تبادلۂ خیال صارف:Mmubin

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آپ کا استقبال ہے ایم مبین کے اولین افسانوی مجموعہ ٹوٹی چھت کا مکان کی ویب سائٹ پر





           عام آدمی سےڈائریکٹ ایپروچ کی کہانیاں 

By Meem Naag

ہمارےیہاں افسانوں کی تنقید دو طرح کےناقدین کرتےہیں ۔ ایک وہ جو افسانہ نگار نہیں ہیں اور ایک وہ جو افسانہ نگار ہیں ۔ افسانہ نگار نہ ہوتےہوئےافسانوں پر تنقید کرنےوالےلوگ آج بھی حالی کےتنقیدی سانچےسےنکل نہیں پائےہیں ۔ ( یا نکلتےبھی ہیں تو کسی نہ کسی بیرونی تنقیدی سانچےمیں ملوث پائےجاتےہیں ۔ جبکہ افسانہ نگار احباب کےتبصرےاپنےہم عصروں پر اسٹیریو ٹائپ ہوکر رہ گئےہیں ۔ ( وہ افسانہ نگار سےاتنےقریب ہوتےہیںکہ? دور کی کوڑی ? نہیں لاتے۔ ) ان کو ا عتبار پھر بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ ایک تو ہمارےافسانوں کی تنقید کا یہ المیہ ہےکہ ناقدین نےوہی ٹیپ میجر اور ترازو اٹھالئےہیں جو شاعری کےوقت ان کےہاتھوں میں ہوتےیا بندر بانٹ کی طرح ترقی پسندی کےدور کےکچھ افسانےیا وہ کلاسیکل کہانیاں جو آج بھی انہیںہا نٹ کرتی ہیں ۔ ان کےپیش ِ نظر ہوتی ہیں ۔ ان مثالوں کو سامنےرکھ کر حسابی انداز میں افسانوں کو ناپنےتولنےکا یہ رویّہ ایک طرف افسانےکی تنقید کو نقصان پہنچا رہا ہےدوسری طرف نئےافسانہ نگاروں کا اعتبار بھی ختم کررہا ہے۔ یہ رویّہ کہ ہم عصر ،اپنےآس پاس کےافسانہ نگاروں پر تنقید کریں، مگر بات نہیں بنی ۔ دھند اتنی گاڑھی ہوتی ہےکہ تیر صحیح نشانےپر نہیں لگتا اور گھائل شکار بغیر پانی مانگےڈھیر ہوجاتا ہے۔ لا محالہ ہم ایسےلوگوں کی تنقید پر تکیہ کرنےلگتےہیں ۔ جنہوں نےشاعری کی تنقید میں کارہائےنمایاں انجام دئےہیں ۔ کھلی آنکھ سےدیکھیں تو پتہ چلتا ہےکہ ادھر جو نئےافسانہ نگار متعارف ہوئےہیں ان میں ایک نیا زاویہ ابھر کر آیا ہے، وہ ہے زندگی کو نئےانداز میں برتنےکا ? زندگی کےگوناگوں نئےپرانےرنگوں کو نئی عینک سےدیکھ کر صحیح رویوں کو پہچاننےکا اور شخصی و سماجی تناظر میں دنیا اور زندگی ? قدرت اور سائنس کےانسلاک و سروکار کا ۔ ہمارا افسانہ تکنیکی میدان میں ہمیشہ سےخوشحال رہا ہے۔ اس سےمستفید ہوتےیہ افسانہ نگار اپنےجلو میں نئی تازہ کاری اور بو قلمونی کا مظاہرہ کر رہےہیں ? جس کا استقبال کیا جانا چاہئیے۔ آج افسانےکی کوئی تحریک زندہ نہیں ہےاور تنقید بھی کم و بیش گمراہ کن ہےلیکن افسانےمضبوط و پر اثر ہیں ۔ ایم ۔ مبین کی کہانیاں سچائیوں سےہم کلام کراتی ہیں ۔ صرف تلخیوں کےساتھ نہیں بلکہ اس میں ایک انسانی نقطہ �? نظر بھی جھلکتا ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں سوچ و فکر کےگہرےسمندر میں ڈبکی لگانےپر مجبور بھی کرتی ہیں ۔ ان کہانیوں میں ایم ۔ مبین نےزندگی کےمختلف سیاق و سباق کو کامیابی کےساتھ پیش کرنےکوشش کی ہے۔ کون سی کہانی اہم یا دیرپا تاثر چھوڑنےوالی ہےاس سےقطع نظر اگر ہم یہ دیکھیں کہ ایم ۔ مبین کےکردار کہانیوں میں کہاں صحیح اور غلط ہیں ؟ وہ سماج کےساتھ یا سماج ان کےساتھ کس طرح کا برتاو�? کرتا ہے؟? تو بےجا نہ ہوگا ۔ مسرت اس بات کی ہےکہ ایم ۔ مبین کی کہانیوں میں کسی قسم کی لڑکھڑاہٹ کو چھپانےکےلئے? دھند ? کا استعمال نہیں کیا گیا ۔ نہ ان میں رمزیت اور بین السطور میں کرتب بازی کی گئی ہی۔ علامت اور تجریدیت سےپرےیہ کہانیاں عام آدمی کےگرد گھومتی ہیں ۔ انہیں عام آدمی کےمسائل کی کہانیاں کہنا نامناسب ہوگا ۔ وہ آج ان مسائل سےکس طرح جوجھ رہےہیں ۔ کبھی ہارتےہیں کبھی اپنا ضمیر بیچ بھی دیتےہیں ? کبھی ضمیر کےبل بوتےپر اپنےآپ کو فاتح بھی سمجھتےہیں ۔ کبھی سرینڈر بھی ہوجاتےہیں ? کبھی سرخرو ہو کر فتح مندی کا پرچم لہراتےہیں ۔ ایک بڑی بات یہ ہےکہ اپنےکرداروں کےمنھ میں بھی افسانہ نگار نےاپنی زبان نہیں دی ہےاور نہ ہی کہیں وہ کرداروں کےبیچ آیا ہے۔ ایسا لگتا ہےجیسےافسانہ نگار نہیں ہے۔ اور جو کچھ ہےوہ کردار واقعات ، مسائل ، دکھ درد ہی ہیں ۔ مجموعی اعتبار سےہی ایم ۔ مبین کی کہانیوں کو پرکھنا مناسب ہوگا ۔ ان کےکردار کبھی پولس سےنبرد آزما ہیں ? ( رھائی ? دہشت ? حوادث اور عذاب کی ایک رات ) کبھی زمین کےمافیا اور بستی کےغنڈوں سےدو دو ہاتھ کرتےہیں ۔ ( بلندی ? ایک اور کہانی? حوادث اور نقب ) کہانی ? چھت ? میں بنیادی ضروریات کےدستیاب نہ ہونےپر زندگی کی پریشانیوں کی بات ہے۔ آج کےگاو�?ں پر ایم مبین کی دو کہانیاں ہیں ۔ ? دیوتا �? �?? اور ? پارس ? ۔ ان دو کہانیوں میں ?دیوتا? کےآدرش کافی عظیم ہیں ۔ جبکہ ایک عام دیہاتی کو کنواں کھدوانےمیں جو تکلیف اور پریشانیاں ہوتی ہیں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ? کتنےپل صراط ? اور ? ہرنی ? کام کاجی عورتوں کی کہانیاں ہیں ۔ ? عذاب کی ایک رات ? بنگالی زبان بولنےوالےکو بنگلہ دیشی کہہ کر ملک بدر کیا جارہا ہےتو ?گردش ? کا سلیم اپنےبچوں کےمستقبل کےبارےمیں فکر مند اور ? دہشت ? کا ہیرو عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مجموعی اعتبار سےایم ۔ مبین کی کہانیاں عام آدمی کی زندگی سےڈائریکٹ ایپروچ کی کہانیاں ہیں ۔ انہیں ناپنےکا پیمانہ الگ ہونا چاہئیے۔ ان کی چھان پھٹک الگ طرح سےکی جانی چاہئیے۔ یہ میرےتاثرات ہیں ۔ ایم ۔ مبین کی کہانیوں پر مستند اور معتبر رائےتو کوئی صحیح ناقد ہی دےسکتا ہے۔ میں نےاپنےطور پر چند اشارےکردئےہیں کیونکہ میں ایم ۔ مبین کو ان کےہم عصروں سےاس لئےالگ پارہا ہوں کہ ایم ۔ مبین نے? سکہ بند ? ڈھانچےسےالگ افسانہ نگاری کی ہی۔ وہ قاری کو اپنےافسانےسےقریب کر رہےہیں ? انہیں آئینہ دکھا رہےہیں ? سوچ و فکر پر اکسا رہےہیں ? نئی زندگی کی شروعات پر آمادہ کر رہےہیں ۔ سادہ زبان اور دلچسپ انداز و واقعات پر مبنی کہانیاں کہنا انہیں آتا ہےاور بہت خوب آتا ہے۔ کہانی انسانی فطرت اور سرشت کا ایک اہم جز ہےوہ انسانی حس و جذبہ کو دلچسپ بناتی اور برانگیخت کرتی ہے۔ میں ایم ۔ مبین کو? کہانی? کےساتھ انصاف کرنےپر مبارکباد دیتا ہوں ۔ ll

م ۔ ناگ ممبئی






Urdu Short Story

Gardish


By M.Mubin


بیل بجانےپر حسبِ معمول بیوی نےہی دروازہ کھولا ۔اس نےاپنی تیز نظریں بیوی کےچہرےپرمرکوز کردیں جیسےوہ بیوی کےچہرےسےآج پیش آنےوالےکسی غیر معمولی واقعہ کو پڑھنےکی کوشش کررہا ہو۔ بیوی کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ اس نےایک گہری سانس لی اسےمحسوس ہوا کہ جیسےاس کےدل کا ایک بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔ بیوی کےچہرےکا سکوت اس بات کی گواہی دےرہا تھا کہ آج ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جو تشویش ناک ہو یا جو اس کےدل کےان خدشات کو صحیح ثابت کردےجن کےبارےمیں وہ راستےبھر سوچتا آیا تھا ۔ اتنےدنوں میں وہ بیوی کےچہرےکی کتاب پڑھنا اچھی طرح سیکھ گیا تھا? بیوی کےچہرےکےتاثرات سےوہ اندازہ لگا لیتا تھا کہ آج کس قسم کا واقعہ پیش آیا ہوگااس سےپہلےکہ بیوی اس واقعہ کےبارےمیں اسےبتائےوہ خود کو نفسیاتی طور پراس واقعہ کو جاننےکےبعد خود پر ہونےوالےردِّ عمل کےلئےتیار کرلیتا تھا ۔ اپنا سر جھٹک کر ا س نےاپنی قمیض اتار کربیوی کی طرف بڑھا دی اور بیوی کےہاتھ سےلنگی لےکر اسےکمر کےگرد لپیٹ کر اپنی پتلون اتارنےلگا ۔ پھر واش بیسن کےپاس جاکر اس نےٹھنڈےٹھنڈےپانی کےچھینٹےاپنےچہرےپر مارےان چھینٹوں کےچہرےسےٹکراتےہی اس کےسارےجسم میں فرحت کا ایک جھونکا سا سرایت کرگیا ۔ پھر وہ دھیرےدھیرےمنہ ہاتھ دھونےلگا ۔ تولیہ سےمنھ ہاتھ پونچھتا وہ اپنی کرسی پر آبیٹھا اور بیوی سےپوچھنےلگا ۔ ? گڈو کہاں ہے؟ ? ? شاید ٹیوشن کےلئےگیا ہے۔? بیوی نےجواب دیا ۔ ? جھوٹ بولتا ہےوہ ? بیوی کی بات سنتےہی وہ پھٹ پڑا ۔ ? وہ ٹیوشن کا بہانہ کرکےاِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے? ابھی راستےمیں ? میں اسےکیپٹول کےپاس اس کےدوچار آوارہ دوستوں کےساتھ دیکھ چکا ہوں ? اس کی ٹیوشن کلاس ناز کےپاس ہے? وہ کیپٹول کےپاس کس طرح پہنچ گیا ؟ ? ? ہوسکتا ہےٹیوشن جلدی چھوٹ گئی ہو اور وہ دوستوں کےساتھ گھومنےنکل گیا ہو۔? بیوی نےبیٹےکی طرف داری کی ۔ ? اگر ٹیوشن کلاس سےجلدی چھٹی ہوگئی تو اسےگھر آنا چاہئیےتھا ? دوستوں کےساتھ آوارہ گردی کرنےکےلئےجانا نہیں چاہیئےتھا ? میں تو کہتا ہوں کہ اس کی ٹیوشن سراسر فراڈ ہے? ٹیوشن کےبہانےوہ آوارہ گردی کرتا ہوگا اور ٹیوشن کی فیس دوستوں کےساتھ اڑا دیتا ہوگا ۔ ? ? اگر بیٹےپر بھروسہ نہیں ہےتو خود کسی دن ٹیوشن کلاس میں جاکر پتہ کیوں نہیں لگا لیتی؟? بیوی نےتیز لہجےمیں کہا تو اس نےموضوع بدلا ۔ ? منی کہاں ہے۔ ؟ ? ? اپنی ایک سہیلی کےساتھ شاپنگ کےلئےگئی ہے۔ ? ? اس لڑکی کا باہر نکلنا اب کم کردو ۔ اب وہ چھوٹی بچی نہیں رہی ? بڑی ہوگئی ہی۔ سویرےجب میں ڈیوٹی پر جارہا تھا تو وہ کھڑکی میں کھڑی برش کررہی تھی اور نیچےدو تین لڑکےاسےدیکھ کر مسکرا رہےتھے? بھّدےریمارکس پاس کر رہےتھے۔ یہ محلہ شریفوں کےرہنےکےلائق ہی نہیں ........ ? وہ بڑبڑانےلگا ۔ ? چلو کھانا کھالو ۔ ? بیوی نےاس کا موڈ بدلنےکےلئےموضوع بدلنےکی کوشش کی ۔ ? ارےہاں چھوٹا کہاں ہےدکھائی نہیں دےرہا ہے۔ ? ? اپنےدوستوں کےساتھ کھیلنےگیا ہے۔ ? ? کہاں کھیلنےگیا ہوگا ؟ ? وہ جھنجلا کر بولا ۔ ? بچوں کےکھیلنےکےلائق کوئی جگہ بھی تو نہیں بچی ہے? چاروں طرف کانکریٹ کا جنگل آباد ہوگیا ہے۔تمہیں معلوم ہےکہ وہ اپنےدوستوں کےساتھ کرکٹ کھیلنےآزاد میدان جاتا ہے۔ ؟? ? رات کےآٹھ بج رہےہیں ? آزاد میدان میں سات بجےاندھیرا ہو جاتا ہےکیا وہ اب تک فلڈ لائٹ میں کرکٹ کھیل رہا ہوگا ۔ ؟ ? ? دیکھو تم بچوں کو آنےجانےکےلئےبس یا ٹیکسی کا کرایہ تو نہیں دیتےہو تو ظاہر سی بات ہےکہ آزاد میدان سےوہ پیدل ہی آرہا ہوگا اور آزاد میدان کوئی اتنےقریب نہیں ہےکہ پانچ دس منٹ میں کوئی گھر آجائے۔ ? ? سلطانہ ! میں تم سےبار بار کہتا ہوں کہ میں جب گھر آو�?ں تو مجھےبچےگھر میں دکھائی دینےچاہئیےلیکن تم میری اس بات کو سنجیدگی سےلیتی ہی نہیں ہو ? آخر تمہارےدل میں کیا ہے? تم کیا چاہتی ہو ؟ ? ? دیکھو ! تم اگر بچوں کےباپ ہو تو میں بھی بچوں کی ماں ہوں ? تم سےزیادہ مجھےبچوں کی فکر رہتی ہےمجھےپتہ ہےاس شہر اور ہمارےاطراف کا ماحول اس قابل نہیں ہےکہ بچےزیادہ دیر گھر سےباہر رہنےپر بھی محفوظ رہیں لیکن کیا کروں بچےکوئی نہ کوئی ایسا کام بتا دیتےہیں کہ مجبوراً مجھےانہیں باہر جانےکی اجازت دینی ہی پڑتی ہے۔ ? بیوی نےجواب دیا ۔ ? اب یہ بےکار کی باتیں چھوڑو اور کھانا کھالو ? پتہ نہیں دوپہر میں کب کھانا کھایا ہوگا ؟ ? ? ٹھیک ہےنکالو ۔ ? اس نےبھی ہتھیار ڈال دئے۔ وہ بظاہر اطمینان سےکھانا کھا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بچوں میں لگا ہوا تھا ۔ یہ گڈو اپنےدوستوں کےساتھ اتنی دیر تک پتا نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہےمنی اپنی سہیلی کےساتھ شاپنگ کرنےگئی ہےابھی تک واپس کیوں نہیں آئی ؟ اسےاتنی رات گئےتک گھر سےباہر نہیں رہنا چاہیئےاور یہ چھوٹےکو کرکٹ کا جنون سا ہےاب کرکٹ کھیلنےکےلئےدو تین کلو میٹر دور آزاد میدان میں اور وہ بھی پیدل جانےمیں کوئی تُک ہے؟ جب وہ گھر سےباہر ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو بھی ایک لمحہ کےلئےگھر اور بچوں کا خیال اس کےذہن سےجدا نہیں ہوپاتا تھا ۔ گھر آنےکےبعد بھی اسےاس اذیت سےنجات نہیں مل پاتی تھی ۔ اگر بچےگھر میں اس کی نظروں کےسامنےبھی ہوتےتو وہ انہی کےبارےمیں سوچا کرتا تھا ۔ گڈو پڑھنےلکھنےمیں کافی اچھا ہے? کافی ذہین ہے۔ بارہویں پاس کرلےتو کوئی اچھی لائن میں ڈالا جاسکتا ہے? ڈاکٹر بنانےکی استطاعت تو اس میں نہیں ہے? ہاں کسی پالی ٹیکنک میں بھی داخلہ مل جائےتو وہ اسےپڑھا سکتا ہے۔ منی کی تعلیم کا سلسلہ ختم کردینا اس کی مرضی کےخلاف تھا لیکن اس کےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ? تیسری مرتبہ وہ میٹرک میں فیل ہوئی تھی پڑھنےلکھنےمیں وہ یوں ہی ہے۔ ہاں خوبصورتی میں وہ ماں سےبڑھ کر ہےاس کی شادی کی عمر ہےوہ جلد سےجلد اس کی شادی کرکےایک بڑےفرض سےسبکدوش بھی ہونا چاہتا ہےلیکن کیا کریں منی کےلئےکوئی اچھا لڑکا ملتا ہی نہیں ۔ ایک دو رشتےآئےبھی لیکن نہ تو وہ منیّ کےمعیار کےتھےنہ برابری کےاس لئےاس نےانکار کردیا ۔ چھوٹا پڑھنےمیں تیز تھا لیکن کرکٹ .... اُف ! یہ کرکٹ اسےبرباد کرکےرکھ دےگا ۔ جہاں تک سلطانہ کا سوال تھا دن بھر گھر کےکام خود اکیلی کرتی تھی ۔ گھر کےسارےکام ? بچوں کےکام اس کےبعد ایمبرائیڈری مشین پر بیٹھ جاتی تھی تو کبھی کبھی رات کےدو بج جاتےتھے۔ وہ اسےسمجھاتا تھا ۔ اسےدو بجےرات تک آنکھیں پھوڑنےکی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اتنا کما لیتا ہےکہ ان کا گذر ہوجائےلیکن وہ بھڑک کر جواب دیتی ۔ ? تمہاری عقل پر تو پردہ پڑا ہوا ہے۔ اگر میں تھوڑی محنت کرکےدو پیسےکما لیتی ہوں تو اس میں برائی کیا ہے؟ گھر میں جوان بیٹی ہےمیں اس کےلئےپیسےجمع کررہی ہوں ۔ بیٹی کی شادی کو معمولی کام مت سمجھو شادی تو ایک ایسا کاج ہےجس کےلئےسمندر کےپانی جیسی فراخی بھی کم پڑی۔? آفس میں کام کرتےہوئےوہ سب سےزیادہ سلطانہ کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ گھر میں اکیلی ہوگی اس نےدروازہ تو بند کر رکھا ہوگا ........ یا پھر کسی اجنبی کی دستک پر دروازہ کھول کر مصیبت میں پھنس جائےگی ۔ ایک دن پولس ایک مجرم کا تعاقب کرتی ان کےمحلےتک آگئی تھی ۔ مجرم پناہ لینےکےلئےان کی بلڈنگ میں گھس گیا ۔ اس نےان کےگھر پر دستک دی اور بےخیالی میں سلطانہ نےدروازہ کھول دیا ۔ اس مجرم نےفوراً چاقو نکال کر اس کےنرخرےپر رکھ دیا اور اسےدھمکاتا گھر میں گھس گیا ۔ ? خاموش ! اگر زبان سےذار سی آواز بھی نکلی تو گلا کٹ جائےگا ۔ ? وہ بہت دیر تک سلطانہ کا منھ دبائےاس کےگلےپر چاقو لگائےگھر میں چھپا رہا تھا ۔ پولس ساری بلڈنگ میں اسےڈھونڈتی رہی تھی۔ سلطانہ ایک دو بار مچلی تو تیز چاقو اس کےجسم سےلگ گیا اور جسم پر ایک دو جگہ زخم ہوگئےجن سےخون بہنےلگا ۔ بعد میں جب اس بدمعاش کو محسوس ہوا کہ پولس جاچکی ہےتو وہ سلطانہ کو چھوڑ کر بھاگا ۔ اسی وقت سلطانہ نےچیخنا شروع کردیا ........ سلطانہ کی چیخیں سن کر نیچےسےگزرتےپولس والےچوکنا ہوگئےاور انھوں نےاس بدمعاش کو گولی کا نشانہ بنا دیا ۔ بعد میں پولس کو پتہ چلا کہ وہ بدمعاش ان کےگھر میں چھپا ہوا تھا تو انہوں نےپنچ نامےمیں سلطانہ کا نام بھی درج کرلیا سلطانہ کےساتھ اسےکئی بار پولس اسٹیشن کےچکر کاٹنےپڑے۔ پولس الٹےسیدھےسوالات کرتی ۔ ? وہ بدمعاش گھر میں گھسا تو آپ چیخی کیوں نہیں ؟ وہ بدمعاش تمہارےہی گھر میں کیوں گھسا ؟ کیا تم لوگ اس کو پہلےسےجانتےہو ؟ اس بدمعاش نےتمہارےساتھ کیا ? کیا کیا ؟ یہ جسم پر زخم کس طرح آئےتم نےمزاحمت کیوں نہیں کی ؟ تب سےروزانہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ آج بھی پھر اسی طرح کی کوئی واردات نہ ہوجائے۔ ایک بارمحلہ میں ہی پولس کا دن دہاڑےکسی گینگ سےانکاو�?نٹر ہوگیا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چل رہی تھیں ۔ لوگ خوف زدہ ہوکر اِدھر اُدھر بھاگ رہےتھے۔ اس وقت چھوٹا اسکول سےآیا بےخیالی میں وہ اس علاقےمیں داخل ہوگیا جہاں تصادم چل رہا تھا اس سےپہلےکہ صورت حال کا اسےعلم ہوتا اور وہ وہاں سےکسی محفوظ مقام کی طرف بھاگتا ایک گولی اس کےبازو کو چیرتی ہوئی گذر گئی ۔ خون میں لہو لہان ہو کر وہ بےہوش ہوکر زمین پر گر پڑا ۔ تصادم ختم ہوا تو کسی کی نظر اس پر پڑی اور اسی نےانہیں خبر کی اور اسےاسپتال لےجایا گیا ۔ گولی گوشت کو چیرتی ہوئی گذری تھی ? شکر تھا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ? پھر بھی وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا اور بازو کا زخم بھرنےمیں پورا ایک مہینہ لگ گیا ۔ چھوٹا اچھا ہوگیا تھا لیکن اتنا کمزور اور دبلا ہوگیا تھا کہ پورےایک سال تک اس کی پرانی صحت واپس نہ آسکی ۔ ایک دن ترکاریاں خرید کر واپس آتی منی کو کسی غنڈےنےچھیڑ دیا اس وقت گڈو اسکول سےواپس آرہا تھا اس سےبرداشت نہیں ہوسکا اور وہ غنڈےسےالجھ پڑا ۔ گڈو بھلا اس غنڈےکا مقابلہ کیا کرتا غنڈےنےاسےزخمی کردیا کچھ لوگ اس کی مدد کو بڑھےتو غنڈہ بھاگ کھڑا ہوا لیکن گڈو زخمی ہوگیا تھا ۔ اس کےبعد پتا نہیں کیا بات اس کےذہن میں بیٹھ گئی کہ اس نےمحلےکےآوارہ بدمعاش لڑکوں سےدوستی کرلی اور اسکول سےآنےکےبعد وہ زیادہ تر انہی کےساتھ رہنےلگا ۔ ایک دوبار اس کےسمجھانےپر وہ اس سےبھی الجھ پڑا ۔ ? ابا ! آج کےزمانےمیں اپنی اور اپنےگھر والوں کی حفاظت کےلئےایسےلوگوں کےساتھ رہ کر ان کی مدد لینا بہت ضروری ہے۔ شرافت ? غنڈےاور بدمعاشوں سےہماری حفاظت نہیں کرسکتی ۔? گذشتہ چند سالوں میں کچھ ایسےواقعات ہوئےتھےکہ وہ ایک طرح سےٹوٹ سا گیا تھا ۔ گڈو رات کو دیر سےگھر آتا تھا ۔ دیر رات تک وہ آوارہ بدمعاش قسم کےلڑکوں کےساتھ رہتا تھا ۔ وہ اسےروکتا تو وہ الجھ پڑتا ........ صرف اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ اسکول باقاعدگی سےجاتا تھا اور پڑھائی میں بھی پہلےکی طرح دلچسپی لیتا تھا ۔ منی کو آوارہ بدمعاش لڑکےاس کےسامنےچھیڑتے? فقرےکستےتھے۔ سلطانہ بھی دبےلفظوں میں کئی بار اس سلسلےمیں اس سےکہہ چکی تھی جب وہ اپنےپڑوسیوں سےاپنےگھر کا مقابلہ کرتا تواسےکچھ اطمینان محسوس ہوتا تھا کہ اس کےبچےپڑوسیوں کےمقابلےکہیں زیادہ سیدھی راہ پر ہیں ۔ پڑوسیوں کےبچوں کا برا حال تھا ۔ کئی اچھےلڑکےتعلیم چھوڑ کر بری صحبت میں پڑنےکی وجہ سےغلطراستوں پر چل نکلےتھے۔ گلی میں کہیں چوری چھپےنشہ آور اشیاءبکتی تھیں کئی بچےان نشہ آور اشیاءکےعادی بن چکےتھے۔ کم عمری میں ہی کچھ لڑکےطوائفوں کےاسیر بن کر اپنی زندگی اور جوانیاں برباد کررہےتھے۔ غنڈہ گردی کےگلیمر نےکئی لڑکوں کو پھانس لیا تھا اور وہ اخلاقیات کےسارےدرس بھول کر مادہ پرستی کا شکار ہوگئےتھے۔ لڑکیوں کی ایک عجیب ہی دنیا تھی ۔ زیادہ تر لڑکیاں گلیمر کا شکار تھیں اور اس گلیمر کو حاصل کرنےکےلئےبھٹک چکی تھیں اس بھٹکنےمیںبھی انہیں کوئی ندامت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ جیسےاخلاقیات ? اقدار اب ایک داستان پارینہ ہو ۔ جب وہ اپنےماحول پر نظر ڈالتا تو کبھی کبھی یہ سوچ کر کانپ اٹھتا تھا وہ اور اس کےبچےبھی اسی ماحول میں رہ رہےہیں ۔ اس کےبچےبھی کبھی بھی ا س ماحول کےاسیر بن کر ان برائیوں کا شکار بن سکتےہیں ۔ جب کبھی تصور میں وہ اس بارےمیں سوچتا تو اسےاپنےسارےخواب ٹوٹ کر بکھرتےمحسوس ہوتےتھے۔ اس سلسلےمیں سلطانہ بھی اس کی طرح فکر مند تھی اور وہ اکثر اس سےدبےلفظوں میں کہا کرتی تھی ۔ ? سلیم ! خدا کا شکر ہےہمارےبچےآج تک اس گندےماحول سےبچےہوئےہیں لیکن ڈرتی ہوں اگر اس ماحول نےانہیں بھی اپنی لپیٹ میں لےلیا تو ؟ اس کا کیا علاج ہوسکتاہے؟ ? ? ایک ہی علاج ہے? ہم یہ جگہ چھوڑدیں ۔ ? ? کہاں جائیںگے؟ہمیں اس شہر میں تو سر چھپانےکےلئےکوئی جگہ ملنےسےرہی ہمارےپاس اتنےپیسےبھی نہیں ہیں کہ ہم کہیں دور کوئی جگہ لےسکیں ۔ ? ? کہیں بھی چلو ۔ چاہےوہ جگہ جہاں ایسا ماحول نہ ہو شہر سےپچاس کلو میٹر دور ہو ? مجھےکوئی شکایت نہیں ہوگی لیکن اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےاب یہ ہجرت لازمی ہوگئی ہے۔ مسئلہ تمہاری نوکری کا ہےتمہیں آنےجانےمیںتھوڑی تکلیف تو ہوگی لیکن کیا اپنی اولادکی بھلائی کےلئےتم اتنی تکلیف نہیں اٹھا سکتی؟ ? ? میں اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےہر تکلیف اٹھاسکتا ہوں ۔ ? ? پھر کچھ سوچو ? اس ماحول سےنکلنےکےلئےکوئی قدم اٹھاو�? ۔? بیوی نےکہا ۔ ? ہاں میں ضرور کوئی قدم اٹھاو�?ں گا ۔ ? اس نےجواب میں کہا اور سوچ میں ڈوب گیا ۔ ایک دن وہ آیا تو بہت خوش تھا ۔ آتےہی سلطانہ سےکہنےلگا ۔ ? سلطانہ ! اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےہمیں جو قدم اٹھانا چاہیئےتھا اس راہ میں میں نےپہلا قدم رکھ لیا ہے? میں نےایک جگہ فلیٹ بک کرلیا ہےوہ جگہ یہاں سےپچاس کلو میٹر دور ہےلیکن وہاں پر یقیناً یہاں سی گندگی نہیں ہوگی ۔ ? یہ کہتےہوئےوہ سلطانہ کو ساری بات سمجھانےلگا ۔ بہت بڑی کالونی بن رہی ہےمعمولی رقم پر وہاں فلیٹ بک ہوگیا ہے۔ پیسےقسطوں میں ادا کرنےہیں ابھی پوری کالونی تیار ہونےمیں دو سال لگیں گے۔ تب تک ہم پیسےادا کردیں گےیا جو باقی پیسےہوں گےاس کمرےکو فروخت کرکےبےباق کردیں گے۔ دونوں کی آنکھوں کےسامنےایک خوبصورتبستی کا خواب تھا ۔ خوبصورت عمارتیں ? چاروں طرف پھیلی ہریالی ? مسجد ? مدرسہ ? باغ ? اسکول ? کشادہ صاف سڑکیں اور کھلی کھلی آب و ہوا جن میں گھٹن کا نام و نشان نہیں ۔ انہوں نےبچوں کو بھی اس بستی کےبارےمیں بتایا تھا ۔ بچوں نےان کےاس خواب کےبارےمیں اپنا کوئی ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا تھا ۔ ایک دوبار سلطانہ نےدبےلفظوں میں کہا بھی تھا ۔ ? بچےیہاں پیدا ہوئےپلےبڑھےہیں ۔ انہیں اس جگہ سےانسیت ہوگئی ہےممکن ہےوہ یہاں سےجانےسےانکار کردیں ۔ آخر ان کےدوست احباب تو یہاں رہتےہیں ۔? ? بچوں کو ہر حال میں یہاں سےجانا ہوگا ۔ آخر یہ سب ہم اپنی خوشی کےلئےنہیں ان کی بھلائی کےلئےکر رہےہیں ۔ ? ان دنوں وہ جس اذیت کا شکار تھا ۔ اس کےآفس میں کام کرنےوالا اکبر بھی دو سال قبل اسی اذیت کےدور سےگذر رہا تھا ۔ اکبر کا بھی وہی مسئلہ تھا جو اس کا مسئلہ تھا ۔ اکبر نےبھی وہی حل اور راستہ نکالا تھا جو اس نےنکالا تھا ۔ کچھ دنوں قبل وہ بھی شہر سےدور نئی آباد ہونےوالی بستی میں جا بسا تھا ۔ اس جگہ آباد ہونےکےبعد وہ بہت خوش تھا ۔ ? سلیم بھائی ساری فکروں اور خدشات سےنجات مل گئی ہے۔ سمجھ لیجئےاب بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔ ? اس کےذہن میں بار بار اکبر کی وہ بات گونجتی تھی ۔جب بھی وہ اکبر کی اس بات کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ یہ سوچ کر اپنا دل بہلاتا تھا کہ ایک سال بعد تواسےبھی اکبر کی طرح ایک نئی آباد ہونےوالی بستی میں بسنا ہے۔ ایک سال بعد اس کےہونٹوں پر بھی وہی کلمات ہوں گے۔ بس ایک سال اور اس جہنم میں گذار کر خود کو اس جہنم سےمحفوظ رکھنا ہے۔ دن گذر رہےتھے۔ اور اچھےدن قریب آرہےتھے۔ اس جگہ سےہجرت کرنےکےدن جیسےجیسےقریب آرہےتھےویسےویسےبچوں ، گھر ، بیوی کےبارےمیں اس کی فکریں زیادہ ہی بڑھتی جا رہی تھیں وہ ان کےبارےمیں کچھ زیادہ ہی سوچنےلگا تھا ۔ اس دن آفس کینٹن میں اکبر کےساتھ لنچ لیتےہوئےاس نےاکبر کو متفکر پایا تو پوچھ بیٹھا ۔ ? کیا بات ہےاکبر بہت پریشان لگ رہےہو ؟ ? ? کیا بتاو�?ں سلیم بھائی ! ساری تدبیریں اور منصوبےغلط ثابت ہوگئےہیں ۔ ? ? کیا بات ہےتمہیں کس بات کی فکر ہے؟ ? ? جن بچوں کےمستقبل کو بچانےکےلئےشہرسےدور سکونت اختیارکی تھی وہاں جانےکےبعد بھی بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوسکا ہے۔ یہاں کےماحول سےوہ بچ گئےتو وہاں پرایک نئےاور عجیب ماحول میں رم رہےہیں ? اونچےخواب ? اونچی سوسائٹی کےعادات و اطوار ? اسی سوسائٹی میں ڈھلنےکی کوشش ۔ بنا یہ جانےکہ ہماری اس سوسائٹی کےطور طریقوں میں ڈھل کر رہنےکی بساط نہیں ہے۔ کنزیومر کلچر ان پر حاوی ہورہا ہے? سیٹیلائٹ کلچر اور اس کےذریعہ پھیلنےوالےافکار کےوہ مرید بن رہےہیں ? مادہ پرستی ان میں بڑھتی جاری ہے? اقدار کا ان میں فقدان ہورہا ہے? پہلےوہ جن افکار میں ڈھلنےوالےتھےوہ افکار مجھےپسند نہیں تھےاس لئےمیں انہیں اس جگہ سےدور لےگیا لیکن وہاں وہ جن افکار میں ڈھل رہےہیں مجھےوہ بھی پسند نہیں ہے۔ ? وہ اکبر کی بات سن کر سناٹےمیں آگیا ۔ ایک سال بعد اسےبھی تو وہاں جانا ہے۔ اگر وہاں اس کےساتھ بھی ایسا ہوا تو اس کی اس ہجرت کا کیا فائدہ ؟ اسےمحسوس ہوا جیسےوہ ایک مدار پر گردش کررہا ہی۔ کسی ناپسندیدہ مقام سےوہ چاہےکتنی دور بھی جانا چاہےلیکن اسےواپس لوٹ کر اسی جگہ آنا ہے۔

Urdu Short Story

Dahashat


By M.Mubin


ll

? ہےبھگوان ! میں اپنےگھر والوں کےلئےرزق کی تلاش میں گھر سےباہر جارہا ہوں ۔ مجھےشام بحفاظت گھر واپس لانا ۔ میری حفاظت کرنا میری غیر موجودگی میں میرےگھر اورگھر کےافراد کی حفاظت کرنا ۔? دروازےکےقریب پہنچتےہی یہ دعا اس کےہونٹوں پر آگئی اور وہ دل ہی دل میں اس دعا کو دہرانےلگا ۔ جیسےہی اس نےدعا کےآخری الفاظ ادا کئےاس کا پورا جسم کانپ اٹھا اور پورےجسم میں ایک برقی لہر سی دوڑ گئی ? آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔ اس نےگھبرا کر پیچھےپلٹ کر دیکھا ۔ اس کی بیوی بچےکو لےکر معمول کےمطابق اسےچھوڑنےدروازےتک آئی تھی ۔ ? بیٹےپاپا کو ٹاٹا کرو ? ۔اس نےبچےسےکہا تو بچہ اسےدیکھ کر مسکرایا اور اپنےننھےننھےہاتھ ہلانےلگا ۔ ? شام کو جلدی گھر آجانا کہیں رکنا نہیں ? ذرا سی دیر ہوجاتی ہےتو میرا دل گھبرانےلگتا ہے? ۔ بیوی نےکہا تو اس کی بات سن کر ایک بار پھر اس کا دل کانپ اٹھا ? پیر جیسےدروازےمیں جم گئےلیکن پھر اس نےاپنا سر جھٹک کر قوت ارادی کو مضبوط کرتےہوئےدروازےکےباہر قدم نکالے۔ گھر سےباہر نکل کر اس نےایک بار پھر مڑ کر اپنےگھر کو دیکھا بیوی بچےکو گود میں لئےدروازےمیں کھڑی تھی ۔ پتہ نہیں کیوں ایک بار پھر اس کےدماغ میں اس خیال کےناگ نےاپنا پھن اٹھایا ۔ اسےایسا محسوس ہوا جیسےوہ آخری بار اپنےگھر سےباہر نکل رہا ہےاپنےگھر اور بیوی بچےکا آخری دیدار کر رہا ہے۔ اب وہ کبھی واپس لوٹ کر اس گھر میں نہیں آئےگا نہ بیوی بچےکو دوبارہ دیکھ پائےگا ۔ گھبرا کر اس نےاپنےسر کو جھٹکا اور تیزی سےآگےبڑھ گیا ۔ اسےخوف محسوس ہورہا تھا اگر اس کی بیوی نےاس کےان خیالات کو پڑھ لیا تو وہ ابھی رو اٹھےگی اور رو رو کر خود کو بےحال کرلےگی اور اسےڈیوٹی پر جانےنہیں دےگی ۔ مجبوراً اسےچھٹی لینی پڑےگی ۔ وہ کیا کرے؟ اس کےذہن میں ان خیالوں کا جو ناگ کنڈلی مار کر بیٹھا ہےاس ناگ کو اپنےذہن سےکس طرح نکالے۔ ہر بار وہ اپنےذہن میں بیٹھےاس ناگ کو مار بھگانےکی کوشش کرتا ہےاور کبھی کبھی تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر دوبارہ وہ ناگ اس کےذہن میں آکر بیٹھ جاتا ہےاور اس کی ساری کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ چار پانچ دنوں سےوہ خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ وہ اس ناگ کو مار بھگانےمیں کامیاب رہا تھا ۔ وہ اطمینان سےذہن میں بنا کوئی بوجھ لئےآفس جاتا تھا اور اسی اطمینان سےواپس گھر آتا تھا ۔ نہ تو گھر میں کوئی تناو�? تھا اور نہ ہی ذہن میں کوئی تناو�? تھا ۔ پھر ایک حادثہ ہوا اور وہ ناگ دوبارہ اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔ اس دن آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملند آفس نہیں آیا ۔ ? کیا بات ہے? آج ملند آفس کیوں نہیں آیا ہے؟ ? اس نےپوچھا ۔ ? ارےتم کو معلوم نہیں ؟ ? اس کی بات سن کر گائیکر حیرت سےاسےدیکھنےلگا ? کل اس کا قتل ہوگیا ۔ ? ? قتل ہوگیا ؟ ? یہ سنتےہی اس کےذہن کو ایک جھٹکا لگا ۔ قتل اور ملند کا ؟ مگر کیوں ؟ اس نےکسی کا کیا بگاڑا تھا ؟ وہ شریف آدمی کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا ؟ اس بےچارےکا تو مشکل سےکوئی دوست تھا تو بھلا دشمن کیسےہوسکتا ہے؟ ? نہ وہ دوستوں کےہاتھوں مرا اور نہ دشمنوں کے! وہ تو بےموت مارا گیا ۔ ? گائیکر بتانےلگا ۔ آفس سےوہ گھر جارہا تھا ۔ لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس اچانک دو گینگ والوں میں ٹکراو�? ہوا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چلنےلگیں ۔ ان گولیوں سےپتہ نہیں ان گینگ کےافراد مارےگئےیا زخمی ہوئےلیکن ایک گولی اس جگہ سےگذرتےملند کی کھوپڑی توڑتی ضرور گزر گئی ۔ ? ? اوہ ........ نو ! ? یہ سن کر وہ اپنا سر پکڑ کر کرسی سےٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ بےچارہ ملند ! کل کتنی پیاری پیاری باتیں کررہا تھا ۔ ? اننت بھائی ! اپنےکمرےکا انتظام ہوگیا ہےاب کمرہ کہاں لیا کتنےمیں لیا یہ مت پوچھو ? بس لےلیا ۔ یہ سمجھو گھر والےبہت خوش ہیں کہ میں نےکوئی کمرہ لےلیا ہے۔ سالا اتنےچھوٹےسےگھر میں سارےخاندان والوں کو رہنا پڑتا تھا ۔ میرےکمرہ لینےسےسب سےزیادہ خوش نینا ہے۔ میں نےجیسےہی اسےیہ خوش خبری سنائی گارڈن میں سب لوگوں کےسامنےاس نےمیرا منھ چوم لیا ایک بار نہیں پورےتین بار اور بولی اب جلدی سےگھر آکر میرےباپو سےہماری شادی کی بات کرلوویسےوہ تیار ہیں ۔ ان کی ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ تم رہنےکےلئےکوئی کمرہ لےلو ۔ ? بےچارہ ملند ! ? وہ سوچنےلگا ۔ کل جب وہ آفس سےنکلا ہوگا تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ گھر کی طرف نہیں موت کی طرف جارہا ہے۔ کیا سویرےگھر سےنکلتےوقت اس نےسوچا ہوگا کہ وہ آخری بار آفس جارہا ہے؟ اس کےبعد اسےکبھی گھر سےآفس کےلئےنکلنےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ یا اب کبھی وہ لوٹ کر گھر نہیں آئےگا ۔ کیا وہ جس موت کا شکار ہوا ہےیہ اس کی فطرتی موت ہے؟ نہیں نہیں .... ! نہ یہ اس کی فطرتی موت تھی اور نہ اس کی قسمت میں اس طرح کی موت لکھی تھی ۔ وہ تو بےموت مارا گیا ۔ دو گینگ والےآپس میں ٹکرائے۔ ایک دوسرےکو ختم کرنےکےلئےگولیاں چلیں اور ختم ہوگیا بےچارہ ملند ۔ جس طرح ملند کی کہانی ختم ہوگئی ممکن تھا اگر وہ بھی اس جگہ سےگزرتا تو اس کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوجاتا ۔ مانا وہ اس کا راستہ نہیں تھا لیکن یہ ضروری نہیں ہےکہ گینگ وار صرف لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس ہی ہوتی ہیں ۔ وہ دادر میں بھی ہوسکتی ہے? کرلا میں بھی ? ملنڈ میں بھی اور تھانےاسٹیشن کےباہر بھی ۔ یہ تو اس کا رستہ ہے۔ جس گولی نےملند کی جان لی تھی اس طرح کی کوئی گولی اس کی بھی جان لےسکتی ہے۔ ناگ دوبارہ آکر اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا ۔ اور اب چاہ کر بھی وہ اس ناگ کو اپنےذہن سےنہیں نکال سکتا تھا ۔ گذشتہ ایک سال سےوہ اس ناگ کی دہشت سےخوف زدہ تھا ۔ گذشتہ ایک سال سےروزانہ اسےاس ناگ کا لہراتا ہوا پھن دکھائی دیتا تھا ۔ روزانہ وہ جس راستےسےبھی گزرتا تھا وہاں سےموت اسی کی تاک میں بیٹھی محسوس ہوتی تھی ۔ اسےصرف اس دن ناگ سےنجات ملتی تھی جس دن وہ آفس نہیں جاتا تھا اور گھر میں ہی رہتا تھا ۔ گھر میں وہ اپنےبیوی بچوں کےدرمیان خود کو بےحد محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےپورا اطمینان ہوتا تھا کہ جب تک وہ اپنےگھر میں ہےاپنےخاندان کےافراد کےدرمیان ہےمحفوظ ہے۔ ہاں جس لمحےاس نےگھر سےباہر قدم رکھا اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔صرف وہ اکیلا ہی اس دہشت سےخوفزدہ نہیں تھا جب وہ غور کرتا تو اسےاپنےساتھ سفر کرتا ہر آدمی اسےدہشت زدہ محسوس ہوتا تھا ۔ کسی کو بھی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ۔ جب وہ اس موضوع پر لوگوں سےگفتگو کرتا تو اسےمحسوس ہوتا وہ جس خوف کےسائےمیں جی رہا ہےلوگ بھی اسی خوف کےسائےتلےجی رہےہیں ۔ سارےشہر پر وہ کالا سایہ چھایا ہوا ہے۔ ایک سال قبل تک سب کچھ کتنا اچھا تھا ۔ روزانہ وہ بلا خوف و خطر آفس جاتا اور آفس سےواپس گھر آتا تھا ۔ کسی وجہ سےاگر وہ آدھی رات تک گھر نہیں پہنچ پاتا تھا تو بھی گھر والےاس کی کوئی فکر نہیں کرتےتھے۔ وہ یہ اندازہ لگالیتےتھےکہ ضرور آفس میں کوئی کام ہوگا اس لئےگھر آنےمیں دیر ہوگئی ہوگی یا ٹرین سروس میں کوئی خلا پیدا ہوگیا ہوگا اس لئےوہ ابھی تک گھر نہیں آپایا ہے۔ وہ خود جب آفس سےنکلتا تو اسےبھی گھر پہونچنےکی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بڑےآرام سےضروری اشیا ءخرید کر گھر جاتا تھا ۔ لیکن اب تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آدھا گھنٹہ بھی لیٹ ہوجاتا تھا تو اس کی بیوی کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں ۔ وہ بےچینی سےکمرےمیں ٹہلتی ? پتہ نہیں کیا کیا سوچنےلگتی تھی ۔ اگر وہ گھر آنےمیں دو تین گھنٹہ لیٹ ہو جاتا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگتی تھی ۔ وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہونچا ؟ کیا اس کےساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے؟ اب وہ آفس سےنکلتا تھا تو سیدھا پہلی لوکل پکڑ کر گھر جانےکی سوچتا تھا وہ آفس سےباہر خود کو بڑا غیر محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےاگر کوئی ضروری چیز بھی خریدنی ہوتی تھی تو وہ ٹال دیتا تھا ۔ ایک دہشت ذہن میں سمائی رہتی تھی ۔ پتہ نہیں کب کہیں کوئی بم پھٹےاور اس کےجسم کےپرخچےاڑجائیں ۔ پتہ نہیں کب کہیں سےکوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاقو ، چاپڑ لئےمذہبی نعرےلگاتا ہوا آئےاور آکر اس کےجسم کےٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔ پتہ نہیں کب کہیں سےپولس کی گولی آئےاور اس زمین کو اس کےوجود سےپاک کردےپتہ نہیں کہیں دو گینگوں کی وار میں چلی کوئی گولی اچٹ کر آئےاور ملند کی طرح اس کا بھی خاتمہ کردے۔ اور نہیں تو یہ بھی ممکن ہےوہ جس لوکل ٹرین سےسفر کررہا ہو اس کےڈبےمیں بم پھٹ پڑے۔ گذشتہ ایک سال میں اس نےاپنی آنکھوں سےاپنی موت کو اپنےبہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اپنےکئی شناساو�?ں اور عزیزوں کو موت کا نوالا بنتےہوئےدیکھا تھا اور ایک دوبار تو خود موت اس کےقریب سےگزری کہ آج بھی جب وہ ان لمحات کو یاد کرتا تھا تو اس کےجسم میں کپکپی چھوٹ جاتی تھی ۔ وہ دسمبر کا ایک منحوس دن تھا ۔ بیوی اسےروک رہی تھی ۔ ? آج آپ ڈیوٹی پر مت جائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہےضرور آج کچھ نہ کچھ ہوگا ۔ ? ? تمہارا دل تو روز ہی گھبراتا رہتا ہےاس کا مطلب تو یہ ہوا میں روز آفس نہ جاو�?ں ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا تم سوچ رہی ہو ۔ اس طرح کےواقعات تو روزانہ ہوتےرہتےہیں ۔ میرا آج آفس جانا بہت ضروری ہےکہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے? میں جلد ہی واپس آجاو�?ں گا ۔ ? بیوی روکتی رہی مگر وہ نہ مانا اور ڈیوٹی پر چلا آیا ۔ اس دن آفس میں حاضری آدھےسےبھی کم تھی ۔ آنےوالےآتو گئےتھےلیکن اس لمحےکو کوس رہےتھےجب انہوں نےآفس جانےکا فیصلہ کیا تھا ۔ سب کا یہی خیال تھا کہ اگر وہ نہ آتےتو بہتر تھا ۔ کیونکہ جو خبریں آفس پہنچ رہی تھیں اسےمحسوس ہورہا تھا آدھا شہر جل رہا ہے۔ آسمان میں دھوئیں کےبادل چھائےصاف دکھائی دےرہےتھے۔ سارےشہر پر ایک دہشت چھائی ہوئی تھی ۔ کھلی دکانیں دھڑا دھڑ بند ہورہی تھیں سڑکوں سےسواریاں اور لوگ غائب ہورہےتھے۔ یہ طےکیا گیا کہ آفس بند کرکےسب لوگ فوراً اپنےگھروں کو چلےجائیں ۔ ریلوےاسٹیشن تک آتےآتےانہوں نےکئی ایسےمناظر دیکھےتھےجس کو دیکھ کر ان کےہوش اڑ گئےتھے۔ جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں ۔ دوکانیں جل رہی تھیں ۔ لٹی ہوئی دوکانیں کھلی پڑی تھیں ۔ سڑک پر ایک دو لاشیں پڑی تھیں ۔ ایک دو زخمی کراہ رہےتھے۔ پتھروں اور سوڈا واٹر کی پھوٹی ہوئی بوتلوں کےڈھیر پڑےہوئےتھے۔ اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ پیر رکھنےکی بھی جگہ نہیں تھی ۔ جو بھی لوکل آتی تھی لوگ اس پر ٹوٹ پڑتےتھےاور جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں کھڑےہوکر ، بیٹھ کر ، لٹک کر جلد سےجلد وہاں سےنکل جانےکی کوشش کرتے۔ اسےایک لوکل میں جگہ ملی تو صورت حال یہ تھی کہ وہ دروازہ میں آدھےسےزیادہ لٹکتا سفر کر رہا تھا اور راستےمیں سارےمناظر دیکھ رہا تھا ۔ لوگوں کےگروہ ایک دوسرےسےالجھےہوئےتھے۔ ایک دوسرےپر پتھراو�? کررہےتھے۔ سوڈاواٹر کی بوتلیں پھینک رہےتھے۔ ۔ دوکانیں لوٹ رہےتھےچلّا رہےتھے۔ کہیں پولس اور لوگوں میںٹکراو�? چل رہا تھا ۔ پولس اندھا دھند گولیاں چلا رہی تھی لاشیں سڑکوں پر گر رہی تھیں ۔ گولیوں کی ایک بوچھار اس جگہ سےگزرتی لوکل ٹرین سےبھی ٹکرائی ۔ اس کےساتھ جو آدمی لٹکا ہوا تھا گولی پتہ نہیں اس آدمی کےجسم کےکس حصےسےٹکرائی ? اس کےمنھ سےایک دردناک چیخ نکلی ۔ اس کا ہاتھ چھوٹا وہ ڈبہ سےگرا اور اس کےبعد ابھرنےوالی اس کی دوسری چیخ اتنی بھیانک تھی کہ جس کےبھی کانوں تک وہ چیخ پہنچی وہ کانپ گیا ۔ وہ گاڑی کےنیچےآگیا تھا ۔ ایک گولی سامنےکھڑےآدمی کو لگی اور وہ بےآواز ڈھیر ہوگیا ۔ اس کےجسم سےخون کا ایک فواّرہ اڑا اور آس پاس کھڑےلوگوں کےجسم اور کپڑوں کو شرابور کرگیا ۔ اس کےکپڑوں پر بھی تازہ خون کی ایک لکیر ابھر آئی ۔کسی طرح وہ گھر پہنچنےمیں کامیاب ہوا ۔ اس کےبعد اس نےطےکیا کہ چاہےکچھ بھی ہوجائےوہ اب آٹھ دس دنوں تک یا جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہوجائےآفس نہیں جائےگا ۔ اور وہ آٹھ دنوں تک آفس نہیں گیا ۔ گھر میں بیٹھا شہر کےجلنےکی اور لوگوں کےمرنےبرباد ہونےکی خبریں سنتا پڑھتا رہا ۔ کبھی چوبیس گھنٹےکرفیو رہتا ۔ کبھی کچھ دیر کےلئےکرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آٹھ دنوں میں صورت حال معمول پر آگئی ۔ مجبوریوں کےمارےلوگ اپنےگھروں سےباہر نکلے۔ مجبوری کےتحت آفس جاتے۔ راستےبھر سفر کےجلد خاتمےکی دل ہی دل میں دعا ئیں کرتے۔ آفس پہنچ کر آفس میں کام کرتےہوئےوہ یہی دعا کرتا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ پیش آئے۔ اور آفس سےجلدی چھٹی لےکر جلد گھر جانےکی کوشش کرتا ۔ آدھی رات تک جاگنےاور کبھی کبھی تو رات بھر جاگنےوالا شہر پانچ بجےہی ویران ہوجاتا تھا ۔ حالات کچھ کچھ معمول پر آئےبھی نہ تھےکہ ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا ۔ اس بار تشدد کا زور کچھ زیادہ تھا ۔ ایک دن دہشت زدہ سا آفس سےدوپہر میں ہی گھر آرہا تھا کہ اچانک ایک مذہبی نعرہ لگاتا گروہ لوکل ٹرین پر ٹوٹ پڑا ۔ گروہ کےہاتھوں میں تلواریں ، چاقو اور چاپڑ تھے۔ مذہبی نعرےلگاتےوہ اندھا دھند لوگوں پر وار کررہےتھے۔ لوگ چیخ رہےتھے، بلبلا رہےتھےلیکن گروہ کو کسی پر رحم نہیں آرہا تھا ۔ تلوار کا ایک وار اس کی پشت پر ہوا اور کےبعد کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں ۔ ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک اسپتال میں پایا ۔ لوکل کسی محفوظ مقام پر رکی تھی ۔ وہاں پر زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ تین دنوں تک وہ بےہوش تھا ۔ ہوش میں آنےکےبعد گھبرا کر اس نےسب سےپہلےاپنےگھر خبر کرنےکی درخواست کی تھی ۔ اسپتال میں اسےپتہ چلا کہ اس کی بیوی خود دو دنوں سےاسپتال میں ہے۔ وہ گھر نہیں آیا تھا اس لئےرات بھر روتی پیٹتی رہی تھی ۔ جیسےجیسےدل کو دہلا دینےوالی خبریں وہ سنتی تھی اس کاکلیجہ منھ کو آتا ۔ آخر جب برداشت نہیں کرسکی تو بےہوش ہوگئی اور اسےپڑوسیوں نےاسپتال پہنچا دیا ۔ اسپتال میں جب اس کےمحفوظ ہونےکی خبر ملی تو اس کےاندر جیسےایک نئی جان سرایت کرگئی اور وہ اس کےپاس اسپتال چلی آئی ۔ وہ دس دنوں تک اسپتا ل میں رہا اس کےبعد گھر آگیا ۔ گھر آکر اس نےگھر میں کچھ دنوں تک آرام کیا پھر مجبوراً آفس جانےلگا ۔ وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ ہر لمحہ اسےمحسوس ہوتا تھا ابھی کوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاپڑ یا چاقو لئےمذہبی نعرےلگاتا آئےگا اور اس پر ٹوٹ پڑےگا ۔ گذشتہ بار تو وہ ان کےوار سےبچ گیا لیکن اس بار بچ نہیں سکےگا وہ لوگ اس کےجسم کےٹکرےٹکڑےکرڈالیں گے۔ اس کی آنکھوں کےسامنےڈبےّسےدوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالوں کو پھینکنےکےواقعات پیش آئےتھے۔ وہ ان واقعات سےبھی خوف زدہ رہتا تھا ۔ اگر کسی دن غلطی سےوہ کسی ایسےڈبےمیں چڑھ گیا جس میں دوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالےمسافر زیادہ ہوئےتو وہ لوگ بھی اس کےساتھ یہی سلوک کرسکتےہیں ۔ نہیں نہیں ایسا سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھتا تھا ۔ اور پھر ایک دن ایک اور قیامت کا دن آیا ۔ اس کےآفس کےسامنےوالی عمارت میں ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا ۔ اتنا زبردست کہ اس آفس کی کھڑکیوں کےسارےشیشےٹوٹ گئےتھےاوراسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہوئےتھے۔ باہر صرف دھواں ہی دھواں تھا ۔ دھواں ہٹا تو وہاں صرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دےرہا تھا ۔ اور چیتھڑوں کی شکل میں خون میں ڈوبےمرےلوگ ? ان کی لاشیں ۔ اس طرح کےدھماکےشہر میں کئی مقامات پر ہوئےتھے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئےتھےسینکڑوں مارےگئےتھےکروڑوں کا نقصان ہوا تھا ۔ موت ایک بار پھر اس کی آنکھوں کےسامنےاپنا جلوہ دکھا کر رقص کرتی چلی گئی تھی ۔ اگر وہ بم تھوڑا سا اور زیادہ طاقت ور ہوتا تو اس کا آفس بھی اس کی زد میں آجاتا اور وہ بھی نہیں بچ پاتا ۔ یہیں خاتمہ نہیں تھا ۔ آئےدن لوکل ٹرینوں میں ، پلیٹ فارموں پر چھوٹےبڑےدھماکےہورہےتھے۔ مجرموں کی تلاش کےنام پر کسی پر ذرا بھی شک ہونےپر پولس اسےاٹھالےجاتی اور اسےجانوروں کی طرح پیٹ کر حوالات میں ڈال دیتی ۔ اس کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ۔ ہاتھوں کی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھا جاتا تھا ۔ کوئی چیز کہیں سےلانا یا لےجانا بھی جرم ہوگیا تھا ۔ گینگ وار میں سڑکوں پر گولیاں چلتیں۔ لاشیں گرتیں ۔ مجرموں غنڈوں جرائم پیشہ لوگوں کی بھی اور معصوم لوگوں کی بھی ۔ایسی حالت میں گھر سےنکلتےہوئےکون اعتماد سےکہہ سکتا ہےکہ اس کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ جس طرح گھر سےنکل رہا ہےاسی طرح محفوظ بہ حفاظت شام کو واپس گھر آجائےگا ۔ گھر سےجب وہ دعا کرکےنکلتا تو اس کا ذہن خدشات اور وسوسوں میں ڈوبا ہوتا تھا لیکن جب وہ شام گھر پہنچ کر دعا کرتا تھا تو اسےایک قلبی سکون ملتا تھا ۔ ? ہےبھگوان ! تیرا بہت بہت شکریہ تو نےمجھےصحیح سلامت اپنےگھر پہنچا دیا۔? ll

