جابر بن عبد اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جابر بن عبد اللہ انصاری
کنیت: ابو عبد اللہ
جابر بن عبد اللہ
معلومات شخصیت
پیدائشی نام جابر بن عبد اللہ
پیدائش سنہ 607ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 697ء (89–90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو عبد اللہ
طبی کیفیت اندھا پن  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ نسیبہ بنت عقبہ عدی  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نسب السَلَمی الخزرجی الانصاری
تعداد روایات 1540 حدیث
پیشہ فوجی افسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ(16ق.ھ / 74ھ) انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ ہجرتِ مدینہ سے 16 سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے وقت آپؓ اپنے والد حضرت عبد اللہ انصاریؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد بنو حرام کے نقیب مقرر ہوئے۔ آپؓ کے والد غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے اور اُن کا مثلہ کیا گیا۔ اس پر حضور اقدس نے حضرت جابرؓ بن عبد اللہ سے فرمایا: ’’جابر! تیرے والد سے اللہ تعالیٰ نے بالمشافہ کلام کیا، جب کہ باقیوں سے پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے‘‘۔ آپؓ کا گھر مسجدِ نبویؐ سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ آپؐ تمام نمازیں مسجدِ نبویؐ میں ادا کرتے تھے۔ آپؓ اپنے والد کی غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں شرکت کی وجہ سے خود ان غزوات میں شریک نہ ہو سکے تھے، لیکن اس کے بعد 19 کے قریب تمام بڑے غزوات میں نبی پاک کے ساتھ شریک رہے۔ آپؓ نے بڑی عمر کی بیوہ سے شادی کی، تاکہ آپؓ کی 9 چھوٹی بہنوں کی تربیت و اُمورِ خانہ داری قائم رہ سکیں۔حضرت جابرؓ نے غزوۂ خندق کے موقع پر آپ کی دعوت کی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اعلان کرا دیا کہ جابر کے ہاں تمام اہلِ خندق کی دعوت ہے۔ چناں چہ اس موقع پر آپؐ کی برکت سے چند افراد کا کھانا 1400 صحابہ کرامؓ نے کھایا۔ ایک موقع پر آپؐ نے 25 بار حضرت جابرؓ کے لیے استغفار کی دعا پڑھی۔ آپؐ کو اگر قرض کی ضرورت پڑتی تو آپؐ حضرت جابرؓ سے قرض بھی لے لیتے تھے۔ حضرت جابرؓ سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں، جن میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی، یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم) حضرت جابرؓبن عبد اللہ نے حضرت عبد اللہ بن انیسؓ سے حدیث مبارک سیکھنے کے لیے شام اور حضرت مسلمہ بن مخلدؓ سے سننے کے لیے مصر کا طویل سفر کیا۔ حضرت جابرؓ نے طویل عمر پائی اور علومِ نبوت کا شوق تعلیم و تعلّم اور عملی میدانوں میں مسلسل جدو جہد کی صحبتِ نبویؐ کی فیض یابی کے ساتھ اجلہ صحابہ کرامؓ سے کسبِ فیض کیا اور مسجدِ نبویؐ میں اپنے حلقۂ درس سے ہزاروں طالبینِ علوم کو سیراب کیا۔ آپؓ تفسیر، حدیث اور فقہِ دین میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے۔ آپؓ نے خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بھی مختلف سماجی ذمہ داریوں پر فائز رہ کر بھر پور کردار ادا کیا۔ تابعینؒ کے ہر طبقے نے آپؓ سے کسبِ فیض کیا ہے۔ 74ھ ہجری کے آخر میں آپؓ نے مدینہ طیبہ میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کے صاحبزادے نے پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

نسب اور کنیت[ترمیم]

جابر نام ، ابو عبد اللہ کنیت ،قبیلہ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے، جابر بن عبد اللہ بن عمرو بن حرام بن کعب بن غنم بن سلمہ،والدہ کا نام نسیبہ تھا، جن کا سلسلۂ نسب حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کے آبائی سلسلہ میں زید بن حرام سے مل جاتا ہے۔ سلمہ کی اولاد اگرچہ حرہ اور مسجد قبلتین تک پھیلی ہوئی ہے،لیکن خاص بنو حرام قبرستان اور ایک چھوٹی مسجد کے درمیان آباد تھے۔ حضرت جابرؓبن عبد اللہ کے دادا (عمرو) اپنے خاندان کے رئیس تھے، عین الارزق (ایک چشمہ ہے) جس کو مروان بن حکم نے اموی امیر معاویہؓ کے عہد میں درست کرایا تھا، انہی کی ملکیت تھا، بنو سلمہ کے بعض حصے، قلعے اور جابر بن عتیک کے قریب کے قلعے ان کے تحت و تصرف میں تھے۔ عمرو کے بعد یہ چیزیں عبد اللہ کے قبضہ میں آئیں، حضرت جابرؓ بن عبدااللہ انہی عبد اللہ کے فرزند ہیں جو تقریبا 611ء (مطابق 34 عام الفیل) میں ہجرت سے 20 سال قبل تولد ہوئے تھے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ کے والد ہجرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے مسلمان ہوئے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔ وہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔[2]

جابر بن عبد اللہ کی کنیت ان کے بیٹوں کے ناموں کی مناسبت سے مختلف تاریخی منابع میں مختلف ہے لیکن ان کی صحیح تر کنیت "ابو عبد اللہ" مانی گئی ہے۔[3] [4]

اسلام[ترمیم]

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت عقبہ ثانیہ میں اپنے والد کے ساتھ اسلام لائے اور ان کے والد کو یہ شرف حاصل ہوا کہ بنو حرام کے نقیب تجویز کیے گئے اس بیعت میں ان کا سن 18 ، 19 سال کا تھا۔

غزوات اور عام حالات[ترمیم]

