مندرجات کا رخ کریں

تل دوثان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تل دوثان
 

ملک ریاستِ فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نقشہ
إحداثيات 32°24′49″N 35°14′23″E / 32.413527777778°N 35.239861111111°E / 32.413527777778; 35.239861111111   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

 

فلسطین میں تل دوثان

تل دوثان فلسطین میں واقع ایک آثارِ قدیمہ کا مقام ہے، جو بلاطہ سے تقریباً 22 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ تقریباً 12 ہیکٹر ہے۔ یہ مقام قدیم برنجی دور (Bronze Age) کی ابتدائی تین ادوار کے دوران آباد رہا اور انہی ادوار میں اس کو قلعہ بند بھی کیا گیا تھا۔[1][2]

مقام

[ترمیم]

تل دوثان، جسے تل حفیرہ بھی کہا جاتا ہے، فلسطینی قصبے بیر الباشا کے قریب واقع ہے، [3]اور جنین شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ [4][5][6]تمام جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیق اس بات کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ تل دوثان کا مقام ہی قدیم دوثان کی جگہ ہے، جسے مسیحی مورخ اور عالمِ دین یوسبیوس قیصریہ نے سبسطیہ قصبے سے 12 میل شمال میں واقع بتایا تھا۔

اگرچہ صلیبیوں اور بعد کے قرونِ وسطیٰ کے سیاحوں نے دوثان کی شناخت حطین گاؤں سے کی تھی، جیسا کہ سیاح فان دی فیلدے نے ذکر کیا ہے، تاہم جدید تحقیق اسے رد کرتی ہے۔[7] .[8]

تاریخ

[ترمیم]

عبرانی بائبل میں

[ترمیم]

تل دوثان کا ذکر عبرانی کتابِ مقدس (عہد نامہ قدیم) میں دو مرتبہ آیا ہے۔ پہلی بار اس کا ذکر سفرِ تکوین (پیدائش) میں ملتا ہے، جہاں اسے وہ مقام بتایا گیا ہے جہاں یعقوب (اسرائیل) کے بیٹے اپنی بھیڑیں چرا رہے تھے۔ یہیں یہودا کی تجویز پر یوسف کو اسمٰعیلی تاجروں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا (پیدائش 37:17)۔

دوسری بار تل دوثان کا ذکر سفرِ سلاطین دوم (2 ملوک) میں آیا ہے، جہاں نبی الیشع کا قیام تھا اور وہیں انھوں نے ایک رؤیا دیکھی جس میں آگ کی رتھیں اور گھوڑے اس پہاڑ کو گھیرے ہوئے تھے جس پر شہر آباد تھا (2 سلاطین 6:13)۔[9] علاوہ ازیں، سفر یُودیت (جو عہد نامہ قدیم کی ملفق کتابوں میں شامل ہے) میں بھی دوثان کے قریبی میدان کا ذکر موجود ہے۔[10]

مملکت شمالی اسرائیل کے دور میں

[ترمیم]
بئر یوسف، دوثان

شہر دوثان مملکتِ اسرائیلِ شمالی کے دور میں ایک انتظامی مرکز تھا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے تل دوثان کے مقام پر ایک بڑا کمپلیکس اور عبرانی زبان کی تحریریں دریافت کی ہیں۔[11][12] اسی طرح تل کے مشرقی جانب واقع سامری پہاڑوں میں ایک اسرائیلی عبادت گاہ سے کانسی سے بنا ہوا بیل کا مجسمہ بھی ملا ہے، جس کی تاریخ اندازاً گیارھویں صدی قبل مسیح سے جوڑی جاتی ہے اور غالب گمان ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے سنہری بچھڑے کے واقعہ سے مربوط ہو سکتا ہے۔

صلیبی دور میں

[ترمیم]

صلیبی جنگوں کے زمانے میں، صلیبیوں نے دوثان کے قدیم ٹیلے پر ایک برج تعمیر کیا، جو تقریباً 1156ء میں مکمل ہوا۔[13] اس برج کو لاطینی میں "کاستیلوم بیلیسموم" اور قرونِ وسطیٰ کی فرانسیسی میں "شاستیاو سینٹ جوب" (Chasteau Saint Job) کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں، 1187ء میں یہ قلعہ اسپتاری شوالیوں (فرسان الاسبتاريہ) کے سپرد کر دیا گیا۔

جدید دور میں

[ترمیم]

سنہ 1851 میں سیاح تشارلز ویلیئم میرڈتھ فان ڈی فیلڈے نے تل دوثان کا دورہ کیا اور اسے اس مقام کا جدید دور میں پہلا زائر قرار دیا جاتا ہے۔ فان ڈی فیلڈے نے اپنی اس دریافت کا ذکر اپنی 1854 کی اشاعت میں ان الفاظ میں کیا:[14]