Urdu Short Story

Hawadis


By M.Mubin


? اتنی دیر کہاں تھے؟ ? دروازہ کھولنےکےساتھ بیوی نےسوال کیا ۔ ? پولس اسٹیشن گیا تھا ۔ ? اس نےبیزاری سےجواب دیا اور کپڑےاتارنےلگا ۔ ? رات کےدس بج رہےہیں اور تم پولس اسٹیشن سےآرہےہو ؟ ? بیوی نےحیرت سےپوچھا ۔ ? شام پانچ بجےسےپولس اسٹیشن میں بیٹھا ہوں ۔? اس نےاپنا سر پکڑتےہوئےجواب دیا۔ ? تین بجےہی دو کانسٹبل آفس پہنچ گئےتھےاور فوراً پولس تھانےچلنےکےلئےکہہ رہےتھے۔ بڑی مشکل سےمیں نےانہیں سمجھایا کہ آفس میں بہت ضروری کام ہےمیں شام کو تھانےآتا ہوں ۔ شام کو تھانےگیا تو انسپکٹر کا پتہ ہی نہیں تھا جس کےہاتھ میں ملند کا کیس ہے۔ ایک دو گھنٹہ انتظار کرنےکےبعد جانےلگا تو تھانےمیں موجود کانسٹبل ڈرانےدھمکانےلگےکہ تم بنا انسپکٹر صاحب سےملےجا نہیں سکتے۔ اگر تم چلےگئےتو ہوسکتا ہےانسپکٹر صاحب تمہیں رات گھر سےبلائیں۔ مجبوراً اس کا انتظار کرنےلگا۔ نوبجےکےقریب وہ آیا تو مجھ سےاس طرح کا برتاو�? کرنےلگا جیسےمیں کوئی عادی مجرم ہوں ? کہنےلگا ۔ ? کیوں بےتُو بہت بڑا صاحب آفیسر ہےجو ہمارےبلانےپر نہیں آتا ہے؟ ہم تیرےباپ کےنوکر ہیں ? دوست کےقتل کی گواہی دےرہا ہےتو ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہا ہےزیادہ ہوشیاری دکھائی تو اسی کیس میں تجھےپھنسا دوں گا ۔ یہ مت بھول قتل تیری آنکھوں کےسامنےہوا ہےاور تُو اکیلا چشم دید گواہ ہے۔ وہاں موجود دوسرےتمام افراد نےگواہی دینےسےانکار کردیا ہےورنہ جائےواردات پر موجود کوئی بھی فرد قاتلوں کو دیکھنےکی بات ہونٹوں پر نہیں لا رہا ہی۔ اپنےدوست کےقاتلوں کو سزا دلانا چاہتا ہےتوسیدھی طرح ہماری مدد کر جب ہم بلائیں اسی وقت پولس اسٹیشن میں حاضر ہوتا رہ ۔ ورنہ پولس کےساتھ تعاون نہ کرنےکےجرم میں تجھےاندر کردیں گی۔ ? ? انہوں نےکس لئےبلایا تھا ؟ ? رادھا نےبات بدلنےکےلئےپوچھ لیا ۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اگر اس نےاس بات کو ختم نہیں کیا تو امیت ساری کہانی لفظ بہ لفظ اسےسنائےگا اور سناتےہوئےتناو�? کا شکار ہوجائےگا ۔ ? کچھ نہیں ایک دو بیانات پر دستخط لینےتھے۔ جائےواردات پر ملی ایک دو چیزوں کی تصدیق کرنی تھی ۔ ? امیت نےجواب دیا ۔ ? بھگوان جانےاس کیس سےکب نجات ملے۔? یہ کہتےہوئےرادھا نےایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر بولی ۔ ? چلو جلدی سےمنھ ہاتھ دھوکر آو�? ۔ رات کےدس بج رہےہیں مجھےبڑی بھوک لگی ہےاور تم بھی تو بھوکےہو ۔ ? ? ان چار گھنٹوں میں پانی کی ایک بوند بھی منھ میں نہیں گئی ہے۔ ? کہتا ہوا امیت واش بیسن کی طرف بڑھ گیا ۔ ? پتہ نہیں یہ ہمارےکن پاپوں کی سزا ہےجو بھگوان ہمیں دےرہا ہے۔? امیت کو واش بیسن کی طرف جاتےدیکھ کر وہ سوچنےلگی ۔ ? ہم کو اس کیس میں پھنسا دیا ہے۔ ? تھوڑی دیر کےبعد دونوں ساتھ بیٹھےبظاہر کھانا کھا رہےتھے۔ لیکن رادھا کا ذہن کہیں اور کھویا ہوا تھا ۔ امیت کی آنکھوں کےسامنےوہ واقعاتگھوم رہےتھےجب اس کےسامنےملند کا قتل ہوا تھا ۔ دونوں ایک ریستوراں میں بیٹھےچائےپی رہےتھے۔ آفس سےچھوٹنےکےبعد ملند نےچائےکی دعوت دی تھی ۔ اسےبھی شدت سےچائےکی ضرورت محسوس ہورہی تھی ۔ دن بھر آفس میں اتنا کام تھا کہ وہ چائےبھی نہیں پی سکا تھا ۔ دونوں آفس سےنکلےاور سامنےوالےریستوراں میں بیٹھ کر چائےپینےلگی۔ شام کا وقت تھا ریستوراں میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی ۔ ویسےبھی وہ باہر کی ٹیبل پر بیٹھےتھے۔ ? اور بتاو�? تمہارا اور بلڈر کا جھگڑا کہاں تک پہنچا ہے؟ ? اس نےچائےپیتےہوئےملند سےپوچھا ۔ ? اب اس جھگڑےکےبارےمیں کیا بتاو�?ں ۔ جھگڑا دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہی۔اب تو وہ سالا دھمکیاں دینےلگا ہے۔ کل شام سات آٹھ غنڈوں کےساتھ آیا تھا میں ان سب کو پہچانتا تھا ۔ کہنےلگےکل تک سیدھی طرح جگہ خالی کردے۔ ہم اس بلڈنگ میں دو سو اسکوائر فٹ کا فلیٹ تجھےبلا قیمت دےدیں گے۔ دوسو اسکوائر فٹ کا فلیٹ ? سالےجیسےمرغی کو رہنےکےلےڈربہ دےرہےہیں ۔ فی الحال جتنی جگہ میں رہتا ہوں وہ دو ہزار اسکوائر فٹ سےکم نہیں ہوگی ۔ دو ہزار اسکوائر فٹ جگہ کےبدلےدو سو اسکوائر فٹ جگہ دےرہےہیں ۔ جب میں نےوہ جگہ کرائےپر لی تھی آس پاس چاروں طرف جنگل تھا جنگل ۔ اس وقت جگہ کےمالک نےمجھ سےڈپازٹ کےطور پر پانچ ہزار روپےلئےتھےاور کہا تھا میں جتنی جگہ چاہوں استعمال کرسکتا ہوں ۔ میں نےتھوڑی سی جگہ صاف کرکےایک کمرہ بنایا تھا ۔ رات بھر چاروں طرف سےڈراو�?نی آوازیں آتی تھیں ۔ اور سانپ بچھو گھر میں گھس آتےتھے۔ مجبوری تھی نئی نئی نوکری تھی ۔ سر چھپانےکےلئےجگہ چاہئیےتھی ۔ اس لئےمیں اس جگہ رہتا تھا ۔ وقت گذرنےلگا تو آس پاس اور بھی لوگ آکر بسنےلگے۔ جنگل ختم ہوا ۔ میں نےصاف صفائی کرکےاور ایک دو کمرےبنا لئے۔ مالک نےکرایہ سو روپیہ کردیا میں باقاعدگی سےکرایہ دیتا تھا ۔ اب جب کہ وہ جگہ آبادی کےوسط میں آگئی ہےچاروں طرف بڑی بڑی بلڈنگیں بن گئی ہیں ۔ زمین کی قیمت کروڑوں روپیہ ہو گئی ہےتو وہ جگہ خالی کرانا چاہتا ہے۔ اس جگہ بلڈنگ بنا کر اسےاونچی قیمت پر فروخت کرنا چاہتا ہی۔ ? ? یہ کہانی تو ہر جگہ دہرائی جا رہی ہے۔ ? امیت نےاسےسمجھایا تھا ۔? لیکن جہاں بھی پرانےکرایہ داروں کا نکال کر نئی بلڈنگ بنائی جاتی ہے۔ پرانےکرایہ داروں کو رعایتی قیمت پر ان کی جگہ دی جاتی ہے۔ ? ? میرےمالک نےوہ جگہ کسی بلڈر کو دی ہےاور سنا ہےبلڈر بہت بڑا غنڈہ ہےاور وہ چاہتا ہےکہ اس کی دہشت سےمیں چپ چاپ وہ جگہ خالی کردوں لیکن اسےپتہ نہیں اس بار اس کا واسطہ ملند سےہے۔ اس بار اسےاپنا طریقہ �? کار بدلنا پڑےگا ۔ میرےقبضےکی دو ہزار اسکوائر فٹ جگہ کےبدلےاگر وہ مجھےپانچ سو اسکوائر فٹ کا فلیٹ بھی دینےکےلئےتیار ہو جائےتو میں وہ جگہ خالی کردوں گا ۔ لیکن وہ غنڈہ گردی اور دہشت سےوہ جگہ خالی کرانا چاہتا ہےجو ممکن نہیں ........ ! ? ابھی ان کی گفتگویہاں تک ہی پہنچی تھی کہ اچانک ریستوراں میں کچھ چیخیں گونجیں ۔ انہوں نےریستوراں کےدروازےکی طرف دیکھا ۔ وہ کچھ عنڈےتھےجو ہاتھوں میں ہتھیار لئےریستوراں میں داخل ہوئےتھےاور انہیں دیکھ کر لوگ چیخ اٹھےتھے۔ ان کےتیور سےایسا لگ رہا تھا جیسےوہ کسی کو ڈھونڈ رہےہیں ۔ ? وہ رہا بھائی ! ? اچانک ایک غنڈےنےملند کی طرف اشارہ کیا ۔ غنڈےکی یہ بات سنتےہی اس شخص کا ہاتھ اوپر اٹھا ۔ اس کےہاتھ میں پستول تھی ۔ اس نےملند کےسر کا نشانہ لیا ۔ ایک دھماکہ ہوا اور ملند کی چیخ گونجی ۔ گولی ملند کےسر میں لگی تھی ۔ دوسرا دھماکہ ۔ اس بار گولی اس کےسینےپر لگی تھی ۔ ملند منھ کےبل ٹیبل پر آکر گرا تھا ۔ اس کےسر اور سینےسےخون کا ایک فوارہ اڑا تھا اور اس کےکپڑوں پر خون کی ایک لکیر سی کھنچ گئی تھی ۔ ? نہیں ........ ! ? اس کےہونٹوں سےایک چیخ نکل گئی ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سےکبھی ملند کو دیکھ رہا تھا کبھی ان غنڈوں کی طرف جو بڑےاطمینان سےریستوراں ےدروازےسےنکل کر باہر کھڑی کار میں بیٹھ رہےتھی۔ اور پھر کار تیزی سےچلی گئی ۔ ایک لمحہ کےلئےاس کی نظریں کار کی نمبر پلیٹ پر پڑی اور اس نےکار کےنمبر ذہن نشین کرلئے۔ کسی نےپولس کو اطلاع دی ۔ پولس آئی اور اس نےجانچ شروع کردی ۔ اس قتل کا چشم دید گواہ وہی تھا ۔ وہ ملند کےساتھ تھا اس لئےپولس کےلئےسب سےاہم فرد وہی تھا ۔ ابتدائی کاروائی کےلئےملند کی لاش پوسٹ مارٹم کےلئےبھیج دی گئی اور اسےبیان لینےکےلئےپولس اسٹیشن بلایا گیا ۔ بیان لینےکےساتھ ساتھ اس سےسینکڑوں سوالات کئےگئے۔ ? کیا تم نےاس سےقبل کبھی قاتلوں کو دیکھا تھا ؟ ? ? نہیں اس سےقبل تو انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا ? لیکن جس شخص نےملند پر گولی چلائی تھی اس کو بآسانی پہچان لوں گا ۔ ? ? تم کس بنا پر کہہ رہےہو کہ تم اس کو بآسانی پہچان لوگے؟ ? ? اس کا حلیہ ایسا ہےکہ اس حلیہ کا آدمی لاکھوں میں آسانی سےپہچانا جاسکتا ہی۔? یہ کہتےہوئےوہ قاتل کا حلیہ بیان کرنےلگا ۔ اسےکسی پر شک ہےکےجواب میں اس نےوہ ساری کہانی بیان کی جو ملند اسےسنا چکا تھا۔ اس درمیان پولس جاکر ملند کی بیوی اور گھر والوں کو بلالائی تھی ۔ انہوں نےرو رو کر پولس اسٹیشن سر پر اٹھا رکھا تھا ۔ لیکن ان کی ذہنی حالت کا اندازہ لگائےبنا پولس اپنی کاغذی کاروائیاں مکمل کر رہی تھی ۔ رات چار بجےاسےپولس اسٹیشن سےنجات ملی اور وہ گھر آیا تو رادھا اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ ? اتنی رات گئےگھر آئےہو ? کہاں رک گئےتھے؟ میں ایک لمحہ کےلئےنہیں سو سکی ۔ طرح طرح کےوسوسےمجھےبےچین کررہےتھے۔ ? جواب میں اس نےملند کےقتل کی کہانی سنائی ۔ دوسرےدن ملند کی لاش اس کےگھر والوں کو ملی ۔ ملند کی آخری رسوم میں بھی وہ شریک رہا ۔ ملند کےوالد کی حالت غیر تھی ۔ وہ اپنی عمر سےکچھ زیادہ ہی بوڑھےلگنےلگےتھے۔ ? میرےملند کو اس مکان کےمالک نےمروایا ہے۔ وہ زبردستی یہ جگہ خالی کروانا چاہتا تھا اور ہم جگہ خالی نہیں کر رہےتھے۔ اس لئےاس نےہمارےملند کو مروادیا۔ ? یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگے۔ تیسرےدن پتہ چلا کہ پولس نےملند کےمکان مالک کو پوچھ تاچھ کےلئےپولس اسٹیشن بلایا تھا لیکن بعد میں اسےیہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کےخلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔دوسرےدن اسےکسی کام سےپولس اسٹیشن طلب کیا گیا تو وہ انسپکٹر پر پھٹ پڑا۔ ? آپ نےملند کےمکان مالک کو صرف پوچھ تاچھ کےلئےپولس اسٹیشن بلایا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کےخلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہےجس سےیہ ثابت ہوتا ہےکہ اس قتل کےپیچھےاسی کا ہاتھ ہے۔ انسپکٹر صاحب ! یہ قتل اگر ملند کےمکان مالک نےنہیں کروایا تو پھر کس نےکروایا ؟ ملند کی کسی سےدشمنی نہیں تھی ۔? ? اےزیادہ ہوشیاری مت مار ? کس کو گرفتار کرنا چاہیئےاو رکس کو چھوڑدینا چاہیئےتجھ سےزیادہ بہتر ہم لوگ جانتےہیں وردی ہمارےجسم پر ہےتیرےجسم پر نہیں۔ ہمارا باس بن کر ہم کو حکم مت دے۔ ? انسپکٹر نےکچھ ایسےلہجےمیں کہا کہ اسےخون کا گھونٹ پی کر رہنا پڑا ۔ دو دن بعد پولس کو وہ کار بھی مل گئی جس میں قاتل بھاگےتھے۔ شناخت کےلئےاسےبلایا گیا ۔ اس نےایک نظر میں ہی کار پہچان لی ۔ کار ایک ویرانےمیں ملی تھی ۔ اور دو دن قبل چوری ہوئی تھی ۔ اس کےمالک نےکار چوری ہونےکی رپورٹ لکھائی تھی ۔ کار کی شناخت اور اس کےبیان میں رات کےدو بج گئے۔ جب وہ گھر آیا تو رادھا اس کا انتظار کررہی تھی ۔ ? دیکھو تم میرےلئےبےکار پریشان ہو کر میرےآنےتک جاگتی رہتی ہو ۔ ? وہ اسےسمجھانےلگا ۔ ? پولس کا معاملہ ہےاس میں وقت لگتا ہے۔ اگر میں سات آٹھ بجےتک گھر نہیں آو�?ں تو تم سمجھ لینا کہ میں پولس اسٹیشن گیا ہوں آنےمیں وقت لگےگا۔? ? ایسا کب تک چلےگا ؟ ? ? جب تک ملند کےقاتل پکڑےنہیں جاتے۔ ? اس نےجواب دیا ۔ ایک ہفتہ بعد وہ خود ہی پولس اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ملند کےقاتل کی تلاش کس مرحلےمیں ہےپتہ لگانےکےلئے۔ جب اس سلسلےمیں ملند کےقتل کی تحقیقات کرنےوالےانسپکٹر سےپوچھا تو انسپکٹر بھڑک اٹھا ۔ ? پولس اپنا کام کررہی ہے۔ اور وہ قاتل کو گرفتار کرلےگی ۔ اس سلسلےمیں تُو ہم سےپوچھنےوالا کون ہوتا ہے؟ ہماراباپ یا کمشنر ؟ ? انسپکٹر کےاس جواب سےوہ جل بھن گیا ۔ ایک شام وہ آفس سےآرہا تھا تو ایک ہوٹل کےباہر کھڑےہوئےایک شخص کو دیکھ کر وہ چونک پڑا ۔ اس شخص کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا ۔ یہی ملند کا قاتل تھا ۔ اس نےملند پر گولی چلائی تھی ۔ ? باسٹرڈ ! میں تجھےزندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ ? کہتےہوئےوہ اس پر جھپٹا ۔ غنڈےنےبڑی آسانی سےخود کو چھڑا کر اسےدھکا دےکر زمین پر گرا دیا اور اطمینان سےپاس کھڑی موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چلتا بنا ۔ وہ ہکا بکا اسےجاتا دیکھتا رہ گیا ۔ وہاں سےوہ سیدھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ ? انسپکٹر صاحب ! آپ بھی کمال کرتےہیں? آپ کو ملند کا قاتل نہیں مل رہا ہےوہ سینہ تان کر شہر میں دندناتا پھر رہا ہے۔ ابھی مجھےوہ رائل ہوٹل کےباہر ملا تھا۔? ? پھر تم نےاسےپکڑا کیوں نہیں ? وہ کس طرح بھاگ نکلا ۔ کہیں تم نےتو اسےنہیں بھگایا ہے? قاتل تمہارےسامنےتھا اور تم نہیں پکڑ پائےتم نےاسےبھگا دیا ? اس سےتو لگتا ہےتمہارا بھی اس قتل میں ہاتھ ہے۔ تم نےاپنی مدد کےلئےدوسرےلوگوں کو کیوں نہیں بلایا ؟ ? الٹا اس پر سینکڑوں سوالوں کا حملہ ہوگیا اور اسےجواب دینا مشکل ہوگیا ۔ اور اسےمحسوس ہوا اس نےپولس اسٹیشن آکر غلطی کی ۔ اس کےبعد اس نےطےکیا کہ وہ خود سےکبھی پولس اسٹیشن نہیں جائےگا ۔ وہاں جاکر اسےجو بےعزتی برداشت کرنی پڑتی تھی اب وہ برداشت کرنےکی اس میں قوت نہیں ہے۔ لیکن اس کےچاہنےسےکیا ہوتا ہے؟ خود پولس ایک دو دن بعد اسےپولس اسٹیشن بلا لیتی اور گھنٹوں پولس اسٹیشن بٹھا کر رکھنےکےبعد دوچار اوٹ پٹانگ سوالات کرکےاسےچھوڑ دیتی تھی ۔ وہ آفس پہنچتا تو سپاہی آدھمکتےتھےاور کہتےتھےکہ صاحب نےاسےبلایا ہےاور مجبوراً اسےان کےساتھ جانا پڑتا تھا ۔ ایک دو بار باس نےاسےبلا کر صاف کہہ دیا ۔ ? تم یا تو نوکری کرو یا پولس اسٹیشن میں رہو ۔ یہ تمہارا بار بار پولس اسٹیشن آفس چھوڑ کر جانا مجھےبالکل پسند نہیں? اس سلسلےمیں جب اس نےانسپکٹر سےبات کی تو انسپکٹر اس پرغصہ ہوگیا ۔ ? ای........ ! تُونےہی اپنےبیان میں لکھوایا ہےکہ تُونےقاتل کو دیکھا ہی۔ تُو قاتل کو پہچان سکتا ہےاس لئےبار بار پولس اسٹیشن بلایا جارہا ہےکہ ہم جو آدمی پکڑیں اس کی تجھ سےشناخت کرائی جاسکے۔ اگر تُو اپنا بیان بدل دےاور یہ کہہ دےکہ تُونےقاتل کو نہیں دیکھا تُو اسےنہیں پہچانتا ہےتو ہم تجھےبلائیں گےہی نہیں ۔ تجھےایک معمولی گواہ بنا کر تیرا معاملہ ختم کردیں گی۔? اپنےضمیر سےجنگ لڑنےکہ بعد اس نےیہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنا بیان نہیں بدلےگا ۔ وہی ملند کےقتل کا چشم دیدگواہ ہے۔ قاتل کو پہچانتا ہے۔ اس کی گواہی قاتل کو اس کےکئےکی سزا دلاسکتی ہےاس کےلئےاسےیہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑےگا ۔ پولس اسٹیشن میں روز کی حاضری اس کا معمول بن گیا تھا ۔ وہ خود کبھی پولس اسٹیشن نہیں جاتا تھا ہر بار اسےبلایا جاتا تھا ۔ وہاں اس کےساتھ ہر کوئی بد تمیزی سےپیش آتا ? اس کا مذاق اڑاتا اور اسےگھنٹوں پولس اسٹیشن میں بٹھا کر رکھا جاتا ۔ اور پھر اسےکوئی چور اچکا دکھا کر پوچھا جاتا کہ یہ تو ملند کا قاتل نہیں ؟ جب وہ انکار کردیتا تو اسےگھر جانےکی اجازت دےدی جاتی ۔ اس درمیان ایک بار پھر اس سےملند کا قاتل ٹکرایا تھا ۔ قاتل نےروک کر اس سےبڑی دیدہ دلیری سےکہا تھا ۔ ? کیوں امیت صاحب ! میری شناخت کرنا چاہتےہو ناں ؟ ارےپولس مجھےپکڑےگی ہی نہیں تو تم کہاں سیشناخت کرسکوگے۔ دیکھو میں کس دیدہ دلیری سےشہر میں گھوم رہا ہوں ۔ پولس مجھےجانتی ہےلیکن مجھ کو گرفتار نہیں کررہی ہے۔ کیونکہ میرا رسوخ بہت ہے۔ اس لئےمیرا ایک ہی مشورہ ہےاس معاملےکو ختم کردو ۔ مجھےپہچاننےسےانکار کردو اور اپنےبیان میں لکھ دو کہ تم قاتل کو نہیں پہچان سکتے۔ سارا معاملہ ختم ہوجائےگا ۔ تمہیں بار بار پولس اسٹیشن نہیں بلایا جائےگا ۔ ? اور وہ چلا گیا ۔ اس دن جب اسےپولس اسٹیشن بلایا گیا تو وہ انسپکٹر پر برس پڑا ۔ ? انسپکٹر صاحب! آپ مجھےروزانہ قاتل کیشناخت کےلئےپولس اسٹیشن بلاتےہیں اور مجھےمعمولی چور اچکےبتا کر گھر واپس بھیج دیتےہیں جبکہ اصلی قاتل اب تک آزاد ہے۔ وہ شہر میں دندناتا پھر رہا ہےمجھ سےمل کر دھمکیاں دےرہا ہے۔ پھر بھی آپ اسےنہیں پکڑ رہےہیں ۔ یہ کیا تماشہ ہے؟ ? اس کی اس بات پر انسپکٹر نےاسےایک گھونسہ رسید کردیا ۔ ? حرامزادے! پولس کےمحکمےپر الزام لگاتا ہے۔ زیادہ بکواس کی تو ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دوں گا تجھ سےجو کچھ کہا جا رہا ہےاس سےزیادہ مت بک زیادہ بک بک کی تو اندر کردوں گا ۔ ? وہ چپ ہوگیا ۔ اس دن بھی اسےایک معمولی چور دکھایا گیا اور گھر جانےکا حکم دےدیا گیا ۔ وہ گھر واپس آیا تو سکتےمیں تھا ۔ وہ یہ کس پریشانی میں پڑ گیا ہےاس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا ۔ وہ رات بھر سو نہیں سکا۔ رادھا اس سےپوچھتی رہی کہ کیا بات ہےلیکن اس نےاسےکچھ نہیں بتایا ۔ چپ چاپ صرف چھت کو گھورتا رہا ۔ دوسرےدن اسےپولس اسٹیشن نہیں بلایا گیا ۔ اس شام چھ بجےہی وہ گھر آگیا اور کھانا کھا کر نو بجےہی وہ سو گئے۔ رات میں دروازےپر دستک کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھلی ۔ رات کےبارہ بج رہےتھی۔ اتنی رات گئےکون گھر آسکتا ہے؟ سوچتےہوئےاس نےدروازہ کھولا تو اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ باہر آٹھ دس غنڈےکھڑےتھےوہ دندناتےہوئےاس کےگھر میں گھس آئےان غنڈوں کےساتھ ملند کا قاتل بھی تھا ۔ ان کو دیکھ کر رادھا کی چیخ نکل گئی ۔ ? اپنی بیوی سےکہہ کہ وہ چیخ پکار نہ کرے۔ ہم صرف دو باتیں کرنےآئےہیں۔ دو باتیں کرکےہم چلےجائیں گے۔ اگر وہ چیخی تو مجبوراً اس کا منھ بند کرنےکےلئےہمیں کوئی قدم اٹھانا پڑےگا ۔ ?غنڈوں کا باس اس سےبولا ۔ اس نےاشارےسےرادھا سےخاموش رہنےکو کہا ۔ ? امیت بابو ! تم ملند کےقتل کےکیس میں گواہی دےرہےہو ۔ کاہےکو اس جھنجھٹ میں پڑتےہو ۔ دیکھو یہ بہت برا شہر ہےملند دن دہاڑےمار دیا گیا ۔ اور اس کو مارنےوالےہم لوگ آج بھی آزاد ہیں ۔ پولس ہم پر ہاتھ ڈالنےکی ہمت نہیں کررہی ہےاور کرےگی بھی نہیں ۔ لیکن تمہاری گواہی اسےمجبور کررہی ہےکہ وہ یہ ہمت کرے۔ اس لئےکاہےکو خواہ مخواہ ہم سےاور پولس سےدشمنی مول لےرہےہو ۔ بھول جاو�? کہ تمہارےسامنےملند کا قتل ہوا تھا اور یہ بھی بھول جاو�? کہ تم نےاسےقتل کرتےکسی کو دیکھا ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا ۔ ورنہ ملند کی طرح تمہارا بھی کسی سڑک پر قتل ہوجائےگا ۔ تم اس شہر میں نوکری کرنےآیا ہےاگر تم مر گیا تو یہ تمہارا جو بیوی ہےدو دنوں تک اس کو پتہ بھی نہیں چلےگا کہ تم مر گیا ہے۔ تمہارےمرنےکےبعد یہ تمہارا بیوی اکیلا رہ جائےگا ۔ یہ بہت بڑا شہر ہےیہ شہر اکیلی عورت کو ویشیا بنا دیتا ہے۔ یہ بہت بُرا شہر ہےچھوٹےآدمی کو اس شہر کےبڑےلوگوں کےلفڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئی۔ دن بھر محنت کرکےملنےوالی دو روٹی کھا کر آرام سےسوجانےمیں ہی بھلائی ہی۔ ہمارےجیسےلوگ اپنا کام کرتےرہتےہیں اور ہمارےکام میں جو بھی ٹانگ اڑاتا ہےاس کا انجام ملند سا ہوتا ہے۔ ہمارا کچھ نہیں بگڑتا ۔ اس لئےاب تم بھی ہمارےکسی کام میں ٹانگ مت اڑاو�? اور چپ چاپ سو جاو�? باقی سب ٹھیک ہوجائےگا ۔ ? ? چلو ........ ! ? کہتےہوئےاس نےاپنےآدمیوں کو اشارہ کیا اور سب چپ چاپ گھر سےباہر نکل گئے۔ رادھا سکتےمیں کھڑی انہیں دیکھتی رہی اور پھر اچانک وہ آکر اس سےلپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ وہ اس کو سینےسےلگائےاس کےبالوں میں انگلیاں پھیرنےلگا ۔ دوسرےدن شام پانچ بجےہی دو کانسٹبل اسےبلانےآگئے۔ ? صاحب نےبلایا ہے۔ دو آدمی پکڑےہیں شاید وہ ملند کےقاتل ہوں ۔ تمہیں پہچاننےکےلئےبلایا ہے۔ ? وہ چپ چاپ ان کےساتھ چل دیا ۔ ? آو�? امیت بابو ! آج کےبعد تمہیں ہم سےکوئی شکایت نہیں رہےگی ۔ ہم نےدو آدمی پکڑےہیں اور ہمیں پورا یقین ہےکہ ان میں سےایک ملند کا قاتل ہے۔ وہ قاتل کون ہے؟ اب یہ تمہاری شناخت پر منحصر ہے۔? انسپکٹر نےکہا اور سپاہی کو ان آدمیوں کو لانےکا اشارہ کیا ۔ دو آدمی اس کےسامنےلائےگئے۔ ایک تو اجنبی تھا اور دوسرا ملند کا قاتل ۔ وہ سکتےمیں آگیا ۔ ? بتاو�? امیت ! کیا ان میں سےکوئی ملند کا قاتل ہے؟ ? وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سےملند کےقاتل کو دیکھنےلگا ۔ ? بتاو�? امیت ! کیا تم انھیں پہچانتےہو ؟ ? انسپکٹر نےپھر پوچھا ۔ ? نہیں انسپکٹر صاحب ! میں انہیں نہیں پہچانتا ۔ میں نےان کو پہلےکہیں نہیں دیکھا ۔ ? وہ بولا اور پھر اچانک اپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگا ۔ ll

Urdu Short Story

Jila Watan


By M.Mubin




ٹرین کےاس خصوصی ڈبےمیں سو کےقریب افراد تھے۔ ان میںعورتیں بھی تھیں اور بچےبھی ? نوجوان بھی اور بوڑھےبھی ۔ کچھ لوگوں کا سارا خاندان اس ڈبہ میں تھا ۔ کچھ لوگوں کا خاندان تقسیم ہوگیا تھا۔ خاندان کےکچھ افراد اس ڈبےمیں مقیّد سفر کررہےتھے۔ ایک انجانی منزل کی طرف ۔ کچھ افراد بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔ وہ اکیلا اس ڈبےمیں تھا ۔ اس کی سکینہ اور ببلو بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔ پتہ نہیں اس وقت وہ کیا کررہےہوں گے؟ جب پولس اسےلےجارہی تھی تب سکینہ کتنی رو رہی تھی گڑ گڑارہی تھی ۔ ایک سال کا ببلو سکینہ کو روتا دیکھ کر بےتحاشہ رونےلگا تھا ۔ سکینہ پولس والوں کےہاتھ پیر پڑ رہی تھی رو رہی تھی ? رحم کی بھیک مانگ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ۔ ? میرےآدمی کو چھوڑ دو ? میرےآدمی کو مجھ سےجدا مت کرو ۔ میں اس کےبنا نہیں رہ سکتی ۔ ? لیکن پولس نےاس کی ایک نہ سنی ۔ آخر میں وہ اس وقت اس سےملنےریلوےاسٹیشن پر آئی تھی جب اسےمعلوم ہوا تھا کہ اسےبنگلہ دیش لےجایا جا رہا ہے۔ اس وقت اسےڈبےمیں بند کردیا گیا تھا ۔ ڈبےکےدروازوں پر پانچ مسلح پولس پہرا دےرہےتھے۔ ڈبےمیں بھی سات آٹھ مسلح پولس تھی ۔ وہ کھڑکی کےپاس بیٹھا تھا ۔ اور سکینہ کھڑکی کی سلاخ پکڑ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ۔ ? رحمن ! تم کہاں جا رہےہو ۔ مجھےچھوڑ کر کہاں جا رہےہو ? میں تمہارےبنا نہیں رہ سکتی مجھےچھوڑ کر مت جاو�? ? ببلو تمہارےبنا کس طرح رہےگا ۔ چھوڑدو ظالموں میرےشوہر کو چھوڑ دو ........ ! یہ بنگلہ دیشی نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی ہےاس نےہندوستان میں جنم لیا ہے۔ ? اس پر ڈبےکےپاس پہرہ دیتےایک سپاہی نےاسےایک زور دار دھکا دیا تھا اور سکینہ پلیٹ فارم پر جا گری تھی ۔ اس کا خون کھول اٹھا تھا ۔ ? تیری تو ........ ! ? اس کی آواز اس کےحلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی ۔ کیونکہ ڈبےمیں پہرہ دینےوالےایک سپاہی کی بندوق کی نال اس کی کنپٹی سےلگی ہوئی تھی ۔ ? چپ چاپ بیٹھ جا ۔ زیادہ ہشیاری نہیں کرنےکا ? سالا زیادہ ہشیاری کیا تو اڑا دےگا کیا؟چیالا ! سوَتا لا دادا سمجھتوئے۔? (خود کو دادا سمجھتا ہے) اور وہ چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر حسرت سےسکینہ کو دیکھنےلگا ۔ سکینہ پلیٹ فارم پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی ۔ پھر گاڑی نےسیٹی دی اور پلیٹ فارم پر دوڑنےلگی ۔ سکینہ چونکی اور پھر اٹھ کر گاڑی کےپیچھےدوڑی ۔ ? ببلو کےابا مجھےچھوڑ کر مت جاو�? ۔ ببلو کےابا مجھےچھوڑ کر مت جا و�? ۔ ? لمحہ بہ لمحہ وہ اس سےدور بہت دور ہوتی جارہی تھی ۔ گاڑی رفتار پکڑ رہی تھی اور پھر وہ اس کی نظروں سےاوجھل ہوگئی ۔ اس کا ایک انجان منزل کی طرف سفر ہوگیا ۔وہ کہاں جارہےہیں انہیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا ۔ انہیں صرف اتنا پتہ چلا کہ انہیں اس ٹرین کےذریعہ کلکتہ لےجایا جا رہا ہے۔ کلکتہ لےجا کر انہیں کلکتہ پولس کےحوالےکر دیا جائےگا اور پولس انہیں بنگلہ دیش کی سرحد میں ڈھکیل دےگی۔ یا پھر یہ بھی ممکن تھا انہیں کلکتہ پولس کےحوالےنہ کیا جائےاور ایک خصوصی بس کےذریعہ بنگلہ دیش کی سرحد تک لےجا کر انہیں سرحد میں دھکیل دیا جائے۔ ڈبہ میں جو سپاہی تھےان کی باتوں سےپتہ چلا کہ ہوسکتا ہےکلکتہ پہونچ کر طریقہ کار بدل دیا جائے۔ ? ابھی تک ہم تم بنگلہ دیشی لوگوں کو کلکتہ پولس کےحوالےکردیتےتھےاور وہ آگےکا کام کرتی تھی ۔ مگر پتہ چلا ہےکہ کلکتہ پولس بھی تم لوگوں سےملی ہوئی ہےجیوتی باسو تم لوگوں کا ہمدرد ہے۔ وہ لوگ جھوٹ جھوٹ پولس کو بتاتےہیں کہ ہم بھارتی ہیں ہمیں بنگلہ زبان بولنےکی بنیاد پر بنگلہ دیشی قرار دےکر بمبئی سےنکالا گیا ہےتو وہ انہیں چھوڑ دیتی تھی ۔ اور تم لوگ واپس بھی آجاتےتھے۔ لیکن اس بار ہم تم لوگوں کو بنگلہ دیش کی سرحد میں دھکیل کر ہی واپس آئیں گےتاکہ تم لوگ پھر کبھی بمبئی واپس نہ آسکو ۔ اگر بھارت کی سرحد میں داخل ہونےکی کوشش کرو تو بی ۔ ایس ۔ ایف کی گولی کا نشانہ بن جاو�? ۔ اسےبنگلہ دیش بھیجا جارہا تھا ۔ ایک ایسےملک میں جسےاس نےآج تک نہیں دیکھا تھا ۔ اسےاس ملک کا باشندہ قرار دےکر وہاں بھیجا جارہا تھا ۔ کیا وہ وہاں رہ پائےگا ؟ کیا وہ ملک اسےقبول کرپائےگا ؟ جبکہ اس کا اس ملک سےکوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جب اسےاپنےہم وطن غیر ملکی قرار دےرہےہیں تو ایک غیر ملک کےلوگ اسےکیسےاپنا ہم وطن سمجھ سکتےہیں ۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اس کا قصور یہ ہےکہ اس کی مادری زبان بنگلہ ہے۔ اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مسلمان ہے۔ اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مغربی بنگال میں پیدا ہوا پلا بڑھا ہے۔ اس کا قصور یہ ہےکہ وہ اپنےآپ کو ہندوستانی ثابت نہیں کر پایا ہے۔ اس کی بدقسمتی یہ ہےکہ اس نےاپنےہندوستانی ہونےکےجتنےثبوت دئےانہیں قبول نہیں کیا گیا ۔ وہ ایک ایسی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا جو اس کی اپنی نہیں تھی ۔ اس کےبارےمیں اسےکچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ اس منزل کےبارےمیں تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ اس منزل اور اس منزل کےبعد کےمستقبل سےوہ بالکل انجان تھا ۔ وہ صرف اپنےماضی کو جانتا تھا ۔ اور اس کی نظروں کےسامنےاپنےماضی کا ایک ایک لمحہ گھوم رہا تھا ۔ دیناج پور سےبمبئی کےچیتا کیمپ تک زندگی کا ایک ایک لمحہ اسےیاد آرہا تھا ۔اس نےہوش سنبھالا تو خود کو مغربی بنگال کےچوبیس پرگنہ کےایک چھوٹےسےگاو�?ں دیناج پور میں پایا ۔ اس نےصرف اپنی ماں کو دیکھا تھا ۔ اس کی ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی اور اس سےجو حاصل ہوتا تھا اس سےاپنا اور اس کا پیٹ پالتی تھی ۔ گاو�?ں کےکنارےان کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی وہ اس جھونپڑی میں رہتےتھے۔ اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنےاور ان کےاچھےدن آئیں اس لئےوہ اسےباقاعدگی سےاسکول بھیجتی تھی ۔ وہ اسکول جاتا تھا ۔ پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار تھا اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ خوب پڑھے اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ گاو�?ں میں ساتویں تک ہی اسکول تھا ۔ اس کی ماں کہتی تھی اگر وہ ساتویں کا امتحان پاس کرلےگا تو وہ اسےپڑھنےکےلئےشہر بھیجےگی ۔ لیکن اس کی ماں کا خواب پورا نہیں ہوسکا اور اس کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا ۔ ایک دن اس کی ماں کو سخت بخار آیا ۔ دو دن تک اس کی ماں بخار سےلڑتی رہی اور تیسرےدن اس نےدم توڑ دیا اور وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا ۔ اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا ۔ اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا ۔ جب سےاس نےہوش سنبھالا تھا اسےباپ کی صورت دکھائی نہیں دی تھی ۔ اس نےگاو�?ں والوں سےسنا تھا ۔ جب وہ تین سال کا تھا تب اس کا باپ مرگیا تھا ۔ اس کےباپ کا اس گاو�?ں میں کوئی رشتہ دار نہیں تھا ۔ پتہ نہیں وہ کہاں سےآیا تھا اور اس گاو�?ں میں بس گیا تھا ۔ ایک دن شہر گیا تو اپنےساتھ اس کی ماں کو لےآیا اور گاو�?ں والوں سےکہنےلگا کہ یہ اس کی بیوی ہےاس نےاس کےساتھ شہر میں بیاہ کیا ہے۔ پھر وہ پیدا ہوا اور جب تین سال کا ہوا تو اس کےباپ کا انتقال ہوگیا اور اب ماں کا ۔ اس طرح وہ اپنےکسی رشتہ دار کےبارےمیں کچھ نہیں جانتا تھا ۔ وہ دنیامیں اکیلا رہ گیا تھا ۔ اب اسےاپنی زندگی اکیلےہی خود ہی کاٹنی تھی ۔ زندہ رہنےکےلئےروٹی بہت ضروری تھی اور روٹی حاصل کرنےکےلئےکام کرنا بہت ضروری تھا ۔ اس لئےوہ کام کرنےلگا اور کام کرنےکےلئےاسےاسکول کی پڑھائی چھوڑنی پڑی ۔ وہ ماں کی طرح کھیتوں میں کام کرکےاپنا گذر بسر کرتا تھا لیکن کھیتوں کا کام سال بھر کہاں چلتا ہے۔ چھ مہینےکام ہےتو چھ مہینےنہیں ۔ چھ مہینےجب کام نہیںملتا تو بھوکوں مرنےکی نوبت آجاتی ۔ اس لئےجھنجلا کر اس نےسوچا کہ کوئی دوسرا کام کرنا چاہیئے۔ دوسرا کام گاو�?ں میں ملنا مشکل تھا ۔ اس لئےوہ دوسرےکام کی تلاش میں شہر آیا ۔ وہ کوئی دوسرا کام تو جانتا نہیں تھا اس لئےوہ کام سیکھنےلگا ۔ اسےایک موٹر گیریج میں کام مل گیا ۔ وہ گیریج میں کام سیکھتا بھی تھا کام کرتا بھی تھا ۔ اسےگیریج کا مالک دو وقت کا کھانا دیتا تھا اور خرچ کےلئےتھوڑےپیسےبھی ۔ سونےکےلئےگیریج اتنا بڑا تھا کہ کسی بھی کونےمیں اپنا بستر بچھا کر سوجاتا تھا ۔ چار پانچ سالوں میں وہ بہت اچھا مکینک بن گیا ۔ ایک دن اس کا گیریج کےمالک سےجھگڑا ہوگیا ۔ گیریج کا مالک اس کی تنخواہ نہیں بڑھا رہا تھا اس لئےوہ اس سےالجھ گیا تھا ۔ جھگڑےکےبعد اس نےوہ گیریج چھوڑ دیا اور کلکتہ چلا آیا ۔ کلکتہ میں اس کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا ۔ اس لئےدو چار دن یوں ہی اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا پھر آخر اسےایک گیریج میں کام مل گیا ۔ کلکتہ میں اس نےدو تین سال نکالے۔ اس نےسنا تھا کہ بمبئی میں بہت کام ہےاور بہت پیسہ بھی ہے۔ اچھےکاریگروں کی وہاں بہت قدر ہےاور اچھا پیسہ بھی مل سکتا ہے۔ اس لئےاس نےبمبئی جانےکی ٹھانی ۔ اس کےایک دو دوست اور بمبئی جارہےتھے۔ وہ ان کےساتھ بمبئی چلا آیا ۔ بمبئی کلکتہ جیسا ہی بڑا شہر تھا لیکن کلکتہ سےزیادہ گنجان ۔ اسےبمبئی میں بھی آسانی سےکام مل گیا ۔ کیونکہ وہ اس درمیان بہت اچھا مکینک بن گیا تھا ۔ وہ گیریج میں رہنےلگا اور پیسےبھی جمع کرنےلگا ۔ اس کےپاس کچھ سالوں میں اچھےخاصےپیسےجمع ہوگئے۔ اس نےان پیسوں سےچیتا کیمپ میں ایک جھونپڑا لےلیا ۔ وہ جھونپڑا کس کی ملکیت ہےقانونی ہےیا غیر قانونی ہےاس نےاس کےبارےمیں نہیں سوچا تھا ۔ وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ جو شخص اس جھونپڑےمیں اب تک رہتا ہےوہ اسےفروخت کررہا تھا اس اس لئےاس نےاسےخرید لیا ۔ جھونپڑا خریدنےکےبعد دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ۔ ? اب شادی کرلینی چاہیئے۔ کیونکہ اب تو گھر ہوگیا ہے۔ بمبئی میں شادی آسانی سےہوجاتی ہےمگر گھر آسانی سےنہیں ملتا لیکن اس کےپاس تواب گھر تھا ۔ اور پھر اس کی سکینہ سےشادی ہوگئی ۔ سکینہ کا باپ بھی اس کی طرح کسی گیریج میں کام کرتا تھا ۔ اس کےایک دوست نے سکینہ کےباپ سےاس کےرشتےکی بات کی سکینہ کےباپ نےدیکھا کہ لڑکا اچھا ہے? کماتا ہے۔ رہنےکےلئےگھر بھی ہے۔ ایسےلڑکےآج کل اتنی آسانی سےکہاں ملتےہیں ۔ اس نےجھٹ ہاں کردی اور ان کی شادی ہوگئی ۔ کچھ دنوں میں ہی سکینہ اس کےدل میں اتر گئی ۔ سکینہ بس ہنستی رہتی تھی اور اسےسکینہ کا ہنسنا بہت پسند تھا ۔ اور سکینہ تو اس کی ہر بات پر ہنستی رہتی تھی ۔ سکینہ خاص طور پر اس کی زبان پر بہت ہنستی تھی ۔ سکینہ ناسک کی رہنےوالی تھی اور ساتویں تک پڑھی بھی تھی ۔ اس لئےاس کی اردو بہت اچھی تھی اور اردو کےاخبارات و رسائل پڑھ بھی لیتی تھی ۔ اس کو اردو بالکل نہیں آتی تھی ۔ بمبئی میں آنےکےبعد اس نےٹوٹی پھوٹی اردو بولنا سیکھی تھی۔ وہ جب تک کلکتہ میں تھا اسےاردو کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ اس کی ماں بنگلہ بولتی تھی ۔ اس کےلئےاس کی مادری زبان بنگلہ ہوگئی تھی ۔ اسکول میں بھی وہ بنگلہ ہی پڑھا ۔ کلکتہ میں جہاں اس نےکام کیا یا اس سےپہلےجہاں جہاں کام کیا اس کےسارےساتھی بنگلہ بھاشی ہی تھے۔ اسےبنگلہ زبان سےبہت محبت تھی ۔ بنگلہ پڑھنا وہ جانتا تھا اس لئےفرصت ملنےپر اکثر بنگلہ اخبارات اور رسالےپڑھا کرتا تھا ۔ اس کو ٹیگور اور قاضی نذرالسلام کےکئی گیت یاد تھے۔ اس نےشرت چندر چٹرجی کےکئی ناول پڑھےتھےاور مہا شویتا دیوی ورما سےسنیل گنگوپادھیائےکی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔ لیکن بمبئی میں آنےکےبعد ماحول بدل گیا تھا ۔ جہاں اسےکام ملا تھا وہاں کوئی بھی بنگلہ نہیں جانتا تھا اس لئےٹوٹی پھوٹی ہندوستانی سیکھنےلگا اور کام چلاو�? زبان سیکھ بھی گیا ۔ سکینہ سےبات کرنےمیں کبھی کبھی بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا ۔ سکینہ کبھی کبھی اردو کا ایسا لفظ بول دیتی تھی کہ وہ اس لفظ کا مطلب ہی نہیں سمجھ پاتا تھا ۔ یا سکینہ سےبات کرتےکرتےاس کےمنہ سےکوئی ایسا بنگلہ لفظ نکل جاتا تھا کہ اس لفظ کا مطلب اسےسکینہ کو سمجھانا دشوار ہوجاتا تھا ۔ سکینہ اکثر اس سےکہتی تھی ۔ ? رحمن یہ بنگلہ چھوڑو اور تم اردو پڑھنا لکھنا سیکھ جاو�? ۔ میں تمہیں اردو سکھا دوں گی ۔ ? ? کیوں بنگلہ میں کیا برائی ہے۔ ? ? اردو ہماری زبان ہےمسلمانوں کی زبان اسلام کا سارا مذہبی سرمایہ اس زبان میں ہے۔ ? ? مسلمان بنگلہ بھی تو بولتےہیں ۔ مغربی بنگال کےزیادہ تر مسلمانوں کی مادری زبان بنگلہ ہےاور سارےبنگلہ دیش کےمسلمانوں کی زبان تو بنگلہ ہی ہے۔ اسےبنگلہ سےپیار تھا ۔ اسےبمبئی میں بنگلہ رسالےاور اخبارات نہیں ملتےتھے۔ کبھی کبھی وہ صرف بنگلہ اخبار آنند بازار پتر یکا اور رسالہ دیش خریدنےوی ٹی آتا تھا ۔ کیونکہ وہاں ملتےتھی۔ چیتا کیمپ میں بہت سےبنگالی تھے۔ ان میں سےکوئی اپنےگھر جاتا تو اس سےوہ کہتا کہ واپسی میں میرےلئےبنگلہ اخبارات اور کتابیں لانا نہیں بھولنا ۔ وقت گزرتا گیا اس درمیان ببلو ان کےدرمیان آگیا ۔ ببلو کےآجانےسےان کی محبت اور زیادہ بڑھ گئی ۔ اچانک ایک دن اسےاور سکینہ کو ایک نوٹس ملی ۔ ? تم ہندوستانی ہو اس بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ ووٹنگ لسٹ سےتمہارا نام خارج کردیا جائےگا ۔ ? اس طرح کی نوٹس اس کےعلاقہ کےاور بھی کئی لوگوں کو ملی تھی ۔ ہر کوئی اس نوٹس کی وجہ سےپریشان اور غصےمیں تھا ۔ ? ہمارےپاس راشن کارڈ ہے۔ ہمارا نام ووٹنگ لسٹ میں شامل ہےپھر بھی ہم سےشہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے؟ ہم یہاں پیدا ہوئے? پلےبڑھےہیں۔ اس سےبڑھ کر ہماری شہریت کا اور کیاثبوت ہوسکتا ہے؟ ? نوٹس دیکھ کر سکینہ ڈر گئی تھی ۔ ? رحمن تمہاری مادری زبان بنگلہ ہےاور آج کل بنگلہ دیشیوں کی بمبئی میں موجودگی پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے۔ تم کو بھی نوٹس مل گئی ہےاگر تم نےخود کو ہندوستانی ثابت نہیں کیا تو مجھےڈر ہےکہ کہیں تمہیں بنگلہ دیشی قرار دےکر ہندوستان سےنہ نکال دیا جائے۔ ? ? کون مجھےہندوستان سےباہر نکال سکتا ہےمیں ہندوستان میں پیدا ہوا ہوں پلا بڑھا ہوں۔ ? ? پھر اپنےہندوستانی ہونےکا ثبوت دےدوناں ! ? ? میرےہندوستانی ہونےکا ثبوت میری اسکول کا داخلہ ہےجس پر میری جائےپیدائش ہےاور وہ داخلہ حاصل کرنےکےلئےمجھےدیناج پور جانا پڑےگا ۔ کون اتنی جھنجھٹ کرےگا ۔ وہ لوگ میرا نام صرف ووٹنگ لسٹ سےہی کاٹیں گےناں ؟ بلا سےکاٹ دیں ؟ ? سکینہ نےاپنا اسکول کا داخلہ پیش کرکےخود کو ہندوستانی ثابت کردیا ۔ لیکن رحمن خود کو ہندوستانی ثابت نہیں کرسکا ۔ اس کا نام ووٹنگ لسٹ سےکاٹ دیا گیا ۔ اس نےاس کی پرواہ نہیں کی ۔ الیکشن ہوئے۔ الیکشن میں رحمن ووٹ نہیں دےسکا ۔ اسےاس کا دکھ بھی نہیں تھا ۔ نئی حکومت تھی اور نئی حکومت نےسب سےپہلا لفڑہ بنگلہ دیشیوں اور غیر ملکیوں کو پندرہ دن کےاندر ہندوستان سےباہر کرنےکا لگایا ۔ اور اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ۔ ایک رات پولس آئی اور اسےاٹھا کر لےگئی ۔ اس پر الزام تھا کہ وہ بنگلہ دیشی ہےاور غیر قانونی طریقےسےہندوستان میں اور بمبئی میں آیا ہے۔ وہ چیختا رہا چلاتا رہا ۔ وہ ہندوستانی ہےلیکن کسی نےنہیں سنی ۔ ? تُو ہندوستانی کیسا رے۔ تُو بنگالی بولتا ہے۔ تیرےگھر سےبنگالی کتابیں اور اخبارات ملےہیں نوٹس ملنےپر تُونےخود کو ہندوستانی ثابت نہیںکیا ۔ اس سےصاف ظاہر ہوتا ہےکہ تُو بنگلہ دیشی ہےاس لئےاب تجھےتیرےوطن بنگلہ دیش پہونچانےکا کام ہمیں کرنا ہے۔ ? سکینہ بھی بہت گڑگڑائی کہ اس کا شوہر ہندوستانی ہےلیکن پولس نہ مانی ۔ سکینہ نےاپنی ساری جمع پونجی ان کےسامنےرکھ دی کہ وہ اسےلےلیں اور رحمن کو چھوڑ دیں۔ اسےپتہ چلا تھا کہ پیسوں کےزور پر پولس نےبہت سےلوگوں کو چھوڑ دیا ہی۔ ? ان لوگوں کو چھوڑا ہےجن کو چھوڑنےکےلئےسیاسی رسوخ آیا تھا ۔ ٹھیک ہےہم تیرےآدمی کو چھوڑ دیتےہیں تُو بھی کسی سیاسی آدمی کا وسیلہ لا ۔ اگر تُو یہ نہیں کرسکی تو ہم یہ پیسہ لےکر بھی تیرےآدمی کو نہیں چھوڑتےکیونکہ ہمیں اوپر سےجو آرڈر ملا ہےاس آرڈر کےمطابق کچھ لوگوں کو بنگلہ دیش میں بھیجنا ہی پڑےگا ۔ ? سکینہ کسی کا وسیلہ نہیں لگا سکی ۔ اور رحمن کو بنگلہ دیشی قرار دےکر بنگلہ دیش بھیجنےکےلئےٹرین میں سوار کردیا گیا ۔ اب وہ اپنےہی ملک سےغیر ملکی بن کر ایک غیر ملک میں جارہا تھا ۔ اس کی جلاوطنی کا سفر شروع ہوا تھا ۔ ll

