تبادلۂ خیال صارف:Abdulwadood/ریتخانہ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

--Abdulwadood (تبادلۂ خیال) 10:36, 4 مارچ 2014 (م ع و)

مطالعات ترجمہ میں بین شعبہ جاتی طرز[ترمیم]

ترجمہ اور مطالعات ترجمہ[ترمیم]

یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ پہلے اور تیسرے حرف کے زبر کے ساتھ ہے کبھی تیسرے حرف پر پیش بھی پڑھا جاتا ہے لیکن زبر پڑھنا قابل تر جیح ہے۔ لغت نویس عام طور پر ترجمے کے چار معانی بیان کرتے ہیں۔ مواد کی ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقلی، تفسیر و تعبیر، دیباچہ اور سورنح حات یا حالات زندگی ترجمہ کو انگریزی میں Translation کہتے ہیں اور ترجمہ کرنے والے کو اردو میں مترجم اور انگریزی میں Translator کہتے ہیں۔ ٹرانسلیشن کا لفظ مغرب کی جدید زبانو ں میں لا طینی سے آیا ہے اور اس کے لغوی معنی ”پار لے جانا“ ہیں۔یہ معنی نقل زبان سے لیکر نقل معنی اور نقل اسالیب تک پھیلا ہوا ہے۔ عطش درانی اپنے ایک مقالہ میں ترجمہ کی تعریف کرتے ہیں ”ترجمہ کسی زبان پر کئے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا متبادل متن پیش کیا جائے“۔ یہاں ترجمہ سے مراد ایک زبان کی تحریر یا متن کو اس کی تمام خصوصیات کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ہے۔ یہ سوال کہ ترجمہ فن ہے یا علم؟ تو اس سلسلہ میں ماہرین سے دونوں طرح کی آرا ء منقول ہیں۔ ایک فرانسیسی ادیب پال نے ترجمہ کی ایک جامع تعریف کی ہے ترجمہ کسی علت (اصل تخلیق) کے معلول کی ایک دوسری علت (ترجمہ) کے توسط سے امکانی قربت و صحت کے ساتھ تشکیل کرنے کا عمل ہے۔ اس تعریف کی روشنی میں علمائے لسانیات کا کہنا ہے کہ بحیثیت مجموعی ترجمہ ایک فن (Art) ہے۔ ترجمہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انسانی اطوار پر مبنی لسانی و ثقافتی ساخت میں اندرونی آفاقیت کے ساتھ بیرونی تنوع پایا جاتا ہے اس اندرونی آفاقیت کی بدولت ہی دو مختلف زبانوں کا ایک سے دوسری زبان میں ترجمہ ممکن ہوتا ہے لیکن علا قائیت پرمبنی لسانی و ثقافتی ساخت میں بیرونی تنوع اور اختلاف ترجمہ کے عمل میں سب سے بڑی اور کلیدی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ اب رہی بات ترجمہ کی ضرورت و اہمیت تو اس سلسلہ میں صرف ایک مثال ہی کافی و شا فی ہے کہ اسلام اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ادیان و مذاہب میں سے ایک مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کا عمل نہ ہوتا تو کس طرح دنیا کے مختلف خطوں میں آباد عجمی لوگ قرآن و احادیث مبارکہ سے واقف ہوتے اور کس طرح اسلامی تعلیمات جو اصلا عربی زبان میں ہیں دنیا کے کونے کونے تک پہنچتیں اور اسلام دنیا کا اتنا بڑا مذہب بن جاتا۔ اس کی صرف یہی ایک شکل رہی ہوگی کہ یا تو دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والوں نے عربی زبان سیکھ کر خود قرآن و احادیث مبارکہ سے استفادہ کیا ہوگا یا پھر عربی زبان سے ان کی اپنی مادری زبانوں میں ترجمہ شدہ کتابوں سے استفادہ کیا ہوگا۔ ترجمہ کی تعریف ونظریات،اس کی قسموں اور ترجمہ کے تمام ذیلی مباحث کے مطالعہ کو مطالعات ترجمہ کہتے ہیں۔

شعبہ جات اور بین شعبہ جات[ترمیم]