میں نے ایک بڑا ٹیلہ دیکھا جو ہمارے راستے سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر واقع تھا، جو آثارِ قدیمہ سے بھرا ہوا تھا اور اس میں ایک قدیم آبی نہر کا حصہ بھی تھا جو محرابوں کے سہارے کھڑا تھا۔ میں نے ابو منصور سے ٹیلے کا نام پوچھا، تو اس نے جواب دیا: "ھَیْدا دوثان"

(یعنی یہ دوثان ہے)۔ "دوثان؟" میں نے پوچھا۔ "ہاں، دوثان، دوثان، دوثان!" بوڑھا غصے سے چلایا، جیسے میری بے یقینی پر اسے صدمہ ہو رہا ہو۔ میں نے سوال بار بار صرف اس لیے دہرایا تاکہ وہ نام دوبارہ بولے؛ کیونکہ دوثان کا دریافت ہونا ایک انتہائی خاص موقع تھا اور میں اس بات کو پختہ کرنا چاہتا تھا کہ نام درست تلفظ کے ساتھ سنا اور لکھا جائے۔

فان ڈی فیلڈے کی یہ زیارت، سیاح ایڈورڈ رابنسن کے اس مقام پر آنے سے چند دن قبل ہوئی تھی۔ بعد میں رابنسن نے دوثان کے مقام کی شناخت کا سہرا خود فان ڈی فیلڈے کے سر باندھا۔[6].[15]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "معلومات عن تل دوثان على موقع pleiades.stoa.org"۔ pleiades.stoa.org۔ 29 أكتوبر 2020 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |آرکائیو تاریخ= (معاونت)
  2. "معلومات عن تل دوثان على موقع iaa-archives.org.il"۔ iaa-archives.org.il۔ 29 أكتوبر 2020 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |آرکائیو تاریخ= (معاونت)
  3. Mariam Shahin (2005)۔ Palestine: A Guide۔ Interlink Books۔ ISBN:978-1-56656-557-8۔ 2022-11-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ Tel al-Hafireh (Tel Dothan) Tel al-Hafireh is an archeological site that lies 6 kilometers south of Jenin, close to the village of Bir al-Basha.
  4. Daniel M. Master؛ John Monson۔ "Tel Dothan 2002 Overview"۔ Harvard University: Faculty of arts and Sciences۔ 2010-07-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-07-24
  5. "Tel Dothan (photo and map)"۔ panoramio.com۔ 2021-06-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-07-24
  6. ^ ا ب Robinson, Edward, Biblical Researches in Palestine and the Adjacent Regions, second edition, page 122; "footnote 434: We learned afterwards from Mr Van de Velde, that he too had unexpectedly lighted upon Dothan a few days earlier." آرکائیو شدہ 2021-06-25 بذریعہ وے بیک مشین
  7. Eusebius of Caesarea, Onomasticon (1971), Notes edited by. C. Umhau Wolf under "Merran", accessed 27 December 2017 آرکائیو شدہ 2022-12-31 بذریعہ وے بیک مشین
  8. Charles William Meredith Velde, van de (1854)۔ Narrative of a journey through Syria and Palestine in 1851 and 1852۔ William Blackwood and son۔ ج 1 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |صحہ= رد کیا گیا (معاونت)
  9. 2 Kings 6:17
  10. Judith 4:6
  11. Master؛ Monson؛ Lass؛ Peirce (2005)۔ Dothan I: Remains from the Tell (1953-1964).۔ Winona Lake: Eisenbrauns
  12. Miglio (2014)۔ "Epigraphic Artifacts from Tell Dothan"۔ BASOR
  13. R. Ellenblum (2007)۔ Crusader Castles and Modern Histories۔ Cambridge University Press۔ ISBN:9781139462556۔ 2022-04-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-07 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |صحہ= رد کیا گیا (معاونت)
  14. Horatius Bonar (1858)۔ The Land of Promise: Notes of a Spring-journey from Beersheba to Sidon۔ James Nisbet & Company۔ ص 384۔ 2021-06-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ See Van de Velde's Syria and Palestine vol. i. p. 364. That traveller may claim the discovery of the site. He visited the spot, whereas E Robinson, like ourselves, only had it pointed out at a distance
  15. Daniel M. Master؛ Timothy Larsen؛ John Monson؛ Egon H. E. Lass؛ George A. Pierce (2005)۔ Dothan: Remains from the Tell (1953-1964)۔ Eisenbrauns۔ ISBN:978-1-57506-115-3۔ 2021-06-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |صحہ= رد کیا گیا (معاونت)