جھیل وکٹوریہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وکٹوریہ کے دیگر استعمالات کے لیے دیکھیے وکٹوریہ (ضد ابہام)

خلاء سے جھیل وکٹوریہ کا ایک دلکش نظارہ

جھیل وکٹوریا افریقا کی عظیم جھیلوں میں سے ایک ہے۔

68،800 مربع کلومیٹر (26،560 مربع میل) پر پھیلی ہوئی یہ جھیل براعظم افریقہ اور استوائی علاقے کی سب سے بڑی اور سطحی حجم کے اعتبار سے دنیا میں تازہ پانی کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 84 میٹر (276 فٹ) اور اوسط گہرائی 40 میٹر (131 فٹ) ہے۔

جھیل وکٹوریہ حجم کے اعتبار سے دنیا میں تازہ پانی کی ساتویں سب سے بڑی جھیل ہے جس میں 2،750 مکعب کلومیٹر (22 لاکھ ایکڑ فٹ) پانی ہے۔ یہ جھیل دریائے نیل کی بڑی شاخ نیل ابیض کا منبع ہے۔ جھیل افریقہ میں تنزانیہ، یوگینڈا اور کینیا کے درمیان وادی صدع العظیم (Great Rift Valley) کے مغربی حصے میں ایک سطح مرتفع پر واقع ہے۔ جھیل کے ساحلوں کی لمبائی 3،400 کلومیٹر (2138 میل) ہے جبکہ اس میں تین ہزار سے زائد جزیرے بھی ہیں جن میں سے اکثر غیر آباد ہیں۔ جھیل کے شمال مغرب میں واقع کئی جزائر کا مجموعہ مشہور سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

جھیل میں قائم ایک خوبصورت جزیرہ

تاریخ میں جھیل کے بارے میں پہلی باقاعدہ معلومات عرب تاجروں کی جانب سے ملتی ہے جو سونے، ہاتھی دانت اور دیگر اشیاء کے حصول کے لیے افریقہ کے اندرونی راستوں پر جاتے تھے۔ معروف مسلمان جغرافیہ دان ادریسی نے 1160ء کی دہائی میں جو نقشہ ترتیب دیا اس میں جھیل وکٹوریہ کو دکھایا گیا ہے اور اسے دریائے نیل کا منبع بھی قرار دیا گیا۔ یورپیوں نے پہلی مرتبہ 1858ء میں اس جھیل کو دیکھا جب برطانیہ کے مہم جو جون ہیننگ اسپیک اس کے جنوبی ساحلوں پر پہنچے۔ انھوں نے اس جھیل کو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کے نام سے موسوم کیا۔

یہ جھیل 20 ویں صدی سے یوگینڈا، تنزانیہ اور کینیا کے درمیان بحری سفر میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ 21 مئی 1996ء کو ایک بحری جہاز کے ڈوبنے سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جو افریقہ کی تاریخ کے بدترین بحری حادثات میں سے ایک ہے۔

جھیل وکٹوریہ عظیم افریقی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا کل رقبہ 59،947 مربع کلومیٹر ہے جو رقبے کے اعتبار سے افریقہ میں سب سے بڑی جھیل ہے۔ اسے سب سے بڑی استوائی جھیل بھی کہا جاتا ہے اور رقبے کے اعتبار سے جھیل سپیریئر کے بعد میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ مقدار کے اعتبار سے یہ جھیل دنیا کی 9ویں بڑی جھیل ہے اور اس میں 2،424 مکعب کلومیٹر پانی موجود ہے۔ یہ جھیل افریقہ میں ایک کم گہرے نشیب میں بنی ہے۔ اس جھیل کی اوسط گہرائی 40 میٹر جبکہ زیادہ سے زیادہ گہرائی 80 تا 81 میٹر ہے۔ اس کا طاس 1،69، 858 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا ساحل 7،142 کلومیٹر ہے۔

یہ جھیل تین ممالک میں تقسیم ہے جن میں تنزانیہ 49 فیصد (33،700 کلومیٹر)، یوگنڈا 45 فیصد (31،000 کلومیٹر) اور کینیا 6 فیصد (4،100 کلومیٹر) بنتا ہے۔

مختلف زبانوں میں مختلف ناموں کے باوجود مہم جو جان ہیننگ سپیک نے اسے برطانوی ملکہ وکٹوریہ کے نام منسوب کیا۔ سپیک 1858 میں یہاں پہنچنے والا پہلا برطانوی تھا۔ اس جھیل میں بہت سی ایسی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو اور کہیں نہیں ملتیں۔ متعارف کرائی گئی کئی مچھلیاں ایسی ہیں جنھوں نے مقامی مچھلیوں کی کئی انواع کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

ارضیات[ترمیم]

ارضیاتی اعتبار سے جھیل وکٹوریہ 4،00،000 سال قدیم ہے۔ یہ جھیل مغرب کی سمت بہنے والے دریاؤں کی راہ میں آنے والی چٹانی رکاوٹ سے بنی ہے۔ مائیوسین دور میں اس جھیل کا طاس براعظمی تقسیم کی حد تھا اور اس کے مغرب میں بہنے والے دریا اور ندیاں دریائے کانگو جبکہ مشرق کو بہنے والے دریا اور ندیاں بحرہند کو جاتی ہیں۔ جب مشرقی وادئ شق بنی تو اس کی مشرقی دیوار البرٹائن شق اٹھی جس نے بہاؤ کو موجودہ دور کی جھیل وکٹوریہ کی طرف موڑ دیا۔ مشرقی افریقی شق اور البرٹائن شق کی دیواروں کے اٹھنے سے موجودہ جھیل بن گئی۔

ارضیاتی تاریخ کے دوران جھیل وکٹوریہ کی شکل بدلتی رہی اور کئی چھوٹی جھیلیں بتدریج مل کر بڑی جھیل بن گئیں۔ جھیل کی تہ سے لیے گئے ارضیاتی نمونوں سے پتہ چلا ہے کہ یہ جھیل کم از کم 3 بار مکمل طور پر خشک ہو چکی ہے۔ شاید یہ سابقہ برفانی دور میں خشک ہوئی ہو جب دنیا بھر میں بارش کم ہو گئی تھی۔ آخری بار جھیل وکٹوریہ 17،300 سال قبل خشک ہوئی اور 14،700 سال قبل اس وقت بھری جب افریقی مرطوب دور شروع ہوا۔

مائیات اور غدیریات[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ کے پانی کا 80 فیصد حصہ براہ راست بارشوں سے آتا ہے۔ جھیل پر ہونے والی بارش کی سالانہ اوسط 2 میٹر تا 2ء2 میٹر ہوتی ہے جو قریبی علاوں سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔ بارش کے علاوہ جھیل میں دریاؤں اور ہزاروں چھوٹی ندیوں کا پانی بھی آتا ہے۔ کاگیرا دریا اس جھیل میں گرنے والا سب سے بڑا دریا ہے جو جھیل کے مغربی کنارے سے داخل ہوتا ہے۔ جھیل سے پانی کے اخراج کا واحد ذریعہ دریائے نیل ہے جو یوگنڈا میں جھیل کے شمالی سرے سے شروع ہوتا ہے۔

اگرچہ پانی کی مقدار کے اعتبار سے جھیل وکٹوریہ دریائے نیل کی سب سے لمبی شاخ کا منبع ہے مگر دریائے نیل کا اصل منبع ابھی تک واضح نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کاگیرا دریا کی کوئی معاون شاخ جو روانڈا یا برونڈی سے شروع ہوتی ہے، اس دریا کا اصل مخزن ہے۔ جھیل البرٹ پہنچنے سے قبل نیل کا بالائی حصہ وکٹوریہ نیل کہلاتا ہے۔ اگرچہ یہ دریا سفید نیل نظام کا حصہ ہے مگر یہ نام اس وقت عام استعمال ہوتا ہے جب دریا یوگنڈا سے نکل کر شمال میں جنوبی سوڈان میں داخل ہوتا ہے۔

2010 سے 2022 کے دوران جھیل کے رقبے میں 15 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اس کے کنارے کی آبادیوں کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

گہرائی کی پیمائش[ترمیم]

