جلاس بن سوید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جلاس بن سوید بن صامت انصاری، قبیلہ اوس سے تھے اور منافقین میں شمار ہوئے اور غزوه تبوک سے سر پیچی کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ [1] [2] [3] [4]

تفصیل واقعہ اور نزول قرآن[ترمیم]

غزوہ تبوک کے واقعہ میں، جلاس نے ایک موقع پر کہا کہ "اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بد تر ہیں" تو ان کے زیر کفالت ان کے متبنی نو عمر بچے عمیر ابن سعد نے بلا کسی خیال کے فواراً جواب دیا کہ وہ ضرور سچے ہیں اور تم یقیناً گدھوں سے بد تر ہو" جلاس کو سخت ناگوار گذرا اور انھوں نے عہد کر لیا کہ اب عمیر کی کفالت سے قطع تعلق کر لیں گے۔

عمیر نے جلاس کو جواب دے کر آنحضرتﷺ کو بھی خبر کردی کیونکہ اس امر کے چھپانے میں حبط اعمال اور قرآن نازل ہونے کا خوف تھا، آنحضرتﷺ نے عمیر اور جلاس کو بلا کر واقعہ پوچھا، جلاس نے قطعی انکار کیا، لیکن وحی والہام کی دسترس سے کب کوئی چیز باہر رہ سکتی تھی؛ چنانچہ عمیر کی اس سے تائید ہوئی ،آنحضرتﷺ نے سر اٹھا کر یہ آیت پڑھی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔ (التوبہ:74)

یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انھوں نے فلاں بات نہیں کہی؛ حالانکہ انھوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اپنے اسلام لانے کے بعد انھوں نے کفر اختیار کیا ہے، انھوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور انھوں نے صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے مال دار بنایا ہے، اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا اور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا کوئی یار و مددگار نہ ہوگا۔

جلاس نے بے ساختہ کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اس کے بعد جلاس حقیقی طور پر مسلمان ہو گئے اور پھر کوئی ناگوار طرز عمل اختیار نہیں کیا، توبہ قبول ہونے کی خوشی میں عمیر کی کفالت نہ کرنے کی جو قسم کھائی تھی توڑدی اور پھر ہمیشہ ان کی کفالت کرتے رہے، آیت اترنے پر آنحضرتﷺ نے عمیر کا کان پکڑا اور فرمایا اے لڑکے، تیرے کان نے ٹھیک سنا تھا۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. المغازی، واقدی، ج 3، ص 10003 تا 1005۔
  2. السیرۃ النبویہ، ابن ہشام، ج 1، ص 519۔
  3. الاستیعاب، ابن عبد البر، ج 1، ص 264۔
  4. الاصابہ، عسقلانی، ج 1، ص 599۔
  5. تفسیر بغوی۔ ابو محمد حسین بن مسعود الفراء بغوی