ثابت بن قیس
ثابت بن قیس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم ![]() |
ثابت بن قیس بن شماس انصاری، غزوہ بدر میں شامل صحابی ان کی کنیت ابو محمد ہے۔ خطیب النبی لقب تھا۔ اور کاتب وحی بھی تھے۔
نام ونسب[ترمیم]
ثابت نام، ابو محمد کنیت، قبیلۂ خزرج سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، ثابت بن قیس بن شماس بن زہیر بن مالک بن امرء القیسؓ بن مالک اغر بن نعلبہ بن کعب بن خزرج، خطیب رسول اللہ لقب، کاتب وحی تھے۔ والدہ کا نام ہند طائیہ تھا، بس اتنا ہی معلوم ہے کہ خاندان طے سے تھیں۔
اسلام[ترمیم]
ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔
غزوات اور دیگر حالات[ترمیم]
آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو خیر مقدم کے لئے تمام شہر امنڈ آیا تھا، اس موقع پر حضرت ثابت نے جو خطبہ دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا: نمنعك مما نمنع منه أنفسنا وأولادنا فما لنا قال الجنة قالوا: رضينا[1] یعنی ہم آپ کی ہر اس چیز کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ہم کو اس کا معاوضہ کیا ملے گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا "جنت" تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ "ہم سب راضی ہیں"
غزوۂ بدر میں شریک تھے، اصحاب ِمغازی نے اگرچہ ان کو اصحاب بدر کے زمرہ میں شامل نہیں کیا ہے، لیکن علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں یہی رائے ظاہر کی ہے ،[2] باقی غزوات کی شرکت پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔
غزوہ مریسیع 5ھ میں حضرت جویریہ ؓ ام المومنین اسیر ہوکر حضرت ثابتؓ اوران کے ابن عم کے حصہ میں آئی تھیں، انہوں نے 19 اوقیہ سونے پر مکاتب بنایا، حضرت جویریہؓ نے آنحضرت ﷺ سے مدد طلب کی، آپ ﷺ نے رقم مذکور ادا کرکے ان کو ہمیشہ کے لئے غلامی سے نجات دی اور اپنے عقد میں لے لیا۔
9ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا اور بدویانہ طریقہ پر آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہر نکلو، آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعد عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبہ سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت ثابت کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو، حضرت ثابتؓ نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے۔
اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا، آنحضرتﷺ ثابت بن قیسؓ کو لے کر اس کے پاس گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمہاری اتباع کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کرسکتا، خدا نے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہے گا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو تو ثابت موجود ہیں ان سے پوچھ اب میں جاتا ہوں۔
11ھ میں آنحضرت ﷺ نے وصال فرمایا تو انصار سعد بنؓ عبادہ کو خلیفہ بنانے کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ،حضرت ابوبکرؓ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ وغیرہ کو لے کر پہنچے، اس موقع پر حضرت ثابت ؓ نے جو خطبہ دیا وہ حسب ذیل تھا۔
أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ[3] یعنی ہم خدا کے مدد گار اور اسلام کی فوج ہیں اور مہاجرین معدودے چند ہیں، تعجب ہے کہ اس پر بھی کچھ لوگ ہم کو خلافت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم نے جو کچھ کہا بالکل صحیح ہے، لیکن قریش کے سوا دوسرا خلیفہ نہیں ہوسکتا۔
اسی سنہ میں طلیحہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت خالدؓ اس مہم کے افسر تھے، انصار حضرت ثابؓت کی ماتحتی میں تھے۔[4]
کاتب وحی[ترمیم]
آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سید الناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ [5]
غزوات میں شرکت[ترمیم]
غزوۂ بدر سمیت باقی غزوات کی شرکت پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔
حضرت محمدﷺ مدینہ تشریف لائے تو خیر مقدم کے لیے تمام شہر امنڈ آیا تھا، اس موقع پر ثابت نے جو خطبہ دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا: نمنعك مما نمنع منہ أنفسنا وأولادنا فما لنا قال الجنة قالوا: رضينا[6] یعنی ہم آپ کی ہر اس چیز کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں،لیکن ہم کو اس کا معاوضہ کیا ملے گا، آنحضرتﷺ نے فرمایا "جنت" تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ "ہم سب راضی ہیں"
غزوہ مریسیع 5ھ میں ام المومنین جویریہ اسیر ہوکر ثابت اوران کے ابن عم کے حصہ میں آئی تھیں، انہوں نے 9 اوقیہ سونے پر مکاتب بنایا، جویریہ نے آنحضرت ﷺ سے مدد طلب کی، آپ ﷺ نے رقم مذکور ادا کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے غلامی سے نجات دی اور اپنے عقد میں لے لیا۔
