شمالی قبرص

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظرثانی بتاریخ 03:41، 28 نومبر 2018ء از Shuaib-bot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (خودکار: تبدیلی ربط از Turkish_Cypriot > ترک قبرصی (9.1))
Turkish Republic of Northern Cyprus
Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti  (ترکی)
پرچم Northern Cyprus
ترانہ: 
مقام Northern Cyprus
حیثیتفہرست محدود تسلیم شدہ ریاستیں
دارالحکومت
and largest city
شمالی نیکوسیا
35°11′N 33°22′E / 35.183°N 33.367°E / 35.183; 33.367
سرکاری زبانیںترکی زبان
آبادی کا نامترک قبرصی
حکومتوحدانی ریاست semi-presidential جمہوریہ
• President
Mustafa Akıncı
Tufan Erhürman
مقننہAssembly of the Republic
آزادی from the قبرص
• Proclaimed
15 نومبر 1983
• Recognition
15 نومبر 1983
رقبہ
• کل
3,355 کلومیٹر2 (1,295 مربع میل) (unranked)
• پانی (%)
2.7
آبادی
• 2014 تخمینہ
313,626
• 2011 مردم شماری
286,257
• کثافت
93/کلو میٹر2 (240.9/مربع میل) (117th)
جی ڈی پی (برائے نام)2014 تخمینہ
• کل
$4.032 billion
• فی کس
$15,109
کرنسیترکی لیرہ ₺ (TRY)
منطقۂ وقتمشرقی یورپی وقت (متناسق عالمی وقت+02:00)
• گرمائی (ڈی ایس ٹی)
یو ٹی سی+3 (مشرقی یورپی گرما وقت)
ڈرائیونگ سائیڈleft
کالنگ کوڈ+90 392

ترک جمہوریہ شمالی قبرص (ترکی زبان: Kuzey Kıbrıs Türk Cumhuriyeti, KKTC، انگریزی: Turkish Republic of Northern Cyprus) قبرص کے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ پورے جزیرہ قبرص پر جمہوریہ قبرص کا اختیار تسلیم کرتا ہے۔

پس منظر

ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد 1983ء میں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبضہ یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے-بی کے حامیوں نے کیا تھا جو 1967ء سے 1974ء تک قائم رہا۔ بعد ازاں قبرص میں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے میں ترکی کی افواج کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ "ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص" کہلاتی تھی۔

ریاست کی آبادی 265،000 ہے اور یہ 3،355 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں میں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرے اناطولیہ سے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھ کرد آبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33 ہزار ماہر فوجیوں کی صورت میں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔

ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں نکوسیا شہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جو دارالحکومت ہے۔ 1963ء کے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نے برطانیہ کا رخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی میں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورت حال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔

1960ء – جمہوریہ قبرص کا قیام

جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کی بجائے مکمل خود مختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی میں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص میں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص تعداد میں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان میں 70 فیصد یونانی قبرصی اور 30 فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات میں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب بالترتیب 60 اور 40 تھا۔ 1960ء کے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔

1963ء – عوامی فسادات اور آئین کا خاتمہ

دسمبر 1963ء میں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب ترک قبرصیوں نے اس میں شرکت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے دونوں برادریوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لیے قانونی معاملات رکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین میں ترمیم کی 13 تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انہوں نے ریاست کے شریک بانی کی بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انہوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔ 21 دسمبر 1963ء کو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروں میں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہو گئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف "جدوجہد" کا آغاز کر دیا۔

ان فسادات میں 191 ترک اور 133 یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209 ترک اور 41 یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں خیموں میں رہنے پر مجبورہو گئے۔ اگلے 11 سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواؤں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔

1972ء سے 1974ء تک قبرص میں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر فرانسس ہین کے مطابق “ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56 ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا۔"

1974ء – یونانی اور ترک فوجی اقدامات

15 جولائی 1974ء کو یونان کی فوجی دستوں کی شہ پر قبرص میں ایک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدر میکاریوس کو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیمان نکولس سیمپسن کو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے 1960ء کے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں 20 جولائی 1974ء کو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص میں ترک آبادی کو بچانے کے لیے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37 فیصد حصے پر قبضہ کر لیااور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95 ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50 ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورت حال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئے۔

1975ء – وفاق سے آزادی تک

1975ء میں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم تھا۔ جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ آٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے 15 نومبر 1983ء کو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجود میں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔

سیاست

ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے انتخابی نظام کے مطابق پانچ سال کے لیے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارہ “مجلس جمہوریہ“ (ترکی زبان: جمہوریت مجلسی) ہے جس کے اراکین پانچ انتخابی حلقہ جات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ فروری 2005ء کے انتخابات میں تصفیہ امن اور قبرص کے اتحاد کی حامی جماعت ریپلکن ترکش پارٹی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تاہم اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔

معیشت

ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی معیشت کا اہم حصہ ملازمت، تجارت، سیاحت اور تعلیم ہے جبکہ زراعت اور ساخت گری کی چھوٹی معیشت بھی موجود ہے۔ معیشت آزاد-مارکیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے لیکن نجی و حکومتی سرمایہ کاری کی کمی، کثیر محصول اور ماہر کاریگروں کی کمی کے باعث اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے باوجود ترک قبرصی معیشت نے 2003ء اور 2004ء میں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میں شرح نمو بالترتیب 9.6 اور 11.4 فیصد رہی۔ شرح نمو میں اس تیزی کی وجہ ترک لیرا میں استحکام اور تعلیم اور تعمیرات کے شعبہ جات میں ہونے والا تیزی تھی۔

