حافظ محمد عبد الکریم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مزار حافظ محمد عبد الکریم

حافظ محمد عبد الکریم نقشبندی مجددی عید گاہ شریف راولپنڈی کے بانی چشم و چراغ اور جد امجد ہیں۔

ولادت[ترمیم]

حافظ محمدعبد الکریم بروز منگل رجب1264ھ بمطابق 11 اپریل 1848ء راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کو پیدائش کی خبر ملی تو خوش ہو کر شاہ چن چراغ کے مزار پردعا کے لیے حاضر ہو ئے اور عقیقہ کے دن نام محمد عبد الکریم رکھا۔

والد محترم[ترمیم]

آپ کے والد کانام نذر محمد تھا آپ کا تعلق مغل ذات سے تھا مگر کپڑے رنگنے کا کام کرتے تھے آپ نیک صفت اوردرویش طبع بزرگ تھے۔ آپ مہینے میں ایک بار کھانا پکا کر تقسیم کرتے ایک مرتبہ ایک مجذوب نے ایک لقمہ کھانے کے لیے دیا آپ نے کراہت سے نہ کھایا تو مجذوب نے کہا اگر کھا لیتا تو بہتر تھااچھا جا تجھے نہیں تیری اولاد کو حصہ ملے گا ۔

بچپن[ترمیم]

ابھی عمر تین ماہ کی تھی کہ والدہ کا انتقال ہو گیا اور جب دوسال کے ہوئے تو والد محترم کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیاآپ کی تربیت آپ کے چچا میاں پیر بخش اور پھوپھی جان مسمات حیات بی بی نے کی جو بڑی زاہدہ عابدہ تھیں بڑی عجیب بات یہ تھی کہ والدہ کے انتقال کے بعد ان کی پھوپھی جو بوڑھی ہو چکی تھیں نے ڈیڑھ سال دودھ پلایا انھوں نے ایک سو دس برس کی عمر پائی ان کی پھوپھی صاحبہ تہجد کے بعد ان کے لیے اللہ کانیک بندہ ہونے اور دین دنیا کی برکتوں کی دعا کرتییں آپ خود فرماتے کہ اس دعا کی ٹھنڈک اب بھی سینے میں پاتا ہوں اور سب کچھ انہی دعاؤں کا صدقہ ہے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

جب آپ کی عمر 8 سال ہوئی تو قاضی محمد زمان کے سپرد کیا گیا جو محلہ کی مسجد کے امام تھے بعد میں انہی سے ابتدائی کتب درسیہ بھی پڑھیں جن میں منیہ ٘،مثنوی ،احیاء العلوم اور مشکوۃ المصابیح قابل ذکر ہیں۔ دوران تعلیم بھی تدبر وتفکر میں رہتے اکثر آسمان کی بلندیوں میں محو رہتے جنہیں قاضی صاحب اس استغراق کی وجہ سے انھیں آسمانی کہتے اسی نام کو ہم سبق اورہم عمر بھی استعمال کرتے تھے سولہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کا شوق ہوا اور اڑھائی سال میں حفظ کرلیاقرأت و تجوید محمدحسین مکی سے پڑھی۔ بڑی دلکش آواز میں تلاوت کرے جہاں تراویح پڑھاتے لوگ مغرب سے ہی اپنی جگہ مخصوص کر لیتے غیر مسلم بھی گلی میں بیٹھ کر قرأت سے محظوظ ہوتے۔ آپ کے چچا جان جو رنگریزی اور چھاپہ گری کا کام کرتے انھیں اپنے ساتھ لے جاتے کاروبار اور اس کے بعد تعلیم بھی حاصل کرتے۔

بیعت[ترمیم]

20 سال کی عمر میں محبت الٰہی کا جذبہ موجزن ہوا اور قرب الٰہی کے حصول کے لیے مرد خدا کی تلاش کرنے لگے اسی حالت میں جہاں کہیں کسی ولی کامل کا پتہ چلتا پہنچ جاتے جب عمر 25 سال کی ہوئی تو ایک مرتبہ خواجہ فقیر محمد المعروف حضرت بابا جی(چورہ شریف)راولپنڈی تشریف لائے آپ کی دکان کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا میاں کیا کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا کپڑے رنگتا ہوں بابا جی نے فرمایا اچھا ہوتا دل رنگنے کا کام سیکھ لو ان کی اس بات سے تلاش حق کی ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ بابا جی کے گرویدہ ہو کر ان کی غلامی اختیار کر لی۔