Urdu Short Story

Naqab


By M.Mubin





مضبوط بنیاد کےبنا اونچی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔ جس عمارت کی بنیاد جتنی زیادہ مضبوط ہوگی اس کی اونچائی اتنی زیادہ ممکن ہے۔ سلیب کےلئےلوہےکی سلاخیں بہت ضروری ہیں ۔ اچھےعمدہ مال کا استعمال ایک اینٹ کی دیوار کو بھی پختگی دےدیتا ہے۔ کالم کی مضبوطی پر عمارت کی مضبوطی منحصر ہوتی ہے۔ دلدلی علاقوں میں تعمیر ہونےوالی عمارتوں کی بنیادیں کافی گہری ہونی چاہیئے۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےفن تعمیرات کےیہ سارےاصول آپ میں خلط ملط ہو کر نئےضابطےمرتب کررہےہیں ۔ کمزور بنیادوں پر بھی اونچی عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں ۔ ضروری نہیں کہ عمارت کی تعمیر میں عمدہ سامان استعمال کیا جائے۔ عمارت تعمیر کرنےسےمطلب ہو تو اس عمارت کی حفاظت کی ذمہ داری عمارت کےمکینوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ سر پکڑےبیٹھا اپنےسامنےپھیلےکاغذ کو گھور رہا تھا ۔ جس پر اس نےایک نئی عمارت کا نقشہ بنایا تھا ۔ نقشہ بڑا خوبصورت تھا ۔ نیچےکےحصےمیں دکانیں تھیں ۔ ٠٢ ، ٥٢ دوکانیں ۔ شہر کےجس حصےمیں وہ عمارت بنائی جانےوالی تھی اس حصےمیں جو دکانوں کی قیمت رائج تھی اس کےحساب سےایک ایک دوکان چار چار ، پانچ پانچ لاکھ سےکم میں فروخت نہیں ہوگی ۔ ان دوکانوں کےاوپر تین منزلوں پر رہائشی فلیٹوں کی تعمیر کا منصوبہ تھا ۔ ان فلیٹوں کی قیمتیں بھی دو سےتین لاکھ تک آسانی سےجائےگی ۔ دوکانیں تو بڑےبڑےبزنس مین خرید لیں گے۔ ان میں بہت سےایسےتاجر شامل ہوں گےجن کی شہر کےمختلف حصوں میں اور بھی دکانیں ہوں گی ۔ ان لوگوں کےلئےاس علاقےمیں نئی دوکان شروع کرنےکےلئےچار پانچ لاکھ روپوں کی سرمایہ کاری کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا ۔ کچھ ایسےہوں گےجو پہلی بار کوئی دھندہ شروع کررہےہوں گےاور ان دوکانوں کی خرید کےلئےانہوں نےاپنی زندگی کی ساری کمائی اور بچت صرف کی ہوگی ۔ کچھ لوگ ایسےہوں گےجنہوں نےکئی جگہوں سےقرض لےکر ان دوکانوں کی قیمت ادا کی ہوگی ۔ ان دوکانوں کےاوپر جو فلیٹ بنائےجائیں گےان کو خریدنےاور ان کےمکینوں کی بھی اپنی الگ الگ کہانیاں ہوں گی ۔ کچھ لوگ انہیں صرف ایکجوئےکےطور پر خریدیں گے۔ جس قیمت پر آج وہ فلیٹ خرید رہےہیں اگر کل اس سےزیادہ قیمت آئےگی تو فروخت کر کےنفع کمائیں گے۔ کچھ لوگ دور دراز کےعلاقوں سےاپنی گندی تنگ سی کھولیاں فروخت کرکےاس جگہ آبسیں گے۔ ان فلیٹوں میں کچھ نوکری پیشہ افراد بھی آبسیں گےجو اپنی ساری زندگی کی بچت اور اونچی سود کی دروں پر قرض لےکر ان کمروں کی قیمت ادا کریں گےاور پھر اس میں آکر آباد ہونےکےبعد آدھی زندگی تک پیٹ کاٹ کاٹ کر اس قرض کی قسطیں اور سود ادا کریں گے۔ اگر اس عمارت کےتعمیر ہونےکےبعد اسےبھی کسی قانونی پیچیدگی کا سہارا لےکر مسمار کردیا گیا تو ؟ یا زیر تعمیر عمارت کسی تضاد کا شکار ہوکر ادھوری رہ گئی تو؟ اسےلگا پھر ایک بار اس عمارت میں دوکانیں اور فلیٹ لینےوالےآکر اس کےسامنےکھڑےہوجائیں گے۔ ? روِش بھائی ! اس عمارت کا پلان آپ کا تھا ۔ ہم نےتو صرف آپ کےپلان اور آپ کا نام ہونےکی وجہ سےاس عمارت میں مکان اور دوکانیں خریدی تھیں ۔ کیا آپ کو اس عمارت کا پلان بناتےوقت ان باتوں کا پتہ نہیں تھا ? کیا آپ نےدانستہ ان باتوں کو نظر انداز کیا اور ہماری زندگی کی کمائی پر ڈاکہ زنی میں نمایاں رول ادا کیا ؟ ? اس کا دل چاہا کہ اس کاغذ کو مروڑ کر پرزےپرزےکردےمگر وہ ایسا نہیں کرسکا ۔ اور کرسی سےپشت لگا کر بیٹھ گیا ۔ آج کم سےکم دس افراد اس سےمل کر گئےتھے۔ ان دسوں افراد کی اپنی اپنی الگ کہانی تھی۔ ان کہانیوں کو سن کی وہ دہل اٹھا تھا ۔ اس کی آنکھوں کےسامنےان کےمسکین چہرےاور کانوں میں درد بھری فریادیں گونج رہی تھیں ۔ ? روِش بھائی ! میرا لڑکا تین سال سےگلف میں ہے۔ وہ آئندہ سال ملک واپس آرہا ہےاس کا ارادہ دوبارہ واپس جانےکا نہیں ہے۔ اس کا ارادہ یہاں پر کوئی چھوٹی موٹی دوکان کھول کر بس جانےکا تھا ۔ اس مقصد کےلئےمیں نےبسیرا میں ایک دوکان بک کرائی تھی ۔ اب تک اس نےجتنےپیسےروانہ کئےتھےسب اس دوکان کی خرید پر لگا دئے۔ دوکان کی پوری قیمت ادا کرنےکےلئےکچھ لوگوں سےقرض بھی لیا ۔ یہ سوچ کر کہ بیٹا پیسہ روانہ کرےگا تو ان کا قرض ادا کردوں گا ۔ لیکن اب نہ تو بسیرا ہےاور نہ ہی وہ دوکان۔ میرےبیٹےکی تین سال کی محنت اور خون پسینےکی کمائی برباد ہوگئی ۔ اب اس کا کیا ہوگا ؟ چار سال بعد وہ واپس ملک آئےگا تو پہلےکی طرح قلاش اور بےکار ہوگا ۔ ? ? روِش صاحب ! میں ایک نوکری پیشہ شخص ہوں ۔ ? اس کی آنکھوں کےسامنےایک دوسرےفرد کا مسکین چہرہ ابھرا ۔ ? بسیرا میں ? میں نےفلیٹ بک کیا تھا ۔ گدشتہ بیس سالوں کی ملازمت کےدوران جو بچت کرپایا تھا ۔ سب اس فلیٹ کی قیمت ادا کرنےمیں لگا دی پھر بھی قیمت پوری طرح سےادا نہیں کرسکا تو ایک دو مقامی بینکوں اور کریڈٹ سوسائٹیوں سےقرض لےکر فلیٹ کی پوری قیمت ادا کردی ۔ یہ سوچ کر کہ بیس سال سےایک تنگ کھولی میں اپنےخاندان کےساتھ گزارہ کر رہا ہوں ۔ اس فلیٹ میں آنےکےبعد اس تنگ کوٹھری سےتو نجات ملےگی ۔ لیکن بسیرا مسمار کردی گئی۔ اب بھی مقدر میں وہی کوٹھری ہےاور قرضوں کا بوجھ اس کےعلاوہ ۔ ساری زندگی کی کمائی تو لٹ ہی چکی ہے۔ ہر آدمی کی اپنی ایک الگ کہانی تھی ۔ وہ ان لوگوں کی آنکھوں میں ان کی بےبسی اور ان کےخوابوں کےاجڑنےکا کرب بخوبی دیکھ سکتا تھا ۔ وہ صرف فریاد کررہےتھےاور اپنےاجڑنےکی کہانی سنا رہےتھے۔ اپنی بربادی پر آنسو بہانےکےعلاوہ شاید ان کےپاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا ۔ کوئی بھی جوش میں بھرا اس کےپاس نہیں آیا تھا ۔ برباد ہونےکےبعد دوسرےکو برباد کرنےکا عہد کرنےوالا کوئی نہیں تھا ۔ کسی کی آنکھوں میں انتقام کا شعلہ نہیں تھا ۔ صرف بےبسی اور بےچارگی تھی ۔ اور ان کی بےبسی اور بیچارگی کو دیکھ کر وہ دہل اٹھا تھا اور بار بار اسےاحساس ہورہا تھا کہ ان لوگوں کو صرف بابو بھائی نےبرباد نہیں کیا ہے۔ ان کی بربادی میں اس کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ کچھ لوگوں نےصرف دبی آواز میں اس پر الزام لگایا تھا ۔ ? روِش بھائی ! آپ شہر کےمانےہوئےآرکٹیکٹ ہیں ۔ آپ کا نام ہی معیاری کام ? ایمانداری کی ضمانت ہے۔ بسیرا کا نقشہ آپ نےبنایا تھا ۔ اس کی تعمیر میں آپ کا پلان ? آپ کےمشورےاور آپ کی رہنمائی شامل تھی۔ ظاہر سی بات ہےپلان بناتےوقت آپ نےاس عمارت کی تعمیر کےتمام قانونی پہلوو�?ں کو بھی اچھی طرح جان لیا ہوگا ۔ اس عمارت کی تعمیر میں اب کوئی بھی غیر قانونی پہلو شامل نہیں ہوگا ۔ جس کی وجہ سےہم کسی مشکل میں پھنس جائیں ۔ آپ کےنام نےہمیں اس بات کی ضمانت دی تھی لیکن افسوس ہم دھوکہ کھا گئے۔ آپ نےثابت کردیا ۔ پیسہ کےلئےآپ کچھ بھی کرسکتےہیں ۔ آپ کو ان باتوں سےکوئی لینا دینا نہیں ہےکہ آپ جس عمارت کی تعمیر کےلئےنقشہ بنا رہےہیں ? جس عمارت کی تعمیر میں رہنمائی کررہےہیں وہ قانونی ہےیا غیر قانونی ۔ آپ کو اپنےمعاوضےسےمطلب ۔ بن جانےکےبعد وہ غیر قانونی ثابت ہو کر ڈھا دی گئی تو آپ کو اس سےکیا لینا دینا ہے۔ آپ کو تو اپنا معاوضہ مل چکا ہے۔ اس عمارت کےڈھائےجانےکےساتھ کتنی زندگیوں سےکھلواڑ کیا گیا ہےاس سےآپ کو کیا لینا دینا ہے۔ بےوقوف تو وہ لوگ ہیں جو آپ کےنام کو معتبر سمجھ کر اعتبار کرتےہیں اور دھوکہ فریب کھا کر اپنی ساری زندگی کی کمائی لٹا دیتےہیں ۔ ? ان لوگوں کی بات بالکل سچ تھی ۔ اس عمارت کا نقشہ بناتےوقت اور اس کی تعمیر کےدوران رہنمائی کرتےوقت اس عمارت کےقانونی یا غیر قانونی ہونےکےبارےمیں اس نےبالکل غور نہیں کیا تھا ۔ صرف ایک نقطہ پر وہ ایک بار اڑا تھا ۔ بابو بھائی ٠٠٠١ میٹر کےپلاٹ پر ٠٠٨ میٹر کی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا ۔ یہ ناممکن ہے۔ ایک ہزار مربع میٹر زمین پر آٹھ سو مربع میٹر زمین کا پلان پاس ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اتنےکم ایف ۔ ایس ۔ آئی پر عمارت کی تعمیر کی منظوری مل ہی نہیں سکتی ۔ ? انجنیئر صاحب ! آپ کا کام نقشہ بنانا ہےاور ضرورت پڑےتو عمارت کی تعمیر کےدوران رہنمائی کرنا ہے۔ پلان کس طرح پاس ہوگا اور کون پاس کرےگا یہ دیکھنا ہمارا کام ہے۔ آپ کو جس طرح کا پلان بنانےکےلئےکہا جارہا ہےاسی طرح کا پلان بنائیےاور اپنا معاوضہ لیجئے۔ ? بابو بھائی نےاسےاپنےروایتی اکھڑ لہجےمیں کہا تھا ۔ اسےنہ تو بابو بھائی کی بات پسند آئی تھی نہ لہجہ لیکن اس بار بھی اس کا وہ دوست آڑےآیا تھا جو بابو بھائی کو اس کےپاس لایا تھا ۔ ? روِش ! تم ان باتوں کےپیچھےکیوں اپنا وقت ضائع کر رہےہو ۔ بابو بھائی کہہ تو رہےہیں۔ وہ خود میونسپلٹی سےاس پلان کو منظور کرالیں گےتمہیں پلان منظور کروانےکےلئےدوڑنا نہیں پڑےگا کہ اگر غلط پلان بن جائےتو پلان منظور نہیں ہوگا بار بار اس میں تبدیلی کرنی پڑےگی ۔ ? ? ٹھیک ہے! آپ لوگ چاہتےہیں تو میں آپ کی بتائی جگہ میں پلان بنادوں گا? بابو بھائی کو وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ ایک زمانےمیں وہ شہر کا مشہور غنڈہ اور بدمعاش تھا ۔ بعد میں وہ سیاست میں پڑ کر مقامی میونسپلٹی کا کونسلر بن گیا اور پھر سفید پوش بن کر بلڈر بن گیا ۔ وہ بسیرا کےنام سےایک عمارت بنانا چاہتا تھا جس میں دوکانیں اور مکان ہوں گے۔ اس عمارت کےپلان کےلئےوہ اس کےدوست کی معرفت اس کےپاس آیا تھا ۔ اگر بابو بھائی اکیلا آتا تو شاید وہ بابو بھائی کےرویّےاور اس قانونی نقطہ کی بنیاد پر کام کرنےسےانکار کردیتا ۔ لیکن اپنےاس دوست کی دوستی کا لحاظ رکھتےہوئےجس کی معرفت بابو بھائی اس کےپاس آیا تھا ? اس نےوہ کام کرنا منظور کرلیا تھا ۔ اسےپتہ تھا بابو بھائی یا کوئی بھی جس طرح کا پلان منظور کرانےکےلئےمیونسپلٹی میں جائےگا تو دنیا کی کوئی بھی میونسپلٹی اس پلان کو منظور نہیں کرسکتی ہے۔ اسےپلان بنانےکا معاوضہ تو مل ہی جائےگا پھر پلان منظور ہو یا نہ ہو اسےاس بات سےکیا لینا دینا ہے۔ زیادہ سےزیادہ اسےصرف ایک کام نہیں ملےگا وہ کام عمارت کی تعمیر کےلئےرہنمائی کرنےکا ۔ اگر وہ کام اسےنہ بھی ملےتو اس کی صحت پر کوئی اثر پڑنےوالا نہیں تھا ۔ ویسےبھی اس کےپاس اتنا کام تھا کہ وہ اور کام لےکر ذہن کا سکون اور چین کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئےاس نےبابو بائی کےکہنےکےمطابق بسیرا کا پلان بنا کر اس کےحوالےکردیا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسےپتہ چلا کہ بسیرا کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا اور تعمیر کا کام شروع ہوگیا اور بابو بھائی نےاس تعمیر میں رہنمائی کےلئےاسےہی پسند کیا ہے۔ وہ پلان کس طرح منظور ہوا ؟ اسےاس بات پر حیرت ہورہی تھی ۔ اس نےمیونسپلٹی سےمنظور شدہ پلان کی ایک کاپی بابو بھائی سےمانگی تو بابو بھائی نےاس سےصاف کہہ دیا ۔ ? روِش بھائی ! تم کو اس بات سےکیا لینا دینا ? تم تعمیر کےلئےرہنمائی کرو ۔ ? ویسےبھی وہ بابو بھائی سےالجھنا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ بابو بھائی کو اچھی طرح جانتا تھا اور اس کےدوست نےبھی اسےسمجھایا کہ وہ بابو بھائی سےکبھی نہ الجھے? وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ خاص طور پر اپنےساتھ الجھنےوالوں کو کبھی نہیں بخشتا ہے۔ اس لئےاس نےبابو بھائی سےالجھنا چھوڑ کر اپنا کام شروع کردیا ۔ وہ روزانہ جس جگہ بسیرا تعمیر ہورہا تھا وہاں جا کر معماروں کو مختلف ہدایتیں دیتا ۔ کبھی اس کی ہدایتوں پر عمل کیا جاتا تو کبھی اس کی ہدایتوں کو نظر انداز کرکےاپنی مرضی سےکام کیا جاتا ۔ وہ جب بھی اس طرح کا کوئی کام دیکھتا اپنا سر جھٹک دیتا اور یہ سوچتا ۔ ? اگر عمارت میں کوئی خامی رہ گئی تو اسےمیونسپلٹی کا انجنیئر پاس ہی نہیں کرےگا ۔ میں اس وقت بابو بھائی کو بتا و�?ں گا کہ اس کےذمہ دار وہ اور اس کےمعمار ہیں جنہوں نےاس کی بات نہیں مانی تھی ۔ ? بابو بھائی نےقریب ہی بابو کنسٹرکشن کےنام سےایک آفس کھول لیا تھا ۔ اس آفس میں بسیرا میں دوکانیں اور مکانات خریدنےوالوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ کام تیزی سےہورہا تھا اور بابو بھائی تیزی سےدوکانوں اور مکانوں کا پیسہ بھی وصول کررہا تھا ۔ اگر کسی کی قسط دو تین دن بھی لیٹ ہوجاتی تو وہ اسےاس دوکان یا مکان سےبےدخل کردینےکی دھمکی دیتا ۔ اس سےڈر کر بعد میں وہ آدمی اور دوسرےلوگ وقت پر قسطیں ادا کرتے۔ بسیرا کی تعمیر کچھ مقاموں پر بہت اچھی اس کی ہدایت کےمطابق ہورہی تھی تو اور جگہوں پر نہیں اس کی وجہ سےاسےیقین ہوگیا تھا کہ عمارت پختہ نہیں بنےگی ۔ جہاں خرچ زیادہ ہونےکا اندیشہ تھا وہاں خراب کام کرکےخرچ بچایا جا رہا تھا ۔ جہاں کم خرچ میں اچھا کام ہوسکتا تھا وہاں اچھا کام کیا جارہا تھا ۔ عمارت کےجو فلیٹ اور دوکانیں تعمیر ہوگئیں تھیں ان کی پوری قیمت وصول کرکےبابو بھائی نےفراخدلی کا ثبوت دیتےہوئےوہ دوکانیں اور مکان ان کےمالکوں کےحوالےکردئےتھے۔ یہ کہتےہوئےکہ وہ لوگوں کا نقصان نہیں چاہتا ہے۔ کام تو چلتا رہےگا ۔ ضرورت مند یہاں آکر رہ سکتےہیں یا اپنا بزنس شروع کرسکتےہیں ۔ اس وجہ سےبہت سےلوگ آکر وہاں رہنےبھی لگےتھے۔ او رکئی لوگوں نےاپنی دوکانیں بھی شروع کردی تھیں ۔ جس شخص کی زمین پر بسیرا تعمیر ہوئی تھی بابو بھائی نےنہ تو اس شخص سےوہ زمین خریدی تھی نہ اس سےاس زمین پر عمارت بنانےکےلئےکوئی معاہدہ کیا تھا ۔ بابو بھائی نےجو معاہدےکی نقل لوگوں کو بتائی تھی جس کی رو سےاس نےاس زمین پر تعمیر کا کام شروع کیا سراسر جھوٹا تھا ۔ اس کا بنایا پلان نہ تومیونسپلٹی میں داخل کیا گیا تھا نہ اس پلان کی منظوری لی گئی تھی ۔ نہ عمارت کی تعمیر کےلئےمیونسپلٹی سےقانونی طور پر منظوری لی گئی تھی ۔ اپنےرسوخ اور پیسہ کی طاقت پر بابو بھائی نےمتعلقہ محکمہ کےافسران کو خرید کر اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ جب تک وہ عمارت پوری تعمیر نہیں ہوجاتی اور وہ اس عمارت کےخریداروں سےپوری قیمت وصول نہیں کرلیتا وہ آنکھ بند کئےبیٹھےرہیں گے۔ وہ بابو بھائی کی پوری رقم کی وصولی کےبعد جو چاہےوہ کاروائی کرسکتےہیں ۔ اور انہوں نےکاروائی کی ۔ عمارت کو غیر قانونی تعمیر قرار دےکر ڈھا دیا ۔ کل جہاں پر ایک بہت بڑی عمارت زیر تعمیر تھی ۔ میونسپلٹی کی کاروائی کےبعد وہ جگہ ملبےکا ڈھیر بن گئی ۔ میونسپلٹی کےغیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنےوالےدستےنےبسیرا کو منہدم ہوجانےکےبعد فرض شناسی کےلئےواہ واہی لوٹی ۔ بسیرا منہدم ہوجانےکےبعد بھی بابو بھائی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ وہ تو سارےپیسےوصول کر کرےکروڑوں کما چکا تھا ۔ برباد تو وہ لوگ ہوئےجنہوں نےبسیرا میں مکان اور دوکانیں خریدی تھیں ۔ وہ لوگ کس کےپاس فریاد لےکر جائیں کہ ان کےساتھ کتنا بڑا دھوکہ ہوا ہے? نقب زنی ہوئی ہےاور کس طرح دیدہ دلیری سےان کی زندگی بھر کی گاڑھےپسینےکی کمائی کو لُوٹا گیا ہے۔ انہیں لُوٹنےوالےڈاکوو�?ں میں اگر بابو بھائی سرِ فہرست ہےتو وہ شخص بھی شامل ہےجس کی زمین پر اتنےدنوں تک اتنی بڑی عمارت تعمیر ہوتی رہی اور وہ چپ چاپ تماشائی بنا رہا ۔ میونسپلٹی اور میونسپلٹی کا وہ عملہ بھی شامل ہےجو ایک غیر قانونی عمارت کو تعمیر ہوتےدیکھتا رہا ۔ اور اس کےساتھ وہ بھی شامل ہے۔ جس نےایک غیر قانونی پلان بنایا اور پلان بنانےسےپہلےاس بات کی تصدیق نہیں کی کہ زمین مالک اور بلڈر کےدرمیان عمارت کی تعمیر کےلئےکوئی معاہدہ یا خرید و فروخت ہوئی یا نہیں ۔ تمام اصولوں کو مدِّنظر رکھ کر پلان نہیں بنایا ۔ ایک غیر قانونی عمارت کا پلان بنا ۔ اور اپنےنام کی وجہ سےکئی لوگوں کو دھوکہ دےکر برباد کردیا ۔ ll


== ==


Urdu Short Story

Matoob


By M.Mubin





اس بازار سےگزرتےہوئےاس کےقدم لڑکھڑارہےتھے۔ اسےخدشہ محسوس ہورہا تھا یہاں اس کےساتھ وہی ہوگا جو ابھی تک اس کےساتھ ہوتا آیا ہے۔ وہ اس طرف جانےسےکترا رہا تھا ۔ اس نےبہت کوشش کی کہ اسےاس طرف جانےکی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ لیکن وہ اس طرف جانےکو ٹال نہیں سکا ۔ خیال آیا کہ رکشہ یا کسی سواری کےذریعہ اس بازار سےگزر جائے۔ لیکن وہ جس دور سےگذر رہا تھا ان حالات میں وہاں سےگذرنےکےلئےاسےسواری کرنےکی استطاعت نہیں تھی ۔ اس کےایک دوست کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا ۔ اس کا وہ دوست اسی کےساتھ کام کرتا تھا ۔ دونوں کےبہت قریبی تعلقات تھےاس لئےاس دوست کی بیوی کےانتقال کی خبر سننےکےبعد پرسہ دینےکےلئےاس کےگھر جانا بھی ضروری تھا ۔ وہ جانتا تھا دوست جہاں رہتا ہےاس راستہ میں وہ بازار پڑتا ہے۔ وہ ایک تنگ سڑک سی تھی جس کےدونوں طرف ہاکروں ? پھیری والوں نےاسٹال بنا رکھےتھے۔ ان چھوٹےچھوٹےلکڑی کےاسٹالوں پر ساری دنیا کی چیزیں بکتی تھیں ۔ ان اشیاءمیں کچھ غیر ملکی اشیاءبھی بکتی تھیں ۔ کچھ غیر ملکی اشیاءکی نقل جو اصل کےنام پر اصل کی آڑ میں بکتی تھیں ۔ اسٹالوں کی لمبائی چوڑائی بڑھتی ہی جاری تھی اور راستہ تنگ ہوتا جارہا تھا ۔ بڑی سواریاں تو اس سڑک سےگذر ہی نہیں سکتی تھیں ۔ دوسری سواریوں والےبھی اس راستےسےجانےسےکتراتےتھے۔ وہاں سےگذرنےکےلئےوہ دور کا لمبا راستہ پسند کرتےتھےاور اسی راستےکو ترجیح دیتےتھے۔ ہر راہگیر کو اس بازار سےتکلیف تھی ۔ ہر کوئی اس بازار کےخلاف آواز اٹھاتا تھا کہ اس بازار کی وجہ سےٹریفک میں خلل آتا ہےاور وہاں سےگذرنےمیں گھنٹوں لگ جاتےہیں ۔ اس لئےغیر قانونی بازار کو صاف کرکےٹریفک کی سب سےبڑی مشکل دور کی جائے۔ میونسپلٹی نےکئی بار اس بازار کو صاف کرنےکی کوشش کی تھی اس جگہ کو اجاڑنےمیں کئی دشواریاں پیش آئی تھیں ۔ بازار صاف بھی ہوا تھا لیکن دو دن کےبعد پھر بسنا شروع ہوا تھا اور آٹھ دن بعد پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا تھا ۔ اس بازار کےسارےہاکر اور دھندہ کرنےوالےغنڈہ قسم کےلوگ تھےان سےکوئی بھی الجھنےکی کوشش نہیں کرتا تھا ۔ وہ کئی بار ان سےالجھ چکا تھا ۔ لیکن وہ ان سےاس وقت الجھا تھا جب اس کےپاس قوت تھی ۔ اب اسےوہاں سےگذرنا ہے۔ اگر انہوں نےاسےپہچان لیا تو ؟ وہ لوگ اسےپہچان تو لیں گے۔ بھلا وہ اسےکس طرح بھول سکتےہیں ۔ پہلےوہ آسانی سےان کاسامنا کرلیتا تھا کیونکہ اس وقت اس کےپاس قوت تھی ۔ لیکن اب وہ کس طرح ان کا سامنا کرےگا ؟ بس یہی سوچ کر اس جگہ سےگذرتےہوئےاس کےقدم لڑکھڑا رہےتھے۔ آخر اس نےہمت کرکےطےکیا کہ وہ تیز تیز قدم بڑھائے۔ مگر وہی ہوا جس کا اسےخدشہ تھا ۔ ایک اسٹال والےکی نظر اس پر پڑی اور اس نےاسےپہچان لیا ۔ اور آوازیں لگانی شروع کردی ۔ ? ارےبھائیو ! دیکھو ? دیکھو ? ہمارےاس بازار میں کون آیا ؟ ہمارےاس بازار میں موپنار صاحب آئےہیں ۔ ? ? موپنار صاحب ! کہاں ہیں موپنار صاحب ؟ ? سب چونک پڑےاور پھر چاروں طرف سےان اسٹالوں پر دھندہ کرنےوالوں نےاسےگھیر لیا ۔ ? نمستےموپنار صاحب ! ? ? کہیئےکیسےآنا ہوا ؟ کیا دوبارہ ہمارےاسٹال توڑنےکےلئےآئےہیں ? ارےآپ کےساتھ آپ کےوہ کمانڈو باڈی گارڈ دکھائی نہیں دےرہےہیں ۔ نہ آپ کےہاتھ میں وہ پستول ہےجو سرکار نےآپ کو اپنی حفاظت کےلئےہم معصوموں پر گولیاں چلانےکےلئےدی تھی ۔ آپ کےساتھ آپ کا وہ وحشی خونخوار دستہ بھی نہیں ہےجو آن کی آن میں ہماری زندگی بھر کی کمائی یہ اسٹال اور ہماری روزی روٹی تہس نہس کردیتا تھا ۔ آج کس کےسہارےہماری روزی چھیننےآئےہیں ؟ ? ? ارےآج یہ ہماری روزی کیا چھینےگا ؟ اس کی روزی تو کبھی کی چھینی جا چکی ہی۔ اب یہ صاحب نہیں ہےآفیسر نہیں ہےایک معمولی آدمی ہے۔ اسےاس کےعہدےسےہٹا دیا گیا ہے۔ یہ معطل ہےکچھ دنوں میں نکال بھی دیا جائےگا سالےنےہم پر بہت ظلم ڈھائےہیں ۔ آج موقع ہاتھ آیا ہےچاہو تو اس سےاس کےایک ایک ظلم کا حساب لےلو ۔ اس کی مدد کو کوئی نہیں آنےوالا ۔ ? ? ارےیار ! مرےہوئےکو کیا مارنا یہ تو پہلےہی مارا جا چکا ہے۔ یہ سرکاری آفیسر ہیں ناں ? ان کا عہدہ ? ان کی کرسی ان کی زندگی ہوتی ہے۔ اسی عہدے? کرسی کا وہ دل کھول کر ناجائز استعمال کرتےہیں ۔ لیکن اس کرسی سےہٹتےہی ان کی زندگی کتوں سےبدتر ہوجاتی ہے۔ یہ موپنار بھی اب ایک کتےسےزیادہ نہیں ہے۔ سڑک کا ایک آوارہ کتا جسےجو چاہےمار سکتا ہے۔ ? ? ارےجاو�? ! ہاجرہ خالہ کو بلا کر لاو�? ۔ اس سےکہنا تمہارےبیٹےکا قاتل آیا ہے۔ بیٹےکی موت کےغم میں بےچاری پاگل ہوگئی ہے۔ اپنےمعصوم بیٹےکےقاتل کو موت کی نیند سلا کر شاید اسےسکون مل سکے۔ ? چاروں طرف سےآوازیں آرہی تھیں اور اس کا سارا جسم خوف سےکانپ رہا تھا ۔ جسم کےکپڑےپسینےمیں تر ہورہےتھے۔ آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھا رہا تھا ۔ اسےاپنی موت اپنےسامنےرقص کرتی محسوس ہورہی تھی ۔ سچ مچ اس نےان لوگوں کےساتھ جو کیا تھا ۔ یہ لوگ اس وقت آسانی سےاس کا بدلہ لےسکتےتھے۔ اسےموت کی میٹھی نیند سلا کر ۔ سچ مچ اس وقت اس کی مدد کو کوئی بھی نہیں آنےوالا تھا ۔ اپنےانجام کےبارےمیں سوچ سوچ کر ہی اس کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا رہا تھا ۔ اچانک ایک بوڑھی عورت بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگےبڑھی ۔ ? کہاں ہےمیرےبیٹےکا قاتل ? کہاں ہےمیرےبیٹےکا قاتل ؟ ? ? خالہ ! یہ ہےتمہارےبیٹےکا قاتل ۔ بہت دنوں کےبعد ہاتھ آیا ہے۔ آج تم اس سےاپنےبچےکی موت کا بدلہ لےسکتی ہو ۔ ہم تمہارےساتھ ہیں ۔ ? ? ارےظالم ! تجھےمیرےمعصوم اکلوتےبیٹےکو مار کر کیا ملا ? کیا بگاڑا تھا اس نےتیرا ? تیری اس سےکیا دشمنی تھی ۔ تجھےدشمنی ان پھیری والوں سےتھی ناں تو ان کو گولی مارتا ؟ میرا بیٹا تو پھیری نہیں کرتا تھا ........ ! وہ تو اسکول جاتا تھا اسکول ۔ وہ میری زندگی کا آخری سہارا تھا پھر تُونےکیوں اسےگولی ماری بول ? پھر تُونےاسےکیوں گولی ماری ؟ ? بڑھیا اس سےلپٹ گئی اور گریبان پکڑ کر جھنجھوڑنےلگی ۔ ? جا ........ ! تُونےمیری زندگی برباد کی ۔ خدا تیری بھی زندگی برباد کرےگا۔ میں تجھ کو بددعا دیتی ہوں ? تُونےمیری زندگی کا سکون چھینا ہے۔ تجھےزندگی بھر سکون نہیں ملےگا ? تُو زندگی بھر سکون کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائےگا ? جا چلا جا ۔ میری آنکھوں سےدور ہوجا ظالم ? میری آنکھوں سےدور ہوجا ۔ ? یہ کہتی ہوئی بڑھیا روتی ہوئی واپس بھیڑ میں گم ہوگئی ۔ ? ارےاس کےساتھ کیا ? کیا جائے؟ ہاجرہ خالہ نےتو اسےچھوڑ دیا ۔ ? ? ارےجس کی زندگی اس نےچھین لی اس نےاسےچھوڑ دیا ۔ تو ہماری حیثیت ہی کیا ۔ اس نےتو جتنی بار ہمیں اجاڑا ہم آباد ہوگئے۔ پھر ہم اس سےکیا بدلہ لیں ۔ میرےخیال میں اسےچھوڑ دیا جائے۔ ? کوئی بولا ۔ ? ہاں ! ہاں ۔ اسےاس کےحال پر چھوڑ دیا جائے۔ ? کہہ کر بھیڑ ایک طرف ہٹ گئی ۔ ? جائیےموپنار صاحب ! جہاں جانا ہےبےخطر جائیے۔ ? کوئی بولا ۔ چھٹتی بھیڑ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی ۔ اس نےاپنےماتھےپر آئےپسینےکو صاف کیا ۔ پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پایا اور پھر تیز تیز قدموں سےآگےبڑھ گیا ۔ جہاں تک ان لوگوں اور اس علاقےکا تعلق تھا۔اپنی دانست میں اس نےاس جگہ کےلئےسب سےزیادہ ایمانداری اور دیانت داری سےاپنےفرض کو ادا کیا تھا ۔ بار بار اپنےدستےکےذریعہ اس نےاس علاقےکےاسٹال توڑےتھےانہیں اجاڑا تھا ۔ بار بار یہ لوگ دوبارہ اسٹال بناتےاور ہر بار یہ انہیں اجاڑتا ۔ اس جگہ ایک بار اس پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا ۔ ظاہر سی بات ہےجس کی زندگی لٹ رہی ہو بدلےمیں وہ اس کےعلاوہ کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس کی زندگی کو درپیش خطرےکو دیکھتےہوئےسرکار نےاسےپستول اور دو باڈی گارڈ اور بےشمار پولس دی تھی ۔ ایک بار اس جگہ اپنی حفاظت کےلئےاس نےگولی چلائی اور اس گولی سےاس پر حملہ کرنےوالا تو نہیں مرسکا ۔ مر گیا ایک معصوم بچہ ۔ جو اس بوڑھی ہاجرہ کا تھا ۔ اس کی گولی سےایک بچہ مرا ہےاسےاس کا احساس تھا ۔ اس کےعلاوہ اس نےکبھی اس سےزیادہ سوچا بھی نہیں تھا ۔ لیکن اس موت کےاتنےخوفناک اثرات ہونےہوں گےاس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ سرکار نےتو اس بچےکےمرنےپر اس کےخلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی تھی ۔ ہر کسی نےاس کو بےگناہ معصوم قرار دیا تھا ۔ ہر کسی کا کہنا تھا کہ اس نےاپنےفرض کو ادا کرتےہوئےاپنی حفاظت کےلئےگولی چلائی ہے۔ اسےاپنی حفاظت کےلئےگولی چلانےکا حق ہے۔ سرکار اس سلسلےمیں اس کےخلاف کاروائی نہ کرے۔ اس کی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازوں سےزیادہ اس کی حمایت میں اٹھنےوالی آوازیں بلند تھیں ۔ اس لئےاس کی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازیں دب کر رہ گئیں ۔ اپنےدوست کو پرسہ دےکر جب وہ گھر آیا تو رات بھر چین سےسو نہیں سکا ۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا ۔ نیند اس کی آنکھوں سےغائب رہی ۔ وہ اس رات اپنےاوپر مسلط عذاب کو کچھ زیادہ ہی شدت سےمحسوس کررہا تھا ۔ آج وہ بچ گیا ۔ ممکن تھا آج ان بپھرےہوئےلوگوں کےہاتھوں اس کی موت ہوجاتی ۔ یا بوڑھی جس کا جوان بیٹا اس کےہاتھوں مارا گیا ہےبدلےمیں اس کی جان لےلیتی ۔ اگر وہ بھیڑ چاہتی تو بدلےمیں اسےمار مار کر ادھ مرا ضرور کرسکتی تھی ۔ آج وہ بچ گیا ۔ لیکن آخر اس طرح کب تک بچتا رہےگا ؟ کیا اس کی قسمت میں اس طرح کسی دن کسی کےہاتھوں ہلاک ہونا لکھا ہے؟ لیکن آخر اسےیہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ آج ساری دنیا اس کی دشمن کیوں ہے؟ اس نےجو کچھ کیا اپنا فرض نبھاتےہوئےکیا تھا ۔ لیکن اس فرض کےنبھانےنےاس زمانےکو اس کا دشمن بنا لیا ہے۔ ابھی پرسوں کی بات ہے۔ ایک بلڈر نےاسےدھر لیا تھا ۔ ? موپنار صاحب ! یاد ہےآپ نےمیری پوری بلڈنگ کو غیر قانونی قرار دےکر توڑ دیا تھا ? کیا ہوا ؟ میری وہ بلڈنگ تو دوبارہ بن گئی ۔ میں نےاس بلڈنگ میں پہلےسےزیادہ پیسہ کما لیا ہےنقصان کس کا ہوا ؟ آپ کا ہی ہوا ناں ؟ میں نےتواس بلڈنگ کو نہ توڑنےکےلئےآپ کو لاکھوں روپےکا آفر دیا تھا اور آپ نےاسےٹھکرا دیا تھا ۔ اگر آپ وہ آفر نہ ٹھکراتےتو فائدہ آپ کا ہی ہوتا ۔ دیکھئےمیں بڑا دل والا ہوں ۔ میں نےآپ کو معاف کردیا لیکن کئی لوگ آپ کو معاف نہیں کرسکتےجن کی عمارتیں آپ نےتوڑی ہیں ۔ وہ بدلےکی آگ میں سلگ رہےہیں ۔ اب تک انہوں نےآپ کےخلاف کوئی قدم اس لئےنہیں اٹھایا تھا کیونکہ آپ ایک بڑےسرکاری عہدےپر تھے۔ آپ کےساتھ پوری سرکاری مشنری تھی ۔ لیکن آج تو آپ کا سایہ بھی آپ کےساتھ نہیں ہےجس سرکار کےلئےآپ نےیہ سب کیا اس نےآپ کی حفاظت کےلئےایک پولس کا سپاہی بھی نہیں دیا ہے۔ وہ لوگ بدلےکی آگ میں جل رہےہیں اور وہ آپ سےبدلہ لینےکےلئےکبھی بھی آپ کو کتےکی موت مار سکتےہیں ۔ اس لئےمیرا آپ کو مشورہ ہےاگر آپ اپنی زندگی بچانا چاہتےہیں تو یہ شہر چھوڑ کر چلےجائیں ۔ اپنےگاو�?ں جاکر گمنامی کی زندگی اختیار کرلیں اسی میں آپ کی بھلائی ہے۔ جس نوکری سےآپ کو معطل کیا گیا ہےوہ نوکری آپ کو اب ملنےوالی نہیں ہے۔ بلکہ سرکار تو آپ کےخلاف اقدامات کی فہرست تیار کر رہی ہےاور ممکن ہےکہ ان الزامات کو ثابت کرکےزندگی بھر کےلئےآپ کو جیل کی کالی کوٹھری میں بھیج دے۔ اس لئےآپ کی بھلائی اسی میں ہےکہ نوکری سےاستعفیٰ دےدیں اور سارےمعاملےکو ختم کردیں ۔ اس بلڈر کی بات بھی درست تھی ۔ شہر کےکئی خونخوار بلڈر اس کےخون کےپیاسےتھےوہ کبھی بھی اس سےبدلہ لےسکتےتھے۔ اور کل تک سرکار نےاس کےجن کاموں کو فرض قرار دیا تھا آج انہیں جرم قرار دےکر اسےمجرم ثابت کرنےکی کوشش کررہی ہے۔ کچھ سیاسی لیڈروں نےاس کےعہدےکا فائدہ اٹھا کر اس پر سیاسی دباو�? ڈال کر کچھ ایسی بلڈنگیں تڑوائی تھیں جو قانونی تھیں ۔ آج ان قانونی بلڈنگوں کو توڑنےکےالزام میں اس پر مقدمہ چلانےکےلئےاسےگرفتار کرنےکی تیاریاں کی جارہی تھیں ۔ اس نےاپنےعہدےپر رہتےہوئےاپنی مرضی سےکام کم دوسروں کےحکم اور دباو�? میں زیادہ کام کئےتھے۔ کسی سیاسی لیڈر کا حکم آتا ۔? اس غیر قانونی بلڈنگ کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے۔ ? اور وہ کاروائی نہیں کرتا ۔ کبھی کسی کا حکم آتا ۔ ? اس شخص کی بلڈنگ توڑدی جائےچاہےوہ قانونی ہو یا غیر قانونی ۔ ? وہ توڑ دیتا ۔ کوئی سیاسی آقا اسےحکم دیتا ۔ ? جاو�? آج اس علاقےکو تاراج کردو ۔ ? وہ اپنےدستےکےساتھ جاکر اس علاقےکو تاراج کردیتا ۔ وہی سیاسی آقا اسےحکم دیتا ۔ ? اس علاقےمیں قدم بھی نہیں رکھنا ۔ ? وہ چاہتےہوئےبھی اس علاقےکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا ۔ اس سیاسی آقا کےلئےاس کےدل میں ہمدردی تھی اور اس کےاشارےپر وہ ہر کام کرتا تھا ۔ چاہےوہ غلط ہو یا صحیح ۔ جائز ہو یا ناجائز ۔ کبھی اس نےاس بارےمیں نہیں سوچا تھا ۔ آقا کا ہر حکم بجا لاتا تھا ۔ اور اس حکم کو بجالانےمیں اپنےرسوخ اور قوت کا بھرپور اور بےجا استعمال کیا تھا ۔ لیکن آج وہ سیاسی آقا بھی اس کی کسی طرح سےمدد کرنےکو تیار نہیں ہے۔ وہ خاموش ہےاور کبھی کبھی تو اسےگالیاں دینےلگتا ہے۔ وہ چاہتا تو اس سیاسی آقا کو بھی دنیا کےسامنےننگا کرسکتا تھا کہ اس کےاشارےپر اس نےکیسےکیسےگھناونےکام کئےہیں ۔ لیکن وہ مجبور تھا ۔ اس کےخلاف زبان بھی نہیں ہلا سکتا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اس آقا کی طاقت اتنی زبردست ہےکہ اس کےخلاف اس کےمنھ سےاگر ایک لفظ بھی نکلا تو اس کےچیتھڑےاڑجائیں گے۔ اسےایک سیای لیڈر کےخلاف منھ کھولنےکی سزا مل رہی تھی ۔ اس نےاس سیاسی لیڈر کےخلاف منھ کھولا تھا تو سچائی پیش کی تھی ۔ کوئی الزام نہیں لگایا تھا نہ اس پر تہمت لگائی تھی ۔ اور اس طرح کا بیان دیتےہوئےاس نےاپنی دانست میں ایک فرض ادا کیا تھا ۔ لیکن اس کا انجام کیا ہوا ؟ اس کی ہی مشنری اس کےخلاف حرکت میں آگئی ۔ اور اس کو چند وجوہات کا سہارا لےکر معطل کردیا گیا ۔ ا سکی ساری قوت اس کا عہدہ چھین لیا گیا ۔ اسےمفلوج کرکےگھر بھیج دیا گیا ۔ آج وہ اکیلا ہےکمزور ہے۔ اپنی خود کی حفاظت نہیں کرسکتا ۔ اس کےچاروں طرف اس کےدشمن ہیں ۔ جو دھیرےدھیرےاسےگھیر رہےہیں ۔ وہ اس کا کیا حشر کریں گےاس کا اسےاندازہ ہے۔ اس کا کوئی بھی ہم درد نہیں ہے? کوئی جھوٹی ہم دردی بھی اس کےساتھ جتانےکےلئےتیار نہیں ہے۔ اس کےاچھےکاموں کا کوئی بھی ذکر تک نہیں کرتا ۔ ہر کوئی اس کےظلم و ستم اور مظالم کا ذکر کرتا رہتا ہےاور اس کےفرائض کےانجام دینےکو بھی ظلم قرار دیتا ہے۔ اسےنوکری سےمعطل کردیا گیا ہے۔ اس نوکری کو دوبارہ حاصل کرنےکےلئےوہ لڑ رہا ہے۔ لیکن اسےخود یقین ہوچلا ہےکہ اب دوبارہ اسےوہ نوکری ? وہ عہدہ اور وہ قوت نہیں مل سکتی ۔ اور جو الزامات اس پر لگا کر اس کےخلاف جو چارج شیٹ تیار کی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہےاس سےاسےسزا بھی ہوجائے۔ یہ سب اس کےساتھ کس لئےہورہا ہے؟ صرف اس لئےکہ اس نےپوری ایمان داری اور دیانت داری سےاپنا فرض انجام دیا تھا ۔ صرف اس لئےکہ اس نےاپنےسیاسی آقاو�?ں کو خوش کرنےکےلئےاپنےعہدےکا ہر طرح سےجائز و ناجائز استعمال کیا تھا ۔ اور جو انہوں نےچاہا تھا وہ کرکےدکھایا تھا ۔ آج وہی آقا اس کےخلاف ہیں اور اسےسزا دلانےکےلئےکوشاں ہیں ۔ کل تک وہ سب کےلئےعتاب تھا ۔ جس پر چاہتا تھا عذاب بن کر نازل ہوتا تھا ۔ آج و ہ خود معتوب ہے۔ ہر عذاب اس پر گر رہا ہے۔ وہ کئی عذابوں میں مبتلاہے۔ ll

Urdu Short Story

Chhat


By M.Mubin




گھر آکر اس نےکپڑےاتارےبھی نہیں تھےکہ نسرین نےدبےلہجےمیں آواز لگائی ۔ ? پانی آج بھی نہیں آیا ۔ گھر میں پینےکےلئےبھی پانی نہیں ہے۔ ? نسرین کی بات سنتےہی جھنجھلا کر غصےسےاس نےنسرین کی طرف دیکھا پھر بےبسی سےپلنگ پر بیٹھ گیا ۔ ? اتنا بھی پانی نہیں ہےکہ آج کا کام چل جائے؟ ? ? نہیں .... ! ? نسرین نےدھیرےسےجواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا ۔ ? اگر ایک کین بھی پانی مل جائےتو کام چل جائےگا ۔ کل پانی ضرور آئےگا ۔ اس وقت سامنےوالی آبادی میں پانی آتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کی دوسری عورتیں وہاں سےپانی لارہی ہیں ۔ ? ? دوسری عورتیں وہاں سےپانی لا رہی ہیں لیکن تم نہیں لا سکتیں کیونکہ تم ایک وائٹ کالر جاب والےآدمی کی بیوی ہو ۔ ? اس نےسوچا اور پھر دھیرےسےبولا ۔ ? ٹھیک ہےکین مجھےدو میں پانی لاتا ہوں ۔ ? آفس سےآیا تو اتنا تھک گیا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بستر پر لیٹ کر ساری دنیا سےبےخبر ہوجائے۔ لیکن نسرین نےجو مسئلہ پیش کیا تھا ایک ایسا مسئلہ تھا جس سےوہ دو دونوں سےآنکھ چرا رہا تھا ۔ اور اب اس سےآنکھ چرانا نا ممکن تھا ۔ اس گندی بستی کو جس پائپ لائن سےپانی سپلائی ہوتا تھا اس کا پائپ پھٹ گیا تھا اور تین دنوں سےنلوں میں پانی نہیں آرہا تھا ۔ شکایت کی گئی تھی لیکن جواب دیا گیا تھا کہ کام چل رہا ہے۔ کام ختم ہوجائےگا تو معمول سےایک گھنٹہ زیادہ پانی دیا جائےگا ۔ کام چیونٹی کی رفتار سےچل رہا تھا کب ختم ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اور کب پانی آئےگا کہا نہیں جاسکتا تھا ۔ جھونپڑ پٹی کا معاملہ تھا ۔ میونسپلٹی والےجھونپرپٹی والوں کو پانی سپلائی کرنےکی ذمہ داری نبھانےکےتابعدار نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی نظرمیں وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی ہے۔ اس جھونپڑ پٹی میں غیر قانونی ڈھنگ سےرشوت دےکر نل کےکنکشن دئےگئےہیں ۔ میونسپلٹی چاہےتو ان تمام کنکشنوں کو کاٹ کر پانی کی سپلائی بند کرسکتی ہے۔ لیکن انسانیت کےناطےاس بستی کو پانی سپلائی کررہی تھی ۔ اس لئےاس بستی کےلوگوںکو میونسپلٹی والوں کا شکر گذار ہونا چاہئے۔ قانون کی زبان میں بات کرنےکےبجائےعاجزی سےدرخواست کرنی چاہیئے۔ تب میونسپلٹی کےاعلیٰ افسران ان کی پریشانیوں کےبارےمیں سنجیدگی سےغور کریں گے۔ ہاتھ میں بیس لیٹر پانی کا کین لےکر وہ کرانتی نگر کی پرپیچ گلیوں سےہوتا سڑک پر آیا اور سڑک پار کرکےدوسری بستی میں ۔ اس بستی میں وہ کوئی ایسا نل تلاش کرنےلگا جہاں اسےپانی مل سکے۔ ہر نل پر بھیڑ تھی ۔ نلوں پر پانی بھرنےوالی زیادہ تر کرانتی نگر کی عورتیں ہی تھیں ۔ ایک نل پر اسےایک شناسا عورت دکھائی دی ۔ اس نےاس کا کین بھر دیا تو وہ کین اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑا ۔ بیس لیٹر کا کین اٹھا کر گھر کی طرف جانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ بار بار ہاتھ شل ہوجارہےتھےاور توازن بگڑ رارہا تھا ۔ بگڑتےتوازن سےایسا لگتا جیسےوہ گر پڑےگا ۔ جب بھی ایسی صورت حال اسےمحسوس ہوتی وہ جلدی سےکین ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں لےلیتا ۔ اس طرح شل ہوتےہاتھ کو بھی آرام مل جاتا اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ۔ خدا خدا کرکےوہ سڑک پار کرتا ہوا کرانتی نگر کی سرحد میں داخل ہوا ۔ اب اس کین کو گھر تک لےجانا سب سےبڑا امتحان تھا ۔ کرانتی نگر کی پر پیچ گلیاں ? جگہ جگہ بہتا گندی گٹروں کا پانی ، اونچےنیچےراستوں سےہوکر گذرنا کسی کرتب بازی سےکم نہیں تھا ۔ دل میں آیا کہ کین کو یا تو کاندھےپر رکھ لےیا پھر سر پر اٹھا لےلیکن خود اس بات پر شرماگیا کہ آس پاس کےلوگ اسےاس حالت میں دیکھیں گےتو ہنسیں گے۔ ? انور صاحب کین سر پر اٹھاکےپانی بھر رہےہیں ۔ ? اس لئےاس نےکین ہاتھوں میں لےجانا ہی مناسب سمجھا ۔ گندی گٹروں کےپانی اور اونچےنیچےتنگ راستوں پر وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہا تھا ۔ مگر ساری محنت بےکار گئی ۔ اچانک ایک جگہ اس کا پیر پھسلا اور ہاتھ میں بیس لیٹر کا کین تھا وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور دھڑام سےگر گیا ۔ جہاں وہ گرا تھا اس جگہ گٹر کا گندہ پانی ابل کر جمع ہوا تھا ۔ وہ سارا بدبودار گندہ پانی اس کےجسم اور کپڑوں سےلپٹ گیا ۔ گرتےگرتےاس نےکین کو بچا لیا ۔ اس وقت وہ پانی اس کےلئےاپنی جان سےبھی زیادہ قیمتی تھا ۔ اس نےکین کو ایسےانداز میں اٹھائےرکھا کہ پانی نہ گرسکےاور وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ۔ واپس اٹھ کر اس نےپانی کا کین اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ جسمکیکئیحصوں پرزخم آئےتھےاوروہ زخم انگارےبنےہوئےتھےلیکن اس کےباوجود وہ کین اٹھائےآگےبڑھ رہا تھا ۔ آس پاس کےلوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس دیتےاور اندازہ لگالیتےکہ اس کےساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوش تھا ۔ اسےاتنا پانی تو مل گیا کہ آج کا کام چل جائےگھر آکر اس نےکپڑےبدلےاور نہانےکےلئےبیٹھا تو یاد آیا کہ اس کےنہانےکےلئےپانی کہا ںہے۔ کفایت شعاری کا ثبوت دیتےہوئےاس نےایک دو لیٹر پانی سےاپنےجسم پر لگی گندگی صاف کی ۔ رات میں اس پر دوہرا عذاب مسلط تھا ۔ گرنےکی وجہ سےاس کےجسم پر جو خراشیں اور زخم آئےتھےوہ درد کررہےتھےاور بجلی بھی نہیں تھی ۔ گھر بھٹی بنا ہوا تھا ۔ ہاتھوں سےپنکھا جھل کر وہ اور نسرین گرمی دور کرنےکی کوشش کر رہےتھےلیکن پھر بھی آرام نہیں مل رہا تھا ۔ گھبرا کر وہ دروازےکےباہر چادر بچھا کر لیٹ گیا ۔ باہر اسےاندر کی بہ نسبت تھوڑا آرام محسوس ہوا ۔ لیکن پاس کی گٹر کی بدبو اس کا دماغ پھاڑ رہی تھی اور بھنبھناتےمچھر اسےکاٹتےتو اس کےمنھ سےسسکی نکل جاتی ۔ بجلی کب آئےگی کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا بجلی کےبنا نیند نہیں آئےگی ۔ کل ڈیوٹی جانا ہے۔ اگر وہ ٹھیک طرح سےسو نہیں سکا تو بھلا پھر ڈیوٹی کس طرح انجام دےگا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ اکثر آدھی رات کو بجلی چلی جاتی تھی اور اسےاسی عذاب کو برداشت کرنا پڑتا تھا جس عذاب میں وہ اس وقت مبتلا تھا ۔ آنکھوں میں ساری رات گذرجاتی تھی ۔ لیکن بجلی نہیں آتی تھی ۔ سویرا ہوجاتا تو ڈیوٹی پر جانےکی تیاریاں کرنی پڑتی ۔ آنکھیں نیند سےبوجھل ہوتیں لیکن سو نہیں سکتےتھےکیونکہ ڈیوٹی جانا تھا ۔ آفس آتا تو نیند سےپلکیں بوجھل ہونےلگتیں ? کوئی کام نہیں ہوتا اور غلط سلط کام ہوتےتو باس کی ڈانٹیں سننی پڑتیں ۔ نسرین نےویسےتو اس سےکبھی سوال یا شکایت نہیںکی تھی کہ اس نےکرانتی نگر میں ہی گھر کیوں لیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی مجبوری جانتی تھی ۔ اسےموجودہ حالات میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں گھر مل ہی نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں اور گھر لینےکی مالی استطاعت نہیں تھی ۔ کبھی سوچتا کہ اس نےشادی کرنےمیں جلدی کرکےغلطی کی کرانتی نگر میں گھر لےکر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ شادی دیر سےکرتا تو ان پریشانیوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا۔ نوکریملی تو سب سےپہلا مسئلہ ایک چھت کا پیدا ہوا ۔ ایک چھت کی شدت سےضرورت محسوس ہوئی جس کےنیچےسر چھپا سکے۔ دو چار دن اِدھر اُدھر گذار کر چھت کی تلاش شروع ہوئی ۔ اسےمحسوس ہوا نوکری اسےجتنی آسانی سےمل گئی تھی چھت اسےاتنی آسانی سےملنی ممکن نہیں تھی ۔ شہر میں اس کی طرح ہزاروں لاکھوں لوگ چھت کےمتلاشی ہیں اور وہ چھت کےلئےہزاروں لاکھوں روپےدینےکو تیار ہیں ۔لیکن اس کی استطاعت کےمطابق کرانتی نگر میں ہی چھت مل سکی ۔ کرانتی نگر ایک جھونپڑپٹی تھی ۔ کسی کی زمین پر ایک دادا نےناجائز قبضہ کرکےلکڑی کےٹکڑوں ، پتروں سےکئی جھونپڑےبنائےتھےاور انہیں کرائےپر دےرکھا تھا اور ان کا کرایہ وصول کرتا تھا ۔ وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی تھی اور کبھی بھی ٹوٹ سکتی تھی ۔ لیکن داو�?د بھائی کا کہنا تھا کہ میں گذشتہ پانچ سالوں سےیہاں رہ رہا ہوں اور پانچ سالوں سےسن رہا ہوں کہ جھونپڑپٹی ٹوٹنےوالی ہےمگر ابھی تک نہیں ٹوٹ سکی اور اب مجھےیقین ہےآئندہ دس سالوں تک یہ جھونپڑپٹی نہیں ٹوٹ سکتی ۔ اس نےکرانتی نگر میں کھولی داو�?د بھائی کےذریعےحاصل کی تھی ۔ داو�?د بھائی کی کرانتی نگر میں کرانےکی دوکان تھی کسی نےاس سےکہا تھا کہ اگر اسےکرانتی نگر میں کھولی چاہیئےتو داو�?د بھائی سےمل لینا وہ سب کچھ کردیں گے۔ وہ داو�?د بھائی سےملا اپنا تعارف کرایا اور اپنا مسئلہ پیش کیا ۔ ? آپ اس علاقےمیں روم چاہتےہیں ? روم تو مل جائےگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقہ آپ کےلئےمناسب نہیں ہے۔ میں آپ کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں ۔ مجھےعلم ہےآپ کس مجبوری کےتحت اس جھونپڑپٹی میں کھولی لےرہےہیں ۔ آپ جیسےکئی لوگ اس سےقبل اسی مجبوری کےتحت یہاں سال دو سال رہ کر گئےہیں ۔ سال دو سال میں ان کےپاس پیسہ جمع ہوگیا انہیں اچھی جگہ اس سےاچھا روم مل گیا پھر وہ یہ بستی چھوڑ کر چلےگئے۔ انور بھائی آپ گھبرائیےنہیں ۔ آپ بھی ایسا کیجئے۔ ابھی وقتی طور پر یہ روم لےلیجئے۔ بعد میں اس سےاچھا روم مل جائےگا تو اسےچھوڑ دیجئے۔ ? دس ہزار روپےڈپازٹ اور ڈھائی سو روپےمہینہ پر اسے٢١x٠١ کا ایک کمرہ ملا جس کی چھت پترےکی تھی ۔ نل اور بجلی کا اس میں انتظام تھا ۔ دس ہزار روپےاس نےگھر والوں سےقرض کےطور پر حاصل کئےاور کمرہ لےلیا وہ کمرہ لےکر وہاں رہنےلگا تو اسےوہاں پر کچھ بھی اجنبی نہیں لگا۔ ویسےبھی وہ سویرےجو آفس جاتا تو شام کو ہی گھر آتا تھا ۔ اپنی چھت کےنیچےسر چھپانےکےلئے۔ دن بھر وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسےکچھ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ رات میں کبھی کبھی آس پاس کےلوگوں کےساتھ ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر بستی کی خیر و خبر معلوم کرلیتا ۔ یا بستی میں ہونےوالےجھگڑوں کو تماشائی بن کر دیکھ لیتا تھا ۔ کبھی پانی کی گٹر پر سےبھیکو اور چندو کا جھگڑا ہوگیا ۔ کبھی بھولو دتا رام سےبلاوجہ الجھ گیا ۔ کبھی دشرتھ رات میں شراب پی کر آیا اور اس نےساری بستی کو سر پر اٹھا لیا ۔ کاشی رام کی بیوی کو جادھو نےچھیڑا تھا اس لئےغصےمیں کاشی رام نےجادھو کو استرا مار دیا۔ دھوترےکی بیوی اپنےسےدس سال چھوٹےلڑکےکےساتھ بھاگ گئی ۔ واگھمارےکی بیوی کالو کےبستر میں رنگےہاتھوں پکڑی گئی ۔ شراب کےنشےمیں دھت اشوک سریش کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی کےساتھ زبردستی کرنےکی کوشش کی ۔ وہ ساری باتیں بڑی دلچسپی سےسنتا اور ان سےلطف اندوز ہوتا تھا ۔ اس کا اس جگہ دل لگ گیا تھا ۔ پھر گھر والوں کو اس کی شادی کی سوجھی اور وہ بھی شادی کےلئےتیار ہوگیا ۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ کب تک ہوٹل میں کھاتا رہےگا ۔ بیوی گھر آجائےگی تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائےگا اور اسےاس اجنبی شہر میں ایک ساتھی مونس و غمخوار بھی مل جائےگا ۔ شادی ہوگئی ۔ نسرین گھر میں آئی اور جیسےاس پر مسائل نےایک ساتھ حملہ کردیا ۔ شادی کےبعد اسےمعلوم ہوا تھا کہ بستی میں کبھی کبھی تین تین دنوں تک پانی نہیں آتا ہے۔ اور بستی کےلوگو ںکو پانی کےلئےمارےمارےپھرنا پڑتا ہے۔ مٹی کا تیل کتنی مشکلوں سےملتا ہے۔ اس سےتو اسٹو جلتا ہےجس پر کھانا پکتا ہے۔ اگر وہ نہ ملےتو اسٹو نہیں جل سکتا اور کھانا بھی نہیں پک سکتا تھا اور نمک لانےکےلئےداو�?د بھائی کی دوکان تک جانا پڑتا ہے۔ اگر تازہ سبزیاں چاہیئےتو سبزیاں لانےکےلئےشہر میں سبزی مارکیٹ تک جانا پڑتا ہے۔ سبزی مارکیٹ میں ہی تازہ سبزیاں ملتی ہیں ۔ کرانتی نگر میں جو سبزیاں ملتی ہیں وہ باسی اور مہنگی ہوتی ہیں ۔ اگر اچانک کوئی بیمار ہوجائےتو دن میں بھی کرانتی نگر میں ڈاکٹر نہیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر کےلئےشہر جانا پڑتا ہی۔ دن میں شرابی آوارہ بدمعاش گھروں میں گھس جاتےہیں اور گھر کی عورتوں کو چھیڑتےہیں ۔ غنڈےبدمعاشوں کی تلاش میں کبھی کبھی پولس بستی میں آتی ہےتو بستی کی عورتوں کےساتھ نازیبا برتاو�? کرتی ہے۔ ان تمام مسائل میں سےکچھ کےحل نکل آئےتھےکچھ کےحل باقی تھے۔ جب کبھی نسرین اسےبتاتی کہ آج ایک شرابی گھر میں گھس آیا تھا تو وہ سر سےپیر تک پسینےمیںنہا جاتا تھا ۔ اس کا حل تو نکل آیا تھا ۔ اس نےآس پاس کی عورتوں کو کہہ دیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ نسرین کا خیال رکھیں ۔ وہ اتنی مخلص تھیں کہ نسرین کی ایک آواز پر دوڑی آتی تھیں ۔ اس طرح نسرین کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔ زندگی کسی طرح طرح گذر رہی تھی کہ اچانک ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ۔ جس شخص کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکےوہ جھونپڑا بستی بسائی تھی ۔ اس کےغنڈےآکر لوگوں کو تنگ کرنےلگےکہ وہ لوگ جھونپڑےخالی کردیں ورنہ وہ ان کےساتھ سختی سےپیش آئیں گے۔ اس شخص نےشاید میونسپلٹی والوں کو بھی ہموار کردیا تھا ۔ اس لئےاکثر میونسپلٹی کےچھوٹےبڑےآفیسر ، ملازمین آکر بستی والوں کو دھمکیاں دیا کرتےتھےکہ وہ بستی خالی کردیں ۔ کیونکہ یہ ایک ناجائز بستی ہے۔ میونسپلٹی کبھی بھی آکر اس بستی کو بل ڈوزر سےمسمار کردےگی ۔ بستی میں زیادہ تر جاہل ان پڑھ لوگ تھے۔ جو قانون کی زبان نہیں سمجھتےتھےاور جو پڑھےلکھےتھےاس جھمیلےمیں پڑنا نہیں چاہتےتھے۔ اسےبھی فکر لاحق ہونےلگی کہ اگر کسی دن میونسپلٹی نےبستی توڑ دی تو اس کےدس ہزار روپےڈوب جائیں گےجو اس نےڈپازٹ کی صورت میں دئےہیں ۔ اس سلسلےمیں داو�?د بھائی سےبات کی تو داو�?د بھائی نےاسےسمجھایا ۔ ? دیکھئےآپ کو فکر کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔ جس شخص نےآپ سےڈپازٹ لیا ہےجو کرایہ وصول کرتا ہےاور جس نےیہ بستی بسائی ہےوہ بھی مانا ہوا غنڈہ ہے۔ زمین کےمالک کےچھوڑےہوئےغنڈوں سےوہ نپٹ لےگا ۔ جہاں تک میونسپلٹی والوں کا سوال ہےان کو اس طرح کی قانون کی زبان استعمال کرنےکا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جھونپڑپٹی نجی زمین پر آباد ہےسرکاری زمین پر نہیں ہے۔ اس لئےمیونسپلٹی اسےتوڑ نہیں سکتی پھر جس میونسپلٹی کےملازمین نےرشوت لےکر اس بستی کےنل کنکشن دئے۔ بجلی کےکنکشن دئےوہ قانون اور غیر قانون کی بات کس طرح کرسکتےہیں ۔ داو�?د بھائی کی بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی ۔ داو�?د بھائی نےتو یہاں تک کہاتھا کہ اگر آپ کو شک ہےتو آپ اپنےڈپازٹ کا پیسہ واپس لےکر کھولی خالی کردیں ۔ وہ کھولی خالی نہیں کرسکتا تھا ۔ کیونکہ دوسری جگہ گھر کا انتظام ناممکن تھا اس کےپاس اتنا پیسہ نہیں تھا ۔ پھر وہ اپنےآپ کو اس چھت کےنیچےبہت محفوظ سمجھتا تھا ۔ وہ اپنےلئےاتنی جلدی دوسری چھت کا انتظام نہیں کرسکتا تھا پھر بھلا یہ چھت کس طرح چھوڑ سکتا تھا ۔ ان مسائل کو دیکھتےہوئےاس نےطےکر لیا تھا کہ وہ اب جلد ہی یہ جگہ چھوڑدےگا ۔ یہ جگہ اس کےجیسےشریف آدمی کےلائق نہیں ہے۔ اس نےدوسری جگہ تلاش کرنی شروع بھی کردی تھی اور پیسو ں کا انتظام کرنا بھی شروع کردیا تھا ۔ ایک رات ایک شور سن کر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اچانک گھبرا گئے۔ انہیں لگا جیسےان کا کمرہ جہنم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ وہ گھبرا کر جب باہر آئےتو انہوں نےدیکھا کہ پوری بستی شعلوں میں گھری ہوئی ہےلوگ اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہےہیں ۔ اپنی متاع زندگی کو آگ سےبچانےکی کوشش کررہےتھے۔ آگ بڑھتی جارہی ہے۔ کیونکہ بستی کےمکان کچےتھےاس لئےاس آگ کو بڑھنےسےکوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ آگ بجھانےکےلئےفائر بریگیڈ کو فون کیا گیا تھا۔لیکن اس کا بھی نام و نشان نہیں تھا ۔ شاید یہ بھی آگ لگانےوالوں اور فائر بریگیڈ کی ملی بھگت تھی ۔ آگ ان کےگھرکی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اس لئےانہوں نےاپنی متاع زندگی کو بچانےکی کوشش شروع کردی ۔ ابھی تھوڑا سا سامان ہی بچا پائےتھےکہ آگ نےان کےگھر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور دیکھتےہی دیکھتےان کا گھر جل کر خاک ہوگیا ۔ وہ دور میدان میں اپنا تھوڑا سا بچا ہوا سرمایہ �? حیات لئےبیٹھےتھے۔ سامنےپوری جلی ہوئی بستی دکھائی دےرہی تھی ۔ جس سےدھواں اٹھ رہا تھا ۔ وہ حسرت سےکبھی اس جلی ہوئی بستی کو دیکھتےتو کبھی آسمان کو ۔ ان کےسر کی چھت چھینی جا چکی تھی ۔ اب ان کےسر پر صرف آسمان کی چھت تھی ۔ ll

