جابر بن زید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جابر بن زید
معلومات شخصیت

جابربن زیدؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

جابر نام،ابو الشعشاء کنیت، نسباقبیلہ ازوسے تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

جابر نے بہت سے علما صحابہ سے استفادہ کیا تھا،لیکن حبر الامۃ عبد اللہ بن عباسؓ کی صحبت میں زیادہ رہے تھے،اس تعلق سے وہ صاحب ابن عباس یعنی ابن عباس کے ساتھی کہلاتے تھے،ان کے فیض صحبت نے جابر کا دامنِ علم نہایت وسیع کر دیا تھا،اوروہ اپنے عہد کے ممتاز ترین علما میں تھے،حافظ ذہبی انھیں علمائے اعلام میں لکھتے ہیں [1] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق اورجلالت پر سب کا اتفاق ہے،وہ ائمہ اورفقہائے تابعین میں ہیں۔ [2]

قرآن[ترمیم]

قرآن ،حدیث فقہ،جملہ علوم میں انھیں یکساں کمال حاصل تھا، علوم قرآنیہ میں خاص مہارت تھی ان کے استاد حضرت عبد اللہ بن عباس جو خود قرآن کے بہت بڑے عالم تھے فرماتے تھے اگر اہل بصرہ جابر بن زید کا قول اختیار کریں،توکتاب اللہ کے بارہ میں ان کا علم نہایت وسیع ہوجائے۔ [3]

حدیث[ترمیم]

حدیث کے بھی بڑے حافظ تھے،حافظ ذہبی حفاظ حدیث میں انھیں علمائے اعلام کا درجہ دیتے ہیں، حدیث میں انھوں نے عبد اللہ بن عباسؓ،عبد اللہ بن عمرؓ،ابن زبیرؓ حکم بن عمروؓ غفاری،اورامیر معاویہؓ وغیرہ سے استفادہ کیا تھااور عمرو بن دینار،یعلیٰ بن مسلم ایوب سختیانی اورعمر وبن جزم وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔ [4]

فقہ[ترمیم]

فقہ میں بھی ان کو پوری مہارت تھی،علامہ نووی انھیں ائمہ اورفقہائے تابعین میں لکھتے ہیں [5] صحابہ اورتابعین ان کے تفقہ کے معتر ف تھے،ایک مرتبہ عبد اللہ بن عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ تم بصرہ کے فقہا میں ہو اورلوگوں کو فتویٰ دیتے ہو،اس کا ہمیشہ خیال رکھنا کہ کبھی نص قرآنی اورسنت کے خلاف فتویٰ نہ دینا ،ورنہ تم خود ہلاک ہوگے اوردوسروں کو ہلاک کرو گے۔ [6] ایوب حیرت آمیز استعجاب کے ساتھ ان کے تفقہ کا ذکر کرتے تھے [7] ایاس بن معاویہ جو بصرہ کے نامور قاضی تھے کہتے تھے کہ جابر کے علاوہ اہل بصرہ کا کوئی حقیقی مفتی نہ تھا (ایضاً) حضرت حسن بصری کی عدم موجودگی میں جابرافتاء میں ان کی قائم مقامی کرتے تھے۔ [8] جابر ایک مرتبہ کسی سلسلہ میں قید ہو گئے تھے،قیاس یہ ہے کہ حجاج کے زمانہ میں جبکہ بہت سے صلحاء اخیار امت قید وبند کا شکار ہوئے تھے ،جابر بھی اس کے مظالم کا نشانہ بنے ہوں گے، اہل بصرہ کو ان کے علم پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ قید کی حالت میں بھی انہی کی طرف رجوع کرتے تھے،قتادہ کا بیان ہے کہ جابر بن زید قید کیے گئے تھے،لوگوں نے خنثی کی میراث کی بارہ میں ان کے پاس استفتاء بھیجا، انھوں نے کہا تم لوگ بھی خوب ہو مجھ کو قید کرتے ہو اورپھر مجھ ہی سے فتویٰ پوچھتے ہو یہ جتا کر فتویٰ کا جواب دیا۔ [9]

جامعیت[ترمیم]

جابر کی شخصیت جامع العلم تھی،وہ اپنے عہد کے بہت بڑے عالم تھے،عمروبن دینار کہتے تھے کہ میں نے ابوالشعثاء سے زیادہ جاننے والا نہیں دیکھا [10] ان کی موت کے وقت قتادہ کی زبان پر یہ جملہ تھا کہ آج روئے زمین کا علم و فن ہو گیا۔ [11]

کتابت پسند نہ تھی[ترمیم]