جنوری سے اگست 2003ء کے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص آنے والے سیاحوں کی تعداد 286،901 تھی۔

دوسری جانب فی کس آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو 2002ء میں 4،409 امریکی ڈالر کے مقابلے میں 2005ء میں 10،248 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔

بین الاقوامی حیثیت اور خارجہ تعلقات

بین الاقوامی برادری، سوائے ترکی کے، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی بلکہ پورے جزیرے پر جمہوریہ قبرص کا اقتدار مانتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔ پاکستان، قطر اور گیمبیا سمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے عنان منصوبہ پر اپریل 2004ء میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔

قبرص کے یورپی اتحاد کا حصہ بننے کے بعد یورپی اتحاد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو ایسے علاقے کو متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کا مسئلہ حل کیا جانا باقی ہے۔ اور یورپی پارلیمان میں قبرص کے لیے مختص کی گئي نشستیں بھی پورے جزیرے کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے باشندے یورپی اتحاد کا حصہ قرار پائے لیکن اس کے باوجود 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے اپنا حق رائے دہی بہت کم استعمال کیا۔

فوج

ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویژن کے ہمراہ جزیرے پر موجود ہے۔

متنازع علاقہ ہونے کی حیثيت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔

مواصلات اور ذرائع نقل و حمل

ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترکی کی عسکری و اقتصادی حمایت پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔ وہ نئے ترک لیرا کو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام برآمدات و درآمدات ترکی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت بھی ترکی کے ڈائلنگ کوڈ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ویب پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص ترک کا دوسری سطح کا ڈومین .nc.tr استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی پوسٹل یونین کی جانب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو الگ علاقہ تسلیم کیے جانے سے انکار کے باعث خطوط بھی بذریعہ مرسین، ترکی بھیجے جانے چاہئیں۔

ترک جمہوریہ شمالی قبرص سے براہ راست پروازیں بھی جمہوریہ قبرص کی جانب سے منع ہیں۔ گچیت کالے اور ارجان کے ہوائی اڈے بھی صرف ترکی اور آذربائیجان کے لیے کھلے ہیں۔ 1974ء سے جمہوریہ قبرص نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی تمام بندرگاہوں کو بند قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ترکی اعلان کی مخالفت کرتا ہے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں مندرج تمام بحری جہاز ترکی کی تمام بحری بندرگاہوں تک مفت رسائی رکھتے ہیں۔

ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقیقی باشندے یا وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی مہر لگی ہو ممکنہ طور پر جمہوریہ قبرص یا یونان کے سفر سے محروم ہو جاتے تھے لیکن یورپی اتحاد میں جمہوریہ قبرص کی شمولیت کے بعد ان پابندیوں میں کچھ نرمی آ گئی ہے اور اس حوالے سے ایتھنز اور انقرہ کے مابین برف بھی پگھلی ہے اور جب سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص نے پاسپورٹ داخلے کی مہر ثبت کرنا چھوڑی ہے تب سے جمہوریہ قبرص نکوسیا میں گرین لائن کے پار جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔

ہوائی اڈے اور بندرگاہیں

ارجان ہوائی اڈا (نکوسیا –مرکزی ہوائی اڈا) گاچیت کالے ہوائی اڈا (غازی مغوسا/فیماگوستا) الکر کارتر ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا) پنارباشی ہوائی اڈا (گرنے/کائیرینیا) ٹوپل ہوائی اڈا (گوزیل یورد/مورفو) بندرگاہ گرنے بندرگاہ غازي موغاسا/فیماگوستا

جامعات

  • جامعہ مشرقی میڈیٹیرینین (Eastern Mediterranean University)
  • جامعہ مشرق قریب (Near East University)
  • لیفکے کی یورپی جامعہ (European University of Lefke)
  • بین الاقوامی جامعہ قبرص (International Cyprus University)
  • گرنے امریکی جامعہ(Girne American University)
  • مشرق وسطٰی تکنیکی جامعہ شمالی قبرص کیمپس/ گوزیل یرد(Middle East Technical University Northern Cyprus Campus / Guzelyurt)

سیاحت کے لیے موزوں مقامات

لالا مصطفٰی پاشا مسجد
  • غازی مغوسا میں واقع لالا مصطفٰی پاشا مسجد اپنے طرز تعمیر کے اعتبار سے مساجد میں منفرد مقام رکھتی ہے۔
  • لیفکوشا میں غازی مغوسا کی طرح ایک قدیم مرکزِ شہر ہے۔ قدیم شہر 5.5 کلومیٹر کی ایک فصیل کے اندر واقع ہے جو آج بھی موجود ہے۔
  • شمال مشرق میں اساطیری کہانیوں کے معروف پنج انگشت پہاڑ (Pentadactylos) موجود ہیں۔ یہ پتھریلے پہاڑ سطح سمندر سے 700 میٹر بلند ہیں اور ان کے بارے میں بازنطینی ہیرو ڈائگنس کی کہانی مشہور ہے جس نے اپنی مافوق الفطرت قوت سے حملہ آور عربوں کو شکست دی۔
  • پہاڑ کے جنوبی طرف وونو کے گاؤں کے قریب ترک جمہوریہ شمالی قبرص کا ایک بڑا جھنڈا بنایاگیا ہے جو لیفکوشا کے بیشتر حصوں سے صاف نظر آتا ہے۔
  • بحیرہ روم کے گرد خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک جزیرے کے مشرق میں کرپاز کے علاقے میں ہے۔

فہرست متعلقہ مضامین شمالی قبرص