Urdu Short Story

Bulandi


By M.Mubin




کال بیل بجی ۔ دروازہ کھولنےپر سامنےکچھ ایسی صورتیں نظر آئیں جو دیکھنےسےہی ناگوار سی لگیں ۔ ? کیا بات ہے؟ ? میں نےاستفہامیہ نظروں سےان کی طرف دیکھا ۔ ? بھاو�? کا ہفتہ دو ؟ ? ? بھاو�?کا ہفتہ ........ ؟ میں سمجھا نہیں ۔ ? میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ ? نیا نیا یہاں رہنےکےلئےآیا ہےناں اس لئےادھر کےطور طریقےمعلوم نہیں ہیں ۔ ایک دو مہینےمیں سب معلوم ہوجائےگا ۔ چپ چاپ دو سو روپیہ دےدو ۔ ? ایک نےکہا ۔ ? دو سو روپے.... ! مگر کس بات کےدو سو روپے؟ ? میں نےپوچھا ۔ ? اےاکبر ! اِدھر آ اور یہ جو تیرا نیا پڑوسی آیا ہےناں اسےبتا کہ ہم کس بات کےدوسو روپےمانگ رہےہیں ۔ تُو اسےبتا دے۔ اگر تجھ سےہماری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تو ہم اپنی زبان میں اپنےانداز میں اسےسمجھائیں گےکہ ہم کس ئےدو سو روپےمانگ رہےہیں ۔ ? ایک نےاکبر بھائی کو آواز دی ۔ ? ارےنہیں دامو بھائی ! میں انہیں سمجھا دوں گا ۔ آپ کو اسےسمجھانےکی ضرورت نہیں پڑےگی ۔ ? کہتےہوئےاکبر بھائی آگےآئےاور مجھ سےبولے۔ ? سلیم صاحب ! انہیں دو سو روپےدےدیجئے۔ ? ? مگر دو سو روپےکس بات کے؟ ? ? وہ میں آپ کو بعد میں سمجھا دوں گا پہلےآپ انہیں دو سو روپےدےدیجئی۔? اکبر بھائی نےاصرار کیا تو میں سوچ میں ڈوب گیا ۔ جو لوگ دو سو روپےمانگ رہےتھے۔ صورت و شکل سےایسےتھےکہ اگر ان کی مانگ پوری نہیں کی گئی تو وہ مجھ سےالجھ سکتےتھے۔ الجھنےکی صورت میں مجھےہی گزند پہنچ سکتی تھی ۔ لیکن دو سو روپےمفت میں انہیں دینا میرےحلق سےنیچےنہیں اتر رہا تھا ۔ کچھ سوچ کر میں نےانہیں دو سو روپےدےدئے۔ جاتےوقت وہ اکبر بھائی سےکہہ گئے۔ ? اکبر ! ہم کس لئےپیسہ مانگتےہیں اسےاچھی طرح سمجھا دینا ۔ اگلی بار اس نےکوئی حجت نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اگلی بار ہفتہ کےلئےیہ ہم سےالجھا تو ہم اس کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔ ? نہیں نہیں دامو بھائی ! اگلی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ میں انہیں سب سمجھا دوں گا ۔ ? اکبر بھائی نےکہا اور ان کےجانےکےبعد گھر میں آگئے۔ ? سلیم بھائی ! آپ یہاں نئےنئےرہنےکےلئےآئےہیں اس لئےیہاں کےطور طریقےنہیں معلوم ۔ یہاں کا ایک دادا ہےجو یہاں کی شاکھا کا پرمکھ بھی ہے۔ وسنت?ہر مہینےاس کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ اس کو ہفتہ دینےسےایک فائدہ یہ ہوتا ہےکہ اس کالونی میں کبھی کچھ نہیںہوتا ۔ کوئی غنڈہ آنکھ اٹھا کر بھی اس کالونی کی طرف نہیں دیکھتا ہےنہ اس کالونی کی کسی لڑکی کو چھیڑنےکی ہمت کرتا ہے۔ اور تو اور اگر کسی دوسری کالونی کا کوئی آدمی بھی اس کالونی کےکسی فرد سےالجھتا ہےتو وسنت کےآدمی اسےایسا سبق سکھاتےہیں کہ وہ دوبارہ اس کالونی کےپاس سےگذرنےسےبھی خوف کھاتا ہےاور پھر ہم تو مسلمان ہیں ۔ پتہ نہیں کب کہیں چھوٹی سی چنگاری بھڑک اٹھےاور وہ چنگاری شعلہ بن کر ہماری چھوٹی سی دنیا ہماری ساری زندگی کی خون پسینےکی کمائی جلا کر خاک کردیں ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ بھی ہوا تو ہم پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے۔ وسنت کےآدمی ہماری حفاظت کرتےہیں سمجھ لیجئےکہ ایک طرح سےہم اپنی حفاظت کی قیمت ادا کر رہےہیں ۔ ? اکبر بھائی نےتفصیل سےبتایا ۔ ? کیا کالونی کےدوسرےافراد بھی ہفتہ دیتےہیں ۔ ? ? ہاں سبھی دیتےہیں ۔ ہم اپنی اپنےگھروں کی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ تو وہ بھی اپنی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ جو ہفتہ نہیں دیتا اس کا کالونی میں رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وسنت کےآدمی اسےاتنا تنگ کرتےہیں کہ اس کا یہاں رہنا دوبھر ہوجاتاہے۔ کوئی بھی اسےان سےنہیں بچا سکتا ۔ یہاں تک کہ پولس بھی وسنت کےآدمیوں کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی ۔ مجبوراً یا تو اسےوسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہےیا پھر یہ کالونی چھوڑ دینی پرتی ہے۔ ? ? اچھا یہ وسنت پوار ہےناں ؟ جو اس بار اس علاقےسےمیونسپل الیکشن میں کھڑا ہونےوالا ہے۔ ? مجھےکچھ یاد آیا ۔ ? ہاں وہی ۔ کھڑا کیا ہوگا میں تو کہتا ہوں وہ اس علاقےسےمنتخب بھی ہوجائےگا ۔کیونکہ پورےعلاقےمیں اس کا رعب اور دبدبہ ہےاس علاقےکا شاکھا پرمکھ ہے۔ اس لئےاس کی جیت یقینی ہے۔ ? اکبر بھائی بولے۔ ? وسنت پوار ........ ! ? میں نےدہرایا ۔ ? نام کچھ شناسا سا لگ رہا ہےیا میں سمجھتا ہوں کہ اس آدمی کو میں بہت قریب سےجانتا ہوں ۔ اس کےبارےمیں کچھ اور تفصیل سےبتائیی۔ ? ? میں بھی نیا نیا اس علاقےمیں آیا ہوں ۔ ? اکبر بھائی بولے۔ ? اس لئےمیں بھی وسنت کےبارےمیں زیادہ تفصیل سےنہیں بتاسکتا ۔ سنا ہےوہ اس علاقےکا لیڈر ہے? بلڈر ہے? دادا ہے? شاکھا پرمکھ ہےاور سب کچھ ہے۔ ? ? یہ وسنت کےآدمی تھے۔وسنت ایسا بھی کرتا ہےیا یہ سب بھی کرسکتا ہےمجھےیقین نہیں آرہا تھا لیکن یقین نہ کرنےکی کوئی وجہ بھی نہیں تھی ۔جو کچھ میں نےوسنت کےبارےمیں سن رکھا تھا ? جو کچھ اس کےبارےمیں اخبارات میں پڑھا تھا اس کےبعد وہ یہ کرسکتا ہےاس پر یقین نہ کرنےکا کائی جواز بھی نہیں تھا ۔ دراصل پانچ سال قبل تک وسنت میرا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا ۔ اس کی زندگی کےہر پہلو ہر دکھ سکھ کو میں جانتا تھا دراصل اسےاس شہر میں لانےوالا بھی میں ہی تھا ۔ لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں ایک بار بھی اس کا سامنا نہیں ہوسکا ۔ صرف اس کےبارےمیں ? میں سنتا رہا کہ وہ آج کل کہاں ہےاور کیا کر رہا ہےیا پھر اس کےبارےمیں اخباروں میں پڑھتا رہا ۔ یا کسی سیاسی جلسےمیں اسٹیج پر اسےدیکھ لیتا ۔ لیکن اس وقت وہ اسٹیج پر ہوتا اور میں تماشائیوں میں ۔ سات سال قبل میں وسنت کو اپنےساتھ اپنےآبائی گاو�?ں سےاس شہر میں لایا تھا ۔ وسنت سےبہت پرانی جان پہچان تھی ۔ گاو�?ں میں چھوٹےموٹےکام کاج کرکےوہ اپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ بھرتا تھا ۔ سال دو سال میں جب کبھی میں گاو�?ں جاتا وسنت سےملاقات ہوتی تو ادھر ادھر کی باتیں کرنےکےبعد وہ مجھ سےایک ہی استدعا کرتا تھا۔ ? سلیم بھائی ! گاو�?ں میں چھوٹےموٹےکام کرکےبڑی مشکل سےاپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ پالتا ہوں ۔ بچت کےنام پر ایک پیسہ بھی پاس میں نہیں ہےجو آڑےوقت میں کام آئے۔ آپ تو شہر میں بہت بڑی کمپنی میں کام کرتےہیں ۔ آپ کی فیکٹری میں کام کرنےکےلئےمزدوروں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہوگی ۔ مجھےبھی فیکٹری میں کوئی کام دلا دیجئے۔ اسےفیکٹری میں لیبر کا کام دلانا میرےلئےکوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ لیکن میں اس بات سےڈرتا تھا کہ وہ گاو�?ں کا بھولا بھالا آدمی شہر کےمسائل اور مصائب کا سامنا نہیں کرسکےگا ۔ اس لئےاسےسمجھاتا تھا کہ گاو�?ں میں اسےجو آدھی روٹی مل رہی ہے۔ وہیٹھیک ہے۔ لیکن اس کےبہت زور دینےپر ایک دن میں اسےاپنےساتھ شہر لےآیا۔ اس وقت میں شہر کی ایک چال میں رہتا تھا ۔ دو دنوں تک وہ میرےگھر میں ہی رہا ۔ ہم جو کھاتےہمارےساتھ کھاتا اور دروازےکےپاس بستر لگا کر ٹھٹھر کر پڑا رہتا ۔ دو دنوں کےبعد میں اسےاپنی فیکٹری کےمنیجر کےپاس لےگیا اور اس کا تعارف کراتےہوئےکہا ۔ ? منیجر صاحب ! میرےگاو�?ں کا آدمی ہےبہت محنتی اور ایماندار ہےاسےکوئی کام دےدیجئے۔ ? منیجر نےمیرےکہنےپر اسےفوراً کام پر لگا دیا ۔ اس دن سےوہ میرےساتھ ہی کام پر جانےلگا ۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلتے۔ وہ نیچےفیکٹری میں جاکر مشینوں پر کام کرتا اور میں اوپر آفس میں کاغذات میں سر کھپاتا ۔ ایک مہینےتک وہ میرےگھر میں رہا ۔ وہ سویرےپانچ بجےہی اٹھ جاتا تھا ۔ نہا دھوکر مندر جاتا اور آتےوقت گھر کا ضروری سامان لےآتا ۔ پھر ہم ساتھ ناشتہ کرتےاور ساتھ میں ٹفن لےکر آفس جاتے۔ واپسی میں ہمارےراستےالگ الگ ہوتےتھے۔ وسنت کےلئےشہر نیا تھا اس لئےوہ گھومنےپھرنےکےلئےنکل جاتا تھا ۔ آٹھ بجےوہ گھر واپس آتا ۔ ہم ساتھ رات کا کھانا کھاتےاس کےبعد وہ اس محلےکی ایک بھجن کیرتن منڈلی میں بھجن گانےچلا جاتا تھا ۔ رات بارہ بجےکےقریب وہ وہاں سےآتا تھا ۔ ہفتےمیں دو تین اپواس ( روزے) ضرور کرتا تھا ۔ وہ سات مختلف دیوتاو�?ں کو مانتا تھا ۔ یہ دن اس نےطےکر رکھا تھا کہ اس دن کس دیوتا کےمندر جایا جائے۔ جب پہلی تنخواہ اس کےہاتھ میں آئی تو ان پیسوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ? سلیم بھائی ! میں نےزندگی میں خود کےاتنےپیسےنہیں دیکھے۔ ? اس نےکھانےکےپیسےدینےچاہےمگر میں نےانکار کر دیا ۔ اس کےبعد اپنےگھر والوں کو شہر لانےکی اس میں دھن سمائی لیکن شہر میں رہنےکےلئےکوئی ٹھکانہ حاصل کرلینا اتنا آسان نہیں تھا ۔ وہ دو تین مہینوں تک اس ٹھکانےکےلئےدردر بھٹکتا رہا۔ ایک دن آیا تو بہت خوش تھا ۔ ?ایک جگہ کسی کی زمین پر غیر قانونی جھونپڑےبن رہےہیں میں نےبھی ایک جھونپڑا بنا لیا ہے۔ اب میں وہیں رہوں گا ۔ کل ہی جاکر اپنےگھر والوں کو لےآتا ہوں ۔ ? دوسرےدن جاکر وہ اپنےبیوی بچوں کو لےآیا اور اس جھونپڑی میں رہنےلگا ۔ فیکٹری میں وہ محنت اور لگن سےکام کرتا تھا ۔ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا تھا ۔ اس کےبعد وہ کچھ بدمعاش قسم کےلوگوں کےہتھےچڑھ گیا ۔ فیکٹری میں ان لوگوں کی ایک یونین تھی ۔ وہ لوگ کام وغیرہ تو نہیں کرتےتھےاپنی یونین اور یونین کےلیڈروں اور اس یونین کی مدد کرنےوالی سیاسی پارٹی اور اس کےآقا کا نام لےکر ڈراتےدھمکاتےتھے۔ ان کےساتھ رہنےسےوسنت بھی ان کےجیسا ہوگیا ۔ کام میں اس کا دل نہیں لگتا ۔ بات بات پر وہ آفیسروں اور مالکوں سےالجھتا اور ہڑتال کرنےکی دھمکی دیتا اور کام بند کرادیتا تھا ۔ اس کی ان حرکتوں سےمنیجر اور مالک عاجز آگئےتھے۔ منیجر کےکہنےپر ایک دوبار میں نےبھی اسےسمجھایا تھا کہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سےاسےکام پر سےنکالا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نےصاف جواب دےدیا تھا ۔ ? وہ لوگ مجھےکام سےنہیں نکال سکتے۔یونین ہمارےساتھ ہےہم فیکٹری کو جلا کر راکھ کردیں گے۔ اگر مالکوں نےہمارےخلاف کوئی قدم اٹھایا ۔ ? آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ وسنت کو کام پر سےنکال دیا گیا ۔ وسنت نےاپنی یونین کی مدد سےہڑتال کی فیکٹری میں توڑ پھوڑ مچائی ۔ مجبوراً مالکوں نےوہ فیکٹری بند ہی کردی ۔ اس وقت تک میرا تبادلہ دوسرےآفس میں ہوچکا تھا ۔ اس کےبعد وسنت کی مجھ سےملاقات نہیں ہوسکی ۔ اس کےبارےمیں صرف خبریں ملتی رہیں ۔ اس کےبعد سنا کہ وہ شہر کی ایک سڑک کےنکڑ پر وڑا پاو�? کی گاڑی لگاتا ہے۔ اس میں اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اور اس کےخاندان کا پیٹ پل جاتا ہے۔ پھر سنا کہ اس نےوہ گاڑی کسی کو کرائےپر دےدی کیونکہ اسےاس گاڑی کا اچھا خاصہ کرایہ مل رہا تھا ۔ جب اتنا زیادہ کرایہ مل رہا ہو تو پھر محنت کرنےکی کیا ضرورت ۔ وہ اس کرایےمیں اپنا گذر بسر کرنےلگا ۔ ایک دن خبر ملی جس جگہ پر وسنت جھونپڑا بنا کر رہتا ہےاس جگہ کا مالک اس جگہ پر تعمیر غیر قانونی جھونپڑےخالی کرا رہا ہے۔ اس کوشش میں ان جھونپڑےوالوں اور مالک کا ٹکراو�? ہوگیا ہے۔ اس ٹکراو�? میں جھونپڑےوالوں کی طرف سےوسنت پیش پیش ہے۔ ایک دن سنا کہ اس زمین پر تعمیر تمام جھونپڑےتڑوانےمیں اس زمین کا مالک کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کی اس کامیابی میں وسنت نےنمایاں رول ادا کیا ہے۔ مالک نےوسنت کو اپنی طرف سےملا لیا اور اسےاچھی خاصی رقم اس بات کےلئےدی کہ وہ ان لوگوں کو کسی طرح جگہ خالی کرنےکےلئےراضی کرلے۔ وسنت نےیہ کام کردیا ۔ اس نےایک مخصوص رقم ہر جھونپڑےوالےکو دی اور اسےجھونپڑا خالی کرنےکےلئےراضی کیا اور بدلےمیں ایک دوسری جگہ بتائی جہاں وہ جھونپڑا بنا کر رہ سکتےہیں ۔ ان لوگوں کو اور کیا چاہیئےتھا ۔ وہاں سےہٹنےکےلئےاچھی خاصی رقم مل رہی تھی اور رہنےکےلئےدوسری جگہ بھی مل رہی تھی ۔ وسنت نےایک دوسری زمین پر قبضہ کرکےان لوگوں کو ناجائز جھونپڑےبنانےمیں مدد کی ۔ اور ایک نئی جھونپڑا بستی تعمیر ہوگئی ۔ اس بستی کا مالک وسنت تھا ۔ وہ تمام جھونپڑےوالوں سےکرایہ وصول کرتا تھا اور وہ خوشی خوشی اسےکرایہ دیتےتھےکیونکہ اب وہی ان کا محافظ تھا ۔ اس درمیان وہ ایک سیاسی پارٹی کا رکن بن گیا تھا ۔ اس کےبعد وہ اس سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینےلگا تھا جس کی وجہ سےاس کا اس سیاسی پارٹی میں مقام بن گیا تھا اور اس سیاسی پارٹی کی پشت پناہی مل جانےکےبعد اس کی طاقت بھی بڑھ گئی تھی اسےاس سیاسی پارٹی کی ایک شاخ کا پرمکھ بھی بنا دیا ۔ وہ اس سیاسی پارٹی کےپروگراموں ? مذہبی جلوسوں اور حکمراں کےجشن ولادت کےجلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔ اس دوران شہر میں ایک دو فرقہ ورانہ فسادات بھی ہوئے۔ ان فسادوں میں بھی وسنت نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس نےان فسادات میں سینکڑوں گھر جلائے۔ لاکھوں روپوں کا قیمتی سامان لوٹا کئی لوگوں کو زخمی کیا اور جان سےبھی مارا ۔ فسادات کےبعد بےشمار شکایتوں پر پولس نےاسےفساد کرنےکےالزام میں گرفتار بھی کیا لیکن دباو�? سےدو تین دنوں میں چھوڑ دیا ۔ اس کےپاس بےشمار دولت جمع ہوگئی تھی ۔ سیاست کےساتھ ساتھ وہ سماج سیوا کےنام پر بھی پیسہ جمع کرتا تھا ۔ اس کےبعد اس نےاپنا بزنس شروع کردیا ۔ وہ بلڈر بن گیا ۔ وہ شہر کی خالی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکےان زمینوں کےمالکوں سےاونی پونی قیمتوں پر وہ زمینیں حاصل کرلیتا اور ان پر عمارتیں بنا کر اونچی قیمتوں میں فروخت کرکےلاکھوں روپےکماتا ۔ جس پارٹی سےاس کا تعلق تھا اس کی ریاست میں حکومت قائم ہوجانےکے بعد وسنت کا رسوخ بڑھتا ہی گیا ۔ اس کےلئےکوئی بھی کام نا ممکن نہیں رہا ۔ وہ جائز نا جائز طریقوں سےزمینیں حاصل کرکےقانونی ? غیر قانونی طریقوں پر عمارتیں بنا کر فروخت کرتا اور پیسہ کماتا ۔ اس پورےعلاقےمیں اس کا دبدبہ سا چھایا ہوا تھا ۔ چھوٹےبڑےہر طرح کےجھگڑےنپٹانےکےلئےلوگ اس کےپاس جاتےتھےاور وہ اپنا مناسب حق محنت لےکر ان تمام تنازعات کو حل کردیتا تھا ۔ وہ اگر غلط بھی کرتا تھا تو اسےٹوکنےکی کسی میں ہمت ہی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ کئی قتل کےکیسوں میں ملوث تھا لیکن پولس اس پر ہاتھ ڈالنےکی ہمت نہیں کرتی تھی نہ کوئی اس کےخلاف زبان کھولتا تھا ۔ اس چھوٹی سی چال کےچھوٹےسےکمرےرہتےرہتےمیں تنگ آگیا تھا ۔ اتنےدنوں میں میں نےاتنےپیسےجمع کرلئےتھےکہ میں کسی اچھی جگہ اچھا سا فلیٹ لےسکوں۔ اگر پیسےکم بھی پڑیں تو سرکاری ، غیر سرکاری قرضہ جات کا سہارا تھا ۔ اس درمیان ایک اسٹیٹ ایجنٹ نےاس کالونی میں بکنےوالےایک فلیٹ کےبارےمیں مجھےبتایا ۔ پہلی نظر میں مجھےفلیٹ اور کالونی پسند آگئی ۔ فلیٹ خرید لیا گیا اور ہم وہاں رہنےکےلئےآگئے۔ وہاں آنےکےبعد پتہ چلا کہ یہ وسنت کا علاقہ ہےاور وہاں رہنےکےلئےبھی وسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ ان باتوں کےبعد وسنت سےملنےکی خواہش دل میں جاگی ۔ لیکن پتہ نہیں تھا کہ وسنت سےملنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وسنت جن لوگوں سےملنا ضروری سمجھتا ہے۔ انہی سےملتا ہےجن سےاسےکوئی فائدہ ہو ۔ وسنت سےملنا تو بہت ضروری تھا ۔ لیکن اس سےملنےکا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ آخر اس سےملنےکا میں نےراستہ سوچ لیا ۔ اگلی بار دامو جب وسنت کا ہفتہ مانگنےآیا تو میں نےہفتہ دینےسےانکار کردیا اور کہا کہ میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔ ? اےکاہےکو اپنی موت کو دعوت دےرہا ہے۔ بھاو�? سنےگا کہ تیرےکو اس لئےاس کےپاس لایا کہ تُونےہفتہ دینےسےانکار کیا ہےتو کچھ سننےسےپہلےتجھ پر چاقو کےدوچار وار مار کر تجھےادھ مرا کردےگا ۔ ? ? کچھ بھی ہو میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔ ? جب میں نےاصرار کیا تو وہ مجھےوسنت کےقلعہ میں لےگئے۔ وہ قلعہ وسنت کا آفس تھا جہاں بیٹھ کر وہ ہر کسی کا انصاف کرتا تھا ۔ عالیشان ڈرائنگ روم جس میں ساری دنیا کےعیش و آرام کی لاکھوں کروڑوں روپوں کی چیزیں سجی تھیں ۔ وسنت کی دولت اور اس کی بلندی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ میں نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرےساتھ اس شہر میں آنےوالا وسنت اتنی جلدی اس بلندی پر پہنچ جائےگا اور میں اسےنیچےسےتاک کر اس کےسامنےبونا بن جاو�?ں گا ۔ ? بھاو�? .... ! یہ شخص نیا نیا کالونی میں رہنےآیا ہےاور ہفتہ دینےسےانکار کر رہا ہے۔ اور آپ سےملنا چاہتا ہے۔ ? ? کون ہےوہ حرامزادہ جو مجھےہفتہ دینےسےانکار کرر ہا ہے۔ ? دامو کی بات سنتےہی وسنت غصےمیں بھرا مڑا ۔ مجھ پر نظر پڑتےہی وہ ٹھٹھک کر رہ گیا اور کچھ سوچنےلگا ۔ ? سلیم بھائی آپ ! ? وہ مجھےحیرت سےدیکھتا ہوا بولا ۔ ? ہاں وسنت .... ! میں ۔ ? میں نےجواب دیا ۔ ? ارےآئیےسلیم بھائی ! میں نےتو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کبھی آپ سےاس طرح ملاقات ہوگی ۔ سلیم بھائی ! اتنےدنوں بعد آپ کو دیکھ کر میں کہہ نہیں سکتا مجھےکتنی خوشی ہورہی ہی۔ ? ہم دونوں پاس بیٹھ گئےاور باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ وہ مجھےبتانےلگا کہ وہ کس طرح اس مقام پر پہنچاہے۔ اور میں چپ چاپ دیکھتا رہا ۔ ? سلیم بھائی ! آپ مجھےاس طرح کیوں دیکھ رہےہیں ؟ ? وہ آخر پوچھ بیٹھا ۔ ? دیکھ رہا ہوں۔ میرےساتھ آیا ہوا گاو�?ں کا بھولا بھالا وسنت پوار کتنی جلدی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ ? ? سلیم بھائی ! وسنت پوار بہت جلد بہت بلندی پر پہنچا ضرور ہے۔ ? وسنت درد بھرےلہجےمیں بولا ۔ ? لیکن اس بلندی تک پہنچنےکےلئےاس نےاپنےاندر کی تمام اچھائیوں ، اخلاقیات ، اوصاف کو قتل کرکےان کی لاشوں کی سیڑھی بنا کر اس بلندی کو حاصل کیا ہے۔ ? ll

Urdu Short Story

Devta


By M.Mubin



ڈاکٹر کےآپریشن روم سےنکلتےہی چاروں طرف سےلوگوں نےاسےگھیرلیا۔ ? ڈاکٹر صاحب ! ماما کی حالت اب کیسی ہے؟ ? وشواس گائیکواڑ نےپوچھا۔ ? ڈاکٹر صاحب ! ماما کی زندگی کو تو اب کوئی خطرہ نہیں ہے؟ ? ارون شندےنےپوچھا ۔ ? ڈاکٹر صاحب ماما جلدی اچھےہوجائیں گےناں؟ جلدی بتائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہی۔ ? شنکر پاٹل نےبےچینی سےپوچھا ۔ ? ڈاکٹر صاحب ! ماما یہاں پر اچھےہوجائیں گےنا؟ ? گوپی ناتھ مہسکر نےپوچھا ۔ ? انہیں کہیں اور لےجانےکی تو ضرورت نہیں آئےگی ؟ اگر ضرورت ہو تو بتا دیجئےہم نےانہیں کہیں اور لےجانےکےانتظامات بھی کرلئےہیں ۔ ? ? ڈاکٹر صاحب ! باہر سےاگر دوائیں منگوانےکی ضرورت پڑی تو بےجھجھک کہہ دیجئے۔ ماما کےلئےہم مہنگی سےمہنگی دوائیں لانےکےلئےتیار ہیں ۔ ? پرکاش جادھو بولا ۔ ڈاکٹر گھبرا گیا ۔ اسےاس وقت کم سےکم بیس پچیس لوگوں نےگھیر رکھا تھا اور اسےمعلوم تھا اس وقت اسپتال کےکمپاو�?نڈ میں کم سےکم سو سوا سو لوگ ماما کی طبیعت کےبارےمیں جاننےکےلئےبےچین ہیں ۔ وہ لوگ قرب جوار کےدیہاتوں سےآئےہوئےتھے۔ کوئی نگر سول سےآیا تھا تو کوئی اندر سول سےکوئی لہیت سے، کوئی کسٹمری سےتو کوئی راجہ پور سے۔ ان میں سےبہت سےلوگ ایک دوسرےسےشناسا تھےتو بہت سےلوگ ایک دوسرےسےپہلی بارمل رہےتھے۔ وہ تمام افراد صرف ایک ہی مقصد کےلےجمع ہوئےتھے۔ وہ سب ماما کی حالت کےبارےمیں پتہ لگانےوہاں آئےتھےاور اسی کےلئےبےچین تھے۔ ان میں بہت سےلوگ ایسےتھےجنہوں نےماما کو لاکر اس اسپتال میں داخل کیا تھا ۔ جیسےجیسےماما پر قاتلانہ حملےکی خبر پھیل رہی تھی اور یہ معلوم ہورہا تھا ماما کو علاج کےلئےشہر کےاسپتال میں داخل کیا گیا ہے? لوگ جوق در جوق ماما کو دیکھنےکےلئےآرہےتھے۔ جب وہ لوگ زخمی ماما کو لےکر سرکاری اسپتال جارہےتھےتو راستہ میں جو بھی ملتا وہاں جیسےہی یہ خبر ملتی کہ ماما پر قاتلانہ حملہ ہوا ہےاور وہ بری طرح زخمی ہوئےہیں اور انہیں اسپتال لےجایا جارہا ہے۔ اس گاو�?ں سےکئی لوگ آکر ان کےساتھ ہوجاتےجو ماما کو اسپتال لےجارہےتھے۔ جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا اس وقت پچاس کےقریب افراد اسپتال میں جمع تھے۔ پھر جیسےجیسےیہ خبر اطراف کےدیہاتوں میں پھیلتی گئی چاروں طرف سےلوگ ماما کی حالت کا پتہ لگانےاور اسےدیکھنےکےلےاسپتال میں آنےلگے۔ جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا ماما بےہوش تھا ۔ اس کےسارےکپڑےخون میں لت پت تھے۔ جو لوگ ماما کو سہارا دےکر لائےتھےان کےکپڑوں پر بھی جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا ۔ ڈاکٹر نےماما کےزخم کا معائنہ کیا ۔ زخم پشت پر تھا ۔ پورےڈیڑھ فٹ لمبا زخم تھا اور تقریباً ایک انچ گہرا ۔ کہیں کہیں تو گہرائی دو انچ بھی ہوگئی تھی ۔ کہیں کہیں ہڈی دکھائی دےرہی تھی ۔ تلوار کا وار تھا ۔ اس لئےایک دو جگہ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر نےفوراً ماما کو آپریشن وارڈ میں لےجانےکےلئےکہا ۔ ? زخم بہت بڑا اور گہرا ہےٹانکےلگانےپریں گے۔ اس کےعلاوہ خون بہت بہہ گیا ہے۔ خون دینےکی بھی ضرورت پڑےگی ۔ ? ? ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ ? ? ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ ? تین چار آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔ ? ٹھیک ہےہم پہلےخون ٹسٹ کرتےہیں ۔ اس کےبعد جس کےخون کی ضرورت محسوس ہوئی اس کا خون لےلیں گے۔ ? لوگوں کا اور ماما کا خون ٹسٹ کیا گیا ۔ ٠١ ۔ ٢١ افراد کا خون ماما کےخون سےمیل کھاتا تھا ۔ جےدیو پاٹل ? مانک شندے? انّا پوار اور وکرم کھیرنار کےجسم سےایک ایک بوتل خون نکالا گیا ۔ دو بوتل خون چڑھانےکےبعد ماما کےجسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی ۔ ڈاکٹر اور نرسوں کےچہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ? جو خون بہہ گیا تھا اس خون نےاس کی کمی پوری کردی ہے۔ مریض کو بہت جلد ہوش آجائےگا ۔ اسےجنرل وارڈ میں شفٹ کردیا جائے۔ ? ڈاکٹر نےنرسوں سےکہا اور وارڈ سےباہر نکلا تو لوگوں نےاسےگھیر لیا ۔ ? دیکھئے! میں نےماما کا زخم سی دیا ہے۔ دو بوتل خون بھی چڑھایا جا چکا ہے۔ ضرورت پڑی تو اور دو بوتل خون چڑھادیا جائےگا ۔ اب ماما خطرےسےباہر ہیں ۔ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ۔ ایک دو گھنٹےمیں شاید اسےہوش آجائےگا ۔ لیکن ہوش میں آنےکےفوراً بعد آرام کی غرض سےہم اسےنیند کا انجکشن دےکر سلادیں گے۔ آپ لوگ مریض کےکمرےمیں یا اس کےپلنگ کےپاس بھیڑ نہ لگائیں ۔ مریض کو دیکھنےکےلئےہم ہیں ۔ فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ ماما کو دیکھ کر اپنےاپنےگھر چلےجائیے۔ ڈاکٹر اتنا کہہ کر آگےبڑھ گیا اور لوگ ماما کےباہر آنےکا انتظار کرنےلگے۔ کچھ لوگوں نےماما ےرشتےداروں کو گھیر لیا ۔ ? بھابی ! ہم نہ کہتےتھےکہ آپ بالکل مت گھبرائیے۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اب تو آپ نےاپنےکانوں سےسن لیا ہےکہ ماما خطرےسےباہر ہے۔ اب یہ رونا دھونا چھوڑئیےاور اپنی حالت کو سنبھالیے۔ آپ کےرونےسےبچےبھی رونےلگتےہیں ۔ کچھ ماما کی بیوی کو سمجھانےلگےتو کچھ ماما کےبچوں کو ۔ ? ارےفرت (فرحت ) کیوں رو رہا ہے؟ تیرےابا کو کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم سب سےباتیں کریں گے۔ تو تو بڑا ہے? سمجھ دار ہےتُو روئےگا تو پھر تیری ماں ? بھائی ? بہنوں اور تیرےدادا دادی کو کون سمجھائےگا ۔ تُو خود کو سنبھال ۔ کسی طرح کی کوئی فکر نہ کر ہم تیرےساتھ ہیں ۔ ? کچھ ماما کےوالدین کو سمجھانےلگے۔ ? سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا ۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ ان کی جان بچانےکےلئےہم اپنی جان کی بازی لگا دیں گے۔ ? ? میرےمعصوم بچےکو مار کر ان لوگوں کو کیا ملا ۔ ? ان کی باتیں سن کر ماما کےوالد بولے۔ ? وہ تو کسی کی چھیڑ چھاڑ میں نہیں رہتا تھا ۔ سویرےبھوکا پیاسہ گھر سےنکل کر دیہات ? دیہات کی خاک چھان کر اپنےبال بچوں اور ہمارےلئےدو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا تھا ۔ اس کو مار کر انہیں کیا ملا ۔ وہ تو نہ کوئی مذہبی رہنما تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر تھا پھر انہوں نےمیرےبچےکی جان لینےکی کوشش کیوں کی ؟ ? ? ابا ! کچھ لوگ سر پھرےہوتےہیں اور اس دیوانگی کےلئےوہ انسانی قدروں اور رشتوں کو بھول جاتےہیں ان پر تو صرف اپنےمسلک کےافکار کا جنون طاری رہتا ہے۔ جن لوگوں نےماما پر حملہ کیا وہ لوگ بھی اسی گروہ سےوابستہ تھے۔ ? سب ماما کےوالد کو سمجھانےلگے۔ کسی نےبھی سوچا نہیں تھا کہ آج جب ماما ان کےگاو�?ں سےجائےگا تو اس پر اس طرح کا جان لیوا حملہ ہوگا اور اس کی جان لینےکی کوشش کی جائےگی ۔ آج بھی وہ معمول کےمطابق گاو�?ں آیا تھا ۔ جس طرح گذشتہ سالوں سےآرہا تھا ۔ اپنی سائیکل پر آگےبڑا سا پٹارا لٹکائےہر کسی کو سلام کرتا ان سےان کی خیریت دریافت کرتا اپنےمخصوص ٹھکانوں پر گیا تھا ۔ اسےپورےتعلقہ کےدیہاتوں میں کس کس گھر میں مرغیاں ہیں اس بات کا پتہ تھا ۔ اس نےروزانہ چند مخصوص دیہاتوں کا نشانہ باندھ لیا تطا ۔ وہ اس دن ان مخصوص دیہاتوں کےان گھروں اور کھیتوں میں جاتا تھا جہاں مرغیاں تھیں ۔ اس گھر کےمالکان بھی اس دن ماما کا انتظار کرتےتھے۔ ہفتہ بھر ان کی مرغیاں جو انڈےدیتی تھیں وہ انڈےوہ جمع کرتےتھےاور ماما کو فروخت کردیتےتھے۔ دن بھر ماما ان دیہاتوں سےانڈےجمع کرتا اور شام کو شہر آکر مرغی انڈےکےاس بیوپاری کو فروخت کردیتا تھا جو ان انڈوں کو ممبئی جیسےبڑےشہروں میں فروخت کرتا تھا ۔ گرمی کےدنوں میں انڈےگرمی سےجلد خراب ہوجاتےہیں ۔ گرمی کےدنوں میں وہ اپنےمخصوص دیہاتوں میں ہفتہ میں دوبار جاتا تھا ۔ تاکہ انڈےخراب نہ ہوں ۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل پر وہ روزانہ تیس چالیس کلومیٹر کا سفر طےکرتا تھا ۔ اس سےدیہات کا بچہ بچہ واقف تھا تو وہ بھی ہر گاو�?ں کےہر فرد کو جانتا تھا اور ان لوگوں کےگھروں کےحالات بھی جانتا تھا ۔ کبھی کبھی تو اسےان لوگوں کےگھریلو جھگڑوں میں منصف کا فرض بھی ادا کرنا پرتا تھا ۔ اس نےدیہاتوںکےسینکڑوں جھگڑےنپٹائےتھے۔ اس کےمنصفانہ فیصلوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا ۔ ہر کوئی بڑےاحترام سےان فیصلوں کو قبول کرلیتا تھا ۔ نہ صرف تضادات بلکہ شادی بیاہ کےمعاملوں میں بھی ماما نمایاں کردار ادا کرتا تھا ۔ اگر کسی کےگھر تعلقہ میں کہیں سےرشتہ آتا تو وہ ماما سےاس گھر کےبارےمیں ضرور پوچھتا جہاں سےرشتہ آیا ہے۔ یا اس گھر اور لڑکےکےبارےمیں معلومات نکالنےکی ذمہ داری ماما پر ڈال دیتا تھا ۔ ماما اپنی ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سےنبھاتا تھا ۔ اور اتنی معلومات بہم پہنچا دیتا تھا کہ رشتےکےسلسلےمیں فیصلہ کرنےمیں اس شخص کو کوئی دقت پیش نہیںآتی تھی۔ کبھی کبھی اس شخص کا فیصلہ منفی ہوتا اور ماما کو محسوس ہوتا کہ وہ شخص فیصلہ لینےمیں کہیں غلطی کررہا ہےتو ماما اس کو ٹوک کر اپنا فیصلہ بتا دیتا تھا اور پھر وہی ہوتا تھا جو ماما کا فیصلہ ہوتا تھا ۔ کئی بڑےگھرانےاپنی لڑکیوں کےرشتہ کی ذمہ داری ماما پر ڈالتےتھے۔ اور ماما اس طرح ذمہ داری نبھاتےہوئےگذشتہ ٥٢ ٠٣ سالوں میں ہزاروں شادیاں کروا چکا تھا ۔ دیہاتوں کی ہر شادی بیاہ میں ماما کر شرکت لازمی تھی ۔ لڑکےکی شادی ہو یا لڑکی کی ۔ ماما کو وہی عزت دی جاتی تھی جو لڑکےکےباپ کو دی جاتی تھی ۔ ہر شادی میں ماما کو ایک اپرنا (ایک طرح کا رومال ) ضرور دیا جاتا تھا ۔ دیوالی دسہرہ یا ہولی پر ہر گھر میں ماما کو حاضری دینی پڑتی تھی ۔ جس گھر وہ کسی مجبوری کی وجہ سےنہیں جا پاتا تھا اس گھر کےمکین کو اس سےشکایت ہوتی تھی بلکہ ماما کا حصہ ہفتوں تک سنبھال کر رکھا جاتا تھا ۔ بلکہ کچھ معاملوں میں تو ماما کا حصہ اس کےگھر پہنچا دیا جاتا تھا ۔ عید بقر عید شب برات کےموقع پر ماما کےگھر میں دیہاتیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان تیوہاروں کےآنےسےقبل ماما تمام دیہاتوں میں عام دعوت دےآتا تھا ۔ اور شیر خورمہ پینےاور حلوہ کھانےکےلئےلوگ جوق در جوق اس کےگھر آتےتھے۔ ہر رات دو تین دیہاتوں کا قیام ماما کےگھر کا معمول تھا ۔ وہ لوگ جو کسی کام سےشہر آتےتھےاور کسی وجہ سےان کی آخری بس چھوٹ جاتی تھی یا واپس گاو�?ں جانےکےلئےان کےپاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ماما کےگھر چلےجاتےتھے۔ ماما کےگھر میں ایک خاص کمرہ مہمان خانہ تھا ۔ وہاں اس طرح کےلوگوں کےلئےسونےکا خاص انتظام رہتا تھا ۔ رات کو وہ ماما کےمہمان خانےمیں آرام کرتےاور سویرےچائےاور ہلکا ناشتہ کرکےواپس اپنےگھر چلےجاتےتھے۔ ماما نےجب اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی تھی تو اس کےگھر شادی میں ان دیہاتیوں کی بھیڑ سب سےزیادہ تھی ۔ ماما نےان کےلئےکھانےکا الگ انتظام کیا تھا ۔ وہ لوگ اپنےساتھ اتنےتحائف لائےتھےکہ بیٹی کےجہیز میں ایک ایک چیز دو دو تین تین دینےکےبعد بھی بہت سی بچ گئی تھی ۔ کسی ہفتہ ماما اگر گاو�?ں نہیں آتا تو سارےگاو�?ں میں ہلچل مچ جاتی تھی ۔ ? ماما اس ہفتہ نہیں آیا ? کیا بات ہے؟ جاکر پتہ لگانا ۔ ? جو بھی اس گاو�?ں سےدوسرےدن شہر جانےوالا ہوتا تھا اس کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی اور وہ واپس آکر سارےگاو�?ں کو اس بارےمیں بتاتا تھا ۔ ? ماما بیمار ہے۔ ? ? ماما ایک رشتہ دار کی شادی میں دوسرےشہر گیا ہے۔ ? دینداری ماما میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ جس جگہ نماز کا وقت ہوجاتا کہیں سےپانی مانگ کر وضو بناکر وہیں نماز کےلئےکھڑا ہوجاتا تھا ۔ بلکہ کچھ مخصوص گھروں کےلوگوں نےتو ماما کی نماز کےلئےانتظامات بھی کررکھےتھے۔ وہ دیہات جہاں مسجدیں تھیں یا مسلمان تھے۔ ان دیہاتوں کی مسجدوں میں اگر پیش امام نہیں ہوتا تھا تو عصر اور ظہر کی نمازیں ماما کی پیش امامی میں ہی ادا کی جاتی تھیں ۔ دیہاتوں میں اگر کسی مسلمان کی موت ہوجاتی تو اس کی میت کو غسل دینے? کفنانےاور نماز جنازہ ادا کرکےدفنانےکا کام بھی ماما انجام دیتا تھا ۔ دیہاتیوں کےاپنےاپنےکام ہوتےہیں ۔ خالی وقت میں بھی گفتگو کےاپنےموضوعات ہوتےہیں ۔ گھریلو معاملات ? کھیتی کےمعاملات ? بینک ? قرض کی جھنجھٹ کےقصے? گرام پنچایت ? ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کےالیکشن وغیرہ پر بحثیں ۔ عام دنوں میں کیا ہورہا تھا دیہاتوں کےچند لوگوں کو ہی معلوم رہتا ہے۔ وہ بھی صرف ان دیہاتوں میں جہاں اکا دکّہ اخبارا ت پہونچ جاتےتھے۔ یا جن لوگوں کےپاس ٹی وی اور ریڈیو تھا وہ خبریں سن کر اس بارےمیں دوسرےلوگوں کو بتا دیتےتھی۔ ان دنوں پتہ چلا کہ مسلمانوں کی کسی بڑی مسجد کو شہید کردیا گیا جو دراصل رام جنم بھومی تھی ۔ اتنی بڑی خبر پر بھی دیہاتوں میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہوا ۔ پھر خبریں آنےلگیں کہ ملک کےبہت سےحصوں میں اس ردِّ عمل میں فسادات ہورہےہیں ۔ بمبئی میں خاص طور پر اس کا بہت زیادہ ردِّ عمل ہوا ہے۔اس سےزیادہ وہ لوگ اور نہیں جان سکی۔ ان دنوں بھی ماما معمول کےمطابق آتا تھا ۔ صرف کچھ لوگ اس سےان معاملوں پر بحث کرتےتھے۔ ماما کو جو معلوم ہوتا ماما اپنی معلومات کےمطابق انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کرتا ۔ اس دن معمول کےمطابق ماما گاو�?ں آیا تھا ۔ اور گاو�?ں سےانڈےاور مرغیاں خرید کر دوسرےگاو�?ں کی طرف جارہا تھا ۔ اچانک ایک لڑکےنےآکر گاو�?ں میں خبر دی ۔ ? وشنو پراڈکر ? بھاسکر پاٹل ? کشن جادھو ? اتل جاڑیہ نےگاو�?ں کےباہر ماما کو گھیر لیا ہے۔ ان کےہاتھوں میں ہتھیار ہیں ۔ ایک کےہاتھ میں تلوار ہے۔ وہ جےشری رام ? جےبھوانی اور جےشیواجی کےنعرےلگاتےہوئےماما پر حملہ کررہےہیں اور ماما اپنےبچاو�? کی کوشش کررہا تھا ۔ یہ سننا تھا کہ تقریباً سو کےقریب افراد ماما کی مدد کےلئےبھاگےتھے۔ انہوں نےجاکر نہ صرف ماما کو بچایا تھا بلکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کےساتھ پکڑ بھی لیا تھا ۔ ماما سخت زخمی تھا ۔ فوراً ماما کو اسپتال لےجایا گیا ۔ اور ان لوگوں کو پولس اسٹیشن ۔ ? ان لوگوں نےان ہتھیاروں کےساتھ عبدالغنی فضل الرحمن عرف ماما پر قاتلانہ حملہ کیا تھا ۔ ہم سب اس کےگواہ ہیں انہیں فوراً گرفتار کرکےان کےخلاف سخت سےسخت کاروائی کی جائے۔ ? دس بارہ لوگوں نےپولس اسٹیشن میں گواہیاں دیں تھیں ۔ ان سب کو حراست میں لےلیا گیا ۔ پولس کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر ان لوگوں کےساتھ نرمی سےپیش آیا گیا یا ان کو رہا کردیا گیا تو اس کےخلاف تحریک چلائی جائےگی ۔ حملہ آوروں کےحق میں بولنےکےلئےان لوگوں کی پارٹی کےلوگ ہی آئےتھےلیکن ان کےخلاف بولنےکےلئےچاروں طرف سےلوگ آئےتھے۔ حملہ آوروں کو پولس کےحوالےکرنےکےبعد مجمع اسپتال میں اکٹھا جہاںماما کا علاج کیا جارہا تھا ۔ ماما کو درکار خون دینےکےلئےقطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ چاروں طرف سےاسپتال کےڈاکٹروں اور نرسوں پر دباو�? ڈالا جارہا تھا کہ وہ ماما کا اچھی طرح علاج کریں ۔ اس کےعلاج میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر ان سےاس کا علاج نہیں ہوسکتا تو وہ کہہ دیں ہم لوگ ماما کےضلع کےسرکاری اسپتال لےجائیں گے۔ یا بڑےسےبڑےنجی اسپتال لےجائیں گے۔ لیکن ڈاکٹروں کےذریعہ ان لوگوں کو اطمینان دلایا جا چکا تھا کہ ماما کا علاج یہاں پر ہی ہوجائےگا ۔ فکر کرنےکی اور گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے۔ ماما کو آپریشن تھیٹر سےلاکر وارڈ میں رکھ دیا گیا ۔ وہ بےہوش تھا ۔ اس کےچاروں طرف بھیڑ تھی ۔ ڈاکٹر وغیرہ لوگوں کو ماما کےپاس سےہٹ جانےکےلئےاور وارڈ سےباہر جانےکےلئےبار بار اپیل کر رہےتھےلیکن سب ماما کو دیکھنا چاہتےتھے۔ دو گھنٹےبعد ماما نےآنکھ کھولی ۔ اپنےچاروں طرف دیکھا ۔ اپنےاطراف کھڑےچہروں کو پہچانا ۔ ایک شناسا سی مسکراہٹ اس کےچہرےپر ابھری ۔ اور وہ نحیف آواز میں بولا ۔ ? میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ان لوگوں کو پولس کےحوالےنہ کرنا ۔ وہ نادان ہیں انہیں نہیں معلوم وہ کیا کررہےہیں ۔ ? سب چپ چاپ ماما کو دیکھ رہےتھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پلنگ پر ماما لیٹا ہےیا کوئی دیوتا ۔ ll

Urdu Short Story

Paras


By M.Mubin




کشن گرام پنچایت کےباہر ہی مل گیا ۔ ? کیا ہوا ? کیا کام ہوگیا ۔ ? ? نہیں سیٹھ ? کشن نےمایوسی سےکہا ۔ ? سیکریٹری بہت حرامی ہے۔ وہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ دینےکےلئےدو ہزار روپےمانگ رہا ہے۔ ہزاروں قانون بتا رہا ہے۔ جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپ بےکار ہی ان باتوں کےلئےپریشان ہورہےہیں ۔ اپنےکھیت میں کنواں کھودنےکےلئےگرام پنچایت یا کہیں سےبھی کسی اجازت نامےکی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ میری زندگی گذر گئی میری آنکھوں کےسامنےہزاروں کنویں اس گاو�?ں میں اور دوسرےگاو�?ں میں کھودےگئےہیں لیکن انہوں نےتو کبھی کنواں کھودنےکےلےگرام پنچایت سےاجازت نامہ نہیں لیا ۔ آپ کام شروع کردیجئے۔ اگر کسی نےٹانگ اڑانےکی کوشش کی تو اس کی ٹانگ توڑ دوں گا ۔ ? آخر میں کشن کا چہرہ غصےسےلال ہوگیا ۔ ? کشن یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ اپنی زمین میں کنواں کھودنےکےلئےکسی سےبھی کسی قسم کےاجازت نامےکی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ? میں نےاسےسمجھاتےہوئےکہا ۔ ? لیکن میں اس کنویں کو کھودنےکےلئےبینک سےقرض لےرہا ہوں ۔ اور اس قرض کو حاصل کرنےکےلئےبینک کو گرام پنچایت کی طرف سےاس طرح کا تحریر نامہ دینا بہت ضروری ہےکہ اس کنویں کی کھدائی پر گرام پنچایت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس اسی لئےوہ داخلہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ ? ? وہ حرامی جانتا ہوگا کہ اس قسم کا سرٹیفکیٹ بینک لون کےلئےلگتا ہے۔ اسی لئےدو ہزار مانگ رہا ہے۔ ? کشن دانت پیس کر بولا ۔ ? نیچ ذات کا جو ہے۔ ? ? کیا مطلب ؟ ? میں کشن کا چہرہ تاکنےلگا ۔ ? ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔ کیونکہ آپ کےیہاں ذات پات کا کوئی رواج نہیں ہے۔ ? کشن بولا ۔ ? سرکار نےان لوگوں کو ذات کےنام پر سینکڑوں سہولتیں دےرکھی ہیں ۔ اب دیکھئےنہ پتہ نہیں کس طرح یہ طےہےکہ اس گاو�?ں کا کوئی سیکریٹری کوئی پس ماندہ ذات سےتعلق رکھنےوالا ہونا چاہئیے۔ اور اسےیہ نوکری مل گئی قابلیت کےنام پر وہ صرف میٹرک پاس ہے۔ میں اس کےسارےخاندان سےواقف ہوں اس کا باپ در درکی بھیک مانگتا تھا ۔ آج ریزرویشن کی وجہ سےان کو بڑےبڑےعہدےمل گئےہیں تو اپنی اوقات بھول گئےہیں ۔ ارےبڑا عہدہ مل جانےسےکوئی ذات تھوڑی بدل جاتی ہے۔ ? اب کشن ! چھوڑو ان باتوں کو ۔ ? میں نےموضوع بدلنےکےلئےکہا ۔ ? اس کےلئےکوئی دوسرا راستہ نکالتےہیں ۔ آو�? چلو کھیت پر چلیں ۔ ? ہم دونوں کھیت کی طرف چل دئے۔ اچانک راستےمیں پوپٹ مل گیا ۔ مجھےدیکھتےہی پوپٹ حیرت میں پڑ گیا ۔ او رمیں اپنےسر پر ہاتھ پھیرنےلگا کہ یہ مصیبت کہاں مل گئی ۔ ? ارےاقبال سیٹھ ! آپ یہاں کہاں ؟ ? ? اس گاو�?ں میں ایک کھیت لیا ہے۔ کبھی کبھی اس لئےاس طرف آجاتا ہوں ۔ ? میں نےبیزاری سےجواب دیا ۔ ? ارےاقبال سیٹھ ! یہ گاو�?ں دھنیہ ہوگیا جو آپ نےاس گاو�?ں میں اپنا کھیت لےلیا ۔ ? پھر وہ کشن کی طرف مُڑ کر بولا ۔ ? کشن ! اقبال سیٹھ جیسا ہیرا آدمی اس دنیا میں ڈھونڈنےسےنہیں ملےگا ارےیہ دل کےراجہ ہیں ۔ آج تک کوئی ان کےدر سےخالی ہاتھ نہیں گیا ۔ ? اس نےاپنےروایتی انداز میں کہنا شروع کیا ۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ وہ اس وقت شراب کےنشےمیں ہےیا پھر پورےہوش و حواس میں ہے۔ کبھی کبھی میرےلئےاسےپہچاننا بہت مشکل ہوجاتا تھا ۔ کہ اس نےشراب پی رکھی ہےیا نہیں ۔ کیونکہ وہ شراب کےنشےمیں بھی اسی طرح کی باتیں کرتا تھا جس طرح کی باتیں ہوش میں کیا کرتا تھا ۔ ? سیٹھ ! آپ کیا اسےپہچانتےہیں ۔ ? کشن آکر میرےکانوں میں بدبدایا ۔ ? میں اسےبرسوں سےجانتا ہوں ۔ ? میں نےجواب دیا ۔ ? کیوں کیا بات ہے؟ ? ? اس کا بیٹا گرام پنچایت کا سیکریٹری ہےجو اس معمولی سرٹیفکیٹ کےلئےہم سےدو ہزار روپےمانگ رہا ہے۔ ? کشن بولا ? کیا کہتےہو ؟ ? میں حیرت میں پڑ گیا ۔ ? کیا پوپٹ کا لڑکا گرام پنچایت کا سیکریٹری ہے؟ ? ? ہاں ! ? کشن نےجواب دیا ۔ ? کیا بات ہےاقبال سیٹھ ! آپ کیا باتیں کررہےہیں ؟ ? پوپٹ نےپوچھا ۔ ? پوپٹ تمہارا بیٹا کیا اس گاو�?ں کی گرام پنچایت کا سیکریٹری ہے؟ ? میں نےپوچھا ۔ ? ہاں سیٹھ ! آپ کی دعاو�?ں سےمیرےدن بدل گئےہیں ۔ ایک لڑکا اس گاو�?ں کی گرام پنچایت کا سیکریٹری ہے? ایک لڑکا پولس انسپکٹر بن گیا ہے? ایک لڑکی بینک میں کام کرتی ہےاور ایک لڑکا نائب تحصیلدار ہے۔ ? ? پوپٹ کیا کہہ رہےہو تم ؟ ? میں حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔ ? ہاں سیٹھ ! اب میں پرانا والا پوپٹ نہیں ہوں ۔ جو ایک ایک دو دو روپیوں کےلئےآپ کو گھنٹوں تنگ کیا کرتا تھا ۔ بھگوان کےدئےسےاب میرےپاس اتنا ہےکہ آج میرےجیسےکئی لوگوں کی روزانہ آپ کی طرح مدد کرتا ہوں ۔ ? پوپٹ کہنےلگا ۔ ?ابھی گذشتہ سال پچاس ایکڑ کھیت لیا ہے۔ اس کھیت میں رہنےکےلئےایک بنگلہ بنایا ہے۔ کھیت جوتنےکےلئےخود کا ٹریکٹر ہے۔ دونوں لڑکوں کےپاس موٹر سائیکل ہے۔ گھر میں رنگین ٹی وی اور خود کا ڈش انٹینا ہے۔ آج کیا نہیں ہےمیرےپاس ۔ ? وہ بتانےلگا تو میں حیرت سےاس کا منہ تکنےلگا ۔ کل تک ایک ایک پیسےکےلئےمحتاج رہنےوالا یہ پوپٹ آج اتنا صاحب حیثیت بن گیا ہےمجھےیقین نہیں آرہا تھا ۔ میری آنکھوں کےسامنےوہ پوپٹ گھوم رہا تھا جو ایک ایک روپیہ کےلئےمجھےگھنٹوں تنگ کیا کرتا تھا ۔ کالج کا زمانہ تھا ۔ پڑھائی کےلئےمیں نےگھر سےقریب ایک کمرہ لےرکھا تھا ۔ اس کمرےمیں کالج سےآنےکےبعد میں پڑھائی کرتا تھا ۔ اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتا اور لکھتا رہتا تھا ۔ وہ کمرہ میرےدوستوں کا اڈا بھی تھا ۔ کالج سےآنےکےبعد تمام دوست اس جگہ جمع ہوجاتےتھےاور گپ شپ چلتی تھی ۔ کبھی تاش کھیل رہےہیں تو کبھی شطرنج کی بازی لگی ہے۔ کبھی ریڈیو سےفلمی گیت سنےجارہےہیں ۔ کہیں اگر ٹسٹ میچ یا ون ڈےانٹرنیشنل ہورہا ہےتو میرےاس کمرےمیں میلہ لگا رہتا تھا۔ ریڈیو سےنشر ہونےوالی کامینٹری سننےکےلئےاور کبھی کبھی صرف اسکور جاننےکےلئےدور دور سےلوگ وہاں آتےتھے۔ آدھی رات تک اس جگہ میلہ لگا رہتا تھا ۔ میں تو وہیں سوتا تھا ۔ میرےکئی دوست ایسےتھےجو مستقلاً میرےساتھ اسی کمرےمیں سوتےتھے۔ کبھی کبھی کسی کےگھر مہمان آجاتےتھےتو مہمان بھی اسی کمرےمیں آکر سوتےتھے۔ مٹی کی دیواروں والا کمرہ تھا جس کی دیواریں بڑی پیچ و خم والی تھیں ۔ کہیں سےابھری ہوئی تو کہیں سےاند ر گئی ۔ فرش بھی مٹی کا تھا ۔ وہاں اتنےلوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی کہ وہ بار بار اکھڑ جاتا تھا اور پورےکمرےمیں مٹی ہی مٹی رہتی تھی ۔ ہر سال بارش میں بھیگنےکےکےبعد کمرےکی دیوار کا کوئی نہ کوئی کونا ضرور گرجاتا تھا ۔ سال بھر اس کمرےکی مرمت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اور مرمت ہوتی رہتی تھی ۔ بارش میں گیلا ہونےکےبعد دروازےکےپاس والی دیوار کا ایک حصہ گرگیا تھا اور اس کی مرمت کی ضرورت تھی ۔ اس کی مرمت کےلئےپہلی بار میرےبڑےبھائی نےپویٹ کو میرےپاس لایا تھا ۔ بھائی کی اس طرح کےلوگوں سےکافی جان پہچان تھی ۔ پوپٹ سےبھی شاید کافی پہلےسےجان پہچان تھی ۔ جس کام کےلئےپوپٹ کو میرےپاس لایا گیا تھا اس کام کو انجام دینےکےلئےپوپٹ کافی مناسب داموں میں تیار ہوگیا تھا۔ مٹی کی اینٹیں بنانی تھیں ۔ انہیں سوکھنےکےبعد ان ہی اینٹوں سےدیوار بنانی تھی اور پھر اسی دیوار کا پلاسٹر بھی کرنا تھا ۔ کام دو تین دنوں کا تھا ۔ مجھےاس کام کےلئےگھر سےکوئی اعانت ملنےوالی نہیں تھی اسےاپنی جیب خرچ سےانجام دینا تھا ۔ بیس روپےمیں پوپٹ وہ کام کرنےکےلئےتیار ہوا تھا ۔ پہلےدن اس نےاینٹیں بنائیں ۔ ان اینٹوں کو بنانےکےلئےاس نےگٹر کا پانی استعمال کیا ۔ گٹر کا پانی استعمال کرنےپر میں نےسخت اعتراض کیا لیکن ان دنوں پینےکےلئےپانی ملنا مشکل تھا تو بھلا اینٹیں بنانےکےلئےپانی کہاں سےمل سکتا تھا ؟ شام کو کام پورا کرنےکےبعد اس نےاپنی مزدوری کےسات روپےمانگےجو میں نےخوشی خوشی دےدئے۔ اس کےبعد وہ مجھ سےایک روپیہ خوشی سےدینےکی ضد کرنےلگا ۔ میں نےانکار کیا تو وہ میری منت سماجت کرنےلگا ۔ ? اقبال سیٹھ ! بہت تھک گیا ہوں ۔ ایک روپیہ کی پی لوں گا تو تھکن اتر جائےگی۔ ? آخر پیچھا چھڑانےکےلئےمجھےایک روپیہ دینا پڑا ۔ بقیہ دودنوں میں اس نےدیوار بنا ڈالی اور ہر دن انعام کےطور پر منت سماجت کرکےمجھ سےایک روپیہ لےجاتا ۔ اس کےبعد میرےپاس آنا اس کا معمول بن گیا ۔ جس دن اسےکام نہیں ہوتا وہ میرےپاس آتا ۔ ? سیٹھ ! چائےپلائیے۔ ? وہ جب بار بار ضد کرنےلگتا تو میں اسےچائےلانےکےلئےکہتا وہ ہوٹل جاکر خود اپنےلئےاور میرےلئےچائےلاتا اور چائےپی کر کہیں چلا جاتا ۔ لیکن شام کو پھر نازل ہوجاتا ۔ اور اس کا ایک روپیہ یا دو روپیہ کا سوال ہوتا تھا ۔ ? سیٹھ ! آج کوئی کام نہیں ملا ۔ واپس گاو�?ں جانا ہے۔ سائیکل کےکرائےکےلئےایک روپیہ دیجئے۔ ? ? سیٹھ ! دو روپیہ دےدیجئے۔ دال سبزی تیل وغیرہ لےکر جاو�?ں ۔ آج کوئی کام نہیں ملا ۔ خالی ہاتھ گیا تو بچےبھوکےپیٹ سوجائیں گے۔ ? ? سیٹھ ! بہت تھک گیا ہوں شراب پینےکےلئےایک روپیہ دےدیجئے۔ ? پیسوں کےلئےوہ مجھےاتنا تنگ کرتا تھا اور ایسی ایسی منت سماجت اور حرکتیں کرتا تھا کہ مجھےاسےپیسےدےکر پیچھا چھڑانےمیں ہی عافیت نظر آتی تھی ۔ میری اماں سےبھی اس نےخاصی جان پہچان بنا لی تھی ۔ جس دن وہ کھانےکےلئےکچھ نہیں لاتا تھا سیدھا اماں کےپاس پہنچ جاتا تھا ۔ ? ماں ! آج کھانےکےلئےکچھ نہیں لایا ہوں کچھ کھانےکےلئےہو تو دےدیں ۔ ? اماں اسےکھانےکےلئےدےدیتی تھیں ۔ بدلےمیں وہ اماں کےچھوٹےموٹےکام کردیا کرتا تھا ۔ میری اماں کو جتنا اس سےانسیت تھی میرےابا کو اس سےاتنی ہی سخت چِڑھ تھی کہ اسےدیکھتےہی وہ چراغ پا ہوجاتےتھے۔ ? تُو یہاں کیوں آیا ہے? چل باہر نکل ۔ ? اور وہ ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔ کبھی کبھی تو عضےمیں ابا اسےگالیاں بھی دےدیتےتھے۔ لیکن وہ ان کا کبھی برا نہیں مانتا تھا ۔ اکثر ایسا ہوا کہ ابا نےاس سےکو ئی کام کرنےکےلئےکہا اور اس نےکام بگاڑ دیا تو اس کےبعد وہ کئی دنوں تک ابا کےعتاب کا شکار رہتا تھا ۔ اسےدیکھتےہی ابا اس پر برس پڑتےتھےاور وہ ہنستا رہتا تھا ۔ ? اقبال سیٹھ ! ابا کو سمجھائیے۔ ایک بار غلطی ہوگئی بار بار نہیں ہوگی ۔ ? اس کی بیوی کھیتوں میں کام کرتی تھی ۔ اس کےتین بیٹےاور دو بیٹیاں تھیں سب بچےاسکول جاتےتھے۔ وہ ان کو باقاعدگی سےاسکول بھیجتا تھا ۔ ? سیٹھ ! بچےپڑھنےمیں سب تمہاری طرح ہی ہیں ۔ بہت پڑھتےہیں اور اچھا پڑھتےہیں ۔ ? وہ بچوں کی تعلیم کےمعاملےمیں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا ۔ اکثر آکر مجھےبتاتا رہتا تھا ۔ ? سیٹھ ! لڑکےنےایک کتاب مانگی تھی آج کام کرنےسےجو بھی مزدوری ملی اسی سےکتاب لےلی ۔ ? بچوں نےکاپیاں مانگی ہیں آج کوئی کام ملا تو ان کےلئےکاپیاں خریدوں گا ۔ ? کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن وہ شراب نہیں پیتا تھا ۔ جہاں اسےکوئی اچھا کام ملتا تھا وہ شراب پی کر میرےپاس آتا تھا ۔ اور سائیکل کےکرایےکےلئےمجھ سےایک روپیہ مانگتا تھا ۔ کبھی کبھی وہ میرےدوستوں کےلئےنشےکی حالت میں کافی دلچسپی کا سامان بن جاتا تھا ۔ وہ اس سےطرح طرح کی حرکتیں کرواتےتھےاور جب وہ ایسا کرتا تو سب لطف اندوز ہوتےتھے۔ ایک دوبار وہ گھر کےتانبےپیتل کےبرتن فروخت کرنےکےلئےلایا ۔ یہ دیکھ کر میں اس پر غصہ ہوگیا ۔ ? گھر کےان برتنوں کو بیچ کر کیا شراب پیئےگا ؟ ? ? نہیں سیٹھ ! ? وہ عاجزی سےبولا ۔ بچوں کےامتحان کی فیس بھرنی ہے۔ میرےپاس تو پیسےنہیں ہیں اس لئےسوچا ان برتنوں کےفروخت کرنےسےاتنےپیسےتو مل ہی جائیں گےجن سےان کی فیس ادا ہوجائےگی ۔ ? میرےپاس بھی اتنےپیسےنہیں تھےکہ میں اسےادھار دےکر برتن بیچنےسےباز رکھتا ویسےبھی اس نےمجھ سےادھار لئےروپےکبھی واپس نہیں کئے۔ پھر اس کےبعد تعلیم مکمل کرنےکےبعد میں نوکری کےسلسلےمیں دوسرےشہر چلا گیا اور اپنےشہر سےرابطہ ٹوٹ سا گیا ۔ سال چھ مہینےمیں کبھی ایک دو دنوں کےلئےجانا ہوتا تو وہ مل جاتا اور ملتےہی دعائیں دینےلگتا ۔ ? اقبال سیٹھ ! تم تھےتو بچوں کی تعلیم کےسلسلےمیں بہت سےمفید مشورےملتےتھے۔ بچےتو اب بھی پڑھ رہےہیں ۔ مگر ان کی تعلیم میں تمہارےمشوروں کی کمی ہے۔ ? اس کےبعد وہ مجھ سےپیسہ لینا نہیں بھولتا تھا ۔ اب اس کی مانگ ایک دو روپیہ سےبڑھ کر دس روپےہوگئی تھی ۔ اور دس روپےدینا بھی میرےلئےکوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ میں اسےپیسہ دیتا تھا لیکن پہلےہی کی طرح پریشان کرنےکےبعد ۔ اس کےبعد کئی سالوں تک میرا اپنےشہر جانانہیں ہوا ۔ ملازمت اور گھر کےجھمیلوں میں بری طرح پھنسا رہا ۔ کچھ پیسہ جمع ہوا تو سوچا اس سےکچھ زمین خرید لوں گا ۔ ایک چھوٹا سا کھیت اچھےداموں پر مل گیا ۔ کھیتی کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایک سال میں اس کھیت میں کاشت کرنی پرتی ہے۔ اس کےبعد ہی کھیت نام پر ہوتا ہےوہ کام بھی ہوگیا کھیت کی دیکھ بھال کےلئےایک آدمی کشن کو میں نےرکھ لیا ۔ وہ بڑی محنت سےکھیت کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔ ویسےبھی اس کھیت سےمجھےکسی آمدنی کی توقع تو نہیں تھی اس کھیت کی آمدنی اسی کھیت میں لگتی رہےمیں یہی چاہتا تھا ۔ کنواں کھودنےکےلئےسرکار سےقرض لینےکی سوچی ۔ سرکار اس طرح کےکاموں پر کافی رقم رعایتوں کےساتھ قرض دیتی ہے۔ مجھےعلم تھا ۔ دوسرےتمام کاغذات موجود تھے۔ قرض پاس کرانےکےلئےصرف ایک کاغذ کی کمی تھی ۔ جسےلانےکےلئےکشن کو گرام پنچایت بھیجا تھا ۔ مجھےمعلوم ہی نہیں تھا کہ اس گرام پنچایت کا سیکریٹری پوپٹ کا لڑکا ہے۔ ورنہ یہ کام بہت آسانی سےہوجاتا تھا کیونکہ وہ مجھےاچھی طرح پہچانتا تھا ۔ اس کام کےنا ہونےسےہم مایوس ہوکر لوٹ رہےتھےکہ راستےمیں پوپٹ مل گیا ۔ اور میں اس کےبارےمیں سوچنےلگا ۔ یہی سوچتےسوچتےہم کھیت تک آگئے۔ ? سیٹھ ! کیا سوچ رہےہیں ۔ ? پوپٹ نےمجھےٹوکا ۔ ? پوپٹ پنجابا گھیور ! ? میں نےاس کا نام دوہراتےہوئےکہا ۔ ? تُو تو بہت بڑا آدمی بن گیا رے۔ ? ? کیا بڑا آدمی سیٹھ ؟ ? وہ بولا ۔ ? میں تو آج بھی آپ کےلئےوہی پرانا پوپٹ ہوں ۔ بڑےآدمی کا جہاں تک سوال ہےسب اوپر والےکا کرم اور سرکاری سہولتوں کی عنایت ہے۔ جو میرا خاندان اس مقام تک پہنچا ہے۔ آپ تو جانتےہیں ہمارا تعلق نچلےطبقہ سےہےاور پس ماندہ ذاتوں کو سرکار نےریزرویشن کی سہولت دےرکھی ہے۔ اس کا فائدہ میری اولاد کو ملا ہے۔ ریزرو سیٹ پر میرےدو لڑکےپولس سب انسپکٹر اور نائب تحصیلدار بن گئےاسی سہولت کی وجہ سےلڑکی کو بینک میں نوکری مل گئی ہےاور اسی سہولت کا فائدہ اٹھاتےہوئےایک لڑکا اس گرام پنچایت کا سیکریٹری بن گیا ہےاور تو اور سیٹھ ! مجھےایک پارٹی الیکش ٹکٹ بھی دےرہی ہےمیں جس گاو�?ں میں رہتا ہوں اس حلقہ میں ضلع پریشد کی سیٹ ریزرو ہےاور اس سیٹ سےالیکشن لڑنےکےلئےایک اعلیٰ ذات کاامیدوار پارٹی کےپاس نہیں ہے۔ میں اس پارٹی کا ممبر ہوں اس لئےاس بار انہوں نےمجھےٹکٹ دینےکا فیصلہ کیا ہےمیں الیکشن جیت جاو�?ں گا ۔ ایک سال کےلئےسبھا پتی پس ماندہ ذات والوں کو بنانا ضروری ہےوہ پارٹی تن من دھن کی بازی لگادےگی ۔ ? وہ بتانےلگا اور میں حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔ ایک معمولی آدمی اتنا بڑا اور اہم آدمی بن جائےگا اور اتنی ترقی کرجائےگا میں نےتو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ آج اس کی ذات کو ملنےوالی سہولتوں کی وجہ سےاس کےتمام بچےاچھےعہدوں پر فائز ہیں ۔ اب یہ دیگر بات ہےکہ وہ ان عہدوں کےقابل ہیں یا نہیں یا ان سےزیادہ قابل لوگ ان عہدوں اور ان سےچھوٹی چھوٹی نوکریوں کےلئےدر در بھٹک رہےہیں ۔ ? پوپٹ ! میرا ایک چھوٹا سا کام کردو ۔ ? ? بولو سیٹھ ! ? وہ سعادت مندی سےبولا ۔ تو میں نےاسےکام بتایا ۔ ? ابھی لو سیٹھ ! ابھی جاکر وہ سرٹیفکیٹ لےکر آتا ہوں ۔ اس کمینےنےآپ کےاتنےسےکام کےلئےآپ سےاتنےپیسےمانگے؟ ابھی اسےمزہ چکھاتا ہوں ۔ لیکن سیٹھ ! اس کی غلطی نہیں ہی۔ اسےمعلوم نہیں ہوگا کہ یہ اقبال سیٹھ کا کام ہے۔ ? آدھےگھنٹےکےاندر وہ سرٹیفکیٹ لےآیا ۔ اس کی لڑکی اسی بینک میں کام کرتی تھی جہاں مجھےکنواں کھودنےکےلئےقرض پاس کروانا تھا ۔ اس کی وجہ سےایک دن میں میرا وہ کام بھی ہوکر پیسہ بھی مل گیا ۔ اس کےعلاوہ اس کا ایک بیٹا جو تحصیلدار تھا ۔ اس نےمیری زمین کےلئےکئی سرکاری سہولتیں بھی دےدیں ۔ میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ کبھی پوپٹ میرےاتنےکام آئےگا ۔ سارےکام ہوجانےکےبعد وہ اس دن بھی شراب پینےکےلئےمجھ سےدس روپےلینا نہیں بھولا ۔ جسےہر کوئی پتھر سمجھتا تھا ۔ کبھی اس طرح سےپارس بن جائےگا کسی نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ ll

