مندرجات کا رخ کریں

توجہ کا کمی و بیش فعالیت کا عارضہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
توجہ کی کمی، بیش فعالیت کا عارضہ (اے ڈی ایچ ڈی)
مترادفتوجہ کی کمی کا عارضہ، ہائپرکینیٹک عارضہ (ICD -10)
اختصاصنفسیاتی, بچوں کے امراض
علاماتتوجہ دینے میں دشواری ,ضرورت سے زیادہ سرگرمی،رویے کو کنٹرول کرنے میں دشواری[1][2]
عمومی حملہ6–12سال سے پہلے[3]
دورانیہ>6 مہینے[3]
وجوہاتجینیاتی اور ماحولیاتی عوامل[4][5]
تشخیصی طریقہدیگر ممکنہ وجوہات کے بعد علامات کی بنیاد پر[1]
مماثل کیفیتعام طور پر فعال نوجوان بچہ، برتائو کی خرابی, منحرف,سرکشی کی خرابی, سیکھنے کی خرابی, بائی پولر ڈس آرڈر, جنین کی الکحل سپیکٹرم کی خرابی[6][7]
علاجمشاورت,طرز زندگی میں تبدیلیاں، ادویات[1]
معالجہمحرکات, atomoxetine, guanfacine, کلونڈین[8][9]
تعدد51.1 ملین (2015)[10]

توجہ کا کمی ، بیش فعالیت کا عارضہ ( ADHD )

اے ڈی ایچ ڈی ، ایک نیورو ڈیولپ منٹل [1][2]قسم کا ایک ذہنی عارضہ ہے۔   اس کی خصوصیت میں توجہ دینے میں دشواری ،، ضرورت سے زیادہ سرگرمی اور تائج کی پرواہ کیے بغیر کام کرنا شامل ہے جو کسی شخص کی عمر کے حساب سے مناسب [3] [4]نہ ہو۔   اے ڈی ایچ ڈی والے کچھ افراد میں جذبات کو کنٹرول کرنے میں دشواری یا ایگریکٹو فنکشن [11][12][13][2] کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔     تشخیص کے لیے، علامات، کسی شخص میں بارہ سال کی عمر سے پہلے ظاہر ہونی چاہئیں , چھ ماہ سے زیادہ موجود رہیں اور کم از کم دو ترتیبات (جیسے اسکول، گھر یا تفریحی سرگرمیاں)[8][9]میں مسائل پیدا کریں۔   بچوں میں، توجہ کی کمی کے نتیجے میں اسکول کی کارکردگی خراب ہو سکتی ہے[3]۔  اس کے علاوہ اس کا دیگر دماغی امراض اور منشیات کےغلط استعمال [10]کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ یہ عارضہ ، جدید معاشرے میں یہ  خاص طور پر خرابی کا سبب بنتا ہے، ADHD والے بہت سے افراد ان کاموں پر بھرپور توجہ رکھ سکتے ہیں جو انھیں دلچسپ یا مفید لگتے ہیں (جسے ہائپر فوکس کہا جاتا ہے)۔  [11][12]

بچوں اور نوعمروں میں سب سے زیادہ زیرتحقیق اور تشخیص شدہ ذہنی خرابی ہونے کے باوجود، زیادہ تر معاملات میں اس کی صحیح وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ [4] جینیاتی عوامل کا امکان تقریباً 75 فیصد ہے۔ [14] حمل کے دوران نکوٹین کااطراف میں استعمال، ماحولیاتی خطرہ ہو سکتا ہے۔ [15] اندازپرورش یا نظم و ضبط سے اس عارضہ کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ [16] DSM-IV معیار کی تشخیص کے مطابق یہ تقریباً 5–7فیصد بچوں کو متاثر کرتا ہے [2] [17] اور ICD-10 کے معیار کے ذریعے یہ شرح 1–2فی صد بتائی جاتی ہے۔ [18] 2015 تک، اس سے عالمی سطح پر تقریباً 51.1 ملین افراد کے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ [10] شرحیں تمام ممالک کے درمیان یکساں ہیں اوراس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے۔ [19] ADHD کی تشخیص لڑکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہوتی ہے، [2] جبکہ لڑکیوں میں اس کی علامات مختلف ہونے کی وجہ سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ [20] [21] [22] بچپن میں تشخیص ہونے والے تقریباً 30-50فی صد افراد میں جوانی میں بھی یہ علامات پائی جاتی ہیں تقریبا 2-5فیصد بالغوں میں یہ حالت موجود ہوتی ہے۔ [23] [24] [25] بالغوں میں ہائپر ایکٹیویٹی کی بجائے اندرونی بے چینی ہو سکتی ہے۔ [26] وہ اکثر اس سے نبٹنے کی صلاحیتیں تلاشتے ہیں جو ان کی کچھ یا تمام خرابیوں کوبہترکرسکتی ہیں۔ [27] اس عارضہ کی حالت کو دیگر حالتوں سے علاحدہ طور پر شناخت کرنا اور اس کے ساتھ اعلیٰ سطح کی سرگرمیوں میں فرق کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے ،جبکہ وہ معمول کے رویوں کی حدود میں ہوں۔ [28]

اے ڈی ایچ ڈی کے انتظام کی سفارشات ملکوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں اور عام طور پر ان میں مشاورت ، طرز زندگی میں تبدیلیوں اور ادویات کا امتزاج شامل ہوتا ہے۔ [1] برطانوی گائیڈ لائن صرف شدید علامات والے بچوں میں پہلی ترجیح کے طور پر علاج کے لیے دوائیوں کی سفارش کرتی ہے اور اعتدال پسند علامات والی صورت میں اس وقت دوائیوں پر غور کیا جاتا ہے جب وہ یا تو قطعی طور پر مشاورت سے سے انکار کرتے ہیں یا اس کے ذریعے بہتر ہونے میں ناکام رہتے ہیں، جبکہ بالغوں کے علاج کے لیے دوائیں پہلی ترجیح ہیں۔ [29] کینیڈین اور امریکی رہنما خطوط پری اسکول کی عمر کے بچوں میں طرز عمل کے انتظام کو پہلی ترجیح کے طور پر تجویز کرتے ہیں جب کہ اس کے بعد دوائیں اور رویے کی تھراپی ایک ساتھ تجویز کی جاتی ہے۔ [30] [31] [32] محرکات کے ساتھ علاج کم از کم 14 ماہ کے لیے موثر ہوتاہے۔  کیونکہ ان کی طویل مدتی تاثیر واضح نہیں ہے اور ممکنہ طور پر اس کے سنگین ضمنی اثرات ہیں۔ [33] [34] [35] [36] [37] [38] [39]

طبی ادب نے 18 ویں صدی سے ہی اے ڈی ایچ ڈی جیسی علامات بیان کی ہیں۔ [40] اے ڈی ایچ ڈی ، اس کی تشخیص اور اس کے علاج کو 1970 کی دہائی سے متنازع سمجھا جاتا رہا ہے۔ [41] تنازعات میں معالجین، اساتذہ، پالیسی ساز، والدین اور میڈیا شامل ہیں۔ مضوعاتاے ڈی ایچ ڈی کی وجوہات اور اس کے علاج میں محرک ادویات کا استعمال شامل ہے۔ [42] زیادہ تر صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے اے ڈی ایچ ڈی کو بچوں اور بڑوں میں ایک حقیقی عارضے کے طور پر قبول کرتے ہیں اور سائنسی برادری میں بحث بنیادی طور پر اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ اس کی تشخیص اور علاج کیسے کیا جاتا ہے۔ [43] [44] [45] اس حالت کو سرکاری طور پر 1980 سے 1987 تک توجہ کے کمی کی خرابی ( ADD ) کے نام سے جانا جاتا تھا، جبکہ اس سے پہلے اسے بچپن کا ہائپرکائنٹک رد عمل کہا جاتا تھا۔ [46] [47]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت "Attention Deficit Hyperactivity Disorder"۔ National Institute of Mental Health۔ مارچ 2016۔ 2016-07-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-05
  2. ^ ا ب پ ت American Psychiatric Association (2013)۔ Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders (5th ایڈیشن)۔ Arlington: American Psychiatric Publishing۔ ص 59–65۔ ISBN:978-0-89042-555-8