خطیب اسلام[ترمیم]
9ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا اور بدویانہ طریقہ پر آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہر نکلو، آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعد عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبہ سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ثابت کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو، ثابتؓ نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے۔
اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا، آنحضرت ﷺ ثابت بن قیس کو لے کر اس کے پاس گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمہاری اتباع کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کر سکتا، خدا نے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہے گا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو تو ثابت موجود ہیں ان سے پوچھ اب میں جاتا ہوں۔
جب وہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو رسول اللہ کے سامنے اونچا بولنے سے منع کیا گیا ہے تو حضرت ثابت کو فکر دامن گیر ہوئی۔ وہ اپنے گھر میں سر جھکا کر بیٹھ رہے۔ لوگوں نے پوچھا تو فرمایا کہ مجھے اکثر رسول اللہ کے سامنے اونچی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ اس باعث مجھے ضرور جہنم میں جانا پڑے گا۔ رسول اللہ کو اس بات کاعلم ہوا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم ثابت جہنمی نہیں بلکہ میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔
وفات[ترمیم]
12ھ میں مسیلمہ کذاب سے مقابلہ ہوا، ثابت اس میں شریک تھے مسلمانوں کو شکست ہوئی، تو انس نے آکر کہا چچا! آپ نے دیکھا وہ خوشبو مل رہے تھے، بولے کہ یہ لڑنے کا طریقہ نہیں ہے، لوگ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس طرح نہیں لڑتے تھے اس کے بعد اٹھے اور خندق کھود کر نہایت پامردی سے لڑے اور آخر شہادت حاصل کی۔ بدن پر زرہ نہایت عمدہ تھی ایک مسلمان نے اتارلی، ایک دوسرے مسلمان نے خواب میں دیکھا کہ ثابت ان سے کہہ رہے ہیں، فلاں مسلمان میری زرہ اتارلی ہے تم خالد سے کہو کہ اس سے وصول کر لیں اور مدینہ پہونچ کر ابوبکر سے کہنا کہ ثابت پر اتنا قرض تھا وہ اس زرہ سے ادا کریں، اور میرا فلاں غلام آزاد کر دیں، خالد نے زرہ لے لی اور ابوبکر نے اس وصیت پر عمل کیا۔[7]
اہل و عیال[ترمیم]
عبد اللہ اور اسمعیل، بیوی کا نام جمیلہ تھا جو عبد اللہ بن ابی بن سلول سردار خزرج کی بیٹی تھیں۔[8] دو بیٹے قیس اور اسماعیل تھے اور ایک بیٹا محمد بھی تھا جو حضرت علی کا ساتھی تھا اور واقعہ حرہ میں شہید ہوا۔
فضل وکمال[ترمیم]
بخاری میں ان سے ایک روایت منقول ہے اور بھی چند حدیثیں ہیں جن کو حضرت انسؓ بن مالک، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، محمد بن قیس نے روایت کیا ہے۔
حضرت ثابتؓ نہایت فصیح البیان اور زبان آور تھے، انصار نے اسی بنا پر ان کو اپنا خطیب بنایا تھا، آنحضرت ﷺ نے بھی دربار نبوت کا ان ہی کو خطیب تجویز فرمایا۔
اخلاق[ترمیم]
احترام نبوت ان کی سیرت کا جلی عنوان ہے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان کو موجود نہ پاکر فرمایا، کوئی ثابت کی خبر لاتا، ایک شخص نے کہا میں جاتا ہوں گھر میں جاکر دیکھا تو سرنیچے کیے بیٹھے تھے، پوچھا کیا ہے؟ کہا کیا بتاؤں بہت براحال ہے، میری آواز تیز ہے، آنحضرت ﷺ کے سامنے چلا کر بولتا تھا، اب میرا سارا عمل باطل ہو گیا اور جہنمی ہو گیا ہوں (یہ اس آیت کی طرف اشارہ تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے روبرو آہستہ بولنے کی ہدایت نازل ہوئی تھی) اس شخص نے آنحضرت ﷺ کو خبر کی، آپ ﷺ نے فرمایا ان سے جاکر کہو کہ تم جہنمی نہیں میں تم کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ [9]
آنحضرت ﷺ کو ان سے جو محبت اور اُنس تھا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار جب وہ بیمار پڑے تو آپ ﷺ عیادت کو تشریف لے گئے اور ان کی ان الفاظ میں دعا کی۔
اذهب الباس رب الناس عن ثابت بن قيس بن شماس[10]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب الثاء بعدھا الألف:۱/۱۳۱)
- ↑ (اصابہ:۱/۲۰۳)
- ↑ (بخاری، بَاب رَجْمِ الْحُبْلَى مِنْ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ، حدیث نمبر:6328)
- ↑ (طبری:۴/۱۸۸۶)
- ↑ البدایہ والنہایہ 5/341، طبقات بن سعد 1/82، عیون الاثر /315، تہذیب الکمال 4/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ 245، المصباح المضئی 19،
- ↑ الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب الثاء بعدھا الألف:1/131
- ↑ اسد الغابہ ج 1 ص 333 حصہ اول دوم: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ (طبقات :5/59)
- ↑ (بخاری:718)
- ↑ (تہذیب التہذیب، باب من اسمہ ثابت:2/11)