اور نہ ہی کسی ولی سے ہے۔ اور یہ کہنا اسی دن حضرت زکریا علیہ السلام شہید ہوۓ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گۓ محض منگھڑت ہے ۔ دیوالی اہل ہنود اس لیۓ مناتے ہیں، رام بنواس سے اس دن ایودھیا لوٹا جس کی خوشی میں ہنود نے دیوالی منائ

مسلمان کو دیوالی منانا اس کی مبارکباد دینا ناجائز حرام ہے بلکہ کفر تک لے جانے والا کام ہے۔ رہا فاتحہ دلانے کا مسئلہ تو شریعت نے اس کے لیۓ کوئ خاص دن مقرر نہیں کیا ہے، جب چاہیں جس وقت چاہیں دلا سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 122 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:25، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

مسلمان عورت کو قشقہ لگانا کیسا[ترمیم]

(مسلمان عورت کو قشقہ لگانا کیسا)

السلام علیکم

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس بارے میں

مسلمان عورت ماتھے پہ قشقہ لگائے تو اس کا کیا حکم ہے۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مسلمان عورت کو قشقہ لگانا ناجائز حرام و کفر ہے،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں

قشقہ لگانا کفر ہے

فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 160،

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں

قشقہ لگانا علامت کفر ہے

فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 121

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 123 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:26، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

سر سید احمد مسلمان ہے یا کافر[ترمیم]

(سر سید احمد مسلمان ہے یا کافر)

السلام علیکم۔

حضرت کیا فرماتے ہیں

علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں سر سید احمد اہلسنت کے نزدیک مسلک حق پر تھے یا منافق کیا حکم ہے ارشاد فرمائیں ۔

سائل ذیشان۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ۔

الجواب ھو الھادی الی الصواب

سید احمد اپنے باطل عقائد و نظریات کی بلا پر کافر و مرتد ہے  اس کے متبعین بھی کافر ہیں،

امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں،

احمد خاں علی گڑھ اور اس کے متبعین سب کفار ہیں۔

فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 615۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔

(اسم محمد علیہ السلام)

کے فضائل فقیر نے اپنے فتاوٰی میں متعدد جگہ لکھیں ہیں تو محمد عبدالوہاب

نجدی وغیرہ گمراہوں کے لئے ان حدیثوں میں اصلًا بشارت نہیں،نہ کہ سید احمدخان کی طرح کفار جن کامسلك کفر قطعی کہ کافر پر توجنت کی ہوا تك یقینا حرام ہے۔

فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 688۔

جب امام اہلسنت سے سوال ہوا کہ بعض علی گھڑی کو سید صاحب لکھتے ہیں،

تو آپ نے جواب میں فرمایا وہ تو ایک خبیث مرتد تھا۔ حدیث میں ارشاد فرمایا ۔

لا تقولوا للمنافق سیدا فانہ ان یکن سید کم فقد اسخطتم ربکم۔

منافق کو سید نہ کہو کہ وہ اگر تماہارا سید ہو تو یقینا تم نے اپنے رب کو غضب دلایا

الملفوظ حصہ سوم صفحہ 322

مزید امام اہلسنت فرماتے ہیں

تو ان میں سے نیچری سید احمد کولی علیہ ما علیہ کے پیروکار ہیں کولی نسبت ہے کول کی طرف کاف مضمومہ اور واو غیر مشبعہ کے ساتھ ہندوستان کے شہروں میں سے ایک شہر ہےجسے علی گھڑ بھی کہتے ہیں اور لفظ سید پر تعریف کے لیۓ الف لام داخل کرنا عربیت کے لحاظ سے جائز نہیں اور نہ شرعا حلال ہے اس لیۓ کے عربیت کے لحاظ سے لام تعریف کے دخول کے غیر صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کی لفظ سید اس کے علم مرکب کا جز ہے اور ایسے اعلام پر الف لام داخل نہیں ہوتا ۔اور جب الف لام داخل کرو ایسے علم پر تو ایسی صورت میں تم نے اسے جزئیت علم سے خارج کر کے وصفیت کی طرف پہنچا دیا لہذا تم نے کافر کو سیادت سے موصوف کیا حالانکہ  سید العالمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کو سید نہ کہو اس لیۓ کے اگر منافق سید ہو تماہرے نزدیک تو بیشک تم نے اپنے رب کو ناراض کیا

المعتمد المستند صفحہ 229

علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

سر سید نے وحی فرشتے حنت دوزخ کی وہ حقیقت جو قران مجید اور احادیث میں مذکور ہے سب کا انکار کیا ہے۔ اس بنا پر نہ صرف علمائے اہلسنت بلکہ دیوبندیوں نے بھی اس کو کافر کہا ہے۔ ذرا اپ ان کی تفسیر قران آپ دیکھیے اس میں انہوں نے کیا کیا گل کھلاۓ ہیں۔  رہ گۓ حالی شبلی تو یہ دونوں ان کے حامی و ہم نوا اس کے نو رتن میں شامل تھے تو اس لیۓ ان دونوں کا بھی وہی حکم ہے

فتاویٰ شارح بخاری جلد 3 صفحہ 491۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 124 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:27، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

پیر حنبلی ہےتو حنفیت چھوڑ کر حنبلی ہونا کیسا[ترمیم]

(پیر حنبلی ہیں تو حنفیت چھوڑ کر حنبلیت اختیار کرنا کیسا ہے)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں۔

کوئ شخص حنفی مسلک چھوڑ کے۔ حنبلی مسلک اپنانا چاہتا ہے تو کیا ایسا کر سکتا ؟؟

اس وجہ سے کہ ان کے مرشد حنبلی ہیں۔ یا امامت  کرنے میں مسئلہ ہونے کی وجہ سے

نام :- سارا

شہر :- حیدرآباد۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب۔

مذہب حنفی چھوڑ کر اگر کوئ شخص مذہب حنبلی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیۓ مذہب حنفی چھوڑنا ناجائز و حرام ہے۔

ہاں اگر اس کے آس پاس حنبلی مذہب کے لوگ موجود ہوں حنبلی مذہب کی کتب موجود ہوں جس سے وہ مذہب حنبلی کا علم حاصل کر سکتا ہے ۔ تو ایسا شخص حنبلی مذہب اختیار کر سکتا ہے،، فقط اس وجہ سے مذہب حنبلی اختیار کرنا جائز نہیں کہ اس کے پیر حنبلی ہیں تو یہ بھی حنبلی ہو جاۓ،،

امام اہلسنت فرماتے ہیں۔

ان بلاد میں کہ جہاں نہ حنبلی مذہب کے عالم ہیں نہ کتابیں ، حنفیت چھوڑ کر حنبلیت اختیار کرنا ہر گز جائز نہیں ، انتقال کرنے والا مذہب حنفی کا عالم تھا تو یہ انتقال صراحۃً مراد شرع کے مضاد ہوگا کہ شرع نے طلب علم کا حکم فرمایا اور یہ ترك علم وطلب جہل کرتا ہے حاشاﷲ حنبلیت جہل نہیں چاروں مذہب حق وہدی ورشاد ہیں مگر جہاں نہ جس مذہب کے عالم نہ کتابیں وہاں اس کا اختیار صراحۃً اپنے جہل کا اختیار ہے اور اگر اول سے جاہل تھا تو اپنے لئے علم وعمل کا دروازہ بند کرتا ہے احکام ِحنفیت سے آگاہ نہ تھا تو فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ  (اہل ذکر سے پوچھو )کے امتثال پرتو قادر تھا اب کہ وُہ مذہب اختیار کرتا ہے جس کے ہلِ ذکر بھی یہاں نہیں تو صراحۃً جہل کے ساتھ عجز ملتا اور اپنے منہ پر شریعت مطہرہ کا بند کرتا ہے وﷲ الھادی

فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 510

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں۔

فاذا کان انسان جاھل فی بلاد الھند او فی بلاد ما وراء النھر۔ ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ، ولا حنبلی ، ولا کتاب من کتب ھذہ المذاھب ، وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفتہ ، و یحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ،

لانہ حینئذ یخلع ربقتہ الشریعتہ و یبقی سدی مھملا،

بخلاف ما اذا کان فی الحرمین فانہ متیسر لہ ھناک معرفتہ جمیع المذاھب ،

جب کوئ عامی شخص ہندوستان یا ما وراء النہر کسی خطہ میں ہو ، اور اس کے قریب کوئ شافعی مالکی حنبلی عالم موجود نہ ہو اور نہ ہی ان کے مسالک فقہ کی کوئ کتاب ہو۔

تو اس پر واجب ہے کہ وہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرے اور اس سے بہار جانا یعنی ان کی تقلید کو چھوڑنا اس کے لیۓ حرام ہوگا اس لیۓ کے وہ ایسا کرتا ہے تو وہ اپنے اپ کو دائرہ شریعت سے نکال لے گا اور بے لگام بن کر رہ جاۓ گا  بخلاف اس کے کہ وہ حرمین میں موجود ہو چونکہ وہاں اس کو تمام مذاہب کی معرفت حاصل ہو جاۓ گی۔

الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف صفحہ 79

اب رہا یہ کہ نماز امامت کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے ایسا کر سکتا یے یا نہیں،

تو ہمارے فقہاء نے فرمایا ہے۔

اگر شافعی یا کوئ اور مذہب کا امام اگر حنفی مذہب کی رعایت کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پرھنا جائز ہے۔

رد المحتار میں ہے

و اما الاقتداء بالمخالف فی الفروع کالشافعی فیجز

اور فروع میں اختلاف کرنے والے جیسے شافعی وغیرہ تو ان کی اقتدا جائز ہے

(یعنی اگر شافعی حنفی مذہب کی رعایت کرتا ہے تو اقتدا جائز ہے)

رد المحتار جلد 2 صفحہ 303

امام اہلسنّت فرماتے ہیں

شافعی کی اقتدا جائز ہے جبکہ وہ مقامات اختلاف میں احتیاط کرتا ہو

فتاوی رضویہ جلد 7 صفحہ 696

علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

شافعی یا دوسرے مقلد کی اقتدا اس وقت کر سکتے ہیں ،جب وہ مسائل طہارت و نماز میں ہمارے فرائض مذہب کی رعایت کرتا ہو

بہار شریعت حصہ سوم صفحہ 566

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر  125 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:28، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

سیدوں کو گالی دینے والا کیا مسلمان رہے گا[ترمیم]

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں، اگر کوئ شخص سیدوں کو گالی دے اصلی اصلی ماں بہن کی تو کیا اس کا ایمان سلامت رہے گا یا کافر ہو جاۓ گا۔

سائل نوری ۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ۔

الجواب ھو الھادی الی الصواب

سادات کرام کی تعظیم فرض ہے ان کی توہین کرنا ان کو گالیاں دینا ناجائز و حرام ہے جہنم میں لے جانے والا کام ہے البتہ ایسا شخص کافر نہ ہوگا

ہاں اگر اس وجہ سے گالیاں دیتا ہے کہ وہ سید ہیں بطور سید ہونے پر گالی دیتا ہے،  تو یہ گالی دینے والا شخص کافر ہو جاۓ گا۔

امام اہلسنت رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولویا یاکسی کو میروا بروجہ تحقیر کہے کافر ہے۔مجمع الانہر میں ہے:

الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ومن قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی قاصدا بہ الاستخفاف کفر

سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کر کے عویلم یا علوی کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو کفر کیا۔

بیہقی امیرا لمومنین مولی علی کرم ﷲ وجہہ سے اور ابوالشیخ و دیلمی روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من لم یعرف حتی عترتی والانصار والعرب فھو لاحدی ثلاث اما منافقا واما لزنیۃ واما لغیر طھور ۔ ھذا لفظ البیھقی من حدیث زید بن جبیر عن داؤد بن الحصین عن ابن ابی رافع عن ابیہ عن علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ ولفظ غیرہ امامنا فق واما ولد زنیۃ واما امرء حملت بہ امہ فی غیر طہر

جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں۔یا تومنافق ہے یا حرامی یا حیضی بچہ۔(یہ بیہقی کے الفاظ زیدبن جبیر نے اپنے والد کے حوالہ سے حضرت علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کئے دوسروں کے الفاظ یوں ہیں۔ یا منافق،ولدزنا یا اس کی ماں نے ناپاکی کی حالت میں اس کا حمل لیا

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 126 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:28، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

قران پڑھنا نہیں آتا ڈوب کر مرجاؤ کہنا کیسا[ترمیم]

(قران پڑھنا نہیں آتا ڈوب کر مر جانا چاہئے کہنا کیسا ہے)

اسلام علیکم و رحمته اللہ

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مولانا محمد زید جو کہ امام مسجد ہیں جمعہ کی نماز میں بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں ۔ ( کہ آج کا مسلمان کتنی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے آج بنا پڑھے لکھے لوگ بھی انٹرنیٹ پہ فیسبک facebook ارو واٹسیپ whatsapp فون میں سب کچھ سیکھ رہا ہے ہم سب جانتے ہیں اس بات کو اور جب بات آتی ہے قرآن پاک پڑھنے کی تو ہم کتنی آسانی سےمسکراکر کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا ہے ارے ڈوب کے مر جانا چاہیے ان لوگوں کو جو قرآن پاک پڑھنا نہیں جانتے ہیں باقی سب آتاہے) تو اس ڈوب جانے والی بات کا دو تین نمازیوں کو اتنا برا لگا کہ امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھ رہیں ہیں اس بات کا بتنگڑ بنا لیا ہے تو کیا امام صاحب قبلہ نے غلط بیان کیا یا صحیح اصلاح فرمایں حضرت عین نوازش ہوگی

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

قران پڑھنا نہیں آتا ڈوب کر جانا چاہئے اس طرح کے کلمات زجر و توبیخ کے لیۓ استعمال کیۓ جاتے ہیں۔ اور واقعی یہ بڑی عار کی بات ہے کے مسلمان کو قران کریم پڑھنا نہیں اتا  جن لوگوں کو قران پڑھنا نہیں اتا جن کے دلوں میں قران نہیں ہے ان کے دل ویران گھر کی طرح ہیں

خود حدیث میں آیسے لوگوں کے لیۓ کہا گیا ہے

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا جرير، عن قابوس بن ابي ظبيان، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الذي ليس في جوفه شيء من القرآن كالبيت الخرب "،

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے“۔

ترمذی حدیث نمبر 2913

مولانا صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ زجر و توبیخ اور عار دلانے کے لیۓ کہا ہے ان کا یہ کہنا صحیح ہے کوئ غلط نہیں ہے

اور جو لوگ اس کا بتنگڑ بنا رہے ہیں ان کو شرم کرنی چاہئے امام صاحب سے جاکر معافی مانگے اگر قران کریم پرھنا نہیں اتا تو امام صاحب سے پڑھنا سیکھے

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانس حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 128 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:29، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

مرنے کے روح زمین آسمان کے درمیان تو نہیں رہے گی[ترمیم]

(مرنے کے بعد روح زمین آسمان کے درمیان تو نہیں رہے گی)

السلام علیکم ۔۔۔

جناب ایک سوال تھا جواب مل جاۓ تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔۔۔

سوال ۔ یدی ہم اپنے کسی دوست کو یا بھائ کو اپنے حصہ میں سے کچھ حصہ دیں جیسے کہ پیسے زمین یا کچھ اور تو کیا وہ دوست یا بھائ تب تک جنت میں نہیں جاۓ گا جب تک کی وہ قرض نہ ادا کردے جبکہ میں نے وہ قرض کہکر نہ دیا ہو۔۔

یا پھر اس کو حساب دینا جائز ہوگا اللہ کی بارگاہ میں اور حدیث کے مطابق اسکی روح زمین آسمان کے بیچ پھسی تو نہیں رہے گی؟ مختصر یہ کہ حضرت ہم اپنے دوست یا بھائ کے لیۓ کس طرح سے مدد کر سکتے ہیں اور وہ قرض میں آۓگا یا پھر ہماری طرف سے اس کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں آپ سے تفصیل سے جواب کی گزارش ہے۔۔ ۔۔

غلام شعیب ملک ہریدوار اتراکھنڈ

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

آپ جس طرح مدد کرنا چاہے کر سکتے ہیں پیسہ زمین وغیرہ سے

اگر یہ بطور مدد ہے تو قرض نہیں ہے اور اگر قرض کہکر دیں تو قرض ہے قرض دیا ہے

اگر معاف کردیا ہے تو معاف ہو جاۓ گا معاف نہیں کیا تو معاف نہیں ہوگا

مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں   میں   رہتی ہے، بعض کی قبر پر، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں  بعض کی آسمان و زمین کے درمیان بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں   آسمان تک اور بعض کی آسمانوں  سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں   زیرِ عرش قندیلوں میں  اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں۔۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 130 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:30، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا خواجہ غلام فرید نے علمائے دیوبند کو کافر نہیں کہا[ترمیم]

*(کیا حضرت خواجہ غلام فرید نے علمائے دیوبند کو ولی کامل کہا تھا)*

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں

علماء دیوبند کے متعلق جو فتویٰ سیدی پیر مہرعلی شاہ  رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ علماء دیوبند اہل سنت کا عظیم فرقہ ہے  یا خواجہ غلام فرید نے اکابرین دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد قاسم نانوتوی کے ولی کامل ہونے کا فتوی ” مقابیس المجالس ” میں دیا ہے واقعی ان بزرگان دین کی کتابوں میں یہ فتاویٰ جات مسطور ہیں اور صحیح ہیں  پیر شرقپوی نے نوری کہا ہے۔ باقی سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی کفر لاعلمی کی بناپر تھا جب علماء دیوبند کی کتب المہمند وغیرہ جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں تو اعلی حضرت فاضل بریلوی نے اپنے فتویٰ کفر سے رجوع فرماکر تمھید الایمان اورسبحان السبوح وغیرہ میں صاف الفاظ میں لکھ دیاکہ حاشاللہ حاشاللہ ہزار بار حاشاللہ میں

ہرگز ان علماء دیوبند کی تکفیر نہیں کرتا یعنی مولوی رشید احمد گنگوہی اورمولوی خلیل احمد اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ کو تو مسلمان ہی جانتا ہوں اورمولوی اسماعیل دہلوی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں دیتا یہ اعلیٰ حضرت بریلوی کا وہ آخری فتوی ہے جس پر مہر حق ثبت کرتے ہوئے سیدی وسندی قبلہ مولوی احمد سعید شاہ صاحب کا ظمی نے الحق المبین میں فتویٰ دیاہے کہ ہمارےاکابرین علماء بریلوی نے کبھی بھی علماء دیوبند کو نہ کافر کہا اور نہ کسی کتاب میں ان کو کافر لکھا ہے بلکہ ہم ان کو سنی علماء ہی مانتے ہیں۔

کیا یہ بات صحیح ہیں کیا واقعی ایسا ہے جواب ارشاد فرماۓ۔ ۔،سائل غلام رضا

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

یہ ساری باتیں سراسر جھوٹ ہیں یہ تحریر میں نے نیٹ پر بھی دیکھی ہے اور کچھ گروپس میں بھی دیکھی ہے لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔۔ ایسا معلوم ہر رہا ہے جیسے کی یہ تحریر  Viral ہو رہی ہے۔ بہر حال اس تحریر میں جو کچھ کہا گیا ہے سب جھوٹ ہے عبارات اپنے مطلب کی بناکر اپنا الو سیدھا کرنے کی نا کام کوشش کی ہے صحیح تو یہ ہے سیدی پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں اہل دیوبند اور وہابیوں کا جگہ جگہ رد کیا ہے اور دیوبندیوں کی تکفیر بھی کی ہے اپ رحمہ اللہ دیوبندیوں کا رد کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔۔

نبی علیہ السلام کو علم غیب حاصل ہے آپ علیہ السلام کو علم غیب بحسب نصوص قرانیہ اور علم ما کان وما یکون از روۓ احادیث نبویہ یہ من جانب اللہ عطا ہوا ہے۔،نبی علیہ السلام کے حاضر ناظر ہونے کے متعلق فرماتے ہیں۔

رہا آپ علیہ السلام کا بالجسد العنصری ہر مکان و ہر زمان میں حاضر و ناظر ہونا تو یہ امر مخلف فیہ ہے قائل و منکر و لکل وجھتہ میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمدیہ کہر عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عند المحققین من الصوفیہ ثابت ہے

فتاوی مہریہ صفحہ 6۔۔

جب دیوبندی وہابیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و فتنہ برپا کیا  توسل نزر و نیاز سماع موتی اور علم غیب وغیرہ مان نے والے مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگاۓ گۓ تب امت پر ایک اور احسان فرمایا اور ایک کتاب اس امت کو عطا فرمائی جس کا نام ہے

اعلاء کلمتہ اللہ فی بیان وما اھل بہ لغیر اللہ۔ جس کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند شخص تسلیم کیۓ بنا نہیں رہ سکتا۔،

حضرت مولانا غلام محمد سے پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے  پوچھا کہ غلام محمد لوگوں میں مشہور ہے کہ دیوبندیوں کی کتابیں گستاخیوں سے بھری پڑی ہیں کیا یہ بات صحیح ہے ۔ تو جوابا میں نے عرض کی حضور واقعی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جنکے متعلق فاضل بریلوی اعلی حضرت اور علمائے حرمین نے کفر کا فتوی دیا ہے یہ صحیح ہے اور واقعی یہ توہین آمیز عبارتیں ہیں۔ تو حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے فرمایا پھر تو ایسی باتیں واقعی کفریہ ہیں اور فتاوی صحیح ہیں۔

درج الالی فی حیات شاہ جمالی صفحہ 106۔۔

ان عبارات سے معلوم ہوا سیدی پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے وہابیوں دیوبندیوں کے عقائد باطلہ کا رد کیا ہے ۔ اور امام اہلسنت  علمائے حرمین کے فتاوی کو صحیح ٹھرایا ،۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کا رد نہیں کیا ان کی تکفیر نہیں کی وہ لوگ پیر صاحب کی کتب سے یہ ثابت کریں اور اس کا بھی جواب دیں دیوبندی جن امور پر کفر شرک کا فتوی لگاتے ہیں مثلاً نیاز فاتحہ سمع موتی حاضر ناظر ما کان وما یکون علم غیب توسل وغیرہ کو پیر صاحب نے اپنی کتب و فتاوی میں دلائل کے ساتھ اس کو ثابت کیوں کیا اور ان کے منکروں کا رد کیوں کیا۔مزید اپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔

فرقہ وہابیہ نجدیہ کا آباعن جد آبا و اجداد سے یہی شیوہ و شعار رہا ہے کے مستحسنات بزرگان دین کو بدعت سیہ ضلالت کفر و شرک کہ دیتے ہیں۔

فتاوی مہریہ صفحہ 33

اب رہا یہ کہ آپ رحمہ اللہ نے اہل دیوبند کو اہلسنت کا عظیم فرقہ قرار دیا ہے تو یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ اس طرح کہنے والے نے منافقت سے کام لیا ہے۔ فتاوی مہریہ میں ہے اپ رحمہ اللہ سے سوال ہوا نبی پاک کے لیۓ لفظ بشر کا اطلاق جائز ہے یا نہیں چونکہ بعض جائز کہتے ہیں بعض ناجائز

۔ آپ نے اس کا تفصیلی جواب لکھا اور فرمایا میرے خیال میں فرقین از علمائے کرام متنازعین اہلسنت سے ہیں اور ذکر نبی علیہ السلام کو بالاسماء المعظمہ واجب اور ضروری اعتقاد کرتے ہیں۔۔ اس مقام پر پیر صاحب نے فرمایا دونوں فریقین قین اہلسنت کے  ہیں اب چونکہ وہابی دیوبندی نبی پاک کو صرف بشر کہتے ہیں تو خیانت کرنے والوں نے یہ منافقت دکھائی یہاں دونوں فریقین سے دیوبندی مراد لے لیا چونکہ وہ نبی کو صرف بشر کہتے ہیں۔ حالانکہ یہاں تو دیوبندی وہانبی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ اپ رحمہ اللہ نے اس کے آگے خود یہ فرمایا اور وہابیوں کا رد کیا فرماتے ہیں۔ لہزا ان سے ہر گز ہر گز متصور نہیں کہ معاذ اللہ فرقہ ضالہ نجدیہ وہابیہ کی طرح صرف لفظ بشر کا اطلاق جائز کہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے بقصد تحقیر لفظ بشر کا اطلاق بغیر انضمام کلمات تعطیم نہ چاہیے کہ بوجہ شیوع عرف وقصد فرقہ ضالہ صرف بشر کہنے میں ایہام امر ناجائز کا ہے،۔

یہاں تو خود پیر صاحب نے دیوبندیوں وہابیوں کا رد فرمایا ہے اللہ کریم انہیں مارے کے جہنم میں جا گرے پیر صاحب کی عبارت کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیۓ توڑ مروڑ کر جھوٹی بات کی نسبت آپ رحمہ اللہ کی طرف کرد ہے ،۔

اور یہ بھی جھوٹ و فریب ہے کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نے دیوبندیوں کے اکابر کو ولی کامل کہا ہے۔ بلکہ غلام فرید صاحب نے اہل دیوبند کے نظریات کا رد کیا ہے جن امور کو دیوبندی ناجائز یا حرام شرک کہتے ہیں آپ نے ان کا رد کیا ہے ۔

حاجی امداداللہ محاجر مکی کا فتوی نقل فرماتے ہیں۔

فقیر کا یہ امر  ہے ہر سال اپنے پیر مرشد کی ورح کو ایصال ثواب کرتا ہوں قرآن خوانی ہوتی ہے اگر وقت میں وسعت ہو تو میلاد شریف بھی ہوتا ہے اس میں میلاد کا جواز نکل آیا ۔

اور بلا مزامیر کے سمع ہوتا ہے سنا اور سنایا جاتا ہے پھر کھانا کھلایا جاتا ہے اس سے عرس پر طعام پکانے اور فاتحہ دلانے کا جواز نکل آیا ہے جس سے آج کل کے دیوبندیوں کی آنکھیں کھولنے والی چیز ہے کیونکہ آج کل کے دیوبندی نہ عرس کے قائل ہیں نہ میلاد کے نہ فاتحہ کے نہ سماع بغیر آلات کے حالانکہ دیوبند کے بانی اور علماء

دیوبند کے پیر و مرشد کے نزدیک  یہ تمام امور جائز ہیں۔ اسی صفحہ پر آگے فرماتے ہیں۔

کاش کے آج کل کے دیوبندی دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی اور اکابر دیوبند کے پیر و مرشد کے فتوی پر عمل کرتے اور خواہ مخواہ سماع اور اہل سماع پر اعتراضات کی بارش سے پرہیز کرتے۔،

مقابیس المجالس صفحہ 172

خواجہ غلام فرید صاحب نے اہل دیوبند اور وہابیوں کا جگہ بہ جگہ رد کیا ہے یہ کہنا نہایت ہی عظیم جرم ہے کہ آپ نے علمائے دیوبند کو ولی کامل کہا ہے۔ مقابیس المجالس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے حاجی امداد اللہ صاحب کے رشید احمد گنگوہی مرید اور خلیفہ اکبر تھے۔ اس عبارت سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ ولی کامل تھے میں کہتا ہوں اگر اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوتا کہ گنگوہی اور قاسم نانوتوی ولی کامل غوث ابدال میں سے ہیں وقت کے مجدد تھے تب بھی یہ بات لائق اعتبار نہ ہوتی چونکہ مقابیس المجالس نہایت ہی غیر معتبر کتاب ہے اس کتاب میں زبردست تحریف کی گئ ہے چند عبارات ہیش نظر کرتا ہوں۔

جسے دیکھ کر  یقین ہی نہیں یقین کامل حاصل ہو جاۓ گا کہ یہ تحریف شدہ کتاب ہے۔

صفحہ 796 پر ہے سر سید احمد کس قسم کا آدمی ہے فرمایا  نہایت ہی اچھے آدمی تھے ان کے چہرے سے برکت ٹپکتی تھی۔۔ میں کہتا ہوں مجھے بتاۓ کونسی برکت اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی جب کی وہ اپنے نظریات و عقائد باطلہ کی وجہ سے کافر ہے

امام اہلسنت نے سر سید احمد کو کافر کہا ہے خود دیوبندیوں کا سر سید احمد پر کفر کا فتوی ہے تو کیا اس عبارت سے سر سید کے ولی کامل ہونا مانا جاۓ گا؟

اسی صفحہ کے نیچے لکھا ہے

توحید کے بارے میں وہابیوں کے عقائد صوفیاء کرام سے ملتے جھلتے ہیں۔ وہابی کہتے ہیں انبیاء اور اولیاء سے مدد مانگنا شرک ہے بیشک غیرے خدا سے امداد مانگنا شرک ہے توحید یہ ہے کہ خاص اللہ سے مدد طلب کی جائے ۔ اب ذرا بتائیں وہابیوں کے کونسے عقائد صوفیاء سے ملتے ہیں اگر وہابیوں کے عقائد صوفیاء سے ملتے ہوتے تو وہابی صوفیاء کو مشرک کیوں کہتے صوفیاء تو انبیاء اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیں صوفیاء تو نہیں کہتے ان سے مدد طلب کرنا شرک ہے۔ تو پھر وہابیوں کے عقائد صوفیاء سے کہا سے ملتے جھلتے ہیں۔۔

اسی صفحہ پر یہ لکھا ہے

حضور لوگ مولوی نذیر حسین کو غیر مقلد اور وہابی کہتے ہیں وہ کیسے آدمی تھے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں۔۔

میں کہتا ہوں کسی عام آدمی کو یا مولوی کو یہ کہنا کے وہ صاحبی معلوم ہوتے ہیں گستاخی نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی مولوی کتنے ہی علم و فن میں ماہر کیوں نہ ہو مقام غوثیت پر فائز کیوں نہ ہو صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تو پھر یہ کیسے صحابی کی طرح ہو سکتا ہے۔۔

صفحہ 388 پر لکھا ہے سری کرشن جی اور رام چندر صاحب فقیر اور درویس تھے یا نہیں۔

تو آپ نے فرمایا تمام اوتار اور رشی لوگ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر تھے اور نبی تھے اور ان میں سے ہر ایک کے

پاس کتاب ہے چنانچہ چار وید زبان سنسکرت میں اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے ہر نبی لوگوں کی رسومات توڑنے کے لیۓ مبعوث ہوۓ ۔تھوڑا آگے جاکر اسی صفحہ پر لکھا ہے پھر مہاتما بدھ مبعوث ہوۓ

جب گاو پرستی کی رسم پکڑ گئ تو سری کرشن جی مبعوث ہوۓ جنہوں نے گاو پرستی کو ختم کیا

اور صفحہ 390 پر لکھا ہے ۔

ان لوگوں میں اگرچہ عادات اور عبادات کے فروغ میں اختلاف ہے لیکن اصل سبب ایک ہے یعنی رجوع الی اللہ اور توحید۔۔

میں کہتا ہوں رام چندر کرشن اور گوتم بدھ کو نبی کہنا یہ گمراہیت نہیں تو اور کیا ہے ان ویدوں کو آسمانی کتاب اور رشییوں کو پیغمبر کہنے والوں کا ایمان خطرہ میں ہے پہلے تو یہی نہیں معلوم یہ انسان تھے بھی یا نہیں ان کا وجود تھا بھی یا نہیں محض لوگ ان کو اس لیۓ جانتے ہیں ہنود ان کی پوجا کرتے ہیں۔

کیا آپ کے پاس وحی آئ ہے کہ یہ انسان نبی تھے کیونکہ کسی نبی کا نبی ہونا اسی وقت مانا جا سکتا ہے جس کا ذکر قرآن حدیث میں ہو دلیل قطعی سے جس کی نبوت واضح ہو جاۓ ۔ ان کے نبی ہونے پر کون سی دلیل قائم ہے کیا ان کا ذکر قرآن حدیث میں آیا ہے اگر نہیں تو پھر ان کو نبی کہنا وہ بھی صرف اس وجہ سے ہنود ان کی پوجا کرتے ہیں یہ تو کھلی ہوئی ہنود کی حمایت اور وکالت کرنے کے مترادف ہے۔ ہنود تو ان کو انسان تک نہیں مانتے کیا آپ نے نہیں دیکھا کسی کی دم ہے تو کسی کا ہاتھی کا سر ہے تو کوئی بندر ہے کسی کے چار تو کسی کے چھے ہاتھ پیر ہیں۔ اس طرح کی شکلیں انسان کی نہیں ہوا کرتی اور یہ عادات الٰہی اور عقل کے خلاف ہے اللہ تو قرآن میں فرماتا ہے ہم نے انسان کو اچھی شکل پر پیدا کیا ہے۔ ہنود تو ان کو جانور مانے