  3. ^ ا ب "Symptoms and Diagnosis"۔ Attention-Deficit / Hyperactivity Disorder (ADHD)۔ Division of Human Development, National Center on Birth Defects and Developmental Disabilities, Centers for Disease Control and Prevention۔ 29 ستمبر 2014۔ 2014-11-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-03
  4. ^ ا ب NIMH (2013)۔ "Attention Deficit Hyperactivity Disorder (Easy-to-Read)"۔ National Institute of Mental Health۔ 2016-04-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-17
  5. JJ Kooij، D Bijlenga، L Salerno، R Jaeschke، I Bitter، J Balázs، دیگر (فروری 2019)۔ "Updated European Consensus Statement on diagnosis and treatment of adult ADHD"۔ European Psychiatry۔ ج 56: 14–34۔ DOI:10.1016/j.eurpsy.2018.11.001۔ PMID:30453134
  6. Fred F. Ferri (2010)۔ Ferri's differential diagnosis : a practical guide to the differential diagnosis of symptoms, signs, and clinical disorders (2nd ایڈیشن)۔ Philadelphia, PA: Elsevier/Mosby۔ ص Chapter A۔ ISBN:978-0323076999
  7. Jennifer Zubler, MD, FAAP؛ Carol Weitzman, MD, FAAP؛ Mark Sloane, DO؛ Natasha Singh, MPA؛ Yasmin N. Senturias, MD, FAAP؛ Barry Kosofsky, MD, PhD؛ Julie Kable, PhD؛ Daniel Fernandez-Baca, MA؛ Elizabeth Dang, MPH؛ Ira Chasnoff, MD, FAAP؛ Jacquelyn Bertrand PhD؛ Tatiana Balachova PhD؛ Joseph F. Hagan Jr. MD, FAAP (2016)۔ "Neurobehavioral Disorder Associated With Prenatal Alcohol Exposure" (PDF)۔ Pediatrics۔ American Journal of Pediatrics۔ ج 138 شمارہ 4: e20151553۔ DOI:10.1542/peds.2015-1553۔ PMC:5477054۔ PMID:27677572۔ 2020-03-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-05-22{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  8. DR Coghill، T Banaschewski، C Soutullo، MG Cottingham، A Zuddas (نومبر 2017)۔ "Systematic review of quality of life and functional outcomes in randomized placebo-controlled studies of medications for attention-deficit/hyperactivity disorder"۔ European Child & Adolescent Psychiatry۔ ج 26 شمارہ 11: 1283–1307۔ DOI:10.1007/s00787-017-0986-y۔ PMC:5656703۔ PMID:28429134
  9. R Jain، A Katic (اگست 2016)۔ "Current and Investigational Medication Delivery Systems for Treating Attention-Deficit/Hyperactivity Disorder"۔ The Primary Care Companion for CNS Disorders۔ ج 18 شمارہ 4۔ DOI:10.4088/PCC.16r01979۔ PMID:27828696۔ S2CID:3807877
  10. ^ ا ب GBD 2015 Disease and Injury Incidence and Prevalence Collaborators (اکتوبر 2016)۔ "Global, regional, and national incidence, prevalence, and years lived with disability for 310 diseases and injuries, 1990–2015: a systematic analysis for the Global Burden of Disease Study 2015"۔ Lancet۔ ج 388 شمارہ 10053: 1545–1602۔ DOI:10.1016/S0140-6736(16)31678-6۔ PMC:5055577۔ PMID:27733282 {{حوالہ رسالہ}}: |author= باسم عام (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: عددی نام: مصنفین کی فہرست (link)
