ترکی میں نسائیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ترکی میں نسائیت کے کردار کی تعریف صنفی مساوات کے لیے جاری جدوجہد کے طور پر کی گئی ہے جس میں عناصر کی شراکت کے ساتھ یورپی یونین میں رکنیت حاصل کرنے کے لیے عائد کردہ تقاضے اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔ ترکی میں نسائیت کی پہلی لہر بیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔[1]

ترکی میں خواتین اب بھی عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل کا شکار ہیں۔ مزید یہ کہ محققین اور سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے کی گئی تحقیقات خواتین پر گھریلو تشدد کے پھیلاؤ کی نشان دہی کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف ترک خواتین اپنی بہادری کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔بہت سی بہادر ترک خواتین کا ذکر ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔

ترکی میں خواتین کو روزگار اور بعض خطوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ نمایاں تفاوت کا بھی سامنا ہے۔ افرادی قوت میں ترک خواتین کی شرکت یورپی یونین میں خواتین کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے جبکہ خواتین کی خواندگی کو فروغ دینے کے لیے بہت سی مہمات کامیابی کے ساتھ چلائی گئی ہیں۔ ثانوی تعلیم میں اب بھی صنفی فرق اور اعلیٰ تعلیم میں بڑھتا ہوا صنفی فرق موجود ہے۔ ترکی میں کم عمری کی شادیوں کا بھی بڑے پیمانے پر رواج ہے اور یہ ملک کے مشرقی اور وسطی حصوں میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ بعض قوانین اور پابندیوں کی وجہ سے جیسے سر ڈھانپنے پر  پابندی  کی وجہ سے یونیورسٹی میں پڑھنے والی خواتین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ مذہبی خواتین کے ایک گروپ نے اس قانون کے خلاف جدوجہد کی جب ان سے کالج اور کام کی جگہ پر حاضری کے بدلے اپنے سر سے اسکارف اتارنے کو کہاگیا۔

ترکی کا آئین جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ ترک خواتین کی تحریک انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے دوران میں شروع ہوئی۔ صنفی مساوات کے اصول کو مصطفٰی کمال اتاترک کے دور میں ترک جمہوریہ کے اعلان کے بعد اپنایا گیا تھا، جس کی حالیہ اصلاحات میں تعدد ازدواج پر پابندی اور 1934 تک ترک خواتین کو مکمل سیاسی حقوق کی فراہمی شامل تھی۔

حقوق نسواں[ترمیم]

پہلی حقوق نسواں کی لہر ترکی میں بیسویں صدی کے اوائل میں آئی، جب خواتین کی تنظیموں نے مساوی شہری اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ اس ابتدائی دور کے دوران، خواتین کے حقوق کے دعوے جمہوریہ کے اعلان کے بعد کیمالسٹ اصلاحاتی عمل سے چھپ گئے۔

دوسری حقوق نسواں کی لہر ترکی میں 1980ء کی دہائی میں پہنچی اور اس نے 1960ء کی دہائی میں مغرب میں ابھرنے والی تحریک کا اثر قبول کرتے ہوئے مشترکہ مسائل پر آواز بلند کی، جیسے خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ، خاندان میں ناانصافی اور کنوار پن کے ٹیسٹ کو چیلنج کرنا، جو ایک عام رواج تھا۔

عالمی سول سوسائٹی کا ابھرنا، خواتین کی تنظیموں کی بین الاقوامیت اور یورپی یونین میں ترکی کے الحاق نے خواتین کی تنظیموں کو غیر ملکی مالی مدد ​​تک رسائی دی۔ خواتین کی تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور ساتھ ہی ان تنظیموں کے زیر انتظام منصوبوں میں بھی اضافہ ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Cagla Diner And Sule Toktas۔ "Waves of feminism in Turkey: Kemalist, Islamist andKurdish women's movements in an era of globalization"۔ 1 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2017