جھیل کو کم گہرا مانا جاتا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 80 میٹر جبکہ اوسط گہرائی 40 میٹر ہے۔ 2016 میں اس کا پہلا ڈیجیٹل نقشہ تیار کیا گیا جو 10،000 نقاط کو جمع کر کے بنایا گیا۔ جھیل کا سب سے گہرا مقام مشرق میں کینیا کے قریب ہے اور مغرب میں یوگنڈا کی سمت جھیل کم گہری ہے۔

مقامی جنگلی حیات[ترمیم]

پستانیے[ترمیم]

جھیل میں پستانیوں کی کئی انواع پائی جاتی ہیں جو جھیل یا اس کے قریب مرطوب علاقوں سے منسلک ہیں۔ ان میں دریائی گھوڑے، افریقی اودبلاؤ، دھبے دار اودبلاؤ، دلدلی نیولے، کئی اینٹلوپ، آبی ہرن، چوہے اور چھچھوندر شامل ہیں۔

خزندے[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ اور اس کے قریبی مرطوب علاقوں میں نیل مگرمچھ اور کئی اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں۔

مچھلیاں[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ میں بہت زیادہ مچھلیاں پائی جاتی تھیں جن کی اکثریت مقامی تھی۔ 1940 کی دہائی سے بہت سی اقسام کی مچھلیاں ناپید ہو چکی ہیں۔ اس جھیل میں جھیل ملاوی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ اقسام کی مچھلیاں ملتی ہیں۔

قشریات[ترمیم]

میٹھے پانی کے کیکڑے کی چار انواع جھیل وکٹوریہ میں پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ دیگر مقامات پر بھی عام ہیں۔

ایک قسم کا جھینگا بھی جھیل میں عام پایا جاتا ہے۔

سیپیاں اور گھونگھے[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ میں میٹھے پانی کے گھونگھوں کی 28 انواع ملتی ہیں۔ سیپیوں کی 17 انواع بھی پائی جاتی ہیں۔

مکڑیاں[ترمیم]

جست لگانے والی مکڑی بھی جھیل وکٹوریہ کے اردگرد کینیا اور یوگنڈا میں پائی جاتی ہے اور مادہ مچھروں سے پیٹ بھرتی ہے۔

ماہی گیری[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ افریقہ میں سمندروں سے ہٹ کر ماہی گیری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ابتدا میں مقامی انواع کو پکڑا جاتا تھا مگر 20ویں صدی میں کثرتِ شکار سے ان کی تعداد میں کافی کمی آ گئی جسے پورا کرنے کے لیے 1950 کی دہائی میں کئی غیر مقامی مچھلیاں متعارف کرائی گئیں۔ 1970 کی دہائی تک مقامی مچھلیاں ہی ماہی گیری کا بڑا ذریعہ رہیں مگر پھر ان کی تعداد اتنی کم ہو گئی کہ غیر مقامی مچھلیاں مثلاً نیل پرچ اور نیل تیلاپیا ان کی جگہ لینے لگیں۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں جھیل وکٹوریہ سے سالانہ 5 لاکھ ٹن نیل پرچ پکڑی جاتی تھی مگر بعد میں ان کی تعداد کافی کم ہو گئی۔

ماحولیاتی مسائل[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ سے بہت سے ماحولیاتی مسائل منسلک ہیں اور کئی اقسام کی مچھلی انسانی مداخلت سے ناپید ہو گئی ہے۔

متعارف شدہ مچھلیاں[ترمیم]

1950 کی دہائی سے جھیل وکٹوریہ میں بہت سی اقسام کی مچھلیاں متعارف کرائی گئیں جو بعد ازاں اتنی کامیاب رہیں کہ کئی اقسام کی مقامی مچھلیوں کو ناپید کرنے لگیں۔ نئی متعارف کردہ انواع میں تیلاپیا، ریڈ بریسٹ، ریڈ بیلی وغیرہ شامل تھیں۔ ان مچھلیوں نے نہ صرف جھیل کے حیاتیاتی نظام کو بدلا بلکہ مقامی مچھلیوں کو بھی ناپید کرنا شروع کر دیا جو پہلے سے ہی خطرے کا شکار تھیں۔ سب سے زیادہ نقصان نیل پرچ نے پہنچایا جو دیگر مچھلیوں سے پیٹ بھرتی ہے۔