Urdu Short Story

BrainTumer


By M.Mubin



جب ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک سڑک کےکنارےایک درخت کےنیچےبیٹھا ہوا پایا۔ سامنےتارکول کی سڑک پر دور دور تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔ اکا دکا سواریاں آجا رہی تھے۔ آس پاس کی فلک بوس عمارتوں کی بالکنیاں ویران تھیں ۔ دھوپ کی شدت کی وجہ سےشاید مکین ان سےجھانکنےکی جسارت بھی نہیں کررہےتھے۔ سڑک کی دونوں طرف دور دور تک دکانوں کا ایک سلسلہ تھا ۔ ان میں کچھ دوکانیں بند تھیں لیکن باقی کھلی ہوئی تھیں ۔ بند دوکانوں کےشیڈ میں ایک دو آوارہ کتےدھوپ اور گرمی سےبچنےکےلئےلیٹےہوئےتھے۔ یا اکا دکا راہ گیر ان کےسائےمیں کھرےہوکر سستا رہےتھے۔ کبھی کبھی ان کی بےچین نظریں بار بار ویران سڑک کی طرف اٹھ جاتی تھیں ۔ شاید انہیں اپنی سواری کا انتظار تھا ۔ جو دوکانیں کھلی ہوئی تھیں ان میں گاہکوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ ان دوکانوں میں ان دوکانوں کےمالک اور ان میں کام کرنےوالےنوکر بیٹھےیا تو اونگھ رہےتھےیا منہ پھاڑ کر جماہیاں لےرہےتھے۔ وقت معلوم کرنےکےلئےاس نےاپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی تو اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کلائی پر گھڑی نہیں تھی ۔ کلائی پر بندھی گھڑی نہ دیکھ کر یاد آیا کہ اس کےپاس ایک چھوٹی سی اٹیچی بھی تھی ۔جس میں دوپہر کےکھانےکا ڈبہ ? ایک دو غیر ضروری فائل ? کچھ اخبارات اور رسالےاور کچھ نوٹس وغیرہ تھے۔ وہ اٹیچی اسےکہیں نظر نہیں آئی ۔ اس کا مطلب تھا وہ اٹیچی بھی گھڑی کی طرح غائب ہے۔ لاشعوری طور پر اس کا ہاتھ پتلون کی جیب کی طرف رینگ گیا اور وہ جیب میں پرس تلاش کرنےلگا ۔ ظاہر سی بات ہےایسی حالت میں جیب میں پرس کی موجودگی ناممکن سی بات تھی ۔ اس نےایک ٹھنڈی سانس لی اور پتلون کی چور جیب میں اپنی انگلیاں ڈالیں اس کی انگلیاں نوٹوں سےٹکرائیں تو اسےکچھ اطمینان ہوا ۔ پرس میں دس بیس روپیوں کےنوٹ ? کچھ وزیٹنگ کارڈ اور لوکل کا ماہانہ پاس تھا۔ دھیرےدھیرےاسےیاد آنےلگا کہ جب وہ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلا تھا تو سر میں ہلکا ہلکا درد تھا ۔ جو وقت گزرنےکےساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ اسےاچھی طرح یاد ہےوہ وی ٹی جانےوالی لوکل ٹرین میں سوار ہوا تھا ۔ لیکن پھر ٹرین سےیہاں کس طرح پہنچا ؟ اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔ مگر یہ جگہ کون سی ہے؟ اس سوال کےذہن میں سر اٹھاتےہی اس نےسامنےوالی دوکانوں کےسائن بورڈ غور سےدیکھے۔ ? تم میں اس وقت گھاٹ کوپر میں ہوں ۔ ? بڑبڑاتےہوئی اس نےاپنےہونٹ بھینچےاور پھر آسمان کی طرف دیکھنےلگا ۔ سورج جس زاویےپر رکا ہوا تھا اس سےتو ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت دوپہر کا ایک یا ڈیڑھ بج رہا ہوگا ۔ وہ ممبرا سےآٹھ بجےلوکل میں سوار ہوا تھا ۔ اس کا مطلب ہےوہ چار ? پانچ گھنٹےمدہوشی کےعالم میں رہا ۔ جسم پر کوئی خراش کا نشان نہیں تھا ۔ اس کا مطلب ہےآج اس کےساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ بس کچھ گھنٹوں کےلئےاس کےدماغ کا جسم سےرابطہ ٹوٹا اور اس درمیان جسم نےکیا کیا ? کیا اور اس کےساتھ کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔ اور اب یاد آبھی نہیں سکتا تھا ۔ اسےعلم تھا دماغ سےجسم کا رابطہ ٹوٹتےہی وہ لوکل سےاتر گیا ہوگا اور یونہی انجان سڑکوں پر بےمقصد آوارہ گردی کررہا ہوگا ۔ یا تو پھر چکرا کر اسی جگہ گرپڑا ہوگا جس جگہ اس وقت بیٹھا ہے۔ یا پھر مدہوشی میں عجیب و غریب مجنونانہ حرکتیں کرکےلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہوگا ۔ اس کی مجنونانہ حرکتیں اور اس کےہاتھ کی اٹیچی کسی غنڈےکی توجہ کا مرکز بنی ہوگی ۔ غنڈےنےبڑےاطمینان سےاسےاس جگہ بٹھایا ہوگا جہاں اس وقت وہ بیٹھا ہوا ہے۔ بڑےاطمینان سےاس نےاس سےایک دو باتیں کی ہوں گی اور اس کی کلائی سےگھڑی اتاری ہوگی پھر جیب سےپرس نکالا ہوگا اور ہاتھ سےاٹیچی لےکر اطمینان سےچلتا بنا ہوگا ۔ وہ چپ چاپ اسےجاتا دیکھ رہا ہوگا یا پھر درخت کےسائےمیں لیٹ گیا ہوگا ۔ کیا ہوا ہوگا ؟ اس بات کا وہ صرف اندازہ ہی لگا سکتا تھا ۔ اس کےساتھ کیا ہوا ہے؟ کسی سےمعلوم بھی نہیں ہوسکتا تھا ۔ مگر جو کچھ اس کےساتھ ہوا اسےاس کا بہت افسوس تھا ۔ آج اسےپھر گھر والوں اور بیوی کو اپنےلٹنےکی ایک فرضی کہانی سنانی پڑےگی لیکن وہ کل آفس میں کیا جواب دےگا ؟ بنا اطلاع کےوہ آفس سےکیوں غائب رہا ۔ اسی طرح پہلےہی اس کی بےشمار چھٹیاں ہوچکی تھیں ۔ اور آج تو آفس میں اس کی موجودگی بےحد ضروری تھی ۔ اس کی غیر حاضری سےآفس میں ہنگامہ مچ گیا ہوگا ۔ ڈیڑھ دو ہی بج رہےہیں ۔ کیا کریں ؟ آفس جانےکا اب بھی وقت ہے۔ لیکن وہ اپنےآپ کو جسمانی طور پر اتنا لاغر اور تھکا ہوا محسوس کررہا تھا کہ نہ تو اس میں آفس جانےکی قوت تھی نہ گھر واپس جانےکی ۔ لیکن آفس بھی نہ جائےاسےواپس گھر تو جانا ہی پڑےگا ۔ وہ اٹھا اور بوجھل قدموں سےاسٹیشن جانےکا راستہ ڈھونڈتا اسٹیشن کی طرف چل دیا ۔ راستےمیں اس نےایک گاڑی والےکےپاس سےوڑا پاو�? کھایا اور چائےپی ۔ کچھ دیر قبل جس بھوک کی شدت سےاسےکمزوری کا محسوس ہورہی تھی وہ کچھ دور ہوئی ۔ اس کےذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی ۔ ? آج پھر اس پر دورہ پڑا تھا ۔ اور یہ دورہ پانچ چھ گھنٹوں کا تھا ۔ ? ڈاکٹروں کا کہنا تھا ممکن ہےشروعات میں اس طرح کےدورےکچھ گھنٹوں تک محدود رہیں لیکن یہی صورت حال رہی تو یہ دورےکئی کئی دن اور کئی کئی مہینوں کےبھی ہوسکتےہیں ۔ یعنی وہ کئی کئی مہینوں تک زندہ ہوتےہوئےبھی مردوں سا رہےگا ۔ مہینوں ایسی زندگی گزارسکتا ہےجس کا اس کی اصلی زندگی سےکوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اس کی اصلی زندگی کی کوئی بات اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور بعد میں اس لا تعلق زندگی کی کوئی بات بھی اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہےاس طرح کےدوروں کےدرمیان وہ ٹیومر پھٹ جائےاور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ ? آخر وہ پھٹ کیوں نہیں جاتا ؟ ? وہ جھنجھلا کر سوچنےلگا ۔ ? اسےپھٹ جانا چاہئیے۔ اس کےپھٹ جانےسےمجھےاس کربناک زندگی سےنجات تو مل جائےگی ۔ ? ? تم مرنا چاہتےہو ؟ ? اس کےاندر کوئی زور سےہنسا ۔ ? نہیں ? تم مر نہیں سکتےتم مرنےسےڈرتےہو ۔ تم مرنا نہیں چاہتےہو ۔ اسی لئےتو تم اپنا علاج نہیں کروا رہےہو ۔ کیونکہ ممکن ہےعلاج کےدوران تمہاری موت واقع ہوجائے۔ یا تم زندگی بھر کےلئےاندھے? لنگڑے? لولے? اپاہج ہوجاو�? ۔ یا تمہارا ذہن ہمیشہ کےلئےایک کبھی نہ چھٹنےوالی تاریکی میں ڈوب جائے۔ اور تم ہوش میں رہتےہوئےبھی ہمیشہ کےلئےبےہوش ہوجاو�? ۔ ? آخر وہ ان دوروں کا عذاب کب تک جھیلتا رہےگا ؟ شاید موت ہی اسےاس عذاب سےنجات دلا سکتی ہے۔ لیکن موت کب آئےگی ؟ جب اس کےدماغ کا ٹیومر پھٹ جائےگا ۔ اس کےدماغ کا ٹیومر کب پھٹےگا ؟ اس بارےمیں تو نہ کوئی بتا سکتا تھا اور نہ کوئی پیشن گوئی کرسکتا ہے۔ ممکن ہےابھی ایک سیکنڈ بعد وہ ٹیومر پھٹ جائےیا پھر ہوسکتا ہےزندگی بھر وہ ٹیومر نہ پھٹےاور زندگی بھر وہ اس عذاب میں مبتلا رہے۔ اسےتو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ اس کےدماغ میں کوئی ٹیومر بھی ہے۔ جسےعرف عام میں برین ٹیومر کہتےہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ بچپن سےوہ درد سر کا مریض تھا ۔ اور بڑھتی عمر کےساتھ ساتھ وہ درد بڑھتا ہی گیا ۔ اور وہ اس کربناک عذاب میں مبتلا رہا ۔ بچپن میں جب اس کا سر درد کرتا تو وہ اس درد کا بہانہ بنا کر اسکول سےچھٹی لےلیتا تھا ۔ اس کےٹیچر اس کےچہرےکےتاثرات اور کیفیت دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتےتھےکہ سچ مچ اس کےسر میں سخت درد ہےاور وہ اسےچھٹی دےدیتےتھے۔ اس وقت وہ بہت خوش ہوتا تھا اور سوچتا تھا روزانہ اس کا سر دکھا کرےاور اسےروزانہ اسی طرح اسکول سےچھٹی ملتی رہے۔ لیکن بڑھتی عمر کےساتھ بڑھنےوالی اس سر درد کی تکلیف سےاسےکوفت ہونےلگی تھی۔ اس نےاس مرض کی کئی ڈاکٹروں سےدوائیں لیں ۔ ڈاکٹروں کی دواو�?ں سےوقتی طور پر درد غائب ہوجاتا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد پھر معمول کےمطابق سر اٹھاتا ۔ اس کی دائمی سر درد کی شکایت دیکھ کر ڈاکٹروں نےاسےمائیگرین کا مریض قرار دیا ۔ مائیگرین جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ خود کو مائیگرین کا مریض قرار دئےجانےکےبعد اسےکم سےکم اس بات کا اطمینان تو ہوگیا کہ ا ب اسےدواو�?ں کا استعمال کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ایسےمرض میں مبتلا ہےجس پر دوائیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں ۔ اس نےاپنےاندر درد کی شدت کو برداشت کرنےکی قوت پیدا کی ۔ یہ سلسلہ برسوں تک چلتا رہا ۔ جب بھی اس کےسر میں درد اٹھتا وہ نہ تو اس کا علاج کرتا نہ کوئی دوا گولی لیتا ۔ چپ چاپ اس درد کو برداشت کرتا ۔ کچھ گھنٹوں کےبعد وہ درد خود بخود غائب ہوجاتا ۔ لیکن دھیرےدھیرےاسےپتہ چلا جب وہ شدید سر درد میں مبتلا ہوتا ہےتو کبھی کبھی بڑی عجیب حرکتیں کرنےلگتا ہے۔ جس کی وجہ سےلوگوں کو اس کےبارےمیں تشویش ہونےلگتی ہے۔ اس بارےمیں اسےاس کےدوستوں اور آفس کےلوگوں نےبتایا تھا کہ کئی کاغذات پرزہ پرزہ کرڈالےاور کورےکاغذات کو برےسلیقےسےفائلوں میں لگا کر رکھ دیا ۔ کئی اہم کاغذات پر بلا وجہ غیر ضروری اسٹامپ لگا کر اپنےدستخط کردئے۔ تو کبھی کبھی اخبارات اور آفس کےکاغذات پر گھنٹوں پتہ نہیں کیا اول فول ٹائپ کرتا رہا ۔ اس کی ان حرکتوں سےلوگوں نےاندازہ لگایا کہ اس پر عجیب قسم کےشیدد دورےپڑتےہیں ۔ دورےپڑنےکی شکایتیں اس سےکئی بار اس کےگھر والوں اور دوستوں نےکی تھیں ۔ دوروں کی حالت میں وہ چاول کو پانی کی طرح پینےلگتا اور پانی کو روٹی کی طرح کھانےکی کوشش کرتا ۔ گھر کی چیزیں غلط مقامات پر رکھتا یا ان کا غلط استعمال کرتا ۔ ایک بار تو ان حرکتوں سےاس کی زندگی خطرےمیں پڑ گئی تھی ۔اس نےمٹی کا تیل اپنےجسم پر ڈال لیا اور پانی سمجھ کر مٹی کا تیل پی لیا ۔ معمول پر آنےکےبعد اسےاپنےدوروں کی تفصیل معلوم ہوتیں تو اس کےجسم میں خوف کی سرد لہریں دوڑنےلگتیں ۔آج اس کےساتھ کیا ہوجاتا ۔ اف ! وہ کس طرح کی زندگی گزارر ہا ہے۔ آخر ان دوروں سےمجبور ہوکر اسےڈاکٹر کی صلاح لینی پڑی ۔ ڈاکٹر نےاس کی پوری کیس ہسٹری سنی ? سر کا ایکسرےنکالا ۔ اچھی طرح چیک اپ کیا اور اس کےبعد اسےبتایا گیا ۔ ? تمہارےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اس کی وجہ سےتم اس طرح کی حرکتیں کرتےہو یا تمہارےساتھ ایسا ہوتا ہے۔ ? ڈاکٹر نےاسےبڑی تفصیل سےاس برین ٹیومر یا اس بیماری کےبارےمیں بتایا تھا ۔ اس کےسر میں درد اس لئےہوتا تھا کہ اس ٹیومر کی وجہ سےدماغ کےکچھ حصوں کو خون کی سپلائی رک جاتی تھا ۔ جیسےجیسےٹیومر بڑا ہونےلگا درد کی شدت بھی بڑھنےلگی ۔ اور اب صورت حال یہ ہےکہ جب دماغ کےبہت بڑےحصےکو خون کی سپلائی رک جاتی ہےتو دماغ اور جسم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ اور وہ اس حالت میں اول جلول حرکتیں کرنےلگتا ہے۔ ? اس کا کوئی علاج ہےڈاکٹر صاحب ؟ ? ? اس کا تو بس ایک ہی علاج ہے۔ آپریشن کےذریعہ سر سےاس ٹیومر کو نکال دیا جائے۔ ? ? میں اس عذاب سےنجات پانےکےلئےآپریشن کرانےکےلئےبھی تیار ہوں ڈاکٹر صاحب ! ? ? لیکن یہ آپریشن اتنا آسان نہیں ہےجتنا تم سمجھ رہےہو ۔ معاملہ دماغ کا ہےممکن ہےیہ آپریشن کامیاب نہ ہو اور اس آپریشن کےدرمیان تمہاری موت واقع ہوجائےیا یہ بھی ممکن ہےآپریشن کےدوران تمہارےدماغ کا کوئی حصہ متاثر ہوجائےاور تم زندگی بھر کےلئےاندھے? لنگڑے? لولےیا اپاہج بن جاو�? ۔ تمہاری آنکھوں کی بینائی کھو جائے۔ یا تمہاری قوتِ گویائی صلب ہو جائے۔ یہ بڑا پرخطرآپریشن ہوتا ہے۔ اگر آپریشن کےدوران دماغ کا کوئی بھی حصہ معمولی طور پر بھی متاثر ہوجائےتو وہ اپنا کام بند کردیتا ہےاور اس کےاثرات کیا ہوسکتےہیں میں تو بتا ہی چکا ہوں ۔ ? نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب ! ? ڈاکٹر کی بات سن کر وہ کانپ اٹھا تھا ۔ ? میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں اندھا ? لنگڑا ? لولا ہوسکتا ہوں ۔ نہیں نہیں میں آپریشن نہیں کروں گا ۔ چاہےمجھےکتنا ہی درد کتنی ہی تکلیف سہنی پڑے۔ چاہےمجھےکتنےہی شدید دوروں کےعذاب سےگزرنا پڑے۔ اگر میرےدماغ کا ٹیومر پھٹ جاتا اور میری موت ہوجاتی ہےتو مجھےوہ موت منظور ہےکیونکہ وہ میری فطرتی موت ہوگی ۔ لیکن آپریشن کرکےنہ تو میں غیر فطری زندگی جینا چاہتا ہوں نہ غیر فطری موت مرنا چاہتا ہوں ۔ ? ڈاکٹر نےاسےبہت سمجھایا لیکن اس نےڈاکٹر کی ایک نہ مانی ۔ اس نےکسی کو نہیں بتایا کہ اس کےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اسی ٹیومر کی وجہ سےاس عذاب میں مبتلا ہے۔ اور ممکن ہےوہ ٹیومر ایک دن اس کی جان بھی لےلے۔ ظاہر سی بات تھی وہ گھر والوں یا دوستوں کو اپنی بیماری کےبارےمیں بتاتا تو وہ اس کی جان بچانےکےلئےاسےزندہ دیکھنےکےلئےاس پر آپریشن کےلئےزور ڈالتے۔ اور آپریشن کا انجام کیا ہوسکتا ہےاسےعلم تھا ۔ اس لئےاس نےاپنی بھلائی اسی میں سمجھی کہ اپنےمرض کےبارےمیں کسی کو نہ بتایا جائی۔ اور اس طرح ہر طرح کےدباو�? سےآزاد رہ کر کچھ دنوں کی ہی سہی لیکن باقی بچی زندگی تو وہ چین سےگذار سکے۔ ا س کےبعد اس کےساتھ وہی ہوتا رہا جو پہلےہوتا آرہا تھا۔ کبھی کبھی درد کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ وہ دیواروں سےاپنا سر ٹکراکر لہولہان کرلیتا تھا ۔ کبھی کبھی دورےکی حالت میں اس کےہاتھوں سےایسےکام سرزد ہوجاتےتھےجن کےنقصان کی تلافی وہ مہینوں تک نہیں کرپاتا تھا ۔ اسےآفس سےکئی میمو مل چکےتھے۔ کیونکہ وہ دورےکی صورت میں آفس کےکئی ضروری کاغذات پھاڑ چکا تھا ۔ ایک بار اس کےباس نےاس کےدوروں سےعاجز آکر اسےمیمو دےدیا کہ وہ پندرہ دن کےاندر اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرےورنہ اسےملازمت سےبرطرف کردیا جائےگا ۔ ملازمت سےبرطرفی کےتصور سےہی وہ کانپ اٹھا ۔ اگر اسےنوکری سےنکال دیا گیا تو وہ کیا کرےگا ? کون اسےنوکری دےگا ? ایسی حالت میں کیا وہ کوئی دوسرا کام کرپائےگا ? اس کےگھر والوں اور بیوی بچوں کا گذر کس طرح ہوگا ۔ مجبوراً اسےاپنی نوکری بچانےکےلئےایک ڈاکٹر کو رشوت دےکر اپنی فٹنیس کا جھوٹا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑا ۔ تب سےوہ بہت ڈرتا تھا ۔اور رات دن خدا سےدعا کرتا تھا کہ کم سےکم اپنےآفس میں دورہ نہ پڑے۔ اگر پڑےبھی تو اس کےہاتھوں کوئی ایسا کام نہ ہو جس سےاس کی ملازمت پر آنچ آئے۔ لیکن یہ اس کےبس میں کہاں تھا ۔ اگر یہی بات اس کےبس میں ہوتی تو اس کےلئےکوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ دورےکی حالت میں بھٹکتا وہ پتہ نہیں کہا سےکہاں پہونچ گیا یا کسی سواری سےٹکرا کر سخت زخمی ہوگیا ۔ دورےکی حالت میں اس کا سامان کہاں گر گیا یا کسی نےچرا لیا ؟ اسےعلم نہیں ہوسکا ۔ وہ گھر سےنکلتا تو اسےمحسوس ہوتا ابھی اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور ابھی اس کی موت واقع ہوجائےگی ۔ اس کی لاش لاوارث لاش کی طرح سڑک پر بےگور و کفن پڑی رہےگی ۔ گھر والوں کو اس کی موت کی خبر بھی نہیں مل پائےگی ۔ آفس میں ہوتا تو کام کرتےکرتےبار بار اسےمحسوس ہوتا کہ اس کا ٹیومر ابھی پھٹ پڑےگا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائےگا ۔ رات میں جب وہ سونےکےلئےلیٹتا تو ہر رات اسےمحسوس ہوتا یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے۔ رات کےکسی پہر اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور سویرےگھر والوں کو بستر پر اس کی لاش ملےگی ۔ پتہ نہیں اس کی زندگی ایک پل کی بھی باقی ہےیا پھر اسےاس عذاب میں ابھی برسوں جینا ہے۔ وہ ترشنکو بن کر زندگی اور موت کےدرمیان لٹکا ہوا تھا ۔ نہ اسےزندگی اپنےموہ سےآزاد کرپارہی تھی اور نہ موت اسےگلےلگا رہی تھی ۔ وہ بوجھل قدموں سےریلوےاسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک سر میں ہلکا ہلکا دردہونےلگا جس کی شدت بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ پھر درد پھر دورہ ۔ اوہ گاڈ ! ۔ وہ گھر واپس پہنچ پائےگا بھی یا نہیں ؟ اور سر پکڑ کروہ ایک جگہ بیٹھ گیا ۔ ll

== ==


Urdu Short Story

Akela


By M.Mubin




اچانک اسےمحسوس ہوا کہ وہ جنگل میں بالکل تنہا ہے۔ اس بات کا احساس ہوتےہی وہ کانپ اٹھا ۔ اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ خوف کی لہریں اس کےجسم میں دوڑنےلگیں اور ماتھےپر پسینےکی بوندیں ابھر آئیں ۔ آواز جیسےحلق میں گھٹ کر رہ گئی ۔ چاروں طرف دور دور تک پھیلا بھیانک جنگل اور اس پر چھایا پر ہول سناٹا اس کو کسی اژدھےکی طرح جکڑنےکےلئےآگےبڑھ رہا تھا ۔ جنگل کا ایک ایک گوشہ اسےپر آسیب اور پر خطر محسوس ہونےلگا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ سب اچانک کس طرح ہوگیا ؟ وہ اچانک جنگل میں کس طرح رہ گیا ہے؟ باوجود لاکھ کوشش کےوہ پتہ نہیں لگا سکا کہ وہ کب اور کیوں تنہا ہوا ۔ جہاں تک اسےیاد تھا وہ جنگل میں اکیلا نہیں تھا وہ تو کئی لوگوں میں گھرا ہوا تھا ۔ وہ سب ایک جگہ ساتھ بیٹھتےتھےآپس میں ہنسی مذاق کرتےتھےایک دوسرےکےدکھ درد اور تنہائیاں بانٹتےتھے۔ کسی کو کبھی محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ جنگل میں تنہا ہیں ان کےگھر بھی اطراف ہی میں تھےاور ایک طرح سےاس جنگل میں اس جگہ ایک اچھی خاصی بستی آباد تھی جس میں زندگی کی گہما گہمی تھی ۔ لیکن اسےیاد نہیں آرہا تھا وہ تمام اچانک کہاں اور کیسےاسےاس جگہ تنہا چھوڑ کر چلےگئےہیں اور تو اور جاتےوقت اپنےساتھ اپنےگھر اور اپنی ہر چیز بھی اس خوبی سےلےکر چلےگئےہیں کہ اس بات کا پتہ ہی نہیں چل سکا ۔ اچانک ہوا کےچلنےسےجنگل میں ایک خوفناک آواز گونجنےلگی اور اس آواز کو سن کر اس کا دل کسی خشک پتےکی طرح لرزنےلگا ۔ ? تم سب کہاں ہو ؟ ?جب اس سےبرداشت نہیں ہو سکا تو وہ چیخ اٹھا ۔ ? تم لوگ مجھےاکیلا چھوڑ کر کہاں چلےگئےہو ؟ مجھےیہاں بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ? لیکن اس کی آواز جنگل کےپرہول سناٹےمیں گونج کر رہ گئی وہ لاکھ اپنی صدا کےجواب میں جوابی صدا کےلئےبےچین رہا ۔ لیکن اس کی آواز کسی گنبد میں گونجنےوالی صدائےبازگشت بن کر رہ گئی اور اس جنگل میں گونجتی رہی ۔ وہ گونج لمحہ بہ لمحہ تیز سےتیز تر ہوتی گئی اور آخر میں اتنی خوفناک ہوگئی کہ اسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہونےلگے۔ گھبرا کر اس آواز کی اذ�?ت سےبچنےکےلئےاس نےاپنےکانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں ۔ اچانک ایک نیزا ہوا میں لہراتا ہوا آیا اور اس سےچند قدموں کےفاصلےپر آکر زمین میں پیوست ہوگیا ۔ خوف سےاس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور سارا جسم پسینےمیں بھیگ گیا۔ اسےمحسوس ہوا کہ یہ پہلا اور آخری نیزا نہیں ہےوہ چاروں طرف سےنیزوں کےدرمیان گھرا ہوا ہے۔ وہ نیزےاس کےاطراف چھپےہوئےہیں ۔ اچانک اس پر نیزوں کی برسات سی ہونےلگی ۔ نیزوں کی نوکیں آکر اس کےجسم سےٹکرائیں گی اور اس کا جسم لہوہان ہوکر اپنی روح کو کھودےگا ۔ وہ اچھی طرح دیکھ رہا تھا اس کےچاروں طرف ہزاروں نیزےتنےہوئےہیں ۔ وقفہ وقفہ سےوہ نیزےاس کےقریب آ آ کر گر رہےتھے۔ کبھی کبھی کوئی نیزہ آکر اس کےجسم سےبھی ٹکرا جاتا اور اس کےجسم کو گھائل کردیتا ۔ یہ کیسا عذاب ہےاس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ پہلےتو اس نےاس جگہ کبھی نیزوں کو نہیں دیکھا تھا پہلےتو اس پر کبھی اس طرح نیزوں سےحملہ نہیں ہوا تھا وہ آٹھ سالوں سےوہاں رہ رہا تھا ۔ اچانک اسےاپنےقریب لکڑی کا ایک ٹکڑا نظر آیا ۔ اس نےلکڑی کا وہ ٹکڑا اٹھا لیا اور اس سےڈھال کا کام لینےلگا ۔ جیسےہی ہوا میں سرسراتا ہوا کوئی نیزہ اس کےجسم کو چھونےکےلئےآگےبڑھتا وہ اس لکڑی کےٹکڑےسےاسےروک لیتا تھا ۔ وہ نیزہ رک جاتا تھا لیکن یہ بڑا مشکل کام تھا ۔ کیونکہ کبھی کبھی نیزےلکڑی کےٹکڑےمیں دھنس کر اس کےہاتھوں کو گھائل کردیتےتھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ان نیزوں سےاس پر کون اور کیوں حملہ کر رہا ہی؟ حملہ آور اسےدکھائی نہیں دےرہےتھے۔ اچانک اسےایک پیڑ کی آڑ میں ایک سایہ نظر آیا اس کےہاتھ میں نیزہ تھا اس کی طرف پھینکنےکےلئےجیسےہی اس نےنیزہ تانا اس نےاس کےسائےکو اچھی طرح دیکھ لیا ۔ اسےوہ شکل و صورت کچھ شناسا سی لگی ۔ تھوڑا یاد کرنےپر اسےیاد آیا کہ یہ وہی شخص ہےجو کچھ لمحوں پہلےاس کےساتھ تھا جب وہ تنہا نہیں تھا ۔ اسےبڑی حیرانی ہوئی ۔ کچھ لمحوں قبل تک کا کا اس کا مونس و غمخوار اس کا وہ دوست اس کی جان کےدرپےکیوں ہوگیا ہے؟ اس پر نیزےسےحملہ کیوں کررہا ہے؟ اس نےگھبرا کر چاروں طرف دیکھا تو اسےکچھ نظر نہیں آیا ۔ لیکن اسےمحسوس ہوا چاروں طرف درختوں کی آڑ میں اس پر حملہ کرنےکےلئےنیزےتانےوہی لوگ چھپےہوئےہیں جو کچھ لمحوں قبل تک اس کےساتھ تھے۔ ? تم ! تم لوگوں کو میں پہچان گیا ہوں ۔ تم مجھ پر حملہ کرکےمیری جان کیوں لینا چاہتےہو؟? وہ چیخ اٹھا ۔ ? میں تمہارا دشمن نہیں ہوں ۔ تم بھی میرےدوست ہو ۔ کچھ دیر قبل تک ہم ساتھ ساتھ رہتےتھےاور ایک دوسرےکےمونس و غمخوار تھے۔ اس کی اس بات کو سن کر کئی چہرےدرختوں کی اوٹ سےباہر آئےوہ تمام چہرےاس کےشناسا تھے۔ لیکن اس وقت ان کےچہروں پر اس کےلئےدشمنی کےجذبےمچل رہےتھے۔ ان کےہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں اس کےلئےنفرت کا جذبہ تھا ۔ ? تم لوگ میرےساتھی ہو ۔ پھر میری جان کیوں لینا چاہتےہو ؟ ? اس نےان سےپوچھا ۔ جواباً کئی نیزےاس کےجسم سےٹکرانےکےلئےآگےبڑھےاور وہ تمام چہرےپھر درختوں کی اوٹ میں چھپ گئے۔ اس نےجلدی سےخود کا بچاو�? کیا اور چیخ اٹھا ۔ بچاو�? ! بچاو�? ۔ میں مصیبت میں ہوں یہ لوگ جو کل تک میرےدوست تھےآج میری جان کےدرپےہیں مجھےمار ڈالنا چاہتےہیں ۔ بچاو�? میں سخت مصیبت میں ہوں ۔ ? ? ہمیں پتہ ہےتم سخت مصیبت میں ہو ۔ ? اسےدور سےایک شناسا آواز آتی محسوس ہوئی۔ اسےیاد آیا کہ یہ آواز بھی ان لوگوں میں سےکسی کی ہےجو کچھ لمحوں قبل اس کےساتھ تھے۔ ? پھر تم میری مدد کےلئےکیوں نہیں آرہےہو ؟ ? اس نےپوچھا ۔ ? ہم تم سےاتنی دور ہیں کہ چاہ کر بھی تمہاری مدد کےلئےنہیں آسکتےہیں ۔ ہمیں علم ہےتم کن مصیبتوں میں گھرےہوئےہو اور آئندہ تم پر کیا کیا مصیبتیں آنےوالی ہیں ۔ ہم جس جگہ ہیں وہاں ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم نےانہیں خطروں خدشوں کی وجہ سےوہ جگہ چھوڑ دی ۔ ? ? جب تمہیں علم تھا کہ اس جگہ رہنےمیں ہمیں خطرہ ہےاور انہی خطروں سےبچنےکےلئےتم یہاں سےچلےگئےہو ۔ تو تم نےمجھےبھی ساتھ کیوں نہیں لیا ? تم نےمجھےآنےوالےخطروں سےآگاہ کیوں نہیں کیا ؟ ? ? تم بھول رہےہو ۔ ہم نےتمہیں ان خطروں سےآگاہ کرتےہوئےاس جگہ کو چھوڑ دینےکا مشورہ دیا تھا لیکن تم نےہمارا مذاق اڑایا تھا اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس جگہ کوئی خطرہ نہیں ہےخطرہ اس جگہ زیادہ ہےجہاں ہم خطروں سےبچنےکےلئےجارہےہیں ۔ خطرےیہاں بھی ہیں لیکن اس جگہ سےکم جہاں اس وقت تم ہو ۔ ? دور سےآواز آئی ? اس آواز کو سن کر اسےیاد آیا کبھی اس سلسلےمیں ان کی گفتگو ہوئی تھی لیکن اس نےان خدشوں کو یکسر بےبنیاد کہہ کر نظر انداز کردیا تھا ۔ ? اب تم ہی بتاو�? میں کیا کروں ؟ ? اس نےپوچھا ۔ لیکن اسےکوئی جواب نہیں ملا اس نےپھر دہرایا ۔ اس جگہ وہ بالک اکیلا ہےاور خطروں میں گھرا ہوا ہےان خطروں سےبچنےکےلئےاسےکچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے۔ جو لوگ اس کی جان کےدرپےہیں اسےان سےہی پوچھنا چاہیئےکہ وہ اس کی جان کےدرپےکیوں ہوگئےاور کیا چاہتےہیں ؟ ? سنو میری جان کےدشمنو ! میں تم سےپوچھ رہا ہوں ۔ تم جو کچھ لمحوں قبل تک میرےرفیق تھےاب میرےرقیب کیوں بن گئےہو ؟ تم میری جان کیوں لینا چاہتےہو؟? ? ہم چاہتےہیں جس طرح تمہارےدوسرےساتھی اس جگہ کو چھوڑ کر چلےگئےہیں تم بھی چلےجاو�? ۔ ? درختوں کی اوٹ سےایک شناسا صورت ابھری ۔ ? لیکن کیوں ؟ ? ? کیونکہ یہ جگہ ہماری ہے۔ ? ? لیکن کچھ دیر قبل تو یہ جگہ کسی کی نہیں تھی ۔ یہ جگہ ہم سب کی تھی ۔ پھراب یہ جگہ میری نہ ہوکر صرف تمہاری کیوں ہوگئی ہے؟ ? ? جس لمحےتمہارےدوسرےساتھی اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلےگئےاور انہوں نےاس جگہ کو اپنی جگہ کہہ کر جنگل کی تقسیم کردی اسی لمحےسےیہ جگہ ہماری اور صرف ہماری ہوگئی ہے۔ اب تمہیں یہاں رہنےکا کوئی حق نہیں ہے۔ تم یہاں سےچلےجاو�? ۔ وہاں پر جہاں پر تمہارےدوسرےساتھی چلےگئےہیں ? ۔ ? لیکن تم بھی تو میرےساتھی ہو ? کیا میں تمہارےساتھ نہیں رہ سکتا ہوں؟? ? تم ہمارےساتھ نہیں رہ سکتے? تمہارےساتھی وہ تھےجو اس جگہ کو چھوڑ کر چلےگئے۔ اگر تم نےیہ جگہ نہیں چھوڑی تو ہم اسی طرح تم پر حملےکرتےرہیں گےاور تمہیں یہ جگہ چھوڑنےکےلئےمجبور کردیں گے۔ یا پھر تمہاری جان لےلیں گے۔ ? ? تم اتنےبدل کیوں گئےہو ؟ کسی کی جان لینےمیں بھی کوئی عار محسوس نہیں کررہےہو ? یہ تو وحشیوں کا کام ہے۔ ? ? جنگل میں وحشی ہی رہتےہیں ۔ ? ? تو مجھےیہ جگہ چھوڑ کر جانا ہی ہوگا ؟ ? ? ہاں ! ? ? ٹھیک ہےمیں اپنےساتھیوں سےکہتا ہوں کہ میں آرہا ہوں ساتھیو ! تم سچ کہتےہو یہاں میرےلئےبہت خطرےہیں ۔ میں ان خطروں سےنجات پانےکےلئےتمہارےپاس آرہا ہوں ۔? ? نہیں ! ? دور سےآواز آئی ۔ ? تم یہاں نہیں آسکتےاب یہاں کسی کو آنےکی اجازت نہیں ہے۔ اب ان خطروں سےنپٹنا ? وہاں رہنا یا نہ رہنا یا کہیں چلےجانا یہ تمہارا اپنا مسئلہ ہے۔ اس مسئلےکو تم ہی نپٹو ۔ ? ? یہ کیا مصیبت ہے۔ تم مجھےوہاں آنےنہیں دےرہےہو ۔ اور یہاں کےلوگ مجھےیہاں رہنےنہیں دینا چاہےہیں ۔ میں کیا کروں ؟ ? اسےکوئی جواب نہیں ملا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے؟ یہاں اسےخطرہ تھا ? لیکن کوئی ایسی جگہ بھی نہیں تھی جہاں جانےکےبعد وہ محفوظ ہوجائےاور یہاں تو خطرہ بدستور قائم تھا ہی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جارہا تھا ۔ اچانک اسےاپنا گھر شعلوں میں گھرا ہوا نظر آیا ۔ وہ تیزی سےاپنےگھر کی آگ بجھانےکےلئےدوڑا ۔ لیکن پوری کوشش کےباوجود وہ اپنےگھر کو جلنےسےنہیں بچا سکا۔ اپنا ادھ جلا گھر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن پھر ایک عزم سےاس نےاپنےآنسو پونچھے۔ صرف گھر ہی جلا ہےناں ؟ گھر تو دوبارہ بھی بن سکتا ہے۔ ابھی اس نےاپنا عزم پورا بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دلخراش چیخ نےاسےلرزا دیا۔ اسےاپنا بیٹا لہو لہان نظر آیا ۔ اس کا سارا جسم نیزو سےبھرا ہوا تھا ۔ اس کی آنکھیں بےجان تھیں ۔ بیٹےکی لاش دیکھ کر وہ چیخ اٹھا ۔ پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ آہ و زاری کرتا رہا ۔ پھر یہ سوچ کر بیٹےکو دفن کرنےکےلئےگڑھا کھودنےلگا ۔ ? ایک دن انسان کےجسم کو اس کی روح کو چھوڑنا ہی ہے۔ کبھی جلدی کبھی دیر سے۔ شاید یہ بھی میرےبیٹےکی روح کا میرےبیٹےکےجسم کو چھوڑنےکا ایک بہانہ ہو۔ ? ? سنو ! ? اچانک وہ پوری قوت سےچیخ اٹھا ۔ ? تم یہ سوچ رہےہو کہ میں اکیلا اس جنگل میں نہیں رہ سکتا ؟ مجھےمیری تنہائی کا احساس دلاو�?گے? مجھ پر طرح طرح کی مصیبتیں اور ظلم و ستم ڈھاو�?گےتو میں یہ جنگل چھوڑ کر چلا جاو�?ں گا ۔ لیکن یہ تمہارا خام خیال ہے۔ میں یہاں رہتا آیا ہوں اور میں یہیں رہوں گا ۔ مجھےبھی یہاں رہنےکا اتنا ہی حق ہےجتنا تم لوگوں کو ہے۔ میں یہ جگہ نہیں چھور سکتا ۔ چاہےمجھےکتنا بھی اذیتیں مصیبتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں ? ۔ ? تم سچ کہتےہو ! ? اچانک جنگل میں سینکڑوں آوازیں گونج اٹھیں ۔ ? تمہیں یہاں رہنےکا اتنا ہی حق ہےجتنا اور لوگوں کو حاصل ہے۔ سچ مچ یہ تنہائی ، یہ ظلم و ستم ، یہ مصیبتیں تمہیں گھبرا کر یہ جنگل چھوڑنےپر مجبور نہیں کر سکتیں ۔ ہم تمہاری تنہائی بانٹیں گے۔ ہم تمہاری آنےوالی مصیبتوں سےرکشا کریں گے۔ کیونکہ تمہارےجانےکےبعد ہم بھی یہاں اکیلےہو جائیں گے۔ ہم سب مل جل کر اس جنگل میں رہیں گےاور ایک دوسرےکی تنہائی دور کریں گے۔ ? نہیں یہ تم غلط کام کررہےہو ? ۔ اچانک دوسری سینکڑوں آوازیں جنگل میں گونجنےلگیں۔ ? تم اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ اسےیہ جگہ چھوڑ کر جانا ہےاور ہر حال میں جانا ہے۔ ہم اسےیہ جگہ چھوڑنےکےلئےمجبور کردیں گےیا اس کےوجود کو ہی اس جگہ سےکردیں گے۔ یہ ناپاک وجود اس پوتر جگہ رہنےکےقابل ہی نہیں ہے? ۔ ? ناپاک تمہارےخیالات ہیں ۔ جو دوسروں کو ناپاک کہتےہو ? ۔جواباً ہزاروں آوازیں ابھریں ۔ اور پھر دونوں طرف سےآوازیں ابھرنےلگیں ۔ آوازیں ایک بےہنگم کان کےپردےپھاڑ دینےوالےشور میں تبدیل ہونےلگیں ۔ کبھی اپنی حمایت میں ابھرنےوالی آوازیں سن کر اس کا دل خوشی سےجھوم اٹھتا اور سارےجسم میں ایک نیا عزم سرایت کرجاتا ۔ کبھی اپنی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازیں سن کر اس کا وجود کسی خشک پتےکی طرح لرزنےلگتا ۔ سارا جسم پسینےمیں تر ہوجاتا اور وجود میں خدشات کا لاوا سا کھولنےلگتا۔ اور وہ گھبرا کر اپنےدونوں کانوں پر اپنےہاتھ رکھ دیتا ۔ اچانک اسےمحسوس ہوا اس پر چاروں طرف سےتیروں کی بارش ہورہی ہی۔ وہ گھبرا گیا اور اپنےہاتھوں میں پکڑی لکڑی سےڈھال کا کام لےکر خود کو ان نیزوں سےتیروں سےبچانےکی کوشش کرنےلگا۔ لیکن اسےمحسوس ہونےلگا وہ زیادہ دیر تک خود کو بچا نہیں پائےگا ۔ تیروں اور نیزوں کی تعداد اتنی ہےکہ کبھی نہ کبھی تو وہ اس کےوجود میں پیوست ہو کر اس کی روح کو جسم کی قید سےآزاد کردیں گے۔ اس کےلئےزیادہ دیر تک اپنا بچاو�? کرنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ لیکن اچانک اسےمحسوس ہوا ایک نظر نہ آنےوالی قوت بھی ہےجو اس کےساتھ ہےاور اس کا بچاو�? کررہی ہے۔ ورنہ ابھی تک تو یہ نیزےاور تیر کب کےاسےختم کرچکےہوتے۔ اس احساس نےاس کےاندر ایک نئی روح پھونک دی کہ وہ تنہا نہیں ہی۔ کوئی اور قوت بھی اس کےساتھ ہے۔ اور وہ ایک نئےجوش سےخود کی حفاظت کرنےلگا ۔ ll

Urdu Short Story

Rehai


By M.Mubin






دونوں چپ چاپ پولس اسٹیشن کےکونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنےکا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹےہوگئےتھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کریں ۔جب بھی دونوں ایک دوسرےکو دیکھتےاور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرےکو مجرم تصور کرتے۔ دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کرپائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کےگناہ کی پاداش میں دوسرےکو سزا مل رہی ہی۔ وقت گذاری کےلئےوہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کےلئےیہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہوگا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔ سامنےلاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازےاور ان دروازوں کےچھوٹےچھوٹےکمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ? کوئی آپس میں باتیں کررہا تھا تو کوئی سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوالےسپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔ ان میں سےکچھ کےچہرےاتنےبھیانک اور کرخت تھےکہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سےہےیا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرےبالکل ان سےملتےجلتےتھے۔ معصوم بھولےبھالے۔ سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ? تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتےہو ۔ تم لوگ یہاں کیسےآن پھنسے؟ ?وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتےتو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سےتو یہ بھولےبھالےمعصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتےہیں یہکیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔ باہر دروازےپر دو بندوق بردار پہرہ دےرہےتھے۔ لاک اپ کےپاس بھی دو سپاہی بندوق لئےکھڑےتھے۔ کونےوالی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آکر اس کی میز کےسامنےوالی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سےباتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانےکےبعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔ اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کےبریف کیس رکھےہوئےتھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوےاسٹیشن سےپکڑ کر لائےگئےتھےان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھےلیکن کسی میں اتنیہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کرسکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نےآپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنےکھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔ ? اےخاموش ! آواز مت نکالو ? شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ ? اس کےبعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرےسےباتیں کرنےکی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرےکےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرےکےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سےکام کرتےتھےاور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئےتھے۔ آج جب دونوں آفس سےنکلےتھےتو دونوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔ آفس سےنکلتےہوئےاشوک نےکہا تھا ۔ ? میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلوگی؟ ایک چھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہےلیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہورہا ہے۔ ? ? چلو ! ? اس نےگھڑی دیکھتےہوئےکہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہےہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتےہیں ۔ ? وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔ ایک دوکان سےانہوں نےچھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کےبعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔ قیمت ادا کرکےاشوک نےسیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتےہوئےریلوےاسٹیشن کی طرف چل دئے۔ اسٹیشن پہنچےتو سات بجنےمیں بیس منٹ باقی تھےدونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کےآنےمیں پورےبیس منٹ باقی تھے۔ فاسٹ ٹرین کےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنےکی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سےجانا پسند کررہےتھے۔ اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پرپولس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نےپلیٹ فارم کےہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کردیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرےمیں لےلیتےان سےپوچھ تاچھ کرکےان کےسامان اور سوٹ کیس ? اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتےیا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولس جیپ میں بٹھا آتے۔ انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔ ? کیا بات ہےحولدار صاحب ؟ ? اس نےپوچھا ۔ ? یہ تلاشیاں کس لئےلی جارہی ہیں ؟ ? ? ہمیں پتہ چلا ہےکہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لےجارہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکےلئےیہ کاروائی کی جارہی ہے۔ ? سپاہی نےجواب دیا۔ وہ کل آٹھ لوگ تھےجنہیں ان سپاہیوں نےگھیرےمیں لےرکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہوچکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔ جسمانی تلاشی لینےکےبعد اشوک کوبریف کیس کھولنےکےلئےکہا گیا ۔ کھولتےہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکےبعد جیسےہی ان کی نظریں چھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ? باپ رےاتنی چھریاں ؟ صاب ہتھیار ملےہیں ۔ ? ایک نےآواز دےکر تھوڑی دور کھڑےانسپکٹر کو بلایا ۔ ? حولدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنےکی چھریوں کا سیٹ ہے۔ ? اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانےکی کوشش کی ۔ ? ہاں حولدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہےہم نےابھی بازار سےخریدا ہے۔ ? اس نےبھی اشوک کی صفائی پیش کرنےکی کوشش کی ۔ ? تو تُو بھی اس کےساتھ ہے? تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟? کہتےہوئےایک سپاہی نےفوراً اسےدبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلےہی اشوک کو دبوچ چکےتھے۔ ? ہم سچ کہتےہیں حولدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ ? اشوک نےایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔ ? چپ بیٹھ ! ? ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پرپڑا ۔ ? حولدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ ? اشوک نےاحتجاج کیا ۔ ? ماریں نہیں تو کیا تیری پوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئےپھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنےکا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سےہوگا ۔ ? ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈےبرسانےلگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈےپڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈےاس پر پڑنےکےبعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسےہی کچھ کہنےکےلئےمنہ کھولتا اس پر ڈنڈےبرسنےلگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔ ? کیا بات ہے؟? اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔ ? صاب اس کےپاس ہتھیار ملےہیں ۔ ? ? اسےفوراً تھانےلےجاو�? ۔ ? انسپکٹر نےآرڈر دیا اور دوسری طرف بڑھ گیا ۔ چار سپاہیوں نےانہیں پکڑا اور گھسیٹتےہوئےپلیٹ فارم سےباہر لےجانےلگے۔ باہر ایک پولس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھےتھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نےاپنی حفاظت میں لےرکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔ ? آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ ? جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سےپوچھنےکی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرےپر پڑا ۔ ? چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ ? اس آدمی کےمنہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنےلگا ۔ پولس اسٹیشن لاکر انہیں اس کونےکی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچےتو مسلسل لکھنےوالےنےلانےوالےسپاہیوں سےپوچھا ۔ ? یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلارہےہو ؟ ? ? ریلوےاسٹیشن پر چھاپےکےدوران پکڑےگئےہیں ان کےپاس سےمشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئےہیں ۔ ? ? پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہےہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔ ? ?صاحب نےکہا ہےکہ انہیں باہر بٹھا کررکھو وہ آکر ان کےبارےمیں فیصلہ کریں گی۔?بینچ پر بٹھانےسےپہلےان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرےانسپکٹر نےپکڑا تھا اس لئےانہیں دوسرےکمرےمیں بٹھایا گیا۔ اور بھی اس طرح کےکتنےلوگ لائےگئےانہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرےکی سرگرمیاں دیکھ پا رہےتھےجس میں وہ مقیّد تھے۔ نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرےساتھیوں سےپوچھ لیتے۔ ?یہ کہاں سےپکڑےگئےہیں ۔ جُوئےگھر سے? بلیو فلم دیکھتےہوئےیا طوائفوں کےاڈوں سے؟? ? ہتھیاروں کی تلاش میں ۔ آج ریلوےاسٹیشن پر چھاپا مارا تھا ۔ وہاں پر پکڑےگئےہیں ۔ ? ? کیا کچھ برآمد ہوا ؟ ? ? خاطر خواہ تو کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکا ۔ تلاش جاری ہے۔صاب ابھی نہیں آئےہیں ۔ آئیں تو پتہ چلےگا کہ خبر صحیح تھی یا غلط اور اس چھاپےسےکچھ حاصل ہوا ہےیا نہیں ؟ ? جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔ اشوک کی حالت غیر تھی ۔ اس کےچہرےپر اس کےدل کی کیفیت ابھر رہی تھی ۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسےوہ ابھی چکرا کر گرجائےگا ۔ اسےاندازہ تھا جن خدشات سےوہ ڈر رہا ہےاشوک کےخدشات کچھ زیادہ ہی ہوں گی۔ اسےاس بات کا اطمینان تھا تلاشی میں اس کےپاس سےکوئی بھی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئےنہ تو پولس اس پر کوئی الزام لگا سکتی ہےنہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اشوک کےساتھ گرفتار ہوا ہے۔ اشوک پر جو بھی فردِ جرم عائد کی جائےگی اس میں اسےبھی برابر کا شریک قرار دیا جائےگا ۔ کبھی کبھی اسےغصہ آجاتا ۔ ? آخر ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ کس جرم میں ہمارےساتھ عادی مجرموں سا ذلت آمیزسلوک کیا جا رہا ہےاور یہاں گھنٹوں سےبٹھا کر رکھا گیا ہےاور ہماری تذلیل کی جارہی ہے؟ ہمارےپاس سےتو ایسی کوئی مشکوک قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ہے۔ وہ چھریوں کا سیٹ ؟ وہ تو گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں ۔ انہیں اپنےپاس رکھنا یا کہیں لےجانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اشوک ان چیزوں سےکوئی قتل و غارت گری یا دنگا فساد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو انہیں اپنےگھر اپنےگھریلو استعمال کےلئےلےجانا چاہتا تھا ۔ ? لیکن وہ کس سےیہ باتیں کہے?کس کےسامنےاپنی بےگناہی کی صفائی پیش کرے۔ یہاں تو آواز بھی منہ سےنکلتی ہےتو جواب میں کبھی گالیاں ملتی ہیں تو کبھی گھونسے۔ اس مصیبت سےکس طرح نجات پائیں دونوں اپنی اپنی طور پر سوچ رہےتھےجب ان سوچوں سےگھبرا جاتےتو سرگوشی میں ایک دوسرےسےایک دو باتیں کرلیتی۔ ? انور اب کیا ہوگا ؟ ? ? کچھ نہیں ہوگا اشوک ! تم حوصلہ رکھو ۔ ہم نےکوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ? ? پھر ہمیں یہاں یوں کیوں بٹھاکر رکھا گیا ہے۔ ہمارےساتھ عادی مجرموں کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ ? ? یہاں کےطور طریقےایسےہی ہیں ۔ ابھی ہمارا کیس کسی کےسامنےگیا بھی نہیں ہے۔ ? ? میرا سالہ مقامی ایم ۔ ایل ۔ اےکا دوست ہے۔ اسےفون کرکےتمام باتیں بتادوں گا وہ ہمیں اس جہنم سےنجات دلادےگا ۔ ? ? پہلی بات تو یہ لوگ ہمیں فون کرنےنہیں دیں گے۔ پھر تھوڑا حوصلہ رکھو انسپکٹر کےآنےکےبعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہےاس وقت اس بارےمیں سوچیں گے۔ ? ? اتنی دیر ہوگئی گھر نہ پہنچنےپر بیوی متفکّر ہوگی ۔ ? ? میری بھی یہی حالت ہے۔ ایک دو گھنٹےلیٹ ہوجاتا ہوں تو وہ گھبرا جاتی ہی۔ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ نہ ملنےکی صورت میں کسی بھی الزام میں پھنسا دیں گے۔ ? ? ارےسب ان کا پیسہ کھانےکےلئےیہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ ? بغل میں بیٹھا آدمی ان کی سرگوشیوں کی باتیں سن کر پھسپھسایا ۔ ? کڑکی لگی ہوئی ہےکسی مجرم سےہفتہ نہیں ملا ہوگا یا اس نےہفتہ دینےسےانکار کردیا ہوگا ۔ اس کےخلاف تو کچھ نہیں کرسکتےاس کی بھرپائی کرنےکےلئےہم شریفوں کو پکڑا گیا ہے۔ ? ? تمہارےپاس کیا ملا ؟ ? اس نےپلٹ کر اس آدمی سےپوچھا ۔ ? تیزاب کی بوتل ۔ ? وہ آدمی بولا ۔ ? اس تیزاب سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں جو کئی مہینوں سےبستر پر ہے۔ اس کی بیماری کےجراثیم مرجائیں ان سےکسی اور کو نقصان نہ پہنچےاس کےلئےڈاکٹر نےاس کےسارےکپڑےاس ایسڈ میں دھونےکےلئےکہا ہے۔ آج ایسڈ ختم ہوگیا تھا وہ میڈیکل اسٹور سےخرید کر لےجارہا تھا ۔ مجھےکیا معلوم تھا اس مصیبت میں پڑجاو�?ں گا۔ ورنہ میں اپنےگھر کےقریب کےمیڈیکل اسٹور سےخرید لیتا ۔ ? ?اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟? ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔ اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔ ? دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔? ? ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔? ? ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔ ? ? فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔ ? ? شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ ? ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔ ? نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ? کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟ ? ? انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ? ? ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔? ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔ ? اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔ ? ? صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ ? وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔ ? جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟ ? ? جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔ ? ? زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔ ? ? اب میں کیا کہوں صاحب ! ? وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔ ? ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔? ? نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ ? کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔ ? ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔ ? صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ?درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔ انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔ ? سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔ ? ? اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! ? اشوک بولا ۔ ? کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔ ? ? ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔ ? تم ؟ ? ? صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔ ? ? تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ ? اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو�? ۔ ? ? نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ ? اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔ وہ دونوں اپنےاپنیبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ll

Urdu Short Story

Visal


By M.Mubin



دن بھر ایک کربناک ماحول گھر پر چھایا رہا ۔ اس کرب کو یا تو وہ محسوس کررہےتھےیا پھر یاسمین ۔ ممکن ہےجو پڑوسی ان کےکافی قریب رہےہوں وہ بھی اس کرب کو محسوس کررہےہوں لیکن وہ اس بات کا اظہار نہیں کرپارہےتھے۔ اپنےکرب کا اظہار نہ تو وہ کرپارہےتھےاور نہ یاسمین ۔ اپنےاس کرب کا اظہار اگر وہ کرتےبھی تو کس پر کرتے؟ اس کرب کا اظہار وہ صرف یاسمین پر کر سکتےتھےلیکن کیونکہ یاسمین خود اس کرب کا شکار تھی اس لئےوہ اس خوف سےاس پر اظہار نہیں کرپارہےتھےکہ کہیں ان کی بات سن کر یاسمین پھٹ نہ پڑےاور انہیں اسےسنبھالنا مشکل نہ ہوجائے۔ یاسمین خود اس کرب کا شکار تھی یاسمین کا درد کچھ ان سےزیادہ تھا یاسمین کو خود کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا ۔ وہ بھی ان کےدکھوں کو سمجھ رہی تھی اس لئےان پر اپنےدکھ کا اظہار نہیں کرپارہی تھی ۔ ان کی طرح اسےبھی ڈر تھا کہ اگر اس نےاپنےدرد کا اظہار ان پر کردیا تو ان کی برداشت کی قوت جواب دےدےگی اور وہ بےقابو ہوجائیں گے۔ اور اس کےبعد ان کو قابو میں لانا مشکل ہوجائےگا ۔ دونوں چور نظروں سےبار بار عادل کےچہرےکو دیکھتےتھے۔ کاش ایک لمحہ کےلےاس کےچہرےپر کرب ابھر آئےجس میں وہ دونوں گرفتار تھے۔ اگر ایک لمحےکےلئےبھی عادل کےچہرےپر اس کرب کا تاثر ابھرتا تو وہ سمجھتےان کی زندگی بھر کی محبت ، شفقت اور ممتا رنگ لائی ہے۔ عادل نےاپنےنام کی طرح ان کےساتھ انصاف کرتےہوئےان کی محبت شفقت ،ممتا اور اپنائیت کا اقرار کرلیا ہے۔ لیکن دن بھر میں ایک بار بھی ایک لمحہ کےلئےبھی عادل کےچہرےپر ایسا کوئی تاثر نہیں ابھرا تھا ۔ اس بات کا احساس ان کےکرب کو اور زیادہ بڑھا رہا تھا ۔ عادل کےاس رویّہ کےبعد یہ کہہ کر دل کو بہلانا پڑرہا تھا ۔ ? جب اپنا ہی خون سفید ہوگیا ہے۔ اس کےدل میں اتنےجتن سےاس کی پرورش کرنےوالےبوڑھےماں باپ کےلئےکوئی ہمدردی کا جذبہ نہیں ہےتو پھر لبنیٰ سےکیا شکایت کریں ۔ وہ تو پرائی ہےاس نےوہی راستہ چنا جو ہر کوئی اپنےسکھ کےلئےچنتا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہےکہ لبنیٰ کےمنتخب راستےپر چلنےکےلئےعادل تیار ہوگیا تھا ۔ لبنیٰ اپنےساتھ آئےآدمیوں کو ایک ایک چیز بتا کر اسےلےجا کر نیچےکھڑےٹرک میں رکھنےکا حکم دےرہی تھی ۔ وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی نوکر اس چیز کو اس کی دی ہوئی ہدایتوں کےمطابق اٹھا کر نیچےرکھ آتے۔ جب کوئی چیز ان کےگھر سےنکل کر نیچےکھڑےٹرک میں پہونچائی جاتی تو ان کےدل کو ایک ٹھیس لگتی ۔ چاہےپھر وہ لبنیٰ کی چیز ہو ۔ یا پھر ان کی اپنی ۔ لبنیٰ اگر ان کی کسی بھی چیز کی طرف اشارہ کرکےنوکروں کو نیچےٹرک میں رکھ آنےکےلئےکہتی بھی تو بھی وہ اس کےخلاف احتجاج نہیں کرسکتےتھے۔ عادل کےصرف ایک جملےنےان کےاحتجاج کا حق بھی چھین لیا تھا ۔ ? امی ، ابا ! اگر ہم آپ کی کوئی چیز بھی لےجا رہےہیں تو خدا کےلئےاس پر اعتراض کرکےکوئی تضاد نہ بڑھائیے۔ ہماری نئی نئی گرہستی ہےہمارےپاس گرہستی کےلئےضروری چیزیں نہیں ہیں اس لئےجن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہےایسی تمام چیزیں لےجا رہےہیں جب وہ چیزیں ہمارےپاس آجائیں گی یا ہم خرید لیں گےتو ہم وہ چیزیں آپ کو لوٹا دیں گے۔ ? ? بیٹے! تم اپنی اور ہماری چیزوں کی بات کررہےہو ۔ یہ گھر ? اس گھر کی ہر چیز تمہاری ہے۔ ہمارا کیا ہے؟ ہماری زندگی ہی کتنےدنوں کی ہے؟ ہمارےمرنےکےبعد تو یہ سب تمہارا ہی ہونےوالا ہے۔ اگر زندگی میں تمہارا ہو گیا تو کون سی بری بات ہے۔ ہمارےپاس دو وقت کی روٹی بنانےکےلئےدو برتن بھی رہ گئےتو ہمارےلئےوہی کافی ہے۔ ? انہوں نےکہا تو سہی لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو آگئےلیکن ان کےان آنسوو�?ں کا نہ تو عادل پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی لبنیٰ پر ۔ گھر کی ایک ایک چیز جاتی رہی ۔ ہر چیز جانےکےبعد وہ یاسمین کےچہرےکا جائزہ لیتے۔ انہیں یاسمین کےچہرےپر دکھ کےبادل چھائےنظر آتےتو کبھی انہیں یاسمین کی آنکھوں میں ایک احتجاج دکھائی دیتا ۔ دیکھو وہ میری امی کا دیا گلدان لئےجارہی ہےاور وہ تسبیح میرےابا میرےلئےحج سےلائےتھے? وہ پاندان میری بہن میرےلئےمراد آباد سےلائی تھی ? وہ تو پان نہیں کھاتی ماڈرن زمانےکی لڑکی جو ہے۔ اسےپاندان کی کیا ضرورت ؟ پھر وہ پاندان کیوں لئےجارہی ہے؟ اسےپارٹیوں ، شاپنگ اور سہیلیوں کےگھر جانےسےہی فرصت نہیں ملتی کہ کبھی ایک وقت کی نماز پرھ لے۔ پھر وہ تسبیح کیوں لےجارہی ہے؟ اس کےپاس ایک سےبڑھ کر ایک قیمتی آرائش کی چیزیں ہیں پھر وہ میرا گلدان کیوں لئےجارہی ہے؟ لیکن ان کی آنکھوں میں دیکھتےہی یاسمین کو جیسےحکم مل جاتا تھا کہ وہ احتجاج نہ کرے۔ اور یاسمین چاہ کر بھی احتجاج نہیں کرپارہی تھی ۔ رات میں عادل نےاپنا فیصلہ انہیں اور یاسمین کو سنایا تھا ۔ ? ابا ! آپ کو معلوم تو ہو ہی گیا ہوگا میں نےاپنےلئےالگ گھر لےلیا ہے۔ لبنیٰ اور امی کی رات دن کی ناچاقی کسی دن کوئی بڑا حادثہ نہ بن جائےاس خوف سےمجھےیہ قدم اٹھانا پڑا ۔ گذشتہ دنوں کےواقعات میں ہمارےتعلقات تو کچھ کشیدہ ہوہی گئےہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ کشیدگی اور بڑھے۔ اور ہمارےدرمیان تلخیاں بڑھتی جائیں ۔ اس لئےمیں نےیہ قدم اٹھایا ہے۔ اور یہ درست ہےمجھےبھی گھر کی ذمہ داری سمجھنےدیجئےلبنیٰ پر بھی گرہستی کا بوجھ آنےدیجئے۔ ہم ایک دوسرےسےدور رہیں گےتو ہمارےدرمیان محبت قائم رہےگی ۔ جب بھی ایک دوسرےکا دل چاہےگا ہم ایک دوسرےسےملنےآجایا کریں گے۔ آپ کو میرےگھر آنےسےکوئی نہیں روکےگا امید ہےہمارےیہاں سےجانےکےبعد بھی آپ ہمیں یہاں آنےسےنہیں روکیں گے۔ ? ? تُو ہم کو چھوڑ کر جارہا ہے? ہم کو ؟ اپنےماں باپ کو ؟ ان ماں اپ کو جنھوں نےتجھےپیدا کیا ۔ پالا ، پوسا ، پڑھایا ، لکھایا اور اس قابل بنایا کہ دنیا میں آج تیرا ایک مقام ہے۔ ہر کوئی تیرا نام ادب سےلیتا ہےتُو آج اپنی بیوی کےلئےان ماں باپ کو چھوڑ کر جانےکی بات کررہا ہے؟ ? ? امی ! میری بات کو سمجھنےکی کوشش کیوں نہیں کرتیں ۔ میں آپ کو اپنی جان سےزیادہ چاہتا ہوں اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ میری یا لبنیٰ کی وجہ سےآپ کو کچھ ہوجائے۔ اس لئےامی ! آپ میرےجذبات کوسمجھنےکی کوشش کیجئے۔ میں نےجو قدم اٹھایا ہےکوئی غلط قدم نہیں ہے۔ ? ? ماں باپ ، اپنےگھر کو چھوڑ کر جارہا ہےاور کہہ رہا ہےکوئی غلط قدم نہیں ہی؟ یہ سب کس کےلئےکررہا ہے? اپنی بیوی کےلئےناں ؟ اپنی بیوی کےکہنےپر تُو آج ٥٢ سالوں کا رشتہ توڑنےکےلئےتیار ہوگیا ؟ اس بیوی کےلئےجس نےابھی تیرےساتھ ٹھیک سےچھ مہینےبھی نہیں گذارےہیں اگر تجھےماں باپ سےاتنی ہی محبت ہےجتنی محبت تو اس وقت ہم سےجتا رہا ہےتو اس محبت کا ثبوت بھی دے۔ ? یاسمین کی بات سن کر عادل کےچہرےپر زلزلےکےتاثرات ابھرے۔ ? یاسمین ! تم چپ رہو ۔ ? انہوں نےیاسمین کو چپ کرایا ۔ ? ٹھیک ہےبیٹے! اگر تمہیں اسی میں اپنی بھلائی محسوس ہوتی ہےتو ہم تمہاری خوشیوں کےدرمیان نہیں آئیں گے۔ ? ان کی بات سن کر عادل تو اپنےکمرےمیں چلا گیا لیکن آدھی رات تک ان کےاور یاسمین کےدرمیان حجت و تکرار چلتی رہی ۔ ? آپ نےاسےاتنی آسانی سےگھر چھوڑ کر چلےجانےکی اجازت دےدی ? آپ نےاس کا انجام سوچا ہے? لوگ کیا کہیں گے؟ یہ سب اُس کی لگائی آگ ہےہماری موجودگی میں اُس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ اسےآزادی نہیں ملتی ہے۔ وہ جو چاہتی ہےہماری وجہ سےکر نہیں پاتی ۔ جب ہم ہی نہ ہوں گےتو اسےہر طرح کی آزادی مل جائےگی ۔ وہ عادل کو برباد کرکےرکھ دےگی ۔ ایسی ایسی حرکتیں کرےگی جن کو سن کر ہمارا سر شرم سےجھک جائےگا ۔ اپنےکرتوتوں سےوہ ہمارےخاندان کےنام پر دھبہ لگا دےگی ? وہ عادل کو برباد کردےگی ۔ ? ? جب وہ ہمارےگھر میں نہیں رہےگی تو پھر اس کی حرکتوں سےہمیں کیا لینا دینا ؟ اور عادل کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہے۔ اسےاچھےبرےکی تمیز ہے۔ غلط باتوں پر وہ اسےروکےگا ۔ ? ? ارےوہ کیا اسےروکےگا ? اگر اسےاتنی ہی تمیز ہوتی تو وہ اس کےکہنےپر گھر چھوڑنےکی بات نہیں کرتا ۔ ? ? اگر وہ آج کوئی غلطی کررہا ہےتو جب اسےاپنی اس غلطی کا احساس ہوگا تو اپنی اس غلطی پر نادم بھی ہوگا ۔ ? ? اپنی غلطی پر ندامت پتہ نہیں کب اسےمحسوس ہو ؟ لیکن آج تو وہ اپنی زندگی تباہ کررہا ہے۔ ? ? ہم نےزندگی بھر اسےانگلیاں پکڑ کر چلنا سکھایا لیکن آج وہ اتنا بڑا ہوگیا ہےکہ اسےہماری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئےاس نےجو راستہ چنا ہوگا ٹھیک ہی ہوگا ۔ ? بظاہر وہ عادل کےفیصلےکو درست ثابت کرنےکی کوشش کررہےتھےلیکن عادل کےاس فیصلےنےایک بارود کا کام کرتےہوئےان کےوجود کی دھجیاں اڑا دی تھیں ۔ ان کا وہ بیٹا ان سےالگ ہورہا تھا ۔ جسےایک لمحہ کےلئےبھی وہ اپنی نظروں سےدور نہیں کرتےتھے۔ لیکن وہ کیا کرسکتےتھے؟ وہ اپنےآپ کو بڑا لاچار اور بےبس محسوس کررہےتھے۔ اگر وہ عادل کےاس فیصلےکی مخالفت کرتےتو یاسمین کو شہ مل جاتی یاسمین عادل کےالگ ہونےکےحق میں نہیں تھی ۔ اور ایک تضاد کھڑا ہوجاتا ۔ لبنیٰ اور عادل کسی بھی صورت میں ان کےساتھ رہنےکےلئےتیار نہیں ہوتےاور وہ اس کےلئےتیار نہیں ہوتےتو تضاد بڑھتا ۔ حاصل یہی ہوتا کہ فتح عادل اور لبنیٰ کی ہوتی انہیں اور یاسمین کو حزیمت اٹھانی پڑتی ۔ اور لوگوں کو ایک تماشہ دیکھنےکا موقع مل جاتا ۔ اس لئےاپنےدل پر پتھر رکھتےہوئےانہوں نےعادل کےفیصلےکو قبول کیا تھا ۔ رات نہ وہ سو سکےاور نہ ہی یاسمین سو سکی ۔ دیر رات تک عادل کےکمرےسےاس کی اور لبنیٰ کی کھسر پسر کی آوازیں آتی رہیں ۔ پلنگ پر وہ چپ چاپ چت لیٹےچھت کو تاکتےرہے۔ یاسمین دوسری طرف کروٹ لئےدیوار تاکتی رہی ۔ دونوں کےذہن میں ایک طوفان اٹھا رہا ۔ ان کی آنکھوں کےسامنےعادل کی پیدائش سےتادم تک ایک ایک لمحہ ? ایک ایک واقعہ کسی فلم کی طرح چکراتا رہا ۔ کتنی منتوں ، مرادوں ، مشکلوں اور مصیبتوں کےبعد عادل کی پیدائش ہوئی تھی۔ شادی کےپانچ سالوں کےبعد بھی جب ان کےگھر کوئی اولاد نہیں ہوئی تو وہ اولاد کی خوشی سےمایوس ہوگئےتھے۔ دونوں نےاپنا اپنا چیک اپ کرایا تھا ڈاکٹروں نےبتایا تھا کہ ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اولاد کےسکھ سےمحروم تھے۔ اس کو ان کی تقدیر کی کم نصیبی سمجھا جائےیا قدرت کا مذاق یا کوئی مصیبت ۔ ہزاروں علاج ، منتوں اور مرادوں کےبعد ان کےباپ بننےکی خوش خبری ملی تھی ۔ اس خبر کو سن کر ان کی حالت پاگلوں سی ہوگئی تھی ۔ یاسمین سےاس کی خوشی سنبھالےنہیں سنبھل رہی تھی ۔ ان کےقریبی رشتہ دار اور کرم فرماو�?ں میں بھی اس خبر کو سن کر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔ انہوں نےسب سےپہلےیہ خبر انہیں سنائی تھی ۔ کیونکہ ان کی باتیں پانچ سالوں تک ان کےلئےیاسمین کےلئےبڑی ادیت کا باعث بنی تھیں ۔ لوگ ہزاروں طرح کی باتیں بناتےتھے۔ کبھی کہتےیاسمین میں کوئی کمی ہے، کبھی ان میں کسی کمی کا الزام لگاتے۔ کبھی کہتےوہ دونوں خود ابھی بچہ نہیں چاہ رہےہیں کچھ دن اور عیاشی کرنا چاہتےہیں ۔ کبھی انہیں مشورہ دیتےیاسمین انہیں اولاد کا سکھ نہیں دےسکتی ۔ اولاد کےلئےوہ دوسری شادی کرلیں ۔ کبھی یاسمین کو سمجھاتےان سےاسےاولاد نہیں ہوسکتی اس لئےان کےپیچھےوہ کیوں اپنی زندگی تباہ کررہی ہے۔ ابھی سےسنبھل جائےاور ہوش سےکام لےاس کی اچھی خاصی نوکری ہےوہ خود کفیل ہے۔ چاہےتو ان سےطلاق لےکر کسی ایسےمرد سےشادی کرسکتی ہےجو اسےاولاد کا سکھ دے۔ کبھی اڑاتےکہ دونوں نوکری پیشہ ہیں ۔ گھر میں کوئی ایسا نہیں ہےجو ان کےبعد بچہ کی دیکھ ریکھ کریں اس لئےاس ذمہ داری سےگھبرا کر چاہتےہیں کہ انہیں اولاد نہ ہو ۔ جب بھی وہ کسی کی بات سنتےان کےدل کو ایک چوٹ سی لگتی ۔ یاسمین کی آنکھوں سےٹپ ٹپ آنسو گرنےلگتےاور وہ دہاڑیں مار مار کر رونےلگتی اور انہیں یاسمین کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ۔ وہ بھرّائی آواز میں کہہ اٹھتی ۔ ? مجھ میں ہی کوئی کمی ہے۔ میں آپ کو اولاد کا سکھ نہیں دےسکتی آپ میرےپیچھےاپنی زندگی برباد نہ کریں اور کسی دوسری لڑکی سےشادی کرلیں ۔ تاکہ وہ آپ کو اولاد کا سکھ دےسکے۔ ? یاسمین کو لاجواب کرنےکےلئےوہ یاسمین کےالفاظ اسےلوٹا دیتےتو یاسمین تڑپ اٹھتی۔ ? خدا کےلئےایسی باتیں منہ سےنہ نکالئے۔ میں ایک لمحہ کےلئےبھی آپ سےالگ ہونےکا تصور نہیں کرسکتی ۔ ? اتنےبرسوں سےبعد انہیں اولاد کی خوشخبری ملی تھی ۔ عادل کی ولادت بھی ایک امتحان سےکم نہیں تھی ۔ ایک آگ کا دریا تھا جسےدونوں کو پار کرنا تھا ۔ عادل کی ولادت کےبعد ایسےحالات پیدا ہوگئےکہ یاسمین کی زندگی خطرےمیں پڑ گئی ۔ آخر آپریشن کےبعد ڈاکٹروں نےیاسمین اور عادل دونوں کو بچالیا لیکن اس قیمت پر کہ یاسمین اب کبھی ماں نہیں بن پائےگی ۔ عادل کو پاکر انہوں نےخوشی خوشی یہ قیمت بھی ادا کردی ۔ عادل کو پاکر انہیں لگا جیسےانہیں دنیا کی سب سےبڑی نعمت مل گئی ۔ اس کےبعد ان کےدل میں خدا کی کسی اور نعمت کی تمنا ہی نہیں ہے۔ تین مہینوں تک یاسمین گھر میں رہی ۔ اس کےبعد عادل کو چھوڑ کر اسکول جانےکا کڑا امتحان آگیا ۔ جذبات میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ عادل کےلئےیاسمین نوکری چھوڑ دے۔ کیونکہ ان کا آفس میں دل نہیں لگتا ہے۔ عادل میں ہی دھیان لگا رہتا ہے۔ لیکن یہ طےکیا گیا کہ عادل کی بھلائی کےلئےاس کی زندگی سنوارنےکےلئےیاسمین نوکری جاری رکھےگی کیونکہ یہ طےکیا گیا تھا یاسمین کا ایک ایک پیسہ عادل کی ذات پر خرچ کرکےاسےایک نیک ، صالح ،اچھا اور کامیاب انسان بنایا جائےگا ۔ عادل کو کبھی نوکروں ، پڑوسیوں یا کبھی رشتہ داروں کےپاس چھوڑ کر دونوں ڈیوٹی پر نکل جاتے۔ آفس میں ان کا دل نہیں لگتا تھا ۔ نظریں گھڑی کی سوئیوں پر لگی رہتی تھیں ۔ جس وقت گھڑیاں وہ گھنٹہ بتاتی جب یاسمین اسکول سےگھر آجاتی تو ان کو سکون مل جاتا ۔ اب عادل صحیح ہاتھوں میں پہونچ گیا ہے۔ اب فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسےجیسےعادل بڑا ہورہا تھا اس کےلئےان کےدل میں محبت بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کی معصوم حرکتیں ، آوازیں ، باتوں سےبےاختیار اس کےلئےدل میں پیار امڈ آتا تھا اور وہ اسےلپٹا لیتےتھے۔ عادل کو معمولی چھینک بھی آجاتی تو ان کا دل تشویش میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔ عادل کےجسم کا درجہ حرارت معمولی بھی بڑھ جاتا تو ان کی ساری رات آنکھوں میں کٹ جاتی تھی ۔ عادل کو معمولی بخار بھی آجاتا تو بڑےسےبڑےڈاکٹر کا علاج کرایا جاتا ۔ بڑا ہوا تو تعلیم کی فکر ستانےلگی ۔ اسےسب سےاچھےاسکول میں داخل کیا گیا اور اس کی تعلیم پر خاص دھیان دیا جانےلگا ۔ دو گھنٹہ وہ اسےپڑھاتےتھےاور دو گھنٹےیاسمین ۔ ویسےعادل کافی ذہین تھا ۔ پھر ان کی تربیت اور تعلیم تو سونےپر سہاگہ کا کام کرنےلگی ۔ وہ ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دسویں کےامتحان میں بورڈ کےپہلےدس کامیاب طلبہ میں مقام پا گیا ۔ عادل سوِل انجینئر بننا چاہتا تھا ۔ انہوں نےبھی اس کی مرضی کےآگےاپنا سر خم کیا ۔ انہوں نےعادل کےبارےمیں بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن وہ عادل کی مرضی کےخلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتےتھےعادل کی دلچسپی کا ہی کام کرنا چاہتےتھےاچھےنمبروں کی وجہ سےاسےآسانی سےایک اچھےکالج میں داخلہ مل گیا ۔ پڑھائی میں وہ تیز تھا اپنےمضمون میں بہت زیادہ محنت کرنےلگا ۔ زیر تعلیم رہتےہوئےبھی وہ ایک سوِل انجینئر کےپاس جانےلگا اور وہ کام کرنےلگا جسےاسےامتحان پاس کرنےکےبعد کرنا تھا ۔ دو تین سالوں میں ہی وہ اپنےمیدان کا اتنا ماہر ہوگیا کہ بڑےسےبڑےانجینئر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرپائےتھے۔ اس کےبنائےپلان ، نقشوں اور خاکوں میں کوئی بھی غلطی نہیں نکال پاتا تھا ۔ نقشے، خاکےاور پلان وہ بناتا تھا لیکن اس پر مہر کسی اور کی لگتی تھی ۔ بعد میں ان نقشوں پر بننےوالی عمارتیں بھی اسی کےزیرِ نگرانی تعمیر ہوتی تھیں ۔ ڈگری ملنےسےپہلےہی اس کا اتنا نام ہوگیا تھا اور اسےاتنا تجربہ حاصل ہوگیا تھا جسےپانےمیں اوروں کو کئی سال لگ جاتےتھے۔ امتحان میں وہ نمایاں نمبروں سےکامیاب رہا ۔ اس کےکامیاب ہوتےہی ایک بہت بڑی کنسٹرکشن فرم میں اسےنوکری مل گئی ۔ اچھی تنخواہ کےساتھ اسےگاڑی اور بنگلہ بھی ملا ۔ لیکن اس نےبنگلہ یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ میں اپنی امی اور ابا کےساتھ اس چھوٹےسےگھر میں رہ کر ان کےسارےخواب پورےکرکےان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نےمیرےلئےدیکھےہیں ۔ ایک سعادت مند بیٹےکی طرح وہ اپنی ساری تنخواہ لاکر انہیں دےدیتا تھا ۔ آفس سےآنےکےبعد بھی ان کےگھر عادل سےملنےوالوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ وہ لوگ چاہتےتھےکہ عادل آفس سےآنےکےبعد ان کا کام کرے۔ وہ ان کاکام کرتا تو اسےجتنی تنخواہ ملتی تھی اس سےزیادہ پیسہ مل جاتا تھا ۔ بہت سےلوگوں نےمشورہ دیا کہ وہ نوکری چھوڑ کر اپنا خود کا بزنس شروع کردے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ آخر عادل نےاپنا الگ کاروبار شروع کردیا اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرنےلگا ۔ اس درمیان دونوں ریٹائر ہوگئےتھے۔ ان تمام کامیابیوں کےبعد ماں باپ کا اولاد کےلئےبس ایک ہی آخری خواب ہوتا ہے۔ اولاد کا سہرا دیکھےاور بہو کو گھر دیکھنےکا خواب ۔ یہ خواب بھی پورا ہوگیا ۔ لبنیٰ بہو بن کر ان کےگھر آگئی ۔ لبنیٰ ایک بہت امیر کبیر گھرانےکی چشم و چراغ تھی ۔ خوبصورت اتنی کہ اس کی خوبصورتی کےسارےشہر میں چرچےتھے۔ ایسی بیوی پاکر کون خوش نہیں ہوسکتا تھا ۔ لیکن کچھ دنوں میں ہی انہوں نےمحسوس کیا کہ لبنیٰ اور یاسمین کےخیالوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو باتیں لبنیٰ کو پسند تھیں وہ یاسمین کو پسند نہیں تھیں ۔ یاسمین لبنیٰ کو جس روپ میں دیکھنا چاہتی تھی وہ لبنیٰ کےلئےایک دقیانوسی روپ تھا ۔ پہلےدبےلفظوں میں بعد میں اونچی آواز میں ان مسئلوں پر دونوں میں بحث و تکرار ہوئی ۔ ایسی حالت میں وہ ثالث کا کردار نبھاتےہوئےبھی یاسمین کو دباتےتھے۔ عادل بھی تماشائی بنا رہتا ۔ کبھی لبنیٰ کی طرف داری کرتےہوئےماں کو سمجھاتا کہ وہ بڑی ہیں اسےان چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیئے۔ یا پھر کبھی ماں کی طرف داری کرتا ۔ آخر وہی ہوا جس کےتصور سےہی کبھی کبھی وہ کانپ اٹھتےتھے۔ عادل اور لبنیٰ نےالگ رہنےکا فیصلہ کرلیا ۔ اور وہ گھر چھوڑ کر جارہےتھے۔ اور گھر پر ایک کربناک سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ ان کےاندر درد کا دریا ٹھاٹھیں ماررہا تھا رات تک وہی سناٹا گھر میں برقرار رہا ۔ ? عادل ہمیں چھوڑ کر چلاگیا ? اس نےبیوی کےلئےہمیں چھوڑ دیا ?ہماری محبتوں کا ہمیں یہ صلہ دیا ؟ آخر ہماری محبت میں ایسی کیا کمی رہ گئی تھی جو اسےباندھ کر ہمارےپاس نہیں رکھ سکتی تھی۔? یاسمین گھر کی دیواروں کو گھورتےہوئےپاگلوں کی طرح بڑبڑا رہی تھی ۔ ? اب اس کےجانےکا غم نہ کرو اور خود کو سنبھالو ۔ ? انہوں نےاسےسمجھایا ۔ سمجھ لو خدا نےہمیں بیٹا نہیں بیٹی دی تھی ۔ بیٹی تو پرائی امانت ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن تو اسےاپنےگھر جانا ہوتا ہے۔ سمجھ لو آج ہماری بیٹی کی شادی ہوگئی ہےاور آج وہ ہم سےبچھڑ کر اپنےگھر چلی گئی ہے۔ ? ان کی اس بات کو سنتےہی یاسمین پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ پتہ نہیں یہ کس کےوصال کےآنسو تھے۔ بیٹےکےیا بیٹی کے؟ ll

Urdu Short Story

Kitne Pule Sirat


By M.Mubin



سویرےجب وہ گھر سےنکلی تھی تو بشریٰ بخار میں تپ رہی تھی ۔ ? امی !مجھےچھوڑ کر مت جاو�? ? امی آج اسکول مت جاو�? مجھےبہت ڈر لگ رہا ہے۔? جب وہ جانےکی تیاری کررہی تھی تو بشریٰ کی آنکھ بھی کھل گئی تھی اور وہ اسےآج اسکول نہ جانےکےلئےضد کرہی تھی ۔ ? نہیں بیٹے! ? پیار سےاسےسمجھانےکےلےجب اس نےاس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو کانپ اٹھی ۔ بشریٰ کی پیشانی بخار سےتپ رہی تھی ۔ ? امی سےاس طرح کی ضد نہیں کرتے۔ ? یہ کہتےہوئےاس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی ۔ ?آج امی کا اسکول جانا بےحد ضروری ہے۔ کل چاہےروک لینا ۔ تم کہوگی تو کل سےہم آٹھ دنوں کےلئےاسکول نہیں جائیں گےتمہارےپاس ہی رہیں گے۔ آج ہمیں جانےدو ۔? ? امی رک جاو�? ناں ! مجھےاچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ? بشریٰ رونےلگی تھی ۔ ? نہیں روتےبیٹے! ? بشریٰ کو روتا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئےتھے۔ لیکن بڑی مشکل سےاس نےاپنےآنسوو�?ں کو روکا تھا اور بھرائی ہوئی آواز پر قابو پانےکی کوشش کی تھی ۔ ? ہم آج جلدی گھر آجائیں گےپھر تمہارےابا تو تمہارےپاس ہی ہیں ناں بیٹا ۔ڈرنےکی کوئی بات نہیں ہے۔ ? دوسرےکمرےمیں طارق اور عوف بےخبر سو رہےتھے۔ تھوڑی دیر سسکتےرہنےکےبعد بشریٰ کی بھی آنکھ لگ گئی تھی ۔ اس نےاپنا پرس کاندھےپر لٹکایا اور جاکر دھیرےسےطارق کو ہلانےلگی ۔ ? آں ! کیا بات ہے؟ ? طارق نےآنکھ کھول دی ۔ ? میں جارہی ہوں ۔ ? وہ بولی ۔ ? بشریٰ کو سخت بخار ہےاسےڈاکٹر کےپاس لےجانا ۔ نوکرانی سےکہہ دینا کہ اس کا اچھی طرح خیال رکھے۔ اگر ممکن ہو تو آج آپ چھٹی کرلیں ۔ ویسےمیں آج جلد آنےکی کوشش کروں گی لیکن کہہ نہیں سکتی کہ یہ ممکن ہوسکےگا بھی یا نہیں کیونکہ آج انسپکشن ہے۔ اگر انسپکشن نہ ہوتا تو آج جاتی ہی نہیں ۔ ? ? ٹھیک ہے۔ ? طارق نےاٹھتےہوئےجماہی لی ۔ وہ جب گھر سےباہر آئی تو چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا ۔ سردیوں کےدنوں میں سات بھی بج جاتےہیں تو اندھیرا ہی چھایا رہتا ہےدن نہیں نکلتا اور اس وقت تو صرف ساڑھےپانچ ہی بجےتھے۔ پوری گلی سنسان تھی ۔ راستےپر اکا دکا لوگ آجارہےتھے۔ ایسےعالم میں کسی عورت کےگھر سےنکلنےکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ روزانہ اسی وقت اکیلی اس گلی سےگذر کر رکشا اسٹینڈ تک جاتی جو لوگ سویرےجلدی جاگنےکےعادی تھے۔ انہیں علم تھا کہ وہ اس وقت گھر سےاسکول جانےکےلئےنکلتی ہے۔ شناسا لوگ اس سےدو باتیں کرلیا کرتےتھے۔ ? بیٹی اسکول جارہی ہو ۔ ? ? ہاں بابا ۔ ? وہ جواب دیتی ۔ ? بھابی اکیلی اندھیرےمیں روزانہ اتنےسویرےجاتی ہو تمہیں ڈر نہیں لگتا ؟ ? ? اب تو عادت ہوگئی ہے۔ ? وہ مسکرا کر کہتی ۔ سبھی شناسا اور اچھےنہیں ہوتے۔ کبھی کبھی کوئی اجنبی اور بدمعاش بھی مل جاتا ہے۔ اکیلےمیں اس وقت کسی اجنبی عورت کو دیکھ کر وہ جو کچھ کرسکتا ہےوہ کرنےسےنہیں چوکتا تھا ۔ کبھی کوئی بھدا سا فقرہ منہ سےنکال دیتا ۔ کبھی کوئیناگوار بات کہہ دیتا ۔ اور کوئی تو جسارت کرکےدھکا دےکر آگےبڑھ جاتا اور اپنی کسی نفسانی خواہش کی تسکین کرلیتا ۔ ایسی صورت میں اس کا ردِ عمل سوائےخاموشی کےاور کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ نہ تو وہ اس سےالجھ سکتی تھی نہ شور مچا کر اپنی مدد کےلئےکسی کو بلا سکتی تھی ۔ الجھتی تو نقصان اسی کا ہوتا ۔ اکیلی عورت جو ٹھہری ۔ کسی کو مدد کےلئےبلاتی تو ممکن نہیں تھا کہ کوئی اس کی مدد کو آتا ۔ اتنےسویرےکوئی اپنی لاکھوں روپوں کی میٹھی نیند خراب کرتا ہے؟ اگر کوئی آئےبھی تو اس بدمعاش سےتو اسےنجات مل جاتی لیکن مدد کرنےوالوں کےجملوں سےشاید زندگی بھر نجات نہیں ملتی ۔ ? اتنی رات گئےاکیلی گھر سےنکلی ہو ۔ شریف عورتوں کےکیا یہی چال چلن ہیں ؟ ? ? اگر عزت کا اتنا ہی پاس ہےتو اکیلی اتنےسویرےگھر سےکیوں نکلتی ہو ۔ گھر میں رہا کرو ۔ چھوڑ دو یہ نوکری ۔ ? غرض وہ ایسی باتوں سےکترانےکےلئےاپنےساتھ ہوئےجارہےبےجا سلوک کو نظر انداز کرکےآگےبڑھ جاتی تھی ۔رکشا اسٹینڈ سےایس ٹی کےلئےاسےپانچ منٹ میں رکشا مل جاتا تھا۔ کبھی کبھی تو اسےرکشا تیار مل جاتا تھا کبھی دو چار منٹ رکشا کا انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ کچھ رکشا والوں کو معلوم تھا وہ اس وقت وہاں سےایس ۔ ٹی اسٹینڈ جانےکےلئےنکلتی ہےتو وہ اس کےانتظار میں وہاں پہونچ جاتےتھے۔ اس میں بھی ان لوگوں کی نیت کےدو پہلو ہوتےتھے۔ کچھ شریف لوگ اپنی روزی دھندےکےلئےاس کی سیٹ حاصل کرنےکےلےوہاں پہونچتےتھے۔ کچھ بدمعاش ذہنیت والےصرف اس لذت کےلئےوہاں پہونچتےتھےکہ ایک اکیلی تنہا خوبصورت جوان لڑکی کو اکیلےرکشا میں ایس ۔ ٹی اسٹینڈ تک پہنچانےکا موقع ملےگا ۔ اس سےکچھ ایسی بھی باتیں ہوسکتی ہیں جو ان کےلئےنفسانی لذت کا باعث ہوں ۔ ایسی حالت میں وہ خاموش رہ کر سفر کرنےکو ترجیح دیتی تھی ۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیتی تھی یا اگر دیتی بھی تو ایسا جواب دیتی کہ اس کی ساری امیدوں اور ارادوں پر پانی پھر جائے۔ ایسی حالت میں جو حادثہ ممکن تھا وہ ایک بار ا س کےساتھ ہوچکا تھا ۔ سناٹےاور اندھیرےکا فائدہ اٹھا کر ایک رکشا والےنےاسےغلط راستےپر لےجانا چاہا ۔ اس نےچیخ کر اسےروکا جب اس نےنہیں سنا تو چلتےرکشےسےکود گئی ۔ اسےمعمولی چوٹیں آئیں لیکن اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ سامنےپولس کھڑی تھی اور اس نےاسےرکشا سےکودتےدیکھا تو دوڑ کر اس کےپاس پہنچے۔ ? کیا بات ہیمیڈم ? کیا آپ رکشا سےگر گئیں ؟ ? ? نہیں ! وہ رکشا والا مجھےاکیلی دیکھ کر غلط راستےپر لےجارہا تھا ۔ ? ? ایسی بات ہے؟ ? یہ سنتےہی دو پولس والےگاڑی لےکر بھاگے۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس رکشا والےکو مارتےہوئےاس کےپاس لےآئےانہوں نےشاید اسےبری طرح مارا تھا ۔ اس کےماتھےسےخون بہہ رہا تھا ۔ ? بہن جی مجھےمعاف کردو ! اب زندگی بھر ایسی غلطی نہیںکروں گا ۔ ? وہ اس کےپیروں پر گر کر گڑگڑانےلگا تو اس نےپولس والوں سےکہا کہ اس کےخلاف کوئی کاروائی نہ کرےاسےچھوڑ دے۔ اس واقعہ کو تو اس نےاپنےتک ہی محدود رکھا تھا لیکن رکشا والوں میں شاید اس واقعہ کی تشہیر ہوگئی تھی کیونکہ اس کےبعد اس کےساتھ ایسا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا ۔ اس واقعہ سےوہ خود بہت ڈر گئی تھی ۔ اس نےسوچا تھا کہ وہ اپنا تبادلہ دوپہر کی شفٹ میں کرالےگی ۔ اس کےلئےاس نےکافی ہاتھ پیر بھی مارےتھے۔ لیکن بات نہیں بن سکی تھی ۔ تبادلےکرنےوالےاتنی قیمت مانگ رہےتھےجتنی دینا اس کی بساط کےباہر تھا ۔ ویسےدوپہر کی شفٹ اس کےاور اس کےگھر والوں کےحق میں بھی مناسب نہیں تھی ۔ دوپہر کی شفٹ کرنےکےلئےاسےسویرےنو دو بجےگھر سےنکلنا ہوگا اور واپسی شام سات آٹھ دس بجےتک ممکن ہی نہیں ہوسکےگی ۔ ایسی صورت میں گھر ، عوف اور بشریٰ کا کون خیال رکھےگا ۔ طارق ڈیوٹی دیکھےگا یا گھراور بچوں کو ؟ اس لئےاس نےدوسری شفٹ لینےکا ارادہ بدل دیا تھا ۔ سویرےکی شفٹ کےلئےاسےساڑھےپانچ بجےکےقریب گھر سےنکلنا پڑتا تھا ۔ اس طرح سےوہ ٹھیک وقت پر اسکول پہنچ بھی جاتی تھی ۔ اسکول سےوہ دو ڈھائی بجےکےقریب واپس گھر آجاتی تھی۔ طارق دس گیارہ بجےتک گھر میں ہی رہتا تھا اس کےبعد نوکرانی آجاتی اس کےآنےتک نوکرانی گھر اور بچےسنبھالتی تھی ۔ ساڑھےپانچ بجےگھر چھوڑنےکےلئےاسےچار بجےجاگنا پڑتا تھا ۔ جاگنےکےبعد وہ اپنےاور بچوں کےلئےسویرےکا ناشتہ اور کبھی کبھی دوپہر کا کھانا بناتی تھی ہاں ! کبھی دیر ہوجاتی تو یہ ذمہ داری نوکرانی پر ڈالنی پڑتی ۔ سارےکام کرکےوہ ٹھیک وقت پر گھر سےنکل جاتی تھی ۔ نکلتےوقت وہ ہلکا سا ناشتہ کرلیتی تھی لیکن اسکول میں اسےبھوک لگ ہی جاتی تھی ۔ تعطیل میں اسےہلکا ناشتہ کرنا ضروری ہوجاتا تھا ۔ اس کےبعد وہ گھر آکر ہی کھانا کھاتی تھی ۔ بس اسٹینڈ پہونچنےکےبعد اسےپونےچھ بجےکی بس مل جاتی تھی ۔ یہ بس بھی ایک معمہ تھی ۔ کبھی بالکل خالی ہوتی تھی تو کبھی اتنی بھیڑ کہ پیر رکھنےکےلئےبھی مشکل سےجگہ ملتی تھی ۔ بس خالی ہو یا اس میں بھیڑ اسےاسی سےسفر کرنا ضروری ہوتا تھا ۔ اگر وہ بس چھوٹ جائےتو مقررہ وقت پر اسکول پہونچنا نا ممکن تھا ۔ کیونکہ ٠٢ کلومیٹر کا پل صراط سا سفر اسی بس کےذریعہ مقررہ وقت میں طےکرنا ممکن تھا ۔ ورنہ بھیونڈی تھانہ کا سفر ؟ خدا کی پناہ ۔ بھیونڈی سےنکلےلوگ ناسک پہونچ جائیں لیکن تھانہ جانےکےلئےنکلےراستےمیں ہی پھنسےرہے۔ خراب راستہ ، ٹریفک ، مسافروں ، بس کنڈکٹر ، ڈرائیور کےجھگڑے۔ صبح کےوقت ٹریفک کم ہوتی تھی بھیڑ کم ہونےکی وجہ سےکنڈکٹر کا موڈ بھی اچھا ہوتا تھا ۔ اس لئےیہ سفر معینہ وقت میں پورا ہوجاتا تھا ۔ اس کےبعد تھانےسےآدھےگھنٹےکا لوکل ٹرین کا سفر ۔ اس میں بہت کم پریشانی ہوتی تھی ۔ دوچار منٹ میں کوئی تیز یا دھیمی لوکل مل جاتی تھی ۔ سویرےکا وقت ہونےکی وجہ سےلوکل میں بھیڑ نہیں ہوتی تھی ۔ کبھی جنرل ڈبےمیں جگہ مل جاتی تھی تو کبھی لیڈیز ڈبےمیں ۔ ہاں ! کسی مجبوری کےتحت بھیڑ ہونےکی وجہ سےکھڑےہوکر سفر کرنا بھی بھاری نہیں پڑتا تھا ۔ لیڈیز ڈبےمیں کھڑےہوکر سفر کرنےمیں تو کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی لیکن جنرل ڈبےمیں کھڑےہوکر سفر کرنا ایک عورت کےلئےعذاب سےکم نہیں ہوتا ہے۔ دھکےجسم کی ہڈی پسلیاں ایک کردیتےہیں ۔ اور ایک عورت کو تو کچھ زیادہ ہی دھکےلگتےہیں اور خاص طور پر نازک مقامات پر ۔ ایسا محسوس ہوتا ہےجیسےکئی گدھ اپنی نوکیلی چونچوں سےاس کا گوشت نوچ رہےہیں ۔ کبھی راحت بھرا آرام تو کبھی عذاب بھرا یہ سفر طےکرنےکےبعد کچھ قدموں کا پیدل سفر اور اس کےبعد اسکول ۔ کیسی عجیب بات تھی ۔ تیس چالیس کلومیٹر سےوہ آتی تھی ۔ لیکن کبھی کبھی وہ سب سےپہلےاسکول آنےوالی واحد ٹیچر ہوتی تھی ۔ یا پہلےنہیں بھی آتی تھی تو لیٹ کبھی نہیں ہوتی تھی ۔ مگر مقامی ٹیچرس ہمیشہ تاخیر سےآتےتھے۔ اس کےباوجود اگر کسی دن مجبوری سےوہ ایک آدھ گھنٹہ تاخیر سےاسکول پہونچتی تو وہ لوگ ناک بھوں چڑھاتے۔ اور تاخیر سےآنےکےلئےاسےجواب دینا پڑتا تھا یا اس کی حاضری میں لیٹ مارک کیا جاتا تھا ۔ وہ اس کےخلاف احتجاج بھی کرتی تو اس کا احتجاج بےاثر رہتا ۔ کیونکہ اس کی اسکول میں کوئی لابی نہیں تھی ۔ لابی نہ ہونےکی وجہ سےاس کےاحتجاج میں نہ تو قوت تھی اور نہ اثر ۔ جن کی لابی مضبوط تھی وہ سارےقانون کو بالائےطاق رکھ کر نوکری کرتےتھے۔ اسکول سےوہ ساڑھےبارہ بجےکےقریب نکلتی تھی ۔ تھوڑی دور پیدل چلنےکےبعد ریلوےاسٹیشن اور پھر لوکل سےتھانہ ۔ اور تھانہ آنےکےبعد بھیونڈی تک کا کربناک سفر ۔ جب بھی وہ تھانہ بھیونڈی کےدرمیان سفر کرتی تھی اسےصراط مستقیم کی یاد آتی تھی ۔ روزِ محشر کےبعد بندوں کو جس بال سےباریک پُل پر سےسفر کرنا ہوگا جس کےنیچےجہنم کی آگ دہک رہی ہوگی ۔ وہ سفر کتنا اذیت ناک ہوگا اس کا تو صرف تصور کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن اس سفر کو طےکرتےہوئےجو اذیت برداشت کرنی پڑتی تھی اس کی کوئی حد نہیں تھی ۔ پہلےبس کی لائن میں گھنٹوں کھڑےرہنا دھکےکھانا ۔ طرح طرح کےلوگوں کی ناپاک نظروں کا نشانہ بننا ۔ پھر دانستگی یا نادانستگی سےلگائےان کےہوس ناک دھکوں کواپنےجسم پر جھیلنا ۔ بس آئی اور جگہ مل گئی تو غنیمت ورنہ پھر بھیڑ میں کھڑےکھڑےسفر ۔ بھیڑ میں گھٹتا دم اور جسم کا نکلتا کچومر ۔ اس سفر میں سفر کرنےوالےمسافر بھی کتنےبےحس ہوتےہیں ۔ کوئی کھڑا ہےاس سےان کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ انہیں جگہ مل گئی ان کےلئےبس یہی کافی ہے۔ کوئی بھول کر بھی یہ نہیں سوچےگا کہ کوئی عورت کھڑی ہی۔ اسےبیٹھنےکےلئےجگہ دینی چاہیئے۔ اگر کوئی اتنی فراخدلی کرےگا تو پھر اس فراخدلی کی قیمت بھی وصول کرنےکی کوشش کرےگا ۔ اس فراخدلی کی اذیت ناک قیمت ادا کرنےسےبہتر تو ہےدھکےسہتےہوئےجسموں کےدرمیان گھٹ کر کھڑےکھڑےسفر کیا جائے۔عورت تھکی ہوئی ہے? حاملہ ہےیا بیمار ہےکوئی اس بارےمیں نہیں سوچتا ۔ اس کی ان حالتوں پر رحم کھاکر کوئی اسےجگہ دینےکی کوشش نہیں کرتا ۔ اگر جگہ دیتا ہےتو اس سےقیمت وصول کرنےکی نیت ہوتی ہے۔ چاہےوہ کسی بھی حالت میں ہو ۔ پھر ایسی حالت میں یہ سفر اور طویل ہوجاتا ہے۔ کسی دن کوئی ایکسیڈینٹ ہوگیا جس کی وجہ سےٹریفک جام ہوگئی اور دوبارہ معمول پر آنےمیں گھنٹوں لگ گئےاور ایک آدھےگھنٹےکا سفر دو تین گھنٹوں پر محیط ہوگیا۔ حادثہ نہیں بھی ہوا تو بےترتیبی سےگھسنےوالی گاڑیوں کی وجہ سےٹریفک جام ہوگئی ۔ معمولی معمولی باتیں کبھی بڑی بڑی وجہ بن کر کئی گھنٹےبرباد کردیتی ہیں ۔ جب وہ گھر پہونچتی ہےتو بھوک چمکی ہوئی ہوتی ہے۔ سارا جسم تھکن سےٹوٹ رہا ہوتا ہےآنکھوں میں نیند سمائی ہوتی ہے۔ اسےکچھ سجھائی نہیں دیتا ہےوہ کیا کرےکھانا کھائے? آرام کرےیا سوئےاس کےآتےہی بچےاسےگھیر لیتےہیں وہ اس سےلپٹ کر اتنی دیر کی دوری کےاحساس کو کم کرنا چاہتےہیں ۔ اور تھکن کی وجہ سےبچوں کےجسم کی قربت بھی اسےبجلی کا تار محسوس ہوتی ہے۔ بڑی مشکل سےپلنگ پر لیٹ کر تھوڑی دیر سستا کر پھر اپنےکاموں میں لگ جاتی ہے۔ اگر نوکرانی نےکھانا نہیں بنایا تو اسےکھانا بنانا پڑتا ہے۔ اس درمیان طارق بھی آجاتا ہےاور پھر سب مل کر کھانا کھانےبیٹھ جاتےہیں ۔ کبھی وہ جلدی آگئی تو سب ساتھ ہی کھانا کھالیتےہیں ۔ کبھی دیر ہوگئی تو مقررہ وقت ہونےپر طارق اور بچےکھانا کھا لیتےہیں ۔ اسےاکیلےہی کھانا پڑتا ہے۔ کھانا کھانےکےبعد ایک دو گھنٹےکی نیند اس کا معمول ہے۔ ایک دو گھنٹےسونےکےبعد اس کی ساری تھکن دور ہوجاتی ہے۔ اور وہ تازہ دم ہوکر گھر کےکاموں میں لگ جاتی ہے۔ گھر کےچھوٹےموٹےکام کرنا ? رات کا کھانا بنانا ? شام میں بازار جاکر شاپنگ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ضروری نہیں کہ روزانہ زندگی کا یہ معمول ہو ۔ کبھی کبھی معمول میں معمولی تبدیلی بھی بڑی اذیت ناک ثابت ہوتی ہے۔ آج بشریٰ کو سخت بخار آگیا ۔ شام سےہی اسےہلکا ہلکا بخار تھا ۔ آدھی رات کےبعد بخار کی شدت بڑھ گئی اور اب وہ تپ رہی ہے۔ اس کا اسکول جانا بھی ضروری ہی۔ انسپکشن جو ہے۔ ایک مہینہ اگر وہ اسکول نہ جائےتو چل سکتا ہےلیکن انسپکشن کےدن نہ جائےیہ کیسےممکن ہے؟ ایک محاورہ ہےاس دن تو بسترِ مرگ سےاٹھ کر بھی اسکول آنا ضروری ہے۔ وہ کئی سالوں سےکوشش کررہی ہےکہ اسےبھیونڈی کا کوئی ٹیچر مل جائےجو اس کےساتھ میچول کرلی۔ اور اسےروزانہ کےاس پل صراط کےسفر سےنجات مل جائے۔ چاہےاس میں اسےتنخواہ میں نقصان سہنا پڑے۔ لیکن آج تک یہ ممکن نہیں ہوسکا ہی۔ اس کی طرح کئی ٹیچر ممبئی پڑھانےجاتےہیں ۔ اور ممبئی سےٹیچر پڑھانےکےلئےبھیونڈی آتےہیں ۔ سب کےمسائل ایک ہیں ۔ لیکن کوئی بھی اسےایسا ہم خیال نہیں ملتا جواس اذیت سےدونوں کو نجات دےدے۔ گھر بال بچےشوہر بھیونڈی میں ہیں نوکری کےلئےممبئی جانا پڑتا ہے۔ جب تک شادی نہیں ہوئی تھی کوئی مسئلہ نہیں تھا یہ سفر کسی تکلیف کا باعث نہیں تھا ۔ ہر دن ایک نیا تجربہ اور ایک نیا ایڈونچر ہوتا تھا ۔شادی کےبعد بھی کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوا ۔ صرف جلد گھر پہونچ کر شوہر کو دیکھنےکی ایک خواہش دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی تھی ۔ لیکن اس کےبعد بچےآگئےاور مسائل بڑھتےگئے۔ گھر میں کوئی بھی نہیں تھا جن کےبھروسےبچوں کو چھوڑ کر مطمئن ہوکر ڈیوٹی پر جاسکے۔ سب کچھ نوکروں کےسہارےاور ان کےبھروسےکرنا پڑتا تھا پتہ نہیں نوکر بچوں کا اچھی طرح خیال رکھتےبھی ہوں گےیا نہیں ۔ بس یہی سوال ہر لمحہ ذہن کو کچوکتا رہتا تھا ۔ کئی بار تو دل میں آیا نوکری چھوڑ دے۔ میاں بیوی میں مشورہ بھی ہوا لیکن یہ فیصلہ جذباتی فیصلہ ثابت ہوا ۔ جب سامنےحقیقت کی آہنی دیواریں آئیں تو یہ فیصلہ اس سےٹکرا کر پاش پاش ہوگیا ۔ ابھی ابھی نیا گھر لیا تھا ۔ طارق کی آدھی سےزیادہ تنخواہ فلیٹ کےلئےقرض کےہفتوں کی ادائیگی میں صرف ہوجاتی تھی ۔ قلیل آمدنی کےسہارےبھیونڈی جیسےمہنگےشہر میں زندہ رہنا بھی ہر چیز کےلےترس ترس کر روز مرنا تھا ۔ اس لئےنوکری بھی ضروری تھی ۔ اور اس نوکری کےلئےروزانہ اذیت کا سفر بھی ضروری تھا ۔ بچےبخار میں تپ رہےتھےلیکن پھر بھی اسکول جانا ضروری ۔ گھر پہنچنےکی جلدی لیکن ایسےحالات پیدا ہوگئےکہ معمول سےدو چار گھنٹےلیٹ پہونچنا پڑے۔ روزانہ وقت پر اسکول جانا ہوجاتا تھا ۔ ایک آدھ بار بس یا ٹرین دیر سےچلنےکی وجہ سےاسکول پہونچنےمیں تاخیر ہوگئی اور اسی دن کسی آفیسر نےاسکول کا دورہ کیا ۔ اور ہاتھ میں دیری سےاسکول آنےکا میمو آگیا ۔ رکشا میں بیٹھی تو ذہن میں بشریٰ کی بیماری کےساتھ انسپکشن ہونےکی وجہ سےجلد یا وقت پر اسکول پہونچنےکا خیال بھی تھا ۔ وقت پر بس بھی مل گئی اور بیٹھنےکےلئےجگہ بھی ۔ لیکن راستےمیں بس ڈرائیور ایک ٹرک والےسےالجھ گیا ۔ ان کےجھگڑےمیں پندرہ منٹ دیر ہوگئی ۔ تھانےاسٹیشن پر آئی تو تیز لوکل نکل چکی تھی ۔ دھیمی ٹرین دس منٹ دیر سےآئی ۔ اسکول پہونچی تو پورےآدھےگھنٹےتاخیر ہوگئی تھی ۔ ایجوکیشن آفیسر آچکا تھا اور انسپکشن شروع ہوچکا تھا ۔ ? مسز مومن ! آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ آپ آدھا گھنٹہ لیٹ اسکول آئی ہیں ۔ اس سےتو یہی محسوس ہوتا ہےآپ انسپکشن کےدن لیٹ آئی ہیں تو روزانہ تو کئی گھنٹےلیٹ آتی ہوں گی ۔ آپ اس طرح لیٹ اسکول آکر بچوں کا کتنا نقصان کررہی ہیں آپ کو احساس ہے؟ سرکار آپ کو تنخواہ کس لئےدیتی ہے؟ ? آفیسر کا لیکچر سننا پڑا تھا ۔ اور اپنی بےبسی پر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کیا جواب دےاس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ دن بھر انسپکشن چلتا رہا لیکن اس کا ذہن بشریٰ میں الجھا رہا ۔ پتہ نہیں کیسی ہوگی ؟ بارہ بجےکےقریب ایک شناسا نےآکر خبر دی کہ بھیونڈی سےطارق کا فون آیا ہےکہہ رہےہیں کہ تم فوراً آجاو�? بشریٰ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس نےطارق کو ایک شناسا کا نمبر دےرکھا تھا تاکہ اگر اسےکوئی ضروری پیغام دینا ہو تو وہاں رابطہ قائم کرے۔ وہ لوگ بھی اسےفوراً مطلع کردیتےتھے۔ وہ فوراً اسکول سےنکل گئی ۔ اسٹیشن آکر لوکل میں بیٹھی اور لوکل چل دی ۔ لیکن تھوڑی دور جاکر رک گئی ۔ کسی لیڈر پر حملہ ہوا تھا ۔ اس کےخلاف احتجاج کرکےلوگوں نےٹرین سروس بند کردی تھی احتجاج کرنےوالوں کو پولس کو پٹریوں سےہٹانےمیں دو گھنٹےلگ گئےاس کےبعد ٹرین چلی ۔ تھانےسےاسپیشل رکشا کرکےوہ گھر آئی تو پتہ چلا بشریٰ کو اسپتال میں داخل کیا گیا ۔ اسپتال میں پلنگ پہ بشریٰ بےہوش لیٹی تھی اس کےہاتھ میں سرِنج لگی ہوئی تھی اس سےقطرہ قطرہ دوائی ٹپک کر نلی کےذریعہ اس کےجسم میں جارہی تھی ۔ ? بخار بہت بڑھ گیا تھا اس لئےایڈمٹ کرنا پڑا ۔ ? طارق نےبتایاتو وہ اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ یہ سوچ کر کہ مرنےکےبعد تو انسان کو صرف ایک پُل صراط سےگزرنا ہوگا ۔ لیکن جیتےجی اسےکتنےپُل صراط سےگزرنا پڑتا ہے؟ ll

