تقویم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تقویم کے لغوی معنی کیلنڈر کے ہیں، مگر اصطلاح میں کواکب کی حرکات اور دائرۃ البروج میں مقام کی جدولیں پر مشتمل رسالے کو تقوم (Ephemeris) کہتے ہیں۔ کواکب کی بروج میں پوزیشن کے علاوہ تقویم میں نیرین (شمس و قمر) کے اوقات طلوع و غروب، منازل قمر، کوکبی وقت (سڈرل ٹائم) اور نظرات کی تفصیل بھی دی ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تقویم کی ترتیب و طباعت کا کام نہایت سائنسی بنیادوں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی تقویم سازی کے کئی تحقیقی مراکز قائم ہیں۔ پاکستان میں چونکہ نجوم نہ تو سائنسی بنیادوں پر استوار ہے اور نہ اس کے معلمین اور قاریئن تعلیم یافتہ ہیں، لہذا یہ تاحال ’’جنتری‘‘ کا ہی ضعیف حصہ ہے۔

جنتری۔ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں مرتب کرنا۔ تقویم گویا تاریخ اور ہفتے کے دنوں کی تعین کے جدول کا نام ہے۔ سال شمسی ہوتا ہے یا قمری۔ شمسی سال اس عرصے کے برابر ہوتا ہے جس میں زمین اپنے مدار کو پوری طرح طے کر لیتی ہے۔ یعنی پوری طرح سورج کے گرد چکر کاٹ لیتی ہے۔ یہ عرصہ 365 دن 5 گھنٹے، 40 منٹ اور 4624اعشاریہ 47 سیکنڈ کے برابر ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سال کو صرف پورے 365 دنوں کا شمار کرتے ہیں اس لیے ہمارا سال اصل سال سے چھوٹا ہوتا ہے اور یہ کمی سال بہ سال زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سال بسال وہی مہینے مختلف موسموں میں آنے شروع ہو جائیں گے۔ جس سے ہمارے نظام زندگی میں گڑ بڑ پڑ جائے گی۔ اوروقت کا بھی کوئی صحیح اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت کو رفع کرنے کے لیے لیے جولیس سیزر شاہنشاہ روم نے ہر چوتھے سال میں ایک دن کا اضافہ کرکے ہر چوتھا سال 366 دن کا استعمال کیا۔ یعنی فی سال 4/1 دن کی مزید زیادتی ہو گئی۔ بالفاظ دیگر اس قسم کا سال صحیح سال سے بقدر 11منٹ 14 سیکنڈ اوسطاً بڑھ جاتا ہے۔ یعنی 4/1 دن فی سال زیادہ کرنے سے ہم اصل سال سے 11 منٹ 14 سیکنڈ بڑھا دیتے تھے۔ چونکہ یہ زیادتی 100 سال میں جمع ہو کر ایک دن کے قریب ہو جاتی تھی۔ اس لیے ہر صدی کا لیپ سال سادہ سال شمار کرکے زیادتی کے برابر کر دیا گیا۔ یعنی 100ء اگرچہ لیپ کا سال ہے: تاہم اس کے 365 دن ہی شمار ہوں گے۔ اسی طرح 200 ء، 300ء لیپ کے سال شمار نہیں ہوں گے۔ اس طرح چار سو سال کے بعد پھر ایک دن کی کمی واقع ہوجاتی تھی۔ اس لیے 400 اور ہر ایک صدی کے سال کو جو 4 پرتقسیم ہو جائے، لیپ کا سال شمار کر لیا گیا ہے۔ عملی طور پر جو سال 4 پر تقسیم ہو جائے لیپ کا سال ہے اور اس میں سال کا سب سے چھوٹا مہینا فروری بجائے 28 کے 29 سال کا ہوتا ہے۔ جو صدی 400 پر منقسم ہو جائے وہ بھی لیپ کا سال ہے۔ باقی تمام سال سادہ ہیں۔ اس طرح سے موسم و تاریخ کا ربط کم وبیش صحیح طور پر قائم رہتا ہے۔ یہ تمام کیفیت شمسی سال یعنی عیسوی سال کی ہے۔

ہندوستان میں بکرمی سمت بھی شمسی سال ہے۔ یہ سمت صدیوں کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور مکمل ترین تقویم کا حامل ہے۔ اس میں بھی لیپ یعنی لوند کے سال آتے ہیں۔ اور بعض سالوں میں دنوں کی بجائے مہنیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور ایک نام کے دو مہینے آجاتے ہیں۔ اس سمت کا آغاز نہایت مناسب موقع پر یعنی فصل پکنے پر یکم بیساکھ کو ہوتا ہے۔ جس سے اگلے سال کا تخمینہ آمد و خرچ نہایت صحت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر اہم ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان میں مالی سال یکم اپریل یعنی بیساکھ کے قریب سے شروع کرنا پڑا۔