ان کے والد نے غزوۂ احد میں شہادت حاصل کی کافروں نے مثلہ کر دیا تھا اس لیے جنازہ کپڑوں میں اڑھا کر لایا گیا، حضرت جابرؓ نے کپڑا اٹھا دیا اور دیکھنا چاہا لوگوں نے منع کیا،آنحضرت نے یہ دیکھ کر کپڑا اٹھا دیا ، بہن پاس کھڑی تھیں، بھائی کی حالت دیکھ کر ایک چیخ ماری، آنحضرت نے پوچھا کون ہے؟لوگوں نے کہا ان کی بہن ،فرمایا تم روؤ یا نہ روؤ جب تک جنازہ رکھا رہا ،فرشتے پروں سے سایہ کیے تھے [5] حضرت عبد اللہؓ نے دس لڑکیاں چھوڑیں جو گھر میں بلک رہی تھیں،انھوں نے اپنے بھائی حضرت جابرؓ کے پاس ایک اونٹ بھیجا کہ ابا جان کی لاش گھر لے آئیں اور مقبرہ بنی سلمہ میں دفن کر دیں، وہ تیار ہو گئے،آنحضرت کو خبر ہوئی فرمایا کہ جہاں ان کے دوسرے بھائی شہداء دفن کیے جائیں گے، وہیں وہ بھی دفن ہوں گے ؛چنانچہ احد کے گنج شہیداں میں دفن کیے گئے۔
ان پر قرض بہت تھا، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو اس کے ادا کرنے کی فکر ہوئی، لیکن ادا کہاں سے کرتے؟ کل دو باغ تھے جن کی پوری پیدا وار قرض کو کافی نہ تھی، رسول اللہ کے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور کہا یہودیوں کو بلاکر کچھ کم کرا دیجئے، آپ نے ان لوگوں کو طلب فرماکر حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کا مدعا بیان کیا انھوں نے چھوڑنے سے انکار کیا، پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا دو مرتبہ میں اپنا قرض وصول کرلو، نصف اس سال اور نصف دوسرے سال، وہ لوگ اس پر رضا مند نہ ہوئے، آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو تسکین دی اور فرمایا کہ سنیچر(ہفتہ) کے دن تمھارے ہاں آؤں گا، چنانچہ سنیچر کو صبح کے و قت تشریف لے گئے، پانی کے پاس بیٹھ کر وضو کیا،مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر خیمہ میں آکر متمکن ہوئے، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ صدیق و حضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے، تقسیم کا وقت آیا تو ارشاد ہوا کہ چھوہاروں کو قسم دار الگ کرکے خبر کرنا، چنانچہ آپ کو خبر کی گئی ،آپ تشریف لائے اور ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے،حضرت جابرؓ بن عبد اللہ نے بانٹنا شروع کیا اور آپ دعا کرتے رہے، خدا کی قدرت کہ قرض ادا ہونے کے بعد بھی جو کچھ بچ گیا، حضرت جابرؓ خوشی خوشی آپ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ قرض ادا ہو گیا اور اتنا فاضل ہے، آپ نے خدا کا شکر ادا کیا، حضرت ابوبکرؓ صدیق وحضرت عمرؓ کو بھی بہت مسرت ہوئی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکان لے گئے اور گوشت ،خرما اور پانی پیش کیا، آپ نے فرمایا شاید تم کو معلوم ہے کہ میں گوشت رغبت سے کھاتا ہوں،چلنے کا وقت آیا تو اندر سے آواز آئی کہ مجھ پر اور میرے شوہر پر درود پڑھیے، فرمایا: اللھم صل علیھم [6] والد کی موجودگی تک انھوں نے کسی غزوہ میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم میں ہے کہ انھوں نے غزوہ بدر میں میدان کا عزم کیا، لیکن باپ مانع ہوئے ،احد میں بھی ایسا ہی اتفاق پیش آیا، لیکن باپ احد میں شہید ہو گئے، تو باقی غزوات میں نہایت گرمجوشی سے شرکت کی اور آنحضرت کے ساتھ ان کو 19 غزوات میں شرف شرکت حاصل ہوا، [7] ابتدائی غزوؤں میں والد کے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود میدان میں جانا چاہتے تھے اور گھر میں 9 لڑکیاں تھیں، دونوں کے چلے جانے کے بعد گھر بالکل خالی ہوجاتا، (بخاری کی روایت ہے، 4 لڑکیاں چھوٹی تھیں) تاہم بعض ابتدائی غزوات میں بھی ان کے شریک ہونے کی شہادت ملتی ہے،چنانچہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ بدر کے دن وہ لوگوں کو پانی پلاتے تھے، [8] غزوہ ذات الرقاع میں جو میں ہوا وہ شامل تھے [9] واپسی کے وقت ان کا اونٹ بھاگ گیا تھا، آنحضرت نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ انھوں نے واقعہ بیان کیا آپ نے ایک لکڑی سے مار کر دعا کی اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ تیز رو ہو گیا۔ [10]
اسی سنہ میں خندق کا معرکہ پیش آیا، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ خندق کھود رہے تھے،اسی اثنا میں رسول اللہ خود کدال لے کر ایک سخت پتھر کو کھود نے کے لیے تشریف لائے دیکھا تو شکم مبارک پر بھوک کیوجہ سے پتھر بندھا ہوا ہے، [11] یہ دیکھ کر آنحضرت سے اجازت لے کر گھر پہنچے اور بیوی سے کہا کہ آج ایسی بات دیکھی جس پر صبر نہیں ہو سکتا کچھ ہو تو پکاؤ اور خود ہی ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے آنحضرت کی خد مت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے ہاں چل کر ما حضر تناول فرمائیے،سروردوعالمؓ کے کاشانہ میں تین روز سے فاقہ تھا، دعوت قبول ہوئی اور عام منادی کرادی کہ جابرؓ نے سب لوگوں کی دعوت کی ہے، حضرت جابرؓ نے انتظام آپ کے اور دو تین آدمیوں کے لیے کیا تھا، اس لیے نہایت تنگ دل ہوئے، مگر ادب سے خاموش رہے ،آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مجمع کو لے کر ان کے مکان تشریف لے گئے ،خود بھی کھانا نوش فرمایا اور لوگوں نے بھی کھایا، (بخاری غزوہ انمار) پھر بھی بچ رہا،آپ نے ان کی بیوی سے فرمایا کہ یہ تم کھاؤ اور لوگوں کے یہاں بھیجو، کیونکہ لوگ بھوک میں مبتلا ہیں۔
میں بنو مصطلق کا غزوہ ہوا ،آنحضرت جب روانگی کے قصد سے اونٹ پر سوار ہوئے اور نماز پڑہنے لگے تو ان کو کسی کام سے بھیجا تھا، جب یہ واپس آئے اس وقت کوچ کا حکم دیا۔ اس غزوہ کے بعد غزوہ انمار واقع ہوا، اس میں بھی حضرت جابرؓ موجود تھے۔ اسی سنہ میں آنحضرت عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے ،1500 جان نثار ہمرکاب تھے،بیعت الرضوان کا مشہور واقعہ اسی میں پیش آیا اور حضرت جابرؓ مشرف بہ بیعت ہوئے، اس میں حضرت عمرؓ رسول اللہ کا اور حضرت جابرؓ حضرت عمرؓ کا بیعت کے وقت ہاتھ پکڑے تھے، آنحضرت نے فرمایا کہ تم لوگ ساری دنیا سے بہتر ہو۔ جب میں ساحل کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، حضرت ابو عبیدہؓ اس کے امیر تھے، اسلام کی تاریخ میں یہ عجیب ابتلا کا وقت تھا؛ لیکن مسلمان اس میں پورے اترے زاد راہ ختم ہو گیا، پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانا شروع کیا، آخر سمندر سے ایک بڑی مچھلی کنارہ پر آئی اور لوگوں نے عطیہ غیبی سمجھ کر نوش جان کیا [12] مچھلی اتنی بڑی تھی کہ سردار لشکر نے اس کی ایک پسلی کھڑی کرائی اور سب سے اونچا اونٹ انتخاب کرکے لایا گیا اور وہ اس کے نیچے سے نکل گیا،[13] حضرت جابرؓ پانچ آدمیوں کے ساتھ اس کی آنکھ کی ہڈی کے حلقہ میں بیٹھ گئے تو کسی کو پتہ بھی نہ لگا، اس مچھلی کا نام عنبر تھا 150 روز تک کھائی گئی کھانے والے 300 تھے۔ [14] اس کے بعد اور بھی غزوات پیش آئے،جن میں ان کی شرکت رہی،حنین اورتبوک میں ان کا نام صراحت سے آیا ہے،حجۃ الوداع میں بھی جو 10ھ میں ہوا، وہ بھی شامل تھے۔ [15] 37ھ میں حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی جنگ میں حضرت جابرؓ ،حضرت علیؓ کی طرف سے جنگ صفین میں جاکر لڑے۔ [16]
میں امیر معاویہؓ کا عامل بسر بن ابی ارطاۃ حجاز ویمن پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے آیا اور مدینہ منورہ میں ایک خطبہ دیا، اس میں اس نے کہا کہ بنو سلمہ کو اس وقت تک امان نہیں مل سکتی جب تک جابرؓ میرے پاس نہ حاضر ہوں، حضرت جابرؓ کو جان کا خوف تھا حضرت ام سلمہؓ (ام المومنین) کے پاس جاکر مشورہ کیا، انھوں نے کہا میں نے اپنے لڑکوں کو بھی بیعت کی رائے دی ہے، تم بھی بیعت کرلو، عرض کیا یہ تو گمراہی پر بیعت ہے،فرمایا مجبوری ہے،لیکن میری رائے یہی ہے، ان کے مشورہ کے مطابق بسر کے پاس آگئے اور امیر معاویہؓ کی خلافت پر بحث کی۔ 74ھ میں حجاج بن یوسف مدینہ کا امیر تھا، اس کے جو روظلم سے صحابہ بھی محفوظ نہ رہے؛ چنانچہ اس نے متعدد صحابہ پر یہ عنایت کی گردنوں پر اور حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کے ہاتھ پر مہر لگوائی۔ [17] [4][18]

اہل و عیال[ترمیم]

حضرت جابرؓ نے اپنے والد کی شہادت کے بعد ایک بیوہ عورت سے نکاح کر لیا تھا، آنحضرت کو معلوم ہوا تو فرمایا، کسی کنواری سے کیا ہوتا کہ وہ تم سے کھیلتی، تم اس سے کھیلتے، عرض کیا کہ بہنیں چھوٹی تھیں، اس لیے ہوشیار عورت کی ضرورت تھی جوان کے کنگھی کرتی،جوئیں دیکھتی ،کپڑے سی کر پہناتی، فرمایا: اصبت ۔ (تم نے ٹھیک کیا) [19] دوسری شادی بنو سلمہ میں کی، اسلام میں عورت کو دیکھ کر شادی کرنے کی اجازت ہے اس لیے پیام کے بعد لڑکی کو چھپ کر دیکھ لیا پھر شادی کی۔ [20] پہلی بیوی کا نام سہیلہ بنت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا، [21] صحابیہ تھیں اور انصار کے قبیلہ ظفر کی لڑکی تھیں دوسری کا ام حارث تھا، وہ محمد بن مسلمہ بن سلمہ کی جو قبیلہ اوس سے تھے اور معزز صحابی تھے، ان کی بیٹی تھیں۔ [22] اولاد کے نام یہ ہیں،عبد الرحمن، [23] عقیل [24] محمد، حمیدہ ،میمونہ ،ام حبیب [25] [26][27]

وفات[ترمیم]