نیل پرچ نے جھیل کے فطری ماحول کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ یہ مچھلی ہر قسم کی مچھلی اور دیگر آبی جانوروں سے پیٹ بھرتی ہے جس کی وجہ سے الجی کھانے والی مچھلیوں کی تعداد کم ہو گئی۔ اس وجہ سے الجی کی تعداد بڑھنے لگی اور بے جان نباتاتی مواد تحلیل ہوئے بغیر جھیل کی تہ میں پہنچنے لگا۔ اس طرح جھیل کی گہرائیوں میں آکسیجن ناپید ہو گئی جس سے وہاں آکسیجن میں سانس لینے والی مچھلیاں ناپید ہو گئیں اور مچھلیوں کو جھیل کی سطح کے قریب تنگ سی گہرائی میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جھیل وکٹوریہ سالانہ تنزانیہ، کینیا اور یوگنڈا کے 3 کروڑ افراد کا پیٹ بھرتی ہے۔

سنبل آبی کا حملہ[ترمیم]

آلودہ سیوریج کا پانی اور زرعی اور صنعتی فضلوں کو جھیل میں براہ راست ڈالنے سے پچھلے 30 سال کے دوران یہاں نائٹروجن اور فاسفورس کی مقدار بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے 1990 کی دہائی سے سنبل آبی کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ پودا پانی میں موجود تمام آکسیجن استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے جھیل میں مردہ آبی نباتات گلنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ اس وجہ سے جھیل کا پانی زہریلا ہونے لگتا ہے اور مچھلیوں اور انسانوں میں بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پودا کشتیوں کی آمد و رفت، ساحل تک رسائی، پن بجلی کی پیداوار اور صنعتوں کو پانی کی فراہمی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کا مثبت فائدہ یہ ہے کہ اس طرح مچھلیوں کے شکار میں کمی واقع ہوتی ہے اور کئی ناپید سمجھی جانے والی مچھلیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی، سنبل آبی کا مجموعی اثر نامعلوم ہے۔

1993 میں سنبل آبی کا پھیلاؤ دیکھا گیا جو 1997 کو عروج کو پہنچا اور 2001 میں پھر کم ہونے لگا۔ پہلے پہل اس پودے کو جھیل سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی کہ یہ پودا بہت جلدی اگتا ہے۔ پھر عوام میں آگہی پیدا کی گئی۔ حالیہ برسوں میں اس پودے کے فطری شکاری حشرات چھوڑے گئے اور پھر ایسی کشتیاں چلائی گئیں جو اس پودے کو اکھاڑتی اور کاٹتی تھیں۔ ان سے بہتر نتائج حاصل ہوئے۔ 2013 میں توانائی پیدا کرنے والا ایک پلانٹ لگایا گیا جو سنبل آبی اور دیگر نباتاتی مواد کو استعمال کرتا ہے۔ اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بائیوگیس کے علاوہ اس کا فضلہ کھاد کا کام دیتا ہے۔

سنبل آبی کے زوال کی کئی اور وجوہات بھی ممکن ہیں جیسا کہ بدلتے موسمی حالات۔ 1997 کے آخری چند ماہ اور 1998 کے شروع کے چھ ماہ ال نینو کی وجہ سے جھیل میں پانی کی مقدار بڑھی جس سے سنبل آبی کی جڑیں اکھڑنے لگیں۔ تیز ہواؤں اور ان سے پیدا ہونے والی لہروں سے بھی ان پودوں کو نقصان پہنچا۔

آلودگی[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ میں آلودگی کا بڑا سبب شہری اور صنعتی گندے پانی کا براہ راست جھیل میں اخراج اور زرعی کھادیں اور دیگر کیمیائی اجزا شامل ہیں۔

جھیل وکٹوریہ کا طاس والا علاقہ زیادہ تر دیہی ہے مگر اس میں کئی بڑے شہر بھی آتے ہیں جو آلودگی کا سبب ہیں۔ اس کے ساحل پر اہم شہر اور قصبے واقع ہیں جن کینیا کے شہر کیسومو، کیسی اور ہوما بے، یوگنڈا میں کامپالا، جنجا اور انٹیبے اور تنزانیہ کے باکوبا، موانزا اور مسوما شامل ہیں۔ ان شہروں اور قصبوں میں بہت سی ایسی فیکٹریاں ہیں جو کئی کیمیکل براہ راست جھیل وکٹوریہ یا اس کے معاون دریاؤں میں ڈالتی ہیں اور پھر یہ کیمیکل آگے چل کر جھیل وکٹوریا میں جا گرتے ہیں۔ جھیل کنارے واقع مقامی انتظامیہ اور چھوٹے ساحلوں پر آلودہ مواد کو صاف کرنے کا انتظام نہیں ہوتا اور یہ سب براہ راست جھیل میں جاتے ہیں۔ اس طرح سنبل آبی کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی ماحولیاتی تنزلی کی ایک وجہ ہے۔

ماحولیاتی ڈیٹا[ترمیم]

2016 سے جھیل سے متعلق ماحولیاتی ڈیٹا موجود ہے جس میں ساحل، گہرائی کا مطالعہ، آلودگی، درجہ حرارت، ہوا اور دیگر اہم معلومات بھی شامل ہیں جو جھیل اور اس کے اردگرد کے علاقے سے بھی متعلق ہیں۔

تاریخ اور دریافت[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ کے بارے ہمیں اولین معلومات عرب تاجروں سے ملتی ہیں جو آبی گزرگاہوں کی تلاش میں رہتے تھے اور سونے، ہاتھی دانت اور دیگر قیمی اشیا کے علاوہ غلاموں کی بھی تجارت کرتے تھے۔

جھیل کے طاس میں رہنے والے افریقی افراد کو جھیل کے بارے علم تھا مگر اس بارے کوئی تحریر موجود نہیں۔ 1858 میں پہلی یورپی جو یہاں پہنچا، وہ برطانوی مہم جو جان ہیننگ سپیک تھا جو اس کے جنوبی ساحل پر پہنچا۔ سپیک رچرڈ فرانسس برٹن کے ساتھ وسطی افریقہ کی مہم جوئی اور عظیم جھیلوں کو دریافت کرنے نکلا تھا۔ جب اس نے اتنی بڑی جھیل دیکھی تو فوراً سوچا کہ یہی دریائے نیل کا منبع ہوگا اور اسے ملکہ وکٹوریہ کے نام سے جھیل وکٹوریہ کہا۔ برٹن بیماری کے بعد جھیل ٹانگانیکا کے جنوبی ساحل پر صحت یاب ہو رہا تھا اور جب دریائے نیل کے منبع کے بارے اسے سپیک کے دعوے کا علم ہوا تو اسے بہت غصہ آیا کہ اس کے خیال میں دریائے نیل کے منبع کے بارے ابھی یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں تھا۔ اس پر ایک عام لڑائی شروع ہو گئی اور اُس دور کے سائنسی حلقوں میں اسے کافی اہمیت ملی اور سپیک کے دعوے کی تصدیق یا اسے جھٹلانے کے لیے کئی مہم جو تیار ہو گئے۔

1860 میں مشہور سکاٹش مہم جو اور مشنری ڈیوڈ لیونگ اسٹون زیادہ مغرب کو دریائے کانگو کے نظام کو چلا گیا اور سپیک کے دعوے کی تصدیق کی کوشش میں ناکام رہا۔ آخرکار ویلش امریکی مہم جو ہنری مورٹن سٹینلی نیویارک ہیرلڈ اخبار کے تعاون سے سپیک کے دعوے کی تصدیق کرنے نکلا اور اس نے جھیل کا چکر کاٹ کر شمال میں ریپن آبشار کے بارے بتایا جو جھیل سے پانی کے اخراج کا ذریعہ تھا۔