اس عہد کے بعض بزرگوں کی طرح جابر بھی علم کو قلم بند کرنا پسند نہ کرتے تھے عمرو بن دینار بیان کرتے ہیں کہ جابر بن زید سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگ آپ سے جو سنتے ہیں اس کو لکھ لیتے ہیں،انھوں نے یہ سن کر کہا انا للہ وہ لوگ لکھ لیتے ہیں،ان کی ناپسندیدگی دیکھ کر ان کے بعض تلامذہ نے لکھنا ترک کر دیا۔ [12]

فضائل اخلاق[ترمیم]

اس علم کے ساتھ وہ فضائل اخلاق سے بھی آراستہ تھے عمل خیر کے مقابلہ میں دنیا کی نعمت کو کوئی وقعت نہ دیتے تھے،فرماتے تھے کہ ساٹھ برس کی عمر ہونے کو آئی ،اس طویل مدت میں بہت کچھ ملا اور خدانے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ،لیکن اس خیر کے علاوہ جسے میں نے کیا ہے باقی اورتمام نعمتیں میرے نزدیک جوتے سے بھی فروتر ہیں۔ [13] دولت کے مقابلہ میں بھی ان سے لغزش نہ ہوتی تھی محمد بن حسین کہتے تھے کہ خدا جابر پر رحم کرے وہ درہم کے مقابلہ میں بھی مسلمان تھے۔ [14]

ایک الزام سے برات[ترمیم]

جابر کے پاس فرقہ اباضیہ (خارجی فرقہ کی ایک شاخ) کے افراد کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے بعض لوگوں کو یہ گمان پیدا ہو گیا تھا کہ وہ بھی اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا کم از کم ان کے خیالات سے متاثر ہیں،لیکن اس کی کوئی اصلیت نہ تھی،وہ اباضیہ سے ملتے جلتے ضرور تھے ؛لیکن ان کے خیالات سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا اورانہوں نے بارہا اپنی زندگی میں اورآخروقت مرض الموت میں اباضیہ کے عقائد سے اپنی برأت ظاہر کی ،جب اُن کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو ثابت البنائی نے پوچھا کہ آپ کی کوئی خواہش ہے ،کہا حسن بصری کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں،اس وقت وہ (غالباً حکومت) کے خوف سے ابی خلیفہ کے گھر میں روپوش تھے،ان کو جابر کی خواہش کی اطلاع دی گئی،وہ فوراً آنے کے لیے آمادہ ہو گئے،ثابت نے روکا کہ پکڑ جانے کا خوف ہے،آپ نے جواب دیا خدا مجھ کو دشمنوں کی نظر سے بچائے گا؛چنانچہ اسی وقت جابر کے پاس پہنچے ،جابر میں اٹھنے کی طاقت نہ تھی دوسرے کا سہارا لے کر اٹھے حسن ؓ بصری نے انھیں کلمہ طیبہ پڑھنے کی تلقین کی ،انھوں نے کلام دوسرے کا سہارا لے کر اٹھے حسن بصری نے انھیں کلمہ طیبہ پڑھنے کی تلقین کی انھوں نے کلام اللہ کی آیات تلاوت کیں ،حسن بصری نے دم آخر اباضیہ کے مسئلہ کو صاف کرنے کے لیے پوچھا اباضیہ تم سے دوستی رکھتے ہیں،جابرنے کہا میں خدا سے ان سے برأت چاہتا ہوں،حسن بصری نے سوال کیا،نہروانیوں کے بارہ میں تمھارا کیا خیال ہے،جابر نے ان سے بھی برأت ظاہری کی،جابر کی حالت بہت نازک تھی،اس لیے حسن بصری صبح تک انھیں رخصت کرنے کا انتظار کرتے رہے،لیکن ابھی وقت موعود پورا نہیں ہوا تھا اس لیے صبح کے آثار نمودار ہونے کے بعد نماز جنازہ کے طور پر چار تکبیریں کہہ کے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی اورصبح ہونے سے پہلے اپنے قیام گاہ لوٹ گئے۔ [15]

وفات[ترمیم]

اسی بیماری میں 103 میں وفات پائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب الاسماءایضاً)
  2. (تہذیب الاسماء:ج اول،ق اول ص:142)
  3. (تہذیب التہذیب :2/38)
  4. (ایضاً:2/38)
  5. (تہذیب الاسماء،ج اول، ق اول :142)
  6. (تذکرہ الحفاظ ،جلد اول،ص:62)
  7. (ابن سعد،جلد7،ق1،ص131)
  8. (تہذیب التہذیب:2/38)
  9. (ابن سعد،جلد7،ق اول،ص:131)
  10. (ایضاً)
  11. (تذکرہ الحفاظ:1/62)
  12. (ابن سعد،جلد7،ق اول،ص121)
  13. (ابن سعد ایضاً)
  14. (ابن سعد ایضاً)
  15. (ابن سعد،جلد ،ق اول،ص:32)