جنسی جرائم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جنسی جرائم (انگریزی: Sex crime) سے مراد وہ جرائم جو جنسی نوعیت کے حامل ہوں۔ ان میں زیادہ تر معاملات میں خواتین پر کیے جانے والے جنسی ہراسانی کے معاملات شامل ہوتے ہیں۔ مگر یہ معاملات صرف خواتین تک محدود نہیں ہیں۔ بچوں کا جنسی استحصال، بچوں کا بچوں سے جنسی استحصال، جنسی حملہ، کئی بچوں کا استحصال سے جڑے معاملے جن میں یہ پہلو بھی مضمر ہو سکتا ہے اور اس قبیل کے کئی معاملات ممکن ہیں جن میں خواتین، بچے اور کچھ معاملات میں مرد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لواطت کے لیے کسی مرد کو مجبور کیا جانا اپنے آپ میں ایک جرم ہے۔

ازدواجی آبروریزی شادی کے بعد مرد کا اپنی بیوی یا بیوی کا اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر مجامعت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ عمل خانگی تشدد اور جنسی زیادتی کی ایک قسم ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے نعرے بلند ہوئے تو اس ازدواجی آبروریزی کے خلاف آوازیں بھی اٹھنے لگیں، کیونکہ دنیا کے اکثر ممالک میں خواتین اس جنسی تشدد کا زیادہ شکار تھیں۔ گرچہ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں قانوناً اس فعل کو قابل سزا جرم تسلیم کر لیا گیا ہے تاہم بعض ممالک میں ابھی تک اسے قابل سزا جرم نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی اس فعل کے لیے کوئی قانون بنایا گیا ہے۔

ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس بات سے اندازہ 2018ء میں قبل ملتان میں ازدواجی جنسی زیادتی کا ایک مشہور کیس سامنا آیا تو اس کی سماعت جنسی زیادتی کی دفعہ 375 کے تحت نہیں ہوئی۔ اس کیس کو دفعہ 377 کے تحت سنا گیا تھا، جو دراصل ‘‘جسمانی نوعیت کے غیر فطری جرائم‘‘ کا احاطہ کرتا ہے، چاہے وہ خواتین کے خلاف ہوں یا پھر جانوروں کے خلاف۔ دوم، انسانی حقوق کے علم پرداروں کے مطابق قانون سازی نہ ہونے سے یہ سوچ بھی پیدا ہوتی ہے کہ پاکستانی سماج میں جنسی زیادتی کی معنی ہی کچھ مختلف ہے۔ اس کے معنی تو یہ نکلتا ہے کہ جنسی زیادتی کا تعلق عورت کے جسم اور رضا کو پہنچنے والی کسی ٹھیس سے نہیں بلکہ مرد کے مالکانہ حقوق سے ہے۔ اس سارے معاملے سے یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک عورت جب پیدا ہوتی ہے تو خاندان کی جائداد سمجھی جاتی ہے اور شادی کے بعد وہ شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے۔ چونکہ وہ شوہر کی ملکیت ہے تو یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ آخر کوئی شخص اپنی ملکیت کیسے چوری کرسکتا ہے۔[1]

اس کے بر عکس ہر ملک میں آبرو ریزی ایک سنگین جرم ہے۔ کچھ حلقوں سے زانیان بالجبیر کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی تھی۔ تاہم بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سربراہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل مچل بیچلیٹ نے 2020ء میں کہا ہے کہ عصمت دری گھناؤنا جرم ضرو رہے لیکن سزائے موت حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا میں متعدد کیس رپورٹ ہوئے، متاثرین کو سخت سزا کا لالچ دے کر ہم خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]