تبادلۂ خیال صارف:Pervezazmi

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

== جدید شاعری کا ایک منفرد اسلوب: اخترؔالایمان ==⟨⟩

بیسویں صدی کے نصف اول میں اردوشاعری کے دو اہم دھارے تھے۔ اول کا نام ’’ترقی پسند تحریک ‘‘تھا، جو اس وقت سب سے زیادہ مقبول اورمتحرک تھی۔ یہ جماعت زیادہ تر مارکسی خیالات کے حامی لوگوں کی تھی اور یہاں انہیں خیالات کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔دوم جماعت میں وہ شعرأ تھے، جو ترقی پسند تحریک کی جکڑ بندیوں و پابندیوں کے خلاف تھے ۔ اس جماعت کو ’’ حلقۂ ارباب ذوق ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جماعت ماہرِ نفسیات فرائڈ کے علاوہ دیگر یورپی تخلیق کاروں کے خیالات سے بھی متاثر تھی۔ یہ لوگ شعر و شاعری کے لیے کسی بھی طرح کی پابندی کے سخت خلاف تھے۔ اول جماعت نے جہاں خارجی مضامین باندھنے اور ادب برائے زندگی کو پروان چڑھانے کی کوششیں کیں تووہیں دوسری جماعت نے داخلی شاعری کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ اس طرح یہ دونوں جماعتیں دو الگ الگ سمتوں کی طرف رخ کر گئیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں بلکہ انتہا پر بھی تھیں۔اسی عہد میں ایک شاعر ایسا بھی تھا،جس پران دونوں جماعتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے اپنا نصب العین خود طئے کیا۔ اس نے ان دونوں گروہوں سے دور رہ کراردو شاعری کو ایک نئی جہت سے ہم کنار کیا، جسے آگے چل کر تیسری جہت کا نام دیا گیا۔ اردوشاعری کی تاریخ میں اخترؔالایمان ایک ایسا نام ہے، جو اپنی طرز کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی۔ اردومیں اس اعتبار سے اخترؔالایمان یگانہ و یکتا ہیں کہ انہوں نے پابند ہیئتوں کی کبھی پابندی نہیں کی۔ ان کی نظموں میں بند یا شعر کے بجائے تسلسل پایا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں بارہا یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مصرعوں کی تعداد طاق ہے، جو کہ اردو شاعری کے مزاج اورروایت سے بالکل الگ ہے۔ وہ اپنے تخیل کو لفظوں کے پیرائے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں اور جہاں بات ختم ہو جاتی ہے ، وہیں قلم رک جاتا ہے۔ ہیئت کے معاملے میں بھی انہوں نے اپنی راہ خود متعین کی ،جس سے آگے چل کر اردو نظم گوئی کی تاریخ میں ایک نئی راہ کی داغ بیل پڑی۔ ان کے تمام ترشعری مجموعوں اور کلیات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے مروجہ ہیئتوں کی کہیں بھی پابندی نہیں کی ہے۔ وہ اپنی بات کہتے چلے گئے ہیں اور جہاں بات ختم ہو گئی، وہیں نظم کا اختتام کر دیا۔انہوں نے زیادہ ترنظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے پیرائے ہی میں اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی کی ہے۔ انیس سو پچاس ( ۱۹۵۰)عیسوی کے بعد کی اُردو شاعری کو میر اؔجی نے سب سے زیادہ متا ثر کیا ہے ۔ ان کے

فن کے طریقۂ کار اورہیئتی تجر بوں کے باعث متاخرین شعرأنے ان سے بھر پورفائدہ اٹھایا ۔ اس عہد میں مقبول ہو نے والے شاعروں میں اخترؔ الا یمان، مجید امجد ، منیب الرحمن او رعز یز حامد وغیرہ ہیں ،جن میں اخترؔ الا یمان اورمجید امجد ملک کے ذبیحے سے پہلے ہی اپنا ایک مقا م قائم کر چکے تھے لیکن انہیں ان کے غیر نظر یاتی رویوں کے سبب آزادی کے بعد مقبو لیت نصیب ہو ئی ۔ اخترؔ الایمان کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے اور نظم نگاری کا ایک خاص انداز بھی جو تمام اردو شعرأ سے انہیں ممتاز بناتا ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کی کیفیت اور ابتدائی مصرعوں کو بیچ بیچ میں دوہرا کر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی ،ان کا اپنا ایک خاص انداز ہے۔ ان کی نظم نگاری کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان ہی رہ کر اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔  وہ اپنے مافی الضمیر کو بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم ان کی نظموں کی خصوصیات کے اعتبار سے مختلف عنوانات قائم کرتے ہوئے ان کی نظم نگاری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