اور اپ نبی کیسے مان سکتے ہیں۔

امام اہلسنت فرماتے ہیں۔۔

قران کریم یا  حدیث کریم میں رام کرشن کا ذکر تک نہیں ہے ان کے نفس وجود پر سواۓ تواتر ہنود ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ واقع میں کچھ اشخاص تھے بھی یا محض انیاب اغوال و رجال بوستاں خیال کی طرح اوہام تراشیدہ ہیں۔ تواتر ہنود اگر حجت نہیں تو انکا وجود ہی ناثابت اور اگر حجت ہے تو اسی تواتر سے ان کا فسق فجور لہو و لعیب ثابت پھر کیا معنی کے وجود کے لیۓ تواتر ہنود مقبول اور احوال کے لیۓ مردود مانا جاۓ اور انہیں کامل و مکمل بلکہ ظنا معاذ اللہ انبیاء و رسل مانا جاۓ

فتاوی رضویہ 14 جلد صفحہ 660۔۔

فتاوی فقیہ ملت صفحہ 24 پر  ہے رام کرشن گوتم بدھ وغیرہ ہرگز نبی نہیں انہیں نبی رسول خیال کرنا سخت گمراہی جہالت ہے۔۔

یہ چند عبارات بطور نمونہ فقیر نے اسی کتاب سے  پیش نظر کی ہیں جس کتاب سے علمائے دیوبند کے ولی کامل ہونے کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے اب ذرا بتاۓ وہ لوگ جو بطور حوالہ اس کتاب کو پیس کرتے ہیں  کیا اب ان ساری عبارتوں کی بھی تصدیق کریں گے اگر نہیں تو پھر اپنے مطلب کی بات کیوں مانتے ہو کیا بعض کی تصدیق کرتے ہو اور بعض کا انکار۔ میں نے بطور نمونہ چند عبارات پیس نظر کی ہیں اگر اس پر کلام کیا جاۓ تو  وجود میں ایک کتاب آجاۓ۔ نیز اب یہ بات بھی روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئ کہ اس کتاب میں کتنی زبردست تحریف کی گئ ہے اس لیۓ یہ کتاب غیر معتبر ہے ۔ ساتھ ہی جو لوگ اس کتاب سے علمائے دیوبند کے ولی کامل ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں ان کی دلیل کے بھی پرخچے اڑ گۓ ہیں۔

یہ بات بھی سراسر جھوت و فریب ہے کہ امام اہلسنت نے اپنے فتوے سے رجوع کرلیا تھا ۔

اس عبارت میں قطع بریدی سے کام لیا گیا ہے در اصل بات یہ ہے کہ امام اہلسنت پر لوگوں نے یہ الزام لگایا کہ احمد رضا فلاں فلاں کو کافر کہتے ہیں۔ تو اس کے جواب میں امام اہلسنت نے فرمایا۔ یہی دشنامی لوگ جن کے کفر پر اب فتوی دیا ہے جب تک ان کی صریح دشنامیوں پر اطلاع نہ تھی، مسئلہ امکان کذب کے باعث ان پر 78 اٹھتر وجہ سے لزوم کفر ثابت کر کے سبحان السبوح میں بالآخر صفحہ 80 طبع اول پر یہی لکھا کہ حاشاللہ حاشاللہ ہزار بار حاشاللہ میں ہر گز ان کی تکفیر ہر گز پسند نہیں کرتا، ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کو تو ابھی تک مسلمان ہی جانتا ہوں اگرچہ ان کی بدعت و ضلالت میں شک نہیں

تمہید ایمان صفحہ 132۔

یہ سب امام اہلسنت نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا ہے جو لوگ یہ کہتے تھے احمد رضا تو فلاں فلاں کو کافر کہتے ہیں۔

یعنی علمائے دیوبند کی میں نے تکفیر اس وقت تک نہ کی جب تک مجھے ان کی گستاخیوں کا قطعی علم حاصل نہ ہو گیا جبکہ امکان کذب کے باعث 78 وجہ سے لزوم کفر ثابت کر کے آخر یہی لکھا میں ہر گز ان کی تکفیر نہیں کرتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کا کفر علم یقین سے حاصل نہ ہوگیا اور جب علم قطعی سے حاصل ہو گیا اور کوئی تاویل کی گنجائش نہ رہی

تو میں نے تکفیر کی ہے بلا وجہ میں نے کسی کو کافر نہیں کہا ۔


سبحان اللہ امام اہلسنت نے یہاں علمائے متکلمین کا طریقہ اپنایا ہے اور کفر کا فتوی اس وقت تک نہ دیا جب تک ضعیف سے ضعیف تاویل کی گنجائش تھی کیوں کہ ہمیں یہی حکم ہے اہل قبلہ کی تکفیر نہ کی جاۓ جب تک ضروریات دین کا انکار لازم نہ آتا ہو۔، دیوبندیوں کو امام اہلسنت کا یہ فتوی انکھیں کھول کر پڑھنا چاہئے کہ دیوبندی ہر دوسری بات پر مسلمانوں پر شرک کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ لیکن اعلی حضرت نے کتنی احتیاط برتی تمہارے اسماعیل دہلوی کی تکفیر کلامی نہ کی اور تمہارے دیگر علمائے دیوبند کی بھی اس وقت تک تکفیر  نہ کی جب تک علم قطعی سے کفر ثابت نہ ہو گیا ۔ لیکن دیوبندیوں تمہارا حال تو یہ ہے اگر انبیاء یا اولیاء سے مدد طلب کی جاۓ تو تم فوراً مسلمان کو مشرک بنادیتے ہوں۔، بجائے امام اہلسنت کا شکر ادا کرنے کے ان کی عبارات میں قطع برید کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہو۔ بتاؤ اس عبارت میں کہا لکھا ہے وہ جو مطلب تم نے بیان کیا۔۔

سعید احمد کاظمی صاحب کا موقف بھی وہی ہے جو امام اہلسنت کا ہے اپ فرماتے ہیں۔ جو کوئ اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کرے گا ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی مزید فرماتے ہیں

ہمارے علماء نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے اللہ و رسول کی شان میں گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی السلام کی تکفیر نہیں کی

الحق المبین صفحہ 25

اس سے سعید احمد کاظمی صاحب کا موقف بھی بالکل واضح ہے ان کا بھی وہی موقف ہے جو امام اہلسنت کا یعنی علمائے دیوبند میں جن جن نے گستاخیاں کی ہیں وہ سب کے سب کافر ہیں ان کی ہم تکفیر کرتے ہیں۔،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال 9917420179📞

سوال نمبر 127 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:31، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کرلی ہے تو کیا حکم ہے[ترمیم]

(لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کرلی ہے تو لڑکی پر کیا حکم ہوگا)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔

حضرت سوال یہ ہے کہ ۔۔ ایک لڑکی نے ھندو لڑکے سے کورٹ میں شادی کی ۔۔ جب باپ کو اطلاع دی تو باپ  نے بعد میں بخوشی ایک بہت بڑا فنکشن کیا لڑکے والوں کو دعوت کھلایا گیا ۔ بہت سارا جہیز ، زیور وغیرہ دیکر با قاعدہ رخصت کیا ۔۔   

شرعاً باپ پر کیا حکم لگیگا ۔۔ ؟؟

جواب عنایت فرمائیں

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مسلمان کا کافر سے نکاح نہیں ہو سکتا  جیسا کی قران حدیث میں ہے

اگر کوئ شادی کرتا ہے تو یہ ناجائز حرام گناہ کبیرہ ہے کافر سے نکاح حلال سمجھ کر قران کے حکم کا انکار کرکے کیا گیا ہے تو یہ کفر ہے اسی طرح  باپ نے حلال سمجھ کر حکم قران کا انکار کرتے ہوۓ نکاح کو جائز سمجھا اس پر راضی رہا جس بلا پر دعوت وغیرہ کی تو یہ بھی کفر ہے اور اگر ویسے ہی نفسانی خواہش پر لڑکی اور باپ نے ایسا کیا ہے تو یہ ناجائز و حرام گناہ کبیرہ ہے کفر نہیں، لڑکی اور لڑکی کے باپ کو سمجھایا جاۓ اور لڑکی کو واپس لانے کو کہا جاۓ اگر اس پر باپ راضی نہیں ہوتا اور کہتا ہے میں نہیں لاؤں گا واپس تو مسلمانوں کو چاہئے اس کا بائیکاٹ کریں سلام کلام اس سے ختم کریں یہاں تک کے وہ اس پر راضی ہو جاۓ

واللہ اعلم بالصواب

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 129 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:32، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

گستخانہ وسوسہ آنے سے کیا کاگر ہو جاۓ گا[ترمیم]

(گستاخانہ وسوسہ آنے سے کیا کافر ہو جاۓ گا)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال ۔۔،زید گناہ کے کام میں تھا یعنی وہ زنا کی ویڈیو فحش ویڈیو دیکھ رہا تھا ۔

اسی وقت اس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلّق سے گستاخنہ وسوسہ آیا

زید ان برے خیالات کو بالکل بھی پسند نہیں کیا اور اپنے دماغ سے ان وسوسوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کیا

لیکن زید اس وقت  گناہ کی ویڈیو بند نہیں کیا مسلسل وہ گناہ اسی حرام کام میں مبتلا رہا

اور اس کے بعد بھی وسوسے آتے رہیں

جس کی وجہ سے زید شک میں مبتلا ہو گیا ہے کے کہیں وہ کافر تو نہیں ہو گیا  یا گستاخ رسول تو نہیں ہو گیا ہے۔۔

اب کافی پریشان ہے تمام گناہوں کے کام سے توبہ کرلی برے کام بند کر دیا

اب زید کیا کریں کافی پریشان ہے ۔۔۔

خدا نا خواستہ اگر معاذاللہ  گستاخی ہوئی ہے تو گستاخ کی توبہ قبول نہیں

بلکہ بادشاہ اسلام کو حکم ہیں کہ توبہ کے بعد بھی اسے قتل کیا جائے

اب زید کیا کرے برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں

سائل ۔۔ عبدالله رضا بہار

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

مسلمان کو چاہئے ہر اس کام کو نہ کرے جس کام میں اللہ و رسول کی ناراضی ہو  فحش عریانی دیکھنا تو شدید گناہ ہے  زنا کی طرف لیکر جانے والا کام ہے۔ ہر دم اس گناہ سے دور رہے اللہ کی بارگای میں دعا کرے اور عرض کرے کہ مجھے میرے نفس پر قابو عطا فرما۔۔

رہا یہ کے زید کو جو نبی علیہ السلام کے بارے میں وسوسہ ایا تو یہ شیطان مسلمانوں کو وسوسوں کے ذریعہ پریشان کیا کرتا ہے لیکن ان وسوسوں کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دینا چاہے

صحابہ کرام نبی پاک کی بارگاہ میں حاضر رہا کرتے تھے ۔۔ہر دم اپ کی اطاعت میں مشغول رہا کرتے تھے شیطان ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا تھا صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے محسوس کرتے ہیں جسے ہم بیان نہیں کرسکتے یعنی زبان پر نہیں لا سکتے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کیا تم نے ایسا پایا ہے عرض کی جی ہاں فرمایا یہ تو کھلا ایمان ہے۔۔۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ.

حضرت  ابوہریرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں سے کچھ  لوگ حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا: ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو زبان پر لانا بہت سنگین سمجھتا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیا تم نے واقعی اپنے دلوں میں ایسا محسوس کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کی: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ’’یہی صریح ایمان ہے۔‘

صحیح مسلم حدیث 132

اسی طرح  ابو داود میں روایت ہے۔۔

عن ابن عباس، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله، إن احدنا يجد في نفسه يعرض بالشيء لان يكون حممة احب إليه من ان يتكلم به , فقال: الله اكبر الله اكبر الله اكبر، الحمد لله الذي رد كيده إلى الوسوسة" ,،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا:

یا رسول اللہ ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کرنے سے راکھ ہو جانا یا جل کر کوئلہ ہو جانا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنا دیا۔۔۔

(اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا)۔

ابو داود حدیث 5112

خلاصہ کلام یہ ہے  زید گناہوں سے بچتا رہے اور جو ویڈیوں وغیرہ دیکھتا ہے اس کو نہ دیکھنے کی سچی توبہ کرے اور اس پر ثابت قدمی کی اللہ سے مدد چاہتا رہے ان وسوسوں پر دھیان نہ دے اگر اس طرح کا وسوسہ اتا ہے تو فوراً اس کی طرف سے دھیان ہٹا لے زید پر  کوئ حکم کفر نہیں ہے زید مسلمان ہی ہے اس طرح کے وسوسے شیطان ایمان والوں کو ڈالا کرتا یے لیکن اس طرف دھیان نہیں کرنا چاہئے۔۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نبر 132 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:33، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا صرف ایک ہی مفتی کے فتوے پر عمل کرنا لازم ہے[ترمیم]

(کیا صرف ایک ہی مفتی کے فتاوی پر عمل کرنا لازم ہے)

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎! کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسٸلہ کے متعلق کہ علماء اہلسنت کا مساٸل میں اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ایک مفتی صاحب کے فتوی پر ہی عمل کریں۔ ایک مسٸلہ میں  آپ کے فتوی پر عمل کرلیا۔ اور دوسرٕے میں کسی اور مفتی صاحب کے فتوے پر عمل کر لیا۔ کیا ایسا صحیح ہے? جب کہ علماء سب حنفی سنی بریلوی ہی ہوں۔ دعوت اسلامی والے کہتے ہیں ایسا کرنا ناجاٸز ہے۔ آپ کو ہر مسٸلہ میں ایک مفتی صاحب کے فتوی پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ کیا ہر مسٸلہ میں اعلیٰ حضرت کے فتوی کو ماننا ضروری ہے?                   

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

آپ کے لیۓ حکم یہ ہے اگر کسی مسئلہ میں علم نہیں تو آپ کسی اہل علم سے مسئلہ معلوم کریں جو حکم وہ بتاۓ اس پر عمل کرے۔ رہا مسائل میں اختلاف تو جو مسائل ترجیح یافتہ ہوں انہی ہی پر عمل کرنا لازم ہے۔ چونکہ دور حاضر کے جدید مسائل غیر ترجیح یافتہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ایک مددت سے اصحاب ترجیح کا وجود نہیں پایا گیا جس وجہ سے جدید مسائل غیر ترجیح ہیں تو آپ جس مفتی صاحب کے فتاویٰ پر عمل کریں یہ آپ کے لیۓ کافی ہے ایسی کوئ شرط نہیں کے ایک ہی مفتی کے قول پر عمل کریں۔ ہم مقلد صرف  امام اعظم رحمہ اللہ کے ہیں انہی کی تقلید ہم پر واجب باقی  ترجیح یافتہ فتاوی پر ہم عمل ہم پر لازم ۔ اور جب ترجیح یافتہ نہ ہوں جیسا کی آج کے جدید مسائل تو جس مفتی کے فتاوی پر چاہے عمل کریں۔ آپ کا اس پر عمل کرنا جائز ہے ۔ بہتر یہ ہے جو مفتی ماہر ہو علم و عمل میں زیادہ ہو تقوی دار ہو قابل اعتماد ہو اس کے فتاوی پر عمل کیا جاۓ۔۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال 131 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:34، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا اعلی حضرت نے علمائے دیوبند کی تکفیر کی تھی[ترمیم]

(کیا اعلیٰ حضرت نے علمائے دیوبند کی تکفیر کی تھی)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کی کیا اعلی حضرت نے دیوبندیوں کے 4 پیشوا یعنی ۔تھانوی۔نانوتوی۔گنگوہی امبیٹھوی کو کافر کہا ہے۔ اگر ہاں تو اعلی حضرت کی اس مبارک کتاب کا نام کیا ہے۔ اور اگر نہیں کہا تو پھر یہ بات عوام اہلسنت میں کیوں مشہور ہے اور کہاں سے یہ مشہور ہوئ برائے مہربانی  راہنمائ فرمایئں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

دیوبندیوں کے پیشاوۓ اربعہ

اپنی عبارات کفریہ کی کی وجہ سے کافر ہیں انہیں عبارات کفریہ کی وجہ سے امام اہلسنت نے ان کی تکفیر کی ہے ساتھ ہی ساتھ علمائے عرب نے بھی تکفیر کی ہے کہ جو ان کے کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔ اس کی تفصیل امام اہلسنت کی کتب میں دیکھی جا سکتی ہے خاص طور سے حسام الحرمین کا مطالعہ مفید ہے۔،

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال 133 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:35، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا نبی علیہ السلام ہر مجلس میں تشریف لاتے ہیں[ترمیم]

(کیا نبی علیہ السلام ہر مجلس میں تشریف لاتے ہیں )

حضرت کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجائ گئ ہر دینی مجلس میں تشریف لاتے ہیں ایسا کہنا درست ہے یا نہیں ؟

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا علیہ السلام کو یہ طاقت و قوت دیں ہیں آپ جب چاہئیں جہاں چاہئیں جس وقت چاہئیں جا سکتے ہیں۔

اور جب محفل میلاد سجائ جاتی ہیں تو تشریف بھی لاتے ہیں۔، لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ ہر مجلس میں تشریف لاتے ہیں ،جب جب محفل میلاد ہوگی تو تشریف لائیں گے۔

اللہ نے ہمارے آقا کو اختیارات ضرور دیۓ ہیں یہ ان کے کرم کی بات ہے جس مجلس میں چاہئیں تشریف لائیں ۔ یہ کہنا کے ہر ہر مجلس میں تشریف لائیں گے جائز نہیں کہ اس سے حضور علیہ السلام کو پابند بنانا اور آپ کا مجلسوں میں آنا لازم قرار پاتا ہے اس لیۓ یہ کہنا جائز نہیں۔

ہم غلاموں کے لیۓ تو یہی بہت بڑی سعادت کی بات ہے ان کی مجلس سجاکر ان کا ذکر کرتے ہیں در حقیقت تو یہ ہے یہ منہ اس قابل کہاں کے اس سے اپنے کریم آقا کا ذکر کیا جاۓ۔، چے جاۓ کے آپ علیہ السلام کو پابند بنایا جاۓ معاذ اللہ۔،

سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں

آقا اپنے کرم پر نظر کریں

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 134 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:36، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

غیر عالم کو تقریر کرنا کیسا[ترمیم]

(غیر عالم کو تقریر کرنا کیسا)

السلام علیکم ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ غیر عالم کو بیان کرنا کیسا ہے

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

غیر عالم کو وعظ کہنا ناجائز ہے اور نہ ہی اس کا یہ منصب ہے اس کے اوپر جو علم دین سیکھنا فرض ہے اس کو حاصل کرے ورنہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمرای کرے گا۔

فتاوی رضویہ میں ہے۔

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اس زمانہ میں بہت لوگ اس قسم کے ہیں کہ تفسیر وحدیث بے خواندہ وبےاجازت اساتذہ برسربازار ومسجد وغیرہ بطور وعظ ونصائح کے بیان کرتے ہیں حالانکہ معنی ومطلب میں کچھ مس نہیں فقط اردوکتابیں دیکھ کے کہتے ہیں.،یہ کہنا اور بیان کرنا ان لوگوں کے لئے شرعاً جائزہے یانہیں؟  بیّنواتوجروا (بیانفرمائیے اجرپائیے)

الجواب:

حرام ہے،اور ایسا وعظ سننا بھی حرام،رسول اﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من قال فی القراٰن بغیرعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار، والعیاذباﷲ العزیز الغفار،والحدیث رواہ الترمذی۔ وصححہ عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنھما۔وﷲ تعالٰی اعلم۔

جس شخص نے قرآن مجید میں بغیرعلم کچھ کہا اسے اپنا ٹھکانا دوزخ سمجھ لیناچاہئے، ﷲ تعالٰی کی پناہ جو سب پر غالب اور سب کچھ بخش دینے والاہے۔اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دے کر حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما کے حوالہ سے ذکرفرمایا،

وﷲ تعالٰی اعلم ۔

فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 733

مزید فرماتے ہیں۔

وعظ گوئی بھی گناہ ہے۔وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر یانبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث یاشریعت کامسئلہ اور جاہل کو ان میں کسی چیز کابیان جائزنہیں،رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من قال فی القراٰن بغیرعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ رواہ الترمذی

جو بے علم قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے(اس کو امام ترمذی نے روایت کیا)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

اور احادیث میں اسے صحیح وغلط وثابت وموضوع کی تمیزنہ ہوگی،اور رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من یقل علیّ مالم اقل فلیتبوأ مقعدہ من النار۔رواہ البخاری فی صحیحہ عن سلمۃ بن اکوع رضی ﷲ تعالٰی عنہ۔

جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ فرمائی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے(امام بخاری نے اپنی صحیح میں سلمہ بن اکوع رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اس کو روایت کیا)

افتوابغیر علم فضلوا واضلوا۔رواہ الائمۃ احمد والشیخان والترمذی وابن ماجۃ عن عبدﷲ بن عمرو رضی ﷲ تعالٰی عنہما۔

بے علم مسئلہ بیان کیا سو آپ بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا(ائمہ کرام مثلاً امام احمد،بخاری،مسلم،ترمذی اور ابن ماجہ نے اس کو حضرت عبدﷲ بن عمرو رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کی

فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 727

ایک اور جگہ لکھتے  ہیں۔

اگر عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاھل کو وعظ کہنے کی اجازت نہیں وہ جتنا سنواریں گا اس سے زیادہ بگاڑے گا

(فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 717)

خلاصہ کلام یہ ہے غیر عالم کو تقریر کرنا ناجائز ہے اور نہ ہی اس کا منصب ہے اور نہ ہی اس کو یہ منصب دینا چاہۓ۔

ہاں اگر کوئ غیر عالم کسی

سنی صحیح العقیدہ عالم کی کتاب دیکھکر سناۓ اور اپنے پاس سے اس میں کچھ نہ ملاۓ تو صرف دیکھکر پڑھکر سنانے کی اجازت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 135 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:36، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

اللہ کو یار کہنا کیسا[ترمیم]

(اللہ کو یار کہنا کیسا)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

اس بارے میں ایک امام صاحب نے تقریر میں اللہ کو یار کہا اور کہا اللہ کو غصہ آیا ، سوال یہ ہے اس طرح کہنا کیسا ہے۔

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الیصواب

اللہ عزوجل کو اس کے ذاتی و صفاتی نام سے ہی یاد کیا جاۓ

جن کا ذکر قران و احادیث یا امت سے ثابت ہو ۔ اللہ کو یار کہنا جائز نہیں ۔ اللہ کو غصہ آیا کہنے کے بجاۓ کہا جاۓ اللہ ناراض ہوا یا غضب وغیرہ الفاظ استعمال کیۓ جائیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

فقیر دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

سوال نمبر 130

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:38، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

کیا حاصل کرلیا مسلمان ہوکر کہنا کیسا[ترمیم]

(کیا حاصل کرلیا مسلمان ہو کر کہنا کیسا)

اس طرح کے کلمات کہنے والے پر کیا حکم شرع ہے۔

ہم نے کیا حاصل کرلیا ہندو یا مسلمان ہو کر۔ کیوں نہ انسان سے محبت کریں انسان ہو کر

سائل ذیشان

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

اس طرح کہنے والا توبہ و تجدید ایمان کرے ۔ یہی وہ کلمات ہیں جو الحاد کی طرف انسان کو لے جاتے ہیں۔ اس طرح کے کلمات میں بندہ اپنے آپ کو اپنے مذہب کو نہ مان نے اور نہ ہی کسی مذہب کا پابند ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔اور اس کی منشیات یہ ہوتی ہیں مذہب وغیرہ بعد میں ہے اس کے احکامات پر عمل بعد میں ہے کسی کے حکم کے پابند ہم بعد میں ہیں اس سے پہلے ہم انسان ہیں مذہب پر عمل کرنے سے کیا حاصل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ان کلمات میں منشیات یہ ہوتی ہیں بندہ اپنے اپ کو ہر چیز سے لا تعلق قرار دیتا ہے  اور یہی الحاد۔

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر 137 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:38، 28 مارچ 2023ء (م ع و)

شیعوں کے سلام کا جواب دینا کیسا[ترمیم]

(شیعوں کے سلام کا جواب دینا کیسا)

السلام علیکم

مولانا دانش حنفی صاحب

سوال یہ ہے شیعہ اگر سلام کرے تو کیا جواب دینا چاہئے کیا شیعہ میں بھی کچھ گمراہ ہیں یا کافر

سائل شانو

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب

شیعوں کے سلام کا جواب دینا جائز نہیں شیعوں میں گمراہ و کافر دونوں ہی ہیں۔

وہ لوگ گمراہ ہیں جن کا عقیدہ کفریہ نہیں ہے۔ اور جن کا عقیدہ کفریہ ہے وہ کافر ہیں

واللہ اعلم بالصواب

دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179

سوال نمبر

138 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:39، 28 مارچ 2023ء (م ع و)




61.5.153.136 02:11، 29 مارچ 2023ء (م ع و)

آج کل کے فارغین علم سے فارغ ہیں[ترمیم]

*آج کل کے فارغین علم سے فارغ ہیں*

آج کل کے فارغین علم سے فارغ ہیں میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر عالم علم سے فارغ و کھالی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کے ایک تعداد ایسی ہے جو دار العلوم سے تو فارغ ہو جاتی ہے سندیں مل جاتی ہیں مگر علم سے وہ کھالی ہے ۔ ایک صاحب مجھے بتا رہے تھے فلاں عالم نے PhD کی ہوئ ہے بہت اچھے عالم ہیں وہ یہ کہتے ہیں غلام بنانے کا جو سلسلہ ہے اسلام نے اس کو کلی طور پر بند نہیں کیا غلام کے بارے میں جو کچھ ہے میں اس سے مطمئن نہیں ہوں مزید وہ کہتے ہیں اس کو کلی طور پر انگریزوں نے بند کیا ہے اسلام نے نہیں۔۔

معاذ اللہ یہ اعتراض اہل مغرب کا ہے وہ یہ بطور اعتراض کرتے ہیں کے اسلام نے اس کو بند کیوں نہیں کیا کیوں جاری رکھا

خیر ہم نے کہا ان سے میری بات کرائے جو اشکالات ہیں اس بارے میں فقیر دور کریگا ان کو جب کال کی تو انہوں نے کہاں نہیں مجھے اس بارے میں کوئ بات نہیں کرنی۔۔ قارئین کرام جو خود اہل مغرب کے اعتراض سے متاثر ہو جو اس غلام کے احکام سے مطمئن نہ ہو وہ کیسے دوسروں کو اسلام کے بارے میں مطمئن کر پاۓ گا اور یہ حال کسی جاہل کا نہیں بلکہ عالم کا ہے۔۔

فقیر حنفی کے پاس ہند و پاک سے سوالات آتے ہیں فقیر ان کے جواب بھی دیتا ان سوالات کرنے والو میں عالم عوام سب ہوتے ہیں ، اس طرح ایک عالم صاحب نے مجھ سے سوال کیا ابو جہل کے بیٹے کے ساتھ نبی کریم کی بیٹی نکاح میں تھی جبکہ وہ تو کافر ہے اور کافر سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے۔۔ قارئین کرام یہ سوال کرنے والا کوئ جاہل نہیں ایک عالم ہے خیر ان کو تو میں نے جواب دیا مگر ان کے متعلق اس تحریر میں کیا لکھوں سوا اس کے انا للہ و انا الیہ رجعون

اسی طرح بعض حضرات بہار شریعت کی عبارتیں ارسال کرتے ہیں اور کہتے ہیں حضرت اس عبارت کو سمجھا دیں جبکہ وہ عبارتیں اتنی آسان ہوتی ہیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں اتنی آسان عبارات ان کی سمجھ نہیں آتی آگے کے معاملات کا تو اللہ ہی مالک ہے اور یہ حضرات کہیں مدرس ہیں تو کہیں امام ہیں، میرے ساتھ کے جو طالب علم رہے ہیں فارغ ہونے کے بعد بھی ان کا حال یہ ہے وہ مسائل معلوم کرنے کے لیۓ مجھے کال کیا  کرتے ہیں اور اکثر مسائل ان کے نماز کے متعلق ہوا کرتے ہیں اور بعض تو ایسے ہیں سفر کے احکام ان کو نہیں معلوم سفر کرتے ہیں تو مجھے کال کرتے ہیں کے قصر ہوگی یا نہیں یہ سب دیکھکر لگتا ہے فارغ ہونے کے بعد بھی علم سے فارغ ہیں

اللہ کریم حفاظت فرماۓ اس دور میں مساجد کے امام ایسے ہیں ان کو خود نماز کے مسائل نہیں معلوم عقائد کے متعلق ان کو نہیں معلوم ، ایک عالم صاحب نے تقریر میں کہا حضور کو فنا ماننا اللہ کو فنا ماننا ہے کیوں کہ حضور کو اللہ نے اپنے نور سے بنایا ، میں نے تقریر کے بعد ان سے بات کی پوچھا اللہ تو فرماتا ہے ہر چیز فنا ہوگی سوا اللہ کے پھر حضور کیوں نہیں ؟ اور جو آپ نے یہ کہا اللہ نے اپنے نور سے بنایا اس روایت کی شرح بیان کریں تو بولے اللہ نے اپنا نور الگ کیا پھر اس سے حضور کو بنایا تو اس لیۓ حضور کو فنا ماننا اللہ کو فنا ماننا ہے ، تب میں نے کہا یہ تو کفر شرک ہو گیا کے اللہ نے اپنا نور جدا کیا پھر اس سے حضور کو بنایا اس اعتبار سے تو نبی علیہ السلام جزو اللہ ہو گۓ اور یہ کفر و شرک ہے تو بات گھماتے ہوۓ بولے نہیں میرا مطلب اللہ کے رسول تو ہے ہی۔۔

اسی طرح ایک عالم صاحب نےتقریر میں صحابہ کو مرنے کے بعد عذاب قبر ہوا کہا اس پر کافی کچھ بولے

تقریر کے بعد جب میں نے ان سے بات کی تو انہوںنے کہا صحابہ کو عذاب ہو سکتا ہے ایک صحابی نے خودکشی کی تھی ان کو عذاب ہوا دو قبروں میں عذاب ہو رہا تھا وہ بھی صحابی تھے ۔ اس پر فقیر نے ان کا رد کیا اور دلائل دیۓ تو بولے وہ میں نے یو ٹیوب پر سنا تھا۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات ہوۓ ہیں جن کو میں مزید ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ مگر اہم بات یہ ہے یہ لوگ جاہل یا عوام میں سے نہیں ہیں دار العلوم سے فارغ ہیں کوئ مسجد کا امام تو کوی مدرس تو کوئ امام مدرس دونوں ہے ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے یہ دار العلوم سے تو فارغ ہوگے ساتھ ساتھ علم سے بھی فارع ہیں۔ اج کل ایسے ہی چمک دمک اونچی ٹوبی والے کو عالم سمجھا جانے لگا ہے اگرچہ وہ علم میں کھالی ہو مگر جو مخلص ہیں عاجزی والے عالم ہیں ان کو ترجیح نہیں دی جاتی

*استاذ العلماء مفتی محمد اکمل مدنی سلمہ الغنی فرماتے ہیں :*

*"آج کل ہر ایک کو اپنے (نام کے) ساتھ مفتی لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔*

*ایک پیچیدہ شرعی مسئلے کا درست حل بتانے کی* *صلاحیت نہیں، لیکن خود کو مفتی سے کم ظاہر کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔*

*نہ کسی ماہر مفتی کی صحبت اختیار کی، نہ مختلف موضوعات پر عرصۂ دراز تک فتاویٰ لکھے، لیکن مفتی سے کم کہا یا اس سے کم وصف کے ساتھ تعارف کرایا، تو حالتِ غضب* *دیکھنے والی ہوتی ہے۔*

*نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کے کچھ مسائل و فتاویٰ تحریر و بیان کرنے سے کوئی عالم، حقیقی  مفتی نہیں بن جاتا،*

*اور جبکہ اکثر تو فقط کاپی پیسٹ ہی کا کارنامہ ہوتا ہے۔*

*(قربِ الٰہی ،جلد 3، صفحہ 27)*

اللہ کریم صحیح معنی میں ہمیں عالم دین بناۓ آخری دم تک علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:38، 6 جون 2023ء (م ع و)