  11. SV Faraone، AL Rostain، J Blader، B Busch، AC Childress، DF Connor، JH Newcorn (فروری 2019)۔ "Practitioner Review: Emotional dysregulation in attention-deficit/hyperactivity disorder - implications for clinical recognition and intervention"۔ Journal of Child Psychology and Psychiatry, and Allied Disciplines۔ ج 60 شمارہ 2: 133–150۔ DOI:10.1111/jcpp.12899۔ PMID:29624671۔ 2021-08-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-08
  12. RB Tenenbaum، ED Musser، S Morris، AR Ward، JS Raiker، EK Coles، WE Pelham (اپریل 2019)۔ "Response Inhibition, Response Execution, and Emotion Regulation among Children with Attention-Deficit/Hyperactivity Disorder"۔ Journal of Abnormal Child Psychology۔ ج 47 شمارہ 4: 589–603۔ DOI:10.1007/s10802-018-0466-y۔ PMC:6377355۔ PMID:30112596
  13. F Lenzi، S Cortese، J Harris، G Masi (جنوری 2018)۔ "Pharmacotherapy of emotional dysregulation in adults with ADHD: A systematic review and meta-analysis"۔ Neuroscience and Biobehavioral Reviews۔ ج 84: 359–367۔ DOI:10.1016/j.neubiorev.2017.08.010۔ PMID:28837827۔ 2020-07-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  14. Demontis, Ditte (2019)
  15. Tiesler, Carla M. T.; Heinrich, Joachim (21 September 2014)
  16. "Does Bad Parenting Cause ADHD?"۔ WebMD۔ 2020-07-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  17.        Willcutt EG (July 2012)
  18. Philip Cowen؛ Paul Harrison؛ Tom Burns (2012)۔ "Drugs and other physical treatments"۔ Shorter Oxford Textbook of Psychiatry (6th ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ص 546۔ ISBN:978-0-19-960561-3 – بذریعہ Google Books
  19. SV Faraone (2011)۔ "Ch. 25: Epidemiology of Attention Deficit Hyperactivity Disorder"۔ در MT Tsuang، M Tohen، P Jones (مدیران)۔ Textbook of Psychiatric Epidemiology (3rd ایڈیشن)۔ John Wiley & Sons۔ ص 450۔ ISBN:9780470977408۔ 2020-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  20.    Crawford, Nicole (February 2003)
  21.  Emond V, Joyal C, Poissant H (April 2009)
  22.  Singh I (December 2008)
  23.  Kooij SJ, Bejerot S, Blackwell A, Caci H, Casas-Brugué M, Carpentier PJ, Edvinsson D, Fayyad J, Foeken K, Fitzgerald M, Gaillac V, Ginsberg Y, Henry C, Krause J, Lensing MB, Manor I, Niederhofer H, Nunes-Filipe C, Ohlmeier MD, Oswald P, Pallanti S, Pehlivanidis A, Ramos-Quiroga JA, Rastam M, Ryffel-Rawak D, Stes S, Asherson P (September 2010).
  24.  Bálint S, Czobor P, Mészáros A, Simon V, Bitter I (2008)
  25. Ginsberg Y, Quintero J, Anand E, Casillas M, Upadhyaya HP (2014)
  26. National Collaborating Centre for Mental Health (UK) (2009)۔ Attention deficit hyperactivity disorder : diagnosis and management of ADHD in children, young people, and adults۔ National Collaborating Centre for Mental Health (Great Britain), National Institute for Health and Clinical Excellence (Great Britain), British Psychological Society., Royal College of Psychiatrists.۔ Leicester: British Psychological Society۔ ص 17۔ ISBN:9781854334718۔ OCLC:244314955۔ PMID:22420012
  27. .Gentile JP, Atiq R, Gillig PM (August 2006)
  28. Mina K. Dulcan؛ MaryBeth Lake (2011)۔ "Axis I Disorders Usually First Diagnosed in Infancy, Childhood or Adolescence: Attention-Deficit and Disruptive Behavior Disorders"۔ Concise Guide to Child and Adolescent Psychiatry (4th illustrated ایڈیشن)۔ American Psychiatric Publishing۔ ص 34۔ ISBN:978-1-58562-416-4 – بذریعہ Google Books
  29. National Collaborating Centre for Mental Health (2009)۔ "Pharmacological Treatment"۔ Attention Deficit Hyperactivity Disorder: Diagnosis and Management of ADHD in Children, Young People and Adults۔ NICE Clinical Guidelines۔ Leicester: British Psychological Society۔ ج 72۔ ص 303–307۔ ISBN:978-1-85433-471-8۔ 2016-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا – بذریعہ NCBI Bookshelf
  30. "Canadian ADHD Practice Guidelines" (PDF)۔ Canadian ADHD Alliance۔ 2021-01-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-04
  31. "Attention-Deficit / Hyperactivity Disorder (ADHD): Recommendations"۔ Centers for Disease Control and Prevention۔ 24 جون 2015۔ 2015-07-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-13
  32.  Wolraich, ML; Hagan JF, Jr; Allan, C; Chan, E; Davison, D; Earls, M; Evans, SW; Flinn, SK; Froehlich, T; Frost, J; Holbrook, JR; Lehmann, CU; Lessin, HR; Okechukwu, K; Pierce, KL; Winner, JD; Zurhellen, W; SUBCOMMITTEE ON CHILDREN AND .ADOLESCENTS WITH ATTENTION-DEFICIT/HYPERACTIVE, DISORDER
  33.  Storebø OJ, Pedersen N, Ramstad E, Kielsholm ML, Nielsen SS, Krogh HB, Moreira-Maia CR, Magnusson FL, Holmskov M, Gerner T, Skoog M, Rosendal S, Groth C, Gillies D, Buch Rasmussen K, Gauci D, Zwi M, Kirubakaran R, Håkonsen SJ, Aagaard L, Simonsen E, Gluud C (May 2018).
  34. "NIMH » The Multimodal Treatment of Attention Deficit Hyperactivity Disorder Study (MTA):Questions and Answers"۔ NIMH » Home۔ 2021-01-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-01۔ Why were the MTA medication treatments more effective than community treatments that also usually included medication? Answer: There were substantial differences in quality and intensity between the study-provided medication treatments and those provided in the community care group.
  35. National Collaborating Centre for Mental Health (2009)۔ Attention Deficit Hyperactivity Disorder: Diagnosis and Management of ADHD in Children, Young People and Adults۔ NICE Clinical Guidelines۔ Leicester: British Psychological Society۔ ج 72۔ ISBN:978-1-85433-471-8۔ 2016-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا – بذریعہ NCBI Bookshelf
  36. Huang YS, Tsai MH (July 2011)
  37. Arnold LE, Hodgkins P, Caci H, Kahle J, Young S (February 2015)
  38.  Parker J, Wales G, Chalhoub N, Harpin V (September 2013)
  39. .Wigal SB (2009)
  40. Lange KW, Reichl S, Lange KM, Tucha L, Tucha O (December 2010)
  41. VN Parrillo (2008)۔ Encyclopedia of Social Problems۔ SAGE۔ ص 63۔ ISBN:9781412941655۔ 2020-01-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-05-02
  42. .Mayes R, Bagwell C, Erkulwater J (2008)
  43. .Sim MG, Hulse G, Khong E (August 2004)
  44. LB Silver (2004)۔ Attention-deficit/hyperactivity disorder (3rd ایڈیشن)۔ American Psychiatric Publishing۔ ص 4–7۔ ISBN:978-1-58562-131-6
  45. .Schonwald A, Lechner E (April 2006)
  46. Lawrence G. Weiss (2005)۔ WISC-IV clinical use and interpretation scientist-practitioner perspectives (1st ایڈیشن)۔ Amsterdam: Elsevier Academic Press۔ ص 237۔ ISBN:978-0-12-564931-5۔ 2021-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  47. "ADHD: The Diagnostic Criteria"