سنہ 74ھ آپ کی زندگی کا اخیر سال تھا، بالکل ضعیف اور ناتواں ہو گئے تھے ،آنکھوں نے الگ جواب دیدیا تھا، عمر 90 سال تک پہنچ چکی تھی،اس پر حکومت کا جبرو تشدد اور بھی وبال جان ہو رہا تھا۔ عقبۂ کبیر کا نورانی منظر جن آنکھوں نے دیکھا تھا،ان میں صرف یہی ایک بزرگ باقی رہ گئے تھے، اس وقت صحابہؓ کرام کے طبقہ میں بھی بہت کم لوگ بقید حیات تھے، اس بنا پر ان کا وجود عالم اسلامی میں بسا غنیمت تھا۔ حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم نے جس سال ان کا زور توڑا،طائر روح نے اسی سال قفسِ عنصری کی تیلیاں توڑیں، انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ حجاج بن یوسف جنازہ نہ پڑھائے، اس لیے حضرت عثمانؓ بن عفان کے بیٹے ابان نے نماز پڑھائی اور بقیع میں دفن کیا۔ تاریخ بخاری میں ہے کہ حجاج بن یوسف جنازہ میں آیا تھا اور تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ نماز پڑھائی تھی۔ [26]

قبر کشائی[ترمیم]

1932ء میں عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں صحابیِ رسول حذیفہ بن یمانی (معروف بہ حذیفہ یمانی) کی زیارت ہوئی جس میں انھوں نے بادشاہ کو کہا کہ اے بادشاہ میری قبر میں دجلہ کا پانی آ گیا ہے اور جابر بن عبد اللہ کی قبر میں دجلہ کا پانی آ رہا ہے چنانچہ ہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ دفن کر دو۔ اس کے بعد ان دونوں اصحابِ رسول کی قبریں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں جن میں مفتیِ اعظم فلسطین، مصر کے شاہ فاروق اول اور دیگر اہم افراد شامل تھے۔ ان دونوں کے اجسام حیرت انگیز طور پر تازہ تھے، جیسے ابھی دفنائے گئے ہوں۔ ان کی کھلی آنکھوں سے ایسی روشنی خارج ہو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی زیارت بھی کروائی گئی جن کے مطابق ان دونوں کے کفن تک سلامت تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ان دونوں اجسام کو سلمان فارسی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی قبر مبارک کے بالکل قریب سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا گیا جو بغداد سے تیس میل کے فاصلے پر ہے۔

حلیہ[ترمیم]

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا،مونچھ خوب کٹی ہوئی، سر اور داڑھی میں زرد خضاب لگاتے تھے آنکھیں اخیر عمر میں جاتی رہی تھیں۔ [28]

مکان[ترمیم]

جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر مسجد نبوی سے ایک میل دور تھا، اس لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔ [29]

رسول اللہ کے ساتھ تعلق[ترمیم]

بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رویہ ہمیشہ شفقت آمیز رہا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق بھی الفت اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیات کے لیے گئے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو گویا اپنی تندرستی سے مایوس ہو چکے تھےـ بہنوں کے درمیان میں اپنے ترکے کی تقسیم کے بارے میں سوالات پوچھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں ایک آیت نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام[30] سے مشہور ہوئی۔[31]

خلفائے ثلاثہ کا دور[ترمیم]

جابر سے خلیفۂ اول کے بارے میں کوئی بات نقل نہیں ہوئی ہے۔ وہ شاید ابتدا میں مدینہ منورہ میں انصار اور مہاجرین کے ہمراہ تھے اور کچھ عرصہ بعد امام علی اور اہل بیت کے حامیوں سے جا ملے تھے۔[32]

خلفائے راشدین، کے دور میں جابر غالبا علمی اور تعلیمی امور میں مصروف تھے اور سیاسی اور عسکری معاملات سے دوری اختیار کرتے تھے۔ انھوں نے اس دور میں صرف ایک عسکری مہم میں شرکت کی جس کا تعلق خلیفۂ ثانی کے دور کے آغاز میں اسلامی فتوحات سے تھا۔

جابر نے ایک روایت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں دمشق کے محاصرے کی روئداد بیان کی ہے جس میں وہ شریک ہوئے تھے۔[33] لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا جابر فتح عراق کے دوران میں بھی خالد کی سپاہ میں تھے یا نہیں۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ ثانی کے دور میں عَریف تھے۔[34] عریف کسی بھی قبیلے کے ایسے فرد کو کہا جاتا تھا جو خلیفہ کی طرف سے اپنے قبیلے کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا جاتا تھا یا قبیلے کے ہاں خلیفہ کا رابط یا نمائندہ ہوتا تھا۔۔

خلیفۂ ثالث کے دور میں جابر کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی خاص اطلاع، تاریخ نے ثبت نہیں کی ہے؛ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب مصری معترضین نے مدینہ کا رخ کیا تو جابر انصار کے دوسرے پچاس افراد کے ہمراہ خلیفہ کی طرف سے متعین ہوئے کہ معترضین کے ساتھ مذاکرات کرکے انہيں مصر کی طرف پلٹا دیں۔[35]

خلافت امام علی کا دور[ترمیم]

وہ جنگ صفین میں امیرالمؤمنین امام علی کی سپاہ میں شامل تھے۔[36]

علی بن ابی طالب کی خلافت کے اواخر میں جب معاویہ کے گماشتوں نے شہروں کو غارت کرنا شروع کیا تو مدینہ بھی اس لوٹ مار اور قتل و غارت سے محفوظ نہ رہا۔ امیر معاویہ کی طرف سے بُسر بن اَرْطاۃ نے سنہ 40 ھ میں مدینہ پر حملہ کیا تو جابر کا قبیلہ یعنی قبیلۂ بنو سَلَمہ بھی اس حملے میں نشانہ بنا اور بسر بن ارطاۃ نے اس قبیلے سے بیعت کا مطالبہ کیا۔

جابر جو بُسر کی بیعت کو گمراہی اور ضلالت سمجھتے تھے، نے ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی اور آخر کار ام سلمہ کے مشورے سے خونریزی کا سد باب کرنے کی غرض سے، بیعت کر لی۔[37]

منبر رسول کی منتقلی[ترمیم]

معاویہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد (سنہ 50 ھ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر کو دمشق منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جابر ان لوگوں میں سے ایک تھے جو معاویہ کے پاس گئے اور اس کو اس عمل سے روکا تو وہ باز رہے۔[38]

جابر کے سفر[ترمیم]

حضرت جابر بن عبد اللہ نے سنہ 50ھ کے عشرے میں مصر کا سفر کیا۔ بعض مصریوں نے ان سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[39] ان دنوں جابر کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا مَسلَمۃ بن مُخَلَّد انصاری، مصر کا والی تھا اور ابن مَنْدَہ، کی روایت کے مطابق جابر نے مسلمہ کے ہمراہ شام اور مصر کا سفر اختیار کیا۔[40]

حدیث کے بعض منابع کے مطابق جابر نے عبداللہ بن أُنَیس سے قصاص کے بارے میں ایک حدیث سننے کی غرض سے شام کا سفر کیا؛[41] جس کی تاریخ نامعلوم ہے۔ وہ امیر معاویہ کے دور میں شام گئے جہاں انھیں معاویہ کی بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جابر ، معاویہ کے اس رویے سے سخت ناراض ہوئے اور مدینہ کی طرف واپس روانہ ہوئے اور معاویہ کی طرف سے 600 دینار کا ہدیہ بھی قبول نہيں کیا۔[42] جابر کے ساتھ معاویہ کے طرز سلوک کو خلیفۂ ثالث کے قتل کے بموجب اہلیان مدینہ کی توہین و تذلیل کی اموی روش کا تسلسل اور حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔

امویوں کی حکومت[ترمیم]

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دور دیکھا تھا اور قرآن و سنت سے واقف تھے چنانچہ وہ امویوں کی بدعتوں اور نہایت بھونڈے اعمال سے آزردہ خاطر تھے اور آروز کرتے تھے کہ کاش سماعت سے محروم ہوتے اور بدعتوں اور دینی اقدار میں تبدیلیوں کی خبریں نہ سنتے۔[43]

سنہ 74ھ میں حجاج بن یوسف (امویوں کی طرف سے ) مدینہ کا والی بنا، [44] اور ہر طرف اس کی گستاخیوں کا چرچا تھا۔ جہاں تک ممکن تھا اس نے مدنی عوام اور بزرگوں کی توہین کی اور جابر سمیت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر غلاموں کے طرح داغ لگا دیے۔[45] اس کے باوجود جابر نے اپنے رویے میں تبدیلی کے سوا حجاج کے اس عمل پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کیا۔[46] اور وصیت کی کہ حجاج ان کی نماز جنازہ نہ پڑھائے۔[47]

حدیث میں جابر کا کردار[ترمیم]

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بکثرت حدیثیں نقل کی ہیں۔[48] حدیث و روایت اور سیرت و تاریخ کی کتب میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایات سے بکثرت استناد ہوا ہے اور ان کی منقولہ روایات اسلامی مذاہب کے ہاں قابل توجہ ہیں۔ جابر بن عبد اللہ فقہی احکام میں صاحب رائے تھے اور فتوی دیا کرتے تھے۔[49] چنانچہ ذہبی [50] نے انھیں صاحب فتوی مجتہد اور فقیہ کا خطاب دیا ہے۔