حروف آغاز[ترمیم]

1️⃣

بسم اللہ الرحمن الرحیم

  حروف آغاز

  نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

نبی کریم کی ذات پاک  جس طرح تمام دنیا کے لیے

رشد و ہدایت ہے اور آپ کا وجود مسعود پوری کائنات کے لیے جس طرح سراپا سراپا رحمت ہے اسی طرح آپ کی مبارک حدیث و سنت اور اسوہ حسنہ  امت کے لیے  مشعل اصلاح وفلاح ہے نبی کی اطاعت پیروی باعث فلاح کامیابی ہے

جہنم سے نجات جنت کی ضمانت ہے ہم پر لازم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کریں گناہوں سے بچ کر  نیکیوں والی زندگی گزاریں تاکہ اللہ اور رسول ہم سے راضی ہو جائیں

لہذا جو عظمت تقدس اور جو ادب و احترام مقام نبوت کا ہے وہی کلام نبوت کا بھی ہے  حدیث بیان کرتے اور سنتے وقت ادب و احترام کرنا ہم پر ضروری ہے امام مالک رحیمہ اللہ درس حدیث کا نہایت ہی  اہتمام  فرماتے  غسل کرکے عمدہ صاف لباس پہنتے  پھر خوشبو لگا کر مسند درس پر بیٹھ جاتے   ایک دفعہ دوران درس بچھو آپ کو ڈنگ مارتا رہا اس پیکر عشق و محبت کے جسم میں کوئی  اضطراب نہیں آیا انہماک و  استغراق کے ساتھ اپنے  محبوب کی دلکش روایات  دلنشین احادیث بیان کرتے رہے

حضور علیہ السلام کے پردہ کر جانے کے بعد بھی آپ کی احادیث  سننے پڑھنے کے وقت یہی ادب چاہیے  اور یہی آدب و عشق کا تقاضہ ہے محبوب کی ہر بات  ادب و احترام کے ساتھ بیان کریں ادب کے ساتھ سنی اور پڑھی جائے

مگر افسوس آج وہ ادب و احترام نہ رہا جیسا ہمارے اسلاف میں تھا آج خطبہ حضرات بیان کرتے وقت خوب چٹکلے چھوڑتے ہیں خود بھی خوب  ہنستے ہیں ساتھ میں  عوام  کو بھی ہنساتے ہیں  اور بعض تو  بہت کود کر بیان کرتے ہیں  اور دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے بیان کرتے وقت  اپنا عمامہ شریف  پھیک دیا ساتھ ہی   مائک بھی پھیک دیا سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے یہ مناظر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں  بلکہ ایک منظر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا  بیان کرتے وقت اپنا کرتہ اتار دیا   یہاں تک اپنا پجامہ تک  اتار دیا  کیا دینی مجلس کا یہی ادب ہوتا ہے  کیا ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا نہیں ہرگز نہیں جب ہم خود اسٹیجو سے

ایسی حرکتیں کریں گے تو اس حرکت سے عوام کو کیا تاثر جائے گا کیا ایسی حرکتوں سے عوام کے دلوں میں علماء کی عزت کم نہیں ہوگی لبرل کہلانے والے لوگوں کو کیا اس حرکت سے علماء پر انگشت نمائی کا موقع نہیں ملے گا اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں ہمیں دینی مجالس اور حدیث نبوی کی ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے دینی مجالس کو تمام خرافات سے بچا کر  پاکیزہ مہذب طریقے سے سجانے کی توفیق عطا فرمائے

1️⃣ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:40، 6 جون 2023ء (م ع و)

کتاب لکھنے کی وجہ[ترمیم]

2️⃣

*(کتاب لکھنے کی وجہ)*

مذہب اسلام کا دارومدار جن بنیادوں پر ہے ان میں سے ایک بنیاد حدیث مبارکہ بھی ہے اور امت مسلمہ حدیث کو حجت و بنیاد مانتی ہیں جب حدیث حجت ہے اور امت حدیث کو حجت مانتی ہے  تو حدیث کا تمام جھوٹی اور بناوٹی باتوں سے پاک و محفوظ ہونا ضروری  اور لازم ہے  اسی وجہ سے  محدثین نے فن اسماء الرجال جرح و تعدیل کا علم  ایجاد کیا  کی حدیث جھوٹی باتوں سے پاک رہے اسی لئے بزرگوں نے فرمایا کہ حدیث کی سند دین کا حصہ ہے اسی وجہ سے علمائے حدیث نے راویان احادیث پر جرح کی اور لاکھوں لوگوں کے نام قلمبند بھی کئے  جس  سے کی حدیث تمام اغلاط  سے پاک وصاف رہے

ہمارے اسلاف حدیث بیان کرنے میں بہت احتیاط اور خوف سے کام لیتے تھے  تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب نہ ہو جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

  _من کذب علی متعمدا فلیتبواء

مقعدہ من النار_

   *ترجمعہ۔( جس نے میری جانب جوٹی بات منسوب  کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے)* 📚 رواہ البخاری   مسلم)

یہ حدیث غایت درجے صحیح ہے اور متعدد علمائے احادیث کے نزدیک متواتر حدیث ہے نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف  جھوٹی حدیث کی نسبت کرنے کے بارے میں   کتنی  عبرت ہیں کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے  اسی وجہ سے ہمارے اسلاف حدیث کو بیان کرتے وقت بہت احتیاط برتا کرتے تھے جھوٹی روایت بیان  کرنا حرام وگناہ  کبیرہ ہے

امام جلال الدین سیوطی  رحیمہ اللہ

فرماتے  ہیں

مسلمانوں کا اس پر اجماع ہیں کی احکام وتر غیب ترہیب اور وعظ وغیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا حرام ہے گناہ  کبیرا ہے)

مشہور جھوٹی من گھڑت حدیث کا تحقیقی  جائزہ اس کتاب پر قلم اٹھانے کی ضرورت بھی اسی لیے پڑی  آج کل خطبہ حضرات کی  زبانوں اور عوام کی زبانوں پر جھوٹی روایات بہت عام ہوتی جارہی ہے میں نے خود اپنے کانوں سے خطبہ حضرات کو جھوٹی روایات بیان کرتے سنا دیکھا ہے  ایک خطیب صاحب نے بیان کیا حضرت امام حسین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کی میں ایک  مرتبہ میں  آپ سے بڑا ہوں) اس روایت پر  میں آگے اپنی اس کتاب میں تفصیلی کلام کروں گا ان شاء اللہ عزوجل،

اور ایک  خطیب صاحب کو بیان کرتے سنا کہ کربلا کے میدان میں مٹی بھی موجود نہیں تھی کی وہ تیمم کر پاتے اور  نہ ہی ان حضرات کو   کعبہ کا پتا تھا اور انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کی مولا ہماری نمازوں کو ایسے ہی قبول فرما لے کی  ہمیں کعبہ کا بھی نہیں پتا،

اور مزید سنیے یزید کی برائ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا حضرت عائشہ سے یزید نکاح کرنا چاہتا تھا  اب ان  سب کی حقیقت صرف اتنے الفاظ میں جان لیجئے حضرت عائشہ کا وصال یزید کے تخت خلافت پر بیٹھنے سے پہلے ہو گیا تھا اور کربلا میں مٹی بھی نہیں تھی کہ وہ تیمم کر پاتے اور  نہ ہی ان حضرات کو   کعبہ کا پتا تھا اور انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کی مولا ہماری نمازوں کو ایسے ہی قبول فرما لے کی  ہمیں کعبہ کا بھی نہیں پتا،

اور مزید سنے یزید کی برائی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا حضرت عائشہ سے یزید نکاح کرنا چاہتا تھا  اب ان  سب کی حقیقت صرف اتنے الفاظ میں جان لیجئے حضرت عائشہ کا وصال یزید کے تخت خلافت پر بیٹھنے سے پہلے ہو گیا تھا اور کربلا میں مٹی بھی نہیں تھی اس بات کی کتنی حقیقت ہے آپ بخوبی جانتے ہیں الغرض اس طرح کی جھوٹی روایات آج کل عام ہوتی جا رہی ہیں اسی وجہ سے اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، پہلے میں نے اس کتاب کو ہندی میں لکھا اور سوچا ہندی میں ہی اس کو  شائع کیا جائے  تاکہ جو اردو نہیں جانتے وہ اس کتاب سے فائدہ حاصل کر سکیں پھر اسی دوران خیال آیا کی اس کو اردو میں بھی تحریر کیا جائے تاکہ اردو جاننے والے بھی اس کتاب سے فائدہ حاصل کر سکیں تاکہ یہ کتاب دونوں طبقے کے لیے فائدہ مند ہو اردو جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں حضرات کے

لیے پھر اس کو اردو میں بھی تحریر کیا

فقیر دانش حنفی

1442ھ۔مطابق2021 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:40، 6 جون 2023ء (م ع و)

حدیث بیان کرنے میں اسلاف کی احتیاط[ترمیم]

3️⃣

(حدیث بیان کرنے میں اسلاف کی احتیاط)

امام ابن ماجہ اور  امام حاکم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی  ایک دن انہوں نے کہا

قال  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تو ان کی آنکھیں ڈبڈبائی  گردن کی رگیں  فول  گئ  پھر کہا سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جیسی بات فرمائی

( اصول حدیث)

حضرت  دجین  فرماتے ہیں میں مدینہ  پاک آیا وہاں حضرت  عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی حدیث بیان کریں انہوں نے معذرت  کی اور فرمایا مجھے کمی بیشی کا خوف ہے، ہم بھی جب حضرت  عمر رضی اللہ سے عرض کرتے تھے کی آپ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائے تو آپ بھی یہی فرماتے مجھے خوف ہے کی کہیں کمی بیشی نہ ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی میری طرف جھوٹ منسوب کرتا ہے  وہ جہنم

میں ہوگا

( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنے میں احتیاط)

حضرت عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  فرمایا کرتے تھے کی میں تم لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  حدیث کثرت سے بیان نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں  حدیث مبارکہ کو یاد نہیں رکھ سکا میں نے نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے جو کوئی میری طرف جھوٹ منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں  بنا لے

( حضرت علی رضی اللہ عنہ کی احتیاط)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میں تم میں سے  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث شریف بیان کرو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا   ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے

زیادہ پسندیدہ ہے

( حضرت انس رضی اللہ عنہ کی احتیاط)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کے آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہٗ فرمایا کرتے تھے کہ تم کو زیادہ حدیث بیان کرنے سے مجھے یہ فرمان روکتا ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری  ذات پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔  ( رواہ البخاری حدیث نمبر108) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:41، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحریر 4[ترمیم]

4️⃣

حضرت زبیر  رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کی کیا وجہ ہے کی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان نہیں کرتے جب کی حضرت عبداللہ ابن مسعود  رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں تو بہت حدیث بیان فرماتے ہیں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا میں نے جب سے اسلام قبول کیا تھا اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے دور نہیں رہا بس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے  سن بیٹھا ہوں جس وجہ سے حدیث شریف بیان نہیں کرتا کہ آقا  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے یعنی حدیث بیان کرنے میں ڈر لگتا ہے کہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب نہ کر بیٹھوں


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے احادیث بیان کرنے سے بچو مگر وہ  جن کا تمہیں علم ہو پس بیشک جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ  بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں  تیار کرلے

(مسند احمد حدیث 309)

یحییٰ ابن میمون  حضرمی کہتے ہیں ابوموسی غافی نے حضرت عقبہ بن عامر کو ممبر پر حدیث بیان کرتے سنا پھر حضرت  ابو موسی نے کہا یہ تمہارا ساتھی کیا  واقعی حدیث کو یاد کرنے والا ہے یا  پھر ہلاک ہو نے والا ہے بیشک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہمیں اخری  نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا تم اللہ کی کتاب کو لازم پکڑنا اور عنقریب تم ایسی قوم کی طرف لوٹو گے جو مجھ سے احادیث بیان کرنے کی مشتاق ہوگی پس جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو  وہ اپنا ٹھکانا آگ  میں تیار کر لے اور جس نے میری  بعض احادیث یاد کر رکھی  ہو

تو وہ  انہی احادیث کو بیان کرے

( مسند احمد  حدیث 312) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:42، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحریر 5[ترمیم]

5️⃣

میرے محترم عزیز بھائیو دیکھا آپ نے ہمارے بزرگان دین حدیث بیان کرنے میں کتنی احتیاط   کیا کرتے تھے کیسا خوف کھاتے تھے کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  طرف  جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے نیز آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی پڑھا جس کو جو حدیث یاد ہو وہی بیان کرے مگر افسوس آج کل خطبہ حضرات ایسی ایسی روایات بیان کرتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی وہ موضوع من گھڑت ہوتی ہے خطبہ حضرات سے سن کر عوام بھی ان جھوٹی روایات کو آپس میں روڈوں پر چوراہوں پر بیان کرتی ہے خطبہ حضرات کا انداز بیان سب کے سامنے ظاہر ہے جو جتنا چیخنے چلانے والا ہوتا ہے  عوام اسی کو زمانے کا سب سے بڑا عالم سمجھتی ہے مخلص علماء کو وہ عزت ترجیح نہیں دی جاتی جو  خطبہ حضرات کو دی جاتی ہے اور نہ ہی عوام ایسے مخلص  علماء کو سننا پسند کرتی ہے جو قرآن و حدیث کے دائرے میں رہ کر بنا نمک مرچ لگائے تقریر کرتے ہیں عوام کو ایسے  خطیب کی تقریر میں مزہ آتا ہے جو گمراہ کن نمک مرچ لگا کر تقریر کرتے ہیں ایک رات میں ان کو اتنے پیسے دیے جاتے ہیں جتنے یہ اپنی مسجد کے امام کو پورے مہینے میں نہیں دیتے ہیں جب کی وہ مسجد کا امام نیاز فاتحہ جنازہ نکاح وغیرہ کام کے لئے ہر وقت اس عوام کی خدمت کے لیے حاضر رہتا ہے ان کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتا ہے نماز سکھاتا ہے افسوس ہے ایسے لوگوں پر

(گمراہ کرنے والی تقریریں)

نماز روزہ اور اعمال صالحہ کے تعلق سے کچھ پیشاور مقرر بد مذہبوں کا رد کرتے ہوئے عشق رسول اور بزرگان دین سے محبت و عقیدت کے بیان میں اور ان کی  کرامات  کا ذکر کرتے ہوئے بے نمازی  پبلک کو خوش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے گھوم رہے ہیں جو بالکل غیر اسلامی ہیں وہ عشق رسول  وہ بزرگوں سے محبت وعقیدت نہیں سیکھا رہے بلکہ اس کی آڑ میں نماز روزے کو مٹانے کا کام کر رہے ہیں ان میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں کی جنت نہ نماز سے ملے گی  نہ روزوں سے نہ زکاۃ سے  نہ  حج سے بلکہ جنت تو عشق رسول سے ملے گی اولیاء سے عقیدت و محبت سے ملے گی ان جاہلوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ نماز خود عشق رسول کا ایک اہم حصہ ہے جو نمازی نہیں وہی صحیح معنی  میں عاشق رسول نہیں ہے اور جو عاشق رسول ہوگا اس کو نماز پڑھے بغیر چین ہی نہیں پڑے گا اور جو نماز اور  روزوں زکوۃ وغیرہ کو عشق رسول سے ایک دم الگ کر کے دکھائے وہ گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ایسے ہی ایک پیشاور مقرر اپنی تقریر میں کہتا ہے کی نماز   روزو وغیرہ اعمال کے بارے میں ہمیں پتا نہیں  کہ وہ قبول ہوتی  بھی ہے یا نہیں لیکن عقیدت وہ محبت ضرور قبول ہوتی ہے تو اس  نااہل سے کوئی پوچھیں کہ وہ تیری کون سی عقیدت و محبت ہیں جو نماز روزوں کو چھوڑ کر قبول ہوتی ہے اور نماز وہ روزوں سے بڑھ کر عقیدت و محبت کا کون سا کام ہے ارے نادان ارے نادان اللہ تعالی سے قبولیت کی امید رکھتے بندہ  نیک کام کرتا ہے علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:42، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحریر 6[ترمیم]

6️⃣

اور امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہنا یہی بندگی ہے جو بندے کا کام ہے صحیح بات یہ ہے عشق محبت عقیدت وارادت کا نام لے کر اعمال کی طرف سے لوگوں کو غافل و بے پرواہ  کرنے والے شیطان کا کام کر رہے ہیں

ایسے ہی ایک شخص نے ایک بزرگ شاعر کا یہ شعر پڑھا

گر وقت اجل سر تیری چوکھٹ

پر جھکا ہو

جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو

اور اس کا مطلب  یہ سمجھایا  کی نماز پڑھنے کی اور اس کی پابندی کی کیا ضرورت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ کو چومنے سے زندگی بھر کی قضا نماز ادا ہو جاتی ہے میں کہتا ہوں ذرا یہ تو بتائیے کی یہ شعر جس بزرگ  شاعر کا ہے وہ اعلی حضرت کے چھوٹے بھائی استاذ زمن حضرت مولانا حسن رضا خان بریلوی ہیں کیا انہوں نے زندگی میں کوئی نماز قضا کی تھی صحیح بات یہ ہے ان کی نماز تو نماز ساری عمر میں جان بوجھ کر کبھی جماعت بھی نہیں چھوٹی تھی تو  تمہارا عشق رسول اس منزل کو   پہنچ جائے کہ تمہاری نماز تو نماز جان بوجھ کر کبھی جماعت تک فضا  نہ ہوتی ہو  تبھی یہ شعر پڑھنا اور پڑھ کر سنانا اور کسی بھی نماز وہ جماعت چھوڑنے والوں کو یہ شعر نہ پڑھنے کا حق ہے جو نمازی  ہو وہیں پڑے اور جو نمازی  ہو وہی سنے  اور اسی کو سنایا جائے جو نمازی  ہو اور جو نمازی اور دین دار رہنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے ایسے مولویوں اور مقرروں کی صحبت  اور تقریروں سے دور رہے جن کے نزدیک تقریر خطاب  کی حیثیت ایک پیشے اور  کمائ کرنے  کہ  دھندے سے زیادہ نہ ہو کیونکہ ایسے بدعمل خطیب کاتو خود  باروز قیامت برا حال ہو گا روزے قیامت لوگوں میں سے زیادہ  سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جسے  اللہ نے اس کے   علم سے نفع نہ دیا

( احیاء العلوم)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا عالم کو سخت عذاب دیا جاۓگا اس کے عذاب کی  شدت کو بڑا سمجھتے ہوئے جہنمی اس کے پاس آئیں گے  

(اس سے بدعمل عالم مراد ہے)

( احیاء العلوم جلد 1)

(اعلی حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں)

اعلی حضرت سے سوال ہوا ایک شخص اسلام و ایمان شرع شریف کے احکام کو جانتا ہے وہ لوگو کو وعظ کر سکتا ہے

یا نہیں  اعلی حضرت نے جواب میں لکھا  اگر عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاھل کو وعظ کہنے کی اجازت نہیں وہ جتنا سنواریں گا اس سے زیادہ بگاڑیں گا (فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 717)

ایسے خطیب و عالم جو عالم نہیں دین کے لئے نقصان کا سبب بن رہے ہیں

(بدعمل  خطیبوں کا حال)

حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن عالم کو لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈالا جائے گا جس سے اس کی آتے بہار آ جائنگی وہ اس کے گرد ایسے چکر لگائے گا  جیسے گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے جہنمی اس کے پاس آئینگے اور  پوچھیں گے  تجھے کیا ہوا ہے وہ کہے گا میں نیکی کا حکم دیتا تھا مگر خود عمل نہیں کرتا تھا برائی سے  منع کرتا تھا مگر خود اس کا ارتکاب کرتا تھا ( احیاء العلوم جلد 1)

عالم کی نافرمانی پر اسے دو گنا عذاب اس وجہ سے دیا جائے گا کہ وہ علم ہونے کے بعد بھی معصیت میں  مبتلا ہوا علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:43، 6 جون 2023ء (م ع و)

مولا علی نے ایک خطیب کو مسجد سے نکالا[ترمیم]

7️⃣

(مولا علی رضی اللہ عنہ  نے ایک خطیب کو مسجد سے نکالا)

مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک وعظ کرنے والے سے پوچھا کیا تم ناسخ ومنسوخ کا  علم جانتے ہو اس نے جواب دیا نہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا فاخرج من مسجدنا  ولا  تذکر  فیہ

ترجمہ  ہماری مسجد سے نکل جا یہاں وعظ  نہ کر

کنز العمال جلد 5- 2943

( حضرت ابوبکر کی نگاہ کا کمال)

  آلحزم  کے ایک شخص بیان کرتے  ہیں کے حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے بہت طویل خطاب کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس کو کہا جائے کے اٹھ اور دو رکعت نماز ادا  کر اور ان  میں فلاں فلاں سورت تلاوت کر تو اس کی طبیعت فورا اکتا جائیں گی

( مصنف عبدالرزاق جلد 3 حدیث

نمبر 222)

ہمارے دور میں بہت سے خطیب ہیں

جو نماز تک نہیں  پڑھتے مگر وہ

خطاب کرتے ہیں تو کئی کئی گھنٹے تک

خطاب کرتے ہیں

( عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک خطیب پر  جلال)

ایک شخص قصہ گو خطیب تھا کہتا ہے نصف شعبان کی رات کا اجر  ثواب لیلۃ القدر کی برابر ہے حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا اگر میں اسے یہ کہتے ہوئے سن لیتا اور میرے ہاتھ  میں اس وقت عصا ہوتا تو میں اس کے

سر میں مار دیتا )

ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہ تھا خطیب سے غلط بیان نہیں سنتے تھے اور آج ہماری مجلسوں کا حال یہ ہے کوئی غلط بیان کرے تو اس کو روکتے نہیں اور اگر کوئی روکنے کی ہمت کرے تو اسی بے چارے پر لعن طعن کرتے ہیں اللہ کریم  عقل سلیم   عطا فرمائے

( علماء کم  خطیب زیادہ ہونگے)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایسے زمانے میں ہو جس میں  علماء  زیادہ ہیں اور خطیب کم ہے جو شخص اس زمانے میں آپ نے علم کے  دسواں حصے پر بھی عمل ترک کر دے گا

  تو وہ  ہلاک ہوجائے گا اور عنقریب لوگو پر ایک  زمانا  ایسا بھی آئے گا علماء  کم خطیب بہت زیادہ ہوں گے اس زمانے میں جو شخص  اپنے ‏ علم کے دسواں  حصے

پر  بھی عمل کرلے گا وہ نجات پا جائے گا

( مجمع الزوائد جلد 1)

یہ قیامت کی نشانی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور اب حال یہ ہیں کے عالم خال خال ملتے ہیں جبکہ خطیب کی بھرمار ہے ان کی بھاری بھرکم فیس ہے منہ مانگے پیسے لیتے ہیں مگر جب کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو جواب آتا ہے  میں عالم تھوڑی ہوں

بلکہ میں تو  خطیب ہوں  مسئلہ کسی اور سے پوچھیں آپ نعوذ باللہ من ذالک یہ حال ہے ہمارے زمانے کے خطیبوں کا

احیاء العلوم میں حضرت امام غزالی رحیمہ اللہ آپنے دور کے خطیبوں کا حال بیان فرماتے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو وعظ و تقریر کی اصل منہج سے پھر چکا ہے اس زمانے کے سارے خطیب اس میں مبتلا ہے سوائے ان نادر اہل علم کے  جنہیں  اللہ کریم نے  شرور سے محفوظ رکھا ہوا ہے مزید لکھتے ہیں ان چند کے سوا ہوسکتا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں ایسے پاکیزہ نفس لوگ موجود ہوں لیکن ہمیں اس کا علم نہیں

( احیاء العلوم جلد 3)

یہ حال امام غزالی کے دور کا ہے اس سے ہم اپنے دور کا اندازہ لگا سکتے ہیں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں ان خطیبوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو نقطہ آفرینیاں کرتا ہے ہم وزن جملے  بازیہ  تکبندیوں سے کام لیتا ہے  الغرض ان کی ساری کاوش جملے کی وزن بندی پر صرف ہوتی ہے وہ عوام میں جوش پیدا کرنے کے لیے  وصالو فراق کے اشعار پڑھتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی مجلس میں بناوٹی وجد و نعرے بازی پائی جائے خواہ یہ سب فاسد    اغراض کے لئے ہی کیوں نہ ہو  کہ یہ انسان کے بھیس میں شیطان ہے انہوںنے لوگو کو راہ راست سے  بھٹکا دیا ہے گزشتہ زمانوں کے خطیبوں میں اگر کوئی ذاتی کمزوری ہوتی تو کم از کم دوسروں کی اصلاح کرتے تھے شریعت کے مطابق  وعظ و تقریر کرتے تھے لیکن یہ لوگ تو اللہ کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں اور انہوں نے اللہ کی مخلوق کو اللہ کی رحمت کے نام پر دلفریب امید دلاکر دھوکے میں ڈال دیا ہے تو ان کے خطاب سے  سننے والوں میں گناہ پر جسارت و دنیا کے بارے میں  رغبت پیدا ہوتی ہے وعظو کا یہ فریب دوآشتا ہو جاتا ہے خاص طور پر جب یہ حسین و جمیل لباس اور سواریوں سے خود کو مزین کرتے ہیں اگر آپ سر کی چوٹی سے لے کر پاؤں تک ان کو دیکھے تو دنیا کے بارے میں ان کی شدید حرص کا اندازہ ہوجائے گا تو ان خطیبوں کا فساد اصلاح کے مقابلے میں زیادہ ہے بلکہ درحقیقت  اصلاح  تو ہے ہی نہیں یہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انکی دھوکہ بازی پوشیدہ نہیں ہے

( احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 486) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:44، 6 جون 2023ء (م ع و)

اس زمانہ میں وعظ کا انداز کیسا کو[ترمیم]

8️⃣

(اس زمانے میں وعظ کا انداز  کیسا ہو)

اس زمانے کے لوگوں کے ساتھ فقط امید کے اسباب عمل میں نہیں  لانا چاہیے بلکہ خوف دلانے میں مبالغہ کرنا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو  کے لوگ حق اور درست راستے سے ہٹ جائے  فقط امید کے اسباب کا ذکر تو ان کو بالکل ہلاک کر دے گا لیکن چوںکی امید کے اسباب دلوں کے لیے خفیف تر اور  نفسو کے لئے لذیذ تر ہیں اور خطیب تو صرف چاہتے ہی یہی ہے کہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں اور کلمات تحسین بلند کریں خواہ کسی بھی طرح اسی لیے وہ امید کی طرف مائل ہوگئے  یہاں تک کہ  بگاڑ میں مزید  اضافہ ہوگیا اور سرکشی میں منہمک لوگ

اپنی سرکشی میں اور زیادہ بڑھ گئی

( احیاء العلوم جلد 4)

محترم میرے دینی اسلامی بھائیو یہ حال حضرت امام غزالی نے اپنے دور کا بیان کیا ہے ہمارے دور کا حال یہ ہے جب خطیب ممبر پر آتا ہے تو نعرہ تکبیر نعرہ رسالت کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں اور تمام نعرے اس کی آمد پر لگائے جاتے ہیں جب کی کسی کی آمد پر ذکر کرنا  کہ اس

کے آنے کی لوگوں کو خبر ہو جائے یہ ناجائز ہے  

بہار شریعت   جلد 1 صفحہ  533

پر ہے   گاہک کو  سودا دکھاتے وقت  تاجر کا اس غرض سے درود شریف پڑھنا یا سبحان اللہ کہنا کہ اس کی چیز کی عمدگی ظاہر ہو ناجائز ہے   ایسے ہی کسی بڑے کو دیکھ کر اس نیت سے درود شریف پڑھنا کے لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو جائے تاکہ اس کی تعظیم کو لوگ اٹھے اور جگہ چھوڑ دیں یہ ناجائز ہے

ہمارے یہاں آمد پر خوب نعرے بلند کیے جاتے ہیں اب اگر کوئی یہ مسئلہ بتانے کی کوشش کرے تو اس بیچارے کی خیر نہیں اس سے کوئی یہ نہ سمجھے ہم نعرہ کو منع کر رہے ہیں نعرہ  بے شک لگائیں لیکن اس میں نیت کسی کی آمد کی نہیں صرف اللہ کی رضا کی ہو حال یہ ہے جتنی اونچی ٹوپی گویا اتنا اونچا مولانا اللہ کریم حق بولنے سننے اور جھوٹی روایات بیان کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہمارے وعظ و نصیحت میں  تاثیر اخلاص پیدا فرمائے

  آمین یارب العالمین علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:44، 6 جون 2023ء (م ع و)

ضروری گزارش[ترمیم]

9️⃣

(ضروری گزارش)

احادیث موضوع پر قلم اٹھانا بہت ذمہ داری کا کام ہے سیرت حکایات پر قلم اٹھانا تو آسان ہوتا ہے لیکن احادیث موضوع پر بہت مشکل کام ہے کیونکہ کسی بھی حدیث کو موضوع کہنا آسان نہیں ہوتا علماء جانتے ہیں جرح تعدیل اسماء الرجال احادیث موضوع کثیر کتابیں دیکھنی پڑتی ہیں کبھی کوئی حدیث کسی سند کے ساتھ  موضوع ہوتی ہے لیکن دوسری سند کے ساتھ  ضعیف ہوتی ہے  یا کچھ اور ہوتی ہے  موضوع نہیں ہوتی بتقاضہ بشریت یا میری کم علمی کی وجہ سے کہیں غلطی پائ  فورا میری اصلاح فرمائیں اور مجھے شکریہ کہنے کا موقع عطا فرمائے

فقیر دانش حنفی علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:45، 6 جون 2023ء (م ع و)

حدیث کسے کہتے ہیں[ترمیم]

1️⃣0️⃣

حدیث جمہور محدثین کی اصطلاح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے ایسے ہی صحابہ تابعین کے قول و فعل اور تقریر کو  بھی حدیث کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن عام   زبان میں پہلا ہی محاورہ ہے لفظ حدیث سنتے ہی ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل یا تقریر ہے

( تقریر)  تقریر کا مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں  کسی شخص نے کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور آپ نے اس پر  انکار نہیں کیا نہ ہی اس سے منع فرمایا بلکہ اس پر خاموش  رہ کر اسے ثابت قرار رکھا بلفظ دیگر تقریر کا مطلب ہوتا ہے خاموش تائید

میں نے صرف حدیث کی اصطلاحات کی  ذکر کیا ہے اگر میں حدیث کی قسمیں اور حکم بیان کروں تو پھر یہ کتاب بہت طویل ہوجائے گی اور اصل مقصد رہ جائے گا اس لئے میں تمام احادیث کی  تعریفات اور اس کی قسمیں چھوڑ رہا ہو  میں صرف یہاں اب موضوع حدیث کسے کہتے ہیں یہ ذکر  کروں گا اور قارئین آپ بھی اس کو ذہن میں محفوظ فرما لیں کیونکہ اس کتاب میں بار بار جگہ جگہ لفظ موضوع آئے گا

( موضوع حدیث)   متعون بالکذب کی حدیث کو  موضوع کہا جاتا ہے

(  اس حدیث کا حکم)  جس سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے اگرچہ عمر میں ایک ہی بار کیوں نہ ہو تو اس کی حدیث  ہمیشہ کے لیے غیر مقبول ہو جائے گی اگرچہ وہ اس سے توبہ کرلے

جو  جھوٹی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف با طور  حدیث منسوب کر دی گئی ہو اسے موضوع حدیث

کہا جاتا ہے

( نوٹ)۔  کسی حدیث پر موضوع ہونے کا حکم زن غالب سے لگایا جاتا ہے قطعی کے ساتھ کسی  حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا  موضوع حدیث کو بیان کرنا ناجائز ہے مثال کے طور پر

الباذنجان شفاء من کل داءٍ

ترجمہ۔  بیگن ہر بیماری کے لئے شفا ہے علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:45، 6 جون 2023ء (م ع و)

کوڑا ڈالنے والی بڑھیا[ترمیم]

1️⃣1️⃣

(کوڑا ڈالنے والی بڑھیا )

