حسان بن نعمان
حسان بن النعمان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 7ویں صدی |
تاریخ وفات | سنہ 705ء (4–5 سال) |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
درستی - ترمیم ![]() |
حسن بن نعمان بن عدی بن بکر بن مغیث بن عمرو بن مزیقیا بن عامر بن ازد ، شیخ الامین کا لقب پانے والے حسان بن نعمان کو افریقہ کی فتوحات کا قائد سمجھا جاتا ہے۔ وہ شام میں پیدا ہوئے اور جب شام فتح ہوا تو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ انھوں نے قرآن و سنت حفظ کیے، فقہ میں مہارت حاصل کی اور حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت بھی کی۔ ان کا انتقال 86 ہجری میں ہوا۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی
[ترمیم]حسان بن نعمان الغسانی شام میں پیدا ہوئے۔ وہ بنو امیہ کے دور میں افریقہ میں داخل ہونے والے اولین افراد میں شامل تھے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں اسلام قبول کیا اور قرآن و سنت کے ساتھ فقہ کے علوم میں مہارت حاصل کی۔
فوجی کردار اور فتوحات
[ترمیم]انھیں معاویہ بن ابی سفیان نے افریقہ کا گورنر مقرر کیا اور بعد میں عبد الملک بن مروان نے انھیں مصر کا والی بنایا۔ جب افریقہ میں بے امنی پھیلی تو عبد الملک بن مروان نے انھیں بھیجا اور کہا: "میں نہیں جانتا کہ افریقہ کے لیے حسان بن نعمان الغسانی سے زیادہ موزوں کوئی ہے۔" ان کی فوج 40,000 افراد پر مشتمل تھی، جو اس سے پہلے افریقہ میں داخل ہونے والی کسی بھی فوج سے بڑی تھی۔
انھوں نے قرطاجنہ فتح کیا اور ملکہ کاہنہ، جو بربروں کی سربراہ تھی، کو معرکہ "بئر الکاہنہ" میں شکست دی۔ ابتدا میں باغایہ کے مقام پر ملکہ کاہنہ نے انھیں شکست دی اور وہ بڑی مشکل سے اپنی فوج کو نقصان سے بچاتے ہوئے پیچھے ہٹے۔ کچھ سال برقہ میں گزارنے کے بعد، وہ دوبارہ واپس آئے، اس دوران بربر عوام ملکہ کے جبر سے تنگ آ چکے تھے اور بڑی تعداد میں حسان کے ساتھ مل گئے۔ آخر کار، انھوں نے 82 ہجری / 712 عیسوی میں جبل اوراس کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں ملکہ کاہنہ کو شکست دے کر قتل کر دیا۔[1][2]
انتظامی خدمات
[ترمیم]مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط اڈا قائم کرنے کے لیے شہر تونس کی بنیاد رکھی۔ رومیوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست دے کر انھیں صقلیہ (سسلی) اور اندلس کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ قیروان میں رہائش اختیار کی، جہاں انھوں نے جامع قیروان کی تعمیرِ نو کی، حکومتی دفاتر (دیوان) مرتب کیے اور مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کیے۔ ان کے حکم پر جامع الزیتونہ کی تعمیر کی گئی، جو آج بھی تونس کی مشہور مسجد ہے۔[3]
معزولی اور آخری ایام
[ترمیم]بعد میں عبد العزیز بن مروان نے انھیں معزول کر دیا، جس پر وہ واپس شام چلے گئے۔ جب ولید بن عبد الملک نے انھیں دوبارہ عہدہ دینے کی کوشش کی تو انھوں نے قسم کھائی کہ وہ بنو امیہ کے لیے دوبارہ کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ انھوں نے اپنی باقی زندگی شام میں گزاری اور تاریخ میں ایک عظیم فاتح اور منتظم کے طور پر یاد کیے گئے۔[4][5]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ الروض المعطار في خبر الأقطار ص66
- ↑ الدولة العربية في إسبانيا، د:إبراهيم بيضون، ص:57
- ↑ "ʿAbd al-Malik"۔ www.britannica.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-09-20
- ↑ Talbi 1971، صفحہ 271
- ↑ Sebag 2000، صفحہ 630