-:خود کلامی شاعری کی تین جہتیں ہو سکتی ہیں ۔ اول جہت وہ ہے، جسے خو د کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے اورجس میں شاعر کا تخاطب خو د سے ہو تا ہے یعنی شاعر اس جہت میں اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا معلوم ہو تا ہے ۔ یا کبھی کبھی وہ اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو الگ الگ تسلیم کرتے ہوئے خود سے گفتگو کرتے ہوئےنظر آتا ہے۔ مثلاً ضعف بہت ہے میر ؔ تمہیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ صبر کر و کچھ اور بھی صاحب! طا قت جی میں آنے دو ( میرؔ )

خود کلامی یعنی اپنے آپ سے باتیں کرنے کی کیفیت اس شعر میں ملاحظہ کیجیے

مو ت کا ایک دن معین ہے خود کلامی نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

او پر درج کیے گئے اشعار میں شاعر کا تخاطب کسی او رسے نہیں بلکہ خو د اپنی ذات سے ہے ،اس طرح  کی شاعری کو عموماً خود کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اخترؔالایمان کی بیشتر نظموں میں اسی طرح کی خود کلامی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو اسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً 

اب ارادہ ہےکہ پتھر کے صنم پو جوں گا تا کہ گھبر اؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں ایسے انسانوں سے پتھر کے صنم اچھے ہیں جن کے قدموں پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں او روہ میری محبت پہ کبھی ہنس نہ سکےں میں بھی بے رنگ نگا ہوں کی شکا یت نہ کروں یاکہیں گوشۂ اہرام کے سناٹے میں جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں ہرزمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا اب تو اتنے ہیں کہ حیران ہوں، کس کو پوجوں؟ (تنہائی میں) :شاعری کی دوم جہت وہ ہے،جس میں شاعر براہِ راست دوسروں سے مخاطب معلوم ہو تا ہے ۔جیسے

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کا خِ امرٔا کے در و دیوار ہلا دو

(اقبالؔ)

تیسری جہت وہ ہے ،جس میں شاعر کا تخاطب نہ ہی اپنے آپ سے ہو تا ہے او رنہ ہی کسی اور سے۔ یہاں تخلیق کار کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ اس نے دنیا کو جیسے او رجس طرح دیکھا ہے ، اسے ، اسی طرح پیش کر دے او ر بس ۔اس تیسری جہت کی شاعری کی بہترین مثال اخترؔ الا یمان کی شاعری ہے ۔ یہاں ہمیں ایک بات کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ اختر ؔالا یمان نے اپنا لب و لہجہ اوراپنی خاص پہچان اس وقت بر قرار رکھا، جب کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک کے زیر اثر خطیبا نہ شاعری او ردوسری طرف حلقۂ اربابِ ذوق کے زیر اثر ایسی شاعری فروغ پارہی تھی ، جسے ذات کی طرف واپسی کانام دیا جا رہا تھا ۔ ان دونوں انتہا ؤں کے بیچ سے اخترؔالایمان نے اپنی راہ نکالی او راس خو بی سے نکا لی کہ ذات کے عرفان سے کائنات کو پہچا ننے کا سفر شروع کیا ۔مثال کے طور پر اختر ؔالا یمان کی مشہور زمانہ نظم ’’ ایک لڑ کا ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’عمر گریزاں کے نام ‘‘ ،’’دعا‘‘ اور’’ میر ناصر حسین ‘‘ کانام لیا جاسکتا ہے ۔ عمر یوں مجھ سے گریز اں ہے کہ ہر گام پہ میں

