حافظ محمد احسن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حافظ محمد احسن المعروف حافظ دراز پیدائش : 1202ھ، وفات : 1263ھ

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا اسم حافظ محمد احسن والد کا نام حافظ محمد صدیق اور دادا کا نام محمد اشرف تھا۔ ’’حافظ دراز ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ’’استاذ العلماء ‘‘ لقب تھا۔ پشاور کے لوگ آپ کو حافظ دراز کے نام ہی سے جانتے ہیں اور آپ کا اصلی نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ آپ کو دراز یعنی لمبا اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کا قد غیر معمولی لمبا تھا

اصل وطن[ترمیم]

آپ موضع خوشاب (پنجاب ) کے رہنے والے تھے۔ مگر مستقل طور پرپشاور شہر کو اپنی قیام گاہ بنا لیا تھا۔ آپ کے تمام خاندان علم و فضل اور قرآن مجید کے حفاظ کا گھرانہ تھا۔ یہاں تک کہ آپ کے گھرانے کی عورتیں بھی حافظ قرآن پاک تھیں اور زیور علم سے آراستہ تھیں۔ صاحب حدائق الحنفیہ صفحہ475 پر لکھتے ہیں’’ اور خاندان علم و فضل سے تھے ‘‘۔ صاحب تذکرہ علمائے ہند فرماتے ہیں ’’ علمی خاندان کے فرد تھے‘‘۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ نے علوم متداولہ کا بیشتر حصہ اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کیا۔ مولوی فقیر محمد صاحب جہلمی لکھتے ہیں ’’ اکثر علوم اپنی والدہ ماجدہ سے جو ایک بڑی عالمہ فاضلہ تھی، حاصل کیے اور مسند افادت و اضافت پر متمکن ہو کر تمام عمر تدریس و تالیف میں صرف کی‘‘۔ چونکہ آپ ایک عالمانہ گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے اپنے خاندان کے اس علم کے ورثہ کو پورا پورا حاصل کیا۔

علمی مقام[ترمیم]

’’ استاذ العلماء ‘‘ کے معزز لقب سے پکارے گئے۔ آپ کا مکان اور مسجد باقاعدہ ایک دار العلوم کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا۔ جس میں پشاور، مضافات، علاقہ آزاد، کابل، قندھار، غزنی، ہرات، ثمرقند اور بخارا تک طلبہ علوم متداولہ حاصل کرتے اور فراغت حاصل کرکے صاحب فتویٰ اور صاحب درس بن کر اپنے اپنے ممالک کو لوٹتے، اس تمام علاقہ میں آپ کے متبحر علم کی شہرت تھی۔ مولوی غلام رسول مہر اپنی کتاب ’’ اسماعیل شہید‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ مولینا حافظ محمد احسن صاحب بن محمد صدیق ؛معروف بہ حافظ دراز پشاوری متبحر عالم علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر، سرحد سے ثمر قند تک ان کے علم کا چر چا تھا‘‘ آپ پشاور کے علما میں چوٹی کے عالم اور مرکزی حیثیت کے مالک تھے۔ مذہبی اور سیاسی دونوں حیثیتوں سے اس وقت آپ مسلمانوں کی قیادت کرتے تھے۔ جس وقت پشاور کے علما کی طرف سے محدثین ہندوستان کی تحریک پر نہیں، عقائد پر تنقید شروع ہوئی تو مولوی اسماعیل صاحب دہلوی نے ان کے شکوک و شبہات کے جواب میں دو خط لکھے، سب سے پہلے جس عالم کو اپنے خطوط میں انھوں نے مخاطب کیا تو وہ آپ ہی کی ذات تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس وقت کے علما میں بہت ہی بلند اور ارفع مقام کے مالک تھے۔

صوفیا سے نسبت[ترمیم]

مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی ؒ کے ایک نواسہ جناب قطب برحق شاہ غلام محمد معصومی المعروف حضرت جی صاحب پشاوری ؒ جب سرہند شریف سے ہجرت کر کے پشاور تشریف لائے، تو حافظ دراز صاحب بسا اوقات آپ نے ملنے محلہ فضل حق صاحبزادہ علاقہ یکہ توت میں آیا کرتے۔ حضرت جی صاحبؒ علما اور صلحاء کے بڑے قدردان تھے۔ دوبار ہفتہ میں لوگوں کی اصلاح کے لیے مجلس وعظ کا اہتمام فرماتے۔ چنانچہ ہفتہ میں ایک دن حافظ دراز صاحب کے وعظ کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ صاحب تحفۃ المرشد فرماتے ہیں۔ جمعہ کے دن (حضرت جی ) حافظ دراز صاحب کو جو ــ ’’ متبحر عالم ‘‘ تھے۔ اپنی مجلس میں وعظ کے لیے بلواتے، آپ کے مواعظ ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے عقائد حقہ، اہل سنت و جماعت کی اشاعت پر مبنی ہوتے۔ اور نہایت ہی مدلل اور موثر طریقہ پر وعظ فرماتے۔ آپ کا وعظ اتنا پر درد ہوتا کہ سامعین زار و قطار روتے رہتے۔ بڑی بڑی دور جگہوں سے لوگ آ آ کر مستفیض ہوتے۔ ظہر کی نماز کے بعد عصر کی نماز تک وعظ کی مجلس رہتی۔ یہی وجہ ہوئی کہ آپ ’’ حافظ دراز صاحب واعظ ‘‘ کے نام ہی سے مصروف ہو گئے۔

تصنیفات[ترمیم]

آپ نے وعظ و نصیحت، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ سلسلہ تصنیف و تالیف بھی جاری رکھا۔ چنانچہ

  • بخاری شریف کی شرح بنام منح الباری شرح صحیح البخاری فارسی میں لکھی، محدث جلیل مولینا مولوی میاں نصیر احمدالمعروف ’’ میاں صاحب قصہ خوانی‘‘ نے اس شرح کے پہلے پارہ کے تصحیح کر کے چھپوائی۔ آپ کا قلمی نسخہ پشاور یونیورسٹی نے میں موجود ہے۔
  • قاضی مبارک پر عربی میں ایک مبسوط حاشیہ لکھا ہے۔ یہ حاشیہ اپنی جامعیت کی وجہ سے اتنا مقبول ہوا کہ بطور درس کے پڑھایا جاتا ہے۔ تتمہ اخوند یوسف پر حواشی لکھے۔ سورۂ یوسف اور والضٰحی سے لے کر آخری سورۃ تک کی تفاسیر لکھی۔
  • معراج نامہ (رسالہ)
  • وفات نامہ(رسالہ)
  • بادشاہ بخارا نے آپ سے چند نہایت ہی اہم سوالات دریافت کیے۔ آپ نے ان تمام سوالات کے جواب التفصیل دیے جو اسلامیہ کالج کی لائبریری میں عدد مسلسل 796میں محفوظ ہے۔
  • آپ نے بہت ہی قیمتی اور بیش بہا کتب خانہ چھوڑا تھا۔ شومی ٔ قسمت سے برلب کٹھ اندرون قصہ خوانی بازار میں آپ کے مکان کے ساتھ آگ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے وہ آگ آناً فاناً آپ کے مکان تک پہنچ گئی۔ آپ کے نواسے مکان سے سامان تک نہ نکال سکے۔ تمام سامان مع کتابوں کے جل کر خاکستر ہو گیا۔ اور وہ بیش قیمت کتب خانہ ضائع ہو گیا۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات بعمر 61 برس 1263ھ میں واقع ہوئی۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 122 تا 127،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور