تبیان القرآن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قرآن کریم کی اس اردو تفسیر کے مفسر علامہ غلام رسول سعیدی ہیں۔ یہ تفسیر 12 جلدوں میں "فرید بک سٹال" اردو بازار لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہے۔

تعارف اور امتیازی خصوصیات[ترمیم]

  • 1۔ تفسیر تبیان القرآن اردو زبان میں ایک بڑی تفسیر بالماثور ہے۔۔ جس میں ہر آیت کی تفسیر سے متعلق جتنی آیات اور احادیث ممکن ہوسکیں، نقل کی گئی ہیں۔

مترجم و مفسرغلام رسول سعیدی دیباچہ میں رقمطراز ہیں

  • 2۔ میں نے قرآن مجید کا ترجمہ تحت اللفظ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سے بالکل الگ اور عربی متن کی رعایت کیے بغیر قرآن مجید کے مفہوم کی ترجمانی کی جائے۔ میں نے اپنے آپ کو قرآن مجید کے الفاظ اور عبارت کا پابند رکھا ہے لیکن لفظی ترجمہ نہیں کیا۔
  • 3۔ تفسیر میں میں نے اسلام کے مسلمہ عقائد کو دلائل سے مزین کیا ہے۔
  • 4۔ قرآن مجید کی جن آیات میں احکام اور مسائل کا ذکر ہے، وہاں میں نے تمام فقہی مذاہب کا دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
  • 5۔ ہمارے متقدمین مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر میں جو نکات بیان کیے ہیں ان میں سے میں نے استفادہ کیا ہے لیکن جو بہت بعید نکات ہیں یا دور از کار تاویلات ہیں ان کو ترک کر دیا ہے۔
  • 6۔ میں نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر میں زیادہ سے زیادہ احادیث اور آثار کو پیش کروں۔
  • 7۔ عام طور پر مفسرین صرف حدیث کا ذکر کردیتے ہیں اس کی تخریج نہیں کرتے۔ میں نے کافی محنت اور جانفشانی کرکے "تبیان القرآن" میں درج ہر حدیث کی تخریج کی ہے اور اس کا مکمل حوالہ بیان کیا ہے، البتہ حافظ منذری، حافظ الہیثمی اور حافظ سیوطی چونکہ علم حدیث میں بہت ثقہ ہیں اس لیے ان کی تصانیف میں درج مسلم ائمہ حدیث کی روایات کو ان حوالوں کے ساتھ ذکر کر دیا ہے اور کہیں کہیں اصل ماخذ کے حوالوں کی بھی نشان دہی کردی ہے۔
  • 8۔ ہمارے بعض مصنفین ایسا کرتے ہیں مثلا حافظ سیوطی کا ذکر کیے بغیر اس حدیث کو ان حوالوں کے ساتھ ذکر کردیتے ہیں اور یہ تلبیس کرتے ہیں کہ گویا اس حدیث کو انھوں نے ان دس حدیث کی کتابوں سے تلاش کیا ہے۔ اسی طرح علامہ شامی نے اگر کسی مسئلہ کو دس فقہا کے حوالوں سے ذکر کیا ہے تو وہ علامہ شامی کا ذکر کیے بغیر اس مسئلہ کو ان دس فقہا کے حوالوں سے ذکر کردیتے ہیں اور پڑھنے والے پر یہ تاثر قائم کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس مسئلہ کو ان دس فقہا کے حوالوں سے تلاش کیا ہے، میرے نزدیک یہ تلبیس سخت مذموم ہے۔ اگر حافظ منذری یا حافظ الہیثمی یا حافظ سیوطی نے کسی حدیث کو دس ائمہ کے حوالوں سے ذکر کیا ہے تو میں نے اس طرح لکھا ہے کہ حافظ منذری یا حافظ سیوطی نے اس حدیث کو ا ن دس ائمہ حدیث کے حوالوں سے ذکر کیا ہے اور اس کا مکمل حوالہ دیا ہے اور کسی کی محنت اور جانفشانی کو اپنی طرف منسوب کرنے کی مذموم تلبیس نہیں کی۔ اس طرح فقہا کے حوالہ جات کا معاملہ ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر تبیان القرآن جلد اول صفحہ37غلام رسول سعیدی، فرید بکسٹال لاہور2009ء