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ایک بڑھیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کوڑا پھینکا کرتی تھی ایک دن  وہ  بڑھیا بیمار ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھنے اس کے گھر تشریف لے گئے یہ واقعہ جھوٹا ہے ایسی کوئی روایت نہیں ہےاس واقعہ کی حقیقت کیا ہے جانتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کے لئے یہ جائز مناسب نہیں کہ آپنے اپکو وہ ذلت پر پیش کرے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان اپنے آپ کو ذلت پر کیسے پیش کرے گا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا ایسی آزمائش اور امتحان سے  تعارض کرے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔  

(شعب الایمان)

اب ذرا غور کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایمان والوں کے لیے فرما رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ذلت سے بچائے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو کیسے جان بوجھ کر اس خاتون کے گھر کے پاس تشریف لے جاتے تھے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا ڈالا کرتی تھی  یہ بات کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو اتنا کمزور ظاہر کرے کہ اس کے علاقے کے  فاسق فاجر اس کو ہر طرح کی تکلیف دینے پر جری ہو جائیں اب بتائیں جب یہ بات عام مومن کے لیے جائز نہیں کہ اس طرح کرے کہ ہر فاسق و فاجر اس کو تکلیف دینے پر جری ہوجائے تو نبی پاک کے لئے کیسے درست ہو سکتا ہے کے وہ بڑھیا اتنی جری  ہو گئی تھی ہر روز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا ڈالا کرتی تھی اور کوئی بھی اس کو منع نہیں کرتا تھا اور نہ ہی رسول اللہ نے اس کو منع فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی اور نہ ہی آپ  صلی اللہ علی  صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زمین پر ظاہر ہوا حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں اگر آپ کا حکم ہو تو میں ان پہاڑوں کو آپس میں ملا دو یہ اس وقت عرض کیا تھا جب کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی تھی اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  غمگین ہو جائیں اللہ تعالی حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سدرہ سے روانا فرماتا ہے کے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دو  انتہائی حیرت کی بات ہے کہ وہ بڑھیا  کوڑا ڈال کر  تکلیف پہنچائیں اور رسول اللہ غمگین بھی ہو  نہ ہی جبرئیل آئے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو منع کرے اور نہ ہی آپ اپنا راستہ تبدیل کرے اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ پیار کرنے والے صحابہ  اس  بڑھیا  سے کچھ نہ کہیں

(مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب)

آپ فرماتے ہیں ہماری معلومات کے مطابق حدیث و سیرت کی مستند و معتبر کتاب میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے یہ  واقعہ ویسے ہی مشہور ہو گیا ہے کسی بھی کتاب میں اس کی کوئی سند نہیں ملتی ایک ایسی ہی روایت امام اعظم کی طرف بیان کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس کا بھی کوئی حوالہ نہیں ملا حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کوڑاکرکٹ والی روایت اس وقت یاد نہیں لہذا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا

(فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 415)

ہر دور میں واعظ حدیث لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے اس طرح کا واقعات بیان کرتے رہے ہیں اسی لیے محدثین نے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:46، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا حضرت بلال سین کو شین پڑھا کرتے تھے[ترمیم]

1️⃣2️⃣

(کیا حضرت بلال رضی اللہ عنہ شین  کو سین  پڑھا کرتے تھے)

بہت مشہور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے منہ سے شین کی جگہ سین نکلتا تھا اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہونٹ موٹے تھے جس وجہ سے شین نہیں نکلتا تھا  جس وجہ سے ان کو اذان پڑھنے سے روکا تو آپ نے فجر کی اذان نہیں دی تو سورج نہیں نکلا یعنی صبح نہیں ہوئی یہ دونوں روایتیں موضوع ہیں من گھڑت ہے  باطل ہے  محدثین نے اسے باطل موضوع جھوٹ قرار دیا ہے علامہ علی قاری علامہ طاہر پٹنی تحریر فرماتے ہیں  علی السنتہ عوام  ولم نرہ  فی شیء من الکتاب

عوام کی زبانوں پر یہ بات چل پڑی ہے حالانکہ ہمیں یعنی محدثین حضرات کو یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نظر نہیں آئی  علامہ عجلونی حضرت علامہ ناجی کا قول نقل کرکے لکھتے ہیں اس حدیث کے موضوع ہونے کا  یقین اس درجہ کا تھا کی علامہ فرماتے تھے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھا کر کہتا ہوں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کبھی اسہد سین  کے ساتھ کبھی نہیں پڑھا علامہ عجلونی کشف الخفاء میں یہ بھی لکھتے ہیں محدثین نے حضرت بلال کی سوانح حیات میں یہ بھی لکھا ہے حضرت بلال کی آواز اونچی تھی حسین خوبصورت تھی امام سخاوی فرماتے ہیں اگر حضرت بلال کی آواز میں لکنت ہوتی تو بہت سارے ذریعہ  سے یہ بات معلوم ہوتی نیز منافقین گمراہ لوگ اسی کو لے کر ایک نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیتے حافظ ابن کثیر نے فرمایا انہ  لیس لہ اصل اس کی کوئی اصل نہیں ہے  محدثین کی تصریحات سے پتا چلا یہ روایت جھوٹی باطل بنائی ہوئی ہے حضرت بلال پر محض یہ الزام بہتان ہے ایک عام مومن پر الزام بہتان لگانا گناہ ہے تو ایک صحابی پر جھوٹی تہمت الزام لگانا کتنا بڑا جرم گناہ ہوگا  جب یہ بات ثابت ہوگئی حضرت بلال کی زبان کے تعلق سے کہی جاتی ہے باطل محض ہے تو اس سے پتا چلا صبح نہ ہونے والا  قصہ بھی جھوٹا ہے آئیے اب میں آپ کو بخاری کی روایت بتاتا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ صبح  نہ ہونے والا  قصہ بھی جھوٹا باطل ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے جب اپکو نیند آنے لگی تو اتر پڑے اور حضرت بلال سے کہا ہمارے لئے تو رات کا خیال رکھنا یعنی فجر میں اٹھانا حضرت بلال نے جتنا مقدر میں تھا نفل ادا کیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سو گئے جب فجر قریب ہوئی تو حضرت بلال نے اپنی اونٹنی کے ساتھ ٹیک لگا دی اسی حالت میں آپ پر نیند غالب آگئی جس وجہ سے آپ کی آنکھ نہیں کھلی اور نہ کسی صحابی کی یہاں تک کے ان کو دھوپ محسوس ہونے لگی تو سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور فرمایا بلال یہ کیا ہوا بلال نے عرض کی میری جان کو اسی نے روکے رکھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو روکے رکھا اپ نے  اونٹوں کو چلانے کا حکم دیا تھوڑی دور  اونٹوں کو چلایا  پھر آپ نے وضو کیا اور

نماز پڑھائی

دیکھا آپ نے حضرت بلال نے آذان بھی نہیں پڑھی  بلکہ سورج بھی نکل آیا اب اس واقعے کی روشنی میں صبح نہ ہونے والے کی کیا حیثیت ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ لوگوں کا بنایا ہوا ہے اس کی کوئی اصل نہیں  ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتا دوں جو  حضرات حضرت بلال کے رنگ کو کالا بولتے ہیں یہ بھی صحیح نہیں ہے  بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ گندمی تھا  اگر میں اس پر بحث کروں تو یہ کتاب اسی سے پر ہو جائے گی اور ہمارا اصل مقصد رہ جائے گا اس لئے میں اس پر بحث نہیں کرتا  ہاں البتہ

اگر کسی کو حضرت بلال کے رنگ اور وہ حبشی تھے یا نہیں

جاننے کا شوق ہو تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں جمال بلال رضی اللہ عنہ تحقیق سے آپ کے رنگ اور حبشی نہ ہونے پر کلام کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے

( المقاصد الحسنہ جلد 1 صفحہ 397)

( کشف الخفاء جلد 1)

(موضوعات کبیر حدیث نمبر 297)  (بخاری حدیث نمبر 595) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:47، 6 جون 2023ء (م ع و)

نعلین کے ساتھ عرش پر[ترمیم]

1️⃣3️⃣

(نعلین عرش پر)

معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نعلین مبارک  پہن کر گئے تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتارنا چاہا تو آواز آئی اے حبیب نعلین کے ساتھ تشریف لائیں تاکہ عرش کو عزت زینت حاصل ہو مذکورہ روایت کے متعلق امام   اہل سنت اعلی حضرت

رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ  محض چھوٹ ہے موضوع ہے  

(  احکام شریعت حصہ دوم صفحہ 160)

ملفوظات اعلی حضرت میں بھی ہے کہ یہ روایت محض باطل موضوع ہے  

( ملفوظات اعلی حضرت صفحہ 293)

شارح بخاری شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں اس روایت کے موضوع ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ روایت حدیث کی کسی معتبر

کتاب میں نہیں ہے جو صاحب یہ روایت بیان کرتے ہیں ان سے پوچھے کہ کہاں لکھا ہے ایسا ( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ 370)

حضرت علامہ امجد علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ مشہور ہے کہ شب معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نعلین مبارک پہن کر عرش پر تشریف لے گئے اور  واعظین اس کے متعلق ایک اور روایت بیان کرتے ہیں اس کا ثبوت نہیں اور یہ بھی ثابت نہیں کہ برہنہ پاؤں تھے لہذا اس کے متعلق سکوت کرنا بہتر ہے  

( بہار شریعت حصہ 16 مجلس خیر مسئلہ نمبر 6) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:47، 6 جون 2023ء (م ع و)

حضرت جابر کے بچوں کے زندہ ہونے کی تحقیق[ترمیم]

1️⃣5️⃣

(حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے زندہ ہونے کی تحقیق)

خندق کھودنے کے دوران حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا دعوت کرنا اور تھوڑا سا کھانا بہت سارے صحابہ کو کفایت کرنا یہ واقعہ بخاری کے ساتھ تمام کتب میں موجود ہے اور یہ واقعہ جو کہ صحیح بھی ہے اس لیے اس پر تو کلام بنتا نہیں لیکن اس کے ساتھ ایک واقعہ اور جوڑا جاتا ہے اور بہت سے لوگ تو یہاں تک بول دیتے ہیں یہ بھی بخاری میں ہے بلکہ وہ جو اپنے کو عالم کہلاتے ہیں لیکن ان کا مطالعہ مضبوط نہیں ہوتا  وہ بھی کہہ دیتے ہیں یہ بخاری میں ہے میں نے جب ان واقعہ  کی تحقیق کی اور اپنے احباب کو ان واقعات کی تحقیقات بتائی تو انہوں نے 2  عالموں سے اس بارے میں معلوم کیا تو عالم صاحب نے کہا یہ تحقیق غلط ہے کیونکہ یہ واقعہ بخاری میں موجود ہے اور وہ دونوں عالم اپنے آپ کو مفتی  کہلاتے ہیں  آئے اس کی تحقیق کیا ہے جانتے ہیں جیسے کہ ہم بتا چکے ہیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا واقعہ صحیح ہے بخاری سمیت کئی کتابوں میں یہ موجود ہے حضرت جابر کے رضی اللہ عنہ کے بچوں کا زندہ ہونے کے واقعے کی طرف آتے ہیں  حضرت جابر نے بکری ذبح کی تو آپ کے دو بچے تھے انہوں نے بکری ذبح ہوتے دیکھی تو آپ کے بڑے لڑکے نے چھوٹے لڑکے کو ذبح کر دیا آپ کی زوجہ محترمہ چھت پر آئی اور یہ منظر دیکھا تو اپنے بڑے لڑکے کی طرف بڑھی تو وہ ڈر گیا اور وہاں سے بھاگا چھت سے نیچے گرکر فوت ہوگیا اپکو  بہت صدمہ ہوا پر یہ بات  آپ نے کسی کو نہیں بتائی  جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے کھانے کے لئے تو حضرت  جبرئیل علیہ السلام آئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جابر کے بچوں کو بلائیں آپ ان کے ساتھ کھانا کھائے پھر حضرت جابر رضی اللہ کی زوجہ پورا واقعہ بیان کرتی ہیں پھر نبی کریم ان کے بچوں کو زندہ کر دیتے ہیں یہ واقعہ غیر معتبر اور بے سند کچھ کتابوں میں ذکر ہے لیکن یہ واقعہ صحیح نہیں ہے غیر معتبر ہے بلکہ موضوع ہے  میں نے اس واقع کے لئے   کافی کتاب دیکھی بالآخر یہ واقعہ موضوع معلوم ہوا یہ واقعہ شواہدالنبوہ میں علامہ جامی نے ذکر کیا ہے لیکن کوئی حوالہ کوئی سند ذکر نہیں کی اور ان ہی کے حوالے سے مدارج النبوتہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی لکھا   اس  میں بھی کوئی سند کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا  یہ واقعہ تاریخ خمیس میں بھی لکھا ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی فرما دیا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں

لکنھا لم تشھر اشتھارا  کے اس کو مشہور نہ کیا جائے  یہ مشہور نہیں اس کا ثبوت نہیں ہے ( تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس  مؤلف حسین بن دیار بکر  صفحہ 500)

کی عبارت یہ ہے

دوسرا یہ واقعہ اس وجہ سے موضوع ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا انتقال احد کی جنگ میں ہوا تھا جیسے کی خود حضرت جابر نے بتایا  بخاری میں روایت موجود ہے اور جنگ احد تین ہجری شوال کے مہینے میں ہوئی جنگ  میں حضرت جابر کے والد شہید ہوئے جنگ خندق سن پانچ ہجری  ذیقعدہ میں ہوئی حضرت جابر کے بچوں کا واقعہ  بھی پانچ ہجری کا ہے کیونکہ جنگ احد کے بعد حضرت جابر نے ایک بیوہ عورت سے اس لئے شادی کر لی تھی آپ کی سات بہن تھی جو کی چھوٹی تھی اور ایک روایت میں نو بہنو کا بھی ذکر ہے ان کی  دیکھ بھال کی وجہ سے بیوہ عورت سے نکاح کیا تھا آپ کا نکاح تین ہجری کے آخر میں ہوا یا پھر چار ہجری کے شروع میں اور جنگ خندق  ہوئی پانچ ہجری میں جنگ احد  اور جنگ خندق کے درمیان 13 مہینوں کا فاصلہ ہے اب آپ خود اندازہ لگا لے تیرہ مہینے کے درمیان میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نکاح بھی کر لیا اور آپ کے انہی تیرا مہینے میں شادی بھی ہوئی اور دو اولاد بھی  ہو گئی ہو اور وہ بھی اتنی بڑی ہو گئی ہو ایک بچہ دوسرے کو لٹا کر چھوری لے کر ہاتھ میں اور پھر اس کی گردن پر بھی چلا دی ہو کیا یہ سب ممکن ہے تیرہ مہینے کے عرصے میں ہرگز  ممکن نہیں اگر ہم اولاد کو ہونا تسلیم کریں تو اس حساب سے آپ کا ایک ہی بچہ ہونا تسلیم ہوتا ہے لہذا مذکورہ واقعے کی حقیقت کیا رہ گئی اب آپ با خوبی سمجھ گئے  ہونگے اصول حدیث میں ہے جب کوئی روایت عقل اور شواہد کے خلاف ہو اس روایت پر محدثین وضع کا حکم لگاتے  ہیں  اور مذکورہ واقعہ بھی عقل اور شواہد کے خلاف ہے محض 13 مہینے میں اتنا سب کچھ ہونا ممکن نہیں علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:48، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحقیق پر اعتراض اور اس کے جواب[ترمیم]

1️⃣6️⃣

میری اس تحقیق کے بعد کچھ لوگوں نے کہا جس میں اہل علم بھی شامل ہیں اس واقعہ کو موضوع ہونا تاریخ سے ثابت کیا گیا ہے لہذا تاریخ سے کوئی واقعہ  موضوع نہیں ہو سکتا  

ایک مفتی صاحب نے جب یہ سنا حدیث عقل شواہد کے خلاف ہو تو وہ موضوع ہوتی ہے  تو انہوں نے جواب دیا کی معجزہ بھی تو عقل کے خلاف ہوتا ہے تو کیا معجزہ کو بھی موضوع اور من گھڑت کہا جائے گا  اب میں  مفتی صاحب کے اس اعتراض کے بارے میں  صرف یہ کہوں گا

تو ایسے حضرات کے علم  میں اضافے کے لئے ہم یہ بتا دیں محدثین تاریخ کے اعتبار سے بھی روایات پر موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں

امام  جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اذا راءیت الحدیث یباین المعقول او یخالف منقول او بناقض الاصول فعلم انہ موضوع اگر آپ کو کوئی ایسی حدیث ملے جو عقل کے خلاف ہو یا قرآن و حدیث کے نقل کے خلاف ہو یا دین کے اصولوں کے متضاد ہو تو جان لو کہ یہ حدیث موضوع ہے

( تدریب الراوی موضوع حدیث کی بحث)  امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں ان من جملتہ  دلائل الوضع ان یکون  مخالفا للعقل بحیث لا یقبل التاویل حدیث کے جعلی  موضوع ہونے کے  دلائل میں سے یہ بات شامل ہے یہ عقل کی اس طرح خلاف ہو کے اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو

(تیسیر مصطلح الحدیث المقصد الثالث المردود بسبب طعن فی الراوی)

  میں ہے

او ما یتنزل منزلتہ اقرارہ

کان یتحدث عن شیخ فی

فیسأل عن مولدہ ھو فیذکر تاریخا تکون وفاتہ ذالک الشیخ قلبل مولدہ  راوی  ایسی بات کرے جو اقرار کے قائم مقام ہو  جیسے کسی شیخ سے حدیث بیان کریں جب  اس شیخ کی ولادت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ایسی تاریخ ذکر کرے جو اس شیخ کی تاریخ وفات کے بعد ہو

راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو یا اس کی وفات کے بعد پیدا ہو یا جس جگہ سے سماع کا دعوی کر رہا ہوں وہاں کبھی گیا ہی نہ ہو جیسے ماموں بن احمد ہروی نے دعوی کیا کے اس نے ہشام بن عمار سے سنا حافظ ابن حبان نے اس سے پوچھا تم شام میں کب داخل ہوئے  تو اس نے کہا ڈھائی سو 250 ھجری میں  اس پر حافظ ابن حبان نے فرمایا ہشام جس سے تم روایت کر رہے ہو اس کا انتقال تو 245 ھ  میں ہو چکا ہے

اسی طرح عبداللہ بن اسحاق کرمانی نے محمد بن ابی یعقوب سے حدیث روایت کی حافظ ابوعلی نشاپوری اس کے پاس آئے اور اس کا سن ولادت معلوم کیا تو اس نے 251 بتایا حافظ ابو علی نے کہا کہ محمد بن یعقوب تو تمہاری ولادت کے 9 سال پہلے وفات پا چکے تھے  اسی طرح محمد بن حاتم کشی نے عبد بن حمید کے واسطے سے حدیث بیان کی تو حاکم ابو عبداللہ نے کہا کہ اس شیخ  نےعبد بن حمید کی وفات کے تیرہ سال بعد حدیث اس سے سنی ہے

( تدریب الراوی )

(میزان الاعتدال) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:49، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحقیق پر اعتراض کی 2 تحریر[ترمیم]

1️⃣7️⃣

(تاریخی حقائق کے خلاف کوئی روایت ہو)

اس کی مثال وہ معادہ ہے جو خیبر کے یہودیوں نے اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ معاہدہ جعلی تھا کیونکہ اس پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دستخط بطور گواہ موجود تھے جو جنگ خیبر سے دو سال پہلے جنگ خندق میں شہید ہوچکے تھے اس معاہدے میں یہ لکھا ہوا تھا اسے تحریر کرنے والے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہے جو جنگ خیبر کے ایک سال بعد ایمان لائے

(حدیث میں حسی مشاہدے کے

خلاف بات کہی گئی ہو)

اس کی مثال یہ حدیث ہے  بینگن میں ہر بیماری  سے شفا ہے یہ بات خلاف حقیقت ہے اور کسی  احمق قسم کے حکیم یا شاید  بینگن کے کسی تاجر نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے

دیکھا آپ نے ہمارے محدثین تاریخ کے اعتبار سے بھی حدیث کے موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور ہم نے اصول حدیث کی روشنی میں یہ بھی بیان کیا کی حدیث عقل کے خلاف ہو مشاہدے کے خلاف ہو اور اس میں تاویل نہ ہو سکے تو وہ حدیث موضوع ہے تو یہ کہنا  غلط  ہوگا کی تاریخ کے اعتبار سے حدیث موضوع نہیں ہوتی

تاریخ کے اعتبار سے حدیث پر موضوع  ہونے کا حکم محدثین لگاتے ہیں ہم نے اس کی  چند مثالیں پیش کی اب ہم  اسی پر اکتفا کرتے ہیں تاریخ کے اعتبار سے مزید بحث کریں گے تو گفتگو  طویل ہوجائے گی

اب میں ایک اشکال کا جواب اور  عرض کرتا ہوں وہ  اشکال یہ ہے جو اہل علم نے کیا ہے  شواہدالنبوة علامہ جامی کی بہت معتبر کتاب ہے معتبر کتاب میں واقعہ موجود ہے تو صحیح ہوگا

میں علامہ جامی کی ذات پر تو کلام نہیں کرونگا ان کی ذات متنازعہ ہے شیعہ اور سنی کے درمیان اس پر اگر بحث کروں تو گفتگو طویل ہو جائے گی اگر کسی کو اس بارے میں جاننا ہو تو میزان الکتب کا مطالعہ کریں رہی موصوف کی کتاب  تو ان کی یہ کتاب شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک غیر معتبر ہے کیوں کہ اس  میں بعض روایات ایسی ہے جوکی موضوع اور من گھڑت ہے جس میں پہلی روایت یہ ہے  شواہدالنبوة  میں علامہ جامی نے لکھا ہے  یہ مشہور ہے حضرت حسن  رضی اللہ عنہ کو  زہر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہ کہنے پر  ان کی بیوی جعدہ نے زہر دیا تھا   موصوف کی یہ عبارت ہوبہو وہی ہے جو شیعہ حضرات ہم پر بطور اعتراض پیش کرتے ہیں اور اس  روایت کا جواب ہمارے  علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے  

علامہ جامی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ مشہور ہے اب یہ شہرت صحیح ہے یا غلط ظاہر سی بات ہے کہ یہ شہرت غلط ہے موضوع  اور من گھڑت ہیں

جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ہی زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا اور نہ آپ کو زہر دینے والے کا نام یقینی معلوم ہے جس پر شک تھا اس کا نام بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نہیں بتایا تو اس کی نسبت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا یہ بالکل سراسر غلط ہے اور اس سے یہ بات اور ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھتے تھے  معاذاللہ

شواہدالنبوة کی دوسری عبارت یہ ہے علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:50، 6 جون 2023ء (م ع و)

تحقیق پر اعتراض تحریر 3[ترمیم]

1️⃣8️⃣

ایک روز حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ کہنے لگے یہ آگاہ ہوجائے حاضرین مجلس نے کہا ہم تو ایسے کسی طریقے سے آشنا نہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا  میں اس طریقہ کو علی رضی اللہ عنہ سے معلوم کر سکتا ہوں کیونکہ وہ جو بھی کہیں سچ ثابت ہوتا ہے چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تین باعتبار اشخاص کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ ایک دوسرے کے بعد اکیلے اکیلے کوفہ جائیں اور میری موت کی خبر مشہور کر دی لیکن لیکن یہ عمل ضروری ہے کہ تم میری بیماری یوم وفات وقت اجل جگہ قبر اور  جنازہ پڑھانے والے کے تذکرہ میں باہم متفق رہو یہ سن کر وہ روانہ ہوئے کوفہ کے نزدیک پہنچے تو پہلے روز ایک آدمی کوفہ میں داخل ہوا اہل کوفہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو کہنے لگا شام سے انہوں نے کہا شام کے حالات کیسے ہیں جواب دیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے ہیں اہل کوفہ نے  نے جناب مولا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی آپ نے اس طرف توجہ نہ فرمائی تیسرے روز ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی ان کو اسی طرح حضرت معاویہ کی وفات کی خبر سنائی حضرت علی کے متوسلین کہنے لگے کہ اب یہ خبر پائے تحقیق و صحت کو پہنچ چکی ہے آج ایک شخص  پھر آیا جس نے پہلوں  کی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی داڑھی مبارک اور سر جس پر خضاب لگا ہوا تھا کہ طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ وفات پا جائے  کلیجہ چبانے والی کا بیٹا جب تک کہ میری داڑھی اور سر  رنگین نہ ہو جائیں وفات نہیں پا سکتا

یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ وہ یہ  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہندہ نے یہ حصرت امیر حمزہ  رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کا کلیجہ چبایا لیکن وہ کلیجہ چبانے والے  کا بیٹا ایسے الفاظ اور پھر اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے علاوہ  ازیں ھندہ نے یہ کام قبل از ایمان کیا تھا بعد میں مشرف با اسلام  ہوئی اسلام گزشتہ دور کے گناہ مٹا دیتا ہےاسلام کے بعد انکا شمار فقہا صحابیات میں ہوتا ہے اس واقعہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف گھٹیا بات منسوب کی گئی اور ہندہ کے قبل اسلام  کے فعل  کو اچھالا گیا یہ سب باتیں شیعوں کی ہے اور انکی کتابوں میں موجود ہیں موصوف کی کتاب کی یہ روایت بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے کہ اس میں ایک صحابی کی طرف جھوٹ کی طرف نسبت کی گئی ہے اور وہ جھوٹ یہ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری جھوٹی موت کی خبر سننا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف  گھٹیا الفاظ منسوب کئے گئے  قارئین کرام ان روایات سے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کتاب شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک بالکل غیر معتبر ہے اس میں صحابہ کی طرف جھوٹ منسوب ہے ہم نے صرف دو روایات ذکر کی ہیں  اگر ہمیں  اس گفتگو کہ طویل ہو جانے کا  خیال نہ ہوتا اور موضوع سے ہٹ جانے کا تو ہم علامہ جامی کی ذات پر بھی کلام کرتے اور جو ان کے دیوان کلام ہے ان اشعار پر بھی کلام کرتے اور ان کے نظریات بھی بیان کرتے ہماری اس گفتگو سے یہ  گمان نہ کرے کہ ہم موصوف کو شیعہ کہہ  رہے ہیں علامہ جامی کا تعلق ایک ایسے شہر سے تھا جس کو شیعہ کا شہر کہا جاتا ہے تو ممکن ہے ان کے کلام اور ان کی اس کتاب میں  شیعوں نے ردوبدل کیا ہو

ہمارے اکابر علماء نے  اور ہمارے بزرگوں نے علامہ جامی  کو بڑے بڑے اچھے القابات سے یاد کیا ہے مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ  پیر مہر علی شاہ رحمة الله علیہ جیسے اکابر نے  قارئین حضرات اب آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ شواہد النبوۃ اہل سنت کے نزدیک غیر معتبر ہے لہذا اس گفتگو کو اب ہم یہی ختم کرتے ہیں

فقیر دانش حنفی عفی عنہ علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:51، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا حضرت اویس قرنے نے اپنے دانتوں کو توڑا[ترمیم]

(کیا حضرت اویس قرنی نے اپنے دانت مبارک کو توڑا تھا)

محترم قارئین کرام : عوام میں

یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پتہ چلا کہ جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ک ے دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تمام دانتوں کو شہید کر دیا پھر آپ کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیئے کیلے (ایک مشہور پھل) کو پیدا فرمایا تاکہ آپ کو کھانے میں تکلیف نہ ہو ۔

یہ واقعہ کئی لوگوں کو اس طرح یاد ہے جیسے مانو انہیں پانی میں گھول کر پلا دیا گیا ہو اور شعبان کا مہینہ آتے ہی وہ اسے اگلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت نہیں ہے

حضرت علامہ مفتی محمد یونس رضا اویسی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں کہ یہ روایت نظر سے نہ گزری اور غالباً ایسی روایت ہی نہیں ہے اگرچہ مشہور یہی ہے ۔ (فتاوی بریلی شریف، صفحہ نمبر301،

کچھ علمائے اہل سنت نے اس واقعے کو تحریر فرمایا ہے لیکن وہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نہ تو اس کی کوئی سند ہے اور نہ کوئی معتبر مآخذ ، چنانچہ فیض ملت ، حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے والے دانت غزوہ احد میں شہید ہوئے اور جب یہ خبر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے سامنے والے چاروں دانت نکال دیئے اور کتب سیرت و تاریخ کی مشہور روایت میں ہے کہ یہ خبر سننے پر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دانت اپنے آپ جھڑ گئے ۔ (فتاوی اویسیہ، جلد1، صفحہ نمبر288،

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں جو یہ عوام میں مشہور ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عشق رسول میں اپنے دانتوں کو شہید کر دیا ، سراسر جھوٹ اور افترا ہے اور جاہلوں کا گڑھا ہوا ہے ، اگرچہ بعض تذکرہ کی کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ بے دینوں کی ملاوٹ ہے، اس کا ثبوت کسی مستند اور محفوظ کتاب سے نہیں ملتا بلکہ  

جس طرح یہ واقعہ نقلاً ثابت نہیں اسی طرح عقلاً بھی قابل تسلیم نہیں ہے

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کوئی بھی دانت مکمل طور پر شہید نہیں ہوا تھا بلکہ سامنے والے دانت شریف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جدا ہوا تھا جس سے نور کے موتیوں کی لڑی میں ایک عجیب حسن کا اضافہ ہوا تھا، جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے

  آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جڑ سے اکھڑ گیا ہو اور وہاں رخنہ پیدا ہو گیا ہو بلکہ ایک ٹکڑا شریف جدا ہوا تھا

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے داہنی کے نیچے کی چوکڑی کے ایک دانت شریف کا ایک ٹکڑا ٹوٹا تھا، یہ دانت (مکمل) شہید نہ ہوا تھا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد8، صفحہ نمبر105،چشتی)

خیال رہے کہ آج تک اکثر دنیا یہی سمجھتی رہی ہے کہ سامنے کے اوپر کے دانت شریف کو کچھ ہوا حالانکہ حقیقت یہی ہے جو ہم نے بیان کی؛ نیچے کے دانت شریف کا مسئلہ ہے اور یہی بات ہمارے مستند محققین علماء نے لکھی ہے ۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا کوئی دانت مکمل شہید نہیں ہوا تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ بات جوڑنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟ جب بنیاد ہی ثابت نہیں تو اس پر محل کیسے تعمیر ہو سکتا ہے ؟

خیال رہے کہ حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے تھے یعنی جڑ سے نکل گئے تھے لہذا اس رسالے کی تحقیق درست نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ کافروں کی طرف سے تھا نہ کہ آپ نے خود کیا تھا تو سوال اٹھتا ہے کہ دانت توڑنا کافروں کی سنت ہے یا نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی ؟ اسی جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انور کو زخمی کیا اور سر مبارک پر بھی زخم لگائے اور اسی طرح مکہ مکرمہ میں نماز کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈالی گئی تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سارے کام اپنے ساتھ کیوں نہ کیئے ؟ اس لیے کہ ایک تو یہ جہالت شمار ہوگا اور دوسرا خلاف شرع بھی ۔

جو لوگ اس واقعے کی تائید کرتے ہیں انہیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی اپنے دانتوں کے ساتھ ایسا کرو کیونکہ تمھارے نزدیک یہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سنت ہے اور صرف حضرت اویس قرنی کی تخصیص کیوں ، جتنے بھی انبیاء علیہم السّلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے ویسا ہی انہیں بھی اپنے ساتھ کرنا چاہیئے ۔

یہ واقعہ سب سے پہلے صرف “تذکرۃ الاولیاء” میں ملتا ہے جس کے مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ رافضیوں کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کی کتب رافضیوں کے ظلم و زیادتی کا شکار رہی ، ایسے میں ان روایات پر اعتماد کر لینے کے بجائے اہل تحقیق اس کی چھان بین کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ،

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی کا اپنے دانت شہید کرنے کا واقعہ جسے شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں بغیر کسی سند اور معتبر مآخذ کے درج کیا ہے ، جس سے صرف شیعہ حضرات اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ماتم پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ روایت ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک موضوع روایات کی لمبی فہرست میں شامل ہے اور ۔ پھر جو کیلے (مشہور پھل) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاص آپ کے لیئے اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا ، اس سے پہلے دنیا میں اس پھل کا نام و نشان نہ تھا ، بالکل غلط ہے کیونکہ تمام کتابوں میں جہاں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غذا کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ آپ کی غذا روٹی اور کھجور تھی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بغیر دانت کے ان کو کھانا مشکل ہے ۔

اب ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے تو اپنے ساتھ عجوہ کھجور ، لیموں اور کیلا لائے ۔

محترم قارئین کرام : اب ہم یہ کَہہ سکتے ہیں کہ اگر دلائل کی رو سے دیکھا جائے تو اس واقعے کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے

اس کو سب سے پہلے ’’تذكرة الأولياء‘‘ میں فخر الدین العطار المتوفی 607 ہجری نے نقل کیا ہے جو کہ ایک سنی عالم تھے، انہوں نے بغیر سند کے اسے نقل کیا ہے:

"ثم قال لهما: أنتما محبّي محمد، فهل كسرتم شياَ من أسنانكم كما كسر سنه عليه السلام؟ قالا: لا. فقال: إني قد كسرت بعض أسناني موافقةً له".

ترجمہ: پھر اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ کیا تم محمد ﷺ کے محب ہو؟  کیا تم نے اپنے دانت توڑے  جیسے کہ ان کے دانت ٹوٹے تھے؟ دونوں نے کہا: نہیں۔ پھر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے کچھ دانتوں کو توڑا تھا جیسا کہ نبی ﷺ کے دانت ٹوٹے تھے۔ (تذكرة الأولياء، )

اس کے علاوہ، علی بن ابراہیم حلبی نے ’’السیرة الحلبیة‘‘ میں علامہ شعرانی کی ’’الطبقات الكبرى‘‘ سے نقل کیا ہے:

’’وقد روى … قال: والله ما كسرت رباعيته صلى الله عليه وسلم حتى كسرت رباعيتي، ولا شج وجهه حتى شج وجچهي ولا وطئ ظهره حتى وطئ ظهري. هكذا رأيت هذا الكلام في بعض المؤلفات، والله أعلم بالحال هذا كلامه‘‘.

ترجمہ: اور مروی ہے کہ ۔۔۔ اویس قرنی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں اپنے دانت توڑوں گا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا دانت ٹوٹا۔ اور میں اپنے چہرے کو چوٹ پہنچاؤں گا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے کو چوٹ پہنچی۔ اور میں اپنی کمر پر قدم رکھواؤں گا جیسے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی کمر پر قدم رکھے۔ (مصنف فرماتے ہیں) میں نے اس روایت کو اس طرح سے بعض کتب میں دیکھا ہے اور اللہ ﷻ بہتر جانتا ہے اس کا حال (کہ یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں)۔

علی بن ابراہیم حلبی نے مزید اس پر کلام کیا:

’’ولم أقف على أنه عليه الصلاة والسلام وطىء ظهره في غزوة أحد‘‘.

ترجمہ: میں نے یہ بات کہیں بھی نہیں پائی کہ نبی پاک کی کمر مبارک پر قدم رکھے ہوں لوگوں نے غزوہ احد میں۔

(السيرة الحلبية، )

ملا علی بن سلطان القاری  نے اپنی کتاب ’’المعدن العدني في فضل أويس القرني‘‘ میں نقل کیا ہے:

’’اعلم أن ما اشتهر على ألسنة العامة من أن أويساً قلع جميع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سنّ النبي صلى الله عليه وسلم أصيب يوم أحد ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد، فلا أصلَ له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لايصدر إلا عن السفهاء‘‘.

ترجمہ: جان لو کہ لوگوں کی جانب سے جو مشہور کیا جاتا ہے کہ اویسِ قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ دیے تھے رسول اللہ ﷺ کے دندان کے ٹوٹنے کے غم میں؛ کیوں کہ انہیں متعین طور پر  معلوم نہیں تھا کہ آپ ﷺ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے (تو سارے توڑ دیے)۔ علماء کے نزدیک اس بات کی کوئی بنیاد نہیں، اور یہ خلافِ شریعت ہے۔ اس ہی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے (جو اعلیٰ درجے کے عاشق تھے) کسی نے بھی ایسا نہ کیا؛ کیوں کہ یہ ایک عبث فعل ہے اور نادان لوگوں سے ہی صادر ہوسکتا ہے۔ (المعدن العدنی فی فصل

اویس قرنی)

شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ  روایت جھوٹ ہے غلط ہے کہ حضرت اویس قرنی نے اپنے دانتوں کو توڑ دیا تھا اور انہیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ دیا تھا

(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 114) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:51، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا شب معراج اللہ نے لغت علی پر کلام کیا[ترمیم]

2️⃣0️⃣

(کیا شب معراج اللہ نے نبی پاک سے  لغت  علی پر کلام کیا)

عبداللہ بن عمر سے لوط بن یحیی ازدی بیان کرتا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے پوچھا گیا کہ شب معراج آپ سے اللہ نے کس  لغت پر کلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابی طالب کی لغت میں کلام کیا مجھے الہام ہوا کہ یوں کہو کہ اے اللہ تو نے مجھے خطاب کیا یا پھر علی المرتضی  نے تو اللہ نے فرمایا اے احمد میں دنیاوی چیزوں کی طرح کوئی چیز نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے لوگوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے میں نے تجھے اپنے نور سے بنایا اور پھر تیرے نور سے علی کو پیدا فرمایا میں نے تیرے دل کے رازوں کو دیکھا تو آپ کے دل میں علی سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ پایا لہذا میں نے ان کی لغت میں تمہیں خطاب فرمایا تاکہ تمہارا دل مطمئن رہے یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے شیعوں کی بنائی ہوئی ہے   

(  میزان الکتب صفحہ373)

(حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک جھوٹی روایت)

ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے  گھر فاقہ تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شلوار بازار میں بیچنے کے لیے لے گئے اللہ کو یہ گوارا نہ ہوا کہ میرے محبوب کی صاحبزادی کا شلوار بازار میں بک جاۓ اور ان سے خرید کر کوئی دوسرا استعمال کرے اللہ نے جبرائیل کو فوراً حکم دیا جاؤ جنت سے پیسے لے لو اور جاکر علی رضی اللہ عنہ سے شلوار خرید لوں اس روایت کے متعلق  شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ روایت موضوع جھوٹی ہے اس زمانے میں مدینہ پاک  میں شلوار

تھی ہی نہیں

(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 62) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:52، 6 جون 2023ء (م ع و)

امام حسین پڑے ہیں یا نبی علیہ السلام[ترمیم]

2️⃣1️⃣

(امام حسین  رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)؟

خطیب حضرات بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اے حسین بتاؤ تم بڑے ہو یا  ہم تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ بعض معاملوں میں  میں بڑا ہوں اور بعض معاملات میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کونسے معاملات ہے جس میں حسین  تم بڑے ہو حضرت امام حسین  رضی اللہ عنہ نے عرض کی جیسے میرے نانا ہے ویسے آپ کے  نانا نہیں ہے جیسے میرے والد ہیں ویسے آپ کے والد نہیں ہے ان معاملات میں میں آپ سے بڑا ہوں اس روایت کے متعلق شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ روایت من گھڑت موضوع  واہیات ہیں اس کا بیان کرنا حرام ہے اور حسب فرمان حدیث جہنم میں اپنا ٹھکانا بنانا ہے حدیث میں ہے جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے

(فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 509)

مذکورہ روایت میں نے خود سنی ہے اور جب میں نے کسی کے ذریعہ   حوالہ  منگوایا خطیب صاحب نے جواب دیا  میں نے یوٹیوب پر سنی تھی اللہ رحم فرمائے بیان کرنے سے پہلے تھوڑا سوچ لیا کرے یہ روایت سے عوام تو خوش ہو جائے گی اور واعظین کی بھی خوب واہ واہ ہو جائے گی کہ بالکل  نئ  روایت حضرت نے بتائی لیکن اس سے جو دروازہ کھلے گا اس کا اندازہ آپ کو کہا آپ تو عوام کی واہ واہ چاہتے ہیں کل کو آپ کی یہ بیان کردہ جھوٹی روایت بیان کر کے کوئی بولے گا میری سو سال کی عمر ہے میں نے 50 مرتبہ حج کیا رمضان کے 85 مرتبہ مہینے کے روزے رکھے 80 مرتبہ عمرہ کیا 85 سال تراویح پڑھی اور دونوں عیدوں کی نماز پڑھی 80 سال  جمعہ ظہر عصر مغرب عشاء فجر پڑھی اور ان سب معاملات میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 63سال میں پردہ کرگئے تھے اور میری سو سال یا سو سال سے زیادہ عمر ہے تو میں نے سو سال کی  عمر میں یہ یہ کام کئے اور اتنا پایا جبکہ تریسٹھ سال میں میری برابر نہیں ہوسکتا تو لہذا  معاذ اللہ میں ان سارے معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ہوں پھر کل کو کوئی اور یہ کہے گا جب آپ نے اس کا دروازہ ایک فرد کے لیے کھول دیا  تو د وسرا بھی اس کو کھولے گا بات کو جتنا طویل کروں گا اتنی زیادہ ہوتی جائے گی لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ جھوٹی من گھڑت روایت نا تو سننا چاہیے اور نہ ہی بیان  کیا جائے اس کا سننا بیان کرنا ناجائز حرام ہے علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:56، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا روزے محشر حضرت فاطمہ طلب کریں گی[ترمیم]

2️⃣2️⃣

(کیا روزے محشر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شہزادوں کا بدلہ  طلب کریں گی)

   خطیب حضرات ایک روایت یہ بیان کرتے ہیں روز محشر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت امام حسن  رضی اللہ عنہ کا ہرا  جوڑا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرخ جوڑا ہاتھ میں لے کر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا  عمامہ شریف سر پر رکھ کر عرش اعظم کی طرف بڑھیں گی کہ مجھے ان سب کا انتقام چاہیے جبرئیل علیہ السلام دوڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے آپ جلدی چلئے کہیں ایسا نہ ہو اللہ عزوجل حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو دیکھ لے اگر اللہ  پاک نے حضرت فاطمہ کو دیکھ لیا تو پھر کوئی بھی انتقام سے نہیں بچ پائے گا پھر نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم دوڑتے ہوئے  آئیں گے اس حال میں  کمبل مبارک آدھا زمین پر آدھا کاندھے پر ہوگا اس روایت کے متعلق مفتی شریف الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ روایت جھوٹی من گھڑت ہے اس کا بیان کرنا حرام ہے


(فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 509 )

اسی سے ملتی ہوئی ایک روایت اور بیان ہوتی ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ننگے سر ہونا بیان ہوتا ہے اس روایت کے بارے میں امام اہل سنت اعلی حضرت  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب جھوٹ افتراء ہے     (احکام شریعت صفحہ 160) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:57، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا ابو جہل نبی کریم کا چچا تھا[ترمیم]

2️⃣3️⃣

(کیا ابو جہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا)

  عموما بیان ہوتا ہے ابوجہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا یہ بھی جھوٹ غلط ہے شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ابوجہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا یہ غلط ہے ابوجہل قبیلہ بنی مخزوم سے تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بنی ہاشم سے تھے پھر ابو جہل  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا کیسے ہو سکتا ہے ابوجہل بہت سرکش فسادی کافر تھا کسی سرکش فسادی بد نام آدمی کو شریف عزت دار کا چچا بتایا جائے اور وہ رشتے میں اس کا چچا نہ ہو تو ایک  طرح کی گالی ہوتی ہے اسی لئے ابوجہل جیسا فسادی سرکش بد نام آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہرگز نہ کہا جائے

(  فتاویٰ شارح بخاری جلد 1 صفحہ411)

(کیا حضرت فاطمہ بنت اسد کو وحی آئی تھی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی یا نہیں  ہوئی اور اس میں ہمارے اکابر کے کیا اقوال ہے اور اس میں ہماری کیا تحقیق ہے میں اس میں نہیں جاتا کیونکہ پھر گفتگو طویل ہو جائے گی لیکن اس واقعہ کے دوران یہ جو کہا جاتا ہے  کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کا وقت قریب آیا  اور درد زہ ہوا تو اللہ کریم کی طرف سے وحی آئی کہ تو خانہ کعبہ میں جا اور وہاں بچے کی پیدائش کر  اس کے متعلق امام اہلسنت سیدی اعلٰی حضرت رحمتة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ جو کہا جاتا ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی آئی خانہ کعبہ میں جائے اور وہاں بچے کی پیدائش کر یہ سب جھوٹ اور باطل ہے کیونکہ کوئی بھی اسلامی ہو یا غیر اسلامی فرقہ فاطمہ بنت اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے

(فتاوی رضویہ حلد 15 صفحہ 196) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:00، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا حضرت عمر کے بیٹے نے زنا کیا تھا[ترمیم]

2️⃣4️⃣

(کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے زنا کیا تھا)

ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے المعروف ابو شحمہ نے  ایک یہودی عورت کے شراب پلانے پر شراب پی  اور اس کے ساتھ زنا کیا جس سے اس کو حمل ہوا اور بچے کو اس عورت نے جنا اور وہ بچہ لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت مسجد میں تقریر فرما رہے تھے آپ نے اس عورت سے کہا یہ بچہ حلالی ہے یا حرامی  اس عورت نے کہا یہ بچہ حرامی ہے آپ کے بیٹے ابوشحمہ کے زنا سے یہ پیدا ہوا ہے یہ سنتے ہی حضرت عمر نے  افلاح نام کے  ایک جلاد سے ابوشحمہ کے کپڑے اتروا کر بے حرمتی کے ساتھ زور زور سے کوڑے لگاوائے چند  کوڑے لگتے ہی زمین پر گر پڑے انتقال کر گئے  باقی کوڑے ان کی لاش کو مارے گئے یہ روایت موضوع

من گھڑت ہے اس روایت کے موضوع ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہماری شریعت مطہرہ ہرگز یہ حکم نہیں دیتی کہ مردہ انسان پر حد جاری کی جائے اسے کوڑے مارے جاۓ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جو کہ کتاب و سنت کا بے شمار علم رکھتے ہیں جو کی مجتہد بھی ہے وہ ایسا خلاف شرع کام کریں گے ہرگز نہیں اور نہ ہم ان کے بارے میں ایسا گمان کر سکتے ہیں

اس روایت کے متعلق امام ابن جوزی رحمتة اللہ علیہ فرماتے ہے

  ھاذا حدیث  موضوع وضعہ جہال القصاص لیکون سببا فی تکبیة العوام والنساء

یہ من گھڑت حدیث ہے جاھل قصہ گو نے  اسے عورتیں اور عوام کے رونے دھونے کے لئے گڑھا ہے

الموضوعات جلد 3 صفحہ 273

امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ کی عبارت میں نے مختصر سی بیان کی ہے جسے شوق ہو وہ پوری عبارت الموضوعات میں دیکھے کہ آپ نے کیا کیا کہا اس واقعہ کے تعلق سے امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ کے علاوہ امام ذھبی امام ابن حجر امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس کو موضوع

من گھڑت  قرار دیا ہے علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:00، 6 جون 2023ء (م ع و)

بکری کان جاھڑتے ہوۓ کھڑی ہو گئ[ترمیم]

2️⃣6️⃣

(بکری کان  جھاڑتے  ہوئے کھڑی ہو گئی)

  یہ واقعہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اسی واقعہ سے  جوڑا جاتا ہے جس میں تھوڑا سا کھانا تمام صحابہ کو  کفایت کرتا ہے جو کے  بالکل صحیح واقہ ہے

اسی کے ساتھ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کا زندہ ہونے والا واقعہ بھی جوڑا جاتا ہے جس کے بارے میں ہم پیچھے وضاحت کر چکے ہیں اسی واقعہ کے ساتھ یہ واقعہ بھی جوڑا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ  کھانا تناول فرمانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے کوئی بھی کھانا کھاتے ہوئے ہڈیوں کو نہ توڑے جب سب نے کھانا کھا لیا تو ساری ہڈیوں کو جمع کیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہڈیوں پر کچھ پڑھا اور ان پر  گوشت پوشت چڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بکری کان جھاڑتے ہوئے کھڑی ہوگئ اس روایت کے متعلق مواہب اللدنیہ میں امام قسطلانی فرماتے  ہے

واللہ اعلم  یعنی اس روایت کی حقیقت اور صحت کیا ہے اللہ تعالی ہی جانتا ہے

( المواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ نمبر 578)

امام زرقانی شرح زرقانی علی المواہب  میں اس روایت کے متعلق فرماتے ہے

  فاللہ اعلم بصحتہ

یعنی اللہ ہی اس روایت کی حقیقت اور صحت کو جانتا ہے

شرح زرقانی علی المواہب جلد 7 صفحہ 66 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:01، 6 جون 2023ء (م ع و)

کیا حضرت عمر نے دجال کے تلوار ماری تھی[ترمیم]

2️⃣5️⃣

(کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دجال کو تلوار ماری تھی)

یہ روایت لوگوں میں زیادہ مشہور ہے کہ دجال کو تلوار ماری روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے ملاقات کی اور دجال اپنی اصل صورت پر تھا جیسے کی خروج کے وقت ہوگا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر کان نہ دھرتے ہوئے دجال کو تلوار ماردی جو اس کو نہیں لگی بلکہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی مبارک پیشانی پر لگی جس سے  بہت زیادہ خون جاری ہوا اور پیشانی پر زخم کا نشان باقی رہا اس روایت کے متعلق امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں یہ خالص جھوٹ اور افتراء ہے یقیناً رافضیوں کی من گھڑت روایتوں میں سے ہے اللہ انہیں مارے  کہاں اوندھے جاتے

ہیں

( فتاوی رضویہ جلد 26 صفحہ 628)

( فقر میرا فخر ہے)

خطیب حضرات غریبی تنگدستی سے مایوسی دور کرنے کے لیے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فقر میرا فخر ہے اور اس پر  میں فخر کرتا ہوں

اس روایت کے بارے میں امام اہل سنت اعلی حضرت فرماتے ہیں یہ موضوع اور من گھڑت  روایت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ فقر کے فتنے سے پناہ مانگا کرتے تھے جیسا کی مالداری کے فتنے سے پناہ مانگا کرتے تھے

( فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 638) علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:02، 6 جون 2023ء (م ع و)

ہند میں گستاخ کا قتل کرنا کیسا[ترمیم]

از قلم دانش حنفی

(اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو،، کی صحیح تفسیر اور گستاخ رسول کا قتل )

وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ۔،

اللہ کہ راہ میں خرچ کرو اور اپنے اپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو

اس ایت مبارکہ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور اس ایت سے ہزاروں مسائل حل ہوۓ ہیں اور ہوتے رہیں گے،،۔ لیکن اس ایت کو گستاخ کو قتل نہ کرنے پر فٹ کرنا تحریف ہے،، کیوں کہ یہ ایت

خود مسلمانوں کو اللہ و رسول کے دشموں گستاخوں کفاروں سے لڑنے کا حکم دیں رہی ہے، اس ایت کی تفسیر یہ ہے جو بزرگوں نے کی ہے کہ

جہاد کو ترک کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا کہا گیا ہے ،نہ کہ یہ جو اج کل کے کچھ لوگوں نے اس ایت کا نقشہ ہی بدل دیا، اور قتل حربی کو بھی ناجائز بلکہ گناہ قرار دیں رہے ہیں،، فقط اس لیے کہ اگر یہ ایسا کرتا ہے تو یہ قتل کردیا جاۓ گا کہ حکومت اسے یقنی ہلاک کردے گی چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے سب کچھ انہی کا ہے اس کا یہ فعل

اس لیے ناجائز ہے،

حالنکہ یہ انکی بہت بڑی غلطی ہے،،

چونکہ دور صحابہ میں بھی بعض لوگوں نے یہی خیال کیا ہوا تھا، کہ کفار کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ اکیلا ان سے لڑے تو کیا یہ اپنی جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا ہوگا،، تو اس کا جواب حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے دیا تھا،،

ہم اس ایات کا مطلب انہیں سے سمجھتے ہیں جن کے موجودگی میں یہ آیت نازل ہوئ ہے، اور اس ایات کو وہ اج کے ان لوگوں سے زیادہ سمجھنے اور علم والے تھے،،مراد صحابہ کرام ہے،

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , أَخْبَرَنَا النَّضْرُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ , عَنْ حُذَيْفَةَ , وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 , قَالَ :    نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ    .

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔


صحیح بخاری 4516

جس ایت سے گستاخ رسول کافر حربی کے قتل کو ناجائز کہا جا رہا ہے ،حضرت حزیفہ فرما رہے ہیں،، اس ایت کا مطلب ہے ،،اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنے کے بارے میں نازل ہوئ ،،،اور ہلاکت  اس طور پر ہے جہاد کو ترک کردینا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا،،

ابو عمران کہتے ہیں ،ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔  ( یہ سن کر )  ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں  ( یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں )  اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے  ( حمایتی )  و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ”اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو“  ( البقرہ: ۱۹۵ ) ، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے  ( یہی وجہ تھی کہ )  ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔

ترمذی 2972،،۔

یہ روایت ابوداؤد 2512 پر بھی ہے،،قارئین کرام دیکھا آپ نے یہ شخص جب دشمنوں کی فوج میں گھس گیا تو اس وقت بھی کہنے لگے اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لیا۔، تھیک اسی طرح جیسا کہ آج کچھ لوگ کہتے نظر آرہے ہیں، کہ گستاخ رسول کو ہلاک کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،،، لیکن حضرت ایوب انصاری نے ان کا رد فرما دیا اور کہا ہلاکت یہ نہیں ہے جو یہ شخص اکیلا اتنی بڑی فوج میں گھس گیا ،،بلکہ ہلاکت تو یہ ہے اللہ کی راہ میں لڑنا ترک کردینا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ترک کردینا یہ ہلاکت ہے،،اور یہ ایت اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالوں اس کے رد میں نازل ہوئ کہ اللہ کی راہ میں لڑنا ترک کردینا اور خرچ نہ کرنا،،، اس حدیث مبارکہ سے یہ پوری طور پر صاف ہوجاتا ہے،، اللہ و رسول کے دشمنوں کو اگر کوئ ہلاک کرے ہر چند کے وہ اکیلا ہو ،اور وہ اس میں مارا بھی جاۓ تو یہ ہلاکت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ناجائز کام ہے،،   کیوں کہ یہ  اللہ و رسول کے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہوۓ شہید ہوگیا ،،اور ہمیں حکم یہی ہے کہ ہم حربیوں کو ہلاک کرے انکا خون مباح ہے،،،،

اسی طرح کی ایک روایت تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ،،

قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا؟

آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے آیت (فقاتل فی سبیل اللہ لاتکلف الا نفسک) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتے رہے اپ اپنی جان کے مکلف یے مالک ہے اسی کو تکلیف دیں۔،

فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک ،

یعنی ائ نبی آپ اللہ کی راہ میں لڑتے رہیں آپ اپنی جان کے مالک ہے آپکو آپ کی ذات کا مکلف کیا گیا ہے،،، کے تحت تفسیر تبیان القران میں ہے،،

اس ایت میں اللہ نے آپ کو جہاد کا حکم دیا ہے خواہ آپ کو تنہا کافروں سے جہاد کرنے کے لیے جانا پڑے ،، کچھ لوگ اس دور میں بھی جہاد سے روکا کرتے تھے منع کرتے تھے،، اس ایت میں فرمایا آپ لوگوں کے منع کرنے کی طرف توجہ نہ فرماۓ اپ خود اکیلے اللہ کی راہ میں لڑے،،،اب وہ لوگ بتاۓ جو اس بات کا رونا رو رہے ہیں کافر کو مارنے میں،، کہ اللہ  کسی کی تاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور ،،گستاخ کو مارنا خود ہلاکت میں ڈالنا ہے،،وہ بتاۓ ذرا اس ایت میں تنہا جہاد کا مکلف نبی کو فرمایا ہے، کہ اپ اپنی جان کے مالک ہے اپ خود تنہا جہاد کرے لوگوں کے منع کرنے پر توجہ نہ دیں،، تو کیا اس ایات میں تنہا نبی کو اس کا مکلف قرار دینا نبی کی تاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا کہ آپ ہزاروں لاکھوں کفاروں سے لڑے اگرچہ آپ کو تنہا لڑنا پڑے،،اور کیا اس آیت میں نبی پاک کو ہلاکت میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے،،کہ جب کوئ ہزاروں سے لڑیگا تو یقینی طور پر قتل کردیا جاۓ گا،،،

اس کا جواب ہم ہنی لوگوں پر چھوڑتے ہیں جو اس بات کا رونا رو رہے ہیں، کہ تاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا،،اور ہلاکت میں ڈالنا ہے خود کو،،،

نیز اوپر جو ہم نے ذکر کیا قسطنطنیہ کی لڑائ کے وقت براء بن عازب رضی اللہ سے سوال کیا ، اگر میں اکیلا دشمن کی فوج میں گھس جاؤ اور گھر جاؤ تو کیا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہوں گا، تو آپ نے فرمایا نہیں ہر گز نہیں اور یہ آیت پڑئ فقال فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک،۔ اور کہا تم اپنی جان کو ہلات میں ڈالنے والے نہیں ہوں گے بلکہ جان ہلاکت میں ڈالنے والا تو وہ انسان ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جاۓ،، اب بتاۓ وہ لوگ  جو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے وہ جو جان جانا مراد لے رہے ہیں، وہ کیا کہیں گے۔۔، حضرت ایوب انصاری اور حضرت براء بن عازب کے بارے میں، نیر اوپر بخاری کی راویت بھی ذکر کی ہے ہمنیں مال نہ خرچ کرنا اللہ کی راہ میں یہ جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، وہ لوگ بتاۓ مال نہ خرچ کرنے سے کیا جان چلی جاتی ہے اگر مال خرچ کرنے سے جان نہیں جاتی ہے تو پھر یہ مال کو خرچ نہ کرنا کیوں جان میں ہلاکت ڈالنا کہا گیا،،جبکہ انسان کے پاس مال ہو تو وہ زندگی آسانی سے گزار سکتا ہے، فکرات میں کم گھرے گا، ضروریات کو پورا کریگا،،مال جمع کرنے میں تو اس کے لیے اسانی ہے، تو کیوں خرچ نہ کرنے کو جان ہلات میں ڈالنا کہا گیا،، سیدھی اور اسان سی بات یہ ہے مال نہ خرچ کرنے میں اللہ کی نہ فرمانی لازم آتی ہے جو کی ہلاکت کا سبب ہے،، اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کو ہلاکت کہا گیا،،، جب کہ گستاخ رسول کو قتل کرنا تو خود حدیثیوں سے ثابت ہے،، اور کافر حربی کو تو خود حدیث اور قران میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ،، تو اس پر عمل کرتے ہوۓ اگر کوئ ہلاک بھی ہوجاتا ہے،۔ تو اس نے اپنی جان کو در حقیقت ہلاکت میں ڈالا ہی نہیں بلکہ اللہ و رسول کے حکم پر عمل کیا، جس پر اجر و ثواب ہے۔،،

اس ایت سے فقط یہ مراد لینا کہ مسلمان یقینی قتل کردیا جاۓ گا اور یہ آیت جبکہ جہاد نہ کرنے اور مال اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرنے کے متعلق نازل ہوئ ہے، اس ایت کو اللہ و رسول کے دشمنوں کو کوئ قتل کرے، اس کو اس جگہ فٹ کردینا کہاں کا انصاف ہے،، بلکہ ہلاکت میں ڈالنا تو یہ بھی ہے

آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس میں تو جان نہیں جاتی پھر بھی یہ ہلاکت ہے، ،زنا کرنا شراب پینا ،، نماز ترک کرنا جو احکام ہم پر فرض ہوۓ ہیں اس کو ادا نہ کرنا یہ بھی تو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے،

جب کہ انسان کو گناہ میں لذت ملتی ہے اس میں تو جان نہیں جاتی،، لیکن یہ پھر بھی ہلاکت ہے،۔

۔ تفسیرابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا ،،اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے ،، اس روایت سے یہ بات سمنے آتی ہے حضرت عمرو نے لڑائ میں تنہا اتنے لوگوں سے لڑنا جان کو ہلاکت میں ڈالنا سمجھا،، لیکن حضرت ابن عباس نے ان کا رد فرمادیا اور کہا، بہادری سے لڑنا  تنہاڑنا

یہ ہلاکت نہیں بلکہ مال نہ خرچ اللہ کی راہ میں یہ ہلاکت ہے، اب بتاۓ گستاخ کو جہنم میں پہنچانا بہادری ہے یا بزدلی دلیری ہے کمزوری،، ظاہر سی بات ہے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ، گستاخ کو قتل کرڈالنا بہادری کا کام ہے،،کمزوری ان لوگوں کے لیے ہے جو ناموس رسالت کے مسئلہ معاذ اللہ کمزور بنانا چاہتے ہیں،، جو لوگ یہ بول رہے ہیں گستاخ رسول کو قتل کروں سر تن سے جدا کا نعرہ لگانا بھی حرام ہے،، اور یہ کہنے والے کوئ عام لوگ نہیں ہے،،تو ایسے لوگ ضرور بزدل ہیں اور کل قیامت میں بیت سخت انکی اس پر پکڑ کی جاۓ گی

کہ جو اب اس نعرہ تک کو حرام قرار دیں رہے ہیں معاذ اللہ،،۔

مفسرین فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں ہلاک ہونا ہے ، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے ، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکے مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ

اس سے پہلی آیت میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم ہے، یہ آیت بھی اسی حکم کی تکمیل ہے، یعنی جہاد میں اور اس کی تیاری میں خرچ کرتے رہو اور اس میں کوتاہی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیونکہ اس صورت میں کفار تم پر غالب آجائیں گے، جو سراسر ہلاکت ہے

ایک یہ تفسیر کی گئی ہے کہ نیک کاموں سے مت رکو کہ کہیں تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ یعنی رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہو کر پھر ہلاکت میں گرفتار ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو،

جس وقت اللہ کے دین کو روپے پیسے کی ضرورت ہو اس وقت جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر عام اپیل کی اور اس وقت جن لوگوں نے اپنے مال کو پیش نہ کیا ، انہوں نے اپنے کو ہلاکت میں ڈالا،،

نیز نبی علیہ السلام نے فرمایا طاعون سے نہ بھاگو طاعون سے بھاگنا جہاد سے بھاگنے والے کی مثل ہے،، مجھے ذرا بتاۓ اب طاعون اگر پھیل جاۓ تو اس سے بھاگنے کا حکم نہیں ہے،، لیکن اگر وہ وہاں سے اگر بھاگ جاۓ تو ممکن ہے اس کی جان بچ جاۓ،،تو کیا نبی علیہ السلام نے معاذ اللہ طاعون سے نہ بھاگو فرماکر لوگوں کی جان کو ہلاکت میں ڈال دیا،، کہ وہ نہ بھاگے اور مر جائیں تو کیا وہ اپنی جان کو ہلاکت میں دالنے ہوں گے،، ہرگز نہیں واللہ ہر گز ایسا نہیں ہے،، بلکہ جو نہ بھاگا اور مرگیا تو شہید ہے حدیث میں فرمایا گیا،، تو پتہ چلا صرف اپنی جان بچالینا زندہ وہاں سے بھاگ کر آجانے پر یہ صادق نہیں آتا کہ اس نے اپنی جان بچا لی کہ وہاں سے چلا آیا اور اپنی جان کو  ہلاکت میں نہ ڈالا،،بلکہ طاعون سے نہ بھاگنا اگرچہ وہ وہاں مر جاۓ، تو یہ اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالنا  کہلاۓ گا،، یعنی جو بھاگ کر ایا اس نے اپنی جان ہلاکت میں ڈالی اگرچہ زندہ بچا رہا ہو،، اور جو وہی رہکر طاعون میں مر گیا بھاگا نہیں،، تو اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالا اگرچہ یہ مر گیا ہو وہاں،، وہ اسلیے کہ اس نے اللہ و رسول کا حکم مانا کہ وہ وہاں سے بھاگا نہیں ، اس لیے اس نے جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالا،،اور جو بھاگ کر آیا اس نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی جو کہ ہلاکت کا سبب ہے،، تو پتہ چلا زندہ رہنے والا بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہوا ،،اور جو نہ بھاگا وہ مرکر بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہوا کیوں کہ اس نے اللہ و رسول کا حکم مانا،،، تھیک اسی طرح کہ کفار گستاخ کو ہمیں قتل کرنے کا حکم ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں

اگر کسی نے قتل کردیا تو اس نے گستاخ کافر کو قتل کیا ، اور اس قتل میں وہ مارا گیا ،تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہوگا،،،

طاعون سے بھاگنے والا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتا ہے اگرچہ وہ زندہ بچ جاۓ،، کوئ یہ نہ سمجھے یہ فقط ہماری تحقیق یا راۓ ہے بلکہ خود امام اہلسنت

فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں،،

جان  کوہلاکت میں ڈالنا

کیا ہے محمد الرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے احکام کو نہ ماننا،ورنہ یہ آیت تحریم جہاد کے لئے عمدہ دستاویز ہوجائے گی،جو تہبلکہ چمکتی تلواروں اور برستے تیروں اور توپ کے متواتر گولوں کے سامنے ہے طاعون میں اس کا عشرعشیر بھی نہیں تو جہاد اکبر سے زائد حرام ہوگا اور جہاد سے بھاگنا فرض، حالانکہ قرآن نے اس کا عکس فرمایا ہے قرآن عظیم ترك جہاد وفرارعن الجہاد ہی کوتہلکہ فرماتا ہے جسے یہ عبدۃ الہوی ہلاك سمجھیں وہ نجات ہے اور جسے نجات سمجھ رہے ہیں وہ ہلاك ہے۔ابوایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:"ایت کریمہ لاتلقوا"ہم انصار میں اتری کہ جب دین متین کو ﷲ عزوجل نے عزت بخشی اور اسلام پھیل گیا ہم نے کہا اب جہاد کی کیا ضرورت ہے اب خانگی امور جو اتنے روزوں سے خراب پڑے ہیں بنالیں اس پرارشاد ہوا:

وانفقوا فی سبیل ﷲ ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ

اپنی جان اور مال جہاد میں خرچ کرو اور ترك جہاد کرکے اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

معالم شریف میں ہے:

فالتھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترك الجھاد

"التہلکہ"اہل ومال سے وابستہ رہنا اور جہاد کے لئے نہ نکلنا ہے۔

امام اجل احمدبن حنبل مسندمیں جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

الفار من الطاعون کالفارمن الزحف

طاعون سے بھاگنے والا ایساہے جیسے جہاد سے بھاگنے والا

ومن صبرفیہ کان لہ اجر شھید،،،اور جو اس میں صبر کئے بیٹھا رہے اس کے لئے شہیدکاثواب ہے۔

اور جہاد سے بھاگنے والے کو ﷲ عزوجل فرماتاہے:

" فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیۡرُ۔،

وہ بیشك ﷲ کے غضب میں پڑا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا بری بازگشت ہے۔،۔

توثابت ہوا کہ طاعون سے بھاگنے والا ﷲ کے غضب میں جاتاہے اورجہنم اس کا ٹھکاناہے اسی کوفرمایا کہ:

وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚۖۛ

اپنے ہاتھوں ہلاکت وغضب خدا اور استحقاق جہنم میں نہ پڑو۔۔

اب بتائیے کہ طاعون سے بھاگنا"تہلکہ"ہے یا اپنے رب عزوجل پرتوکل کرکے صابر ومقیم رہنا۔

ﷲ تعالٰی توفیق دے کہ احکام محمد الرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے ہوائے نفس سے رد نہ کیا جائے

ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم

فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 191،،

امام اہلسنت کی ان عبارات سے ثابت ہوگیا  ،،زندہ بھاگر بچنے والا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے ،اور جو صبر کر کے مر جاۓ تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہے۔۔، تھیک اسی طرح جو کافر گستاخ کو مارکر اگر مارا جاۓ تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہے۔ چوں کہ اس کافر کو مارنے کا حکم تو ہمیں خود نبی علیہ السلام نے دیا ہے، کہ جو نبی کی شان میں گستاخی کرے اسے قتل کردو۔، اسلیے بہت سے صحابہ نے خود گستاخوں کو قتل کیا ہے اور اس قتل کی نبی پاک سے اجازت تک نہ لی،، لیکن جب خبر نبی کریم کو پہنچی تو فرمایا،،اس کا خون مباح ہے، یعنی گستاخ کے قتل پر اور صاحبی کی اس فعل پر تعریف فرمائ،،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتیں ہیں،۔ ایک اندھے کی لونڈی تھی جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم اور توہین کیا کرتی تھی، اس نے ایسا کرنے سے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آتی، راوی کہتے ہیں، ایک رات جب وہ نبی علیہ السلام کی توہین کرنے لگی سب و شتم کیا تو اس اندھے نے خنجر اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال دیا اسکی تانگوں کے پاس بچہ گر گیا، وہاں بستر پر خون ہی خون ہو گیا،، صبح کو اس کا ذکر نبی علیہ السلام سے کیا گیا، اور لوگ جمع ہو گۓ، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا،۔ میں اس شخص کو یہ قسم دیتا ہوں جس نے بھی یہ کام کیا ہے اس پر میرا حق ہے، یعنی وہ لونڈی ذمی تھی اس کا بدلا لینا ہے ،،

وہ کھڑا ہوجاۓ تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا ، اور کہنے لگا یا رسول اللہ یہ لونڈی اپکی توہین کیا کرتی سب و شتم کرتی تھی،  میں اس کو روکتا تو باز نہ آتی یہ باز نہ آئ تو میں نے اس کا قتل کردیا ، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا خبر دار گواہ ہوجاؤ اس کا خون رائگاں ہے اس کی کوئ قدر قیمت نہیں،،،سنن ابو داؤد حدیث 4361، ،۔ یہاں قابل فہم ایک بات یہ ہے، جس کا قتل کیا گیا وہ ایک ذمی تھی ، اس کے بعد بھی اس کو قتل کردیا گیا،،مزید یہ کہ نہ تو قتل کی اجازت حاکم اسلام یعنی نبی علیہ السلام سے لی اور نہ ہی وہ خود حاکم تھے بلکہ خود اس کا قتل کردیا،۔ اب سوال یہ ہوتا ہے ایک تو حاکم کی اجازت نہیں لی اور دوسرا یہ کہ وہ ذمی تھی ،تیسرا یہ کے وہ خود حاکم بھی نہیں تھے،، اب ایا کہ اس کا قتل جو کیا یہ جائز ہے یا نہیں، اس کا جواب میں بعد میں دوںگا پہلے مزید روایت ذکر کرتا ہوں،،جو کہ بلا حاکم اسلام کی اجازت کے بغیر قتل پر دلالت کرتی ہیں۔۔

اسی کی شاہد وہ روایت ہے جو شعبی سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں، کہ حضرت علی نے بیان کیا ،۔ ایک یہودی عورت نبی علیہ السلام کی توہین کیا کرتی تھی اور اپ پر سب شتم کرتی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئ تو نبی علیہ السلام نے اس کا خون باطل قرار دیا،، یعنی جو مری ہے اس کے خون کی کوئ قدر نہیں، سنن ابو داؤد حدیث 4362

اس روایت میں بھی حاکم اسلام یعنی نبی علیہ السلام سے اجازت نہیں لی گئ ہے،۔ اسی طرح ایک وہ روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی علیہ السلام کی اجازت کے بغیر منافق  کا قتل کردیا تھا،، اس میں بھی قتل کی اجازت نہیں لی گئ ،،۔

اسی طرح عمیر بن عدی رضی اللہ نے اس عورت کو قتل کیا جو نبی علیہ السلام کی گستاخی کرتی تھی،،اور جب نبی علیہ السلام کو اس بات کی خبر ملی تو فرمایا اگر تم ایسے شخص کو دیخنا چاہو جس نے اللہ و رسول کی غیبی مدد کی ہے وہ عمیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے،، جب حضرت عمیر واپس اۓ تو اس عورت کے بیٹے اور اس کے ساتھ ایک جماعت تھی گھیر گھیر لیا اور کہا، عمیر یہ کام تم نے کیا ہے ،حضرت عمیر نے فرمایا ہاں یہ میں نے کیا ہے تم کو جو کرنا ہے میرا کرلو اور مجھے ڈھیل نہ دو ،،اگر تم سب بھی گستاخی کروگے تو میں تم سب پر تلوار سے وار کروں گا یہاں تک کے میں مارا جاؤں یا تمہیں قتل کردوں گا اس دن سے اسلام بنی خطمہ میں پھیل گیا،،

حضرت عمیر کا جو واقعہ ذکر کیا میں نے یہ کئ کتب میں ہے کہیں شورٹ میں ذکر ہے اور کہیں تفصیل سے لیکن اس کو میں نے فیوضات رضویہ جلد 9  صفحہ 259 سے نقل کیا ہے،،۔

اس کے علاوہ گستاخ کے قتل پر کئ واقعات ہے،، سوال یہ پیدا ہوتا ہے گستاخوں کو نبی علیہ السلام نے خود قتل نہیں کیا اور نہ ہی قتل کرنے والوں کو حکم دیا،، حتی کی ذمی کو بھی قتل کیا گیا،، تو کیا یہ قتل کرنا ان کو ناجائز تھا اور حاکم اسلام موجود تھے انکی اجازت بھی نہ لی قتل کردیا ،اور نہ ہی وہ خود قاضی تھے،، ان سب روایت میں اس طرح تطبیق دی جاۓ گی،،

ذمی جب گستاخی کرتا ہے تو اس کا حکم مرتد والا ہو جاتا ہے،، اور مرتد کا خون مباح ہے،،ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ گستاخ کا قتل نبی علیہ السلام کی موجودگی میں کیا گیا، اور نبی علیہ السلام نے اس پر نکیر نہیں فرمائ،،اور یہ بات اپ کو معلوم ہے جب صحابی کوئ کام کرے اور نبی اسپر نکیر نہ فرماۓ تو وہ کام جائز ہونے کی دلیل ہوتا ہے،، لہذا مرتد گستاخ بلا حاکم کی اجازت کے قتل کرنا جائز ہوا،، اور وہ اس لیے کہ اس کا خون مباح ہے،،، رہا یہ کہ حد لگانا حاکم کا کام ہے اور یہاں تو قتل صحابہ نے ہی کردیا حاکم نے حد لگائ نہیں،، تو اس کا جواب یہ ہے،، بیشک حد لگانا حاکم کا کام ہے لیکن اگر کوئ مرتد کو حاکم کی اجازت کے بغیر قتل کردے تو یہ قتل تو جائز ہے ، لیکن اس نے حاکم کے کام میں دخل اندازی کی ہے حاکم چاہے تو اس کو معاف فرما دیں اس دخل اندازی کرنے میں،،

اس سے ان لوگوں کا بھی اعتراض ختم ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں حاکم کے علاوہ کوئ قتل نہیں کر سکتا صرف حاکم کو ہی حق ہے ،،اس کی تائد میں فقہ کی کتب و فتاوی سے بھی کردیتا ہوں،،، اول تو یہ بات سب کو معلوم ہی ہے حد لگانا صرف حاکم کا کام ہے اس کے علاوہ کوئ عام حد نہیں لگا سکتا،،،جب یہ بات ثابت ہوگئ کہ حد صرف حاکم ہی لگاۓ گا تو اب سوال یہ بنتا ہے،،اگر کوئ حاکم کے لگانے سے پہلے اس کو قتل کردے تو یہ فعل کیسا ہے،، اوپر حدیث اور اصول کی روشنی میں جواب ہم دیں اۓ ہیں کی جائز ہے،، لیکن میں اپنی تائد کے لیے کچھ کتب فقہ و فتاوی کے نام ذکر کرتا ہوں،،جس میں جائز لکھا ہوا ہے،،میں یہاں ہر کتاب کی عبارت ذکر نہیں کروں گا ان کا نام ذکر کرتا ہوں جن کتب میں میں نے اس مسئلہ کو دیکھا ہے،،

اور آجر میں 1 عبارت ذکر کردوں گا جن کو یہ عبارات دیکھنے کی خواہش ہو وہ ان کتب میں دیکھیں،،،

باب مرتد کے احکام میں،،

1شامی 2 ادر مختار 3 ھدایہ 4 بنایہ 5 فتح القدیر 6 بحر الرائق  7 نہر الفائق 8 فتاوی عالمگیر 9 فتاوی بزازیہ،،۔

ان سب میں لکھا جائز لکھا ہے کراہت تنزیہ کے ساتھ۔،،

ھدایہ میں ہے

فان قتلہ قاتل قاتل قبل عرض الاسلام علیہ کرہ ولا شیء علی القاتل، و معنی الکراھیتہ ھاھنا ترک المستحب والنتفاء الضمان لان الکفر مبیح للقتل،،۔

اور فتح القدیر میں ہے

فان قتلہ قاتل قبل عرض الاسلام علیہ،، او قطع عضوا منہ کرہ ذلک ولا شیء علی قاتل والقاطع لان الکفر مبیح و کل جنایتہ علی المرتد ھدر و معنی الکرھاتہ ھاھنا ترک المستحب فھی کراھتہ تنزیہ،،،

یعننی حاکم اسلام کے اسلام پیش کرنے سے پہلے کسی نے اس مرتد کو قتل کردیا یا کوئ عضو کاٹ دیا، تو اس پر کوئ حرج نہیں ہے کیوں کہ مرتد کا خون مباح ہے

ہاں مکروہ تنزیہ ہے جو کہ ترک مستحب ہے،،، اسی طرح باقی کتب میں بھی لکھا ہوا ہے،،لیکن شامی نے اور بعض نے کہا ہے اس قاتل کو تادیب کریں،، اب تادیب کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں کہ قتل کرنا ناجائز تھا،،بلکہ اس وجہ سے تادیب کا حکم دیا گیا ہے کہ حد لگانا حاکم کا کام ہے،، اور اس کے قتل کردینیں میں حاکم کے حق  کو باطل کرنا لازم ایا جس وجہ سے تادیب کا حکم دیا گیا ، اب حاکم چاہے تو اس کو نصیحت کریں اور چاہیں ۔ تو معاف کردیں جیسا کہ اوپر ہم ذکر کر اۓ ہیں،،تو یہ جو بعض لوگ تادیب ہونے کہ وجہ سے رٹ لگاۓ ہوۓ ہے کہ قتل کیا اس وجہ تادیب ہے انکو سمجھنا چاہیے تادیب قتل کی وجہ سے نہیں بلکہ حق کے باطل ہونے کی وجہ سے ہے ،،اور ایک وجہ اور ہے وہ یہ ہے جن کے نزدیک مرتد پر اسلام پیش کرنا واجب ہے تو ان کے نزدیک اسلام پیش کردینے سے پہلے اگر کوئ قتل کریں تو یہ مکروہ تحریم ہے ،،لیکن ہم احناف کے یہاں اسلام پیش کرنا مستحب ہے جیسا کی مبسوط باب مرتد کے احکام میں ہے،، اسی وجہ سے تمام کتب میں مکروہ تنزیہ لکھا ہے کی اسلام پیش کرنے سے پہلے کوئ مرتد کو قتل کردیں تو کراہت تنزیہ ہے،،۔

امید ہے اب ان لوگوں کی سمجھ میں یہ مسئلہ آ جائیگا جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں تادیب کی وجہ سے ناجائز ہے یا یہ کہ جو بھی الٹی سیدھی تاویل کرتیں نظر آرہے ہیں،، اور مسئلہ کو کتب فقہ سے سمجھنا نہیں چاہ رہے ہیں،،،،

جو لوگ یہ بول رہے ہیں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اس لیے ناجائز ہے ویسے تو اس کا جواب ہم اوپر تفصیل سے ذکر کر آۓ ہیں،،لیکن پھر بھی میں ان سے کچھ سوال کرتا ہوں ،،اور بات کو ختم کرتا ہوں،، اللہ کریں کہ دل میں اتر جاۓ میری بات،،،

در مختار اور دیگر کتب فقہ یہاں تک کہ بہار شریعت میں بھی یہ مسئلہ لکھا ہے۔۔،

         کفر کرنے پر مجبور کیا گیا اور کفر نہ کیا اس وجہ سے قتل کر دیا گیا تو ثواب پائے گا اسی طرح نماز یا روزہ توڑنے یا نماز نہ پڑھنے یا روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا گیا یا حرم میں  شکار کرنے یا حالت احرام میں  شکار کرنے یا جس چیز کی فرضیت قرآن سے ثابت ہو اس کے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اس نے اس کے خلاف کیا جو مکرِہ کرانا چاہتا تھا اور قتل کر ڈالا گیا سب میں  ثواب کا مستحق ہے۔ ،،مجھے بتاۓ کہ جب اکراہ کی صورت میں بظاہر کفر  کی اجازت قران اور حدیث نے دیں دی تو اب یہ کفر نہ بولے اور قتل کردیا گیا،، تو اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا یا نہیں ڈالا،،جب قران حدیث سے اجازت ہے اکراہ کی صورت میں تو اس نے اس پر عمل نہ کیا اور قتل کردیا گیا، تو اس میں ثواب کیوں مل رہا ہے جب کہ اس نے تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا تھا، اسی طرح نماز روزہ توڑنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا  اور اس نے نہیں توڑا یا نہیں چھوڑا اور قتل کردیا گیا تو ،،ثواب کا مستحق کیوں جب کے کفر کرنے کی اجازت قران حدیث میں مل گئ اکراہ کی صورت میں یہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی بچاتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،،تو کیا اس نے بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا اگر ہلاکت میں ڈالا تو اس پر ثواب کیوں، بلکہ اس پر تو عذاب ہونا چاہئے ،، تھا،،

اسی طرح امام قاضی خاں نے فتاوی قاضی خاں کتاب السیر میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ،،،

ایک مسلمان اگر ایک ہزار مشرکوں پر حملہ کریں ان سے

لڑیں تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے ،،اب مجھے بتاۓ ایک انسان جب ایک ہزار مشرکوں سے لڑیں گا تو یقینی طور پر ہلاک ہوجائیں گا ،تو یہاں ایک ہزار سے لڑنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے کیا یہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے،،۔ ہو سکتا ہے کوئ صاحب یہ بول اٹھے کے صاحب یہاں جہاد کی بات ہے اس لیے اجازت دی ہے اس لیے جان کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں کہلاۓ گا،،، تو اس کا جواب یہ ہے قاض خاں اس کے آگے لکھتیں ہیں،،اگر اپنی سلامتی یا ان کی ذلت کا طمع ہو تو کوئ حرج نہیں  اور یہ طمع نہ ہو تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،،اب مجھے بتاۓ جب ایک آدمی ایک ہزار سے لڑنے جاۓ گا تو وہ سلامت کیسے رہے گا، وہ تو یقینی طور پر قتل کردیا جاۓ گا،، پھر کہتے ہیں اگر اپنی سلامتی اور انکی ذلت کی طمع نہ ہو تو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے، کہ اب کوی فائدہ ہی نہیں ہے،، اگر جہاد کر رہا ہے تو پھر قاضی خاں یہ کیوں فرما رہے ہیں جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،، اگر جہاد میں جان ہلاکت میں ڈالنا ہے تو پھر  جہاد تو فرض ہوگا ہی نہیں،، ان سب سوالوں کے جواب میں ان پڑ چھوڑ تا ہوں جو یہ رٹ لگاۓ ہوۓ ہیں گستاخ کو اسلیۓ نہ قتل کروں کی جان ہلاکت میں اۓ گی،، میں کہتا ہوں جب قاضی خاں یہ فرما رہے ہیں مشرک کی ذلت کا طمع ہو تو ہزار سے لڑنا جائز ہے اور یہ یقینی بات ہے جب ہزار سے لڑیں گا تو قتل کردیا جاۓ گا،، لیکن اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں کہلاۓ گا،، تو پھر اگر ایک عاشق رسول اللہ و رسول کی رضا کے لیۓ کسی گستاخ کو قتل کردیں تو نا جائز کیوں ہوگا ،، اور اس گستاخ کو قتل کرنے میں کفار کی ذلت بھی  یے، اور مسلمان کی غیرت بھی ہے،، تو جب ہزار سے لڑنا جائز ہے اس نیت کے ساتھ انکی ذلت ہوگی تو گستاخ کو قتل کرنا ناجائز کیوں ہوگا،،اس میں بھی تو کفار کی ذلت ہے، اور ہزار سے لڑنیں میں اس کا قتل ہوجانا یقینی ہے،، جب کہ گستاخ کو قتل کرنے میں اس کا ہلاک ہونا یقینی نہیں ہے،،کیوں کہ حکومت اس کو قید کریں گی یہ بھی ہو سکتا ہے اس کو بیل مل جاۓ بعد میں،اور وہ ازاد ہوجاۓ،، کیا اپ دیکھتیں نہیں کتنے قتل کرنے والے بیل لیکر ازاد گھومتے ہیں،، پھر آخر میں جاکر یہ احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے اسے  سولی پر چڑا دیا جاۓ،، میری نظر میں خود ایسے لوگ ہے جن لوگوں نے قتل کیا ہوا ہے، لیکن اج وہ ازاد گھوم رہے ہیں،،،

اسی طرح امام عالی مقام کوفہ گۓ اور آپ کے ساتھی بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے اور آپ کے بھائ نے بھی روکا یہاں تک کے حضرت محمد بن حنفیہ نے اپنے بچو کو نہ بھیجا کہ یہ بچے مشکل میں پڑ جائیں گے، لیکن امام عالی مقام پھر بھی گۓ

، کربلا میں آپ اور آپ کے ساتھی شہید ہوۓ تو کیا امام عالی مقام نے خود اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان ہلاکت میں ڈالی تھی، ان کا یہ فعل ناجائز تھا،،، ہو سکتا ہے اب کوئ کہے امام عالی مقام خود نہیں گۓ ان کو تو بلایا گیا تھا،، تھیک ہے یہ بات مان لیتیں ہیں،، اپ کو بلایا گیا تھا،،خود نہیں گۓ،، تو اس کا جواب یہ ہے جب آپ کو یہ خبر ملی کے امام مسلم شہید ہوگۓ ہیں،، تو آپ واپس بھی آسکتیں تھے،،چلیں واپس نہ بھی اۓ،،کربلا پہنچ گۓ،، تو جنگ شروع ہونے سے پہلے، یا شروع ہونے کے بعد یا آپ کے ایک یا 2 ساتھی شہید ہونے کے بعد،، آپ یزید کے ہاتھ پر بیعت تو کر سکتیں تھے، اپنی اور اپنے اصحاب کی جان بچانے کے لیے، پھر بعد میں واپس آکر جو چاہیں آپ کرتے اس بیعت کو توڑ دیتے،،، اور اس بیعت کرنے میں کوئ گناہ بھی نہ تھا چونکہ جان بچانے کے لیے کی جاتی،، خود امام اہلسنت فرماتے ہیں،،

دوصورتیں تھیں یا بخوف جان اس پلید کی وہ ملعون بیعت قبول کی جاتی کہ یزید کا حکم ماننا ہوگا اگرچہ خلاف قرآن وسنت ہو۔یہ رخصت تھی ثواب کچھ نہ تھا قال تعالٰی:" اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمٰنِ" مگر جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔یا جان دے دی جاتی اور وہ ناپاك بیعت نہ کی جاتی،یہ عزیمت تھی اور اس پر ثواب عظیم،اور یہی ان کی شان رفیع کے شایان تھی،اسی کو اختیار فرمایا،،،

فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 554

امام اہلسنت خود فرما رہے ہیں یزید کی بیعت کرنے میں رخصت تھی لیکن ثواب نہ تھا،،

اور نہ کرنے میں ثواب عظیم اس لیے بیعت نہیں فرمائ،، میں کہتا ہوں جب امام عالی مقام نے بیعت نہ کی اور عزیمت پر عمل کیا ثواب پایا،،ہر چند کے آپ کے اصحاب بھی اس میں شہید ہوگۓ اور آپ  بھی شہید ہوگۓ لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ اپ نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا،، اور معاذ اللہ ایسا کہے گا بھی تو وہی جو گستاخ حسین ہوگا۔، چاہتے تو رخصت پر عمل جائز تھا،،

۔، تو پھر اگر کوئ اللہ و رسول کی رضا کے لیے کسی گستاخ کو وہ بھی ایسا جو کے مرتد یا حربی ہو اسے قتل کردیں  چے جاۓ کہ اس میں وہ خود ہلاک ہوجاۓ بعد میں، تو اس کو ثواب کیوں نہ ملیگا،، اس کا یہ فعل ناجائز کیوں ہوگا کیوں اس کو ثواب نہ ہوگا جب کہ

امام اہلسنت نے تو خود فتاوی رضویہ میں کئ مقام پر حربی کافروں ہر اتنی سختی

فرماتے نظر اتے ہیں کہ، حربی کا خون مباح ہے اس کے خون کی حرمت نہیں،، اگر ایک جگہ پیاس سے کتا مر رہا ہوں اور وہیں پر حربی کافر بھی دونوں کو پیاس شدید لگی ہو کہ پانی نہ ملے تو مرجائیں گے تو فرماتے ہیں کتے کو پانی پلایا جاۓ حربی کو نہ پلایا جاۓ،،۔

اور رہی یہ حدیث،

لزوال الدنیا أھون علی اللہ من قتل رجل مسلم،،

ترمذی اور نسائ نے روایت کیا ہے،، اس سے یہ استدلال کرنا باطل ہے کہ کافر یا گستاخ رسول سے لڑا نہ جاۓ یا اسے قتل نہ کیا جاۓ،، چونکہ اس روایت کا مطلب صرف اتنا ہے،،

کہ ساری دنیا کا زاول اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کے  مارے جانے سے بہت زیادہ ہلکہ ہے،، یا اس جیسی دوسری روایات ہو کہ مسلمان کی حرمت کعبہ سے زیادہ ہے وغیرہ،،،ان روایات میں مسلمان کی قدر منزلت اللہ کے نزدیک کتنی زیادہ ہے یہ بتایا گیا ہے،،اور اپ کو معلوم ہے اللہ کے نزدیک یہ قدر منزلت اس وقت اور بڑ جاتی ہے جب کوئ کفار سے لڑتے ہوۓ قتل ہوجاۓ،، تو اس کو شہید کا مقام ملتا ہے،، تو اس سے اگر وہ مطلب نکالا جاے جو اج کل کچھ لوگ نکال رہے ہیں، کے گستاخ کو قتل نہ کرو، مسلمان کی قدر منزلت بہت ہے ہلاکت میں ڈالنا ہے وغیرہ،، تو پھر جہاد کرنا بھی ناجائز ہو جاۓ گا کہ اس میں بھی مسلمان قتل کردیا جاتا ہے، تو کیا اس حدیث سے استدلال کرتے ہوۓ جہاد کو بھی حرام قرار دیا جاۓ گا،،یا جو اپنا مال اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوجاۓ اس کو حدیث میں شہید کہا گیا ہے،، تو کیا حفاظت کرتے ہوۓ بھی قتل ہوجانا ناجائز ہو جاۓگا،،، اور اگر آپ اس روایت سے وہی مطلب نکال رہے ہیں  جو اپ کہ رہے ہیں،، تو پھر مجھے بتاۓ،، ان روایت کے بارے میں کیا کہیں گے،، کی نماز ترک کرنے والے نے کفر کیا،،غیر اللہ کی قسم کھانے والے نے کفر کیا،،کسی کے نسب پر تہمت لگانے والے نے کفر کیا،،مسلمان مسلمان کو قتل کردیں تو اس نے کفر کیا، اس طرح کی جو اور روایات ہے جس میں لفظ کفر ایا ہے ،،تو اس کا مطلب کیا لیا جاۓ اگر ظاہر مراد لیا جاۓ تو،،پھر کچھ چند لوگ ہی مسلمان بچیں گے کہ جو یہ کام نہ کرتے ہو باقی سب کافر ہوجائیں گے معاذ اللہ،، اس کا جواب اپ ہی پرچھوڑتیں ہیں،،،

گستاخ رسول کے قتل کے بارے میں ہمارا موقف وہی یے،، جو امام اہلسنت سنت کا ہے،، کہ حد لگانا تو حاکم کا کام ہے، عوام گستاخ سے بچیں دور رہے اسے قتل کرنے کا حکم بھی نہ دیا جاۓ گا کہ وہ قتل کرے کیوں کہ قتل کرنا حاکم کا کام ہے اور یہاں ہند میں اسلامی نظام نہیں یہ دار الکفر ہے اور حکم دار الاسلام، اور نہ ہی عوام پر اس یہ واجب ہے کہ گستاخ رسول کا قتل کریں۔،

علماء اپنی تحریروں زبان سے رد کریں،،لیکن اگر کوئ شخص گستاخ رسول کو قتل کردیتا ہے،،  چونکہ گستاخ  مرتد ہوجاتا ہے،اور اس کا خون مباح ہوجاتا ہے،اور جو گستاخ پہلے سے ہی حربی ہو جسے قتل کرنے کا حکم پہلے سے ہی ہو،،، اگر وہ اس کو قتل کردیتا ہے تو یہ جائز ہے ناجائز نہیں اور نہ اس پر شرعی طور پر کوئ قصاص ہے،، فقہاء نے فرمایا ہے، اگر کوئ مسلمان مرتد کو قتل کردیں تو اس پر کوئ قصاص نہیں ہے،،

جیسا کہ اگر نجاست درہم سے کم مقدار میں لگی ہو اور یہ عالم سے حکم معلوم کرے تو وہ فرماۓ کہ اس نجاست کو زائل کرکے نماز پڑھوں،، لیکن اگر وہ درہم سے کم مقدار میں نجاست لگی نماز پرھ لے تو اس کی نماز ہوجاۓ گی جائز ہے کراہت تنزیہ کے ساتھ ،، اسی طرح قتل کا حکم نہ دیا جاۓ گا ، لیکن اگر کوئ خود اللہ و رسول کی رضا کے لیے کفار کو ذلیل کرنے کے لیے اپنی غیرت دکھاتے ہوۓ قتل کردیں تو اس کا یہ عمل جائز ہے۔ ناجائز نہیں کہا جاۓ گا اور نہ ہی اس کو ملامت کی جاۓ گی ۔،جیسا کی ہم اوپر دالئل کے ساتھ ذکر کر اۓ ہیں

اللہ کریم ہمیں صحیح فہم فقہ حق بولنے لکھنے کہنے اور کفار اور گستاخ رسول پر سخت رہنے کی توفیق عطا فرماۓ،،

✍️فقیر عاجز حقیر  دانش حنفی قادری،، بمطابق

4-7-2022

مقیم حال ہلدوانی نینیتال علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:39، 4 جولائی 2023ء (م ع و)

رد بلیغ[ترمیم]

*(امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑا نہ ہونے کربلا تک کا سفر صرف اونٹنی پر کرنے کے دلائل کا جائزہ و رد بلیغ)*

محمد علی نقشبندی صا حب جو کی اہلسنت کے محقق عالم ہیں انہوں نے اپنی کتاب میزان الکتب میں لکھا ہے ،مدینہ سے کربلا تک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار تھے، آپ کے پاس گھوڑا نہیں تھا، ایک صاحب اور ہیں جو عبد مصطفی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک رسالہ تحریر کیا ہے چند واقعات کربلا کا تحقیقی جائزہ،

مصنف عبد مصطفے محمد صابر اسماعیلی قادری رضوی صاحب نے بھی پورا زور اس پر لگا دیا کی آپ کے پاس گھوڑا نہیں تھا،اور نہ ہی آپ نے اس پر سفر کیا بلکہ ان صاحب نے شاید اس بارے میں خود اپنی کوئی تحقیق نہیں کی جیسا محمد علی صاحب نے لکھا ہے، ویسا ہی ان صاحب نے لکھا ہے، گویہ کی میزان الکتب سامنے رکھ کر جیسا اس میں لکھا ہے ویسا ہی اتار دیا ہو، یہ بات فقط ہم اس لیے بتا رہے ہیں جب ہم نے دونوں کتابوں کو دیکھا تو دلائل ایک جیسے نظر آئے،خیر ہم اس پر نہیں جاتے کس نے کہا سے لیا اور نہ ہی اس پر ہم کو تحقیق کرنی ہے، اصل مقصد یہ ہے ان دونوں صاحبوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اس پر دلائل قائم کیۓ ہیں۔ مگر وہ دلائل نہ قابل قبول و ضعیف ہیں۔ کہ کربلا میں آپ کے پاس اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا،، ہم اس تحقیق پر تحقیق پیش کریں گے اور اس بات کو ثابت کریں گے کہ ان دونوں صاحب کی تحقیق کہاں تک درست ہے، محمد علی نقشبندی صاحب نے اونٹنی ہونے پر شیعوں کی کتب سے زیادہ حوالے پیش کئے ہیں، اس لیے ہم شیعوں کی عبارتوں کا رد نہیں کریں گے، چونکہ جہاں شیعوں نے اونٹنی ہونے کا ذکر کیا ہے ،تو بعض نے گھوڑا ہونے کا بھی ذکر کیا ہے،تو بعض نے اونٹنی اور گھوڑا دونوں ہونے کا ذکر کیا ہے،، اس لیے ہم شیعوں کی ان عبارتوں کا رد نہیں کریں گے،، اور نہ ہی شیعہ ہمارے لیے معتبر ہے،

ہم تاریخ کی معتبر کتب و دلائل کا  ذکر کریں گے، اور اس بات کو ثابت کریں گے کی ان دونوں حضرات کی تحقیق غلط ہے ۔ صحیح تحقیق یہ ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس گھوڑا تھا،

محمد علی صاحب لکھتے ہیں۔

میدان کربلا میں اپنے سارے ساتھیوں کی شہادت کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہوکر آنا سیدہ سکینہ کا گھوڑے کے پاؤں کو چمٹے رہنا جس وجہ سے گھوڑا نہ چل سکا پھر گھوڑے کا اشارہ سے امام پاک کو بتانا کی شہزادی چمٹی ہوئی ہیں،وغیرہ اس طرح کے واقعات خطبہ حضرات خوب بیان کرتے ہیں۔

اور سنیوں شیعوں کی کتب میں لکھے ہیں۔اس طرح کے واقعات سے مقصد ماتم کرنا ہوتا ہے، جس سے شیعہ حضرات اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، اور سنی واعیظین بھی رو رو کر اس طرح کے واقعات بیان کرتے  ہیں، جس سے یہ لوگ شیعوں کا کام آسان کر رہے ہیں اور ان کے کام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چونکہ حقیقت یہ ہے امام پاک نے اپنا سفر کربلا تک کا اونٹنی پر کیا تھا،

مزید لکھتے ہیں۔مقتل ابی مخنف میں ہے۔

جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ  نے عراق جانے کا ارادہ کیا تو آپ کے بھائی محمد ابن حنفیہ نے جب یہ سنا تو آپ کے پاس اۓ اور آپ سے کافی گفتگو فرمائی اور کہا آپ مکہ مکرمہ میں ہی رہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے خطرہ ہے کے بنو امیہ کا لشکر مکہ مکرمہ میں لڑنا شروع نہ کردے پھر حضرت حنفیہ نے  امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو یمن جانے کا مشورہ دیا کہ وہاں آپ امن میں رہیں گے اس پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں کسی چٹان کے اندر بھی ہوا تو بھی وہ لوگ مجھے نکال کر قتل کردیں گے پھر امام عالی مقام فرماتے ہیں۔ میں آپ کی بات پر توجہ کروں گا پھر جب سحری کا وقت ہوا تو امام عالی مقام نے

عراق کی طرف جانے کا عزم فرمایا تو جناب محمد بن حنفیہ نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی اور کہا بھائی جان آپ کے اتنی جلدی جانے کی وجہ کیا ہے تو امام عالی مقام نے فرمایا۔تمہارے جانے کے بعد نیند کی حالت میں میرے پاس نبی علیہ السلام تشریف لاۓ میری آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا بیٹا حسین عراق کی طرف نکل پڑو اللہ کا یہی ارادہ ہے وہ تم کو شہید ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔

جس کے عربی عبارت یہ ہے۔

کان وقت السحر عزم السیر الی العراق فاخذ محمد بن حنفیہ  زمام ناقتہ و قال یا اخی ما سبب ذالک انک عجلت فقال جدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتا نی بعد فار قتک و انا نائم فضمنی الی صدرہ قبل بین عیننی و قال یا حسین یا قرتہ عینی اخرج الی العراق فانااللہ عن و جل قد شاء ان یراک قتیلا۔

ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہم ذکر کر اۓ ہیں اس عابرت میں امام عالی مقام کے بھائی کا ایک عمل ہمیں نظر آیا ہے اور وہ عمل یہ ہے فاخذ محمد بن حنفیہ  زمامہ ناقتہ۔ محمد بن حنفیہ نے امام کی اونٹنی کی مہار پکڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ امام نے جب سفر شروع کیا تو آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر سفر فرمایا تھا اب اونٹیی راستے میں تبدیل ہوگئ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا اس بات سے صاف ظایر ہو جاتا ہے گھوڑے کا ذکر ذوالجناح کی کہانیاں سب فرضی ہیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔

اس عبارت کو بحوالہ ذبح عظیم مقتل ابی مخنف سے لکھا گیا ہے،

ان دونوں حضرات نے اس عبارت کو ذبح عظیم کے حوالہ سے لکھا ہے، کہ اس میں مقتل ابی مخنف کا حوالہ ہے،

غور طلب بات یہ ہے ڈائریکٹ مقتل ابی مخنف سے یہ عبارت کیوں نہ لکھی، ذبح غطیم سے ہی کیوں لکھا گیا۔

اس کا جواب ہم دیتے ہیں۔

کیوں کہ مقتل ابی مخنف میں یہ عبارت ہے ہی نہیں اور شاید محمد علی صاحب کو بھی یہ عبارت مقتل ابی مخنف میں نہیں ملی ہے چونکہ بہت سی جگہ محمد علی نقشبندی صاحب نے مقتل ابی مخنف کا ڈائریکٹ حوالہ دیا ہے پتہ چلا اگر ان کو یہ عبارت مقتل ابی مخنف میں ملتی تو وہ ڈائریکٹ اسی کا حوالہ دیتے محمد علی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے عبد مصطفیٰ محمد صابر اسماعیلی صاحب نے اپنی کتاب میں ایسا ہی لکھ دیا جیسا محمد علی صاحب نے لکھا ہے، عبد مصطفی صاحب نے مقتل ابی مخنف دیکھنے کی زہمت نہیں اٹھائی اسی لیے ان صاحب نے بھی یہ بات لکھ کر ،بحوالہ ذبح عظیم مقتل ابی مخنف لکھ دیا  اور غلطی کر بیٹھے اور اپنے رسالہ واقعات کربلا کا تحقیقی جائزہ میں لکھ دیا۔

پہلی بات یہ عبارت مقتل ابو مخنف میں ہے ہی نہیں دوسری بات یہ ہے اس عبارت میں

یمن جانے اور مکہ میں رہنے کی بات محمد بن حنفیہ نے نہیں کہی بلکہ حضرت ابن عباس نے آپ سے یہ کہا تھا ہم پوری عبارت لکھتے ہیں مقتل ابی مخنف سے جو کی کویت سے طبع ہوا ہے 1987۔ میں

محمد بن حنفیہ اۓ اور کہا

یا اخی انت اعز الناس علی و احبھم و اکرمھم لدی و لست انصح احدا احب الی منک ولا احق بالنصیحتہ فبحقی علیک الا

ما ابعدت شخصک عن یزید و ایاک والتعرض لہ دون ان تبعت دعاتک فی الامصار یدعون الناس  الی بیعتک فان فعل الناس ذلک حمدت اللہ و ان اجتمعوا الی غیرک فلم ینقض اللہ بذلک فضلک و انی خائف علیک ان تئاتی مصرا من ھذہ الامصار فی جماعتہ من النانس فیختلفون علیک فتکون بینھم صریعا فیذھب دمک ھدرا و تنتھلک حرمتک،،فقال حسین رضی اللہ عنہ یا اخی فانی اجھد انزل مکتہ فان اطمائنت بی الدار اقمت بھا و ان کانت الاخری لحقت بالرمال و سکنت الجبال و انظر ما یکون من الناس و استقبل الامور ولا استدبرھا،،،

ثم قال لاخیہ محمد بن حنفیتہ احسن اللہ جزاک لقد نصحت یا اخی و احسنت۔

مقتل ابی مخنف صفحہ 22📗

ترجمہ۔ محمد بن حنفیہ نے کہا بھائی صاحب آپ مجھے سب لوگوں میں عزیز ہیں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور سب سے زیادہ محترم ہیں، آپ سے زیادہ میں کسی کا خیر خواہ نہیں، اور نہ مجھ سے زیادہ آپ کو کوئ نصیحت کرنے کا حقدار ہے میرا جو آپ پر حق ہے اس کی بنا پر کہتا ہوں آپ یزید سے تعرض نہ کریں آپ اپنے گماشتے شہروں میں بھیجیں جو لوگو کو آپ کی بیعت کی دعوت دیں، اگر لوگوں نے پزیرائ کی تو اللہ کا شکر ادا کیجیۓ اور اگر وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرت پر مجتمع ہونا پسند کریں تو اس سے اللہ آپ کے مرتبے میں کچھ کمی نہیں ہونے دیگا مجھے ڈر ہے کسی گروہ کے ساتھ کسی شہر میں گۓ اور لوگوں نے آپ کی مخالفت کی تو آپ زیر ہوجائیں گے تو آپ کا خون ضائع جاۓگا اور آپ کی بے حرمتی ہوگی۔

امام عالی مقام نے فرمایا۔بھائ میں مکہ جانے کی کوشش کرتا ہوں، اگر وہاں اطمینان نصیب ہوا تو وہیں رہ پڑوں گا اور بات دوسری ہوئی تو صحراؤں کی طرف نکل جائوں گا پہاڑوں میں مسکن گزین ہوں گا وہاں اور لوگوں کا رویہ دیکھوں گا میں معاملہ آگے بڑھانا چاہتا ہوں پیچھے ہٹنا نہیں پھر آپ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا اللہ کریم آپ کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ تم نے نصیحت کا حق ادا کردیا۔

قارئین کرام یہ تھی مقتل ابھی مخنف کی عبارت یہاں نہ تو کوئ اونٹنی کا ذکر ہے اور نہ اس کی نکیل کا ذکر ہے اور نہ یہ یمن جانے کا مشورہ ہے لیکن عبد مصطفی صاحب نے اس عبارت سے پورا زور اس پر لگا دیا کی وہاں اونٹنی تھی جبکہ

مقتل ابی مخنف میں یہ عبارت ہے ہی نہیں جس عبارت سے پورا زور اونٹنی ثابت کرنے کے لیے لگایا گیا اور گھوڑا نہ ہونے کا انکار کیا گیا، تو اب آپ خوب اچھی طرح سمجھ سکتیں ہیں۔

اس دعوے کی حقیقت کیا رہ

گئ۔ نیز تاریخ طبری جزء الخامس صفحہ 342 پر بھی یہی عبارت ہے جو ہمنیں اوپر ذکر کی ہے ،وہاں بھی نہ تو اونٹنی کا ذکر ہے نہ ہی اس کی نکیل پکڑنے کا ،،نہ ہی یمن جانے کا مشورہ کا ذکر ہے،

اسی طرح البدایتہ و النہایتہ

میں بھی اس طرح کا کوئ ذکر نہیں ہے۔

جب یہ عبارت موجود ہی نہیں ہے تو اس کو دلیل بناکر یہ دعوی بھی نہیں کہا جا سکتا کی اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا،

اس لیے اب ہم دوسری عبارت کا ذکر کرتے ہیں۔ جس سے عبد مصطفی صاحب اور محمد علی صاحب نے گھوڑا نہ ہونے پر دلیل پکڑی ہے، وہ لکھتیں ہیں۔

تاریخ طبری میں ہے،

فرزوق کو امام عالی مقام نے فرمایا اپنے پیچھے لوگوں کی باتیں بتاؤ تو اس نے کہا لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور ان کی تلوار بنو امیہ کے ساتھ

امام عالی مقام نے ان سے فرمایا

تمام کام اللہ کو ہی زیب دیتے ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس کی نیت صحیح ہو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا یہ کہا اور اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور السلام علیک کہا اور چل دیۓ،

قارئین کرام فرزوق کی ملاقات کوفہ کے راستیں میں ہوئ تھی اور طبری کی یہ عبارت

ثم حرک الحسین راحلتہ فقال السلام علیک ثم افترقا۔

کہ امام عالی مقام نے اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور سلام کہا اور وہاں سے چل دیۓ، اس بات پر دلالت کر رہی ہے کی آپ کوفہ کے راستیں میں بھی اونٹنی پر سوار تھے،

تاریخ طبری جلد 6 ص 218،،

اس عبارت میں راحلتہ کا لفظ ایا ہے آخر میں اور راحلتہ کا معنی سواری بار برداری اونٹنی جس پر سامان لادا گیا ہو وغیرہ۔ محمد علی صاحب نے اپنی کتاب میں لفظ راحلتہ پر بحث کرکے اس کا معنی اونٹنی ہی لیا ہے۔ چونکہ آپ کو اونٹنی ہی ثابت کرنی تھی اس لیے وہ معنی لیے اور عبد مصطفی صاحب جو کی بار بار محمد علی صاحب کی تقلید کر رہے ہیں۔ انہوںنے  یہاں بھی انکی پیروی کرتے ہوۓ

اونٹنی ہونا بیان کیا ہے،

لیکن ہمارے نزدیک اونٹنی کے معنی لینا صحیح نہیں راحلتہ کا معنی سواری بھی آتا ہے تو بہتر تھا یہ معنی لیۓ جاتے آپ نے اپنی سواری کو حرکت کی اور چل دیۓ اور اگر ہم محمد علی صاحب کی تحقیق کو مانتے ہوۓ اونٹنی مراد لے بھی لے تو بھی اس میں ایک احتمال یہ ہوگا کہ آپ سوار تو گھوڑے پر ہی تھے لیکن آپ کا سامان اونٹنی پر تھا تو جب چلنے کا ارادہ کیا تو اپنی اس اونٹنی کو حرکت دی جس پر سامان لدا ہوا تھا  ایک یہ احتمال موجود رہے گا اس لیے بہتر یہی ہے یہ معنی لیے جاۓ اپنی سواری کو حرکت کی۔ اور اگر ہم یہ بھی مان لے کہ یہاں مراد اونٹنی ہی ہے تو بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کی آپ کے پاس گھوڑا نہ ہو چونکہ ممکن ہے فرزوق سے ملاقات کے وقت آپ اونٹنی پر  تشریف فرما ہوں اس سے پہلے گھوڑے پر ہی سوار تھے چونکہ طبری کے جس صفحہ سے محمد علی صاحب نے یہ عبارت نقل کی ہے اسی صفحہ پر یہ عبارت بھی موجود ہے۔کہ امام عالی مقام کو ایک قافلہ ملا جن سے آپ نے کراۓ پر اونٹنیہ لی تھی کربلا تک کے لیے، اگر امام عالی مقام اونٹنی پر پہلے سے ہی سوار تھے تو پھر کراۓ پر اونٹنیہ کیوں لی اور یہ اونٹنیہ لینا بھی فرزوق کی ملاقات سے پہلے لینے کا ذکر ہے تو ممکن ہے آپ نے اس وقت اپنی سواری بدل لی ہو اور گھوڑے پر سوار نہ ہوکر اونٹنی پر سوار ہو گۓ ہو۔ تو اس لیے صرف اونٹنی کے معانی لینا لفظ راحلتہ سے صحیح نہیں، اگر معنی یہ لیۓ جاۓ جو ہمنیں ذکر کیۓ ہیں یعنی اپنی سواری کو حرکت کی اس معنی میں دونوں شامل ہوجاتی ہیں اوںٹنی بھی اور گھوڑا بھی اس وجہ سے طبری کی اس عبارت سے اونٹنی مراد لینا صحیح نہیں ہے جبکہ اتنے احتملات اس میں پاۓ جا رہے ہوں۔ مزید محمد علی صاحب اور عبد مصطفی صاحب نے دونوں نے ایک ہی روایت نقل کی ہے جس سے یہ دلیل پکڑی ہے امام عالی مقام کے پاس صرف اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا آپ لکھتیں ہیں،۔

دلائل النبوتہ میں ہے۔

عن اصبع بن  بناتہ عن علی رضی اللہ عنہ،، قال اتینا معہ موضع قبر الحسین رضی اللہ عنہ ،فقال ھھنا مناخر کابھم و موضع رحالھم و ھھنا محراق دماءھم فتیتہ من ال محمد یقتلون بھذا العرصتہ تبکی علیھم السماء والارض،،،

دلائل نبوتہ جلد 2 صفحہ 744

ترجمہ۔ اصبع بن بناتہ سے روایت ہے وہ حضرت علی سے بیان کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ہم حضرت علی کے ساتھ اس جگہ اۓ جہاں امام پاک کی قبر ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے اور ان کے کجاووں کی جگہ ہے، یہ جگہ ان کے خون گراۓ جانے کی جگہ ہے آل محمد کے جوانوں کو یہاں شہید کردیا جاۓ گا ان پر آسمان زمین رویں

گے۔ قارئین کرام اس روایت میں حضرت علی فرما رہے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے یعنی خاندان اہل بیت کے اس جگہ اونٹ بیٹھیں گے آپ نے اس جگہ کی نشان دہی فرمائ اس سے ظاہر ہوتا ہے، خاندان اہل بیت اونٹ پر سوار ہوکر آۓ اور انہوں نے اپنے انٹوں کو اس جگہ باندہا ان کے کجاوے رکھے یکن نہ جانے شیعہ سنی  نے  اہل بیت کے اونٹ کہان بھگا دیۓ اور اس کی جگہ گھوڑے لے اۓ علامہ محمد علی نقشبندی اس روایت سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کی گھوڑے موجود نہیں تھے صرف اونٹ موجود تھے، حالانکہ اس روایت سے گھوڑا نہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی یعنی یہ فرمانا اونٹ یہاں بیٹھیں گے اس سے یہ لازم نہیں اتا کی گھوڑے ہو ہی نہیں یہاں اونٹ بھیٹھیں گے کا صرف اتنا مطلب ہے کہ آپ کی  سواری کے جانور یہاں بیتھیں گے جس طرح اس روایت میں آپ کے پاس دیگر سامان موجود تھا مثلا الات جنگ یا دیگیر سامان ان کا ذکر اس روایت میں نہیں تو اس سے یہ تو لازم نہیں اتا کی یہ الات آپ کے پاس نہ ہو، اور پھر یہ روایت ہمارے محقق علمائے کرام نے بھی ذکر کی ہے اپنی  تصنیفوں میں لیکن اس روایت سے ان بزرگوں نے بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا کی یہاں اونٹ بیٹھنے کا ذکر ہے تو گھوڑے ہو ہی نہیں۔ بلکہ وہ بزرگ بھی یہ جانتے تھے کی یہاں بیٹھ نے سے مراد آپ کی سوارییوں کا بیٹھنا ہیں، اس لیے اس روایت سے گھوڑوں کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ بہت سے مقامات پر گھوڑوں کا ذکر ایا ہے جس کو میں اگے ذکر کروں گا انشاء اللہ۔

جناب عبد مصطفی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی کتاب

سر الشہادتین سے اور ان صاحب نے بھی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہاں گھوڑے نہیں تھے صرف اونٹ تھے لطف کی بات یہ ہے جناب عبد مصطفی کو اس روایت سے اپنا مقصد سیدھا کرنا تھا یعنی گھوڑے نہیں تھے۔ اس لیے ان صاب نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب سے صرف یہ روایت نقل کردی لیکن جس جگہ شاہ صاحب نے گھوڑا ہونے کا ذکر کیا ہے اس عبارت کو ان جناب نے لیا ہی نہیں اگر وہ ذکر کرتے تو پھر ان صاحب کا وہ مقصد کیسے سیدھا ہوتا،

شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ  سر شہادتین میں لکھتیں ہیں۔

جب امام عالی مقام زخموں سے نڈھال ہو گۓ اور آپ کے اندر قوت نہ رہی آپ کو ایک تیر اکر لگا فسقط عن الفرس

پھر آپ اپنے گھوڑے سے زمین پر تشریف لے اۓ

سر الشہادتین صفحہ 62۔

قارئین دیکھا آپ نے شاہ صاحب نے اگرچہ اس روایت کو نقل کیا جس میں انوٹ بیٹھنے کا ذکر ہے لیکن اس روایت سے یہ دلیل ہر گز نہ پکڑی کی وہاں گھوڑے تھے ہی نہیں تبھی تو آپ نے گھوڑے والی روایت کو ذکر کیا ہے،

لہذا اونٹ بیٹھیں گے اس روایت سے گھوڑوں کی نفی کرنا قطعی صحیح نہیں ہے،۔

علامہ محمد علی صاحب اور جناب  عبد مصطفی نے شیعوں کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشس کی ہے، کہ امام عالی مقام کے پاس صرف اونٹنی تھی لیکن ہم آپ کو بتادیں کہ اس کا مصنف صرف اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ذو الجناح نام کا گھوڑا نہیں تھا، بلکہ اس نے گھوڑا ہونے کا اقرار کیا ہے اور کہا ہے امام عالی مقام کی دو سواری تھی اونٹنی اور گھوڑا،

وہ لکھتا ہے۔

پس اسپ بر انگیخت وتیغ بر آہیخت مکشوف باد کہ اسپ سید الشہداء راکہ ور کتب معتبرہ را بنام نوشتہ انداز افزوں از دو مال سواری نیست یکے اسپ رسول خدا کہ مرتجز نام داشت و دیگرے شترے کہ مسّناة می نا مید ندو اسپ کہ ذوالجناح نام داشتہ باشد در ہیچک از کتب احادیث و اخبار و تواریخ معتبرہ من بندہ ندیدہ ام و ذوالجناح لقب شمر پسر لہیعہ حمیر یست واسپ ہیچ کس را بدیں نام نہ شیندہ ام - واگر اسپ چند کس راجناح نام بودہ بعد مربوط بہ ذوالجناح و منسوب بحسین نخواہد بودو اگر اسپ ہائے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم راجناح نامید ند باز نشاید ذوالجناح گفت درہر حال بدیں نام اسپ نام دار نہ بوده -

(ناسخ التواریخ ، جز ٢ ، جلد ٦ ، در احوال حضرت سید الشہداء ، صفحہ ٣٦٦ ، شمارہ مرکب ہائے حسین ، مطبوعہ تہران)

ترجمہ : پھر گھوڑا کودا اور آپ نے تلوار کھینچ لی واضح ہو کہ سید الشہداء (حسین رضی الله عنہ) کی سواری معتبر کتابوں میں دو نام سے مذکور ہے - ایک گھوڑا نبی صلی الله علیہ وسلم کا تھا جس کا نام مرتجز تھا - دوسری سواری اونٹ تھی - جس کو مسّناة کہتے تھے - اور گھوڑا کہ جسے ذوالجناح کا نام دیا گیا ہے - حدیث ، اخبار اور تاریخ کی کسی معتبر کتاب میں میں نے اس کا نام نہیں دیکھا - اور ذوالجناح ایک شخص شمر بن لھیعہ کا لقب تھا - اور کسی کے گھوڑے کا یہ نام میں نے نہیں سنا - اور اگر چند گھوڑوں کے نام ذوالجناح ہوں - اور اس کے ساتھ "ذو" کا لفظ جوڑ کر ذوالجناح بنایا جائے - تو بھی یہ گھوڑا حسین کا نہیں ہو سکتا - اور اگر پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑوں کا جناح رکھیں - پھر بھی ذوالجناح کہنا غلط ہے - بہرحال اس نام کا گھوڑا کوئی نہ تھا -

اس عبارت میں صرف گھوڑا ذو الجناح نہ ہونے کا ذکر ہے ،باقی خود وہ اس کا اقرار کر رہا ہے کہ معتبر کتابوں سے دو سواری کا ہونا ثابت ہے اونٹ اور گھوڑا تو اس عبارت سے بھی گھوڑا نہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ گھوڑا ہونا اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے ہم اس بات کا انکار نہیں کررتے کہ آپ کی سواری اونٹنی ہو ہی نہیں اور ابھی تک کے کلام میں ہمنیں اس کی نفی بھی نہیں کی ہمنیں کلام صرف گھوڑے کے اثبات پر کیا ہے، اب میں چند وہ عبارت ذکر کرتا ہوں جس میں نہ تو راحلتہ رکب رحال وغیرہ کا لفظ نہ ہو بلکہ فرس لفظ ہو تاکہ کسی طرح کا کوئ احتمال نہ رہے کہ یہاں پر یہ مراد ہے یہاں یہ کسی طرح کی تاویل نہ ہو فرس کا معنی چھوٹا سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ اس کا معنی گھوڑا ہے،، تو میں صرف انہی عبارت کو ذکر کروں گا جس میں فرس ایا ہے،

(امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑے ہونے پر دلائل)

حضرت علامہ محمد علی اور جناب عبد مصطفی نے امام عالی مقام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام عالی مقام نے فرمایا یہاں ہمارے اونٹ بیٹھیں گےان دونوں صاحبوں نے یہاں سے یہ مراد لیا کہ اونٹ ہونا ثابت ہوتا ہے، اگر گھوڑا ہوتا تو یہاں گھوڑوں کا ذکر ہوتا،،

جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا اۓ ہیں یہاں اونٹ بیٹھیں گے  اونٹ کا ذکر ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ گھوڑا ہو ہی نہیں خیر ان دونوں صاحبوں کو اپنی بات ثابت کرنی تھی تو اس لیے صرف اونٹ کا ذکر کردیا ،اس کے اگے کی عبارت کو ان دونوں صاحبوں نے اڑا دیا حذف کردیا جی ہاں اس سے اگے کی عبارت ذکر کرتے تو پھر ان حضرات کی بات ثابت کہاں ہوتی، اس کے آگے عبارت ہم ذکر کرتے ہیں،

ثم نزل عن فرسہ و انشأ یقول

مقتل ابی مخنف صفحہ 75۔۔

جس کا معنی ہے کے پھر اس کے  بعد یعنی جب اپنے ساتھیوں سے یہ بات فرمانے کے کہ ہمارے اونٹ یہاں بیٹھیں گے

امام عالی مقام اپنے گھوڑے سے اترے اور کچھ اشعار کہے اس عبارت کو دونوں نے حذف کردیا اگر ذکر کرتے تو پھر ان حضرات کی دلیل کی بنیاد ہل جاتی دیکھا قارئین کرام اس عبارت کے اگے گھوڑے کا ذکر تھا تو اس عبارت کو لیا ہی نہیں کیوں کہ اس سے گھوڑا ہونا ثابت ہو رہا تھا

مقتل ابی مخنف میں ہے۔

و ذلک یوم الأربعاء فوقفت فرس الحسین رضی اللہ عنہ فنزل عنھا ورکب اخری فلم تنبعت خطوتہ واحدتہ ولم یزل یرکب فرسا بعد فرس حتی رکب سبعتہ افراس و ھن علی ھذا الحال فلما رای ذلک

بدھ کے دن کربلا پہنچ گۓ وہاں امام عالی مقام کا گھوڑا رک گیا۔ آپ نے دوسرا گھوڑا بدلا مگر وہ بھی ایک قدم نہ چلا۔ پھر آپ نے یکے بعد دیگرے سات گھوڑے بدلے مگر سب کا یہی حال رہا یعنی وہ اگے نہ بڑے۔،۔

جب امام عالی مقام کرببلا پہنچ گۓ اور فرمایا یہیں  اتر جاؤ یہاں ہماری سواریاں بند ھیں گی

ثم نزل عن فرسہ۔

پھر امام عالی مقام اپنے گھوڑے سے اتر اۓ،

مقتل ابی مخنف صفحہ 75

سر الشہادتین میں ہے۔

جب امام عالی مقام زخموں سے نڈھال ہو گۓ آپ کے اندر قوت نہ

فسقط عن الفرس،

کہ امام عالی مقام گھورے سے اترکر زمین پر تشریف لے اۓ۔

سر الشہادتین صفحہ 62

جب عمر بن سعد نے جنگ کے لیے اپنے لوگوں کو دائیں بائیں کھڑا کیا تو امام عالی مقام نے بھی اپنے ساتھیوں کو کھڑا کیا۔

و جمع الحسین اصحابہ فجعل زھیر بن قین و معہ عشرون فارس وجعل فی المیسرتہ ھلال بن نافع الجبلی و معہ عشرون فارسا۔

امام عالی مقام نے بھی اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور میمنہ پر بیس گھڑ سواروں کے ساتھ زبیر بن قین کو متعین کیا ۔

اور بیس گھڑ سواروں کے ساتھ میسرہ پر ہلال بن نافع جبلی کو متعین کیا۔۔

مقتل ابی مخنف صفحہ 99

امام عالی مقام جب قصر بنی مقاتل میں اترے اور رات کو جب آپ کو اونگ ائ اور پھر چونک کر کہا انا للہ و انا الیہ راجعون  والحمد للہ رب العالمین اور پھر آپ کے بیٹے گھوڑے پر سوار  ہوۓ آپ کے قریب اۓ،

قال ففعل ذلک مرتین او ثلاثتا، قال فأقبل الیہ ابنہ علی بن الحسین علی فرس

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 407

امام عالی مقام نے جب عمر بن سعد کے پاس بات کرنے کے لیے عمرو بن قرظہ بن کعب انصاری  کو بھیجا  کہ وہ امام عالی مقام سے ملاقات کرے تو وہ بیس گھڑ سوار لیکر نکلا اور امام عالی مقام بھی بیس گھڑ سوار لیکر نکلے

بعث  الحسین رضی اللہ عنہ الی عمر بن سعد عمر بن قرظتہ بن کعب الانصاری ، ان القی اللیل بین عسکری و عسکرک، فخرج عمر بن سعد  فی نحو من عشرین فارسا و اقبل حسین فی مثل ذلک،،

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 413

امام عالی مقام عصر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے، عباس بن علی اۓ اور کہا بھای جان وہ لوگ اگۓ ہیں امام عالی مقام نے فرمایا گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور ان لوگوں سے ملو پوچھو کیا چاہتے ہیں، تب حضرت عباس بیس گھڑ سواروں کے ساتھ نکلتے ہیں جن میں زبیر بن قیس حبیب بن مظاہر بھی تھے۔

وقال  العباس بن علی یا اخی أتاک القوم ، قال فنھض، ثم قال یا عباس ارکب بنفسی انت یا اخی حتی تلقھم فتقول لھم ما لکم ،وما بدا لکم و تسألھم عما جاء بھم ،فأناھم العباس فسقبلھم فی نحو عشرین فارسا فیھم زھیر بن القین و حبیب ابن مظاہر

تاریخ طبری  حلد 5 صفحہ 416

جب عاشورا کا دن ایا فجر کے وقت امام عالی مقام نے اپنے انصار کی صفیں ترتیب دی ان کے ساتھ صبح کی نماز ادا فرمائ، امام عالی مقام کے ساتھ 32 گھوڑے اور 40 پیادے تھے۔

وصلی بھم صلاتہ الغداتہ ، و کان معہ الثنان و ثلاثون فارسا و اربعون راجلا،

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 422

قارئین کرام دیکھا آپ نے عبد مصطفی اور حضرت علامہ محمد علی نے ایک بھی گھوڑا ہونے کا انکار کیا ہے لیکن آپ خود ان عبارت میں دیکھ سکتیں ہیں آپ کے پاس 32 گھوڑے تھے اتنی واضح اور صریح عبارتیں موجود ہونے کے بعد بھی گھوڑا نہ ہونے کا ان دونوں حضرات نے نہ جانے کیوں انکار کردیا،

انا للہ و الیہ راجعون،

جب دشمنوں نے حملہ کرنا شروع کیا تو زہیر بن قین گھوڑے پر سوار ہتھیار لیکر بہار نکلے۔

خرج الینا زہیر بن قین علی فرس

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 426

جب مسلم بن عوسبحہ نے امام عالی مقام سے تیر مارنے کی اجازت طلب کی تو امام عالی مقام نے فرمایا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ پہل ہماری طرف سے ہو آپ کے ساتھ ایک گھوڑا تھا جس کا نام لاحق تھا، اس گھوڑے پر علی بن حسین کو سوار کیا  اور آپ نے اونٹنی کو طلب کیا۔ اس پر سوار ہوۓ اور بہت بلند اواز سے پکار کر کہا جسے سب لوگوں نے سنا۔

فقال لہ الحسین لا ترمہ فانی اکرہ ان ابدأھم، وکان مع الحسین  فرس لہ یدعی لاحقا حمل علیہ ابنتہ علی بن الحسین ،قال فلما دنا منہ القوم عاد براحلتہ فرکبھا، ثم نادی بأعلی صوتہ دعاء یسمع جل الناس،،

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 424

امام عالی مقام کو جب پیاس کا غلبہ یوا تو آپ نے حضرت عباس کو بلایا اور تیس گھڑ سوار اور بیس پیادوں کے ساتھ اپ کو پانی لینے بھیجا ،،

و لما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا عباس بن علی فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا،،

تاریخ طبری  413

البدایتہ و النھایتہ میں ہے

و صلی الحسین  ایضا باصحابہ وھم اثنان و ثلاثون فارسا و اربعون رجالا،،

امام عالی مقام نے نماز فجر پڑھی اور اپ کے ساتھیوں نے بھی ، جن میں بتیس گھڑ سوار اور چالیس پیادے تھے،،

بدایتہ و النھایتہ جلد 8 صفحہ 178،،

اسی صفحہ پر ہے جب امام عالی مقام میدان میں جانے لگے تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوۓ

ثم رکب الحسین علی فرسہ،

پھر امام عالی مقام گھوڑے پر سوار ہوۓ،،

بدایتہ و النھایتہ جلد 8 صفحہ 178

قارئین کرام ان عبارت میں 32 گھوڑوں کا ذکر ہے جو کہ اس بات پر دلالت کرتا ہے آپ کے پاس کئ گھوڑے تھے،،۔

میں نے یہاں مقتل ابی مخنف بدایہ اور طبری کی چند عبارتوں کا ذکر کیا ہے جس میں لفظ فرس ایا ہے میں سمجھتا ہو انصاف پسندوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے، اسی لیے میں دیگر کتب سے.  مزید دلائل نہ لاکر بات کو یہی ختم کرتا ہوں ،،

(ایک اعتراض اور اس کا جواب)

علامہ محمد علی اور عبد

مصطفی نے الکامل فی التاریخ کے حوالہ سے کہ امام عالی مقام اونٹی پر سوار ہوۓ اور بلند اواز دی جسے سب لوگوں نے سنا

یہ دونون حضرات اس سے یہ دلیل پکڑتے ییں کہ اگر گھوڑا ہوتا تو اس پر سوار ہوتے، اونٹنی پر سوار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے وہاں گھوڑے نہیں تھے پھر خود ہی کہتے ہیں۔ جب اونٹنی ہی تھی میدان میں بھی تو نہ جانے گھوڑا کون اور کہاں سے لایا۔ میں کہتا ہوں امام عالی مقام کا اونٹنی پر سوار ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گھوڑا تھا ہی نہیں اگر دو سواری ہوں ان میں سے ایک پر سوار ہوا جاۓ تو اس سے یہ لازم تو نہیں اتا کہ سواری ایک ہی ہو اسی لیے ان دونوں حضرات کا یہ کہنا غلط اور بلا دلیل ہے کہ وہاں گھوڑا تھا ہی نہیں محمد علی صاحب نے کہا نہ جانے کون اور کہاں سے گھوڑا لایا،، تو اس کا جواب میں دیتا ہوں گھوڑا امام عالی مقام اپنے ساتھ ہی لاۓ تھے جس کا نام لاحق تھا،، اور جس عبارت سے آپنے اونٹنی نہ ہونے کی دلیل پکڑی ہے وہاں پر گھوڑے کا ذکر بھی ہے جس کو آپ نے ذکر نہ کیا اگر کرتے تو پھر آپ کی دلیل متزلزل ہو جاتی جس دلیل کی بنیاد پر محل کھڑا کیا وہ محل زمین پر تشریف لے آتا

خلاصہ کلام یہ ہے ۔

ان دلائل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑے تھے گھوڑوں کا انکار نہیں کیا

جا سکتا

انصاف پسندوں کے لیے اتنے دلائل کافی ہیں اس لیے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ کتب میں جگہ جگہ گھوڑے ہونے  کا ذکر آیا ہے، جہاں کہیں اونٹنی ہونے کا ذکر ہے ہم اس کا انکار نہیں کرتے، چونکہ سواریوں میں اونٹنی کا ذکر بھی ایا ہے جس کی واضح دلیل یہ ہے فرزوق سے ملاقات سے پہلے ایک قافلہ والوں سے آپ نے کراۓ پر اونٹ و اونٹنیاں لی تھی کربلا تک کے لیے آپ کی دو سواریاں تھی اونٹنی اور گھوڑا اور آپ نے جب چاہا جہاں چاہا دونو سواری میں سے ایک کا استعمال کیا اس لیے دونوں میں تعرض نہیں۔ حضرت علامہ محمد علی صاحب اور عبد مصطفی نے گھوڑا نہ ہونے پر جو دلائل دیۓ ہیں، وہ نہایت ہی ضعیف کمزور ہیں ان دالئل سے دلیل ہر گز نہیں پکڑی جا سکتی، ان دلائل کی بنیاد پر آپ گھوڑوں کا انکار قطعی طور پر غلط ہے، اتنی واضح عبارات ہونے کے بعد اسی پر اڑے رہنا سوا غلطی و خطا کے کچھ نہیں

فقیر  محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:35، 15 جولائی 2023ء (م ع و)

کربلا میں پانی بند ہونے کی تحقیق[ترمیم]

*( کربلا میں پانی بند ہونے میدان کربلا ریگستان  اور اس کے راوی و روایت کا تحقیقی جائزہ)*

خطیب حضرات عام طورپر یہ بیان کرتے ہیں اور اردو کی عام کتب میں بھی یہ لکھا ہوا کہ کربلا میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا تین دن تک بھوکے پیاسے رہے ، ذرا بھی پانی موجود نہیں تھا خطیب حضرات نے شاید یہ نتیجہ اس روایت سے نکالا یے کے 7 محرم کو پانی پر بہت سخت پہرا لگا دیا گیا تھا تاکہ کوئ پانی نہ لے جا سکے یہ روایت تمام کتب میں موجود ہے ۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ پانی موجود ہی نہ ہو۔اسی پر انشاء اللہ میں تحقیقی بحث کروں گا فنقول و باللہ توفیق۔

قارئین کرام ہمیں کسی بھی معتبر کتب میں کہیں نہیں ملا کی ایک بوند بھی پانی نہیں تھا، بلکہ تحقیق کے مطابق پانی موجود تھا اور اتنا زیادا تھا کی امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے غسل فرمایا  اور یہ بھی مشہور ہے کہ  کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا، یہ غیر معتبر بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا۔ یہ میدان دریاۓ فرات  یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارہ تھا۔

قارئین کرام پانی نہ ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھی ہوئ ہے کہ کسی کو اگر اس بات کو سمجھانے کی کوشش کرو تو آپ کو وہ گستاخ اہلبیت یا آپ کو گالی بھرے القابات سے یاد کرےگا۔

فقیر نے جب پہلی بار یہ کہا تھا پانی موجود تھا تو گویہ کہ جیسے کوئ کفر بول دیا ہو یا یہ کی امام عالی مقام کی شان میں گستاخی کردی ہو یہ سنکر چند شر پسندوں نے ایک مفتی صاحب کو فقیر سے بات کرنے کے لیے کہا اب وہ مفتی صاحب بھی ایسے کہ نہ تو تحقیق کی نہ ہی کتب دیکھنے کی تکلیف برداشت کی اور بات کرنے پر تیار ہو گۓ، جب ان سے بات ہوئ اور ہمنیں ان کو کتب کے حوالے دیۓ تو بیچار بولے ہمنیں یہ کتابیں نہیں پڑی۔ بہر حال کربلا میں پانی موجود تھا اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے,

طبری میں ہے۔

ولما اشتد علی الحسین  و اصحابہ العطش دعا العباس بن علی بن ابی طالب اخاہ ، فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا و بعث معھم بعشرین قربتہ فجاءوا حتی دنوا من الماء لیلا و استقدم امامھم باللواء نافع بن ھلال الجملی ، فقال عمرو بن الحجاج الزبیدی من الرجل، فجیء فقال، ما جاء بک، قال جئنا نشرب من ھذا الماء الذی حلأتمونا عنہ،، ھنسیٔا، قال لا واللہ،، لا اشرب منہ قطرتہ و حسین عطشان و من تری من اصحابہ فطلعوا علیہ۔، فقال لا سبیل الی سقی ھؤلاء انما وضعنا بھذا المکان لنمنعھم الماء ،، فلما دنا منہ اصحابہ قال لرجالہ،۔ املئوا قربکم ،، فشدر الرجالتہ فملوئوا قربھم وثار الیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ فحمل علیھم العباس بن علی و نافع بن ھلال فکفہ وھم، ثم انصرفوا الی رحالھم ، امضوا و وقفو دونھم فعطف علیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ واطردو قلیلا ان رجالا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن حجاج  طعنہ نافع بن ھلال فظن انھا لیست بشء ، ثم انھا انتقضت بعد ذلک فما منھا وجاء اصحاب حسین بالقرب فادخلوھا علیہ۔

جب آپ پر اور اپ کے انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا، تو آپ نے اپنے بھائ عباس بن علی رضی اللہ علہ کو بلایا تیس گھڑ سوار بیس پیادے بیس مشکیں ان کے ساتھ کردیں اور پانی لانے کے لیے روانا کیا ۔ یہ لوگ رات کے وقت نہر کے قریب پہنچے نافع بن ھلال جلی علم لیے ہوۓ سب سے آگے بڑھ گۓ، ابن حجاج کہنے لگا کون ہے آو کیوں اۓ ہو ۔ نافع نے کہا ہم تو یہ پانی پینے اۓ ہیں۔

جس پر تم لوگوں نے پہرا دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا پانی پی لو کہا امام عالی مقام کو پیاس لگی ہے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بغیر ہم ایک قطرہ بھی نہ پیوں گا۔، اتنے میں اور  لوگ بھی اس کے سامنے اۓ ابن حجاج نے کہا ان لوگوں کو پانی پلانا ممکن نہیں۔ ہم اسی کے لیے پہرا دے رہے ہیں، نافع کے ساتھ والے جب آگے اۓ تو انہوں نے پیادوں سے کہا اپنی اپنی مشکیں بھر لو۔ پیادے دوڑ پڑے سب نے مشکیں بھر لی ابن حجاج نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔یہ دیکھکر عباس بن علی نافع بن ھلال نے بھی ان پر حملہ کیا۔ سب کا منہ پھیر دیا پھر اپنے خیموں کی طرف واپس جانے لگے پیادوں سے کہا نکل جاؤ اور خود دشمنوں کو روکنے کے لیے ٹھیرے رہے عمرو بن الحجاج اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھر ان لوگوں پر پلٹ پڑا اور ہٹا دیا اصحاب ابن حجاج میں سے ایک شخص پر  نافع بن ھلال نے نیزہ کا وار کیا  جس سے اس کو زخم لگا بعد میں وہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا اور انصار امام عالی مقام کی بارگاہ میں پانی سے بھری مشکیں لیکر آئیں اور آپ کی خدمت میں پیش کردی,

قارئین کرام دیکھا آپ نے اس روایت میں ہر چند کے پانی لے جانے کے لیۓ جنگ ضرور ہوئ لیکن وہ بیس مشکیں پانی امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچا اس روایت کی رو سے آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پانی موجود نہ تھا مزید ایک روایت اور دیکھیں طبری میں ہے۔

حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب آہ و زاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ آہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔

امام عالی مقام اگے آۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا

و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔

تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 420۔

البتایتہ والنہایتہ میں ہے

فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت

فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔

امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس آۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء آئیں انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ۔

البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 179

قارئین کرام دیکھا آپ نے بدایتہ  کی یہ عبارت بلکل صاف بتا رہی ہے امام عالی مقام اور آپ کے بعض ساتھیوں نے غسل کیا اب جب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا تو پانی بلکل موجود ہی نہ تھا اس کی کیا حقیقت رہ گئ آپ بخوبی سمجھ سکتیں ہیں

اسی البدایتہ والنہایتہ میں ہے

حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب اہ وزاری کرتی ہیں  اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ اہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے اۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا۔

و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔

البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 177

قارئین کرام یہ روایت ہم طبری کے حوالہ سے بھی نقل کر اۓ ہیں۔ حضرت زینب بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں امام عالی مقام آگے بڑھ کر پانی چھڑکتے ہیں آپ کے چہرہ پر غسل کرنے کے لیے پانی ہے چہرے پر پانی ڈالنے کے لیے بھی پانی ہے تو کیا پانی صرف پینے کے لیے نہیں تھا،؟ یہ سوال آپ پر چھوڑتیں ہیں، اتنا پانی ہونے کے بعد بھی کیا بچوں کے پینے کے لیے پانی نہ تھا ؟ کہ امام عالی مقام کو پانی مانگنے جانا پڑا اور یہ روایت خاص عاشورہ کے دن کی ہیں اور

یہ تمام روایت اس بات  پر صاف   دلالت کرتی ہیں کے کربلا میں پانی موجود تھا۔

اور یہ روایات کربلا میں پانی موجود ہونے کی شیعوں کی کتب میں بھی مذکور ہے ملا باقر مجلسی نے مجمع البحار میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے،

ثم قال لاصحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلی بھم الفجر،،۔

پھر امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو پانی پیو شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو۔ نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی،

بحار الانوار جلد 44 صفحہ 217

اسی بحار الانوار میں ایک اور مقام پر پانی کی روایت ہے۔،

امام عالی مقام کو جب پیاس لگی تو آپ نے حضرت عباس اور ان کے ساتھ کچھ ساتھیوں کو پانی لانے کے لیے  بھیجا ،، وہاں یزیدوں سے لڑائ ہوئ ،لیکن پانی لیکر واپس اگۓ۔

فشرب الحسین و من کان معہ

پھر وہ پانی امام عالی مقام اور اپ کے ساتھیوں نے پیا،۔

بحار الانوار جلد 44 صفحہ 253

ملا باقر مجلسی جو کہ شیعہ ہے وہ لکھتا ہے،،

امام عالی مقام کے ساتھیوں کو جب پیاس لگی تو انہوں نے امام عالی مقام سے آکر پیاس کے بارے میں عرض کی، تو امام عالی مقام نے اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیا خیمہ سے بہار اۓ اور نو قدم قبلہ کی طرف چلے وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا۔  اور وہاں سے چشمہ شیریں آب پانی ظایر ہوا۔پھر امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس چشمہ سے پانی پیا اور مشکیں وغیرہ بھر لی۔،

جلاء العیون مترجم جلد 2 صفحہ 222

اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ روایت بھی نقل ہے،،

امام عالی مقام نے حضرت عباس کو تیس سوار اور 32 پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا اور وہ لوگ پانی لیکر اۓ۔،

قارئین کرام یہ دونوں روایت پانی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں، پہلی روایت میں امام عالی مقام نے بیلچہ زمین پر مار کر پانی نکالا ،اور دوسری روایات میں، امام عالی مقام کے اصحاب کا پانی لیکر انا اس بات پر دلالت کرتا ہے 3 دن پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا یہ غیر معتبر بات محض افسانہ ہے۔،

شیعوں کی کتاب ریاض القدس میں ہے ،۔

امام عالی مقام نے کدال زمین پر مارا وہاں پانی کا چشمہ نکل ایا،

ریاض القدس جلد 1 صفحہ 366

اسی کتاب کے صفحہ 362 پر حضرت عباس کے پانی لانے والی روایت بھی مذکور ہے۔،

اسی کتاب کے صفحہ 410 پر

بریر ابن خصیر کا نہر فرات سے پانی لیکر انا،،یہ روایت بھی مذکور ہے۔

پانی موجود ہونے کی روایت کے بارے میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے عاشوراہ کی صبح کو غسل فرمایا یہ روایت بدایہ نہایہ میں ہے

فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت

فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔

امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس اۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء اۓ انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ بلکہ اسی ایک صفحہ پہلے یہ روایت بھی ہے

و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا و صب علی وجھھا الماء،

حضرت زینب بیہوش ہوکر گر پڑی امام عالی مقام پاس گۓ اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا،،

طبری میں بھی یہ روایت ہے بلکہ رافضیوں کی کتب میں بھی ہے ہمارے یہاں کے شیعوں نے نقن میاں کو بلایا تھا جو مجہھتہد تھے انہوں نے تقریر میں یہ روایت بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور کیا ان کو گالیاں دیں ایک جاہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ آگۓ تو ہمارا مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔میں مل جاۓ گا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس روایت میں استبعاد نہیں ہے صحیح ہو سکتی ہے یہ صحیح ہے کہ سات محرم کو ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا تھا۔ کہ امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لینے پائیں۔، مگر یہ بھی روایت ہے اس پہرے کے با وجدو حضرت عباس کچھ لوگوں کو لیکر کسی نہ کسی طرح پانی لایا کرتے تھے۔، شہادت کے ذاکرین لیکن آب بندی کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں۔،

اگر نہ کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمیگا۔، اس روایت میں اور وقت شہادت علی اصغر و حضرت علی اکبر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات نہیں۔،

ہو سکتا ہے صبح کو پانی اس قدر ہو کہ سبنے غسل کرلیا پھر پانی ختم ہو گیا،جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادا سختی کردی ہو  اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کے حضرت عباس فرات سے مشک بھرکر لارہے تھے کہ شہید ہوۓ،، ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔، مگر میں قطعی یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے، تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے۔،

حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں،

فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 68

شیخ الحدیث علامہ غلام رسول قاسمی لکھتیں ہیں،

دسوی محرم کو امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا خوشبوں لگائ ، غسل خانے کے طور پر ایک الگ خیمہ موجود تھا،۔

سانحہ کربلا صفحہ 8

قارئین کرام ان روایات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کربلا میں پانی موجود تھا۔ اور اتنا زیادہ تھا کہ اس سے وضو غسل بھی کیا جاتا تھا، اور یہ روایت نہ اہلسنت بلکہ شیعہ حضرات کی کتب میں بھی موجود ہیں جنہیں ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔کربلا کے میدان کو بے آب  ریگستان کا میدان بتایا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے جبکہ وہ بانس نرکل کا کا جنگل تھا۔

*(کیا میدان کربلا ریگستان تھا)*

لوگوں میں یہ مشہور ہے کربلا بے آب میدان تھا۔، یہ ایک غیر معتبر بات ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارا تھا امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ ذرا سہ کھودنے پر پانی نکل اۓ گا اسی لیے امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں

نے کدال سے پانی نکالنے کے لیے زمین کو کھودا تھا الفتوح میں ہے،۔

فقد بغلنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فا منعھم من حفر الا بار ما استطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوا من ماء الفرات قطرتہ واحدتہ،،

ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ امام عالی مقام نے اور ان کی اولاد و اصحاب نے پانی پینے کے لۓ کنویں کھود رکھے ہیں۔ اور میدان میں جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبر دار میرا خط جب تمہیں مل جاۓ تو مزید کھدائ سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیا جاۓ وہ فرات سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں،۔،

الفتوح جلد 5 طفحہ 91

قارئین کرام دیکھا آپ نے کربلا ایک ایسا میدان تھا جو بے آب نہ تھا بلکہ اس کے قریب نہر فرات تھی اور اس دور میں اس میں بڑے بڑے جہاز و کشتیاں چلا کرتی تھی،، اب ظاہر سی بات ہے جب ایسی نہر پاس میں ہو تو پانی کھودنے پر نکل ہی آے گا،

یاقوت حمویں معجم البلدان میں لکھتے ہیں

اور طف کوفہ کے پاس کی وہ میدانی زمین ہے جو صحراۓ شام کے راستے میں اتی ہے۔ جہاں حسین بن علی مقتول ہوۓ تھے۔

اور یہ زمین سر سبز و شاداب اور زرخیز صحرائ زمین ہے۔ جس میں متعدد پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ جن میں الصید القتقتانہ ، و ہمیہ چشمہ جمل اور اس جیسے اور کئ چشمے بہتے ہیں۔،

معجم البلدان جلد 6 صفحہ 51،

قارئین کرام دیکھا آپ نے یاقوت حمویں نے صاف صراحت کردی کہ وہاں پانی کے متعدد چشمے جاری تھے،۔ اب آپ با خوبی سمجھ سکتیں ہیں،۔ اگر ایسے میں زمیں کو کھودا جاۓ تو پانی بلکل نکل سکتا ہے،۔

اسی طرح ایک روایت حضرت امام باقر رحمہ اللہ سے کی گئ ہے، کہ جب امام عالی مقام نے ابن زیاد کو دیکھا تو آپ نے کربلا کا رخ کرلیا، وہاں بانس اور نرکل کے جنگل کو اپنی پشت پر لیا اور مضبوطی سے جم گۓ،۔

اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کربلاء ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل اور بانس جہاں چشمہ جاری تھے ایسا میدان تھا،

خلاصہ کلام یہ ہے کربلا میں پانی موجود تھا آپ نے آپ کے ساتھیوں نے بھی غسل کیا،

اور میدان کربلا ایک ایسا میدان تھا جہاں پانی کے چشمے جاری تھے کہ وہاں زمین کھودی جاۓ تو پانی نکل اۓ اس لیے امام عالی مقام نے زمین کھودکر بھی پانی کا چشمہ نکالا تھا،

ان دلائل سے یہ بات تو واضح ہو گئ کربلا میں پانی موجود تھا اور وہ میدان ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل بانس کا جنگل تھا اس کے قریب ہی نہر فرات تھی جس میں کشتیاں جہاز چلا کرتے تھے اور اس میدان میں چشمے جاری تھیں۔  اب ہم ایک نظر سات محرم سے پانی بند ہونے والے راوی اور اس کی روایت پر بھی ڈال لیتے ہیں

*(7 محرم الحرام سے پانی بند ہونے والی روایت اور راوی کا جائزہ)*

جس وقت سے ابن سعد نے کربلا میں قدم رکھا اسی وقت سے اس کے اور امام عالی مقام کے درمیان نامہ پیام اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور اس کا نتیجہ ابن سعد ابن زیاد کے درمیان خط و کتابت کی شکل میں ظاہر ہوا ۔، جس کا حاصل کلام کہ ابن سعد امام عالی مقام کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے۔،

اس سلسلہ میں کئ ایک روایت ہیں،، جس کا مجموعی طور پر تجزیہ یہ بنتا ہے کہ طرفین کا یہ سلسلہ بلکل آخر وقت تک قائم رہا اور دو روایتیں تو یہ صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں یہ سلسلہ نو تاریخ کی شام کو بند ہوا۔، معاملات کے اس پس منطر میں ذرا غور کرکے دیکھنا چاہئے کہ سات تاریخ سے بندش آب کا حکم بلکہ اس کے نفاذ کو بتانے والی روایت کے ماننے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے،۔ قتل و قتال کی حالت میں تو جو دس تاریخ کو بندش آب کی کاروائ با مقصد با معنی ہو سکتی تھی۔، مزید براں کیا یہ ممکن ہے کہ سات تاریخ سے ایسا ہوا ہو اور دس تاریخ سے پہلے کہیں کوئ پانی بند ہونے کی شکایت کی روایت نہ پائ جاۓ تمام شکایتیں بیانات دس تاریخ کی ہی ذیل میں

آتیں ہیں اس سے پہلے کوئ بیان نہیں ملتا حالانکہ دونوں فریقوں میں برابر رابطہ چل رہا تھا،۔ لیکن کہیں کوئ پانی بند ہونے کی کوئ شکایت نہیں ہوئ۔،

روایت میں اس بات کی صراحت تو ہے کہ بندش آب کی صورت یہ تھی کہ گھاٹ روکا گیا تھا۔،

پس عمر ابن سعد نے عمر بن الحججا کو پانچ سو سواروں  کو بھیجا اور وہ گھات پرجا اتریں امام عالی مقام اور آپ کے ساتھی اور پانی کے درمیان حائل ہو گۓ،،۔

اس کے علاوہ اس بات کی بھی علامت روایت میں پائ جاتی ہے۔، یہ کاروئ دس تاریخ کو عمل میں آئ جو جنگ کا دن تھا،  کیونکہ روایت میں اگرچہ مذکورہ بالا الفاظ کے بعد۔،

و ذالک قبل  قتل الحسین بثلاث ،،یہ امام عالی مقام کی شہادت سے تین دن پہلے کی بات ہے،، کہ الفاظ اتے ہیں مگر فورا دس تاریخ کا قصہ شروع ہو جاتا ہےاس سے پہلے کی کوئ بات نہیں

حمید کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی الحصین ازدی امام عالی مقام کے مقابلہ پر ایا اور کہا کہ حسین تم پانی کو دیکھ رہے ہو کیسا اسمان کی طرح شفاف ہے قسم خدا کی تم اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکوگے حتی کہ پیاس سے دم نکل جاۓ،۔

سمجھ نہیں اتا شہادت سے پہلے

کیوں اس طرح کے الفاظ روایت میں ذکر کیۓ گۓ ہیں، امام عالی مقام کا مقابلہ دس تاریخ سے پہلے کہیں مروی نہیں اور پانی کی شکایت بھی دس تاریخ سے پہلے کہیں بیان نہیں کی گئ،، اس روایت کا تضاد کا پتہ اس سے بھی چل جاتا ہے جب دس تاریخ سے پہلے ایسا کوئ معاملہ ہوا ہی نہیں نہ تو کسی سے جنگ ہوئ اور نہ پانی کی شکایت ہوئ،، اور یہ روایت دس تاریخ سے پہلے دونو باتوں پر دلالت کرتی ہے،، اس لیے یہ روایت تضاد سے خالی نہیں۔،

(اور خود راوی حمید بن مسلم

کا حال)

اس روایت کے روای حمید پر بھی نظر ضروری ہے واقعہ کربلا میں اس کی روایت بہت ساری ہیں جن میں اس بات کے واضح قرائن ہیں کہ اس کی روایتیں جعلی ہیں بلکہ یہ خود بھی جعلی ہے۔،

یہ شخص کبھی اہلبیت کا اتنا ہمدرد نظر آتا ہے گویہ کے معلوم ہوتا ہے یہ انہی کی صف میں ہو کہتا ہے حصرت زین العابدین کو جو بھی مارنے اتا میں اس کو واپس کردیتا اور کبھی یزیدی فوج میں اس طرح نظر آتا کہ اہلبیت کی شہادت کی خبر پہنچانے اور امام عالی مقام کے سر کو خود لیکر جاتا ہے۔ اس کی روایات پر کلام کیا جاۓ تو بہت طویل کلام ہو سکتا ہے چند روایات کی نشاندہی کرتا ہوں، حمید بن مسلم کہتا ہے کربلا سے عمر بن سعد نے اپنے گھر روانا کیا مجھے تاکہ اس کی خیر عافیت اور فتحیابی کی خبر سناۓ، اور یہ کام کرکے جب وہ ابن زیاد کے پاس گیا تو وہاں امام عالی مقام کا سر رکھا تھا، اور قافلہ حسین کے افراد بھی موجود تھے۔، جبکہ یہی شخص ایک مقام پر کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے اس کو اور اس کے ساتھ ایک شخص کو ابن زیاد کے پاس امام عالی مقام کا سر لیکر بھیجا۔۔ یعنی اس کی ایک روایت کے مطابق سر پہنچانے والا یہ خود تھا،، اور دوسری روایت کے مطابق سر پہنچانے والا کوئ اور تھا،، جب یہ خود سر لیکر گیا تو پھر یہ یوں کیوں کہتا ہے ابن زیاد کے پاس پہنچا تو وہاں سر مبارک کو دیکھا،، یعنی سر مبارک پہلے سے ہی رکھا ہوا تھا وہاں

یعنی کوئ اور لایا تھا اور ایک طرف کہتا ہے میں خود سر کو لیکر گیا

اسی طرح اس کی روایت تضاد سے خالی نہیں اسیی طرح یہ کہتا ہےحضرت زین العابدین کو ابن زیاد  قتل کرنا چاہتا تھا پھر حضرت زین العابدین کو برہنہ ستر کھولکر ان کے بالغ ہونے یا نہ ہونے کا امتحان لیا گیا اور پھر نابالغ سمجھ کر چھوڑ دیا،

۔قارئین کرام یہ مزاق نہیں تو اور کیا ہے۔،کیا اس راوی کو اتنا بھی نہ پتہ تھا کہ حضرت زین العابدین 22 سال کے شادی شدہ اور ایک بچہے حضرت محمد الباقر کے باپ تھیں اور وہ بچہ بھی قافلہ میں موجود تھا۔،

اور پھر ستر کھولکر ایسا کونسا امتحان لیا گیا کہ اس سے پتہ چلتا کہ یہ بالغ ہے یا نہیں جب بچہ کو احتلام ہوجاۓ تو وہ بالغ ہو جاتا ہے،،لیکن ستر دیکھنے سے کیسے پتا چلا کی وہ نابلغ ہیں،،اور تو اور 22 سال کی عمر والے کی جسامت سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بالغ ہے لیکن کیا اس راوی کو اتنا بھی نہیں پتہ اور پھر یہ حمیدی بن مسلم خود کہتا ہے۔ حضرت قاسم کو۔ ایک بچہ میدان میں ایا لڑنے کو،

لیکن انکوں قتل کردیا گیا ۔،

جب بچے کو قتل نہیں کرنا تھا

یعنی یہ کہتا ہے حضرت زین العاندین کو اس لیے قتل نہیں کیا کہ وہ بچے تھیں،۔جب کہ وہ 22 سال کے تھیں اس وقت، اور ایک بچے کے والد۔،

تو حضرت قاسم کو کیوں قتل کیا گیا جب کہ یہ خود کہتا ہے بچہ میدان میں لڑنے آیا یعنی حضرت قاسم کو بچہ کہتا ہے اور انکوں قتل بھی کیا جاتا ہے،۔

اور تو اور حضرت علی اصغر تو دودھ پیتے پچے تھے، پھر بھی انکوں شہید کردیا گیا،،اور حضرت زین العابدین کے متعلق کہتا ہے وہ نابلغ تھیں،، اس لیے قتل نہیں کیا جبکہ دوسری جانب نابلغوں کو بھی قتل کیا گیا تھا یعنی یہ کہنا چاہتا ہے نابالغوں کو قتل نہیں کیا گیا ،،

ستر کھول کر دیکھا گیا اس طرح کی باتیں کرتا ہے،۔ کہ ستر کھولکر امتحان لیا گیا،

قارئین کرام  دیکھا آپنے اس راوی حمید بن مسلم کی روایتوں میں تضاد ہی تضاد ہے ۔،

یہ سب ہم نے طبری کی روایات سے ذکر کیا ہے 5 جلد میں اس کی روایات دیکھی جا سکتی ہیں،

خلاصہ کلام یہ ہے حمید جو کی پانی بند ہونے والی روایت کا راوی ہے اس کی روایات میں تضاد ہی تضاد ہے اس کی روایات غیر معتبر ہیں،۔ تضاد سے خالی نہیں ہے ۔،

ہم نے واقعہ کربلا پر اب تک جو کچھ بھی تحریر کیا ہے اور اب بھی یہ تحریری سفر جاری ہے۔ اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے امت محمدیہ کی خیرخواہی کے جذبے کے تحت کیا ہے، ہمارا مقصد یہی ہے کہ جو کچھ بھی بیان کیا جاۓ وہ صحیح روایات کے ساتھ بیان کیا جاۓ مبالغہ اور جھوٹی شان بیان نہ کی جاۓ۔ واللہ ہم اہلبیت سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس محبت کو اپنے لیۓ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کی اہمیت کم ہو یا اہلبیت کی تنقیض ہو یا ہمارے دل میں بغض ہو معاذ اللہ۔

ہم نے اس پر تحقیقی نظر کی  اور من گھڑت واقعات کو اس سے نکال کر انکی نشاندہی کی۔

اگر میری یہ تحقیق صحیح و صواب ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے، اور اگر اس تحقیق میں خطا ہے تو میری تحقیق اور مطالعہ کی کمی ہے۔ اللہ کریم  ہمیں حق بلونے لکھنے سن نے کی توفیق عطا فرمائیں ۔

فقیر محمد دانش حنفی

ہلدوانی نینیتال

9917420179 علامہ دانش حنفی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 20:27، 17 جنوری 2024ء (م ع و)

اگر تمام لوگ محبت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر جمع ہوجاتے تو اللہ جہنم کی تخلیق ہی نہ فرماتا[ترمیم]

اس کی وضاحت فرما دیں 223.123.97.172 03:47، 18 جنوری 2024ء (م ع و)

حضر ت عائشہ رض اللہ عنہ[ترمیم]

پاک دامنی 37.111.134.233 04:25، 18 فروری 2024ء (م ع و)

شان عائشہ[ترمیم]

شان عائشہ قران سے پابت 37.111.134.233 04:32، 18 فروری 2024ء (م ع و)

قضا نمازوں کا طریقہ[ترمیم]

قضا نمازوں کا طریقہ

37.111.150.143 00:45، 4 اپریل 2024ء (م ع و)