جنگ مدکی (1845ء)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جنگ مدکی
سلسلہ پہلی اینگو سکھ جنگ

جنگ مدکی کا منظر - (ہنری مارٹنز، 1849ء)
تاریخ18 دسمبر 1845ء
مقاممدکی، برٹش راج، موجودہ پنجاب، بھارت
نتیجہ برطانوی فتح
مُحارِب
سکھ سلطنت برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی
کمان دار اور رہنما
لال سنگھ ہیوگ گوہ،
ہنری ہارڈنگ
طاقت
10,000[1]
22 توپیں [2]
10,000[2]–11,000[1]
42 توپیں
ہلاکتیں اور نقصانات
نامعلوم 215 قتل،
657 زخمی

جنگ مُدکی (گرمکھی: ਮੁਦਕੀ ਦੀ ਲੜਾਈ) برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ سلطنت کے مابین 18 دسمبر 1845ء کو مدکی کے مقام پر لڑی جانے والی پہلی اینگلو سکھ جنگ کی لڑائی تھی جس میں کمپنی کی فوج کو فتح ہوئی۔

جنگ کے اسباب[ترمیم]

جنگ کا نقشہ

معاہدہ امرتسر (1809ء) کے تحت رنجیت سنگھ یعنی سکھ سلطنت اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین یہ طے پایا تھا کہ سکھ سلطنت کی مشرقی حدود دریائے ستلج تک تصور کی جائیں اور رنجیت سنگھ اپنی فتوحات کے سلسلہ میں دریائے ستلج سے بڑھ کر مشرق میں پیش قدمی نہ کرے، جو دراصل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات میں شمار ہوتا تھا۔ معاہدہ امرتسر (1809ء) پر 1809ء سے رنجیت سنگھ کی وفات (27 جون 1839ء) تک مکملاً عملدرآمد رہا، حتیٰ کہ 1845ء تک سکھ سلطنت کی طرف سے کمپنی کے مشرقی مقبوضات پر لشکر کشی نہیں کی گئی۔

واقعات[ترمیم]

18 دسمبر 1845ء کو فیروزپور سے 20 میل جنوب مشرق کی جانب مدکی کے مقام پر پہلی اینگلو سکھ جنگ کی پہلی لڑائی لڑی گئی جسے تاریخ میں مدکی کی جنگ کہا جاتا ہے۔[3] سکھ سلطنت اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین یہ پہلی جنگ تھی جس سے کمپنی کے افسران پنجاب میں داخل ہونے کے زیادہ قریب ہوتے گئے۔

افرادی قوت[ترمیم]

سکھ خالصہ فوج میں 10,000 جنگجو جوان سپاہی اس جنگ میں شریک ہوئے جن کے ہمراہ 22 توپیں بھی تھیں۔ یہ سکھ فوج انبالہ اور لدھیانہ کی متحدہ فوج تھی جو لال سنگھ کی قیادت میں جمع ہوئی تھی۔ کمپنی کی فوج میں 10,000 سے 11,000 سپاہی تھے جن کے ہمراہ 42 توپیں تھیں۔

آغاز جنگ[ترمیم]

جنگ مدکی کا ایک منظر - (ارنسٹ کرافٹس، 1895ء)

18 دسمبر 1845ء کی شام کے قریب یعنی چار بجے سہ پہر کے وقت سکھ خالصہ فوج کی طرف سے اچانک بھاری توپوں کی گرج سنائی دی۔ گورنر جنرل ہنری ہارڈنگ گھوڑے پر سوار تیزی سے میدانِ جنگ کی طرف بڑھا۔ برطانوی سپاہی تھکن سے چور رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ سپاہیوں کو فوراً جنگ کے لیے صف آراء کر دیا گیا۔ کمانڈر انچیف

