حاکم نیشاپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حاکم نیشاپوری
(عربی میں: محمد الحاكم النيسابوري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 4 مارچ 933ء[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 اگست 1014ء (81 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سکتہ  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
استاذ دارقطنی،  ابوبکر القفال الشاشی،  ابن حبان  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابو نعیم اصفہانی،  دارقطنی،  ابو بکر بیہقی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  مورخ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مستدرک حاکم  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری (3 ربیع الاول 321ھ3 صفر 405ھ / 3 مارچ 933ءیکم ستمبر 1014ء) اہل سنت کے مشہور عالم تھے جو حاکم نیشاپوری کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی مشہور کتاب المستدرک علٰی الصحیحین ہے۔ ان کے مشہور شاگردوں میں بیہقی کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

حاکم کی کنیت ابو عبد اللہ اور نام محمد بن عبد اللہ بن محمد حمدویہ بن نعیم ہے۔[3] ابن البیع اور حاکم نیسابوری کے نام سے مشہور ہیں۔[4][5] نیشاپور کے رہنے والے بڑے حافظ حدیث اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔[3][6]

سوانح[ترمیم]

بروز پیر 3 ربیع الاول 321ھ کو نیشاپور میں پیدا ہوئے۔[6] لیکن منجی اور طہانی کی نسبتوں سے ان کا عربی قبائل سے خاندانی تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ والد کی زیر نگرانی بچپن میں ہی پڑھنا شروع کر دیا۔[6] بیس برس کی عمر میں عراق کا سفر اختیار کیا اور فریضہ حج ادا کیا۔ حج کرنے کے بعد خراسان اور ماوراء النہر کے علاقہ کے مختلف شہروں میں تقریبًا دو ہزار سے زیادہ شیوخ سے کسب فیض کیا۔[3]

لیکن حافظ خلیل بن عبد اللہ کے مطابق حاکم نے دو سفر کیے، ایک تحصیل علم کے لیے عراق کی طرف اور دوسرا حج کے لیے مکہ معظمہ کی طرف۔[3] اس کی تائید ابن خلکان نے بھی کی ہے، لکھتے ہیں: ”انھوں نے عراق اور حجاز کی طرف دو سفر کیے۔ دوسرا سفر 360ھ میں کیا تھا۔“[7]

حاکم کا قول ہے کہ ”میں نے آب زم زم پی کر اللہ سے حسن تصنیف کی دعا کی تھی۔“[8] اُن کی تصانیف پانچ سو اجزا پر مشتمل ہیں۔[9] ابن خلکان کے مطابق یہ تعداد پندرہ سو اجزا تک ہے۔[4] ان میں سے چند یہ ہیں: المدخل إلى الصحيحين، العلل، الأمالي، فوائد الشيوخ، أمالي العشيات، تراجم الشيوخ، تاريخ علما نيسابور، فضائل الإمام الشافعي رضي الله عنه، المستدرك على الصحيحين، ما تفرد به كل من الإمامين اور معروفة علوم الحديث۔[4]

بعض علما نے حاکم پر اعتراض بھی کیے ہیں عام طور پر وہ درست نہیں ہیں۔ ابن طاہر کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسماعیل انصاری سے حاکم کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے، «حدیث میں ثقہ اور قابل اعتماد ہیں لیکن رافضی ہیں۔» ابن طاہر کہتے ہیں کہ «باطن میں متعصب شیعہ ہیں اور ظاہر میں شیخین کی فضیلت اور ان کی خلافت کے برحق ہونے میں اہل سنت کے ہمنوا ہیں۔ معاویہ کے اور اخلاف سے سخت منحرف ہیں۔ اس کا برملا اظہار کرتے تھے اور اس سلسلہ میں معذرت کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔»[10]

ذہبی ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: «میں کہتا ہوں علی کے مخالفین سے ان کا انحراف صحیح اور درست ہے۔ شیخین کی ہر حالت میں تعظیم و تکریم کرتے تھے مائل بہ تشیع ضرور ہیں مگر رافضی ہرگز نہیں ہیں۔»[11]

تصانیف[ترمیم]

  • المستدرک علی الصحیحین (مستدرک حاکم)
  • تاریخ النیسابور.
  • معرفة علوم الحدیث یا معرفة اصول الحدیث.
  • الاربعین
  • الاکلیل
  • المدخل الی الصحیح
  • آمالی العشّیات
  • تسمیة من اخرجهم البخاری و مسلم
  • سئوالات الحاکم للدّار قطنی
  • سئوالات السجزی للحاکم
  • علل الحدیث
  • فضایل شافعی
  • فضایل فاطمة الزهرا
  • کتاب الضعفاء
  • مدخل الی الاکلیل
  • معجم الشیوخ
  • مُزَکّی الاخبار

وفات[ترمیم]

حاکم ماہِ صفر 405ھ میں وفات پا گئے۔ قاضی ابو بکر حیری نے نماز جنازہ پڑھائی۔[12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/159978 — بنام: Muḥammad ibn ʻAbd Allāh Ḥākim al-Nīsābūrī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب بنام: Muḥammad ibn ʻAbd Allāh al-Ḥākim al-Nīsābūrī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/34482 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب پ ت ذہبی، تذکرۃ الحفاظ (مترجم) 3/ 700، اسلام پبلشنگ ہاؤس، 17 اردو بازار لاہور
  4. ^ ا ب پ ابن خلکان، وفیات الاعیان، 4/ 280، منشورات الشریف الراضی، قم، طبع ثانیہ
  5. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، 2/ 550، دار الفکر بیروت 1414ھ/1994ء
  6. ^ ا ب پ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 17/ 163، مؤسسۃ الرسالہ بیروت 1410ھ/1990ء، طبع سابعہ
  7. ابن خلکان، وفیات الاعیان، 4/ 281، منشورات الشریف الراضی، قم، طبع ثانیہ
  8. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 17/ 171، مؤسسۃ الرسالہ بیروت 1410ھ/1990ء، طبع سابعہ
  9. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ (مترجم) 3/ 701، اسلام پبلشنگ ہاؤس، 17 اردو بازار لاہور
  10. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 17/ 174–175، مؤسسۃ الرسالہ بیروت 1410ھ/1990ء، طبع سابعہ
  11. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ (مترجم) 3/ 703، اسلام پبلشنگ ہاؤس، 17 اردو بازار لاہور
  12. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 17/ 177، مؤسسۃ الرسالہ بیروت 1410ھ/1990ء، طبع سابعہ