احمدیہ
| ||||
---|---|---|---|---|
رہنما | مرزا غلام احمد | |||
بانی | مرزا غلام احمد | |||
مقام ابتدا | برصغیر | |||
تاریخ ابتدا | 23 مارچ 1889ء | |||
درستی - ترمیم |
بسلسلہ مضامین:
احمدیہ |
---|
منفرد تصورات |
باب احمدیہ |
احمدیہ جماعت 1889ء میں مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمدؐ کے تابع نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو ان کا پہلا خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ، 1914ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کہلاتا ہے۔
مرزا غلام احمد نے اس تحریک کو 23 مارچ 1889 میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی اور اب یہ جماعت 200 ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے خلیفہ کا نام مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک سے دو کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
احمدیہ جماعت ایک منظم اور مربوط جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔مرزا غلام احمد کی نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختلافات کے سبب لاہوری احمدیہ جماعت اصل دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسلامی عقائد کے برخلاف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔بہت سے سخت گیر اسلامی گروہ اس جماعت کو کافر خیال کرتے ہیں۔
تاریخ
1882 میں مرزا غلام احمد، جن کا تعلق متحدہ ہندوستان کے گاوں قادیان سے تھا، نے دعویٰ کیا کہ انہیں بذریعہ الہام اس زمانہ کے لئے اسلام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔23 مارچ 1889ء کو انہوں نے لدھیانہ میں بیعت لے کر ایک باقاعدہ جماعت کی داغ بیل ڈالی۔
تاریخ احمدیت کے چند اہم واقعات:
- 1889ء کی 23 مارچ کو لدھیانہ میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس روز چالیس افراد نے بیعت کی۔ پہلی بیعت کرنے والے مرزا غلام احمد کے نذدیکی دوست اور معاون حکیم نور الدین تھے۔
- 1891ء میں مرزا غلام احمد نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اسی سال جماعت احمدیہ کا پہلا اجتماع جلسہ سالانہ وقوع پذیر ہوا[1] ۔
- 1905ء میں مرزا غلام احمد نے نظام وصیت کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں بعد میں بہشتی مقبرہ نامی قبرستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔
- 1908ء میں 26 مئی کو لاہور میں مرزا غلام احمد نے وفات پائی۔ ان کی تدفین بہشتی مقبرہ، قادیان میں ہوئی۔
- 1908ء کی 27 مئی کو حکیم نور الدین کو بالاتفاق مرزا غلام احمد کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ ان کی وفات پر 1914ء جماعت احمدیہ دو حصوں میں منقسم ہو گی۔ ایک حصہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی سربراہی میں نظام خلافت پر قائم رہا۔ اس حصہ کا مرکز قادیان ہی رہا اور احمدیہ مسلم جماعت کہلاتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مولوی محمد علی کی سربراہی میں لاہور چلا گیا اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے نام سے موسوم ہے۔
- 1914ء میں پہلے خلیفہ المسیح کی وفات پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کو دوسرا خلیفہ منتخب کیا گیا۔
- 1934ء میں تحریک جدید کے نام سے دنیا بھر میں تبلیغی مراکز کے قیام اور اشاعت کا نظام شروع کیا گیا۔
- 1947ء میں تقسیم پاک و ہند کے نتیجہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو اپنا مرکز قادیان سے عارضی طور پر لاہور اور پھر مستقلا نئے آباد کردہ شہر ربوہ منتقل کرنا پڑا۔
- 1957ء میں وقف جدید کے نام سے دیہی علاقوں کے ممبران جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت کے لئے منصوبہ کا آغاز ہوا۔
- 1965ء میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کا انتخاب ہوا۔
- 1980ء میں سقوط غرناطہ کے سات سو سال کے بعد ہسپانیہ کے شہر پیدروآباد میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
- 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ غیر مسلم قرار دیا۔
- 1982ء میں چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد کا انتخاب ہوا۔
- 1984ء میں پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت نے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی بہت سی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ احمدیوں کے لئے اسلامی طریق پر سلام کرنا، اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنا، اذان دینا، تلاوت کرنا، اپنے عقیدہ کی تبلیغ و اشاعت کرنا وغیرہ قابل گرفت قرار پائے۔ اس آرڈیننس کے پیش نظر چوتھے خلیفہ المسیح نے پاکستان سے اپنا مرکز لندن منتقل کیا۔
- 1989ء میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں اپنے قیام کی صد سالہ جوبلی منائی۔
- 2003ء میں پانچویں خلیفہ مرزا مسرور احمد کا انتخاب ہوا۔
- 2008ء میں احمدیہ مسلم جماعت نے خلافت احمدیہ کی سو سالہ جوبلی منائی۔
بیرونی تبلیغی مراکز کا قیام
جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے۔ چنانچہ تبلیغی مراکز کا قیام شروع ہی سے اس جماعت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ غیر مسلم مذاہب میں بھی تبلیغ پر زور دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرزا غلام احمد کے وقت سے ہی غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ خود مرزا غلام احمد نے مختلف ممالک میں اپنی کتب، اشتہارات اور رسائل نیز خطوط کے ذریعہ اپنے دعاوی کا پرچار کیا۔
مزرا غلام احمد کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ کے زمانہ میں انگلستان میں تبلیغی کام کا آغاز ہوا۔ چنانچہ پہلے باقاعدہ مبلغ کے طور پر چوہدری فتح محمد سیال نے لندن تبلیغی مرکز قائم کیا۔ ابتدائی مبلغین اکثر مرزا غلام احمد کے وہ ساتھی تھے جنہوں نے خود ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔اس وقت احمدیہ مسلم جماعت ۲۰۰ سے زائد ممالک میں قائم ہے اور اکثر ممالک میں اپنے تبلیغی مراکز رکھتی ہے۔ چند قدیم اور مشہور مراکز یہ ہیں[2]:
- 1914 برطانیہ
- 1921 سری لنکا
- 1920 ریاستہائے متحدہ امریکہ
- 1921 نائجیریا
- 1921 گھانا
- 1923 جرمنی
- 1925 شام
- 1925 انڈونیشیا
- 1928 برطانوی فلسطین
- 1934 کینیا
- 1935 جاپان
- 1936 ہسپانیہ
- 1948 اردن
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور بھی بعض ممالک میں اپنے تبلیغی مراکز رکھتی ہے۔
تنظیمی ڈھانچہ
احمدیہ مسلم جماعت کا عالمی سربراہ خلیفہ المسیح کہلاتا ہے۔ خلیفہ المسیح تمام معاملات میں آخری صاحب اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام معاملات میں اس کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے۔خلیفہ المسیح کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ کے نام سے ایک ادارہ کام کرتا ہے جو کہ مختلف معاملات کی دیکھ بھال کے لئے متعدد صیغہ جات میں منقسم ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ممالک تحریک جدید نامی ادارہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ تحریک جدید بھی متعدد صیغہ جات میں منقسم ہے۔
مرکزی تنظیم کے علاوہ احمدیہ مسلم جماعت کے افراد مندرجہ ذیل تنظیموں کے بھی رکن ہوتے ہیں۔
- اطفال الاحمدیہ۔ سات سے پندرہ سال کی عمر کے لڑکے۔
- خدام الاحمدیہ۔ سولہ سے چالیس سال کے نوجوان۔
- انصار اللہ۔ اکتالس سال سے زائد عمر کے مرد حضرات۔
- ناصرات الاحمدیہ۔ سات سے پندرہ سال کی لڑکیاں۔
- لجنہ اماء اللہ۔ سولہ سال سے زائد عمر کی خواتین۔
مجلس شوریٰ
احمدیہ مسلم جماعت میں مجلس شوریٰ کے نام سے مشاورت کا ایک وسیع نظام رائج ہے 1922 میں دوسرے خلیفہ المسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جاری کیا۔ یہ نظام جماعت کی مرکزی تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام کاموں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مجلس شوریٰ میں مقامی اکائیوں کے نمائندگان اپنی اکائی میں موجود اراکین کی تعداد کے موافق منتخب ہو کر شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ مرکزی عہدیداران پر مشتمل مجلس عاملہ اور بعض دیگر صیغہ جات کے سربراہ بھی اس کے رکن ہیں۔ مجلس شوریٰ میں جن تجاویز پر بحث ہوتی ہے وہ پہلے مرکزی مجلس عاملہ کی سفارش کے ساتھ خلیفہ المسیح کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور منظور شدہ تجاویز پر ہی شوریٰ میں بحث کی جاتی ہے۔ بحث کے بعد رائے شماری کر کے نتائج خلیفہ المسیح کو بھجوا دیے جاتے ہیں۔ صرف خلیفہ المسیح سے منظور ی کے بعد ہی کوئی تجویز فیصلہ کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔
تمام مجالس شوریٰ کا ایک اہم کام ہر سال بجٹ کا بنانا ہے۔ اسی طرح مجالس شوریٰ ہی میں مقرر وقت پر ملکی سطح کے عہدیداران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
مجلس عاملہ
احمدیہ مسلم جماعت کی تمام تنظیموں کی ہر سطح پر ایک مجلس عاملہ تنظیم کے تمام کاموں کو منظم کرتی ہے۔ مجلس عاملہ میں مختلف کاموں کے لئے الگ الگ صیغہ جات موجود ہیں۔ مرکزی تنظیم کی ہر سطح کی مجلس عاملہ کے تمام اراکین جبکہ ذیلی تنظیموں میں ہر سطح کی مجلس عاملہ کا صدر منتخب ہوتے ہیں۔ ملکی سطح پر یہ انتخاب مجلس شوریٰ جبکہ مقامی سطح پر تمام مقامی اراکین کے نمائندوں کے ذریعہ سر انجام پاتا ہے۔
جامعہ احمدیہ
جامعہ احمدیہ احمدیہ مسلم جماعت کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا مقصد احمدی عقائد کی اشاعت و ترویج اور احمدی افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے علماء تیار کرنا ہے۔ جامعہ احمدیہ میں اپنی زندگی جماعت احمدیہ کے لئے وقف کرنے والے نوجوانوں کو سات سال تعلیم دی جاتی ہے جس میں عربی، اردو کے علاوہ دوسری زبانوں اسی طرح قرآن، حدیث، فقہ، علم الکلام وغیرہ مختلف علوم کی ابتدائی تعلیم شامل ہیں۔ جامعہ احمدیہ کا ادارہ ہندوستان، پاکستان، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، گھانا، تنزانیہ وغیرہ مختلف ممالک میں قائم ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے شاہد کی سند حاصل کر کے مربی سلسلہ کہلاتے ہیں۔
جلسہ سالانہ
مرزا غلام احمد نے 1891 میں اپنے پیروکاروں کے لئے ایک تین روزہ اجتماع کا آغاز کیا جس کا مقصد افراد جماعت احمدیہ کی تربیت، تعلیم اور آپس کے تعارف اور بھائی چارہ کو بڑھانا تھا۔ اس اجتماع کو جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف علمی اور تربیتی موضوعات پر تقاریر کی جاتی ہیں۔ اسی طرح عبادت کے لئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
عقائد کا تقابلی جائزہ
احمدیہ عقائد کا اسلامی عقائد سے تقابل (مضمون) = وضاحت کے لیے متن سے رجوع | ||
اکثریتی اسلامی عقیدہ | احمدیہ مسلم جماعت کا عقیدہ[3] | احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا عقیدہ[4] |
|
یہ ایک مختصر جائزہ ہے۔ تفصیل کے لئے متعلقہ صفحات سے رجوع کریں۔ اکثریتی اسلامی عقائد کے لئے دیکھیں اجزاۓ ایمان اور ارکانِ اسلام ۔ مرزا غلام احمد کے عقائد کے لئے دیکھیں مرزا غلام احمد کے عقائد و تعلیمات۔
ختمِ نبوت کا احمدیہ تصور
جماعت احمدیہ کے مطابق بانی اسلام محمدؐ ہی خاتم النبیین ہیں۔ اکثریتی مسلمان علماء کے برخلاف احمدیہ تشریح کے مطابق خاتم النبیین سے سب سے ارفع اور عالی نبی مراد ہے جو کہ مدارج کی انتہا پر فائز ہو۔ اس نظریہ کے مطابق محمدؐ کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ آپ ؐ کی کامل پیروی سے کوئی انسان نبی کے مقام تک بھی فائز ہو سکتا ہے۔
مسیح، مہدی اور وفات عیسیٰ ؑ
مرزا غلام احمد، بانی جماعت احمدیہ، احمدیہ عقیدہ کے مطابق مسیح موعود اور مہدی ہیں۔ وہ اسلامی شریعت اور قرآن کے پابند اور بانی اسلام کے پیروکار اور ان کے ماتحت ہیں۔ اس ضمن میں اکثریتی علماء کے نزدیک مہدی اور مسیح دو مختلف شخصیات ہیں۔ اسی طرح مرز غلام احمد کے نذدیک عیسیٰ ؑ ابن مریم بانی عیسائیت طبعی طور پر وفات پا چکے ہیں اور آنے والے شخص کو، جس کا انتظار مسلمان کر رہے ہیں، مسیح کا نام حالات اور مزاج میں اشتراک کی وجہ سے بطور تمثیل دیا گیا تھا جیسا کہ کسی سورما کو رستم کہہ دیا جاتا ہے۔ اکثریتی مسلمان علماء کے نزدیک عیسیٰ ؑ اب تک فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے جسم سمیت زندہ ہی آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے اور آخری زمانہ میں وہی دوبارہ نازل ہوں گے۔
جہاد
مرزا غلام احمد نے متعدد بار یہ واضح کیا ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے کسی قسم کا جبر اور جنگ جائز نہیں۔ حضرت محمد ؐ کا تلوار اٹھانا محض اپنے دفاع کے لئے تھا یا قیام امن کے لئے۔ جبکہ اس سے پہلے تیرہ سال تک مکہ میں مظالم سہنے اور حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کرنے کے باوجود مسلمانوں پر حملہ کیا گیا۔ اس زمانہ میں جبکہ مذہبی آزادی حاصل ہے اور اسلام پر حملہ تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے ہو رہا ہے، قلم کا جہاد ضروری ہے۔
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا مخصوص نظریہ
احمدیہ مسلم جماعت کے برعکس احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور مرزا غلام احمد کو مکمل نبی نہیں سمجھتی بلکہ ان کو ایک مجدد خیال کرتی ہے۔ چنانچہ خاتم النبیین کے معاملہ میں ان کی تشریح اکثریتی مسلمان تشریح کے مطابق ہے۔ البتہ وفات عیسیٰ ؑ کے معاملہ پر ان کا بھی وہی خیال ہے جو احمدیہ مسلم جماعت کا ہے۔
احمدیہ جماعت میں شمولیت کی شرائط
جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لئے مرزا غلام احمد نے دس شرائط مقرر کی ہیں جن پر ہر احمدی کو کاربند ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ ان شرائط پر عمل پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد باقاعدہ بیعت کرنا بھی ضروری ہے جو کہ احمدیہ مسلم جماعت میں خلیفہ المسیح کے ہاتھ پر کی جاتی ہے۔ شرائط بیعت یہ ہیں[6]:
- بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔
- یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
- یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔
- یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
- یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہو گا اور ہر ایک ذِلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔
- یہ کہ اتباعِ رسم اور متابعتِ ہواوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔
- یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔
- یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
- یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
- یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیردنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
ان شرائط پر آمادگی کے بعد بیعت کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں[7]:
” | اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔ | “ |
” | آج میں مسرور کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل ہوتا/ہوتی ہوں۔ میرا پختہ اور کامل ایمان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرتا/کرتی ہوں جس کی خوشخبری حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ میں وعدہ کرتا/کرتی ہوں کہ مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت کا پابند رہنے کی کوشش کروں گا/گی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا/گی۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وفا کا تعلق رکھوں گا/گی۔ اور بحیثیت خلیفہ المسیح آپ کی تمام معروف ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا/گی۔ | “ |
” | استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ رب انی ظلمت نفسی و اعترافت بذنبی فغفرلی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا/کرتی ہوں۔ تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔ آمین۔ | “ |
حوالہ جات
- ↑ "Chronology of Important Events"
- ↑ الفضل ۱۹ فروری ۲۰۱۵، صفحہ۲
- ↑ احمدیہ قادیان والوں کی ویب سائٹ
- ↑ احمدیہ لاہور والوں کی ویب سائٹ
- ^ ا ب آیت خاتم النبین اور جماعت احمدیہ کا مسلک: نشر؛ نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان بورڈ
- ↑ شرائط بیعت مرقومہ مرزا غلام احمد
- ↑ الفاظ بیعت
ویکی ذخائر پر احمدیہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |