تبادلۂ خیال صارف:Shehzad iqbal

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خوش آمدید!

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب Shehzad iqbal کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 205,245 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


--ساجد امجد ساجد (تبادلۂ خیال) 11:51, 3 جون 2012 (UTC)

غزوبدر[ترمیم]

غزوہ بدر کا عظیم الشان معرکہ سترہ رمضان المبارک بروز جمعہ سن ۲ ھجری کی صبح پیش آیا جس میں اللہ رب العزت نے کافروں کو ذلت آمیز شکست اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایااس معرکے میں کافروں کے بڑے بڑے روساء ہلاک ہوئے ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ اور کافروں کی تعداد ایک ہزار تھی اور اس لڑائی میں ہر تین مسلمان ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ (صحیح
مسلم)۔
صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کئی صحابہ سے روایت کرتے ہیں اس غزوے میں مسلمانوں کی تعدادطالوت کے اس لشکر کے برابر تھی جنھوں نے (شرط پوری کرکے )نہر پار کی ۔
غزوہ بدر کے اہم واقعات
مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بن عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اس نے ابطح میں کھڑے ہوکر اعلان کیا اے آل غدر تین دن میں اپنے قتل ہونے کی جگہ کی طرف نکلو۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے پھر وہ اپنا اونٹ لے کر مسجد حرام کی طرف چلا گیااور پھر اس نے وہاں کعبہ کی چھت پہ کھڑے ہوکر یہی اعلان کیاپھر وہ جبل ابی قیس پر چڑھا گیا اور وہاں سے وہی آواز لگائی اور اوپر سے اس نے ایک چٹان پھینکی جب وہ چٹان نیچے پہنچی تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور مکہ کے کوئی
گھر ایسا نہ تھا جس میں کوئی ٹکڑا نہ گرا ہو۔
عاتکہ نے اپنے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ خواب بتایااور کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تمھاری قوم پہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے پر تم اس کا کسی سے تذکرہ نہیں کرنا۔ حضرت عباس نے یہ خواب اپنے قریبی دوست ولید بن عتبہ کوبتا دیااور اسے بھی یہ خواب خفیہ رکھنے کی ہدایت کی مگر ولید نے یہ خواب اپنے باپ کو سنا یا اور یوں یہ خواب پورے مکے میں مشہور ہوگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسجد حرام گئے تو ابوجہل نے انھیں طنزا کہا کہ ابوالفضل تمھارے مرد تو نبوت کا دعوی کرتے تھے اب تمھاری عورتیں بھی اس کا دعوی کرنے لگ گئی ہیں۔ حضرت عباس نے پوچھا کہ کیا ہوا تو اس نے حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کا خواب بیان کیا اور کہا کہ اگر تین دن میںیہ خواب سچا نہ نکلا تو ہم لکھ کر لگا دیں گے کہ تمھارا گھرانہ عرب کا سب سے جھوٹا گھرانا ہے ابو جہل نے اس خواب کو لے کر حضرت عباس اور آ پ کے گھرانے کو خوب بدنام کیاتو تیسرے دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس کا علاج کرنے نکلے مگر جب آپ مسجد حرام پہنچے تو ابو جہل تیزی سے باہر نکل رہا تھاکیوں کہ اس نے ضمضم بن عمر و غفاری کی آواز سن لی تھی وہ اپنے اونٹ پہ کھڑا ہوا تھااس نے اپنے کپڑے پھاڑ رکھے تھے اور اپنے اونٹ کی ناک کاٹ رکھی تھی اور کجاوہ الٹا پہن رکھا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اے قریش والو اپنے قافلے کی خبر لوتمھارے اموال ابو سفیان کے قافلے میں ہیں اور محمد اور اس کے ساتھیوں نے اس پہ حملہ کردیا ہے بھاگو جلدی کرو مدد کو پہنچو، یہ سنتے ہی لوگ جلدی جلدی تیاری کرنے لگے اور کہنے لگے کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اسے ابن الحضرمی کا قافلہ سمجھ لیا ہے ہرگز نہیں اب وہ کچھ اور دیکھیں گے ۔ اہل مکہ میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جو خود نہ نکلا ہو یا اپنی جگہ کسی کو
نہ بھیجا ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ستر اونٹوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے ہر اونٹ پر تین آدمی باری باری سواری کرتے تھے راستے میں آپ کو قریش کے لشکر کی اطلاع ملی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع دی اور ان کو مشورے کے لیئے جمع فرمایا سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایاپھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایا۔اس کے بعد حضرت مقداد بن اسود کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اے اللہ کے رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ اللہ پاک نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے آپ اس کو سرانجام دیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ اے موسی تم اور تمھارا رب جاکر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔لیکن ہم تو یوں کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب قتال کریں ہم بھی قتال کریں گے اگر آپ ہمیں برک الغماد(نامی مقام ) تک لے کرجائیں گے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لیئے تیار ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کی تعریف فرمائی اور انھیں دعائے خیر سے نوازا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو مجھے مشورہ دو یہ جملہ آپ نے تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا چنانچہ یہ سن کر انصار کے سراد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید آپ ہم انصار سے پوچھ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا ہاں ۔ یہ سن کر حضرت سعد کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور اس بات کی گواہی دی کہ آپ جو کچھ لائے وہی حق ہے اعاطت اور جانثاری کے بارے میں ہم آپ سے پختہ عہد وپیمان کرچکے ہیں آپ جو چاہیں کر گزریں ہم آپ کے ساتھ ہیںقسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجااگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی وقت سمند میں کودجائیں گے اور ہم میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ہم کل دشمنوں سے مقابلے کوبرا نہیں سمجھتے ہیںہم لڑائی میں ثابت قدم رہنے والے اور حق ادا کرنے والے لوگ ہیںامید ہے کہ اللہ ہم سے آپ کو وہ چیز دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں
ٹھنڈی ہوں گی آپ اللہ کے نام پر ہمیں لے چلیئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اللہ کے نام پر چلو اور تم کو بشارت ہوکہ اللہ تعالی نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابو سفیان میں سے کسی ایک جماعت پہ فتح و نصرت عطاء فرمائے گا اللہ کی قسم کہ گویا میں مشرکوں کے قتل ہوکر گرنے کی جگہ دیکھ رہا ہوںپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بدر
کے قریب آکر پڑا و ڈالا۔
حضرت حباب بن منذر بن جموح رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول یہ پڑاؤ آپ نے اللہ کے حکم سے ڈالا ہے تو پھر ہمارے لیئے یہاں سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں ہے یا آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت اس جگہ کو منتخب فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جنگی حکمت عملی ہے تو انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر تو ہمیں مشرکین کے سب سے قریبی پانی کے قریب پڑاؤ ڈالنا چاہیے تاکہ ہم پیچھے سے کنویں کو بند کرلیں اور حوض بنا کر پانی جمع کرلیں تاکہ یوں مشرکین کو پانی نہ مل سکے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل فرمایاابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آکر حضرت حباب کے مشورے کی تائید فرمائی۔ (طبقات ابن سعد)۔
ابن اسحاق کی روایت کے مطابق قریش نے عمیر بن وھب جمعی کو بھیجا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے لشکر کا اندازہ لگا کر آؤاس نے لشکرکے گرد گھوڑا گھمایااور کہنے لگا کوئی تین سو کچھ زیادہ یا کچھ کم ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ انھوں نے پیچھے کہیں کوئی کمین گاہ تو نہیں بنا رکھی جس میں انھوں نے کمک چھپا رکھی ہوچنانچہ وہ دور تک گھوڑا دوڑاتا ہوا گیا اور واپس آکر کہنے لگا میں نے کچھ نہیں دیکھا لیکن اے قریش والو میں نے ہر طرف مصیبتیں ہی مصیبتیں دیکھی ہیںیثرب کے اونٹ اپنے اوپر سرخ موت کو لاد کرلائے ہیںتمھارے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جن کی پناہ گائیں صرف تلواریں ہیںبخدا اگر تم ان میں سے کسی کو قتل کرو گے تو تمھیں بھی قتل ہونا پڑے گااگر تم میں سے ان کی تعداد کے برابر لوگ بھی قتل ہوگئے تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہوگا اس لیے مشورہ کرلو۔ اسی وقت عامر بن حضرمی کھڑا ہوا اور اس نے اپنے پرانے مقتولوں کا نام
لے کر لوگوں کو پھر بھڑکادیا ۔
جب جنگ شروع ہوئی تو مشرکوں میں سب سے پہلے اسود بن عبدالاسودمخزومی نامی شخص نکلا یہ بہت برا شخص تھا اس نے قسم کھائی تھی کہ میں یاتو مسلمانوں کے حوض میں سے پانی پیئوں گا یا حوض گرا دوں گایا میں اس کی خاطر مر جاؤں گاجب وہ آگے بڑھا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھے دونوں میں مقابلہ ہوا تو حضرت حمزہ نے تلوار اس کا پاؤں پنڈلی کے درمیان سے کاٹ دیاوہ گر گیا اور پھر گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ وہ اپنی ضداور قسم پوری کرنا چاہتا تھامگر جب وہ حوض تک
پہنچا تو حضرت حمزہ نے اسے مار گرایا ۔
مشرکین میں سے باقاعدہ مبارزے کے لیئے تین افراد نکلے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ انھوں نے للکار کر مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی۔ مسلمانوں کی طرف سے تین انصارصحابی نکلے یہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ حضرت معوذ رضی اللہ عنہ دونوں عفرا کے بیٹے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ۔ مشرکین نے پوچھا تم کون لوگ ہوتو انھوں نے کہا ہم گروہ انصار میں سے ہیںتو مشرکین میں سے ایک شخص نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہماری قوم میں سے ہمارے جوڑ کے افرادہمارے مقابلے کے لیئے نکالو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبیدہ بن حارث ، اے حمزہ، اے علی کھڑے ہوجاؤحکم کے مطابق یہ تینوں حضرات نکل کھڑے ہوئے(چونکہ چہروں پہ نقاب تھے تو مشرکین نے ان سے نام پوچھے)جب انھوں نے نام بتادیئے تو مشرکین نے کہا ہاں تم ہمارے برابر کے محترم لوگ ہو۔جب مقابلہ شروع ہوا تو حضرت حمزہ اورحضرت علی رضوان اللہ علیھم اجمعین نے شیبہ اور ولید کو بغیر مہلت دیئے قتل کردیا جبکہ عبیدہ بن حارث (جو کہ بڑی عمرکے تھے)کا عتبہ کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہاحضرت عبیدہ کا پاؤں کٹ گیا اسی وقت حضرت علی اور حضرت حمزہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آکر عتبہ کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ
رضی اللہ عنہ کو پیچھے لے گئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی صفوں کو ترتیب دے کر اپنے عریش (یعنی اپنے لیئے بنائے گئے مخصوص چھپر )پر تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا وہاں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مشغول ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا کے دوران یہ بھی فرمایا کہ اے اللہ اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک کردی گئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گاحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے آپ کی دعا سن لی اور وہ آپ سے اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گاپھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلکی سی اونگھ آئی اور آپ بیدار ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے ابوبکرخوشخبری ہو اللہ کی مدد آپہنچی یہ جبرائیل اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے ہانک
رہے ہیں اور ان کے دانتوں پر غبارہے۔
غزوہ بدر کے دن ایسی ہوا چلی کہ اس جیسی ہوا پہلے نہیں دیکھی گئی تھی پھر وو ہوا چلی گئی پھر دوسری بار ہوا آئی وہ بھی چلی گئی پھر تیسری بار ہوا آئی ۔ پہلی بار جو ہوا آئی تھی وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے جو ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے تھے، دوسری بارکی ہوا حضرت میکائیل علیہ السلام تھے جو ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اترے، تیسری بار کی ہوا ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ حضرت اسرافیل علیہ السلام تھے جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اترے اس دن کئی کافروں کے سر اڑے پر یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ انھیں مارا کس نے ہے اور بعض لوگوں کے ہاتھ کٹ گئے مگر کاٹنے والا کوئی نظر
نہیں آیا (طبقات ابن سعد)۔
حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ بدر کے دن ہم مقتول مشرکوں میں سے فرشتوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کو گردن اور جوڑوں پر آگ سے جلے ہوئے کالے نشانوں سے پہچانتے تھے۔
اگرکوئی یہ اعتراض کرئے کہ ایک فرشتہ ہی کافی تھا اتنے فرشتے کیوں بھیجے گئے تو اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ پاک نے مسلمانوں کے دلوں کو مطمئن کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزار و اکرام کے لیئے اتنے
فرشتے بھیجے۔
بعض علماء کا یہ فرمان بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اتنے فرشتے اس لیئے بھیجے کہ اللہ نے ان فرشتوں کو قیامت تک کے لیئے جہاد کرنے والا بنادیا ہے چنانچہ مسلمانوں کا جو بھی لشکر ایمان اور ثابت قدمی کے ساتھ لڑتا
ہے یہ فرشتے اترتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں۔
حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور انھوں نے پوچھا کہ آ پ لوگوں میں بدر والوں کا کیا مقام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ مسلمانوں میں افضل شمار ہوتے ہیںحضرت جبرائیل علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اسی طرح بدر میں شرکت کرنے والے فرشتوں کا بھی حال ہے یعنی انھیں بھی فرشتوں میں افضل شمار کیا جاتا
ہے۔ (بخاری)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی لے کر شاھت الوجوہ فرما کر قریش کی طرف پھینکی اور حضرات صحابہ کرام کو حملہ کرنے کا حکم فرمایاتھوڑی دیر میں مشرکین کو شکست ہوگئی اور ان کے کئی بڑے
سردار مارے گئے اور کئی گرفتار ہوئے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اوپر سے ایک کوڑے اور ایک گھڑ سوار کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا کہ اے حیزوم آگے بڑھ اس کے بعد مسلمان نے دیکھا کہ وہ مشرک زمین پہ چت پڑا ہوا ہے اس کا چہرہ کوڑے کی ضرب سے نیلا ہوچکا ہے پھٹ چکا ہے ۔ اس انصاری صحابی نے یہ سارا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ چوتھے آسمان کی
مدد تھی اس دن ستر مشرک گرفتار ہوئے اور ستر مارئے گئے (مسلم)۔
یہ مبارک واقعات جنگ بدر کے ہیں اور صرف بدر ہی نہیں بلکہ آٹھ سال کے عرصے میں ستائیس یا اٹھائیس مرتبہ بنفس نفیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اسلحہ اٹھا کر جہاد کے لیئے میدانوں میں نکلے جبکہ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دعوے تو بہت کرتے ہیں پر رب کے دین کی حفاظت کے لیئے امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے ہمارے کپڑوں کی استری تک خراب نہیں ہوئی۔کیا آج ہماری زندگیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہیں ، کیا ہمارے اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قیمتی ہیں، یا اب ہم پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ذمہ داریا ں ہیں، کچھ بھی نہیں بات صرف ایمان کی ہے جو یہ سنے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مرتبہ گئے تو وہ دیوانہ وار جائے گا۔

