جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ
جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ
جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ

معلومات
تاسیس 29 مارچ 1931ء مطابق یکم ذیقعدہ 1349ھ
نوع اسلامی یونیورسٹی
محل وقوع
شہر بہرائچ
ملک بھارت
ناظم اعلی
صدر مولانا سید محمود اسعد مدنی (سابق ممبر راجیہ سبھا)
ریکٹر مولانا قاری زبیر احمد قاسمی
شماریات
طلبہ و طالبات 1648 (سنة ؟؟)

شہربہرائچ کو حضرت سید سالا ر مسعود غازی ؒ جیسے عظیم شہدا کی جائے شہادت ہونے کا شرف حاصل ہے و ہیں اور بہت سے بڑے بڑے بزرگوں و علما دین کا مدفن ہونے کی وجہ سے تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ شہر بہرائچ کو نہ صرف سید سالار مسعود غازی ؒ کا مدفن ہونے کے علاوہ مشہور سہروردی بزرگ حضرت سید افضل الدین ابو جعفر امیر ماہؒ، حضرت مولانا سید اجمل شاہ اور ان کے خلیفہ حضرت سید بڈھن شاہؒ اور معمولات مظہریہ باشرات مظہریہ کے مولف اور حضرت مرزا مظہر جانجاںؒ کے خلیفہ خاص حضرت شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کا بھی مدفن ہیں۔

قیام نورالعلوم[ترمیم]

مولانا محفوظ الرحمن نامی کے والد مولاناشاہ نور محمد بہرائچی نقشبندی مجددی کی وفات کے بعد ایصال ثواب کے لیے جامع مسجد میں ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس میں حضرت مرحوم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی گئی اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی کہ حضرت مرحوم کی یاد گار کے طور پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جو ان کے مشن کو نہ صرف باقی رکھے ،بلکہ مزید کام کو ترقی دے ،اور مسلمانوں کو ان کی صحیح حیثیت بتائے ،اور آئندہ نسلوں کے دین و ایمان اور صحیح عقیدہ پر قائم اور بقا کا سامان مہیا کرے۔ چنانچہ اسی مجمع میں شہر کے بااثر لیڈر و ریئس جناب خواجہ خلیل احمد شاہ صاحب مرحوم نےقیام مدرسہکی تجویز پیش کی ،اس کی تائید ان کے اہل خاندان خواجگان حضرات نے اور شہر کے سبھی معززین نے اتفاق کرتے ہوئے حتی الوسع تعاون دینے کا بھی اظہار کیا۔ چنانچہ مولانا محفوظ الرحمن نامی نے معتقدین ،مخلصین و معزیز شہر کی خواہش نیز اپنی دیرینہ آرزو کے مطابق یکم ذیقعدہ 1349ھ مطابق 29 مارچ 1931ء بروز یکشنبہ (اتوار)شہر کی جامع مسجد ہی کے صحن میں انھیں معززین کی موجودگی میں صرف دو (2) طلبہ ایک حافظ عزیز احمد اور دوسرے حافظ حبیب احمد اعمیٰ(نبینا ) سے مدرسہ جامعہ مسعویہ نور العلوم کی بنیاد رکھ کر اس کا افتتاح کیا۔ طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مستقل عمارت کی ضرورت محسوس ہوئی تو لوگوں کے مشورہ سے جامع مسجد سے متصل راجا نانپارہ کی عمارت لیا محل نامی (جو خالی پڑی تھی)کے لیے درخواست مئی 1935ء میں دی ،راجا نانپارہ سعادت علی خاں صاحب نے غ لباََاگست 1935ء میں لیا محل عمارت مدرسہ کو مرحمت فرمائی اور مدرسہ جامع مسجد سے اس عمارت میں منتقل ہو گیا۔ آج جامعہ عربیہ مسعویہ نورالعوم اسی بہرائچ کا ایک مرکزی دینی ادارہ ہیں۔ جس کے قیام سے نہ صرف ضلع بہرائچ میں بلکہ اطراف کے تمام اضلاع میں علوم دینیہ کی روشنی سے منوور ہوگے اور عوام میں دینی علوم کی جانکاری کا روجھان بننے لگا ۔

جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کا ایک دلکش منظر

جنگ آزادی میں نورالعلوم[ترمیم]

ملک میں انگریزی سامراج کے خلاف استخلاص وطن کی تحریک 1941-1942میں شدت پیدا ہوئی اور ایک طرح سے حکومت کے خلاف ایک آگ سارے ملک میں لگ گئی تھی، ایسے ہی ماحول میں بانی مدرسہ نورالعلوم محفوظ الرحمن نامی نے بھی بہرائچ ضلع سے عملی طور پر حصہ لینے کا پروگرام بنایا اور اپنے ساتھ مدرسہ کے مدرس مولانا محمد سلامت اللہ بیگ اور مولوی کلیم اللہ نوری کو تیار کیا ،1942 میں حکومت کے خلاف گاندھی جی کی’’ بھار ت چھوڑو‘‘ (سول نافرمانی) تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مولانا سلامت اللہ بیگ نے حکومت کے خلاف عوامی بیان دیا اور اسی طرح سے مولوی کلیم اللہ نے بھی تقریریں کی جس سے ان لوگوں کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہوئے ،مولانا سلامت اللہ بیگ کی گرفتاری مدرسہ سے ہوئی اور مولوی کلیم اللہ نوری نے گرفتاری دینے میں پولیس کو کافی پریشان کیا ادھر ادھر دوڑانے کے بعد گونڈا سے گرفتار ی دیے کر جیل گئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جبکہ بانی جامعہ نورالعلوم مولانا محفوظ الرحمن نامیؔ اور جامعہ کے صدرالمدرسین مولانا سید حمیدالدین نے باہر سے تحریک کو کامیاب بنایا۔

نورالعلوم کے شعبے[ترمیم]

جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کے دار جدید کا باہری منظر

جامعہ نورالعلوم کا الحاق الہٰ آباد عربی ،فارسی بورڈ سے تھا،جس کے امتحانات میں طلبہ شریک ہوتے تھے اور امتیازی نمبرات سے کام یاب ہوتے تھے۔ حکومت کی جانب سے ایڈ بھی ملتی تھی۔1978میں مدارس عربیہ صوبہ بہار کا ایک اجلاس پٹنہ میں ہواتھا ،جس میں مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے بیان کیا کہ جو مدارس ایڈیڈ ہیں اور سرکاری امداد لیتے ہیں ان پر میں انا للہ وناالیہ راجعون پڑھتا ہوں ،مولانا سید اسعد مدنی جامعہ کی مجلس شوریٰ کے بھی صدر تھے۔ ان کے اس بیان کے جامعہ کی مجلس شوریٰ نے حکومت کی گرانٹ بند کر دی اور بورڈ سے الحاق بھی ختم کر دیا گیا۔[1] مدرسہ نورالعلوم اپنے انتظام ،عمدہ نظام کار و خصوصی انداز تعلیم و تربیت کے باعث اس کا نام ہندوستان کے دور دراز گوشوں میں پہنچ چکا ہے۔ اور اس کا شمار اترپردیش کے اودھ خطہ کے بڑے دینی ادارہ کے طور پر ہوتا ہے۔ نورالعلوم بہرائچ بڑی تعداد میں بیرونی اضلاع کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں سال فارسی سے لے کر مکمل درس نظامیہ کی تعلیم کا انتظام ہے جو دار العلوم دیوبند کے نصاب تعلیم کے مطابق ہے۔ #درس نظامی : جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں مکمل درس نظامیہ کی تعلیم کا انتظام ہے اور معتدبہ نصاب (موقوف علیہ دورہ)تک کی پڑاھا ئی کا انتظام ہے۔#پنجسالہ نصاب تعلیم :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں ایک مختصر پنجسالہ نصاب تعلیم کا آغاز 1424ھ مطابق2004ء سے کیا گیا۔[1] 3) ( ترجمہ قرآن مجید :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں ابتدا قیام سے ہی طلبہ کو عربی کے ابتدائی درجات سے ہی صرفی ونحوی قواعد کے ساتھ قرآن مجید کا مکمل ترجمہ پڑھیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تفاسیر قرآن پڑھتے وقت طلبہ کا معیار بلند ہو جاتا ہے۔#درجات حفظ و تجوید :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں حفظ قرآن مع تجوید کا شاندار اہتمام کیا جاتا ہے اورجامعہ کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کے وقت میں نہ صرف ضلع بہرائچ بلکہ ا طراف کے اضلاع میں جفاظ قرآن کی تعداد میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی ہیں۔[1]#شعبہ قرأت و تجوید:جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں 1429ھ مطابق 2008ء سے شعبہ قرأت و تجوید کا مستقل قیام عمل میں آیا۔#شعبہ دارالافتاء :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں دارالافتاء کا شعبہ بھی قائم ہے اور جس میں ضلع اور بیر ون ضلع سے آئے ہوئے استفتاء کا جواب نہایت تحقیق اور صحیح طریقہ پر مستند مفتیان کرام کے ذریعہ فتوی جاری کیا جاتا ہے۔#شعبہ دینیات و ناظرہ :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں شعبہ دینیات و ناظرہ کا آغاز شوال 1428ھ مطابق2007ء میں ہو ا اس شعبہ میں نورانی قاعدہ ،اور ناظرہ قرآن قواعد تجوید کے ساتھ درس دیا جاتا ہے۔# شعبہ کمپیوٹر :جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں شعبہ کمپیوٹر کے ذریعہ طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔#ماہنامہ نورالعلوم: جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ سے ایک ماہنامہ بنام نورالعلوم نکلتا ہے جو کی جامعہ کا ترجمان ہے۔ جس کی اجرا فروری2006ء میں مطابق 1427ھ میں ہوئی اور اس میں دینی ،دعوتی اور اصلاحی مظامین مسلسل شائع ہوتے ہے۔#ابتدائی درجات:جامعہ میں ابتدائی درجات (اپر پرائمری کلاسز) ایک سے لے کر درجہ پانچ تک طلبہ کو اردو ،ہندی،انگریزی،حساب،جعرافیہ ،سائنس کے ساتھ دینی تعلیم اور قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ # شعبہ تبلیغ: جامعہ کے شعبہ تبلیغ کے ذریعہ مخلوق خدا کو دینی و مذہبی امور کی تعلیم سے روشناز کرانے کے لیے مبلغ ہوتے ہے جو وقتاََفوقتاََ عوام کی طلب پر تبلیغی خدمات انجام پاتی ہے۔#تبلیغی جماعت: جامعہ میں تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ کے طریق کار کے مطابق طلبہ کی جماعت ہر پنجشنبہ کو قرب وجوار کے علاقوں میں تبلیغی خدمات انجام دیتی ہے۔# عربی کتب خانہ:جامعہ میں ایک بڑا عربی کتب خانہ قائم ہے جس میں درسی و غیر درسی اردو ،عربی،فارسی اور ہندی وغیرہ کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جسے طلبہ کو پڑھنے کے لیے درسی کتابیں مفت دی جاتی ہے۔#نامی اردو لائبریری :جامعہ کی اس لائبریری کا تمام تر نظم و نسق طلبہ کے ہاتھ میں ہے ،طلبہ نے اسے اپنے مساعی سے سر پرستوں کے زیر سایہ اس میں تفسیر،حدیث،فقہ،ادب،نحو و صرف،لغت،انشاء،اخلاق،تصوف،سوانح،سیر،تاریخ،مناظرہ ،ملفوظات اولیاء،مکتوبات،سیاسیات،قدیم و جدید لڑیچر ودیگر معلومات پر مشتمل ڈھائی ہزار سے زیادہ کتابیں مہیا ہے جن سے طلبہ ہمہ وقت فیضیاب ہوتے ہے۔

