ترقی پسند افسانہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پریم چند[ترمیم]

ترقی پسند تحریک کے افسانے کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ ترقی پسند افسانے کی روایت کا رشتہ براہ راست پریم چند کی حقیقت نگاری سے وابستہ ہے۔ منشی پریم چند گو کہ اردو کے پہلے افسانہ نگار نہیں ہیں، لیکن افسانہ نگاری میں اس اعتبار سے ان کو ایک بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے کہ انھوں نے اردو افسانے کو داستانوی ماحول سے نکال کر اس کا رشتہ زندگی سے قائم کیا۔ پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی رو پ میں نظرآتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پریم چند نے انسانی عظمت اور محنت کو بھی بلند مقام عطا کرنے کی سعی کی۔ پریم چند کی ان خصوصیات کی بناءپر ان کو پہلا ترقی پسند افسانہ نگار خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں سوا سیر گیہوں، کفن، زیور کا ڈبہ وغیرہ شامل ہیں۔

کر شن چندر[ترمیم]

کرشن چندر کی ابتدائی شہر ت اور مقبولیت کا سبب ان کا رومانی طرز نگارش ہے۔ وہ طبعاً رومانی فنکار تھے۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس رومانی فضا ءمیں کھوئے نہیں رہے اور جلد ہی اس فضا سے نکل کر وہ حقائق کی دنیا کی طرف گامزن ہو گئے۔ چنانچہ ”طلسم خیال“ کے بعد ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”نظارے “ کے نام سے شائع ہوا تو اس مجموعے کے افسانوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے زاویہ نظر میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلی آ رہی تھی۔ اور ”ان داتا“ میں تو کرشن چندر رومان پرست کی بجائے تلخ حقیقت نگار اور انقلاب پسند کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔

کرشن چندر کی عظمت کی کئی وجوہات ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ ان کے افسانوں کے موضوعات میں برا تنوی ہے۔ ان کے افسانوں میں فطرت کے حسن اور عورت کی رومانی دلکشی کے علاوہ اپنے عہد کی وسیع عکاسی بھی ملتی ہے۔ ان کے مشاہدے کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ اپنے موضوعات، اپنے گرد وپیش کی دنیا سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات میں سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں۔

دوسری بات کرشن چندر منظر کشی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ بقول محمد حسن منظر نگاری میں آج تک ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں فطر ت کا سار حسن سمٹ کر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ اپنے طرز نگارش کے ذریعے وہ افسانے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے اُن کی نثر کو شاعری کہا ہے جو شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی محفل لوٹ کر لے جاتا ہے۔

کرشن چندر نے فسادات کے موضوع پر بھی قلم اُٹھایا چنانچہ ان کے مجموعے ”ہم وحشی ہیں “ کے سارے افسانے فسادات سے متعلق ہیں۔ اُن کے باقی مجموعوں نام یہ ہیں۔ طلسم خیال، نظارے، ہوائی قلعے، گھونگھٹ میں گوری جلسے، ٹوٹے ہوئے تارے، ان داتا، ہم وحشی ہیں، تین غنڈے، زندگی کے موڑ پر، نغمے کی موت اور پرانا خدا وغیرہ

سعادت حسن منٹو[ترمیم]

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ایک اور اہم نا م سعادت حسن منٹو کا ہے۔ منٹو کاشمار اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے کچھ افسانے متنازع رہے ان پر فحش نگاری کے الزامات لگے، ان پر مقدمات چلے لیکن ان سب کچھ کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ اردو کا اہم اور عظیم افسانہ نگار ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی نمایا ں خوبی یہ ہے کہ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ جس کی بناءپر افسانوں میں یکسانگی پیدا نہیں ہوتی۔ منٹو اپنے افسانوں میں اگر طرف جوان لڑکوں لڑکیوں کی جنسی الجھنوں، غریب، مزدور، سماج میں کچلے ہوئے طبقے اور طوائف کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ تو دوسری طرف ان کے افسانوں کا موضوع ہندوستان کی جنگ آزادی، جدوجہد اور تقسیم بھی ہیں۔ اسی طرح ان کے کردار بھی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں ہر طبقے اور ہر شعبے کے کردار نظر آئیں گے۔ کالج کے لڑکے لڑکیوں سے لے کر پہلوان اور استاد تک، قریب قریب معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے کردارمنٹو کے افسانوں میں ملیں گے۔