قمری سال شمسی سال سے بقدر 11 دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اس میں مہینے کی میعاد ’’شمسی کی بنیاد بھی یہی تھی‘‘ چاند کے دو مسلسل طلوعات کا درمیانی عرصہ ہے۔ یہ عرصہ 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے اور اس کی ابتداا اور انتہا قمری سال میں رویت ہلال پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ سال موسموں اور تاریخوں میں بہت سے تغیر و تبدل کا باعث ہوتا ہے۔ سمت بکرمی کی کسی تاریخ کو انگریزی تاریخ میں منتقل کرنے کے لیے دیسی تاریخ سے 56 سال 8 مہینے 18 دن منہا کر دیجیے۔ مثلاً یکم بیساکھ 2011 بکرمی کے مقابل انگریزی تاریخ مطلوب ہے تو 2011 سال ایک ماہ ایک دن میں سے مذکورہ تاریخ منہا کرنے سے 1954 سال 4 ماہ 13 دن حاصل ہو گئے جو اس کے مقابل کی انگریزی تاریخ ہے۔ انگریزی تاریخ کو بکرمی میں تبدیل کرنا اس کا الٹ ہوتا ہے۔ لیکن قمری تاریخ کو انگریزی تاریخ میں تبدیل کرنا سہل نہیں۔ ایک عملی تخمینہ اس طرح پر کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ قمری سال شمسی سال کا 355/365 ہے۔ عینی 71/73 ہے۔ اس لیے کسی ہجری قمری سال کو شمسی عیسوی میں تبدیل کرنے کے لیے قمری سال کو 71/73 سے ضرب دیجیے۔ اور حاصل ضرب میں 622ء جمع کر دیجیے۔ جو اس قمری سال کے مقابلے میں انگریزی تاریخ ہے۔ لیکن یہ نتیجہ بالکل صحیح اور یقینی نہیں ہوتا۔ سنہ ہجری 622ء سے شروع ہوا تھا۔

چند معروف و مستند تقاویم[ترمیم]

اگرتتبع اور تلاش سے کام لیا جائے تو تقویم کی کل چار قسمیں ہیں۔

قمری تقویم
شمسی تقویم
شمسی قمری تقویم
شمسی ھجری تقویم

تقویم کا تعارف[ترمیم]

وہ نظام جس کے ذریعے وقت کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تقویم (Calender)کہلاتا ہے، گویا تقویم کے ذریعے دن، ہفتہ، ماہ اور سال وغیرہ کا حساب لگایا جاتا ہے۔

قمری تقویم[ترمیم]

اس تقویم کی بنیاد چاند کے سائز اور اس کے طلوع و غروب ہونے پر ہے تقویم کا یہ طریقہ سب سے پرانا اور سب سے آسان ہے چنانچہ پہلے زمانے کے لوگ چاند کو دیکھ کر دن گنا کرتے تھے اور چونکہ چاند کا سائز ہر روز بدلتا رہتا ہے اس لیے اس کے ذریعے حساب لگانا بھی آسان ہے۔
اس تقویم کے مطابق مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا، ہر پہلی رات کے چاند سے مہینے(مہینہ کی جمع) کا آغاز ہوتا ہے، جب انتیس دنوں(دن کی جمع) کے بعد نظر آئے تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے ورنہ تیس دن کا۔

اسلامی یا ہجری تقویم داراصل ایک قمری تقویم ہے جو اسلام سے پہلے بھی عرب میں رائج تھی۔ بعد میں اس میں مناسب تبدیلیاں کر کے اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت سے شروع کیا گیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  • Ahmad Birashk (1993)، A comparative Calendar of the Iranian, Muslim Lunar, and Christian Eras for Three Thousand Years، Mazda Publishers، ISBN 0-939214-95-4 
  • Nachum Dershowitz، Edward M Reingold (1997)، Calendrical Calculations، Cambridge University Press، ISBN 0-521-56474-3، 17 اکتوبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2015  with Online Calculatorآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ emr.cs.iit.edu (Error: unknown archive URL)
  • Eviatar Zerubavel (1985)، The Seven Day Circle: The History and Meaning of the Week، University of Chicago Press، ISBN 0-226-98165-7 
  • LE Doggett (1992)، "Calendars"، $1 میں P. Kenneth Seidelmann، Explanatory Supplement to the Astronomical Almanac، University Science Books، ISBN 0-935702-68-7، 01 اپریل 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2015 
  • Árni Björnsson (1995) [1977]، High Days and Holidays in Iceland، Reykjavík: Mál og menning، ISBN 9979-3-0802-8، OCLC 186511596 
  • EG Richards (1998)، Mapping Time, the calendar and its history، Oxford University Press، ISBN 0-19-850413-6 
  • Lynn E Rose (1999)، Sun, Moon, and Sothis، Kronos Press، ISBN 0-917994-15-9 
  • Arthur Spier (1986)، The Comprehensive Hebrew Calendar، Feldheim Publishers، ISBN 0-87306-398-8 
  • Dieter Schuh (1973)، Untersuchungen zur Geschichte der Tibetischen Kalenderrechnung (بزبان جرمنی)، Wiesbaden: Franz Steiner Verlag، OCLC 1150484 

مزید مطالعہ کریں[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]