جابر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایت کی ہے۔حضرت علی بن ابی طالب، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل اور ابو سعید خدری جیسے صحابہ سے جابر نے روایت کی ہے۔[51]

جابر بن عبد اللہ اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہ راست حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سننے کے لیے عازمِ شام ہوئے۔[52]

اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔[53] وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے اور احادیث اور روایات نقل کرنے میں قبائلی مسابقتوں سے پ رہی ز کرتے تھے؛ مثال کے طور پر وہ خود خزرجی تھے لیکن اس بات کے معترف تھے کہ خزرجی راویوں نے بنو قریظہ کے فیصلے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس کلام میں تحریف کی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن مُعاذ کے حق میں ادا کیے تھے؛ صرف اس لیے کہ سعد بن مُعاذ قبیلۂ اوس کے زعیم تھے۔[54]

امام باقر، نیز امام صادق اور امام کاظم نے امام باقر کے حوالے سے، چند احادیث نبوی جابر سے نقل کی ہیں۔[55] [56]

جابر کا حلقۂ درس[ترمیم]

جابر نے مسجد نبوی میں اپنا حلقۂ درس دائر کیا تھا جہاں وہ حدیثیں املا کرتے اور لکھواتے تھے اور تابعین کی ایک جماعت ان سے علم حاصل کرتے اور حدیثیں لکھتے تھے۔[57]

جابر سے بڑی تعداد میں راویوں نے حدیثیں نقل کی ہیں جن میں سعید بن مُسیب، حسن بن محمد بن حنفیہ، عطاء بن ابی رباح، مجاہد بن جَبر، عمرو بن دینار مکی، عامر بن شراحیل شعبی اور حسن بصری سر فہرست ہیں۔[58] [59]

مفتیِ مدینہ[ترمیم]

الطبقات الکبیر میں ابن سعد کی درجہ بندی کے مطابق جابر کو مفتی اصحاب اور مقتدی یا اہل العلم والفتوی کے زمرے میں قرار نہیں دیا گیا ہے تاہم ذہبی نے انھیں مفتی مدینہ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔

موسی بن علی بن محمد امیر نے جابر بن عبد اللہ کی فقہی آراء کو مختلف منابع سے اخذ کر کے ایک جامع تحقیق کے طور پر مرتب کر کے ایک کتاب جابر بن عبد اللہ و فقہہ کے نام سے زیور طبع سے آراستہ کی ہے۔[60]

امامیہ منابع میں[ترمیم]

امامیہ کے رجالی منابع میں جابر کی شخصیت کو محترم اور قابل احترام قرار دیا گیا ہے۔ وہ ائمہ، (امام علی سے امام باقر، تک) کے اصحاب میں شمار کیے گئے ہیں۔[61]

تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ جابر امام سجاد کے دور میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جبکہ امام باقر ابھی لڑکپن یا نوجوانی کی عمر میں تھے چنانچہ انہيں امام باقرکے اصحاب میں شمار نہيں کیا جا سکتا۔[62]

بعض رجالی منابع میں جابر کی شہرت اور ان کی مدح میں منقولہ روایات کے پیش نظر، تاکید ہوئی ہے کہ "جابر کے لیے کسی توثیق کی ضرورت نہیں ہے"۔[63] گوکہ جابر سقیفہ کے واقعے میں امیرالمؤمنین کے ساتھیوں میں سے نہ تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اہل بیت علیہم السلام کے سچے، وفادار اور مخلص اصحاب و انصار کے زمرے میں قرار پائے۔[64] کَشّی، [65] نے جابر کو علی بن ابی طالب کے فدائیوں کے گروہ میں شمار کیا ہے جو ہمیشہ علی کے تابع اور گوش بہ فرمان تھے اس گروہ کو ‌شرطۃ الخمیس‌ کہا جاتا ہے۔[66]

محبت اہل بیت[ترمیم]

جابر بن عبد اللہ کی نگاہ میں علی بن ابی طالب اس قدر بلند مقام و مرتبے کے مالک تھے جنہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں میزان حق سمجھا جاتا تھا اور آپ کے ساتھ بغض اور دشمنی، منافقین کی شناخت کا ذریعہ تھی۔۔[67][68] جابر مدینہ کی گلیوں سے گذرتے تھے اور انصار کی مجالس میں شرکت کرتے تھے اور انھیں نصیحت کرتے تھے کہ اپنے فرزندوں کی تربیت حب علی بن ابی طالب کے ساتھ کیا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ "جو شخص امیر المومنین علی کو اللہ کی برتر مخلوق نہ سمجھے وہ ناشکری کا مرتکب ہوا ہے"[69] جابر کا یہ کلام کہ "علی خیر البشر ہیں" جعفر بن احمد قمی نامی شیعہ مؤلف کی کتاب نوادر الاثر فی علی خیر البشر کا عنوان ٹہرا۔ قمی نے اس کتاب کی ایک تہائی روایات جابر سے نقل کی ہیں۔[70]

امام باقرکی ملاقات[ترمیم]

محمد باقر کے ساتھ جابر کی ملاقات کا واقعہ بہت سے مآخذ و مصادر میں نقل ہوا ہے۔۔۔۔۔[71] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: "اے جابر! تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے میرے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوگا؛ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے (یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیئے کا حق ہے)، پس میرا سلام انھیں پہنچا دو[72][73] جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سلام انھیں پہنچایا۔[74][75][76]

کثیر احادیث کی روایت[ترمیم]

آپ سے 1500 سے زائد احادیث روایت کی گئی ہیں۔ آپ ان کو مدینہ میں مسجد نبوی میں اور مصر و دمشق میں بیان کیا کرتے تھے۔

اہل سنت کے منابع حدیث کے ذریعے منقولہ مسند جابر، 1540 احادیث پر مشتمل ہے جن میں سے 58 حدیثیں بخاری اور مسلم کے ہاں متفق علیہ ہیں۔[34] احمد بن حنبل نے جابر کی حدیثیں اپنی مسند میں [77] جمع کی ہیں۔ مسند جابر بن عبداللہ بروایت ابو عبدالرحمن بن احمد بن محمد بن حنبل، مراکش کے خزانۃ الرباط میں موجود ہے[78] جو غالبا مسند احمد بن حنبل میں منقولہ جابر بن عبد اللہ کی روایات پر مشتمل ہے۔ حسین واثقی نے بھی جابر کی روایات شیعہ کتب حدیث سے جمع کرکے اپنی کتاب جابر بن عبداللہ الانصاری حیاتہ و مسندہ میں شائع کی ہیں۔

اہم ترین کاوش جو منابع میں جابر سے منسوب کی گئی ہے صحیفۂ جابر ہے۔ یہ صحیفہ ـ جو تدوین حدیث کی قدیم ترین صورت ہے ـ سلیمان بن قیس یشْکری نے تالیف کیا ہے لیکن بعد کے راویوں نے ـ سلیمان کی اچانک وفات کی وجہ سے ـ یہ حدیثیں سماع اور قرائت کے بغیر مذکورہ صحیفے سے نقل کی ہیں۔[79] اس صحیفے کا ایک نسخہ استنبول کے مجموعے شہید علی پاشا میں موجود ہے۔[80]

حدیث کا ادب[ترمیم]

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

مجھے ایک صاحب کے متعلق اطلاع ملی کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے۔ میں نے فوراً ایک اونٹ خریدا، اس پر کجاوہ کسا اور ان صاحب کی طرف ایک ماہ کا سفر طے کر کے سیدھا ملک شام پہنچا۔ یہ صاحب عبداللہ بن انیس تھے۔ میں نے ان کے دربان سے کہا، جاکر کہو کہ جابر دروازے پر کھڑا ہے۔

انھوں نے سنتے ہی پوچھا "کیا جابر بن عبد اللہ؟"

میں نے کہا کہ "ہاں"

وہ فوراً باہر آ گئے اور گلے ملے، میں نے کہا مجھے ایک حدیث کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ آپ نے اسے آنحضرت سے سنا ہے، میں ڈرا کہ کہیں مجھے موت آجائے اور میں اس حدیث کے علم سے محروم رہ جاؤں۔ یہ سن کرعبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کردی۔[81]


علم و فضل[ترمیم]