نامی اردو لائبریری جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ

#مطبخ:جامعہ میں مطبخ کا بہترین انتظام ہے جس کے ذریعہ نادار و غریب طلبہ کو دونوں وقت کا کھانا دیا جاتا ہے ،اس شبعہ کے ذریعہ طلبہ کے لیے وظائف و کپڑے اوردوا علاج ومعالجہ کا نظم بھی ہوتا ہے ۔#دفتر اہتمام : جامعہ میں دفتر اہتمام قائم ہے جس میں جامعہ میں کی تمام آمد و صرف کا پورا حساب کتاب رہتا ہے جامعہ کے انتظامی امور کی ذمہ داری اسی شعبہ پر ہے۔ #شعبہ یتیم خانہ : شعبہ یتیم خانہ کا قیام 1398ھ میں بنام مسعودیہ نامی دارالیتامیٰ ہوا،جس کے زر یعہ یتیم بچوں کو داخل کیا جاتا ہے اور ان کی پوری کفالت کے ساتھ تعلیم اور تربیت بھی دی جاتی ہے ۔#شعبہ نشر و اشاعت:شعبہ نشر و اساعت کے تحت رمضان المبارک ،عید الاضحی کے اشتہارات ،پاکٹ و دائمی نوری جنتری ،جامعہ کی مختصر کیفیت اور مختصر تعارف وغیرہ کے علاوہ مختلف لٹریچر اور کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔[1]

نورالعلوم کے بارے میں چند اکابر علما و رہنمایان ملت کی معائنوں کے اقتباسات[ترمیم]

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی لکھتے ہیں کہ

مجھے اس کی تعلیم بہت قابل اعتماد صورت میں ملی ،اس سے عالم اسلامی کے لیے بڑے فائدوں کی توقع ہے خصوصاشمالی ہند کے اس خطہ کو آج دینی علوم ومعارف بے انتہامحتاج ہے۔

[2]

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ

جامعہ مسعودیہ نورالعلوم کے نام سے موسوم یہ عربی مدرسہ نصف صدی سے زیادہ مدت سے علوم دینیہ کی خدمت انجام دے رہا ہے،حضرت مولانامحمد محفوظ الرحمن نامی کے مبارک ہاتھوں سے اس کا قیام عمل میں آیا ،اور بہرائچ سرزمین پر ایک اہم مرکزی ادارہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا اور مسلسل کر رہاہے۔

[2]

مشہور تاریخ داں اور صحافی مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں کہ

بسم اللہ ،مدرسہ غریبوں اور مسکینوں کا،چلانے والے غریب و مسکین ،پڑھانے والے غریب ومسکین ،پڑھنے والے غریب و مسکین ،نورانیت کی شمع اس چاردیواری پر نہ چمکے گی تو اور کہاں چمکے گی؟

چرچہ قال اللہ و قال الرسول کا ،درس ایمان و عرفان کا ،تعلیم قرآن کی اور حدیث کی اور فقہ کی،نورالعلوم یہ مدرسہ بھی نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟ قرب سالار مسعود غازیؒ سے نصیب ،سعادت اس شہید ملت کے اجزاء اور جسم سے اتصال میسر ،مسعودیہ اطلاق اس پر نہ ہوگا تو اور کس پر ہوگا؟

[2]

مولانا مرغوب الرحمنؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند لکتھے ہیں کہ

مولانا کلیم اللہ کی دعوت پر مدرسہ نورالعلوم بہرائچ کے جلسۂ دستاربندی کے موقع پر حاضری ہوئی۔مدرسہ مذکورہ کی عمارت اور تعلیم و تربیت کے نظام دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی۔جلسہ کے موقع پر اہالیان شہر اور قرب و جوار کے مسلمانوں کی بڑی تعداد میں حاضری کو دیکھ کر اس مدرسہ کی خدمت اور اچھے تاثر کا اندازہ بھی ہوا،اللہ اس کی خدمت کو مزید عام فرمائے اور اچھے تاثر کو بیش از بیش وسیع فرمائے۔آمین