اس کے دامن سے لپٹتا ہوں منا تا ہوں اسے

واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا

داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے

خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو

زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے

صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں

اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں 

یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ ایک معرّیٰ نظم ہے ، جس میں شاعر کا تخاطب بظا ہر تو اپنی ذات سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا اشا رہ دورِ حاضر کے ہماہمی کے مارے ہوئے انسان سے ہے ، جس کے پاس حسرت ویاس تو ہے پروقت نہیں ۔ یہ نظم آج کے مصروف تر ین انسان کی زندگی کی عکاس ہے ،جس کا لطف مکمل نظم کے مطا لعے سے ہی ممکن ہے۔اخترؔ الا یمان کی ابتدائی نظمیں غنا ئی او رنیم غنا ئی کیفیت کی حا مل ہیں ۔ انہوں نے زیادہ تر آزاد، معرّا اور بیانیہ نظمیں ہی کہی ہیں۔ فلیش بیک کی تکنیک، نظم کی ہیئت ان کے یہاں دیگر شعرأ کے مقابلے اپنا الگ رنگ اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے نظم اور نثر کی وسعتوں میں نئے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی اوراس میں وہ کامیاب بھی رہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں نثری نظم کے امکانات بھی دیکھنے کوملتے ہیں۔ اخترؔالایمان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خیال کے اعتبار سے لفظوں کا انتخاب کیا اور انہیں ایک شکل عطا کر دی ۔ اپنی اکثر نظموں میں وہ اپنے آپ کو ایک کر دار کی حیثیت سے بھی پیش کرتے ہیں ،جو کہ اردو میں پہلا تجربہ ہے ۔ اپنی نظموں میں اخترؔالایمان نے ماضی کے دھندلکے کو چیر کر دیکھنے کی کوشش کی ہے ، جسے پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے حال کو ملانے کے لیے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک کااستعمال اخترؔالایمان کی طویل نظموں میں اکثردیکھنے کوملتا ہے۔فلیش بیک کی مثال پیش کرنے سے پہلے اگر اس کی تعریف سمجھ لی جائے تو بہتر ہوگا۔ فلیش بیک کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر کلیم الدین احمد ’’فرہنگ ادبی اصطلاحات‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:’’کسی فلم ، ناول، افسانہ یا ڈرامے میں ایسے سین(مناظر) کو پیش کرنا جس میں ماضی کے واقعات ہوں۔یہ ترکیب فلموں میں استعمال ہوتی ہے۔۔۔لیکن ادب میں بھی یہ موثر ہوتی ہے۔۔۔‘‘(فرہنگ ادبی اصطلاحات، ص۔87) یہاں یہ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صرف ماضی کے واقعات کو بیان کردینا ہی فلیش بیک کی تکنیک نہیں ہے بلکہ جب شاعر کسی واقعے یا قصے کا ذکر اپنی تخلیقات میں کرتا ہے ، جس کا تعلق حال یاماضی کے کسی خاص واقعے سے ہو اور ذکر کرتے کرتے وہ ماضی کے کسی واقعے کو من و عن دہراتا چلا جائے اور پھر اچانک چونک کر یا کسی کے یاد دلانے سے وہ پھر حال میں واپس آئے تواسے فلیش بیک کی تکنیک کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تخلیق کار اپنے تخیل کا سہارا لے کرحال سے ماضی یا ماضی قریب کے کسی اہم واقعے کو یاد کرتے ہوئے، اس واقعے میں گم ہو جائے جیسے کہ کوئی محوخواب ہو اور اچانک کسی کے پکارنے یاخواب کے ٹوٹنے سے وہ پھر واپس اپنی پہلی کیفیت میں آجائے تو ہم اسے فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا نام دیتے ہیں۔ اخترؔالایمان کی طویل نظموں مثلاً: ’’ ایک لڑکا‘‘ ، ’’عمر گریزاں کے نام‘‘، ’’باز آمد: ایک منتاج‘‘،’’ پگڈنڈی‘‘،’’ قبر‘‘،’’ پرانی فصیل‘‘اور’’ سبزۂ بیگانہ‘‘ وغیرہ میں ہمیں فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا احساس ہوتا ہے لیکن ان نظموں میں صرف یادیں ہی یادیں ہیں، ان میں فلیش بیک کی تکنیک نظرنہیں آتی ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک کو واضح کرنے کے لیے ہم یہاں ’’ پسِ دیوارِ چمن‘‘ سے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے خد و خال پوری طرح اجاگر ہوجائیں۔ پھر چلی سوئے چمن زلفوں کو شانہ کرتی اس تغافل سے کہ جیسے پئے گلگشت کوئ یوں ہی جاتا ہو کوئی ملنے کا ارمان نہ ہو اپنے سائے کے سوا اور سے پہچان نہ ہو بدرقہ بوئے گلِ تر تھی کہیں بادِ نسیم وہ ہی وہ فرش پہ تھی عرش پہ تھا ربِّ کریم لہلہاتا ہوا سبزہ تھا ندی سہج خرام چال ایسی کہ نہیں جس کا کہیں کوئی بھی نام عنبر و مشک کااک قافلہ تھا زلف کا بار یا کوئی ابرِ رواں دوشِ ہوا پر تھا سوار پھوٗل بوٗٹے ہمہ تن گوش تھے کچھ منہ سے کہے خاک لپٹی چلی جاتی تھی قدم تھامے ہوئے راہ میں کتنی جگہ شاخوں نے دامن پکڑا بارہا شانہ سے بے دھیانی میں آنچل ڈھلکا شاخ سی لچکی، تخیل سی رکی،اٹھلائی ہر قدم پر نئے انداز سے ٹھوکر کھائی میں وہاں گوش بر آواز جو بیٹھا تھا ، اٹھا اور اسے لینے کو آغوش میں جیسے ہی بڑھا پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر یوں ہی بیٹھا رہا ، دیکھا کیا ہوتے تحلیل پل کو گھڑیوں میں، دنوں سالوں میں، لمحاتِ جمیل

زخم بنتے گئے، ناسور بنے، اشک بنے

ہم جو اک گردشِ پرکار تھے، ویسے ہی رہے! ناچتا رہتا ہے آگے سحر و شام یوں ہی لوحِ تدبیر پہ لکھا ہوا اک حرف ’’نہیں‘‘

مذکورہ مثال سے فلیش بیک کی تکنیک کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ’’پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر،اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر‘‘سے فلیش بیک کی تکنیک مکمل طور سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اخترالایمان کے یہاں ماضی اور حال کے واقعات کا ذکر بار بار آتا ہے، اس لیے انہوں نے اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کو کارگر طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اخترؔالایمان کا تعلق کسی خاص جماعت یا تنظیم سے نہیں تھا۔ ہر چند کہ ان کا تعلق اس عہد سے ہے، جسے ترقی پسند تحریک کا اصل عہد کہا جا تا ہے۔ساتھ ہی حلقۂ ارباب ذوق کے عروج کا زمانہ بھی وہی ہے۔ اس کے باوجودانہوں نے اپنے لیے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا اور اسی پر چلتے رہے اور آخر کار زمانے نے ان کی اس نئی راہ کو تسلیم کر لیا۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا، جن چیزوں کا مشاہدہ کیا یا جن سے ان کا سابقہ پڑا، اس کے بارے میں اپنے مافی الضمیرکی ادائگی، محسوسات اور نظریات کی تفصیل اپنی مختلف تخلیقات میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے ذہنی رویوں، طبقاتی کشمکش، سماجی سروکار اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ سوچتے تھے، ان کی بابت، اپنی شاعری اور شاعری سے متعلق اپنے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب سے شاعری پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے مجھے یہ احساس ہوا کہ ہماری شاعری چند چیزوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ان میں سے ایک رومانیت ہے دوسری غزل یاغالباً رومانیت پوری شاعری پر حاوی ہے اس لئے ہے کہ ہم غزل سے نکل کر نہیں جا سکتے۔غزل کا میدان بہت محدود ہے کسی بھی موضوع کو واضح طور پر بیان کرنے کیلئے دو مصرعے کافی نہیں ہوتے۔ اس حد بندی سے نقصان یہ ہوا نئے نئے موضوعات اور ہیئت کے تجربے نہیں کئے جا سکے اور شاعری میں وہ پھیلاؤنہیں آسکا جو زندگی میں ہے۔ غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ صرف اس کی طرف اشارے کر سکتی ہے اور کسی موضوع کی طرف اشارہ کافی نہیں ہوتا۔‘‘(ص10-11 ، پیش لفظ، یادیں) اس اقتباس سے اخترؔالایمان کے نظریات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نظموں کی شاعری کو ہی اپنے لیے کیوں منتخب کیا۔ حالاں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن جیسا کہ اقتباس سے ظاہر ہے کہ دو مصرعے کسی خیال کو قلم بند کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ غالباً جب سے انہوں نے اس بات کو محسوس کیا ، اس کے بعد پھر کبھی غزلوں کی طرف توجہ نہیں کی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، اخترؔالایمان کاتعلق اس عہد سے ہے، جب ایک طرف’’ ترقی پسند تحریک‘‘ کا ڈنکا بج رہا تھا تو دوسری طرف ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ کا بول بالا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے جڑے لوگ ایک خاص طرح کے نظریاتی ادب کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے توحلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ تخلیق کار، تخلیق پر کسی بھی طرح کی نظریاتی پابندی کو شاعر کے جذبات کے مغائر تسلیم کرتے تھے۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ سے اخترؔالایمان نے اپنا راستہ خود نکالا اوراس خوبی سے نکالا کہ اپنی راہ کے خود ہی موجد بھی بنے اور خاتم بھی۔حالاں کہ اس راہ پر چلنے میں انہیں دقتیں بھی پیش آئیں لیکن ان کے قدم اس راہ پرآگے بڑھتے ہی رہے۔ شروع میں توان کی کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی لیکن آج کا ناقد ان کی شاعری کومنفرد اسلوب یا تیسری جہت کی شاعری کا نام دیتے ہوئے یہ تسلیم کرتا ہے کہ انہوں نے اردو نظم نگاری کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ اپنی راہ کے ایسے مسافر ہیں کہ ان کے بعد کوئی دوسرا مسافر آج تک اس راہ پر چلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ نظم معرّیٰ اور آزاد نظم (ہیئت اور فنی خصوصیات) پچھلے صفحات میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ اخترؔالایمان نے اپنی اکثر و بیشتر نظمیں نظم معرّی کی ہیئت میں تخلیق کی ہیں۔ اس لیے یہاں نظم معرّی کی ہیئت اور فنی خصوصیات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ نظم معرّیٰ کو انگریزی میں بلینک ورس کہتے ہیں اور یہ صنف اردو میں انگریزی کے توسط ہی سے متعارف ہوئی ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے اگر اس نظم کو دیکھا جائے تو اس کے تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں ۔اس میں ردیف اور قافیہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح آزاد نظم کو انگریزی میں فری ورس کہتے ہیں اور یہ صنف بھی اردو میں انگریزی ہی کے توسط سے آئی ہے۔ نظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے فرق کو تمیز کرنے میں اکثر طلبا دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آزاد نظم میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں لیکن نظم معرّیٰ میں تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ وزن کا اہتمام دونوں ہی میں کیا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نظم معرّیٰ میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے وہ پوری نظم میں یکساں طور سے استعمال کی جاتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے آزاد نظم میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے ، اس کے لیے یہ اہتمام ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بحرِ رجز: مسدس سالم الارکان کو اگر لیا جائے تو اس کا وزن ہے: مستفعلن مستفعلن مستفعلن۔ اب اگر شاعر معرّیٰ نظم لکھ رہا ہے تو ہر مصرعے میں تینوں ارکان کی پابندی لازم ہوگی۔اس کے مقابلے شاعر اگر آزاد نظم تخلیق کر رہا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کبھی تینوں ارکان ،کبھی دو اور کبھی ایک کا استعمال کر سکتا ہے اور اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وہ سالم رکن کی بجائے مزاحف ارکان کا استعمال اس طرح کرے کہ روانی متاثر نہ ہو۔ نظم معرّی کی مثال کے لیے اس مضمون میں شامل نظم ’’عمر گریزاں کے نام‘‘ یا ’’ پسِ دیوارِ چمن‘‘ کو ملاحظہ فرمائیں ۔ -:علامتی نظم نگاری اخترؔ الا یمان کے یہاں سماجی او رمعاشرتی مسا ئل سے گہری دلچسپی پائی جاتی ہے ۔ وہ اپنے مافی الضمیرکو علامتوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہنا تے ہیں ۔ اپنے خیالات کی تر سیل کے لیے وہ جس طرح علامتوں کا استعمال کر تے ہیں ، وہ بھی خاصے کی چیز ہوتی ہے ۔ ان کی اس طرح کی علامتی نظموں کو سمجھنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے لیکن ذراسی ہی دیر لگتی ہے ۔ مثال کے طور پر ان کی ایک نظم ’’تنہا ئی میں ‘‘ ملاحظہ ہو: دور تالاب کے نزدیک وہ سوکھی سی ببول چند ٹوٹے ہوئے ویران مکانوں سے پرے ہاتھ پھیلائے برہنہ سی کھڑی ہے خاموش جیسے غربت میں مسافر کو سہارانہ ملے

اس کے پیچھے سے جھجھکتا ہوا اک گول ساچاند

اُبھرا بے نور شعاعوں کے سفینے کو لیے اور پرسوز دھندلکے سے وہی گول سا چاند اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا ابھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا

جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا

ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول سوچتی ہوگی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا

آئینہ بن کے شب و روز تکا کرتا ہے 

کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا؟ یوں گزارے سے گزر جائیں گے دن اپنے بھی

پر یہ حسرت ہی رہے گی کہ گزارے نہ گئے

زیربحث نظم میں ’’تالاب ‘‘ او ر’’ببول‘‘ کو علامت کے طو رپر استعمال کیا گیا ہے او ر بار بار انہیں دہرا کر شاعر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کر نے کی کو شش بھی کر رہا ہے ۔ ’’ببول‘‘ اجڑی ہو ئی ، بے برگ و بار اور افسر دہ زندگی کی علامت ہے تو ’’تالاب‘‘ امیر ی اور سرمائے کی علامت ۔ اس تالاب میں باہر سے پانی آ تو سکتا ہے مگر جانہیں سکتا ۔خواہ سڑے یا گلے یا پھر اس میں کیڑے پیدا ہو جائیں، جو ہماری زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو ں ۔ یہ ایک طویل نظم ہے، جس کا لطف پڑ ھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اختر ؔالا یمان کی نظموں کا بیشتر حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے او رعلامتی شاعری سیدھی سادھی شاعری سے ذراسی مختلف ہو تی ہے ۔ ایسے شاعر کے یہاں جو کہ علامتی شاعری کرتا ہو ، اس کے پاس مستقبل کا کوئی خواب نہیں ہو تا ۔ اس کاتمام سر مایہ ماضی اورحال کے واقعات و تجر بات کا مر ہونِ منت ہو تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اختر ؔالا یمان کو ’’اقدار کا شاعر ‘‘ کہاجاتاہے۔ کیوں کہ اقدار کا تعلق مستقبل سے نہیں ماضی او رحال سے ہو تا ہے اور اسی اقدار سے وابستگی کے سبب وہ روایت پسند بھی ہیں او رجدت پسند بھی ۔ اس مو قع پر ان کی نظم ’’ ایک لڑ کا ‘‘ کا ذکر ضروری معلو م ہو تا ہے، جس سے ہمیں ان کے ماضی او رحال کے رشتے کے تانے بانے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ مجھے اک لڑ کا ، آوارہ منش، آزاد سیلانی مجھے اک لڑ کا ، جیسے تند چشموں کا رواں پانی