تحصیل کی ابتدا سر چشمہ وحی سے ہوئی، لیکن تربیت یافتگان نبوت میں جو لوگ علوم وفنون کے مرکز تھے، ان کے حلقوں سے بھی استفادہ کیا، حضرت ابوبکرؓ صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت ابو عبید بن جراح، حضرت طلحہؓ، حضرت معاذ ؓ بن جبل، عمارؓ، خالد بن ولیدؓ، حضرت ابو بردہؓ بن نیار، ابو قتادہؓ، ابو سعید خدریؓ، ابو حمید ساعدی، عبد اللہ بن انیسؓ، ام شریکؓ، ام مالکؓ، ام مبشرؓ، ام کلثومؓ بنت ابوبکر صدیقؓ، (تابعیہ تھیں) سب کے سب ان کے اساتذہ میں داخل ہیں۔ حدیث کا یہ شوق تھا کہ ایک ایک حدیث سننے کے لیے مہینوں کی مسافت کا سفر کرتے تھے، عبد اللہ بن انیس کے پاس ایک حدیث تھی، وہ شام میں رہتے تھے، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو معلوم ہوا، تو ایک اونٹ خریدا اور ان کے پاس جاکر کہا کہ وہ حدیث بیان کیجئے میں نے اس لیے عجلت کی کہ شاید میرا خاتمہ ہو جاتا اور حدیث سننے سے رہجاتی۔ [82] اسی طریقہ سے مسلمہ بن مخلد امیر مصر سے حدیث سننے کے لیے مصر کا سفر کیا اور حدیث کی اجازت لی،اس سفر کا تذکرہ طبرانی میں موجود ہے۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد مسند درس پر جلوہ فرما ہوئے ،حلقہ درس مسجد نبوی میں قائم تھا، شائقین مقامات بعیدہ سے آتے تھے ،مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، یمن ،کوفہ، بصرہ، مصر میں ان کا دریائے فیض رواں تھا۔ کمالات کے مظہر تفسیر وحدیث و فقہ کے فن تھے، تفسیر میں اگرچہ روایتیں زیادہ نہیں،تاہم معتدبہ ہیں، لوگوں میں درود کے معنی میں اختلاف تھا، بعض کہتے تھے کہ مسلمان جہنم میں داخل نہ ہوگا، بعض کا خیال تھا کہ سب جائیں گے، مگر مسلمان کو نجات مل جائے گی، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ،فرمایا:نیک وبد سب جہنم میں داخل ہوں گے؛لیکن اچھوں پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوگا، پھر متقیوں کو نجات ملے گی اور ظالم اس میں رہ جائیں گے۔ [83]

طلق بن حبیب کو شفاعت کا انکار تھا،انھوں نے حضرت جابرؓ بن عبد اللہ سے مناظرہ کیا اور خلو دفی النار کے متعلق جتنی آیتیں قرآن میں ہیں، سب پڑھیں، حضرت جابرؓ نے فرمایا، شاید تم اپنے کو مجھ سے زیادہ قرآن و حدیث کا عالم جانتے ہو ،انھوں نے کہا استغفراللہ میرا خیال بھی نہیں ہو سکتا ،ارشاد ہوا تو سنو! یہ آیتیں مشرکین کے متعلق ہیں جو لوگ عذاب دینے کے بعد نکال لیے گئے،ان کا اس میں ذکرنہیں ،لیکن رسول اللہ نے حدیث میں اس کو بیان فرمایا ہے۔ حدیث ان کی تمام کوششوں کا جولانگاہ ہے،اشاعت حدیث ان کی زندگی کا اہم مقصد رہا ،باایں ہمہ کہ کثیرالروایات تھے اور ان کی مرویات 540 تک پہنچتی ہیں،بیان حدیث میں نہایت احتیاط وحزم سے کام لیتے تھے، ایک حدیث بیان کی سمعت کا لفظ بولنا چاہتے تھے کہ رک گئے اور اپنے اوپر موقوف کردی،اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو الفاظ پر اطمینان نہ ہو سکا۔ تلامذہ حدیث کا شمار طوالت سے خالی نہیں، تابعین کا ہر طبقہ ان کے خرمن فیض کا خوشہ چین ہے،لیکن خاص شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں: امام محمد باقرؓ، محمد بن منکدر، سعد بن میناء، سعید ابی بلال، عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری، محمد بن عمرو حسینؓ، حسن بن محمد حنفیہ وغیرہم۔ فقہ بھی ان کی علمی موشگافیوں کا مظہر ہے، وہ مسائل و فتاویٰ جو وقتاً فوقتاً پوچھے گئے اور انھوں نے جو جوابات دیے اگر وہ جمع کیے جائیں تو ایک مختصر رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ [4][84] [85]

اخلاق و عادات[ترمیم]

اقامۃ حدود اللہ،جوشِ ایمان، اورجرأت اظہار حق ،امر بالمعروف، مؤدت رسول، اتباع ِسنت ورفق بین المسلمین، اخلاق کی بیخ و بنیاد ہیں اور قدرت نے حضرت جابرؓ کو نہایت فیاضی سے ان تمام چیزوں سے حصہ دیا تھا۔ اقامت حدود اللہ، ہر مسلمان کا فرض ہے، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو اس میں یگانہ وبیگانہ کافرق وامتیاز روک نہ سکتا تھا، حضرت ماعز بنؓ اسلمی جو مدینہ کے باشندے اور اصحاب پاک میں داخل تھے،ان کی حد رجم کے موقع پر خود جاکر اپنے ہاتھ سے ان کو پتھر مارے تھے۔ [86] اظہا حق میں کسی کی وجاہت خلل انداز نہ ہو سکتی۔ حضرت سعد بن معاذ انصاری،قبیلہ اوس کے سردار اور بڑے رتبہ کے صحابی تھے ان کا انتقال ہوا تو آنحضرت نے فرمایا کہ آج عرش اعظم جنبش میں آگیا ہے ،حضرت براء بن عازب ؓ کو یہ حدیث معلوم تھی،لیکن وہ عرش رحمن کی بجائے صرف سریر کہتے تھے جس سے جنازہ کا ہلنا مراد ہے، حضرت جابرؓ سے لوگوں نے براؓء کا قول نقل کیا ،فرمایا کہ حدیث تو یہی ہے جو میں نے بیان کی، باقی براء کا قول تو وہ باہمی بغض و عداوت وکینہ توزی کا نتیجہ اور اثر ہے، اوس اور خزرج میں اسلام سے پہلے سخت مخاصمت تھی۔ [87]

اس واقعہ کا یہ پہلو بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت جابرؓ قبیلۂ بنو خزرج سے تھے اس بنا پر ان کو خزرجیوں کا ہم آہنگ و ہمنوا ہونا چاہیے تھے۔ حجاج بن یوسف جب مدینہ کا امیر ہوکر آیا تو اس نے اوقات نماز میں کچھ تقدیم وتاخیر کی، لوگ ان کے پاس دوڑے ہوئے آئے فرمایا کہ آنحضرت ظہر کی نماز دوپہر کے بعد، عصر کی آفتاب کے صاف اور روشن ہونے تک، مغرب کی وقت غروب ،فجر کی تاریکی میں پڑہتے تھے اور عشاء کے وقت لوگوں کا انتظار ہوتا تھا، اگر جلد مجمع ہو گیا تو جلد پڑہتے تھے ورنہ دیر میں۔ [88] ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن جابرؓ نے تین برس کے لیے اپنی زمین کا پھل فروخت کر دیا ان کو خبر ہوئی تو کچھ لوگوں کو لے کر مسجد آئے اور سب کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، جب تک پھل کھانے کے قابل نہ ہو جائیں، ان کا فروخت کرنا جائز نہیں۔ [89] (پھر نکلنے سے قبل کیونکر جائز ہو سکتا ہے) ایک مرتبہ ایک سر گروہ فتنۂ وفساد مدینہ آیا، لوگوں نے حضرت جابرؓ کو گھیرا کہ اس کو شر سے باز رکھیے، اس زمانہ میں وہ بینائی سے محروم ہو چکے تھے اپنے دو بیٹوں کو بلایا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نکلے اور کہا کہ خدا اس کو ہلاک کرے جس نے رسول اللہ کو خوف میں ڈال رکھا ہے،بیٹوں نے عرض کیا رسول اللہ تو وفات پاچکے ہیں، اب ان کو خوف کیسا؟ فرمایا آنحضرت کا ارشاد مبارک ہے جس نے اہل مدینہ کو ڈرایا،گویا خود مجھے ڈرایا۔ آپ اتباع رسول کے ولولہ میں ان مور میں بھی آپ کی اقتدا کرتے تھے جنہیں آپ کی تقلید ضروری نہیں ہے، آنحضرت کو ایک مرتب صرف ایک کپڑا اوڑھے نماز پڑہتے دیکھا تھا اس لیے خود بھی اسی طرح نماز پڑھی ،شاگردوں نے کہا کہ آپ کے پاس چادر رکھی تھی اس کو کیوں نہ اوڑھ لیا کہ ازار اورچادر دوکپڑے ہو جاتے ،فرمایا اس لیے کہ تم جیسے بے وقوف رسول اللہ کی اس رخصت کو دیکھیں اور اعتراض کریں۔ [90]

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد فتح میں تین روز (پیر ، منگل ، بدھ) دعا مانگی تھی تیسرے دن نماز کے اندر قبول ہوئی تو چہرہ مبارک پر بشارت کی موجیں نور بن کر دوڑ گئیں، حضرت جابرؓ نے یہ واقعہ دیکھا تھا،چنانچہ جب کوئی مشکل آپڑتی تو اس خاص وقت میں وہاں جاکر دعا کرتے اور قبولیت واجابت کا مژدہ ساتھ لاتے تھے۔ [91] غزوات نبویﷺ میں انھوں نے سر فروشی اور فداکاری کا علانیہ ثبوت دیا اور غزوہ ٔحدیبیہ یا مشہد بیعت الرضوان میں جس قوت نے کام کیا تھا اس کا اقرار خود مصحف ناطق میں کیا گیا ہے۔ حب رسول ﷺ کے مناظر یہ ہیں: غزوۂ خندق میں تمام لشکر بے آب ودانہ تھا اور سید کونین 3 دن فاقہ سے رہے اور پیٹ پر پتھر باندھ کر مہمات جنگ میں مصروف تھے،آقا کو اس حالت میں دیکھا تو کام چھوڑ کر مکان گئے اور دعوت کا انتظام کیا۔ [92] ایک مرتبہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اعلیٰ قسم کے چھوہارے جن میں گٹھلی نہ تھی پیش کیے، آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں گوشت سمجھا تھا، اسی وقت گھر جاکر بیوی سے کہا ،انھوں نے بکری ذبح کرکے گوشت پکا دیا۔ [93] ایک روز آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے، آپ رضی اللہ عنہ کی عادت معلوم تھی،اٹھے اور ایک فربہ بکری کا بچہ ذبح کیا، وہ چلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا نسل اور دودھ کیوں قطع کرتے ہو؟ عرض کیا ابھی بچہ ہے چھوہارے کھاکر اتنی موٹی ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت سامنے سے گذرے ،یہ ڈھال میں چھوہارے لیے تھے شرکت کی دعوت دی،آپ ﷺ نے قبول فرمائی۔ [94] حدیبیہ سے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلے، سقیا میں قیام ہوا، پانی موجود نہ تھا، حضرت معاذ بن جبلؓ کی زبان سے نکلا کہ کوئی پانی پلاتا، حضرت جابرؓ چند انصار کو لے کر پانی کی تلاش میں روانہ ہوئے 23 میل چل کر اثایہ میں پانی ملا وہاں سے مشکوں میں بھر کر لائے، عشاء کے بعد دیکھا تو ایک شخص اونٹ پر سوار حوض کی طرف جارہا ہے، یہ آنحضرت تھے بڑھ کر مہار تھام لی اونٹ کو بٹھایا ،آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتر کر نماز پڑھی خود بھی پہلو میں کھڑے ہوکر نماز میں شریک ہوئے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ گھوڑے سے گر پڑے تھے وہ عیادت کو آئے، رسول اللہ ﷺ کو کبھی قرض کی ضرورت ہوتی تو ان سے لیتے تھے ؛چنانچہ ایک مرتبہ قرض لیا تھا اور ادائیگی کے وقت بطور اظہار خوشنودی کچھ زیادہ دیا۔ [95]

رسول اللہ کو بھی ان سے بہت محبت تھی، ایک واقعہ میں ان کے لیے 25 مرتبہ استغفار فرمایا تھا، ایک مرتبہ بیمار پڑے تو خود عیادت کے لیے تشریف لائے، حضرت جابرؓ بے ہوش تھے، آپ ﷺ نے وضو کرکے پانی کے چھینٹے دیے تو ہوش آیا اس وقت تک ان کے کوئی اولاد نہ تھی، باپ بھی فوت ہو چکے تھے، شریعت میں ایسے شخص کے وارث کو کلالہ کہتے ہیں؛ چونکہ زندگی سے ناامید ہو چکے تھے، عرض کیا کہ میں مرگیا تو کلالہ وارث ہوگا، فرمائیے میراث کیونکر تقسیم کروں ؟ کیا دو ثلث بہنوں کو دیدوں؟ فرمایا اچھا ہے دیدو، عرض کیا خواہ نصف؟ فرمایا ہاں، یہ کہہ کر باہر تشریف لائے،پھر واپس ہوئے اور آکر کہا جابر بن عبد اللہ! تم اس مرض میں نہ مروگے تمھارے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ [96] تم سے (اے پیغمبر) لوگ کلالہ کے بارہ میں استفسار کرتے ہیں کہو کہ خدا کا اس کے متعلق یہ فتویٰ ہے۔ تم بہنوں کو دو ثلث دے سکتے ہو۔ کہیں دعوت ہوتی تو ساتھ لیجاتے کبھی خود اپنے ساتھ مکان پر لاتے اور کھانا کھلاتے ایک روز وہ اپنے گھر کی دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے، رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے سے گذرے، یہ دوڑ کر ساتھ ہولئے ادب کے خیال سے پیچھے چل رہے تھے، فرمایا پاس آجاؤ، ان کا ہاتھ پکڑ کر کاشانہ اقدس پر لائے اور پردہ گرا کر اندر بلایا اندر سے 3 ٹکیاں اور سرکہ ایک صاف کپڑے پر رکھ کر آیا، آپ نے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی تقسیم کی اور فرمایا سرکہ بہت عمدہ سالن ہے،جابرؓ کہتے ہیں کہ اس دن سے سرکہ کو میں نہایت محبوب رکھتا ہوں۔ [97] کچھ اس واقعہ پر موقوف نہیں نوازشات خاصہ ہر صورت میں ہوتی رہتی تھیں، غزوہ ذات الرقاع میں حضرت جابرؓ نہایت عمدہ اونٹ پر سوار تھے جو اپنی تیز رفتاری میں تمام اونٹوں سے آگے تھا، چلتے چلتے یکا یک رک گیا[98] پیچھے سے آواز آئی کیا ہوا، یہ آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تھے،تشریف لائے اور ایک کوڑا مارا اونٹ پھر تیز ہو گیا۔ اور ان کو لے اڑا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو، عرض کیا حاضر ہے، لیکن قیمت کی ضرورت نہیں، فرمایا نہیں قیمت دیجائے گی[99] درخواست کی کہ مدینہ تک میں اسی پر چلوں گا جو منظور ہوئی،شہر پہنچ کر اونٹ کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ اس کو گھوم گھوم کے دیکھتے تھے اور فرماتے تھے کیسا اچھا ہے؟ اس کے بعد حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اتنے اوقیہ سونا تول دو، اصل کے بعد کچھ اور بھی عطا فرمایا اور پوچھا دام پاچکے؟ کہا جی ہاں، فرمایا دام اور اونٹ دونوں لیجاؤ سب تمھارا ہے [100] ایک یہودی نے اس واقعہ کو سنا تو تعجب کیا۔ [101]

قیمت سے زیادہ دام چونکہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بخشش تھی اس لیے اس کو ایک تھیلی میں علاحدہ حفاظت سے رکھ دیا، حرہ کے دن اہل شام نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اس میں دوسری چیزوں کے ساتھ اس کو بھی لوٹ لے گئے۔ [102] ایک مرتبہ بحرین سے مال آنے والا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم کو 3 آبخورہ بھر کردوں گا، لیکن جب مال آیا تو آپ ﷺ کا وصال ہو چکا تھا ،حضرت ابوبکرؓ نے منادی کرادی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی سے وعدہ کیا ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو تو وہ مجھ سے لے سکتا ہے، حضرت جابرؓ نے کہا کہ مجھ سے وعدہ فرمایا تھا فرمایا لے لو،3 آنجورہ میں 1500 آئے۔ رسول اللہ ﷺ کا ادب واحترام خاص طور پر ملحوظ رہتا تھا، اعمال وعقائد میں تو آنحضرت ﷺ کا ہر قول وفعل فرض وواجب کا درجہ رکھتا ہے اوراس میں کسی کو مجال انکار نہ تھی، لیکن امور باہمی میں بھی ان کو اس کا لحاظ رہتا تھا جس بات کو آنحضرت ﷺ 3 مرتبہ ارشاد فرماتے بے چون وچرا تسلیم کرلیتے، ایک دو مرتبہ میں قیل وقال کی گنجائش رہتی تھی،[103] مسلمانوں سے محبت کرتے اور" رحماء بینھم" کی مجسم تصویر تھے۔ ایک مرتبہ ان کا پڑوسی کہیں سفر میں گیا تھا، واپس آیا تو بایں جلالت قدر ملاقات کو تشریف لے گئے ،اس نے لوگوں کے اختلاف اورجماعت بندی کی داستان سنائی، بدعات کا رائج ہونا بیان کیا، صحابہ نے کشت اسلام اپنے بدن کے خون سے سینچی تھی ان واقعات کے کب کان متحمل ہو سکتے تھے؟ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے سچ کہا تھا کہ لوگ جس طرح گروہ در گروہ خدائی دین میں داخل ہوں گے اسی طرح خارج بھی ہوجائیں گے۔ [104] ان اوصاف کے ساتھ مذہبی جوش اور حرارت بھی نہایت نمایاں تھی ایک میل سے پنجوقتہ نماز پڑہنے آتے تھے[105] ظہر کے وقت گرمی کی یہ شدت ہوتی تھی کہ زمین پر سجدہ کرنا دشوار تھا، ہاتھ میں کنکریاں ٹھنڈی کرتے اور سجدہ کرتے تھے، لیکن آنا ترک نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مسجد نبویﷺ کے قرب میں مکانات خالی ہوئے،حضرت جابرؓ اوربنو سلمہ کا ارادہ ہوا کہ یہاں اٹھ آئیں کہ نماز کا آرام ہوگا، آنحضرتﷺ سے درخواست کی،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمھیں وہاں سے آنے میں ہر قدم پر ثواب ملتا ہے، سوچو تو کتنا ثواب ہوا، سب نے کہا کہ حضور ﷺکا ارشاد بدل وجان منظور ہے۔ [106] حج متعدد کیے تھے،دو کا تذکرہ حدیثوں میں آیا ہے، پہلا حجۃ الوداع ،دوسرا ایک اور جس میں محمد بن عباد بن جعفر نے ایک مسئلہ پوچھا تھا۔ سادگی مسلمانوں کی ترقی کا اصل راز ہے، حضرت جابرؓ نہایت سادہ تھے ،صحابہ کا ایک گروہ مکان پر ملنے آیا، اندر سے روٹی اور سرکہ لائے اور کہا بسم اللہ اس کو نوش فرمائیے، سرکہ کی بڑی فضیلت آئی ہے، پھر فرمایا آدمی کے پاس اگر اعزہ واحباب آئیں تو جو کچھ حاضر ہو پیش کر دے اس میں کوتاہی نہ کرے ،اسی طرح ان لوگوں کا فرض ہے کہ پیش کردہ چیز کو خوشی خوشی کھائیں اور اس کو حقیر نہ سمجھیں کیونکہ تکلف میں دونوں کی ہلاکت کا سامان ہے۔ [107] ایک مرتبہ مقنع بیمار ہوئے تو حضرت جابرؓ دیکھنے کو گئے تو فرمایا میرے خیال میں تم پچھنہ لگاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس میں شفاء ہے۔ [108] مزاج میں بے تکلفی تھی ملنے جلنے کا انداز بہت سادہ تھا، آنحضرت سے زیادہ کون معزز ومحترم ہو سکتا تھا،لیکن جب آپ چلتے تو لوگ آپ کے برابر یا آگے چلتے تھے،حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ کے پیچھے فرشتے چلتے تھے۔ [109] آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ایک چیز دل و دماغ میں جاگزیں تھی۔ بیعت الرضوان کی بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی لوگ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر نماز پڑہنے لگے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو کٹوا دیا، مسیب بن حزن کا بیان ہے کہ اس درخت کو ہم دوسرے ہی سال بھول گئے تھے، [110] لیکن حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو برسوں کے بعد بھی یاد تھا، اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے، حدیبیہ کا قصہ بیان کیا تو فرمایا آج آنکھیں ہوتیں تو وہ موقع دکھلا دیتا۔ [111] [112] [113]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Джабир ибн Абдуллах
  2. بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211؛ قیس ابن حَبّان، مشاہیر علما الامصار و اعلام فقہا الاقطار، ص 30 نے عبد اللہ و اس کے بیٹے جابر کی دونوں بیعتِ بیعت عقبہ اولی و بیعت عقبہ ثانیہ میں موجودگی کا لکھا ہے۔
  3. ابن عبد البرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 1412، ج1، ص220؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، 1417، ج1، ص377.
  4. ^ ا ب پ الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - جابر بن عبد اللَّه بن عمرو بن حرام (1) آرکائیو شدہ 2017-07-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  5. (مسلم:2/346،بخاری:2/584)
  6. (واقعہ مسند صفحات:297،303،13،65،91،95،98 میں موجود ہے،بخاری:2/580)
  7. (مسند احمد بن حنبل:3/329)
  8. (اصابہ فی تمییز الصحابہ:1/222)
  9. (مسند احمد بن حنبل:3/375)
  10. (مسند احمد بن حنبل:300)
  11. (صحیح بخاری:2/588،789)
  12. (مسند احمد بن حنبل:2/308)
  13. (مسند احمد بن حنبل:3/308)
  14. (مسند احمد بن حنبل:3/308)
  15. (مسند احمد بن حنبل:3/349،41،292)
  16. (اسد الغابہ :1/257)
  17. (اسد الغابہ:2،حالات سہل بن سعد،:366)
  18. أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري - جابر بن عبد الله بن حرام آرکائیو شدہ 2017-08-13 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  19. (مسند احمد بن حنبل:3/300،بخاری:2/580)
  20. (مسند احمد بن حنبل:3/334)
  21. (فتح الباری:7/305)
  22. (طبقات ابن سعد:203)
  23. (مسند احمد بن حنبل:3/231)
  24. (مسند احمد بن حنبل:3/343)
  25. (نزہۃ الابرار قلمی)
  26. ^ ا ب سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » جابر بن عبد الله آرکائیو شدہ 2018-01-31 بذریعہ وے بیک مشین
  27. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (2) آرکائیو شدہ 2018-01-30 بذریعہ وے بیک مشین
  28. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (4) آرکائیو شدہ 2018-01-30 بذریعہ وے بیک مشین
  29. (مسند احمد بن حنبل:203)
  30. سورہ نساء (4) 176۔ ارشاد ہوا: "يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّہُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَكَ لَيْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّہَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"۔ (ترجمہ: آپ سے حکم شرعی دریافت کرتے ہیں کہئے کہ اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں حکم شرع بتاتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تواس کے لیے آدھا ترکہ ہوگا اور وہ اس (بہن) کا پورا وارث ہو گا اگر اس (بہن) کی اولاد نہ ہو۔ اب اگر دو بہنیں ہوں تو انھیں دو تہائی ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں اور بھائی ہوں تو ہر بھائی کو دو بہنوں کے برابر ملے گا۔ اللہ تمھارے لیے صاف صاف بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہو اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے)۔
  31. ؛ طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن، آیہ کے ذیل میں۔
  32. محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص38
  33. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص210؛ و ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج3، ص192.
  34. ^ ا ب ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج3، ص194.
  35. ابن شَبّہ نمیری، تاریخ المدینہ المنورہ: اخبار المدینہ النبویہ، ج3، ص1134ـ1136؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، قسم 1، ص44ـ 45؛ و احمد بن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص193.
  36. الامین، اعیان الشیعۃ، ج4، ص46؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص232.
  37. ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، ج2، ص602ـ607؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص235.
  38. طبری، تاریخ طبری، ج5، ص239.
  39. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج11، ص213ـ214.
  40. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج11، ص213ـ214۔
  41. ابن حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، ج3، ص495.
  42. مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص318ـ319.
  43. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص235؛ ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج3، ص193.
  44. زبیریوں کی مکمل سرکوبی کے بعد حجاج نے مکہ، یمامہ اور یمن کی حکومت سنبھالی اور اپنے ہاتھوں ویران شدہ کعبہ کی مرمت کی؛تاریخ یعقوبی، ترجمہ ابراہیم آیتی، ج2، ص207۔ کچھ عرصہ بعد عثمان کے آزاد کردہ طارق بن عمرو کی جگہ مدینہ کا والی بنا؛ تاريخ طبرى، ترجمہ ابو القاسم پايندہ، تہران، اساطير، ج8، ص3490؛ اور پہلے ہی دن سے اہل مدینہ کے ساتھ بدسلوکی کا آغاز کیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اہل مدینہ عثمان کے قاتل ہیں۔ نویری، شہاب الدین احمد؛ نہایۃ الارب فی فنون الادب، ترجمہ مہدوی دامغانی، ج6، ص12۔ اس نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تذلیل کی غرض سے سہل بن سعد (طبری، ج 8، ص 3511)؛ سمیت متعدد صحابہ کی گردنوں پر سیسے کی پگھلتی مہریں لگا دیں۔ یعقوبی، وہی ماخذ، ج2، ص 222۔ یہ وہ سلوک تھا جو ان دنوں ذمیوں کے ساتھ روا رکھا جانے لگا تھا؛ ابن خلدون، العبر تاريخ ابن خلدون، ترجمہ عبد المحمد آيتى، ج2، ص70۔ اور اس کے اس عمل کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی تھی "صحابہ نے عثمان کو مدد نہيں پہنچائی تھی۔ طبری، ج8، ص3511۔
  45. بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص288؛ طبری، تاریخ طبری، ج6، ص195.
  46. ابن عساکر، ج11، ص234.
  47. ابن حَجَر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج1، ص435.
  48. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم 2، ص127؛ ابن عبد البرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 1412، ج1، ص220.
  49. ابن قیم جوزی، اعلام الموقعین عن رب العالمین، ج1، ص12 میں رقمطراز ہے کہ وہ ان صحابہ میں سے ہیں جن سے اوسط تعداد میں فتاوی نقل ہوئے ہیں۔
  50. ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج3، ص189.
  51. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444.
  52. خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118؛ ابن عبد البرّ، جامع بیان العلم و فضلہ و ماینبغی فی روایتہ و حملہ، 1402، ص151ـ152.
  53. ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج3، ص191.
  54. ابن اثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، 1417، ج1، ص378.
  55. برائے نمونہ ابن اشعث کوفی، الاشعثیات (الجعفریات)، ص22، 44، 47؛ کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص532، ج2، ص373، ج3، ص233ـ234، ج5، ص528 ـ 529، ج8، ص144، 168ـ169؛ ابن بابویہ، عیون اخبارالرضا، 1404، ج1، ص47، ج2، ص74.
  56. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (1) آرکائیو شدہ 2020-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  57. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص233؛ خطیب بغدادی، تقیید العلم، 1974، ص104؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج1، ص435.
  58. جابر سے نقل حدیث کرنے والے افراد کی مکمل فہرست کے لیے دیکھیے یوسف بن عبد الرحمن مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444ـ 448؛ حسین واثقی، جابر بن عبد اللہ الانصاری، ص108ـ 118.
  59. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (7) آرکائیو شدہ 2020-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  60. بیروت 1421.
  61. احمدبن محمد برقی، کتاب الرجال، ص3، 7ـ9؛ محمدبن حسن طوسی، رجال الطوسی، ص59، 93، 99، 111، 129.
  62. خوئی، ج4، ص16؛ تستری، ج2، ص519 ـ521.
  63. مازندرانی حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج2، ص212؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج4، ص12، 15.
  64. محمد بن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص38.
  65. محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص5.
  66. احمد بن محمد برقی، کتاب الرجال، ص4.
  67. محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص40ـ41۔
  68. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج42، ص284۔
  69. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج42، ص44.
  70. تستری، قاموس الرجال، ج2، ص525.
  71. منجملہابن سعد، الطبقات الکبری، ج5، ص164۔
  72. کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
  73. مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص159.
  74. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص41ـ42۔
  75. کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص469ـ470۔
  76. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج54، ص275ـ276۔
  77. مسنداحمدبن حنبل، ج3، ص292ـ 400.
  78. خیرالدین زرکلی، الاعلام، ج2، ص104.
  79. خطیب بغدادی، الکفایۃ فی علم الروایۃ، 1406، ص392؛ سزگین، ج1، ص85؛ ترجمہ عربی، ج1، جزء 1، ص154ـ 155.
  80. نجم عبد الرحمن خلف، استدراکات علی تاریخ التراث العربی لفؤاد سزگین فی علم الحدیث، ص32.
  81. حکایات صحابہ : مولانا محمد زکریا
  82. (ادب المفرد بخاری)
  83. (الباری:1/159)
  84. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (6) آرکائیو شدہ 2020-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  85. تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (5) آرکائیو شدہ 2020-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  86. (مسند:2/281)
  87. (بخاری:1/536)
  88. (مسند:3/369)
  89. (مسند:3/369)
  90. (مسند:3/220)
  91. (مسند:3/377)
  92. (مسند احمد3,377)
  93. (مسند احمد،3،334)
  94. (مسند احمد)
  95. (مسند احمد)
  96. (نساء:176)
  97. (مسند احمد)
  98. (مسند احمد)
  99. (مسند:3/314)
  100. (مسند:3/372)
  101. (مسند:3/303)
  102. (مسند:3/308)
  103. (مسند:3/285،359)
  104. (مسند احمد)
  105. (مسند احمد)
  106. (مسند احمد)
  107. (مسند:3/371)
  108. (مسند:3/335)
  109. (مسند:3/332)
  110. (بخاری:2/599)
  111. (بخاری:2/599)
  112. "تهذيب الكمال للمزي » جابر بن عَبْدِ اللَّهِ بن عمرو بن حرام بن ثعلبة (8)"۔ 13 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2023 
  113. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - جابر بن عبد اللَّه بن عمرو بن حرام (2) آرکائیو شدہ 2017-07-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]