بڑا متن --Shehzad iqbal (تبادلۂ خیال) 09:11, 26 اگست 2012 (UTC)

السلام علیکم[ترمیم]

السلام علیکم شہزاد بھائی۔ کیسے مزاج ہیں؟ --محمد شعیب (تبادلۂ خیال) 09:15, 26 اگست 2012 (UTC)

نامکمل سلام Shehzad iqbal! میں شمارندی برنامج ہوں اور دائرۃ المعارف میں خودکار جانچ پڑتال پر مامور ہوں۔ صفحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کی پڑتال کے بعد جسے آپ نے تحریر کیا ہے، مجھے پتہ چلا کہ:

  • اس میں داخلی روابط موجود نہیں ہیں۔ مضامین میں داخلی روابط داخل کرنے سے قارئین کو مختلف صفحات میں آمد ورفت میں انتہائی آسانی ہوتی ہے؛ لہذا آپ سے گذارش ہے کہ اپنے تحریر کردہ مضمون کے موضوع کی مناسبت سے داخلی روابط داخل فرمائیں۔
  • اس میں زمرہ جات موجود نہیں ہیں۔ مضامین میں زمرہ جات کی وجہ سے قارئین کو دائرۃ المعارف کی ورق گردانی میں انتہائی سہولت ہوتی ہے اور بآسانی موضوع سے متعلق یکجا مضامین تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے؛ لہذا آپ سے گذارش ہے کہ اپنے تحریر کردہ مضمون میں مناسب زمرہ جات داخل فرمائیں۔

روابط برائے معاون صفحات: آسان · انداز مقالات · ہدایات برائے تحریر · زمرہ جات · ترمیم

اس گذارش پر عمل درآمد کے بعد آپ ان سانچوں کو صفحہ سے ہٹا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں یہ اطلاع غلط ہے تو میرے منتظم سے رابطہ کریں۔
--نگہبان اردو ویکیپیڈیا (تبادلۂ خیال) 19:13, 24 فروری 2013 (م ع و)