Urdu Short Story

Azab Ki Ek Raat


By M.Mubin



بیوی کےبری طرح جھنجوڑنےپر آنکھ کھلی ۔ وہی ہوا جو عام طور پر اس طرح اچانک بیدار کئےجانےپر ہوتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ سانسیں اپنی پوری رفتار سےچلنےلگیں اور زبان پر ریت کا صحرا اور حلق میں کانٹوں کا جنگل ابھر آیا ۔ ? کیا ہے؟ ? بڑی مشکل سےہونٹوں سےآواز نکلی اور اپنےہونٹوں پر زبان پھیر کر زبان کو تر کرنےکی کوشش کرنےلگا ۔ ? باہر پولس آئی ہے۔ ? بیوی کلیجہ پکڑ کر بولی ۔ ? پولس ؟ ? اس کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ ? اتنی رات گئےاس علاقےمیں پولس کا کیا کام ؟ ? ? سائرن کی آواز سن کر آنکھ کھل گئی ۔پھر سناٹےمیںایسا محسوس ہوا جیسےکئی گاڑیاں آکر رکیں ۔اور پھر بھاری بھرکم بوٹوں کی آواز گلی میں گونجنےلگی ۔ ? بیوی بتانےلگی ۔ ? پھر ماحول میں وہی پولس کےروایتی سوالات گرجنےلگے۔ ? دروازہ کھولو ? کون ہو تم ? کہاں سےآئےہو اور کتنےدنوں سےیہاں رہ رہےہو ۔ ? ابھی بیوی کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی کہ دوبارہ گلی میں بھاری بھرکم قدموں کی آواز گونجی اور دروازہ کھٹکھٹایا جانےلگا ۔ اس کا دل دھڑک اٹھا ۔ وہ خوف زدہ نظروں سےدروازےکی طرف دیکھنےلگا۔ لیکن جب دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اندازہ ہوا ان کا نہیں پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ ? دروازہ کھولو ورنہ ہم دروازہ توڑ دیں گے۔ ? ایک تیز آواز گونجی اور اس کےبعد دروازہ کھلنےاور پھر پڑوسی کی گھبرائی ہوئی آواز ۔ ? کیا بات ہے? کون ہے؟ ? ? دکھائی نہیں دیتا ? ہم پولس والےہیں ۔ ? ? پولس ؟ ? صدیقی صاحب گھبرائےہوئےتھے۔ ? کیا بات ہےانسپکٹر صاحب ! اتنی رات گئےآپ نےمیرےگھر آنےکی زحمت کیوں کی ؟ ? ? ہمیں تمہارےگھر کی تلاشی لینی ہے۔ ? ? تلاشی اور میرےگھر کی ? مگر کیوں ؟ ? ? ہمیں تمہارےگھر کی تلاشی لینی ہے۔ ? ? لیکن میرےگھر کی تلاشی کیوں لی جارہی ہے؟ ? ? صرف تمہاری ہی نہیں پورےعلاقےکےہر گھر کی تلاشی کی جارہی ہےاور ہمارےاس مشن کا نام ہےکومبنگ آپریشن ۔ ? ? لیکن ہمارےاس علاقےمیں آپ کو کومبنگ کرنےکی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ ? ? اس لئےکہ ہمیں پتہ چلا ہےکہ اس علاقےمیں غیر قانونی کام ہوتےہیں ۔ اور یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہے۔ اس پورےعلاقےمیں بنگلہ دیشی اور آئی ۔ ایس ۔ آئی کےایجنٹ پھیلےاور چھپےہوئےہیں ۔ ? ? لیکن ہمارا ان تمام باتوں سےکوئی تعلق نہیں ہےہم نوکری پیشہ شریف لوگ ہیں ؟ ? ? شریف لوگ ہیں ? نوکری پیشہ لوگ ہیں اور جھونپڑپٹی میں رہتےہو ؟ ? ? شریف اور نوکری پیشہ لوگوں کا جھونپڑپٹی میں رہنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ ? ? اے! زیادہ بک بک مت کر ہم کو اپنا کام کرنےدے۔ ہم کو قانون مت سکھا ? کیا؟ زیادہ ہوشیاری کی تو اٹھا کر پٹخ دوں گا سالا خود کو شریف آدمی بتاتا ہے۔ اے! اس کےگھر کی اچھی طرح سےتلاشی لو ۔ اگر کوئی بھی چیز ملےتو اسےبتانا کہ شرافت کیا ہی؟ پولس کےکاموں میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ اس کےبعد صدیقی صاحب کی آواز نہیں سنائی دی لیکن گھر کےایک ایک سامان کو الٹ پلٹ کرنے? گرانےاور پھینکےکی آوازیں ضرور ابھرنےلگیں ۔ ? صاحب ! دیکھئےکتنا بڑا چھرا ہے۔ ? ? یہ گوشت کاٹنےکا چھرا ہے۔ ? صدیقی صاحب کی آواز ابھری ۔ ? یہ گوشت کاٹنےکا چھرا ہےیا مرڈر کرنےکا ابھی معلوم ہوجائےگا۔ حولدار اسےہتھکڑی ڈال کر لےچلو ۔ ? انسپکٹر کی آواز ابھری ۔ ? نہیں نہیں ! ? صدیقی صاحب کی بیوی کی آواز ابھری ۔ ? میرےشوہر کو کہاں لےجارہےہو ? نہیں میں اپنےشوہر کو بنا کسی وجہ تمہیں اپنےگھر سےلےجانےنہیں دوں گی ۔ ? ? اےبائی ! بازو سرک ? ہمارےکام میں دخل دینےکی کوشش مت کر ورنہ بہت بھاری پڑےگا ۔ ? ایک گرجدار آواز ابھری ۔ ? انسپکٹر صاحب ! میں سچ کہتا ہوں آپ کو غلط فہمی ہورہی ہے۔ میں ایک شریف نوکری پیشہ آدمی ہوں ۔ ? صدیقی صاحب کی آواز ابھری ۔ ? صاب بنگالی کتابیں ۔ ? ایک آواز ابھری ۔ ? یہ دیکھئے! کئی بنگالی کتابیں ہیں ۔ ? ? تو یہ آدمی ضرور بنگلہ دیشی ہوگا ۔ ? ? بنگلہ دیشی میں ہندوستانی ہوں ۔ ? ? اگر ہندوستانی ہو تو پھر یہ بنگلہ زبان کی کتابیں تمہارےپاس کہاں سےآئیں؟? ? مجھےبنگلہ ادب سےدلچسپی ہے۔ اس لئےبنگلہ زبان کی کتابیں پڑھتا ہوں ۔ ? ? وہ سب پولس اسٹیشن میں ثابت کرنا کہ تم بنگلہ دیشی ہو یا ہندوستانی ۔ ? اس کےبعد صدیقی صاحب کو شاید دھکےدیکر کمرےسےباہر لےجایا گیا تھا ۔ ان کی بیوی کی داد فریاد کی آوازیں ? ڈانٹوں اور گالیوں کےشور میں دب کر رہ گئی تھیں ۔ اس کےبعد ان کی باری تھی دروازہ زور سےپیٹا جانےلگا ۔ ? کون ؟ ? دھڑکتےدل کو تھام کر بڑی مشکل سےوہ کہہ سکا ۔ ? پولس ! دروازہ کھولو ۔ ہم تمہارےگھر کی تلاشی لینا چاہتےہیں ۔ ? باہر سےایک گرجدار آواز ابھری ۔ اس نےبنا کوئی پس و پیش کےدروازہ کھول دیا ۔ سات آٹھ پولس کےسپاہی اور ایک انسپکٹر دھڑدھڑاتےہوئےکمرےمیں گھس آئےاور تیز نظروں سےکمرےکی ایک ایک چیز کا جائزہ لینےلگے۔ اس کےبعد وہ بڑی تیزی سےکمرےکےایک ایک گوشےکی طرف لپکےاور وہاں کی چیزیں اور سامان بڑی بےدردی سےنیچےاوپر کرنےاور پٹخنےلگے۔ بیوی خوف سےتھر تھر کانپتی اس کےسینےسےآلگی ۔ ? کیا نام ہےتمہارا ؟ ? انسپکٹر نےکڑک کر پوچھا ۔ ? اسرار احمد ۔ ? ? معلوم ہے۔ ایسی جگہ اسرار احمد نہیں تو کیا سچن کھیڈیکر رہےگا ۔ کیا کام کرتےہو ؟ ? ? ایک سرکاری دفتر میں نوکری کرتا ہوں ۔ ? ? سرکاری دفتر میں نوکری کرتےہو ۔ ? انسپکٹر حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔ ? اور یہاں رہتےہو ؟ ? ? صاب ضرور اس کا تعلق آئی ایس آئی سےہوگا ۔ یہ لوگ سرکاری دفتروں میں کام کرتےہیں اور دیش سےغداری کرتےہوئےجاسوسی کرتےہیں دیش کےراز بیچتےہیں ۔ ? ایسا محسوس ہوا جیسےجسم کی ساری طاقت دائیں ہاتھ میں جمع ہوگئی ہے۔ اور وہ ہاتھ مکّہ کی شکل میں اس حولدار کےمنہ پر پڑنےکےلئےبےتاب ہے۔ اس نےبڑی مشکل سےخود پر قابو پایا اور آگےبڑھ کر اپنی پتلون کی جیب سےاپنےدفتر کا کارڈ نکالا اور انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا ۔ ? اوہ ! تو منترالیہ میں ہو ؟ ? انسپکٹر نےکارڈ دیکھتےہوئےکہا ۔ ? ٹھیک ہےہم نےاپنا کام کرلیا ہے۔ اے! چلو باہر نکلو ۔ ? اس نےدوسرےسپاہیوں کو حکم دیا اور سب کمرےسےباہر نکل گئے۔ سارا گھر کباڑخانہ بن گیا تھا ۔ وہ اور بیوی بےبسی سےاپنےگھر کےبےترتیب سامان کو دیکھنےلگے پھر بیوی ایک ایک سامان کو اٹھاکر اپنی جگہ رکھنےلگی ۔ اس کےبعد ان کےپڑوس کےکمرےپر حملہ ہوا تھا ۔ اصغر نشےمیں دھت تھا ۔ بیدار کرنےپر وہ پولس سےالجھ گیا ۔ ? سالا ! تم پولس والےاپنےآپ کو کیا خدا سمجھتےہو ۔ کبھی بھی شریف لوگوں کےگھروں میں بےدھڑک گھس آتےہو ۔ ان کی میٹھی نیند خراب کرتےہو ۔ چلےجاو�? نہیں تو ایک ایک کو دیکھ لوں گا ۔ ? ? سالےزیادہ چربی چڑھ گئی ہےشاید ? ٹھہرجا ! ابھی تیری چربی اتارتےہیں ۔ ? اور اس کےبعد ڈنڈوں کےبرسنےکی آوازیں اور اصغر کی چیخیں فضا میں گونجنےلگیں ۔ ? بچاو�? ! بچاو�? ! نہیں ! نہیں ! مجھےمت مارو ۔ ? اس کی چیخوں میں اس کےگھر والوں ، بیوی اور بچوں کی چیخیں بھی شامل تھیں ۔ اس کےبعد اصغر کو کھینچتےہوئےباہر لےجایا گیا تھا ۔ اس عذاب کا سلسلہ چال کےدوسرےکمروں پر بھی طاری رہا ۔ ? یا خدا ! ہم لوگوں کا یہ حال ہےتو بستی کےدوسرےلوگوں کا کیا حال ہوگا ۔ ? بڑبڑاتےہوئےاس نےسوچا ۔ وہ بستی جھونپڑ پٹی ضرور تھی لیکن اتنی بدنام نہیں تھی ۔ جتنی عام طور پر دوسری جھونپڑپٹیاں ہوتی ہیں ۔ وہاں اکا دکا جرائم ہوتےتھےاور وہاں جرائم پیشہ افراد کی تعداد بہت کم تھی ۔ اس بستی کےدرمیان میں وہ ایک چھوٹی سی چال تھی ۔ آٹھ دس کمروں پہ مشتمل ۔پہلےوہ بستی نہیں تھی صرف وہی چال تھی ۔ جہاں اس کےجیسےنوکری پیشہ آکر بس گئےتھی۔ جو اپنی ساکھ کےمطابق شہر کےپاش علاقےمیں گھر ، مکان لینےسےقاصر تھے۔ اپنےپاس جمع معمولی سی رقم کو ڈپازٹ کےطور پر دینےکےبعد انہیں اسی چال میں کمرہ ملا تھا ۔ اس کےبعد زندگی بھر کی کمائی پیٹ کی آگ ? زندگی کےمسائل ? اولاد کی پرورش اور تعلیم کی نذر ہوگئی تھی ۔ اس چال سےباہر نکلنےکا موقع ہی نہیں مل سکا ۔ اور چال کےارد گرد مشروم کی طرح جھونپڑپٹی بڑھتی اور بستی گئی ۔ جھونپڑپٹی میں ان کی طرح اچھےشریف اور مصیبت کےمارےلوگ بھی تھے۔ جو سر چھپانےکےلئےوہاں آباد ہوئےتھےتو سر پھرے، جاہل ، اجڈ اور گنوار بھی تھی۔ ایسےلوگوں کو اس طرح کےعذاب بھی سہنےپڑتےہیں ۔ ? اسرار بھائی ! اسرار بھائی ! کچھ کیجئے? پولس انہیں زبردستی پکڑ کر لےگئی ہی۔?صدیقی صاحب کی بیوی روتی ہوئی اس کےپاس آئی ۔ ? آپ حوصلہ رکھئےبھابی ! کچھ نہیں ہوگا میں دیکھتا ہوں ۔ ? اس نےصدیقی صاحب کی بیوی کو تسلی دی اور پھر بیوی سےبولا ۔ ? شکیلہ ! تم اپنا خیال رکھنا میں ابھی آیا ۔ ? آپ کہاں جارہےہیں ؟ مجھےبہت ڈر لگ رہا ہے۔ ? بیوی بولی ۔ ? ڈرنےکی کوئی بات نہیں ہے۔ تم صدیقی صاحب کےگھر چلی جاو�? ۔ ? یہ کہہ کر باہر آیا تو شاید عذاب ختم ہوچکا تھا ۔ پولس کی گاڑیاں جاچکی تھیں ۔ چال اور آس پاس کےعلاقےکےدس بارہ لوگوں کو گرفتار کرکےپولس اسٹیشن لےجایا جاچکا تھا ۔ جو بچ گئےتھےآپس میں صلاح و مشورہ کررہےتھےکہ جن کو پولس پکڑ کر لےگئی ہےانہیں کس طرح واپس لایا جائے۔ اصغر تو شراب کےنشےمیں دھت تھا اور بلاوجہ پولس سےالجھ گیا تھا اسےتو پولس چھوڑنےسےرہی ۔ ان کےلئےاس کا نشہ میں ہونا ہی کافی تھا ۔ لیکن صدیقی صاحب کو خواہ مخواہ پولس اسٹیشن لےجایا گیا ۔ ان کی بیوی کی حالت غیر ہے۔ وہ میرےپیروں پر گر کر التجا کررہی تھی کہ صدیقی صاحب کو واپس لایا جائے۔ پڑوسی ایک جگہ جمع ہوکر باتیں کررہےتھے۔ ? ٹھیک ہے! چلو پولس اسٹیشن چل کر دیکھتےہیں اور انسپکٹر کو سمجھانےکی کوشش کرتےہیں کہ صدیقی صاحب شریف آدمی ہیں ۔ ان کا تعلق ایسےکسی آدمی سےنہیں ہے۔ جس کی تلاش میں انہوں نےیہ عذاب اس بستی پر ڈھایا تھا ۔ وہ بولا تو سب اس کےساتھ پولس اسٹیشن جانےکےلئےراضی ہوگئے۔ پولس اسٹیشن میں لوگوں کی بھیڑ تھی ۔ کچھ تو وہ لوگ تھےجو اس آپریشن کےتحت پکڑ کر لائےگئےتھے۔ کچھ ان کو چھڑانےکےلئےآئےتھے۔ پولس بڑی سختی سےپیش آرہی تھی ۔ کسی کو پولس اسٹیشن میں قدم رکھنےکی اجازت نہیں تھی ۔ ? جاو�? سویرےآنا ۔ سویرےتک یہ لوگ یہاں رہیں گے۔ سویرےان کےبارےمیں سوچیں گےکہ ان کا کیا کیا جائے۔ ? اس نےاپنا کارڈ بتایا تو اسےاندر جانےکی اجازت دی گئی ۔ اس نےانسپکٹر سےصدیقی صاحب کےبارےمیں بات کی ۔ ? انسپکٹر صاحب ! صدیقی صاحب کو میں گذشتہ دس سالوں سےجانتا ہوں ۔ ان کا تعلق جرائم پیشہ ، دہشت گرد یا ملک دشمن لوگوں سےنہیں ہے۔ وہ ایک شریف نوکری پیشہ آدمی ہیں اور ایک پرائیویٹ فرم میں اکاو�?نٹنٹ ہیں ۔ ? ? کیا بات کرتےہو اسرار صاحب ! ان کےگھر سےہمیں چھرا اور بنگلہ کتابیں ملی ہیں ۔ مکمل تحقیقات کیبعدہی انہیں چھوڑ سکتےہیں ۔ ? انسپکٹر نےصاف کہہ دیا ۔ ? اسرار بھائی ! مجھےیہاں سےکسی طرح لےچلو اگر میں سویرےتک یہاں رہ گیا تو یہاں میری جان نکل جائےگی ? وہاں میری بیوی کی ۔ میں اپنےمالک کا فون نمبر دیتا ہوں ان سےاس سلسلےمیں بات کرلیجئے۔ ? کہتےہوئےانہوں نےایک فون نمبر دیا تو وہ اس کو لےکر باہر آیا اور ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ سےاس نمبر پر فون لگانےکی کوشش کرنےلگا ۔ ? ہیلو ! ? تین چار بار کوشش کرنےپر ایک نیند میں ڈوبی آواز ابھری ۔ ? ملہوترہ صاحب ! صدیقی صاحب جو آپ کی آفس میں کام کرتےہیں ۔ میں ان کا پڑوسی بول رہا ہوں ۔ ان کو آپریشن کومبنگ کےدوران پولس پکڑ کر لےگئی ہےاور ان پر بنگلہ دیشی ، جرائم پیشہ اور وطن دشمن ہونےکا شک کر رہی ہے۔ آپ پولس اسٹیشن فون کرکےصدیقی صاحب کےبارےمیں کچھ کہہ دیں تو ہمیں صدیقی صاحب کو چھڑانےمیں مدد ملےگی ۔ ? ? صدیقی صاحب اور بنگلہ دیشی ، جرائم پیشہ اور ملک دشمن ؟ نا ن سنس ۔ ان لوگوں نےتو شریف لوگوں کا جینا مشکل کررکھا ہے۔ بھئی میرےفون سےکچھ نہیں ہوگا ۔ میرا ایک دوست وزارتِ داخلہ میں کام کرتا ہے۔ اس سےفون کرواتا ہوں تب ہی کچھ کام بنےگا ۔ ? ? آپ فون ضرور کروائیے۔ ورنہ صدیقی صاحب کو رات بھر ! ? ? تم فکر مت کرو صدیقی مجھےبہت عزیز ہے۔ ? ملہوترہ صاحب نےاس کی بات کاٹ کر کہا اور فون بند کردیا ۔ وہ پولس اسٹیشن آیا اور صدیقی صاحب کو تسلی دینےلگا ۔ کہ ملہوترہ صاحب وزارتِ داخلہ کےکسی آدمی سےفون کروانےوالےہیں اور پولس انہیں چھوڑ دےگی۔ پولس اسٹیشن میں ہاتھوں ، گالیوں اور لاتوں سےایک ایک آدمی کی باز پرس جاری تھی ۔ وقت چیونٹی کی رفتار سےرینگ رہا تھا ۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو انسپکٹر نےفون اٹھایا ۔ ? کولی واڑہ پولس اسٹیشن میں انسپکٹر سانے۔ اچھا صاحب ! اچھا صاحب ۔ وہ بس یوں ہی شک کی بنا پر پوچھ تاچھ کےلئےیہاں لائےہیں ۔ چھوڑ رہےہیں ۔ ? فون رکھ کر وہ قہر آلود نظروں سےسامنےبیٹھےلوگوں کو گھورنےلگا ۔ ? صدیقی کون ہے؟ ? ? میں ہوں ۔ ? صدیقی صاحب نےڈرتےڈرتےکہا ۔ ? تو پہلےصاف صاف کیوں نہیں بتایا کہ وائی کر صاحب کو پہچانتےہو ؟جاو�? اپنےگھر جاو�? ۔ ? سب جب صدیقی صاحب کےساتھ پولس اسٹیشن سےباہر آئےتو پو پھٹ رہی تھی اور ایسا محسوس ہورہا تھا جیسےعذاب کی ایک رات ختم ہوگئی ہے۔ ll

== ==

Short Story

Sail

By:-M.MUbin




امام نےسلام پھیرا اور اسی وقت عقب سےابھرنےوالی آواز کو سن کر تمام نمازی پیچھےمڑ کر دیکھنےلگے۔ ایک شخص کھڑا تھا ۔ ? برادران ! میرا تعلق ریاست بہار سےہے۔ میری لڑکی کےدل کا آپریشن ہونےوالا ہےاس سلسلہ میں ? میں یہاں آیا ہوں ۔ آپریشن کےلئےلاکھوں روپیہ درکار ہے۔ آپ کی اعانت کا قطرہ قطرہ مل کر میرےلئےسمندر بن جائےگا ۔ میری بیٹی کی جان بچ جائےگی ۔ میری بیٹی کی جان بچا کر ثواب دارین حاصل کریں ۔ ?اس شخص کی آواز سن کر کچھ نمازیوں کےچہروں پر ناگواری کےتاثرات ابھرےکچھ غیض و غضب بھری نظروں سےاسےدیکھنےلگے۔ کچھ بڑبڑانےلگے۔ ? لوگوں نےدھندا بنا لیا ہے۔ خدا کےگھر میں بیٹھ کر بھی جھوٹ بولتےہیں ۔ ? ? خدا کےگھر ? نماز کا بھی کوئی احترام نہیں ۔ نماز ختم بھی نہیں ہوئی اور حضرت شروع ہوگئے۔ ? ? نماز کےدوران اس قسم کےاعلانات پر پابندی لگادینی چاہیئے۔ ? باتوں کا سلسلہ درمیان میں ہی منقطع ہوگیا ۔ کیونکہ امام نےدعا کےلئےہاتھ اٹھالئےتھے۔ پتہ نہیں کیوں اس شخص کی بات سن کر ان کےدل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔ اس شخص کےبیٹھ جانےکےبعد بھی وہ بار بار اسےمڑ کر دیکھتےرہے۔ انہیں اس شخص کا چہرہ بڑا مسکین محسوس ہوا ۔ انہیں ایسا لگا جیسے یہ شخص سچ مچ مدد کا طالب ہےاور یہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ اسےایسا سچ مچ اپنی بیٹی کی جان بچانےکےلئےمدد درکار ہے۔ دعا ختم ہوگئی اور وہ اسی بارےمیں سوچتےرہے۔ وہ مسجد سےباہر نکلےتو انہیں وہ شخص مسجد کےدروازےکےپاس ایک رومال پھیلائےبیٹھا دکھائی دیا ۔ رومال میں کچھ سکےاور ایک دو ? ایک دو روپیہ کی نوٹیں پھیلی تھیں ۔ ایک لمحہ کےلئےوہ رک گئےجیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسوں کا اندازہ لگانےلگےاور آگےبڑھ گئے۔ گھر آئےتو بہو اور بیٹا ایک آدمی کےساتھ باتیں کررہےتھے۔ ? اگر آپ سیلنگ لگاتےہیں ؟? وہ آدمی کہہ رہا تھا ۔ ? تو میں آپ کو بالکل نئےطرز کی سیلنگ لگا کر دوں گا ۔ اس طرح کی سیلنگ میں نےایک فلم اسٹار کےبیڈروم میں لگائی ہے۔ ایک بڑی کمپنی کےآفس میں بھی اسی طرح کی سیلنگ ہے۔ اگر آپ صرف سیلنگ لگائیں گےتو پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکا خرچ پچیس ہزار روپےکےقریب آئےگا ۔ اگر آپ سیلنگ صرف بیڈروم میں لگانا چاہتےہیں تو دس ہزار روپےکےقریب خرچ آئےگا ۔ ? ?پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ صرف بیڈ روم میں ہی سیلنگ لگائیں گے۔ ? بہو بیٹےکی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھ رہی تھی ۔ ابھی گذشتہ سال ہی تو بیس ہزار روپےخرچ کرکےسیلنگ لگوائی تھی ۔ ? اتنی جلدی سیلنگ بدلنےکی کوئی صرورت نہیں ہےہاں بیڈروم میںسیلنگ بدلنےکی سخت ضرورت ہےکیونکہ بیڈروم میں نیا پن تو ہونا چاہیئے۔ ? ? ٹھیک ہے! ? بیٹا اس آدمی سےکہنےلگا کہ تم کل آفس آکر پانچ ہزار روپےاڈوانس لےلینا اور پرسوں سےکام شروع کردینا ۔ کام دو تین دنوں میں ختم ہوجانا چاہیئی۔ ? ? صاحب ! دو تین دنوں میں کام ختم ہونا تو مشکل ہےکم سےکم آٹھ دن تو لگیں گےہی ۔ ? وہ آدمی کہنےلگا ۔ ? ٹھیک ہے! لیکن کم سےکم وقت میں کام ختم کرنا اگلےماہ میم صاحب کی برتھ ڈےہے۔ اس برتھ ڈےکی پارٹی میں میں اپنےاور میم صاحب کےدوستوں کو سرپرائز گفٹ دیناچاہتا ہوں ۔ ? بیٹا کہہ رہا تھا ۔ ? آپ فکر نہ کریں کام وقت پر ہوجائےگا ۔ ? وہ آدمی اٹھ کر جانےلگا ۔ ? ارےہاں ! مجھےاپنی اس برتھ ڈےپر کوئی قیمتی گفٹ چاہیئےجو کم سےکم بیس ہزار روپےکا ہو اور پھر پارٹی پر بھی تو دس بارہ ہزار روپےخرچ تو ہوں گےہی ۔ پھر یہ سیلنگ کا کام ۔ اتنےپیسےہیں بھی یا نہیں ؟ ? ? تم فکر کیوں کرتی ہو ۔ سارا انتظام ہوجائےگا ۔ ? بیٹا بولا ۔ اچانک اس کی نظر ان پر پڑی ۔ ? ارےابا جان ! آئیے۔ ہم لوگ آپ ہی کا انتظار کررہےتھے۔ ? چلئےجلدی سےہاتھ منہ دھولیجئے۔ نرگس ذرا کھانا لگانا ۔ ? ? ابھی لگاتی ہوں ۔ ? کہتی ہوئی بہو اٹھ گئی ۔ کھانا لگا گیا اور وہ ساتھ میں کھانا کھانےلگے۔ کھانا کھاتےوقت بھی ان کا ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا ۔ بیٹا فلیٹ کی چھت بدلنےپر دس بیس ہزارروپےخرچ کرنےپر تیار ہے۔ بیوی کی سالگرہ پر دس بیس ہزار روپےکا تحفہ دینےکےلئےتیار ہےسالگرہ کی پارٹی پر دس بارہ ہزار روپےخرچ کرےگا۔ خدا نےاسےوہ آسودگی عطا کی ہے۔جس کےلئےمیں زندگی بھر ترستا رہا ۔ مریم ! لگتا ہےہمارےبرےدن دور ہوگئےہیں تمہاری بھی ساری دکھ تکلیفیں دور ہونےوالی ہیں ۔ تمہیں بہت جلد اس موذی مرض سےنجات ملنےوالی ہےرات کو سونےکےلئےلیٹےبھی تو ذہن میں بیٹا ہی چھایا ہوا تھا ۔ ? بیٹےعامر !ایسا لگتا ہےتم میرےسارےخوابوں کو پورا کردوگے۔ تمہارےبارےمیں میں نےجو جو خواب دیکھےتھےوہ سارےخواب پورےکردوگے۔ خدا تمہیں زندگی کےہر امتحان میں کامیاب کرے۔ اور ساری دنیا کی مسرّتیں ? خوشیاں آکر تمہاری جھولی میں جمع ہوجائیں ۔ ان کی آنکھوں کےسامنےپانچ چھ سال کےعامر کی تصویر گھوم گئی ۔ جب وہ کھیتوں میں کام کررہےہوتےتو عامر اپنےننھےننھےہاتھوں میں تختی تھامےدوڑتا ہوا آتا تھا اور دور سےان سےچیخ کر کہتا تھا کہ ابا ! آج ماسٹر جی نےہمیں الف سےلےکر ت تک الفاظ سکھائےہیں ۔ مجھےاب پ ? ت سب لکھنا آتا ہےدیکھئےمیں نےلکھا ہے۔ وہ آکر ان سےلپٹ جاتا تھا ۔ اور اپنی تختی ان کی طرف بڑھا دیتا تھا ۔ تختی پر لکھےننھےننھےحروف پر نظر پڑتےہی ان کا دل خوشی سےجھوم اٹھتا تھا ۔ ? بیٹےمیرا دل کہتا ہےتو میرا نام ساری دنیا میں روشن کرےگا ۔ تُو ایک دن پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بنےگا۔ ? اور سچ مچ عامر نےنچلی جماعتوں سےہی ان کا نام روشن کرنا شروع کردیا تھا ۔ گاو�?ں کا ہر فرد جانتا تھا کہ عامر پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار ہے۔ ہمیشہ کلاس میں اول آتا ہے۔ دسویں کےامتحان میں تو وہ پورےبورڈ میں تیسرا آیا تھا اور اس کی اس کامیابی سےنہ صرف ان کا بلکہ سارےگاو�?ں اور گاو�?ں کی اس چھوٹی سی اسکول کا نام بھی روشن ہوگیا تھا اور اس کےبعد عامر کوا علیٰ تعلیم کےلئےشہر جانا تھا ۔ یہ تو بہت پہلےہی طےہوچکا تھا کہ وہ عامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر بھیجیں گے۔ مریم نےاپنےکلیجےپر پتھر رکھ لیا تھا اور پتھر رکھ کر اس نےعامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر روانہ کیا تھا ۔ جس کو وہ ایک لمحہ اپنی آنکھوں سےجدا نہیں ہونےدینا چاہتی تھی ۔ آخر اس کی ایک ہی تو اولاد تھی ۔ دو تین بچےتو نہیں تھےجن سےدل بہلا سکے۔ پتہ نہیں کیوں قدرت نےانہیں عامر کےبعد اولاد نہیں دی ۔ عامر کا داخلہ ایک اچھےکالج میں ہوا ۔ اچھےنمبروں کی وجہ سےیہ داخلہ ممکن ہوسکا تھا ۔ لیکن کالج کی فیس تو ادا کرنی ہی تھی ۔ فیس اتنی زیادہ تھی کہ ان کی ساری بچت بھی کم پڑ رہی تھی اور مریم کےگہنےفروخت کرنےکےبعد بھی فیس کےپیسےجمع نہیں ہورہےتھے۔ یہ طےکیا گیا کہ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کردیا جائے۔ بچےکےمستقبل اور اس کی پڑھائی سےبڑھ کر کھیت نہیں ہے۔ آخر یہ سب تو اسی کا ہے۔ اگر یہ اس کےکام نہیں آئےتو اس کی کیا وقعت ۔ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کرکےعامر کی فیس ادا کردی گئی اور اس کی پڑھائی کےاخراجات کا انتظام بھی کرلیا گیا ۔ بڑھتی عمر کےساتھ ان سےکھیتوں میں کام نہیں ہوتا تھا ۔ کھیت میں مزدور لگوا کر ان سےکام لیتےتھے۔ کبھی کبھی جب وہ کسی کام سےگاو�?ں سےباہر جاتےتو یہ کام مریم کو کرنا پڑتا تھا۔ مریم کی پرانی بیماری کا زور بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ رات میں جب ٹھنڈی ہوائیں چلتیں تو دمیّ کا زور کچھ اتنا بڑھ جاتا تھا کہ انہیں مریم کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا ۔ موسم کےبدلنےسےدمّہ سےکچھ راحت ملتی تو گردےکی پتھری زور کرتی تھی اور انہی دو بیماریوں کی وجہ سےانہیں مریم کو بار بار شہر لےجانا پڑتا تھا ۔ گاو�?ں میں آنےوالےڈاکٹر مریم کی ان بیماریوں کا صحیح طور پر علاج نہیں کرپاتےتھے۔ شہر کےایک اچھےڈاکٹر کےعلاج سےتھوڑا ا�?فاقہ ہوجاتا تھا ۔ مریم کی دواو�?ں کا خرچ عامر کی پڑھائی کےخرچ کےبرابر تھا ۔ کھیت میں نئی فصل آتےہی وہ سب سےپہلےدونوں کےخرچ کےپیسےالگ اٹھا کر رکھ دیتےتھے۔ لیکن نہ تو عامر کی پڑھائی کےخرچ کی کوئی حد تھی اور نہ مریم کی بیماری کےخرچ کی ۔ دونوں بار بار اپنی حدود کو پار کرجاتےتھےاور ان کا سارا بجٹ گڑبڑا جاتا تھا ۔ ایسےمیں مریم ایثار کی مورتی بن جاتی تھی۔ وہ لاکھ تکلیفوں کو برداشت کرلیتی تھی اور ان سےکہتی تھی کہ میری طبیعت ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر کےپاس جانےکی ضرورت نہیں ہے۔ پیسےعامر کو بھیج دو ۔ وہ بیوی کےایثار کو سمجھتےتھےلیکن اس معاملےمیں بیوی سےبحث نہیں کرپاتےتھے۔ کیونکہ بیٹےکی پڑھائی سامنےسوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوجاتی تھی اور عامر ہر بار اچھےنمبروں سےپاس ہوتا تھا ۔ اور اس کی کامیابی سےوہ خوشی سےجھوم اٹھتےتھے۔ کہ عامر کےلئےوہ جو عبادت کررہےہیں ۔ قدرت انہیں ان کی اس عبادت کا پھل دےرہا ہے۔ آخر وہ دن آپہونچا جب عامر نےاپنی تعلیم اچھےدرجےسےپوری کرلی ۔ ? ابا ! اب آپ کو دن بھر دھوپ آگ میں کھیتوں میں کام کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہمیں کھیتی کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نےچاہا تو مجھےبہت جلد کوئی اچھی نوکری مل جائےگی اور مجھےاتنی آمدنی ہوگی کہ اس آمدنی سےآسانی سےمیں آپ لوگوں کی دیکھ بھال کرسکوں گا ۔ امی کا کسی اچھےڈاکٹر سےعلاج کرسکوں تاکہ امی کی بیماری جڑ سےہمیشہ کےلئےختم ہوجائے۔ عامر کی بات سچ بھی تھی ۔ عامر نےجو تعلیم حاصل کی تھی اس تعلیم کی وجہ سےاسےایسی نوکری تو آسانی سےمل سکتی تھی کہ اس میں ان تینوں کا گذر بسر ہوجائی۔ کھیتوں میں کام نہ کرنےکےعامر کےفیصلےسےوہ بھی مسرور تھےاب ان سےبھی دھوپ میں کھیتوں میں کام کرنےوالےمزدوروں کی نگرانی کا کام نہیں ہوتا تھا ۔ وہ کھیت میں ہوتےتھے۔ لیکن ان کا سارا دل گھر میں لگا ہوتا تھا ۔ مریم کیسی ہوگی پھر کہیں درد کا دورہ تو نہیں پڑگیا ؟ کئی بار ایسا ہوا جب وہ کھیت سےواپس آئےتوانہوں نےمریم کو کبھی پتھری کےدرد سےیا کبھی دمےکےدورےکےدرد سےتڑپتا ہوا پایا ۔ بس اسی وجہ سےمریم کو چھوڑ کر جانےکو ان کا دل نہیں چاہتا تھا ۔ تعلیم ختم کرنےکےبعد عامر ایک دو ہفتہ ان کےپاس آکر رہا تھا ۔ پھر نوکری کی تلاش میں واپس شہر چلا گیا ۔ ایک ہفتےکےاندر اس کا خط آیا کہ اسےایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔ دو مہنےبعد آیا تو کہنےلگا ۔ پہلےسےبھی اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے۔ اس لئےاس نےپہلی نوکری چھوڑ دی ہے۔ تین چار مہینےکےبعد اس کا خط آیا کہ اس نےایک چھوٹا سا کمرہ لےلیا ہی۔ وہ لوگ چاہیں تو آکر اس کےساتھ رہ سکتےہیں ۔ عامر کےپاس جاکر رہنا ایک تضاد کا معاملہ تھا ۔ دونوں اس کےلئےراضی نہیں تھے۔ اپنا گاو�?ں ? کھیت اور گھر چھوڑ کر اجنبی شہر کہاں جائیں ؟ وہاں نہ کسی سےجان نہ پہچان ۔ پھر وہاں کےہزاروں مسائل ۔عامر کےبہت زور دینےپر وہ کچھ دن اس کےپاس رہنےآئے۔ لیکن آنےکےبعد دونوں کا یہی خیال تھا کہ وہ اس کےپاس شہر میں نہیں رہ سکتے۔ انہیں وہاں کا ماحول راس نہیں آیا تھا نہ ان میں وہاں کےمسائل کا سامنا کرنےکی تاب تھی ۔ اس درمیان میں عامر نےانہیں لکھا اس نےایک لڑکی پسند کرلی ہےاور لڑکی کےگھر والےاس کی شادی عامر سےکرنےکےلئےتیار ہیں ۔ آپ لوگ آکر اس معاملےکو طےکرجائیں ۔ اس بات کو پڑھ کر وہ خوشی سےجھوم اٹھےتھے۔ عامر نےان کےسرکا ایک بوجھ ہلکا کردیا تھا ۔ انہیں عامر کےلئےلڑکی ڈھونڈنی نہیں پڑی تھی ۔ اس نےخود ڈھونڈ لی تھی ۔ شادی بیاہ کےبارےمیں وہ اتنےدقیانوسی نہیں تھےکہ عامر کی اس بات کا برا مان جائیں ۔ ان کا خیال تھا کہ عامر کو اس لڑکی کےساتھ زندگی گذارنی ہے۔ اس نےخود لڑکی پسند کی ہےتو لڑکی اچھی ہی ہوگی ۔ وہ ایک دن جاکر نرگس کو دیکھ آئےاور شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئی۔ اس کےبعد انہوں نےبڑی دھوم سےعامر کی شادی کی ۔ گاو�?ں کےجو لوگ بھی ان کےساتھ عامرکی شادی کےلئےشہر گئےتھےان کا بھی کہنا تھا کہ آج تک گاو�?ں میں اتنی دھوم دھام سےکسی کی شادی نہیں ہوئی ۔ اس شادی میں ان کی ساری جمع پونجی اور مریم کےسارےزیورات کےساتھ زمین کا ایک ٹکڑا بھی بک گیا لیکن پھر بھی انہیں کوئی غم نہیں تھا ۔ وہ ایک اور فرض سےسبک دوش ہوگئےتھےجیسےان کی قسمت میں قدرت نےآرام لکھ دیا تھا ۔ عامر ہر ماہ اتنی رقم بھیجتا تھا کہ انہیں کھیتوں میں فصل اگوانےکی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اور اس رقم میں ان کا آرام سےگذر بسر ہورہا تھا ۔ معاملہ اس وقت گڑبڑا جاتا جب عامر رقم روانہ نہیں کرتا اور روانہ نہیں کرنےکی وجہ لکھ دیتا ۔ نرگس اسپتال میں تھی اس کی بیماری پر کافی خرچ ہوگیا ۔ نیا فلیٹ بک گیا اس کےپیسےبھرنےہیں۔ رنگین ٹی وی لیا ہےاس کی قسطیں ادا کرنی ہیں ۔ پھر مریم کی بیماریاں بھی زور پکڑنےلگیں ۔ کبھی کبھی ان کو بھی چھوٹی موٹی بیماریاں آگھیرتیں تب انہیں محسوس ہوتا کہ عامر پر تکیہ کرنا بےوقوفی ہی۔ چاہےکچھ بھی ہوجائےانہیں آرام کرنےکی بجائےکھیتوں میں کام کرنا چاہیئے۔ اور وہ پھر سےکھیتوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس وجہ سےان کی بیماریاں بھی بڑھنےلگیں اور مریم کی بھی ۔ مریم کو کبھی کبھی درد کےاتنےشدید دورےپڑتےتھےکہ محسوس ہوتا کہ ابھی اس کی جان نکل جائےگی۔ ڈاکٹر نےبھی صاف جواب دےدیا تھا ۔ اب تک میں دواو�?ں سےدرد کو دبانےکی کوشش کےساتھ ساتھ پتھری کو ختم کرنےکی کوشش بھی کرتا رہا ہوں ۔ لیکن نہ تو پتھری ختم ہوسکی ہےاور نہ درد اور اس وقت جو صورتِ حال ہےاس کےپیشِ نظر آپریشن بےحد ضروری ہے۔ ورنہ کسی دن درد کا یہ دورہ جان لیوا ثابت ہوگا ۔ مریم کی زندگی کےلئےآپریشن بےحد ضروری تھا اور اس پر دس پندرہ ہزار روپوں کےخرچ کی امید تھی ۔ اتنی رقم ان کےپاس نہیں تھی ۔ ڈاکٹر نےجلد آپریشن کرنےپر زور دیا تھا ۔ اس لئےانہوں نےسوچا ساری صورتِ حال سےعامر کو مطلع کردیا جائے۔ وہ مریم کےآپریشن کا انتظام کردےگا ۔ اس کےلئےوہ عامر کےپاس آئےآتےہی ادھر ادھر کی باتوں کےبعد اور پھر رات کا کھانا کھا کر سونےکےلئےآلیٹے۔ سوچا سویرےاطمینان سےباتیں کریں گے۔ دوسرےدن ناشتےکی میز پر انہوں نےساری صورتِ حال بیٹےکےسامنےرکھ دی ۔ ? ابا میں نےآپ کو بار بار لکھا تھا کہ آپ امی کےعلاج سےکوتاہی نہ برتیں ان کی بیماری بہت خطرناک ہے۔ ? ?ڈاکٹر کہتا ہےاب آپریشن بےحد ضروری ہے۔ ?وہ بتانےلگے۔ ? ورنہ کسی دن بھی تمہاری امی کی جان جاسکتی ہے۔ آپریشن میں دس پندرہ ہزار روپےخرچ آئےگا۔ اس لئےمیں تمہارےپاس آیا ہوں ۔ اگر تم پیسوں کا انتظام کردو تو آپریشن کروا لوں۔ ڈاکٹر نےساری تیاریاں کرلی ہیں ۔ ? ? آپریشن ؟ ? ان کی بات سوچ کر عامر کچھ سوچ میں ڈوب گیا ۔ ? دس پندرہ روپوں کا انتظام ؟ ? بہو بیٹےکا منہ دیکھنےلگی ۔ ? ابا ! اب آپ سےکیا کہوں میں بھلا اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسےکرسکتا ہوں ۔ آپ جانتےہیں میرےپیچھےکتنےخرچ ہیں ۔ آپ کو باقاعدگی سےپیسہ روانہ کرنا ہوتا ہے۔ اس فلیٹ کو خریدنےکےلئےجو قرض لیا تھا اس کی قسطیں کٹ رہی ہیں ۔ فرنیچر اور ٹی وی والوں کی ادھاری دینی ہے۔ سمجھ لیجئےاس وقت میں کاندھےتک قرض میں دھنسا ہوں اور آپ امی کےآپریشن کےلئےدس پندرہ ہزارروپےمانگ رہےہیں ؟ ? بیٹےکی بات سن کر حیرت سےوہ اس کا منہ تاکنےلگے۔ بیٹےنےنظریں چرالیں تو وہ فلیٹ کی چھت کو گھورنےلگےجہاں نئی طرز کی سیلنگ آویزاں تھی ۔ اچانک ان کی آنکھوں کےسامنےمسجد میں اپنی بیٹی کےدل کےآپریشن کےلئےلوگوں سےمدد مانگنےوالےاس آدمی کا چہرہ گھوم گیا اور وہ لرز اٹھے۔ انہیں لگا جیسےوہ بیٹےکےفلیٹ کےدروازےپر رومال بچھا کر اس سےماں کےآپریشن کےلئےمدد مانگ رہےہیں ۔ ll

Short Story

Tooti Chhat Ka Makan

By:-M.Mubin



جب وہ گھر سےنکلی تو نو بج رہےتھے۔ تیز لوکل تو ملنےسےرہی دھیمی لوکل سےہی جانا پڑےگا ۔ وہ بھی وقت پر مل گئی تو ٹھیک ۔ ورنہ یہ تو طےہےکہ آج پھر تاخیر سےآفس پہنچےگی ۔ اور لیٹ آفس آنےکا مطلب ؟ اس خیال کےساتھ ہی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئےاور بھویں تن گئیں ۔ آنکھوں کےسامنےباس کا چہرہ گھوم گیا ۔ اور کانوں میں اس کی گرجدار آواز سنائی دی ۔ ? مسز مہاترے! آپ آج پھر لیٹ آئیں ہیں ۔ میرےباربار تاکید کرنےپربھی آپ روز لیٹ آتی ہیں ۔ آپ کی اس ڈھٹائی پر مجھےغصہ آتا ہے۔ آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ بار بار تاکید کرنےپر بھی آپ وہی حرکت کرتی ہیں ۔ آج کےبعد میں آپ سےکوئی رعایت نہیں کروں گا ۔ کوئی اس سےبڑی تیزی سےٹکرایا تھا اور اس کےخیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا ۔ وہ سڑک پر تھی ۔ بھیڑ اور ٹریفک سےبھری سڑک اسےپار کرنی تھی ۔ اس لئےاپنےہوش و حواس میں رہنا بہت ضروری تھا ۔ غائب دماغ رہتےہوئےسڑک پار کرنےکی کوشش میں کوئی بھی حادثہ ہوسکتا تھا ۔ جو اس سےٹکرایا تھا وہ تو کہیں دور چلا گیا تھا لیکن اس کےٹکرانےسےاس پر غصہ نہیں آیا تھا ۔ اچھا ہوا وہ اس سےٹکرا گئی ۔ اس کےخیالوں کا سلسلہ تو ٹوٹ گیا اور وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگئی ۔ ورنہ تناو�? میں وہ اپنےانہی خیالوں میں کھوئی رہتی اور بےخیالی میں سڑک پار کرنےکی کوشش میں کسی حادثہ کا شکار ہوجاتی ۔ اس نےچاروں طرف چوکنا ہوکر دیکھا ۔ سڑک کےدونوں طرف کی گاڑیاں اتنی دور تھیں کہ وہ آسانی سےدوڑ کر سڑک پار کرسکتی تھی ۔ سگنل تک رکنےکا مطلب تھا خود کو اور دوچار منٹ لیٹ کرنا ۔ اس خیال کےآتےہی اس نےسڑک پار کرنےکا فیصلہ کرلیا اور دوڑتی ہوئی سڑک کی دوسری طرف پہنچ گئی ۔ دونوں طرف سےآنےوالی گاڑیاں اس کےکافی قریب ہوگئی تھیں ۔ ذرا سی تاخیر یا سستی کسی حادثہ کا باعث بن سکتی تھی ۔ لیکن اس نےاپنےآپ کو پوری طرح اس کےلئےتیار کرلیا تھا ۔ کوئی حادثہ نہ ہو اس بات کا پورا خیال رکھا تھا ۔ سڑک پار کرکےوہ اس تنگ سی گلی میں داخل ہوئی ۔ جس کو پار کرنےکےبعد ریلوےاسٹیشن کی حد شروع ہوتی تھی ۔ گلی میں قدم رکھتےہی اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ سانس پھولنےلگی اور ماتھےپہ پسینےکی بوندیں ابھر آئیں اس نےہاتھ میں پکڑےرومال سےپیشانی پر آئی پسینےکی بوندیں صاف کیں اور پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی۔ لیکن اسےعلم تھا نہ پھولی ہوئی سانسوں پر وہ قابو پاسکےگی اور نہ ہی دل کےدھڑکنےکی رفتار معمول پر آئےگی ۔ ذہن میں کھوٹا کا خیال جو آگیا تھا ۔ اسےپورا یقین تھا ۔ گلی کےدرمیان میں اس پان کی دکان کےپاس کھوٹا کرسی لگا کر بیٹھا ہوگا ۔ اسےآتا دیکھ کر بھدےانداز میں مسکرائےگا اور اس پر کوئی گندہ فقرہ کسےگا ۔ کھوٹا کا یہ روز کا معمول تھا ۔ صبح شام اس جگہ وہ اس کا انتظار کرتا تھا ۔ اسےپتہ تھا سویرےوہ کب آفس جاتی ہےاور شام کو اب واپس آفس سےگھر جاتی ہے۔ اس کےآنےجانےکا راستہ وہی ہے۔ ریلوےاسٹیشن جانےکا اور ریلوےاسٹیشن سےگھر جانےکا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک ہےبھی تو وہ اتنی دور کا راستہ ہےکہ اس راستےسےجانےکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئےکھوٹا اسی راستےپر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہتا تھا اور اسےدیکھتےہی کوئی بھدا سا فقرہ ہوا میں اچھالتا تھا ۔ ? ہائےڈارلنگ ! بہت اچھی لگ رہی ہو ۔ یہ آفس ? نوکری وکری چھوڑو ۔ مجھےخوش کردیا کرو ۔ ہر مہینہ اتنےپیسےدےدیا کروں گا جو نوکری سےتین چار مہینےمیں بھی نہیں ملتےہوں گے۔ آو�? آج کسی ہوٹل میں چلتےہیں ۔ چلتی ہو ؟ آج شیریٹن ہوٹل میں پہلےہی سےاپنا کمرہ بک ہے۔ نوکری کرتےہوئےزندگی بھر شیریٹن ہوٹل کا دروازہ بھی نہیں دیکھ سکوگی ۔ آج ہماری بدولت اس میں دن گزار کر دیکھو ۔ ? کھوٹا کےہر فقرےکےساتھ اسےایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک نیزہ آکر اس کےدل میں چبھ گیا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں تھیں اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھانےلگتا تھا ۔ تیز چلنےکی کوشش میں قدم لڑکھڑانےلگتےتھے۔ لیکن وہ جان توڑ کوشش کرکےتیز قدموں سےکھوٹا کی نظروں سےدور ہوجانےکی کوشش کرتی تھی ۔ کھوٹا اس علاقےکا مانا ہوا غنڈہ تھا ۔ اس علاقےکا بچہ بچہ اس سےواقف تھا ۔ شراب ? جوئے? عصمت فروشی کےاڈےچلانا ? ہفتہ وصولی ? سپاری وصولی ? اغوا ? قتل اور مار پیٹ وغیرہ ۔ غرض کہ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو وہ نہیں کرتا تھا یا اس طرح کےمعاملوں میں ملوث نہیں تھا ۔ وہ جو چاہتا کر گزرتا تھا کبھی پولس کی گرفت میں نہیں آتا تھا ۔ اگر کسی معاملےمیں پھنس بھی گیا تو اس کےاثر و رسوخ کی وجہ سےپولس کو اسےدو دنوں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔ اس کھوٹا کا دل اس پر آگیا تھا ۔ اس پر اس مایا مہاترےپر ایک معمولی ایک چھوٹی سی پرائیویٹ آفس میں کام کرنےوالی ایک بچےکی ماں پر پہلےتو کھوٹا اسےصرف گھورا کرتا تھا ۔ پھر جب اسےاس کےآنےجانےکا وقت اور راستہ معلوم ہوگیا تو وہ روزانہ اس راستےپر اس سےملنےلگا ۔ روزانہ اسےدیکھ کر مسکراتا اور اس پرگندےگندےفقروںکی بارش کرنےلگتا ۔ کھوٹا کی ان حرکتوں سےوہ دہشت زدہ سی ہوگئی تھی ۔ اسےیہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کھوٹا کےدل میں کیا ہے۔ اور اسےیہ پورا یقین تھا کہ جو اس کےدل میں ہےکھوٹا ایک دن اسےپورا کرکےہی رہےگا ۔ اس تصور سےہی وہ کانپ اٹھتی تھی ۔ اگر کھوٹا نےاپنےدل کی مراد پوری کرڈالی یا پوری کرنےکی کوشش کی تو ؟ اس تصور سےہی اس کی جان نکل جاتی تھی ۔ ? نہیں ! نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا ۔ اگر کھوٹا نےمیرےساتھ ایسا کچھ کردیا تو میں کسی کو منہ دکھانےکےقابل نہیں رہوں گی ۔ میں زندہ نہیں رہ پاو�?ں گی ۔ ? اسےاس بات کا علم تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہےکہ کھوٹا جیسےلوگ اسےدیکھ کر بہک سکتےہیں ۔ دوسرےہزاروں لوگ اسےدیکھ کر ایسا کوئی خیال دل میں لاتےبھی تو اسےکوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسےپورا یقین تھا کہ وہ کبھی اس خیال کو پورا کرنےکی جرا�?ت نہیں کرپائیں گے۔ لیکن کھوٹا ؟ ہےبھگوان ! وہ جو سوچ لےدنیا کی کوئی بھی طاقت اسےاس کےسوچےکام کو روکنےکی کوشش نہیں کرسکتی تھی ۔ اور وہ آتےجاتےکھوٹا کی دہشت کا شکار ہوتی تھی ۔ اور اس دن تو کھوٹا نےحد کردی ۔ نا صرف راستہ روک کر کھڑا ہوگیا بلکہ اس کی کلائی بھی پکڑ لی ۔ ? بہت زیادہ اکڑتی ہو ۔ اپنےآپ کو کیا سمجھتی ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں کھوٹا سےتمہارا پالا پڑا ہے۔ ایسی اکڑ نکالوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھوگی ۔ ساری اکڑ نکل جائےگی ۔ ? ? چھوڑ دو مجھے۔ ? اس کی آنکھوں میں خوف سےآنسو آگئے۔ اور وہ کھوٹا کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرنےلگی ۔ لیکن وہ کسی شیر کےچنگل میں پھنسی ہرنی سی اپنےآپ کو محسوس کررہی تھی ۔ کھوٹا بھیانک انداز میں ہنس رہا تھا اور وہ اس کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرتی رہی ۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک دو راستہ چلنےوالےرک بھی گئے۔ لیکن کھوٹا پر نظر پڑتےہی وہ تیزی سےآگےبڑھ گئے۔ شیطانی ہنسی ہنستا ہوا کھوٹا اس کی بےچینی سےمحظوظ ہورہا تھا ۔ پھر ہنستےہوئےاس نےدھیرےسےاس کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ وہ روتی ہوئی آگےبڑھ گئی ۔ کھوٹاکا شیطانی قہقہہ اس کا تعاقب کرتا رہا ۔ وہ روتی ہوئی اسٹیشن آئی اور لوکل میں بیٹھ کر سسکتی رہی ۔ اسےروتا دیکھ کر آس پاس کےمسافر اسےحیرت سےدیکھ رہےتھے۔ آفس پہونچنےتک رو رو کر اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں ۔ اس میں آئی تبدیلی آفس والوں سےچھپی نہ رہ سکی ۔ اسےآفس کی سہیلیوں نےگھیر لیا ۔ ? کیا بات ہےمایا ? یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہےاور آنکھیں کیوں لال ہیں ؟ ? اس نےکوئی جواب نہیں دیا اور ان سےلپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونےلگی ۔ وہ سب بھی گھبرا گئیں اور اسےتسلی دیتےہوئےچپ کرانےکی کوشش کرنےلگیں ۔ بڑی مشکل سےاس کےآنسو رکےاور اس نےپوری کہانی انہیں سنا دی ۔ اس سےقبل بھی وہ کئی بار کھوٹا کی ان حرکتوں کی بارےمیں انہیں بتا چکی تھی لیکن انہوں نےکوئی دھیان نہیں دیا تھا ۔ ? نوکری پیشہ عورتوں کےساتھ تو یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ میرا خود ایک عاشق ہےجو اندھیری سےچرنی روڈ تک میرا پیچھا کرتا ہے۔ ? ? میرےبھی ایک عاشق صاحب ہیں ۔ سویرےشام میرےمحلےکےنکڑ پر میرا انتظار کرتےرہتےہیں ۔ ? ? اور میرےعاشق صاحب تو آفس کےگرد منڈلاتےرہتےہیں ۔ آو�? بتاتی ہوں سڑک پر کھڑےآفس کی طرف ٹکٹکی لگائےدیکھ رہےہوں گے۔ ? ? اگر کھوٹا تم پر عاشق ہوگیا ہےتو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ تم چیزہی ایسی ہو کہ تمہارےتو سو دو سو عاشق ہوسکتےہیں ۔ ? ان کی باتیں سن کر وہ جھنجھلا جاتی ۔ ? تم لوگوں کو مذاق سوجھا ہےاور میری جان پر بنی ہے۔ کھوٹا ایک غنڈہ ہے? بدمعاش ہے۔ وہ ایسا سب کچھ کرسکتا ہےجس کا تصور بھی تمہارےعاشق نہیں کرسکتے۔ لیکن اس دن کی کھوٹا کی یہ حرکت سن کر سب سناٹےمیں آگئیں تھیں ۔ ? کیا تم نےاس بارےمیں اپنےشوہر کو بتایا ؟ ? ? نہیں ! آج تک کچھ نہیں بتایا ۔ سوچتی تھی کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہوجائے۔ ? ? تو اب پہلی فرصت میں اسےسب کچھ بتا دو ۔ ? اس شام وہ معمول کےراستےسےنہیں لمبےراستےسےگھر گئی ۔ اور ونود کو سب کچھ بتادیا کہ کھوٹا اتنےدنوں سےاس کےساتھ کیا کررہا تھا اور آج اس نےکیا حرکت کی ۔ اس کی باتیں سن کر ونود کا چہرہ تن گیا ۔ ? ٹھیک ہے! فی الحال تو تم ایک دو دن آفس جانا ہی نہیں ۔ اس کےبعد سوچیں گےکہ کیا کرنا ہے۔ اس کےبعد وہ تین دن آفس نہیں گئی ۔ ایک دن وہ بالکنی میں کھڑی تھی ۔ اچانک اس کی نیچےنظر گئی اور اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کھوٹا نیچےکھڑا اس کی بالکنی کو گھور رہا تھا ۔ اس سےنظر ملتےہی وہ شیطانی انداز میں مسکرانےلگا ۔ وہ تیزی سےاندر آگئی ۔ رات ونود گھر آیا تو اس نےآج کا واقعہ بتایا ۔ اس واقعہ کو سن کر اس نےاپنےہونٹ بھینچ لئے۔ دوسرےدن آفس جانا بہت ضروری تھا ۔ اتنےدنوں تک وہ اطلاع دئےبنا آفس سےغائب نہیں رہ سکتی تھی ۔ ? آج میں تم کو اسٹیشن تک چھوڑنےآو�?ں گا ۔ ? ونود نےکہا تو اس کی ہمت بندھی۔ ونود اسےاسٹیشن تک چھوڑنےآیا ۔ جب وہ گلی سےگذرےتو پان اسٹال کےپاس کھوٹا موجود تھا ۔ ? کیوں جانِ من ! آج باڈی گارڈ ساتھ لائی ہو ۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ اس طرح کےسو باڈی گارڈ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ? پیچھےسےآواز آئی تو اس آواز کو سن کر جوش میں ونود مڑا لیکن اس نےاسےتھام لیا ۔ ? نہیں ونود ! یہ غنڈوں سےالجھنےکا وقت نہیں ہے۔ ? اور وہ اسےتقریباً کھینچتی ہوئی اسٹیشن کی طرف بڑھ گئی ۔ اس شام واپسی کےلئےاس نےلمبا راستہ اپنایا ۔ لیکن اس کالونی کےگیٹ کےپاس پہونچتےہی اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کھوٹا گیٹ پر اس کا منتظر تھا ۔ ? مجھےاندازہ تھا کہ تم واپس اس راستےسےنہیں آو�?گی ۔ اس لئےتمہاری کالونی کےگیٹ پر تمہیں سلام کرنےآیا ہوں ۔ کاش تم مجھ سےفرار حاصل کرسکو ۔ ? یہ کہتےہوئےوہ اسےسلام کرتا ہوا آگےبڑھ گیا ۔ رات ونود کو اس نےساری کہانی سنائی تو ونود بولا ۔ ? کل اگر کھوٹا نےتمہیں چھیڑا تو ہم اس کےخلاف پولس میں شکایت کریں گے۔ ? دوسرےدن ونود اسےچھوڑنےکےلئےآیا تو کھوٹا سےپھر آمنا سامنا ہوگیا ۔ کھوٹا کی گندی باتیں ونود برداشت نہ کرسکا اور اس سےالجھ گیا ۔ ونود نےایک مکہ کھوٹا کو مارا ۔ جواب میں کھوٹا نےونود کےمنہ پر ایسا وار کیا کہ اس کےمنہ سےخون بہنےلگا ۔ ? بابو ! کھوٹا سےاچھےاچھےتیس مار خاں نہیں جیت سکےتو تمہاری بساط ہی کیا ہی؟ ?زخمی ونود نےآفس جانےکےبجائےپولس اسٹیشن جاکر کھوٹا کےخلاف شکایت کرنا ضروری سمجھا ۔ تھانہ انچارج نےساری باتیں سن کر کہا ۔ ? ٹھیک ہےہم آپ کی شکایت لکھ لیتےہیں ۔ لیکن ہم کھوٹا کےخلاف نہ تو کوئی سخت کاروائی کرپائیں گےنہ کوئی مضبوط کیس بنا پائیں گے۔ کیونکہ کچھ گھنٹوں میں کھوٹا چھوٹ جائےگا اور ممکن ہےچھوٹنےکےبعد کھوٹا تم سےاس بات کا انتقام بھی لے۔ ویسےآپ ڈریئےنہیں ہم کھوٹا کو اس کی سزا ضرور دیں گے۔ ? پولس اسٹیشن سےبھی انہیں مایوسی ہی ملی ۔ اس دن دونوں آفس نہیں گئے۔ تناو�? میں بنا ایک دوسرےسےبات کئےگھر میں ہی ٹہلتےرہے۔ شام کو اس نےپولس اسٹیشن فون لگا کر اپنی شکایت پر کی جانےوالی کاروائی کےبارےمیں پوچھا ۔ ? مسٹر ونود ! ? تھانہ انچارج نےکہا ۔ آپ کی شکایت پر ہم نےکھوٹا کو پولس اسٹیشن بلا کر تاکید کی ہے۔ اگر اس نےدوبارہ آپ کی بیوی کو چھیڑا یا آپ سےالجھنےکی کوشش کی تو اسےاندر ڈال دیں گے۔ دوسرےدن دونوں ساتھ آفس کےلئےروانہ ہوئے۔ متعین جگہ پر پھر کھوٹا سےسامنا ہوگیا ۔ ? واہ بابو واہ ! تیری تو بہت پہونچ ہے۔ کھوٹا سےبھی زیادہ ؟ تیری ایک شکایت پر پولس نےکھوٹا کو بلا کر تاکید کی اور تاکید ہی کی ہےناں ؟ اب کی بار کھوٹا ایسا کچھ کرےگا کہ پولس کو تمہاری شکایت پر کھوٹا کےخلاف کاروائی کرنی ہی پڑےگی ۔ ? ? کھوٹا ! ہم شریف لوگ ہیں ہماری عزت ہمیں اپنی جان سےبھی زیادہ پیاری ہےاور اس عزت کی حفاظت کےلئےہم اپنی جان بھی دےسکتےہیں اور کسی کی جان لےبھی سکتےہیں ۔ اس لئےبہتری اسی میں ہےکہ ہم شریف لوگوں کو پریشان مت کرو ۔ تمہارےلئےاور بھی ہزاروں عورتیں دنیا میں ہیں ۔ تم قیمت ادا کرکےمن چاہی عورت کو حاصل کرسکتےہو ۔ پھر کیوں میری بیوی کےپیچھےپڑےہو ؟ ? ? مشکل یہی ہےبابو ! کھوٹا کا دل جس پر آیا ہےوہ اسےپیسوں کےبل پر نہیں مل سکتی ۔ اس کی طاقت کےبل پر ہی مل سکتی ہے۔ ? ? کمینے! میری بیوی کی طرف آنکھ بھی اٹھائی تو میں تیری جان لےلوں گا ۔ ? یہ کہتےہوئےونود کھوٹا پر ٹوٹ پڑا اور بےتحاشہ اس پر گھونسےبرسانےلگا ۔ ہکا بکا کھوٹا ونود کےوار سےخود کو بچانےکی کوشش کرنےلگا ۔ اچانک راستہ چلتےکچھ راہ گیروں نےونود کو پکڑ لیا ? کچھ نےکھوٹا کو ۔ اور وہ کسی طرح ونود کو آفس جانےکےبجائےگھر لےجانےمیں کامیاب ہوگئی ۔ کھوٹا سےونود کےٹکراو�? نےاسےدہشت زدہ کردیا تھا ۔ اسےیقین تھا کہ کھوٹا اس بےعزتی کا بدلہ ضرور لےگا ۔ اور کس طرح لےگا اس تصور سےہی وہ کانپ جاتی تھی ۔ وہ ونود کو بہلاتی رہی ۔ ? کھوٹا کو تم نےایسا سبق سکھایا ہےکہ آج کےبعد نہ وہ تم سےالجھےگا نہ میری طرف آنکھ اٹھانےکی جرا�?ت کرےگا ۔ تم نےجو قدم اٹھایا وہ بہت صحیح تھا ۔ ? بظاہر وہ ونود کو دلاسا دےرہی تھی لیکن اندر ہی اندر کانپ رہی تھی کہ کھوٹا ضرور اس بات کا بدلہ لےگا ۔ اگر اس نےونود کو کچھ کیا تو ؟ نہیں ! نہیں ! ونود کو کچھ نہیں ہونا چاہئیےونود میری زندگی ہے۔ اگر اس کےجسم پر ایک خراش بھی آئی تو میں زندہ نہیں رہوں گی ۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا اس کی وجہ سےیہ جنگ چھیڑی ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ دونوں فریقوں کی تباہی ہے۔ اس کےعلاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ۔ بہتری اسی میں ہےکہ دونوں فریقوں کےدرمیان صلح کرادی جائے۔ تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن یہ صلح کس طرح ممکن تھی ؟ کھوٹا انتقام کی آگ میں جھلس رہا ہوگا اور جب تک انتقام کی یہ آگ نہیں بجھےگی اسےچین نہیں آئےگا ۔ اسےکھوٹا ایک اژدھا محسوس ہورہا تھا ۔ جو اس کےسامنےکھڑا اسےنگلنےکےلئےاپنی زبان بار بار باہر نکالتا اور پھنکاررہا تھا ۔ اس اژدھےسےاسےاپنی حفاظت کرنی تھی ۔ دوسرےدن وہ آفس جانےلگی تو پان اسٹال پر کھوٹا کا سامنا ہوگیا ۔ وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھور رہا تھا ۔ اس نےمسکرا کر اسےدیکھا اور آگےبڑھ گئی ۔ اسےمسکراتا دیکھ کھوٹا حیرت سےاسےآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہ گیا ۔ ایک دن پھر وہ آفس جانےلگی تومسکراتا ہوا کھوٹا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا ۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔ ? میرا راستہ چھوڑ دو ۔ ? وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھورتی ہوئیغصہ سے بولی ۔ ? جانم اب تو ہمارےتمہارےراستےایک ہی ہیں ۔ ? کہتےہوئےکھوٹا نےاس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نےایک جھٹکےسےاپنا ہاتھ چھڑالیا اور قریب کھڑےناریل پانی فروخت کرنےوالےکی گاڑی سےناریل چھیلنےکی درانتی اٹھاکر کھوٹا کی طرف شیرنی کی طرح لپکی ۔ کھوٹا کےچہرےپر ہوائیاں اڑنےلگیں ۔ اچانک وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا ۔ وہ اس کےپیچھےدرانتی لئےدوڑ رہی تھی ۔ پھولتی ہوئی سانسوں کےساتھ کھوٹا اپنی رفتار بڑھاتا جارہا تھا ۔ جب کھوٹا اس کی پہونچ سےکافی دور نکل گیا تو وہ کھڑی ہوکر اپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی ۔ اور پھر درانتی کو ایک طرف پھینک کر آفس چل دی ۔ ll