قرب و جوار کے اضلاع میں یہ مدرسہ قدیم مدرسہ سمجھا جاتا ہے اور ایک زمانہ سے خدمت دین میں مصروف ہے اور اچھی تعلیم و تربیت میں شہرت یافتہ ہے ،عام طور پر قرب و جوار کے اچھے اچھے علما یہیں سے فیض یافتہ ہیں،پرائمری درجات سے موقوف علیہ تک تمام درجات قائم ہیں اور انتہائی اسلوبی کے ساتھ تعلیم ہورہی ہے۔

[2]

جواہر لعل نہرو اولین وزیر اعظم ہندوستان نے جامعہ کا دورہ 8 فروری 1946 میں کیا تھا اورمعائینہ بک میں لکھتے ہیں کہ

میں نے آج مدرسہ نورالعلوم کا مختصر سا معائینہ کیا ،وہاں سے جانکاری حاصل ہوئی کہ اس کے بانی کاروں کے ایثار و محنت کی وجہ سے ،اپنے ابتدائی وقت سے ہی ،کس طرح اس مدرسے نے ایک معمولی سے شعبہ سے بڑھ کر اتنی ترقی کی ہے۔کوئی بھی گھریلوصنعت کا لگایا جانا ایک خوش آیندخیال ہے۔یہ محکمہ آگے چل کر اچھی وسعت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ایک ادبی اور دستکاری تعلیم کا یہ ایک خوشگوار ابتدائی سلسلہ ہے۔اس ادارے نے پہلے سے اپنا لوہامنوالیا ہے ۔اگر عنقریب کوئی بھی امداد آتی ہے تو اس کے مزید آگے ترقی کرنے کی گنجائش بھی صاف نظر آتی ہے۔امید ہے کہ ایک روز وہ مدد بھی ضرور آئے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس نیک کام کا دائرہ وسیع تر ہوگا۔

قدیم طالب علم[ترمیم]

  • مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ گدڑی اولین طالب علم
  • مولانا حافظ عزیز احمد صاحب نوریؔ اکبر پورہ
  • مولانا عابد علی صاحب سالارگنج
  • مولانا حافظ محمد نعمان بیگ صاحب فخر پوری
  • مولانا مفتی شکیل سیتا پوری
  • مولانا عبد العلی صاحب فاروقی مہتمم دار العلوم فاروقیہ ومدیر ماہنامہ البدر کاکوری لکھنؤ
  • مولانا قاری عبداللطیف لطیفؔ بہرائچی
  • محمد زکریا قاسمی سنبھلی شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
  • مولانا محمد عرفان بیگ صاحب فخرپوری
  • مولانا عبد الباری صاحب قاضی پورہ
  • مولانا حکیم ابوالبرکات صاحب کلکتہ
  • مولانا محب الرحمن صاحب بلیا
  • مولانا عبد الرزاق صاحب سوئی پت پنجاب
  • مولانا ممتاز احمد صاحب بارہ بنکی
  • مولانا راحت علی خاں صاحب نانپارہ
  • مولانا جنید احمد صاحب بنارس
  • مولانا شبیر احمد صاحب دربھنگا
  • مولانا سید محمود اسعد مدنی [3]

مہتمم[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت مختصر کیفیت مدرسہ نورالعلوم بہرائچ سال 2015-2016
  2. ^ ا ب پ ت }ماہنامہ نورالعلوم 2006
  3. نورالعلوم کے درخشندہ ستارے
  4. نورالعلوم کے درخشندہ ستارے (مطبوعہ 2011) از مولانا امیر احمد قاسمیؔ
  5. https://www.facebook.com/samiuzairr/posts/1716098465121398
  6. https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1832110060134404&set=a.313024065376352.87105.100000062848731&type=3
  • نورالعلوم کے درخشندہ ستارے (مطبوعہ 2011) از مولانا امیر احمد قاسمیؔ
  • ماہنامہ نورالعلوم اپریل2006
  • ماہنامہ نورالعلوم مئی 2006
  • ماہنامہ نورالعلوم ستمبر 2007
  • مختصر کیفیت مدرسہ نورالعلوم بہرائچ سال 2015-2016