تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہران میں سعودی سفارتخانے پر حملہ
بسلسلہ ایران–سعودی عرب پراکسی جنگ
سعودی ایمبسی تہران، حملے کے بعد
تاریخ2–3 جنوری 2016
مقام
Kashanak، تہران، ایران (ایمبسی)
ساجد شاہر، مشہد، ایران (consulate)

35°48′05″N 51°28′32″E / 35.80139°N 51.47556°E / 35.80139; 51.47556 (تہران)
36°19′07″N 59°32′56″E / 36.31861°N 59.54889°E / 36.31861; 59.54889 (مشہد)
وجہProtests against the government of سعودی عرب کے شیخ نمر باقر النمر کو پھانسی دینے پر۔
طریقہ کارمظاہرے اور فسادات
اختتامایمبسی تہران میں آتش زنی اور تباہی
تنازع میں شریک جماعتیں

سرکاری رد عمل
Judicial Power:[1]

  • سعودی عرب مخالفت مظاہرین
  • "Enemy infiltrators"

Ministry of Interior:[2]
"An organized group which has been active in Karaj and Tehran for more than 10 years"


الزام:

مرکزی رہنما
  • Hassan Kordmihan[1]
  • حامد استاد (alleged)[4]
  • Gen. Hassan Arabsorkhi[5]
  • Safar-Ali Baratlou[5]
تعداد
~200[1]
نامعلوم
متاثرین
گرفتار~100 مظاہرین (بتاریخ 24 جنوری 2016ء تک)[1]

2 جنوری 2016ء بروز ہفتہ ممتاز سعودی شیعہ عالم نمر باقر النمر کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کے بھی کئی شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔ تہران میں ہونے والے مظاہرے میں مشتعل مظاہرین نے سعودی عرب کے سفارتخانے کی عمارت کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی تھی اور عمارت میں موجود فرنیچر کو توڑ دیا ہے۔ وہاں پر موجود عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ

ہم نے نیم فوجی دستوں کے رضاکاروں کے گروہ کو عمارت پر بم پھینکتے ہوئے دیکھا

رد عمل[ترمیم]

رد عمل کے طور پر سعودی عرب کی حکومت نے سرکاری سطح پر ایران سے تحریری طور پر احتجاج کیا ہے۔ اس پر ایران کی طرف سے یہ جواب آیا کہ سنی مسلک کی حکومت والے سعودی عرب کی جانب سے شیخ نمر کو پھانسی دیا جانا مہنگا پڑے گا۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے بیان جاری کیا تھا کہ اہل تشیع عالم شیخ نمر النمر سمیت 47 افراد کو موت کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ افراد دہشت گردی کے مرتکب تھے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے 47 افراد کو موت کی سزا دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سیاسی بنیادوں پر دی جانے والی سزا قرار دیا ہے۔[6]

شیخ نمر کا پس منظر[ترمیم]

ان افراد میں سیاسی مخالفین کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ جن میں سے ایک شیخ نمر تھے جو کبھی بھی مسلح نہیں ہوئے اور عرصے سے سعودی بادشاہی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پر امن احتجاج پر زور دیتے آئے تھے۔

پہلی بار[ترمیم]

دو برس پہلے جب شیخ نمر پر گولی بھی چلائی گئی اور ان کو ہی گرفتار کیا گیا تھا تو سعودی عرب میں کئی دنوں تک کشیدگی رہی تھی۔ اکتوبر 2016ء میں نمر باقر النمر کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی، بی بی سی کے مطابق ان کے بھائی نے بتایا کہ نمر النمر کو ملک میں ’بیرونی مداخلت‘ چاہنے، حکمرانوں کی ’نافرمانی کرنے‘ اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔[7][8][9]

شیخ نمر کا رد عمل[ترمیم]

شیخ نمر نے اپنے خلاف لگائے جانے والے سیاسی الزامات (آمریت کے خلاف احتجاج اور سعودی شاہی حکمرانوں کو ظالم، متعصب اور غاصب جانتے ہوئے ان کی نافرمانی) سے کبھی انکار نہیں کیا، تاہم ان کے حامی ہمیشہ سے کہتے چلے آئے ہیں کہ شیخ نمر نے کبھی تشدد کو فروغ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ پرامن احتجاج کی حمایت کی۔ وہ اپنی معروف تقریر میں کہتے ہیں:-

سعودی حکومت کہتی ہے کہ ہم ایک غیر ملک کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں،وہ ہم پر تشدد کے جواز کے لیے یہ غلط الزام تراشتی ہے اور غیر ملک سے اکثر ان کی مراد ایران ہوتا ہے۔
میں اس الزام کا جواب تاریخ سے دوں گا
1978ء کا سال تھا جب عوامیہ صوبے کے لوگ اپنی عزت نفس کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھا اور اس وقت سعودی فوج قطیف پر ٹوٹ پڑی تھی۔
یہ انتفاضہ ، آزادی کی تحریک دسمبر 1978ء میں شروع ہوئی تھی جب شاہ ایران کی حکومت ابھی قائم تھی ، ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا اور یہ اس انقلاب کے آنے سے چار ماہ پہلے کا قصّہ تھا۔۔۔

ہمارا ایران یا کسی اور ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہم اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں ، ہم اپنی اقدار سے جڑے ہیں (جو کسی سے مستعار نہیں لی ہوئیں ) ہم ان کا دفاع کریں گے – اگر چہ سرکاری میڈیا ہمارے موقف کو کتنا ہی مسخ کیوں نہ کرے۔[10]

عوامی احتجاج پر زور[ترمیم]

سنہ 2011ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ نمر کا کہنا تھا کہ وہ ’ہتھیاروں کی بجائے حکام کے خلاف عوام کی دھاڑ کے حامی ہیں کیونکہ ’ لفظ کا ہتھیار گولی سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ حکام ہتھیاروں کی لڑائی سے مالی مفاد حاصل کرتے ہیں[11]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت Arash Karami (25 جنوری 2016)۔ "Who was behind Saudi Embassy attack in Iran?"۔ Al-Monitor۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  2. "Iran Denies Involvement in Attack on Saudi Embassy in Tehran"۔ Sputnik۔ 21 جنوری 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  3. ^ ا ب Golnaz Esfandiari (6 جنوری 2016)۔ "The Mystery Behind The Saudi Embassy Attack In Iran"۔ Radio Free Europe/Radio Liberty۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  4. ^ ا ب پ Rachel Avraham (4 جنوری 2016)۔ "Report: Saudi Embassy attacked by Iranian governmental mobs"۔ Jeruslaem Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  5. ^ ا ب پ Arash Karami (11 جنوری 2016)۔ "After Saudi Embassy attack in Iran, top security officials fired"۔ Al-Monitor۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  6. تہران میں سعودی سفارتخانے پر مظاہرین کا حملہ - BBC News اردو
  7. Protesters storm Saudi embassy in Tehran - BBC News
  8. Saudi Gazette/ Saudi Arabia
  9. Saudi embassy in Tehran attacked as protests grow over executions | Daily Mail Online
  10. "آرکائیو کاپی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2016 
  11. شیخ نمر النمر کون تھے؟ - BBC News اردو

سانچہ:Iran–Saudi Arabia relations