منٹو کا زندگی کا مطالعہ کافی وسیع تھا لیکن اُن نے اپنے اردگرد جو کچھ دیکھا اُسے بغیر کسی جھجک کے بیان کر دیا۔ اُن کی حقیقت نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ زندگی کے مختلف حقائق تک ان کی نظریں بڑی بے باکی اور دراکی کے ساتھ پہنچتی ہیں۔ اور ان کو پوری طرح نمایاں کر دیتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ منٹو صرف ایک افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ بقول عبادت بریلوی وہ انسانی نفسیات کا گہرا نباض بھی ہے اس کی ہر کہانی کو اس کا یہی نفسیاتی شعور حقیقت سے ہم آہنگ کر تا ہے۔ اس کے نفسیاتی شعور کے بناءپر رومانی موضوعات تک اس کے یہاں حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ زندگی کی ہر پہلو کی ترجمانی میں اس نے کسی نہ کسی اہم حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ خصوصاً زندگی کے معاملات اور کرداروں کی حرکات و سکنات کو پیش کرنے میں نفسیاتی شعور اپنے عروج پر ہے۔

جہاں تک منٹو کے اسلوب کا تعلق ہے تو مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ نگاری میں منٹو وہ پہلا افسانہ نویس ہے جس نے افسانے کی نئی زبان دریافت کی اس لیے تو حسن عسکری اُن کے اسلوب کو زندہ اسلوب کہتے ہیں۔ منٹو نے جو کچھ کہا اس میں آورد نا م کو نہیں۔ منٹو کے مشہور افسانو ں میں ٹھنڈا گوشت، بو، دھواں، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالی شلوار وغیر ہ جیسے افسانے شامل ہیں۔

عصمت چغتائی[ترمیم]

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کا نا م بھی شامل ہے۔ عصمت کے افسانے فنی خوبی اور قدرت زبان و بیان کی بناءپر بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ منٹو کے بعد عصمت چغتائی دوسری افسانہ نگار ہیں جس نے اپنے افسانوں میں جنسی پہلو کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا۔ خصوصاً متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں اور ان کی عورتوں اور بچوں کی نفسیاتی اور جنسی الجھنوں کوانہوں نے بڑی بے باکی سے موضوع بنایا۔ ان کے افسانے ”لحاف “ پر باقاعدہ مقدمہ چلا۔

اس میں شبہ نہیں کہ عصمت کے یہاں فن کی اعلی قدروں کے لیے زبان اور قلم کی جس نیکی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے، البتہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عصمت کو جذبات پر قدرت اور اظہار بیان میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے انھوں نے اپنے افسانوں کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کی جوان کے پلاٹ اور موضوع کے ماحول سے گہری مطابقت رکھتی ہے۔ تقسیم کے بعد کے افسانوں میں اُن کے ہاں سستی جذباتیت اور فن پر مقصدیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی[ترمیم]

اس دور کے ایک اور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ بیدی کے یہاں بھی کرشن چندر کی طرح رومانیت سے حقیقت نگاری کی طرف مسلسل اور واضح سفر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک بیدی کے افسانوں کے موضوعات کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنے افسانوں میں انسانی دکھوں، پریشانیوں اور محرومیوں کو موضوع بنایا ہے۔ دراصل بیدی خود ایک دردمند شخصیت کے مالک تھے، ان کی دردمند ی شخصیت کی بدولت افسانے پر بھی درمندی کی فضاءچھا جاتی ہے۔ جو قاری کو ان کا ہمنوا بنا لیتی ہے۔

نقادوں نے بیدی کے افسانوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ ان کے کردار اپنے ماحول میں مکمل طور پر بسے ہوتے ہیں۔ ان کا سبب یہ ہے کہ بیدی افسانے کی جزئیات، واقعات و کرداروں کے ماحول اور ان کیاالجھنوں کا اور مسائل کا بہ نظر غائر مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں۔ اُن کردار گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان ہی نظر آتے ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ اور ”لاجونتی “ شامل ہیں۔

احمد علی[ترمیم]

ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانہ نگاری میں ایک نام احمد علی کا بھی ہے۔ احمد علی کو پہلے پہل شہرت ”انگارے “ کی وجہ سے ملی۔ انگارے افسانوں کا ایک مجموعہ ہے، جس میں احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانے بھی شامل تھے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید انگارے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے افسانوں کا ایک نیا مجموعہ ”شعلے“ پیش کر دیا۔ احمد علی نے اپنے افسانوں میں مٹتی ہوئی تہذیب پر بڑی جرات اور بے باکی سے ظفر عزیز اور اس کے قلعے کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کے خلاف رد عمل احتجاج کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور انگارے کے خلاف اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیونکہ فن اور خیالات دونوں کے اعتبار سے یہ ایک باغیانہ مجموعہ تھے۔ اس لیے بعد میں اس کتاب کو ضبط کر لیا گیا۔

احمد علی اگرچہ منٹو وغیرہ کی طرح مشہور نہیں ہوئے لیکن ان کے ہاں گہرا شعور ملتا ہے۔ ان کے ہاں حقیقت اور ماورائے حقیقت دونوں کا شعور ملتا ہے۔ ان کی بہترین کہانیوں میں ہماری گلی، پریم کہانی، شامل ہیں۔ احمد علی کا انداز رمزیہ اور لب و لہجہ فلسفیانہ ہے ان کے ہاں اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار کا شعور ملتا ہے۔

رشید جہاں[ترمیم]

ڈاکٹر رشید جہاں کو بطور افسانہ نگار ”انگارے “ نے متعارف کرایا۔ تاہم افسانہ ان کی زندگی کا مقصد نظر نہیں آتا بلکہ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی ہربات صنف نازک کا مرثیہ معلوم ہوتی ہے۔

اختر حسین رائے پوری[ترمیم]

ڈاکٹر انور سدید، اختر حسین رائے پوری کی افسانہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اختر کی افسانہ نگاری آسکر وائلڈ اور موپاساں کے زیر اثر شروع ہوئی تھی۔ تاہم ”محبت “ اور ”نفرت“ کے افسانوں میں زندگی کی پیکار اور آویزش کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اور ان میں سیاسی بیداری کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ ان کے آخری دور کے افسانوں ”دیوان خانہ“ میں معاشرتی شعور اور ”جسم کی پکار“ میں جنسی احساس کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔

خواجہ احمد عباس[ترمیم]

خواجہ احمد عباس ایک ایسا افسانہ نگار ہے جو زندگی کی تعبیر صرف ترقی پسند نظریات کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس کے افسانوں میں سماجی مسائل اور سیاسی الجھنوں کو اہمیت حاصل ہے۔ خواجہ احمد عباس ترقی پسند تحریک کا ایسا رپورٹر ہے جس پر افسانہ نگار کا گمان کیا جاتاہے۔ اس کے کردار حقیقی ہونے کے باوجود غیر فطری نظرآتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی[ترمیم]

احمد ندیم قاسمی کے رومانی افسانوں میں بیشتر ماحول وادی سون سکسیر (ضلع خوشاب وغیرہ)کا دیہی منظر نامہ ہے۔ جبکہ سماجی حقیقت نگاری کے لیے احمد ندیم قاسمی نے ہماری دیہی اور شہری معاشرت دونوں کو چنا ہے۔ جبکہ گھریلو ماحول بھی اُن کے ہاں ملتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے سماجی حقیقت نگاری کے لیے کہانی میں مکالمہ نگاری کو خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ”کہانی لکھی جا رہی ہے۔ “ میں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ندیم صاحب متوسط طبقے کی منافقت کی بھی اچھی تصویر کشی کرتے ہیں۔”گھر سے گھر تک“، ”سفارش“ میں ادنیٰ طبقوں کی منافقتوں کی اچھی فطرت اور و ذہنیت کے انتہائی پست پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔

فسادات کے حوالے سے لکھے گئے افسانوں میں احمد ندیم قاسمی کو اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ ان میں جانبداری نہیں برتی گئی۔ کیونکہ ندیم صاحب اس بات سے آگاہ تھے کہ اچھے برے لو گ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ ہے۔

کچھ افسانہ نگاروں کا ذرا تفصیل سے اوپر ذکر ہوا، ان کے علاوہ اور بھی بے شمار افسانہ نگار اس دور میں افسانے لکھ رہے تھے مثلاً عزیز احمد، اختر اورینوی، حیات اللہ انصاری، بلونت سنگھ وغیرہ۔