مآخذ[ترمیم]

  • ابن اثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت: چاپ عادل احمد رفاعی، 1996ء/1417ھ۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت: 1385ـ 1386/ 1965ـ1966۔
  • ابن اشعث کوفی، الاشعثیات (الجعفریات)، چاپ سنگی، تہران: مکتبۃ نینوی الحدیثہ، بے تا۔
  • ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، بیروت: چاپ حسین اعلمی، 1404/1984۔
  • ابن بابویہ، کتاب من لا یحضرہ الفقیہ، قم: چاپ علی¬اکبر غفاری، 1414۔
  • ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، قم: چاپ علی¬اکبر غفاری، 1363 ہجری شمسی۔
  • ابن بابویہ، معانی الاخبار، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم 1361 ہجری شمسی۔
  • ابن حبّان، مشاہیر علما الامصار و اعلام فقہا الاقطار، بیروت: چاپ مرزوق علی ابراہیم، 1408/1987۔
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، بیروت: چاپ علی محمد بجاوی، 1412/1992۔
  • ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام، قاہرہ: چاپ احمد شاکر، بے تا۔
  • ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، چاپ عبد السلام محمد ہارون، قاہرہ، 1982۔
  • ابن حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، بیروت: دارصادر، بے تا۔
  • ابن سعد (لائڈن)؛
  • ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ المدینۃ المنورۃ: اخبار المدینۃ النبویۃ، جدّہ: چاپ فہیم محمد شلتوت، 1399/ 1979، قم: چاپ افست، 1368 ہجری شمسی۔
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، قم: چاپ ہاشم رسولی محلاتی، بے تا۔
  • ابن عبد البرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بیروت: چاپ علی محمد بجاوی، 1412/1992۔
  • ابن عبد البرّ، جامع بیان العلم و فضلہ و ماینبغی فی روایتہ و حملہ، قاہرہ: 1402/1982۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت: چاپ علی شیری، 1415ـ1421/ 1995ـ 2000۔
  • ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہرہ 1960؛
  • ابن قیم جوزیہ، اعلام الموقعین عن رب العالمین، بیروت: چاپ طہ عبد الرؤف سعد، 1973۔
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت: چاپ علی شیری، 1408/ 1988۔
  • عبد الحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم: 1416ـ1422/ 1995ـ2002۔
  • احمد بن محمد برقی، کتاب الرجال، تہران: 1383۔
  • احمد بن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، دمشق: چاپ محمود فردوس العظم، 1996ـ2000۔
  • تستری، قاموس الرجال؛
  • ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، تہران: چاپ جلال الدین محدث ارموی، 1355 ہجری شمسی۔
  • احمد بن علی خطیب بغدادی، تقیید العلم، بیروت: چاپ یوسف عش، 1974۔
  • خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، بیروت: چاپ نور الدین عتر، 1395/1975۔
  • خطیب بغدادی، الکفایۃ فی علم الروایۃ، بیروت: چاپ احمد عمر ہاشم، 1406/1986۔
  • نجم عبد الرحمن خلف، استدراکات علی تاریخ التراث العربی لفؤاد سزگین فی علم الحدیث، بیروت: 1421/2000۔
  • ابو القاسم خوئی، معجم رجال الحدیث؛
  • ذہبی، سیر اعلام النبلا؛
  • خیرالدین زرکلی، الاعلام، بیروت: 1986۔
  • فؤاد سزگین، تاریخ التراث العربی، ج1، جزء 1، نقلہ الی العربیۃ محمود فہمی حجازی، ریاض: 1403/ 1983۔
  • محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، قم: چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، 1404۔
  • عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، تفسیرالقرآن، ریاض: چاپ مصطفٰی مسلم محمد، 1410/1989۔
  • طبرسی؛ طبری، تاریخ (بیروت)۔
  • طبرسی، جامع؛ محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت بی‌تا۔
  • طبرسی، رجال الطوسی، قم: چاپ جواد قیومی اصفہانی، 1415۔
  • طبرسی، کتاب الخلاف، قم 1407ـ1417۔
  • طبرسی، مصباح المتہجد، بیروت 1411/ 1991۔
  • محمد بن ابو القاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفٰی لشیعۃ المرتضی، نجف: 1383/1963؛
  • محمد بن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت: 1405/1985۔
  • عباس قمی، تحفۃ الاحباب فی نوادر آثار الاصحاب، تہران 1369۔
  • محمد بن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، [تلخیص] محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد: 1348 ہجری شمسی۔
  • کلینی؛ محمدبن اسماعیل مازندرانی حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، قم: 1416۔
  • یوسف بن عبد الرحمن مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، بیروت: چاپ بشار عواد معروف، 1422/2002۔
  • مسعودی، مروج (بیروت)؛ محمدبن محمد مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج¬اللہ علی العباد، قم: 1413۔
  • حسین واثقی، جابر بن عبد اللہ الانصاری: حیاتہ و مسندہ، قم: 1378 ہجری شمسی۔

انگریزی ماخذ[ترمیم]

  • Fuat Sezgin, Geschichte des arabischen Schrifttums، Leiden لائڈن 1967–1984

بیرونی ربط[ترمیم]

سانچے[ترمیم]