ترخان نامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ترخان نامہ یا ارغون نامہ سندھ کے شاہی حکمران سلطنت ترخان سے متعلق تاریخ کی ایک مستند کتاب ہے ۔ ترخان نامہ عموماً حوالہ جاتی کتب یا متعدد کتب میں ارغون نامہ کے عنوان سے مشہور ہے۔

تاریخ[ترمیم]

ترخان نامہ کے مصنف سید میر محمد بن سید جلال الدین حسینی شیرازی ٹھٹوی تھے جنھوں نے ترخان نامہ کو 1065ھ مطابق 1655ء میں مکمل کیا۔ اگرچہ مصنف نے اِس کتاب کا نام اپنے ممدوح و مُربی مرزا محمد صالح ترخان کے نام کی وجہ سے ترخان نامہ رکھا ہے مگر یہ تاریخ اکثر ارغون نامہ کے نام سے ہی معروف رہی ہے۔ مرزا محمد صالح، مرزا محمد عیسیٰ خان ترخان کا بیٹا تھا۔ ٹھٹہ اور گجرات کا صوبے دار بھی رہا۔ جب مرزا محمد صالح نے شریف الملک کو ٹھٹہ میں گرفتار کر لیا تو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اِس کی قدر افزائی کی اور اِس کے منصب میں اِضافہ بھی کر دیا۔ مرزا محمد صالح نے 1095ھ مطابق 1684ء میں بعہد ِ اورنگزیب عالمگیر وفات پائی۔ [1]

مواد[ترمیم]

مؤلف سید جمال حسینی شیرازی نے اپنی اِس کتاب کے لیے جن کتب سے مواد اخذ کیا ہے، وہ یہ ہیں: تاریخ طبری، روضۃ الصفاء، ظفر نامہ، تاریخ ہمایونی، اکبر نامہ، اِنتخابِ بے بدل یوسفی، تاریخ گزیدہ، نگارستان، تاریخ طاہری اور مجمع الأنساب۔ مؤلف کتابِ ہذا نے حضرت نوح علیہ السلام سے قبیلہ ٔ ترخان تک کے قبائل کے آباء و اَجداد کا سراغ لگایا ہے۔ خاندانِ ترخان اور خاندان ارغون کی تاریخ کا بیشتر حصہ میر محمد معصوم بکھری (متوفی: 1605ء) کی تصنیف تاریخ معصومی سے ماخوذ ہے۔ بعض مقامات پر تو اِس کی عبارت یا جملے تک اپنا لیے گئے ہیں، لیکن مؤلف نے اپنے ماخذ میں تاریخ معصومی کا نام تک نہیں لیا۔ [2] [3]

مخطوطہ[ترمیم]

اِس کتاب کا قلمی مخطوطہ 137 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر صفحے پر 17 سطریں ہیں اور تقطیع 9 ضرب 12 انچ ہے۔اِس قلمی مخطوطہ کا دیباچہ 2 صفحات پر مشتمل ہے۔

اشاعت[ترمیم]

مشہور محقق و مصنف حسام الدین راشدی نے ترخان نامہ کو ترتیبِ نَو کے ساتھ 1965ء میں سندھی ادبی بورڈ سے شائع کیا۔ اِس اشاعت میں ترخان نامہ بزبانِ فارسی میں ہی تھا جبکہ تاحال ترخان نامہ کا اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہو سکا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ، صفحہ 528۔ مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 2016ء
  2. ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ، صفحہ 528۔ مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 2016ء
  3. ہندوستان کی تاریخ، اس کے اپنے مؤرخین کی زبانی—محمدی دور: جلد 1، صفحہ 300-326۔

مزید دیکھیے[ترمیم]