عطائے خلافت[ترمیم]

جب حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے تو ان کا معمول بن گیا کہ ہفتہ دس دن بعد چورہ شریف پہنچ جاتے اور جو چیز اچھی لگتی اسے خرید کر پیر ومرشد کی خدمت میں پیش کر دیتے یہ محبت و ارادت کا سلسلہ بالاخر خرقہ خلافت پر جا پہنچا اور اس کے ساتھ اجازت بھی ملی کہ اس فیض کو آگے تقسیم کریں اس کے ساتھ ہی اپنا لباس مرحمت فرمایا جس سے آپ پر ایک خاص رقت طاری ہوئی عرض کیامجھے تو آپ کی محبت ہی کافی تھی فرمایا میں تو مامور ہو اللہ کا حکم یہی ہے کہ یہ خلعت آپ کو دی جائے۔

ذکر فکر کا غلبہ[ترمیم]

اس کے بعد ذکر و فکر کا ایسا غلبہ ہوا کہ آپ صبح شام خلوت نشینی کے لیے "باغ سرداراں" میں ہمہ وقت مراقبہ میں مشغول رہتے۔ کئی کئی راتیں نالہ لئی کے کنارے عبادت و ریاضت میں گزار دیتے اور کبھی پیر ودھائی قبرستان میں ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔

ارشاد مرشد کی تعمیل[ترمیم]

ایک مرتبہ اپنے پیرو مرشد کے پاس گئے کسی نے کہا کہ بکریاں چرانے والا بیمار ہو گیا آج بکریاں کون چرائے گا تو پیرو مرشد نے از راہ استہزاء فرمایا کہ آج حافظ جی کو بھیجیں گے یہ کہہ کر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے تو آپ فوراً بکریاں نکال کر چرانے کے لیے جنگل تشریف لے گئے جب پیرو مرشد نے کسی وقت ان کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ جنگل میں ہیں تو بہت خوش ہوئے واپس بلایا اور کہا میں نے خوش طبعی کے لیے یہ بات کی آپ سچ مچ بکریاں لے کر چلے گئے۔

تصنیفات[ترمیم]

شب و روز کی مصروفیات سے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہ کر سکے تا ہم"ہدایت الانسان الی سبیل العرفان"تصوف اخلاق پر اعلیٰ کتاب ہے"مکتوبات امام ربانی" کا اردو ترجمہ کروا کر شائع کروایا اس کے ساتھ ابو الحسن شاذلی کی کتاب "حزب البحر"کا قابل وثوق نسخہ تلاش کر کے ازسر نو طبع کروایا۔

وفات[ترمیم]

انکا وصال28 صفر1355ھ بمطابق 20 مئی1936ء بروز بدھ ہوا ان کا مزار عید گاہ راولپنڈی میں ہے۔

اولاد[ترمیم]

آپ کے 4 صاحبزادے ہیں

خلفاء[ترمیم]

آپ کے 27 خلفاء تھے جن میں فقیہ اعظم مفتی محمد شریف کوٹلی لوہارں،

  • حکیم خادم علی سیالکوٹ
  • صوفی نواب دین موہری شریف،گجرت
  • حافظ عبد الرحمن بیٹے
  • قاضی عالم الدین سیالکوٹ مشہور ہیں
  • بقیتہ السلف حضرت مولانا مولوی یوسف صاحب نقشبندی مجددی صدیقی

[1][2]

معاصرین[ترمیم]

آپ کے معاصرین میں مندرجہ ذیل حضرات تھے:۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پاکستان حصہ دوم ،عالم فقری ،صفحہ 347 تا 355شبیر برادرز لاہور
  2. کنز القدیم فی آثار الکریم،قاضی عالم الدین،ویری ناگ پبلشر میر پور آزاد کشمیر
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