جس طرح انسان مختلف رنگ، نسل، خاندان،قبیلہ اور مختلف خطوں میں بٹاہوا ہونے کے باوجود اپنے اندر قرابت کی بہت ساری جہتیں رکھتا ہے جیسے غذا،پانی اور رہائش کی ضرورت،سردی،گرمی، طوفان،بیماری اورجنگلی درندوں سے حفاظت اسی طرح غوروفکر کی اہلیت وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں کسی بھی انسان کے اندر یکساں طور پر پائی جاتی ہیں جبکہ رنگ، نسل، خاندان اور علاقہ کی بنیاد پر انسانوں میں اختلاف بھی بہت ہے۔ یہی حال انسانی علوم کا ہے۔ ہر علم کا مقصد انسانی ضرورتوں کی تکمیل، انسانی راحت و آرام کی تحصیل اور انسان کو ہر طرح کی مضرتوں سے بچانا ہی ہوتاہے۔ اس کے باوجود انسانی علوم مذہبی، سائنسی، سماجی، معاشی، سیاسی اورادبی وغیرہ کئی شعبوں میں منقسم ہوکر اپنی مستقل شناخت رکھتے ہیں چنانچہ ایک منظم طریقہ کے تحت مطالعہ کرکے کسی چیزکے جاننے کو جبکہ اس طریقہ اور حاصل مطالعہ دونوں کی تصدیق وتکرار ممکن ہو سائنس کہتے ہیں۔[1] سائنس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ جانداروں سے متعلق علم جسکو حیاتیات کہتے ہیں اور دوسری قسم بے جان چیزوں سے متعلق علم ہے۔ حیاتیات کے پھر دو ذیلی شعبے ہیں۔ ایک جانوروں سے متعلق علم اس کو حیوانیات کہتے ہیں اور دوسرا پودوں سے متعلق علم اس کو نباتیات کہتے ہیں۔سائنس کی دوسری قسم بے جان چیزوں سے متعلق علم کو بھی مزید دو حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ مادے کی ساخت اور اس کی ترکیب کے بارے میں جاننے کو کیمیاء اور مادے کے خواص اور دوسرے مادوں سے اس کے تعلقات کی جانکاری کو طبیعیات کہتے ہیں۔اس طرح سائنسی علوم کے چار بڑے شعبے حیوانیات،نباتیات، کیمیاء اور طبیعیات ہیں۔علوم کی یہ تقسیم صرف معلومات کو آسانی سے ذخیرہ کرنے، مطالعہ میں سہولت پیدا کرنے اور ان کو بخوبی سمجھنے کے لئے ہے ورنہ اکثر مقامات پر یہ چاروں شعبہ جات آپس میں ایک دوسرے سے جڑجاتے ہیں۔اور ان شعبہ جات کے اشتراک کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر قسم کی سائنس مادے اور توانائی کے گرد گھومتی ہے جبکہ مادہ جاندار یا غیر جاندار دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ سائنسی علوم کا ایک اہم شعبہ ریاضیات بھی ہے۔ ریاضیات ایک ایسی سائنس ہے جس کو سائنسی علوم کے دوسرے شعبوں سے الگ کرکے ایک مستقل حیثیت دینا انتہائی دشوار ہے۔ ریاضیات تمام شعبہ جات کی نہ صرف یہ کہ مدد کرتی ہے بلکہ بسااوقات ان میں رابطہ بھی پیدا کرتی ہے۔ اس لئے ریاضیات کا تعلق تمام سائنسی علوم سے ہوتا ہے۔یہ بحث تو سائنسی علوم کے دو بڑے زمروں میں سے علوم فطریہ کے متعلق تھی جبکہ معاشرتی یا سماجی علوم بھی سائنسی علوم کا دوسرا بڑازمرہ ہے۔ معاشرتی علوم میں اخلاقیات، سیاسیات، معاشیات اور تاریخ وغیرہ بہت سے علوم و فنون شامل ہیں اور یہ تمام علوم کسی نہ کسی درجہ اور مرحلہ میں باہم مربوط ہو جاتے ہیں۔جیسے اخلاقیات یہ علم دیگر علوم کے لئے اخلاقی حدود متعین کرتا ہے، سیاسیات میں ریاست و حکومت اور قانون سے بحث ہوتی ہے اس لئے انتظامی و قانونی مباحث کے ذریعہ یہ علم دیگر علوم کو اپنے دائرہ میں سمیٹ لیتا ہے،ہر علم کی اپنی مستقل تاریخ ہوتی ہے اس لئے تاریخ کا تعلق تمام علوم سے ہوتا ہے،معاشیات کا دیگر شعب ہائے علوم جیسے اخلاقیات، سیاسیات، سماجیات اور نفسیات وغیرہ سے تعلق ختم ہونا ہی ماہرین معاشیات کے نزدیک کسادبازاری کے بحران کی ایک اہم وجہ ہے، تمام علوم کی تشریح و تعبیر میں زبان و ادب ہی اہم رول ادا کرتے ہیں اس لئے ادب کا تعلق تمام علوم سے ہوتا ہے اور آج اردو سے وابستہ علمی حلقوں میں سائنسی علوم کوبھی ادبی اسلوب میں پیش کرنے کی بات ہورہی ہے۔ بہر حال علوم کے باہمی تعلق سے انکار نہیں کیا جاسکتایہی وجہ ہے کہ سماجی و سائنسی علوم میں سماجی اقتصادی (SOCIO-ECONOMIC)،سماجی سیاسی (SOCIO-POLITICAL)، سماجی حیاتیات (SOCIO-BIOLOGY) اور زبان کی سماجیات (SOCIO-LINGUISTICS) وغیرہ اصطلاحات پائی جاتی ہیں جو علوم کے باہمی اشتراک کا ایک مظہر ہیں۔[2] َٓالغرض انسانی علوم حیاتیات،کیمیاء، طبیعیات اور سماجیات ان چار بڑے شعبوں میں منقسم ہیں اور ان چار شعبوں کے ذیل میں سیکڑوں علوم پائے جاتے ہیں جو کسی حد تک باہم مربوط ہیں۔ اب یہ کہ ان علوم کا ترجمہ سے کیا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں یہ وضاحت ہے کہ تمام علوم انسان کی مشترکہ میراث ہوتے ہیں، ان پر کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی، پھر یہ علوم ایک قوم سے دوسری قوم تک ترجمہ ہی کے ذریعہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ترجمہ کا انسانی علوم کے تمام شعبہ جات سے اٹوٹ اور نہایت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مطالعات ترجمہ میں بین شعبہ جاتی طرز : سائنسی تحقیق کے ذریعہ کسی چیز کی حقیقت دریافت کرناہو، صنعتی مقاصد کے تحت کسی مخصوص خطہ ئ زمین کی متنوع جانکاری مطلوب ہو، تجارت کو فروغ دینے کے لئے مختلف شعبہ جات کی معلومات درکار ہوں،کسی موضوع کو سمجھنے یا سمجھانے کے لئے اس سے متعلقہ تمام علوم سے واقفیت ضروری ہویا کسی معرکۃ الآراء مسئلہ کی ممکنہ تمام پہلوؤں پر مشتمل ایک جامع تحقیق مقصود ہو تو ان تمام صورتوں میں بین شعبہ جاتی طرز اختیار کیا جاتا ہے۔ اطلاقی علم مستقل ایک علم ہے جس میں زندگی کے کسی ایک شعبہ سے متعلق مسائل حل کرنے کے لئے ایک سے زائد شعبہ جات کی معلومات کو عملی طور پر نافذ کیاجاتا ہے۔جیسے کسی پہاڑ کے قریب جہاں دریا یا ندی بہتی ہو بجلی کا پلانٹ لگانا ہے تو سب سے پہلے دریا کے پانی کے بارے میں معلومات حاصل کرناہوگا پھر جغرافیائی معلومات اکٹھا کرنا ہوگا اور اس کے بعددریا کے قریب رہنے والے لوگوں کے خیالات اور دریا سے ان کے تعلق ورشتہ کو معلوم کرنا ہوگا۔ اس پورے عمل پر کوئی مضمون لکھنا ہو یا اس کی مفصل رپورٹ تیار کرنی ہو تو وہ مضمون یا رپورٹ ان تمام سائنسی،جغرافیائی اور سماجی معلومات پر مبنی ہوگی۔ اس کے علاوہ بعض موضوعات ہی ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق مختلف علوم سے ہوتاہے۔ جیسے ہم جنس پرستی پر کوئی مضمون پر لکھنا ہو یا اس سے متعلق لکچر دینا ہو تو ہم جنس پرستی مفید ہے یا مضر؟ اس کو ثابت کرنے کے لئے حیاتیات کا مطالعہ،ہم جنس پرستی کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ یہ بتانے کے لئے موجودہ قوانین اور انسانی حقوق کا مطالعہ اور ماہرین ومذہبی لوگوں کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے اور ان کے دلائل کیا ہیں اسی طرح عوام کی اس میں کیا رائے ہے ان سب امور پر بحث کرنا ضروری ہوگا۔ اس طرح حیاتیات،سیاسیات، نفسیات، سماجیات اور فلسفہ وغیرہ تمام علوم کی طرف رجوع ناگزیر ہوجائے گا۔ اب اگر کوئی اس طرح کی سائنسی تحقیق اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کرنا چاہتا ہو یا ایسے کسی موضوع پردوسری زبان میں گفتگو کرنا چاہتا ہو یا کوئی تحریر لکھنا چاہتا ہو تو پھر اس موقع پر ترجمہ میں بین شعبہ جاتی طرز اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لئے مطالعات ترجمہ میں سائنسی علوم کے ترجمہ کے وقت کن باتوں کوذہن میں رکھنا چاہئے،اصطلاحات کا ترجمہ کیاجائے یا نہ کیا جائے،اصطلاح سازی کی اجازت کن حالات میں ہوگی، اس کے کیا اصول ہیں اور اصلاح سازی کا حق کس کو حاصل ہے،سماجی علوم وعمرانیات کے ترجموں میں مترجم کتنا آزاد اور کتنا پابند ہوتا ہے،ذرائع ابلاغ کے ترجمہ میں کس طرح کی آزادی مترجم کو حاصل ہوتی ہے وغیرہ ان تمام امور کا جائزہ لیا جاتاہے۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. {| width="100%" border="0" style="padding: 0; margin:0; background:transparent;" | style="text-align:left;margin-right:10px;margin-bottom:-4px;" | مزید دیکھیے۔۔۔ |}
  2. https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8:%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3
  3. https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8:%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B6%DB%8C%D8%A7%D8%AA