Short Story

Jahannam

By:-M.MUbin




تین دن میں پتہ چل گیا کہ مگن بھائی نےاسےکمرہ کرایےپر نہیں دیا بلکہ اسےکمرہ کرائےپر دینےکےنام پر ٹھگ لیا ہے۔ اب سوچتا ہےتو اسےخود حیرت ہوتی ہےکہ اس سےاتنی بڑی غلطی کس طرح ہوگئی ؟ بس کچھ دیر کےلئےوہ اس بستی میں آیا ۔ مگن بھائی نےاپنی چال کا بند کمرہ کھول کر اسےبتایا 10x12کا کمرہ تھا ۔ جس کےایک کونےمیں کچن بنا ہوا تھا ۔ اس سےلگ کر چھوٹا سا باتھ روم جسےعرف عام میں موری کہا جاسکتا تھا ۔ کمرہ میں ایک دروازہ تھا جو تنگ سی گلی میں کھلتا تھا ۔ دو کھڑکیاں تھیں ہوا اور روشنی کا کافی اچھا انتظام تھا ۔ زمین پر رف لادی تھی ۔ کمرےکا پلاسٹر جگہ جگہ سےاکھڑا ہوا تھا لیکن سمینٹ کا تھا ۔ چھت پترےکی تھی ۔ گلی کےدونوں جانب کچےجھونپڑوں کا سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا تھا ۔ وسط سےایک نالی بہہ رہی تھی ۔ جس سےگندہ پانی ابل کر چاروں طرف پھیل رہا تھا جس کی بدبو سےدماغ پھٹا جارہا تھا ۔ مگن بھائی کی وہ چال سات آٹھ کمروں پر مشتمل تھی ۔ اس کےذہن نےفیصلہ کیا کہ اسےاس شہر میں اتنا اچھا کمرہ اتنےکم داموں پر کرائےپر نہیں مل سکتا ہے۔ اس شہر میں اس سےاچھےکمرےکی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔ وہ فوراً کمرہ لینےپر راضی ہوگیا ۔ دوسرےدن اس نےپچیس ہزار روپےمگن بھائی کو ڈپازٹ کےطور پر ادا کئی۔ مگن بھائی نےفوراً کرایہ کےمعاہدےکےکاغذات دستخط کرکےاس کےحوالےکردئے۔ بجلی اور پانی کا اپنی طور پر انتظام کرنےکےبعد اسےکرائےکےطور پر ہر ماہ مگن بھائی کو صرف سو روپےادا کرنےتھے۔ کرائےکا قرار نامہ صرف گیارہ ماہ کےلئےتھا لیکن مگن بھائی نےوعدہ کیا تھا وہ گیارہ ماہ کےبعد بھی اس سےوہ کمرہ خالی نہیں کرائےگا ۔ وہ جب تک چاہےاس کمرہ میں رہ سکتا ہے۔ اگر اس کا کہیں دوسری جگہ اس سےبہتر انتظام ہوجاتا ہےتو وہ اپنی ڈپازٹ کی رقم واپس لےکر کمرہ خالی کرسکتا ہے۔ اس شام اپنےدوست کےگھر سےاپنا مختصر سا سامان لےکر دوست اور اس کےگھر والوں کو خدا حافظ کہہ کر وہ اپنےنئےگھر میں آگیا ۔ دو تین گھنٹےتو کمرےکی صفائی میں لگ گئےباقی تھوڑےسےسامان کو قرینےسےسجانےمیں ۔ کمرےمیں بجلی کا انتظام تھا ۔ اسےصرف بلب لگانےپڑے۔ کمرےکی صفائی سےوہ اتنا تھک گیا تھا کہ اس رات وہ بنا کھائےپئےہی سو گیا ۔ سویرےحسبِ معمول چھ بجےکےقریب آنکھ کھلی تو اپنےآپ کو وہ تر و تازہ محسوس کررہا تھا ۔ بستی میںپانی آیا تھا ۔ گھر کےسامنےایک سرکاری نل پر عورتوں کی بھیڑ تھی ۔ ? پانی کا انتظام کرنا چاہیئے۔ ? اس نےسوچا ۔ لیکن پانی بھرنےکےلئےکوئی برتن نہیں تھا ۔ چہل قدمی کرتےہوئےاپنےگھر سےتھوڑی دور آیا تو اسےایک کرانےکی دوکان نظر آئی ۔ اس دوکان پر لٹکےپانی کےکین دیکھ کر اس کی بانچھیں کھل گئیں ۔ کین خرید کر وہ نل پر آیا اور نمبر لگا کر کھڑا ہوگیا ۔ نل پر پانی بھرتی عورتیں اسےعجیب نظروں سےگھور کر آپس میں ایک دوسرےکو کچھ اشارےکررہی تھیں ۔ اس کا نمبر آیا تو اس نےکین بھرا اور اپنےگھر آگیا ۔ نہا دھو کر کپڑےبدلےگھر میں وہ ناشتہ تو بنا نہیں سکتا تھا۔ ناشتہ بنانےکےلئےدرکار کوئی چیز بھی نہیں تھی ۔ کسی ہوٹل میں ناشتہ کرنےکا سوچتا ہوا وہ گھر سےباہر نکل آیا ۔ سوچا ناشتہ کرنےتک آفس کا وقت ہوجائےگا تو وہ آفس چلا جائےگا ۔ اس دن وہ اپنےآپ کو بےحد چاک و چوبند اور خوش و خرم محسوس کررہا تھا ۔ ایک احساس بار بار اس کےاندر ایک کروٹیں لےرہا تھا کہ اب وہ اس شہر میں بےگھر نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک گھر تو ہے۔ کل تک یہ احساس اسےکچوکتا رہتا کہ اس کےپاس ایک اچھی نوکری ہےلیکن رہنےکےلئےایک چھت نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی چھت کےنیچےپناہ لئےہوئےہی۔ اور اس چھت کی پناہ کبھی بھی اس کےسر سےہٹ سکتی ہے۔ اسےاپنی قابلیت کی بنا پر اس شہر میں نوکری تو مل گئی تھی ۔ لیکن اس شہر میں اس کا نہ تو کوئی رشتہ دار تھا اور نہ شناسا ۔ اس نےڈیوٹی جوائنٹ تو کرلی لیکن رہائش کا سب سےبڑا مسئلہ کسی عفریت کی طرح اس کےسامنےمنہ پھاڑےکھڑا تھا ۔ اس مسئلےکا وقتی حل اس نےایک درمیانی درجےکےہوٹل میں ایک کمرہ کرائےسےلےکر نکال لیا ۔ کچھ دنوں میں ہی اسےمحسوس ہوا کہ اس کی تنخواہ میں وہ اس ہوٹل میں صرف رہ سکتا ہے? کھاپی نہیں سکتا ۔ اس لئےاس نےدوسرےسہارےکی تلاش شروع کردی ۔ اسےایک ہوسٹل میں سر چھپانےکی جگہ مل گئی ۔ دو چار مہینےاس نےاس ہوسٹل میں نکالے۔ لیکن ایک دن وہ سخت مصیبت میں پھنس گیا ۔ ایک دن پولس نےاس نےہوسٹل پر چھاپا مارا اور اس ہوسٹل کےسارےمکینوں کو گرفتار کرلیا ۔ اس ہوسٹل سےپولس کو منشیات ملی تھیں ۔ اس ہوسٹل میں کچھ غیر سماجی عناصر منشیات کا کاروبار کرتےتھے۔ بڑی مشکل سےوہ پولس کےچنگل سےچھوٹ پایا ۔ وہ ایک بار پھر بےگھر ہوگیا تھا ۔ وہ اپنےلئےکسی چھت کی تلاش کررہا تھا کہ اچانک اس کی ملاقات ایک دوست سےہوگئی ۔ وہ دوست کافی دنوں کےبعد ملا تھا ۔ اس دوست کا اس شہر میں چھوٹا سا کاروبار تھا ۔ اس نےاپنا مسئلہ اس کےسامنےرکھا تو اس نےبڑےخلوص سےاس کو پیش کش کی کہ جب تک تمہارا کوئی انتظام نہیں ہوجاتا تم میرےگھر میں رہ سکتےہو ۔ انتظام ہونےکےبعد چلےجانا ۔ اسےاُس وقت اپنا وہ دوست ایک فرشتہ معلوم ہوا ۔ وہ اپنےاس دوست کےگھر رہنےلگا ساتھ ہی ساتھ اپنےلئےکوئی کمرہ ڈھونڈنےلگا ۔ شہر میں کرائےسےمکان ملنا مشکل تھا ۔ مکان خریدنےکی اس کی استطاعت نہیں تھی ۔ جو مکان ملتےتھےان کا کرایہ اس کی نصف تنخواہ سےزائد تھا اس پر ڈپازٹ کی کثیر رقم کی شرط ۔ کچھ دنوں بعد تھک ہار کر اس نےسوچا کہ اسےایسےعلاقوں میں مکان تلاش کرنا چاہیئےجہاں کمروں کےدام کم ہوں بھلےہی وہ علاقےاس کےمزاج و معیار کےنہ ہوں ۔ اسےاس سےکیا لینا دینا ہے۔ اسےصرف رات میں ایک چھت چاہیئے۔ دن بھر تو وہ آفس میں رہےگا ۔ اسےایک اسٹیٹ ایجنٹ نےمگن بھائی سےملایا ۔ مگن بھائی نےبتایا کہ بستی میں ان کی چال میں ایک کمرہ خالی ہےوہ پچیس ہزار روپےڈپازٹ پر دیں گے۔ ? ٹھیک ہےمگن بھائی ! میں ڈپازٹ کا انتظام کرکےآپ سےملتا ہوں ۔ ? کہہ کر وہ چلاآیا اور پیسوں کےانتظام میں لگ گیا ۔ اتنےپیسوں کا انتظام بہت مشکل تھا ۔ اپنےشہر جاکر اس نےدوستوں اور رشتہ داروں سےقرض لیا اور گھر کےزیورات ایک بینک میں گہن رکھ کر قرض لیا اور پیسوں کا انتظام کرکےواپس آیا ۔ مگن بھائی نےکمرہ دکھایا اس نےکمرہ پسند کرکےپیسےمگن بھائی کو دئےاور رہنےلگا ۔ شام کو جب وہ ضروری سامان سےلدا اپنےگھر آیا تو اپنےگھر کےقریب پہونچنےپر اس کےقدم زمین میں گڑ گئے۔ گلی میں چاروں طرف پولس پھیلی ہوئی تھی ۔ ? کیا بات ہےبھائی ! یہ گلی میں پولس کیوں آئی ہے؟ ? اس نےایک آدمی سےپوچھا ۔ ? ہوگا کیا ؟ دارو کےاڈےپر جھگڑا ہوا اس میں چاقو چل گئےاور ایک آدمی ٹپک گیا ۔ ? یہ کہتا ہوا وہ آدمی آگےبڑھ گیا ۔ ? تو اس جگہ شراب کا اڈہ بھی ہے؟ ? سوچتا ہوا وہ اپنےگھر کی طرف بڑھا اور سامان پیروں کےپاس رکھ کر دروازہ کھولنےلگا ۔ سامان گھر میں رکھ کر وہ معاملہ کی تفصیلات جاننےکےلئےباہر آیا تو تب تک پولس جاچکی تھی اور لاش بھی اٹھوائی جاچکی تھی ۔ آس پاس کےلوگ جمع ہوکر اس واقعہ کےبارےمیں باتیں کررہےتھے۔ ? ابھی تو پولس نےاڈہ بند کردیا ہے۔ کل پھر شروع ہوجائےگا ۔ ? ? یہ اڈہ ہےکہاں ؟ ? اس نےپوچھا تو وہ لوگ اسےسر سےپیر تک دیکھنےلگے۔ ? بابو کس دنیا میں ہو ؟ تم جس چال میں رہتےہو اسی میں تو دارو کا اڈہ ہے۔ ? ? میری چال میں شراب کا اڈہ ؟ ? اس نےحیرت سےیہی بات دہرائی ۔ ? ہاں ! نہ صرف شراب خانہ بلکہ ایک جُوئےکا اڈہ بھی ہے۔ ایک کمرےمیں منشیات فروخت ہوتی ہیں اور دوسرےدو کمروں میں دھندہ کرنےوالیاں رہتی ہیں ۔ ?یہ سنتےہی اس کی آنکھوں کےسامنےتارےناچنےلگے۔ اس کی چال میں شراب ? جوئےاور منشیات کےاڈےہیں یہاں طوائفیں بھی رہتی ہیں اور اب وہ اسی چال میں رہ رہا ہے۔ اس دن تو اسےصرف اس بات کا پتہ چلا کہ وہ کیسی جگہ رہنےآیا ہےلیکن دوچار دنوں کےبعد اسےیہ پتہ چلا کہ وہاں رہنا کتنا بڑا عذاب ہے۔ لوگ بےدھڑک گھر میں گھس آتےتھےاور طرح طرح کی فرمائشیں کرتےتھے۔ ? ایک بوتل چاہیئے۔ ? ? ذرا ایک افیون کی گولی دینا ۔ ? ? ایک گرَد کی پوڑی دینا ۔ ? ? جمنا بائی کو بلانا ? آج اس کا فل نائٹ کا ریٹ دےگا ۔ ? وہ یہ سب سن کر اپنا سر پکڑ لیتا اور اس شخص کو پکڑ کر باہر کردیتا اور اسےبتاتا کہ اسےاس کی مطلوبہ چیز کہاں مل سکتی ہے۔ اس درمیان اسےپتہ چل گیا تھا کہ کہاں کون سا دھندہ چلتا ہےاور اس دھندےکا مالک کون ہے۔ دروازہ کھلا چھورنا ایک سر درد تھا اس لئےاس نےدروازےکو ہمیشہ بند رکھنےمیں ہی عافیت سمجھی ۔ لیکن دروازہ بند رکھنا تو اور بھی سر درد تھا ۔ دروازہ زور زور سےپیٹا جاتا ۔ جیسےابھی توڑ دیا جائےگا ۔ وہ جھلا کر دروازہ کھولتا تو وہی سوال سامنےہوتےتھےجو دروازہ کھلا ہونےپر اجنبیوں کےذریعہ گھر میں گھس کر پوچھےجاتےتھے۔ وہ سوچتا وہ اکیلا ہےصرف رات کو یہاس سونےکےلئےآتا ہےتو اس کا یہ حال ہی۔ اس کےبجائےوہ یا کوئی بھی شریف آدمی اپنی فیملی کےساتھ تو ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ہے۔ یہاں اس کا رہنا محال ہےتو بھلا وہ اپنی فیملی یہاں لانےکےبارےمیں کس طرح سوچ سکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی کہانی ? ایک نیا ہنگامہ اور ایک نیا واقعہ سامنےآتا تھا ۔ شرابی جواری آپس میں لڑ پڑتےاور یہ تو ایک عام سی بات تھی ۔ ایک گاہک جمنا بائی کےگھر میں جانےکی بجائےسامنےوالےرگھو کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی سےچھیڑ خانی کرنےلگا ۔ پولس چھاپا مارنےآئی تو شراب کا اڈہ چلانےوالوں نےشراب کےایک دو کین پیچھےرہنےوالےگنپت کےگھر میں چھپا دئےپولس نےوہ کین ڈھونڈ نکالے۔اڈہ چلانےوالےتو بھاگ گئےلیکن بےچارہ گنپت اس جرم میں پکڑا گیا ۔ سامنےکی شیاملہ بائی جمنا بائی کےکمرےکےپاس کھڑی تھی پولس نےجمنا بائی کےاڈےپر ریڈ کی اور جسم فروشی کرنےکےجرم میں شیاملہ کو پکڑ کر لےگئی ۔ وہ بڑی مشکل سےچھوٹ پائی ۔ منشیات کا دھندا کرنےوالےسعید کےگھر میں منشیات پھینک گئےاور پولس سعید کےگھر سےمنشیات برآمد کرکےاسےاٹھالےگئی ۔ یہ سارےواقعات دیکھ کر اس کا دل دہشت کےمارےدہل جاتا تھا ۔ وہ سوچتا کہ ہوسکتا ہےیہ واقعہ کل اس کےساتھ بھی ہو ۔ غنڈےاس کےکمرےمیں منشیات پھینک جائیں یا شراب رکھ جائیں اور پولس اس کےگھر سےوہ چیزیں برآمد کرکےاسےبھی اسی طرح پکڑ کر لےجائے۔جمنا بائی اس کےکمرےکےسامنےکھڑی ہوکر کسی گاہک سےمول تول کررہی ہوگی اور پولس جمنا کو تو دھر لےگی اور اسےبھی اس جرم میں گرفتار کر کےلےجائےگی ۔ کہ وہ اس جگہ جسم فروشی کا دھندہ کرواتا ہے۔ یہاں اس چھت کےنیچےرہنےسےتو بہتر ہےبےگھر آسمان کی کھلی چھت کےنیچےرہا جائے۔ وہاں رہتےہوئےدل میں صرف اسی کرب کا احساس ہوگا کہ وہ بےگھر ہےلیکن اس چھت کےنیچےرہ کر لمحہ لمحہ دہشت کا اسیر ہوکر تو نہیں جئےگا ۔ ان سب باتوں سےگھبرا کر اس نےایک فیصلہ کرلیا کہ اسےیہ گھر چھوڑ دینا چاہیئے۔ جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوجاتا بھلےاسےبےگھر رہنا پڑےگا لیکن وہ اس دہشت و عذاب سےتو بچا رہےگا ۔ وہ مگن بھائی کےپاس گیا اور اس سےصاف کہہ دیا ۔ ? میرا ڈپازٹ واپس کردیجئے۔ مجھےآپ کا کمرہ نہیں چاہیئے۔ ? ? ارےکیسےواپس کرےگا ۔ ہمارا گیارہ مہینےکا ایگریمینٹ ہوا ہےاس لئےتم گیارہ مہینےسےپہلےوہ کمرہ خالی نہیں کرسکتا ۔ ? ? تم گیارہ مہینےکی بات کرتےہو ۔ میں اس جگہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ۔ اپنی پوری چال شراب ، جوئے، منشیات اور طوائفوں کےاڈےچلانےوالوں کو کرائےپر دی ہےاور اس جگہ مجھ سےشریف آدمی کو بھی دھوکےسےکرائےپر رکھا ۔ تمہیں ایسا ذلیل کام کرتےہوئےشرم آنی چاہئے۔ میرےبجائےکسی شراب ، جوئے، منشیات اور جسم فروشی کا دھندہ کرنےوالےکو کرائےپر دےدیتے۔ ? ? ارےبھائی ! ان لوگوں کو میں نےکمرےکرائےسےکہاں دئےہیں ۔ میں نےوہاں چال بنائی تھی اور اس لالچ میں کمرےنہیں دئےتھےکہ مجھےزیادہ ڈپازٹ اور کرایہ ملےگا ۔ وہ غنڈےبدمعاش لوگ تالہ توڑ کر ان کمروں میں گھس آئےہیں اور اپنےکالےدھندےکرنےلگے۔ میں نےصرف ایک شریف آدمی کو ایک کمرہ کرائےسےدیا تھا جو کچھ دنوں قبل وہاں کےماحول سےڈر کر بھاگ گیا ۔ اس کمرےپر بھی غنڈےقبضہ نہ کرلیں اس لئےمیں نےوہ کمرہ تمہیں کرئےپر دےدیا ۔ اب تم اسےخالی کرنےکی بات کرتےہو ۔ ارےبابا جاو�? وہ کمرہ میں نےتمہیں دےدیا ۔ ہمیشہ کےلئےدےدیا ۔ مجھےکرایہ بھی مت دو ۔ تم وہ کمرہ چھوڑ دوگےاور میں تمہیں ڈپازٹ واپس کردوں گا تو اس کمرےپر کوئی بھی غنڈہ قبضہ کرلےگا ۔ مگن بھائی کی بات سن کر اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اسےلگا مگن بھائی تو اس سےزیادہ مظلوم ہے۔ ? مگن بھائی ! غنڈوں نےتمہاری پوری چال پر قبضہ کرلیا اور تم نےپولس میں شکایت بھی نہیں کی ؟ ? ? شکایت کرکےکیا مجھےاپنی زندگی گنوانی ہے۔ وہ سب غنڈےلوگ ہیں ان کےمنہ کون لگےگا ۔ پولس ان کا کچھ نہیں بگاڑےگی ۔ پولس ان سےملی ہوئی ہے۔ شکایت پر تھوڑی دیر کےلئےان کو اندر کرےگی وہ پھر آزاد ہوکر میری جان کےدشمن بن جائیں گے۔ اس لئےمیں نےیہ سوچ لیا کہ وہ میری چال ہےہی نہیں ۔ یہ سمجھ لیا کہ مجھےبزنس میں گھاٹا ہوگیا ۔ دیکھو اگر تم وہاں رہنا نہیں چاہتےتو کسی سےبھی اپنی ڈپازٹ کی رقم ڈپازٹ کےطور پر لےکر وہ کمرہ اسےدےدو ۔ مجھےکوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ میں اسےبھی بنا کرائےکا قرار نامہ بنا کر دےدوں گا ۔ ? مگن بھائی کی باتیں سن کر وہ چپ چاپ واپس آگیا ۔ اس رات اسےرات بھر نیند نہیں آئی ۔ اس کےسامنےایک ہی سوال تھا ۔ وہ وہاں رہےیا چلا جائے؟ فی الحال تو ایسی صورتِ حال تھی ۔ وہ اس جگہ سےکہیں جا نہیں سکتا تھا ۔ وہاں رہنا ایک عذاب تھا ۔ لیکن وہ اتنا بھی بزدل ڈرپوک نہیں تھا کہ اس عذاب سےڈر کر فرار کی راہ اختیار کرلے۔ ہر طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنےکےلئےاس نےخود کو تیار کرلیا تھا ۔ اسےصرف رات میں ہی تو ان ذہنی کربوں کو جھیلنا پڑتا تھا ۔ دن میں تو وہ آفس میں رہتا تھا ۔ دن میں وہاں کیا ہوتا ہےیا جو کچھ ہوتا تھا ان سب باتوں کےسامنےوہ نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن رات گھر آنےپر دن میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ساری کہانی اسےمعلوم پڑجاتی تھی ۔ دو شرابیوں نےاوشا کو چھیڑا ? ایک غنڈےنےاشوک کی بیوی لکشمی کی عزت لوٹنےکی کوشش کی ۔ غنڈوں میں جم کر مار پیٹ ہوئی تو کئی زخمی ہوئےاور پورا کمرہ تہس نہس ہوگیا ۔ آج غنڈوں کےٹکراو�? میں پستول چل پڑی ? گولی سےکوئی غنڈہ تو زخمی نہیں ہوا لیکن سامنےرہنےوالےلکشمن کےدس سالہ لڑکےکو گولی لگ گئی اسےاسپتال لےجایا گیا اب اس کی حالت بہت نازک ہے۔ جو لوگ اسےیہ کہانیاں سناتےوہ ان پر برس پڑتا تھا ۔? کب تک تم لوگ یہ سب برداشت کرتےرہو گے۔ تم لوگ شریف ہو ۔ یہ محلہ شریفوں کا ہےاور غنڈوں نےاس محلےپر قبضہ کرکےاسےشریفوں کےرہنےکےلائق نہیں رکھا ۔ اگر تم چپ رہےاور چپ چاپ سب برداشت کرتےرہےتو تم لوگوں کےساتھ بھی یہی ہوگا اور ہمیشہ ہوتا رہےگا ۔ اگر اس سےنجات حاصل کرنی ہو تو اس کےخلاف احتجاج کرو ۔ غنڈوں بدمعاشوں کےخلاف متحد ہوجاو�? اور جو کچھ یہاں ہورہا ہےاس کےخلاف پولس میں شکایت کرو۔ تمہاری شکایت پر پولس کو کاروائی کرنی ہی پڑےگی اور یہ سب کچھ رک جائےگا ۔ ? ? معین بھائی ! ہم یہ نہیں کرسکتے۔ ? اس کی باتیں سن کر وہ سہم گئے۔ ? اگر ہم نےایسا کیا تو ممکن ہےپولس کاروائی کرے۔ لیکن وہ زیادہ دنوں تک غنڈوں کو لاک اپ میں نہیں رکھ سکےگی ۔ شکایت کرنےپر وہ لوگ ہمارےدشمن ہوجائیں گے۔ اور آزاد ہوتےہی ہم سےبدلہ ضرور لیں گی۔ اس لئےہم سوچتےہیں ان غنڈوں سےکیا الجھا جائے۔ جو کچھ ہورہا ہےچپ چاپ برداشت کرنےمیں ہی عافیت ہے۔ ? ? یہی تو آپ لوگوں کی کمزوری ہے۔ احتجاج کی ہمت اور جرا�?ت نہیں ہےجس سےغنڈوں کی جرا�?ت بڑھتی جاتی ہے۔ احتجاج نہیں کرسکتے? سب کچھ غلط بات برداشت کرسکتےہیں ؟ ? وہ غصےسےبولا ۔ ? اگر میرےساتھ ایک دن بھی ایسا کچھ ہوا تو میں بالکل برداشت نہیں کروں گا ۔ جو میرےساتھ ایسی ویسی حرکت کرےگا ? اسےمزہ چکھا دوں گا ۔ ? دوسرےدن وہ شام کو آفس سےآیا تو اسےچار پانچ آدمیوں نےگھیر لیا ۔ ان کی صورت و شکل ہی ظاہر کررہی تھی کہ وہ غنڈےہیں ۔ ? اےبابو ! کیوں بہت لیڈر بننےکی کوشش کررہا ہے؟ ہم لوگوں کےخلاف بستی والوں کو بھڑکا رہا ہے۔ تُو نیا نیا ہےاس لئےتجھےہماری طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پرانےہیں اس لئےان لوگوں کو ہماری طاقت معلوم ہے۔ اس لئےیہ کبھی ہم سےنہیں الجھیں گے۔ اگر یہاں رہنا ہےتو خیریت اسی میں ہےکہ تم بھی پرانےبن جاو�? ۔ ہماری طاقت جان جاو�? اور ہم سےمت الجھو ۔ جیسا چل رہا ہےچلنےدو ? جو کچھ ہو رہا ہےوہ ہونےدو ۔ ? ایک غنڈہ اسےگھورتا ہوا بولا ۔ ? دادا ! یہ باتوں سےنہیں مانےگا ۔ ایک دو ہڈی پسلی ٹوٹےگی تو ساری لیڈری بھول جائےگا ۔ اسےابھی مزہ چکھاتا ہوں ۔ ? ایک غنڈےنےیہ کہتےہوئےاپنی ہاکی اسٹک ہوا میں لہرائی ۔ ? نہیں ! آج کےلئےاتنی وارننگ کافی ہے۔ ? اس غنڈےنےہاکی والےکو روک دیا ۔ ? اس کےبعد اس نےہوشیاری کی تو میری طرف سےاس کی اور دو چار ہڈیاں توڑ دینا ۔ ? یہ کہتا ہوا وہ سب کو لےکر چل دیا ۔ وہ سناٹےمیں آگیا ۔ اس کا سارا جسم پسینےمیں شرابور ہوگیا ۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےکئی ہاکی اسٹک اس کےجسم سےٹکرائی ہیں ۔ اور اس کا جسم درد کا پھوڑا بنا ہوا ہے۔ اسےرات بھر نیند نہیں آئی ۔ آنکھوں کےسامنےغنڈوں کےچہرےگھومتےاور کانوں میں ان کی وارننگ گونجتی رہی ۔ اگر آج وہ غنڈےہاتھ اٹھادیتےتو ? وہ کس طرح ان سےاپنا بچاو�? کرپاتا ؟ اس کےذہن میں ایک ہی بات چکرا رہی تھی ۔ جو آج ٹل گیا ہےوہ کل بھی ہوسکتا ہے۔ اس سےبچنےکا ایک ہی طریقہ ہے۔ چپ چاپ آنکھیں بند کرکےوہ یہاں رہےاور جو کچھ ہورہا ہےاس سےلا تعلق بن جائےتو اسےکبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ لیکن وہاں رہنا بھی کسی جہنم میں رہنےسےکم نہیں تھا ۔ آئےدن غنڈوں کےجھگڑے، فساد ، شرابی ، نشہ باز ، جواری اور بدکار لوگوں کا بےدھڑک گھر میں گھس آنا یا بدتمیزی سےدروازہ پیٹنا ، پولس کےریڈ الرٹ ? ریٹ میں غنڈےبدمعاشوں کا تو نکل بھاگنااور شریفوں کا پکڑا جانا ۔ بات بات پر چاقو چھریوں کا چلنا ، آس پاس رہنےوالوں کی بیویوں ، ماو�?ں ، بہنوں سےغنڈوں اور وہاں آنےوالوں کی بدتمیزیاں ۔ وہ سوچنےلگا کہ کسی کو یہ کمرہ ڈپازٹ پر دےکر اس سےاپنی رقم لےکر اس جہنم سےنکل جائے۔ لیکن پھر سوچتا کہ وہ اکیلا اس جہنم میں رہ سکتا ہےلیکن کوئی شریف بال بچےاور فیملی والےشخص کو اس جہنم میں ڈالنا کیا مناسب ہوگا ؟ اس کا ضمیر اس بات کےلئےراضی نہیں ہوپاتا تھا اور اسےاس جہنم میں رہنےکےلئےخود سےسمجھوتہ کرنا پڑا ۔ ll

Short Story

Tooti Chhat Ka Makan

By:-M.MUbin




l ٹوٹی چھت کا مکان

وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہی۔ اکیلےبیٹھےبلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتےرہنا۔ سوچنےکےلیےکوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہےکہ اسی کےبارےمیں غور کیا جائی۔ عجیب و غریب خیالات و موضوع ذہن میں آتےہیں۔ جن پر غور کرکےکچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہی۔ اس نےاپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانےوالےان لایعنی خیالوں کو ذہن سےنکالا اور چھت کو گھورنےلگا۔ سفید دودھ کی سی چھت، بےداغ چھت، جس کےچاروں کونوں پر چار دودھیا بلب لگےتھےاور درمیان میں ایک فانوس لٹک رہا تھا۔ گذشتہ دنوں اس نےوہ جھومر مدراس سےلایا تھا اس کی قیمت پورےتیس ہزار روپیہ تھی۔ ایک فانوس تیس ہزار روپیہ قیمت، سوچ کر وہ خود ہی ہنس پڑا ، گھر میں ایسی کئی چیزیں تھیں جن کی قیمت لاکھوں تک ہوتی اور اس کےعلاوہ پورا مکان؟ ایک کروڑ کا نہیں تو چالیس پچاس لاکھ کا ضرور ہوگا۔اور اس کےسامنےچالیس پچاس لاکھ روپیہ کےمکان کی چھت تھی جسےوہ اس وقت گھوررہا تھا۔ دس بیس سالوں قبل اس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کےسر پر چالیس پچاس لاکھ روپیوں کی چھت ہوگی۔ آج اس کی یہ حالت ہی۔ لیکن کبھی اس کےایسےحالات تھےکہ اسےٹوٹی چھت کےمکان میں رہنا پڑتا تھا۔ کیا وہ اس کو بھول سکتا ہیَ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔ انسان کو جس طرح اپنےاچھےدن ہمیشہ یاد رہتےہیں اسی طرح وہ اپنےبرےدن بھی کبھی نہیں بھولتا۔اور اس نےتو اس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےپورےدوسال نکالےتھی۔تب کہیں جاکر وہ ٹوٹی چھت بن سکی تھی۔اس ٹوٹی چھت کےنیچی، اس کےخاندان نےکتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ مکان، مکان کی چھت کس لیےہوتی ہی؟ سردی، گرمی، بارش، دھوپ، ہوا سےانسان کی حفاظت کرنےکےلیےمکان میں رہنےکی یہی تو وجہ ہوتی ہی۔ لیکن جس مکان کی چھت ہی ٹوٹی ہوئی ہو اس میں رہنا کیا معنی؟بارش کےدنوں میں پانی گھر کو جل تھل کردیتا ہو اور اس طرح بہتا ہو جیسےسڑک پر پانی بہہ رہا ہو۔ دھوپ سات بجےسویرےسےہی گھر میں گھس کر جسم میں سوئیاں چبھونےلگتی ہو، دن ہو یا رات سردی جسم میں کپکپی پیدا کرتی ہو۔ تو اس چھت کےکیا معنی؟ایسےمیں کھلی سڑک پر آسمان کی چھت کےنیچےرہنا اچھا لگتا ہے، اس ٹوٹی چھت کےمکان میں رہنےکےمقابلی۔ چھت ٹوٹ گئی تھی، چھت کےٹوٹنےپر ان کا کوئی بس نہیں تھا۔ مکان کافی پرانا ہوگیا تھا۔ داداجی کہتےتھےمیرےدادا نےیہ مکان بنایا تھا۔ گھر کی چھت اور جن لکڑیوں پر وہ چھت ٹکی تھی سینکڑوں، گرمیاں، سردیاں، بارش دیکھ چکی تھیں۔آخر اس کی قوتِ برداشت جواب دےگئی۔ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ سب کسی نہ کسی کام سےگھر کےباہر گئےتھی، چھت گرگئی۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن ان کا سارا سنسار منوں مٹی کےنیچےدب گیا۔ بڑی محنت اور مشکل سےماں، باپ سب بھائی بہنوں نےمل کر اس سنسار کی ایک ایک چیز کو مٹی سےباہر نکالا تھا۔مٹی نکال کر آنگن میں ڈھیر لگایا گیا۔گلی سڑی لکڑیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا گیا اور گھر کی صاف صفائی کرکےمکان کو رہنےکےقابل بنایا گیا۔ اس کےبعد دوسالوں تک اس مکان کی چھت نہیں بن سکی۔چھت کی مٹی برسات میں بہتی رہی۔اور گرمی سردی سےدب کرزمین پر مسطح ہوگئی۔ ساری لکڑیاں ایندھن کےطور پر استعمال ہوگئی، اور گھر میں اس کےخاندان کےافراد کےساتھ گرمی، سردی، بارش کا بسیرا ہوگیا۔ پتاجی کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ چھت بنائی جاسکی۔ جو کچھ کماتےتھےاس میں مشکل سےان کا گھر چلتا تھا، اور ان کی تعلیم کےاخراجات پورےہوپاتےتھی۔ یہ جان کر ہی گھر کےہرفرد نےاس ٹوٹی چھت کےساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اور چاردیواری میں رہ کر بھی بےگھر ہونےکی ہر اذیت کو چپ چاپ برداشت کررہےتھی۔اس کےبعد وہ ٹوٹی چھت اس وقت بن پائی جب پتاجی نےاپنی زمین کا ایک ٹکڑابیچ ڈالا۔ آج جب وہ اس بارےمیں سوچتا ہےتو اسےایسا لگتا ہےشاید بھگوان نےاس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےصبر سےرہنے، کسی طرح کی کوئی شکایت و گلہ نہ کرنےکا صلہ اسےاس چھت کی شکل میں دیا۔اگر وہ شہر کےکسی بھی فرد کو بتاتےکہ وہ شہر کےکس حصےمیں اور کس عمارت میں رہتا ہےتو وہ اس کےنصیب سےحسد کرنےلگی۔ اس علاقےمیں بنی عمارتوں میں رہنےکا لوگ صرف خواب دیکھتےرہتےتھی۔لیکن وہ وہاں رہ رہا تھا۔ایک ایسی چھت کےنیچےجس کا نام سُن کر ہی ہر شخص آسانی سےاس کےرتبہ اور حیثیت کا پتہ لگا لیتا ہی۔ وہ چھت جو اسےاور اس گھر کےافراد کو،گرمی،سردی،بارش سےبچاتی ہی۔بچاتی کیا ہےیہ موسم اس مکان میں داخل ہونےسےرہا۔اس کےگھر کےاپنےموسم جن پر اس کا، اس کےگھر والوں کا اختیار ہےیہ ان کےبس میں ہیں موسموں کا گھر پر کوئی بس نہیں ہی۔ باہر شدید گرمی ہےاندر ائر کنڈیشن چل رہا ہےاور کشمیر سا موسم چھایا ہوا ہی۔ باہر سردی ہی۔ لیکن پورا مکان اپنےاندر میٹھی میٹھی تپش لیےہوئےہی۔ ہوائیں اپنےبس میں ہیں۔ ہر چیز پر اپنا اختیار ہی۔ دروازےپرآٹومیٹک تالہ ہی۔ گھر کےافراد کےلمس کےبنا نہیں کھل سکتا۔ فرش پہ ایرانی قالین بچھا ہی۔ ڈرائینگ روم ایک منی تھیٹر کی طرح ہےجہاں ڈسکوری چینل ٢١ فٹ کےپردےپر دکھائی دیتا ہی۔ پوری بلڈنگ میں باحیثیت لوگ رہتےہیں بلکہ کچھ تو اس سےبڑھ کر ہیں۔ گپتاجی کا ایکسپورٹ کا بزنس ہی۔ متل جی ایک چھوٹےسےانڈسٹریل گروپ کےمالک ہیں۔ شاہ شہر کا ایک نامی گرامی فینانسر ہے۔ نکم ایک بہت بڑا سرکاری آفیسر ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرےسےبڑھ کر ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ وہ ایک دوسرےکو کتنا جانتےہیں یا ایک دوسرےکےلئےکتنےاجنبی ہیں ? یہ تو وہ لوگ بھی نہیں بتا سکتے۔ جب ان کےگھر موقع بےموقع کوئی پارٹی ہو تو وہ ایک دوسرےکےگھر جاکر اس بات سےواقف ہوتےہیں کہ ان کےگھر میں کیا کیا نئی چیزیں آئی ہیں ۔ جو اب تک ان کےگھروں میں نہیں آپائی ہیں اور پھر وہ چیز سب سےپہلےلانےکےلئےرسہ کشی شروع ہوجاتی اور کچھ دنوں کےبعد ہر گھر کےلئےوہ چیز عام سی شہ بن جاتی ۔ سیڑھیاں چڑھتےہوئے? سیڑھیاں اترتےہوئےیا لفٹ میں کوئی مل جاتا ہےتو وہ اخلاقاً اس سےبات کرلیتے۔ ان کی خوشیاں تو اجتماعی ہوتی ہیں ۔ ایک دوسرےکی خوشیوں میں سبھی شامل ہوتےہیں ? لیکن ا ن کےغم میں ان کےاپنےہوتےہیں ۔ غموں میں دکھوں میں کوئی بھی کسی کو تسلی دینےبھی نہیں جاتا اپنےدکھ انہیں خود ہی جھیلنےہوتےہیں ۔ وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا تو بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی ۔ نہ تو اس کےگھر والوں نےکسی کو بتایا کہ شاہ کہاں ہےاور نہ اتنےدنوں تک شاہ کی کمی محسوس ہوئی ۔ اگر معلوم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کرلیتے؟ اخلاقاً اسپتال جاکر شاہ کی خیریت پوچھ آتےاور آنےجانےمیں جو قیمتی وقت برباد ہوتا اس کےلئےبھی شاہ کو کوستے۔ اس بات کو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا تھا کہ ہر کسی کا وقت قیمتی ہےاس لئےایک دوسرےکو اپنی ایسی باتوں کا پتہ لگنےہی نہیں دیتےتھے? نہ خبر کرتےتھےجس سےدوسروں کا قیمتی وقت برباد ہو ۔ متل پر حملہ کرکےغنڈوں نےاس کا سوٹ کیس چھین لیا جس میں تقریباً دس لاکھ روپےتھے۔ یہ خبر بھی انہیں دو دن بعد معلوم ہوئی جب انہوں نےاخبار میں اس کےمتعلق پڑھا ۔ دو دنوں تک متل نےبھی کی کو یہ بات بتانےکی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ گپتاجی کا اکسیڈینٹ ہوگیا ? انہیں کافی چوٹیں آئیں ۔ دس دنوں تک وہ اسپتال میں رہےاور انہیں پانچ دنوں بعد گپتا کےساتھ ہونےوالےحادثےکا پتہ چلا ۔ وہ دس منزلہ اونچی عمارت تھی ۔ ہر فلور پر ایک خاندان اور کہیں کہیں دو تین خاندان آباد تھے۔ مگر برسوں بعد پتہ چلتا تھا کہ پانچویں فلور پر کوئی نئی فیملی رہنےکےلئےآئی ہے۔ پانچویں فلور کا سنہا کب فلیٹ چھوڑ گیا معلوم ہی نہیں ہوسکا ۔ ہر کسی کی زندگی ? گھر ، خاندان اور زیادہ سےزیادہ ان کےفلور تک محدود تھی ۔ ا س کےبعد اپنا بزنس دنیا بس اتنی ہی تھی ۔ بس انہی دو نقطوں تک محدود تھی ۔ باہر کی دنیا سےانہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔ اچانک وہ حادثہ ہوگیا ۔ شاہ کےگھر ڈاکہ پڑا ۔ لٹیرےشاہ کا بہت کچھ لوٹ کر لےگئے۔ اس کی بیوی اور بیٹی کا قتل کردیا ۔ شاہ کو مار مار کر ادھ مرا کردیا۔ جس کی وجہ سےوہ کوما میں چلا گیا ۔ دو نوکروں کو بھی مار ڈالا ? واچ مین کو زخمی کردیا اور لفٹ مین کےسر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ پاگل ہوگیا۔ اتنا سب ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ سویرےجب واچ مین کو ہوش آیا تو اس نےشور مچایا کہ رات کچھ لٹیرےآئےتھےاور انہوں نےاسےمار کر زخمی کردیا ۔ لفٹ مین لفٹ میں بےہوش ملا اور شاہ کا گھر کھلا تھا ۔ اندر گئےتو زخمی شاہ اور اس کےخاندان والوں کی لاشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں ۔ تفتیش کےلئےپولس کو بلایا گیا تو پولس کی ایک پوری بٹالین آئی اور اس نےپوری بلڈنگ کو اپنےگھیرےمیں لےلیا ۔پہلےبلڈنگ کےہر فرد کو بلا کر پوچھ تاچھ کی جانےلگی ۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ کیا کررہےتھے؟ اس واقعےکا پتہ آپ کو کب چلا ؟ آپ کےپڑوس میں آپ کی بلڈنگ میں اتنی بڑی واردات ہوگئی اور آپ کو پتہ تک نہ چل سکا ؟ آپ کےشاہ سےکیسےتعلقات تھے؟ کیا کسی نےشاہ کےگھر کی مخبری کی ہے؟ بنا مخبری کےلٹیرےگھر میں گھس کر چوری کرنےکی جرا�?ت کر ہی نہیں سکتے۔ گھر کےبڑےلوگوں سےپوچھ تاچھ کرکےبھی پولس کی تسلی نہیں ہوئی تو ہر گھر میں گھس کر گھر کےہر چھوٹےبڑے، بوڑھےبچے، عورت مرد سےپوچھ تاچھ کرنےلگی اور گھر کی ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کرکےدیکھنےلگی ۔ اس کےبعد بلڈنگ کےہر فرد میں سےایک دو کو پولس چوکی پر بلا کر اسےایک دو گھنٹےپولس چوکی میں بٹھایا جاتا اور اس سےعجیب و غریب سوالات کئےجاتے۔ کبھی کبھی بھیانک شکل و صورت والےچور بدمعاشوں کےسامنےلےجا کر کھڑا کردیا جاتا اور پوچھا جاتا ۔ ? کیا انہیں پہچانتےہو ? انہیں کبھی بلڈنگ کےآس پاس دیکھا ہے؟? کبھی کبھی ان بدمعاشوں کو لےکر پولس خود گھر پہنچ جاتی اور گھر کی عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو انہیں دکھا کر ان سےالٹےسیدھےسوالات کرتی ۔ جب رات وہ آفس سےواپس آتےتو خوفزدہ عورتیں اور بچےانہیں پولس کی آمد کی اطلاع دیتے۔ایک دن پولیس کا ایک دوسرا دستہ دندناتا ہوا بلڈنگ میں گھس آیا اور ہر گھر کی تلاشی لینےلگا۔ ?ہمیں شک ہےکہ اس واردات میں اسی عمارت میں رہنےوالےکسی فرد کا ہاتھ ہےاور چرایاگیا سامان اسی عمارت میں ہےاس لیےہم پوری عمارت کی تلاشی کا وارنٹ لےکر آئےہیں۔? پولیس کےپاس سرچ وارنٹ تھا۔ ہر کوئی بےبس تھا۔ پولیس سرچ کےنام پر ان کا قیمتی سامان توڑپھوڑ رہی تھی اور ہر چیز کےبارےمیں طرح طرح کےسوالات کر رہی تھی۔ تلاشی کےبعد بھی پولیس مطمئن نہیں ہوئی۔ ہر منزل کےایک ایک دو دو آدمی کو بیان لینےکےنام پر پولیس اسٹیشن لےگئی اور بلاوجہ چار چار پانچ پانچ گھنٹےانہیں تھانےمیں بٹھائےرکھا۔ کیا کیا سامان چوری ہوا ہےاس بارےمیں تو پولیش بھی ابھی تک طےنہیں کرپائی تھی۔ اس بارےمیں معلومات دینےوالا شاہ کو ما میں تھا۔ اس کی بیوی ، بیٹی اور نوکر مرچکےتھی۔ دوبیٹےجو الگ رہ رہےتھےاس بارےمیں یقین سےکچھ بتا نہیں پاتےتھی۔ عمارت کےباہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا۔ چارسپاہی ہمیشہ ڈیوٹی پر رہتی۔ رات کو وہ کبھی بھی بیل بجا کر دہشت زدہ کر دیتی۔ دروازہ کھولنےپر صرف اتنا پوچھتی۔ ?سب ٹھیک ہےنا؟? ?ہاں ٹھیک ہی۔? جواب سن کر وہ آگےبڑھ جاتےمگر رات کی میٹھی نیند خراب کردیتی۔ کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا۔ چپ چاپ سب برداشت کرلیتی۔ پولیس اپنا فرض جو ادا کر رہی تھی۔ ہر کوئی اس نئی مصیبت سےپریشان تھا ۔ ہر کوئی عزت دار، رسوخ والا آدمی تھا۔ یہ طےکیا گیا کہ ایک وفد پولیس کمشنر سےبات کرےکہ وہ وہاں سےپولیس کا پہرہ ہٹالی، اور پولیس کو حکم دیں کہ وہ انھیں اس طرح وقت بےوقت تنگ نہ کریں، یعنی نہ انھیں پولیس اسٹیشن لائیں نہ ان کےگھر آئیں۔ سبھی اس کےلئےتیار ہوگئی۔ کیونکہ ان باتوں سےہر کوئی پریشان تھا۔ کمشنر سےملنا اتنا آسان نہیں تھا ، لیکن متل نےکسی طرح انتظام کر ہی دیا انھوں نےاپنےمسائل کمشنر کےسامنےرکھی۔ وہ چپ چاپ ہر کسی کی بات سُنتا رہا۔ جب اس کی باری آئی تو ان پر بھڑک اُٹھا۔ ?آپ شہر کےعزت دار، شریف اور دولت مند لوگ مجھ سےکہہ رہےہیں کہ میں پولیس کےکاموں میں دخل دوں۔ آپ معاملےکی سنگینی کو سمجھتےنہیں پورےچار قتل ہوئےہیں چار قتل۔ اور لٹیرےکیا کیا چرا لےگئےابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا۔ چاروں طرف سےپولیس کی بدنامی ہورہی ہی? الزامات کی بھرمار ہے۔ ہر ایرا غیرا آکر پوچھتا ہےکہ شاہ ڈکیتی کےمعاملےمیں پولیس نےکیا اقدام اٹھائےہیں۔ اور تفتیش کہاں تک پہونچی ہی۔ ہر کسی کو جواب دینا پڑتا ہی۔ اخباروں نےتو معاملےکو اتنا اُچھالاہےکہ وزیرِ اعظم بھی پوچھ رہےہیں کہ شاہ ڈکیتی کےمجرم ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئےہیں۔ اس لیےپولیس اپنےطور پر جو کچھ کررہی ہےیہ اس کا فرض اور طریقہ کار ہی۔ پولیس اپنےطور پر مجرموں تک پہنچنےکی پوری کوشش کررہی ہی، اور آپ کہہ رہےہیں کہ میں پولیس کو اپنا کام کرنےسےروکوں؟ آپ ملک کےعزّت دار، بااخلاق شہری ہیں پولیس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہی۔ اور آپ لوگ پولیس کےکاموں میں دخل دینا چاہتےہیں۔ سوچئےکیا یہ درست ہی؟ میرا آپ کو مشورہ ہےآپ جائیےپولیس کی مدد کیجئےاور پولیس کو اپنےطور پر کام کرنےدیں اس کی تحقیقات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ سب اپنا سا منہ لےکر اپنےاپنےگھر آگئی۔ شام کو پھر بلڈنگ میں پولیس آئی۔ انسپکٹر کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔ ?ہماری شکایت لےکر پولیس کمشنر صاحب کےپاس گئےتھے؟ہم نےتم لوگوں کےساتھ کیا کیا؟ جو تم نےکمشنر سےہماری شکایت کی۔ تم لوگوں کو ہم شریف لوگ سمجھ کر شرافت سےپیش آرہےتھی۔ ورنہ اگر ہم نےپولیس کا اصلی روپ دکھایا تو تم لوگ اپنی زندگی سےپناہ مانگو گی۔ میں اس معاملےمیں سب کو اندر کر سکتا ہوں۔ قانون کو ہاتھ میں لینےکی کوشش مت کرو۔ قانون کےہاتھ بہت لمبےہوتےہیں۔? وہ انسپکٹر کی ان باتوں کا کیا جواب دےسکتےتھی۔ چپ چاپ اس کی باتیں سن گئےاور اپنی بےعزتی سہہ گئی۔ پولیس کی اپنےطور پر تفتیش شروع ہوئی ۔ وہ اس بار پوچھ تاچھ کچھ اس طرح کررہےتھےجیسےعادی مجرموں کےساتھ تفتیش کررہےہوں۔ خون کا گھونٹ پی کر وہ پولیس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے، جہاں ان سےکوئی غلطی ہوتی پولیس والےانھیں گندی گندی ، فحش ، بھدی گالیاں دینےلگتے۔ آدھی رات کو دروازہ، کھٹکھٹا کر گھر میں گھس کر ہر چیز کا جائزہ لینا پولیس کا معمول تھا۔ گیٹ کےپاس کھڑےسپاہی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھتےاور بلاوجہ ہر چیز کی تلاشی لےکر ان کےبارےمیں اُلٹےسیدھےسوالات کرتی۔ بلڈنگ کی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوسناک نظروں سےدیکھتے۔ انھیں دیکھ کرفقرے کستےاور انھیں متوجہ کرنےکےلیےآپس میں فحش باتیں کرنےلگتی۔ فحش کتابیں پڑھتےرہتےاور ان کی گندی تصویروں کو اس انداز میں پکڑےرہتےکہ بلڈنگ کی عورتوں کی نظریں ان پر پڑ جائیں۔ یہ سب جیسےزندگی کا معمول بن گیا تھا۔ رات کےبارہ بج رہےتھی۔ دروازےپر دستک دےکر پولیس جاچکی تھی۔ لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ اسےاندازہ تھا پوری بلڈنگ میں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسی کی طرح جاگ رہا ہوگا۔ بےخوابی کا شکار ہوگا۔ سب کی حالت اس کی سی تھی۔ باربار اس کی نظریں چھت کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔ کیا اس چھت کےنیچےوہ محفوظ ہیں؟ اسی طرح کی ایک جھت کےنیچےشاہ کا خاندان کہاں محفوظ رہ سکا۔ پھر آنکھوں کےسامنےاپنی ٹوٹی چھت کا مکان گھوم جاتا تھا۔ اس چھت کےنیچےسردی میں ٹھٹھرکر، بارش میں بھیگ کر، ہوائوں کےتھپیڑےسہہ کر بھی وہ اپنےگھر والوں کےساتھ گہری میٹھی نیند سوجاتاتھا۔ لیکن اس چھت کےنیچی۔۔۔۔۔!

ll

l اپنی بات

?ٹوٹی چھت کا مکان? میرا پہلا اُردو افسانوں کا مجموعہ ہی۔ میرےدوستوں کو شکایت ہےکہ میرےافسانوں کی کتاب بہت پہلےمنظرِعام پر آجانی چاہئےتھی۔ تاخیرسےہی سہی یہ مجموعہ آپ کےہاتھوں میں پہنچاتےہوئےبےحد مُسرت ہورہی ہی۔گذشتہ دو دہائیوں میں میں نےفنِ افسانہ کی باریکیوں کا بغور مطالعہ کرکےاپنےافسانوں کو اس فن کی کسوٹی پر پرکھنےکی کوشش کی ہی۔ لیکن میں بالآخر اس نتیجےپر پہنچا ہوں کہ افسانہ ادب کی ایک ایسی صنف ہےجس کو نہ تو اُصولوں کےحصار میں قید کیا جاسکتا ہےاور نہ ہی اسےمروّجہ اُصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہی۔ افسانہ میں گذرتےوقت کےساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ گذرا ہوا ہر لمحہ افسانےکےلیےنئےموضوعات اصلاحات، تجربات ، تکنیک ، ساخت اور ہیت دےکر آگےبڑھ جاتا ہی۔ اور ایک کامیاب افسانہ وہی ہوتا ہےجو ہر تبدیلی کےزیرِاثر لکھا گیا ہو۔ افسانہ ہر دور میں نئےنئےتجربات اور مسائل سےدوچار رہا ہی۔ کبھی رومانی تحریک کےزیرِ اثر تو کبھی ترقی پسند تحریک کےنعروں کےزیرِ اثر، تو کبھی جدیدیت کےگورکھ دھندےکےزیرِ میں افسانہ کبھی خوبصورت الفاظوں کی ترتیب اور لفاظی کی سعی رہا تو کبھی کبھی علامتوں اور اساطیر کا مسحور ہوکر ابہام کا شکار ہوگیا۔ جس طرح ہر دور میں افسانےکےسامنےنئےچیلنج رہے? آج کےدور میں بھی افسانےکو اسی طرح کےکئی مسائل اور مصائب کا سامنا ہی۔ ہر دور میں کامیاب افسانہ وہی رہا ہےجس میں اس دور کی عکاسی جھلکتی ہو، کیونکہ جن افسانوں میں اس دور کی عکاسی کی گئی بعد میں وہ افسانےادبی، انسانی، تہذیبی تاریخ کےلیےحوالوں کی طرح کام آئی۔ ہر دور میں انسانوں میں انسانی زندگی، انسانی مسائل، تہذیب و تمدن اس کےانحطاط اور نشاة الثانیہ کی عکاسی کی تھی۔ اس کتاب میں جو افسانےشامل ہیں وہ گذشتہ دس پندرہ سالوں میں لکھےگئےہیں۔ اس ایک دہائی میں ملک میں جو نمایاں ادبی ، لسانی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں ? آپ کو ان کی ایک ہلکی سی جھلک ان میں دیکھنےکو ملےگی۔ ناقدین بھلےہی کسی واقعہ سےمتاثر ہو کر لکھی گئی تحریر کو ?خبر? اور رپورٹنگ کا درجہ دیں۔ لیکن میری نظر میں اگر اس واقعہ کو اس کےاثرات پر غور وفکر کرکےلکھا جائےتو وہ افسانہ، افسانےکےفن کا صحیح حق ادا کرتا ہی۔ گذشتہ ایک دہائی میں میں نےشہری زندگی ، یہاں کےمسائل ، گہماگہمی ، چہل پہل اور بھاگ دوڑ کو کافی قریب سےدیکھاہی۔اور میں نےاسی کی عکاسی ان افسانوں میں کرنےکی کوشش کی ہی۔ممکن ہےجو لوگ اس ماحول میں رہتےہیںانھیں ان افسانوں میں نیاپن نظر نہ آئی۔ لیکن جو لوگ اس ماحول اور یہاں کےمسائل اور حالات سےنا آشنا ہیں ان کو نیاپن ضرور محسوس ہوگا۔ اس مجموعہ کی اشاعت میں میرےدوست مظہر سلیم نےجو نمایاں رول ادا کیا اس کےلیےان کا شکریہ ادا کرنا میں اپنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہوںاور ساتھ ہی ساتھ م ۔ناگ کا بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نےمیرےاس مجموعہ پر دیباچہ لکھا۔اس کےعلاوہ مقصود اظہر ، رو�?ف صادق ، جاوید ندیم اور بھیونڈی کےدوستوں کا بھی تہہ دل سےشکر گذار ہوں ۔ ll

== ==


ایم مبین 303 کلاسک پلازہ،تین بتی

بھیونڈی ضلع تھانہ ، (مہاراشٹر) ۔فون : ۔ 56477 Email : mmubin123@gmail.com



Contact:-


M.Mubin

http://adabnama.tripod.com

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421302

Dist.Thane ( Maharashtra,India)

Phone;-(02522)256477

Mob;-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com

وکی سورس[ترمیم]

اسلام علیکم، اگر آپ افسانے یا کہانیاں لکھنا چاہ رہے ہیں، اور یہ "پبلک ڈومین" ہیں، تو آپ سے درخواست ہے کہ یہ Category:wikisource زمرہ میں ڈال دیں۔ وکی سورس [1] [2]

صارف کے صفحے پر یہ مناسب نہیں۔

--Urdutext 00:05, 28 جولا‎ئی 2006 (UTC)