نالوبال ڈیم[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ سے پانی کا واحد اخراج یوگنڈا میں جنجا کے مقام پر ہوتا ہے جہاں اسے وکٹوریہ نیل کہا جاتا ہے۔ یہاں 12،000 سال سے چٹان کے اوپر سے پانی کا اخراج ہو رہا ہے۔ 1952 میں انجنیئروں نے کالونیل یوگنڈا کی حکومت کے حکم پر اس چٹان کو اڑایا اور مصنوعی بیراج بنا کر جھیل میں پانی کی سطح کو قابو کیا۔ سابقہ بہاؤ کو برقرار رکھنے کی خاطر طے کیا گیا کہ جھیل کی سطح کی مناسبت سے پانی کا اخراج 300 تا 1،700 مکعب میٹر فی سیکنڈ ہوگا۔

2002 میں یوگنڈا نے اس علاقے میں پن بجلی کا دوسرا منصوبہ مکمل کیا جو کیرا ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن کہلاتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے عالمی بینک نے تعاون کیا تھا۔ 2006 میں جھیل وکٹوریہ میں پانی کی سطح 80 سال کے دوران کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ نیروبی میں مقیم ایک آزاد ماہر کے مطابق یوگنڈا معاہدے سے دگنا پانی خارج کر رہا ہے جو جھیل کی سطح گرنے کا سبب بنا۔

پانی کا استعمال[ترمیم]

بہت سے شہر اور قصبے پانی، زراعت اور دیگر مقاصد کے لیے جھیل وکٹوریہ پر انحصار کرتے ہیں۔

لماڈی واٹر سکیم[ترمیم]

لماڈی واٹر سکیم پانی اور صفائی کا منصوبہ ہے جو موانزا اور اس کے مضافاتی قصبے لماڈی، مسونگوی، بکوبا اور مسوما کے لیے بنایا گیا۔ یورپین سرمایہ کار بینک نے 2013 میں یہ منصوبہ شروع کیا تاکہ جھیل کے ماحول کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ قصبوں کو ملنے والے پانی کا معیار اور صفائی بہتر ہو سکے جو جھیل کی تباہی کا سبب بن رہے تھے۔ اس منصوبے کے تحت 10 لاکھ افراد کو پانی کی فراہمی اور ایک لاکھ افراد کو صفائی کی سہولت ملے گی۔ گاد اور دیگر ٹھوس چیزوں کو ریت کی چھلنی کی مدد سے چھانا جاتا ہے۔ اس کے بعد پانی کو کلورین یا دیگر ذرائع سے صاف کیا جاتا ہے۔ ریت سے صفائی کی وجہ سے مقامی ذرائع سے مضر صحت جراثیم سے چھٹکارا ہو جاتا ہے۔

ذرائع نقل و حمل[ترمیم]

1900 کی اولین دہائی سے جھیل وکٹوریہ فیریز یوگنڈا، تنزانیہ اور کینیا میں نقل و حمل کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ کسومو، بکوبا، انٹیبے، پورٹ بیل اور جنجا اہم بندرگاہیں ہیں۔ 1963 تک تیز ترین اور جدید ترین کشتی ایم وی وکٹوریہ تھی جو رائل میل کے لیے کام کرتی تھی۔ 1966 میں کینیا اور تنزانیہ کے درمیان ریل فیری کا رابطہ ہو گیا جس کے لیے ایم وی اوہورو اور ایم وی اوموجا نامی کشتیاں استعمال ہونے لگیں۔ 21 مئی 1996 کو ایم وی بکوبا کشتی ڈوب گئی اور اندازہ ہے کہ 800 سے 1،000 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسے افریقہ کے بدترین آبی حادثات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ 20 ستمبر 2018 کو ایک اور حادثے میں تنزانیہ سے آنے والی کشتی ایم وی نیئریری کے 200 سے زیادہ مسافر جان بحق ہوئے۔

6 نومبر 2022 کو جھیل میں پرسیژن ایئر فلائٹ 494 کا اے ٹی آر 42 500 جہاز گر کر تباہ ہوا جس میں 39 مسافر اور عملے کے 4 ارکان سوار تھے۔ کل 19 افراد ہلاک ہوئے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

جھیل وکٹوریہ کا ڈیٹاآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ilec.or.jp (Error: unknown archive URL)

آبی ذخائر اور بین الاقوامی قوانینآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ppl.nl (Error: unknown archive URL)