نظر آتا ہے ، یو ں لگتا ہے ، جیسے یہ بلا ئے جاں
مر ا ہمزاد ہے ، ہر گام پر ، ہر موڑ پر جو لا ں
اسے ہمراہ پاتا ہوں ، یہ سا ئے کی طرح میرا
تعا قب کر رہا ہے ، جیسے میں مفرور ملز م ہوں
یہ مجھ سے پو چھتا ہے اخترؔ الا یمان تم ہی ہو ؟

یہ لڑ کا پو چھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں

وہ آشفتہ مز اج ، اندوہ پرور، اضطراب آسا 

جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں! میں اس لڑ کے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے کبھی چا ہا تھا اک خاشاکِ عالم پھو نک ڈالے گا

یہ لڑ کا مسکر ا تا ہے ، یہ آہستہ سے کہتا ہے 

یہ کذب و افترا ہے ، جھو ٹ ہے ، دیکھو میں زندہ ہوں !

اس نظم سے یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ شا عر اپنے دل اور دماغ کو الگ الگ کر کے ماضی میں جھا نکنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ساتھ ہی اپنا محاسبہ کر نا چا ہتا ہے کہ وہ نوجو ان جو اس کے اندر موجود تھااور جس میں امنگیں ہی اُمنگیں ، جو ش اور ولولے تھے کہ ’’اک خاشاکِ عالم پھو نک ڈالے گا ‘‘ وہ نوجوان کیا ہوا ؟ آج وہ کہاں ہے ؟ کہنے کو تو زندہ ہے مگر وہ خواب ،جو اس نے اپنی جوانی یا عالمِ عنفوانِ شباب میں دیکھے تھے ۔ کیا وہ شر مند ۂ تعبیر ہو ئے ؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ یہی عالم اخترؔ الا یمان کی زیا دہ تر نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مثلاً ’’ریت کے محل ‘‘ ،’’قلوبطرہ‘‘، ’’خاک و خون‘‘اور ’’ایک سوال ‘‘ وغیرہ کو خاص طورسے اس سلسلے میں یاد کیا جاسکتا ہے ۔

اس مختصر مطا لعے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اخترؔ الا یمان نے جس طرح ماضی اورحال کو اپنی نظموں میں بر تا ہے اور جس طرح سے’’ فلیش بیک‘‘ ، ’’بیانیہ‘‘ اور ’’علامتی‘‘ شاعری کے ذریعے اپنے ما فی الضمیرکو ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ انہیں کا خا صہ ہے ۔ ان کی طویل نظموں میں ابتدائی مصرعوں کو نظم کے بیچ بیچ میں دوہرا کر ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی ایک خصوصی چیز ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ افسانوی تکنیک کا بھی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، جس سے اردو نظم کے مستقبل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اردو نظم کو یہی اخترؔ الایمان کی دین ہے اور بس۔ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے اردو میں نثری نظم کے امکانات روشن نظر آنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے انہیں جدیدشاعری کے منفرد اسلوب کا شاعر کہنے کی جرأت کی ہے ۔ کتابیات سر و ساماں، اخترؔالایمان، رخشندہ کتاب گھر، بمبئی، 1983 کُلّیاتِ اخترؔالایمان،بیدار بخت(مرتَّب)، ایجوکیشنل پبلِشنگ ہاؤس، دہلی، 2000 یادیں، اخترؔالایمان، پنجابی پستک بھنڈار، دریباں کلاں، دہلی، 1963

آبِ جو،  اخترؔالایمان، نیا ادارہ، لاہور،1959

تاریخِ ادب اردو(عہدِ میر سے ترقی پسند تحریک تک) جلد چہارم، سیدہ جعفر، لنگر حوض، حیدرآباد، 2002

اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،1988

ایوانِ اردو (اخترؔالایمان نمبر)، اردو اکادمی، دہلی،اپریل 1996

 فرہنگ ادبی اصطلاحات، پروفیسر کلیم الدین احمد، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،1986

۔ اخترالایمان: ایک مطالعہ، ڈاکٹر رضی احمد، (مقالہ )،جے این یو،دہلی، 2003

Pervez Ahmed Azmi