ہیوگ گوہ سواروں اور توپ خانے کے ہمراہ آگے بڑھا اور پیادہ فوج اور میدانی توپ خانے کو پیچھے آنے کا حکم دیا۔ سکھ خالصہ فوج کا مورچہ برطانوی پڑاؤ سے دو میل کے فاصلے پر جنگل، جھاڑیوں اور ریتلے ٹیلوں کے عقب میں تھا جن میں انھوں نے اپنے توپ خانے کو نصب کر رکھا تھا۔ برطانوی فوج کے سامنے آ جانے پر سکھ خالصہ فوج نے زبردست گولہ باری شروع کردی۔ اِس گولہ باری سے انگریزی فوج کی پیش قدمی رک گئی لیکن برطانوی سواروں کی پہلو میں موجود چھوٹی فوجی ٹولیوں نے سکھوں کی بائیں سمت کا رخ کیا اور اُن کی پیادہ فوج کو پچھاڑتے ہوئے توپوں پر دھاوا بول دیا۔ برطانوی توپ خانوں کی گرج نے سکھ خالصہ فوج کی توپوں کو خاموش کر دیا۔ بعد ازاں سر جان ایم کیسکیل، میجر جنرل سر ایچ اسمتھ اور میجر جنرل گلبرٹ کی قیادت میں برطانوی پیادہ فوج نے سکھ خالصہ فوج پر حملہ کر دیا۔ جس وقت دونوں اطراف سے جنگ زور و شور پر تھی، تو لال سنگھ نے اپنے اصل منصوبے کے تحت اچانک میدانِ جنگ چھوڑ دیا۔ سکھ خالصہ فوج کے سپاہی لال سنگھ کے میدانِ جنگ سے فراری کے بعد بھی دل برداشتہ نہ ہوئے بلکہ انھوں نے قوت و جانثاری سے جنگ جاری رکھی۔ سکھ سوار فوجی اپنے گھوڑوں سے نیچے اُتر کر ہاتھوں میں تلواریں لیے انگریزوں پر ٹوٹ پڑے مگر انھیں زبردست کشت و خوں کے ساتھ پسپا کر دیا گیا۔ ہنری ہارڈنگ انگریزی فوج کے ایک حصہ کی نقل و حرکت کی بذات خود نگرانی کر رہا تھا۔ گورنر جنرل کی میدانِ جنگ میں موجودگی سے انگریزی سپاہی حوصلے سے لڑتے گئے اور سکھ خالصہ فوج شکست کھاگئی۔ سکھوں کو چوکی در چوکی پیچھے دھکیلا گیا۔ رات شروع ہوئی اور گردوغبار کے سبب انگریزی فوج اُن سکھوں کا تعاقب نہ کرسکی جو دریائے ستلج کی طرف بھاگ گئے تھے۔ رات ہونے سے قبل ہی انگریزی فوج نے سکھوں کی 17 توپیں اپنے قبضہ میں کرلی تھیں جن میں چند بھاری توپیں تھیں۔ یہ جنگ ریگستان میں گردوغبار کے بادلوں کے درمیان تاروں کی نیم شبی میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔[4]

نقصانات[ترمیم]

انگریزوں کی جانب 215 سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ 657 سپاہی زخمی ہوئے۔[5] متوفی افراد میں میجر جنرل رابرٹ سیل اور میجر جنرل سر جان ایم کیسکیل تھے۔رابرٹ سیل اِس جنگ میں شدید زخمی ہو گیا تھا اور 21 دسمبر 1845ء کو زخمی حالت میں فوت ہو گیا۔سکھ خالصہ فوج کے نقصانات کا اندازہ ممکن نہیں ہو سکا، البتہ اُن کی 17 توپیں پہلے دن ہی جنگ میں برطانوی فوج کے قبضے میں آگئی تھیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Spencer C. Tucker (2009)۔ A Global Chronology of Conflict: From the Ancient World to the Modern Middle ...۔ صفحہ: 1174 
  2. ^ ا ب Perrett, p.184
  3. سید محمد لطیف: تاریخ پنجاب، صفحہ 990۔ مطبوعہ لاہور۔
  4. سید محمد لطیف: تاریخ پنجاب، صفحہ 991/992۔ مطبوعہ لاہور۔
  5. سید محمد لطیف: تاریخ پنجاب، صفحہ 992۔ مطبوعہ لاہور۔