حجاج بن علاط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حجاج بن علاطؓ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ
مقام وفات بصرہ عراق

نام ونسب[ترمیم]

حجاج نام،ابو محمد کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے،حجاج بن علاط بن خالد بن نویرہ ابن خثر بن ہلال بن عبید بن ظفر بن سعد بن عمرو بن بہزبن امراؤ القیس بن بہثہ بن سلیم بن منصور سلمیٰ۔ [1]

اسلام[ترمیم]

حجاج خیبر کے قبل مشرف باسلام ہوئے، اسلام کا محرک یہ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ جا رہے تھے،راستہ میں ایک بھیانک وادی میں رات ہو گئی ،اس لیے سب لوگ وہیں شب باش ہو گئے،حجاجؓ سب کی پاسبانی کرنے لگے،اتنے میں کوئی شخص یہ تلاوت کرتا سنائی دیا: يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ [2] اے جن وانس کے گروہ!اگر تم آسمانوں اورزمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ اور تم بغیر سلطان کے نہ نکل سکو گے۔ مکہ پہنچے تویہ واقعہ قریش سے بیان کیا، انہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بھی بےدین ہو گئے، یہ تو وہی کلام ہے جو محمدﷺ کے زعم میں ان کے اوپر نازل ہوتا ہے،حجاج نے اس واقعہ کی تصدیق اپنے ہمراہیوں سے کرائی اور مدینہ آکر مشرف باسلام ہو گئے۔ [3]

ہجرت[ترمیم]

ان کی بیوی مکہ میں رہتی تھیں اور کل مال و متاع بھی وہیں تھے،اسلام لانے کے بعد کل اثاثہ مدینہ منتقل کرنے کی ضرورت ہوئی، ورنہ مشرکین کا دستِ ظلم دراز ہوجاتا، ؛لیکن وہ لوگ مشتبہ ہوچکے تھے، آسانی سے لانا بھی ممکن نہ تھا، اس لیے انہوں نے آنحضرتﷺ سے ایک تدبیر کی اجازت مانگی، آپ نے مصلحتاً دیدی، یہ اجازت لے کر مکہ گئے قریش نے آنحضرتﷺ کے حالات دریافت کرنا شروع کیے، انہوں نے کہا محمدﷺ نے بہت سخت شکست کھائی،ان کے تمام ساتھی مارے گئے وہ خود گرفتار کرلیے گئے ہیں اورعنقریب تم لوگوں کے سامنے لاکر قتل کیے جائیں گے، قریش کے لیے اس سے بڑھ کر مژدہ کیا ہوسکتا تھا،آن کی آن میں یہ خبر تمام شہر میں پھیل گئی ،اس طرح مشرکین کو خوش کرکے کہا محمدﷺ کا سازوسامان فروخت ہورہا ہے میں چاہتا ہوں کہ تاجروں کے پہنچنے کے قبل خریدلوں، مکہ میں لوگوں پر میرا قرض ہے، اگر تم لوگ کوشش کرو تو آسانی سے وصول ہوسکتا ہے، سب اس کارخیر کے لیے تیار ہو گئے اورکوشش کرکے کل بقایا وصول کرادیا، اس کے بعد گھر کا کل اندوختہ لیا، حضرت عباسؓ کے کانوں تک یہ خبر پہنچی تو ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ خود واقعہ کی تحقیق کے لیے بھی نہ آسکے اورایک لڑکے کی زبانی بلا بھیجا، حجاجؓ ان کے پاس گئے اوران کو تخلیہ میں لیجا کر اصل واقعہ سنایا کہ میں نے روپیہ وصول ہوجانے کے لیے یہ خبر مشہور کی تھی، میں خود مشرف باسلام ہوچکا ہوں، اگر اہل مکہ کو اس کی خبر ہوجاتی تو ایک حبہ بھی نہ دیتے،آنحضرتﷺ اللہ کے فضل سے بالکل محفوظ ہیں، خیبر کا میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا اورآنحضرتﷺ حیی بن اخطب رئیس خیبر کی لڑکی کے ساتھ ایام عروسی بسر کر رہے ہیں؛لیکن جب تک میں ان کی زد سے نہ نکل جاؤں،اس وقت تک اس راز کو کسی پر ظاہر نہ کروؑ چنانچہ تین دن تک حضرت عباسؓ بالکل خاموش رہے،چوتھے دن جب اطمینان ہو گیا اوران کی بیوی سے واقعہ بیان کیا پھر مسجد میں آئے،یہاں بھی وہی تذکرہ تھا، آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے خیبر فتح کر لیا ،حیی بن اخطب کی لڑکی ان کی زوجیت میں آئی، بنی ابی حقیق سرداران یثرب کی گردنیں اڑادی گئیں اورحجاج اپنا مال و متاع لے کر روانہ ہو گئے،لوگوں نے پوچھا تم نے کس سے سنا،فرمایا حجاج سے ،ان لوگوں نے ان کی بیوی سے تحقیق کیا تو واقعہ سچ نکلا، اس کے پانچویں دن مدینہ سے بھی خبریں آگئیں؛لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، حجاج قابو سے نکل چکے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ [4]

غزوات[ترمیم]

خیبر کے کچھ ہی دنوں پہلے مشرف باسلام ہوئے، اس لیے سب سے پہلے اسی غزوہ میں شریک ہوئے،فتح مکہ کے زمانہ میں مدینہ سے باہر تھے،آنحضرتﷺ نے حملہ کا ارادہ کیا تو ان کو بلوابھیجا۔ [5]

تعمیرمکان ومسجد[ترمیم]

حجاج دولت مند تھے اوراپنا کل اثاثہ مکہ سے لے آئے تھے؛چنانچہ مدینہ میں اپنا ذاتی مکان بنوایا اورایک مسجد تعمیر کرائی۔ [6]

وفات[ترمیم]

وفات کے بارے میں دو روایتیں ہیں، ایک یہ کہ عہد فاروقی کی ابتدا میں وفات پائی اور دوسری یہ کہ جنگ جمل میں کام آئے؛لیکن پہلی روایت زیادہ مستند ہے، جنگ جمل میں یہ خود نہیں ؛بلکہ ان کے لڑکے معرض قتل ہوئے تھے۔ [7]

تمول[ترمیم]

حجاج تمام صحابہ میں مال ودولت سے لحاظ سے ممتاز تھے اوربنو سلیم کی کانیں ان ہی کی ملکیت میں تھیں۔ [8]

اولاد[ترمیم]

حجاج کے متعدد اولادیں تھیں، ایک معرض جو جنگ جمل میں کام آئے اور دوسرے غصر،یہ اس قدر حسین تھے ؛کہ اکثر عورتیں ان پر شیفتہ ہوجاتی تھیں، اسی خطرہ سے حضرت عمرؓ نے ان کو مدینہ سے بصرہ منتقل کر دیا تھا۔ [9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:308)
  2. (الرحمن:33)
  3. (استیعاب:1/132)
  4. (ابن سعد،جزو4،قسم2:14،15)
  5. (ابن سعد،جزو4،قسم2:15)
  6. (اصابہ:1/273)
  7. (اصابہ:1/327)
  8. (استیعاب:1/132)
  9. (اصابہ:6/260)