حسن بن حسن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حسنؒ بن حسنؓ
معلومات شخصیت

حسنؒ بن حسنؓ حسن ابن علیؓ کے فرزند اور کبائر تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

حسن نام،خاندان نبوت کے چشم و چراغ یعنی حضرت امام حسن بن علی علیہما السلام کے فرزند ارجمند اورآپ کے جانشین تھے،ماں کا نام خولہ تھا،نانہالی نسب نامہ یہ تھا ،خولہ بنت منظور بن زبان بن سیار بن عمرو بن جابر بن عقیل بن ہلال بن سمی بن مازن فزاری۔

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال کے لحاظ سے حسن کا کوئی قابل ذکر پایہ نہ تھا تاہم اپنے جد امجد کی باتوں یعنی احادیث نبوی کے امین تھے اوراس کو اپنے والد بزرگوار حضرت حسن اورعبداللہ بن جعفر سے سنا تھا،آپ کے صاحبزادے ابراہیم،عبد اللہ،حسن اورچچیرے بھائی حسن بن محمد بن حنفیہ اورحباب بن سدید کوفی،سعید بن ابی سعید،عبد الرحمن بن حفص اورولید بن کثیر وغیرہ سے آپ نے روایتیں کی ہیں۔ [1]

خلافت کے بارہ میں باطل عقائد کی تردید[ترمیم]

حسن خلق میں اپنے بے نیاز عالم والد بزرگوار حضرت حسن ؓکے خلف الصدق تھے،نسبی فخر وغرور کا ادنٰی شائبہ نہ تھا،بعض سادات کرام،غالی مدعیانِ محبت اہل بیت کے فریب مین پھنس جاتے تھے، اگرچہ ان کے عقائد وخیالات سے ان کا دامن پاک ہوتا تھا، لیکن بعض حالات کی وجہ سے وہ ان کے ہفوات کو انگیز کرلیتے تھے۔ لیکن حسن اس باپ کے بیٹے تھے جس نے ملتی ہوئی خلافت چھوڑدی، ا س لیے وہ خلافت کے بارہ میں گمراہ کن خیالات کو سخت ناپسند کرتے تھے اور برملا اُن کی تردید کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک غالی مدعی محبت سے فرمایا تم لوگوں کو دعوی ہے کہ تم ہم سے خدا کے لیے محبت کرتے ہو،اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو ہم جب تک خدا کی اطاعت کریں تم ہم سے محبت کرو اورجب اس کی نافرمانی کریں تو ہم سے دشمنی کرو، آپ کے یہ خیالات سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ لوگ تو رسول اللہ ﷺ کے قرابت دار اوراہل بیت میں سے ہیں آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے اگر اللہ تعالی بغیر اپنی اطاعت کے محض قرابت رسول کی وجہ سے کسی سے رکنے والا ہوتا تو سب سے زیادہ وہ ان لوگوں کو فائدہ پہنچتا جس کے مادری اور پدری سلسلے ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے قریب ہیں،خدا کی قسم مجھ کو خوف ہے کہ ہم میں (اہلبیت ) کے گنہگار کو عام گنہگاروں سے دگنا عذاب دیا جائے گا اوریہ امید بھی ہے کہ ہماری جماعت کے مطیع اورمحسن کو اجر بھی دگنا ملے گا ،تم لوگوں کی حالت پر افسوس ہے خدا سے ڈرو اورہمارے بارے میں قول حق کہو ؛کیونکہ وہ اس چیز کو جسے تم چاہتے ہو بدرجہ اتم پورا کرنے والا ہے اورہم بھی قول حق ہی سے تم سے راضی ہو سکتے ہیں۔ پھر فرمایا جو کچھ تم لوگ کہتے ہو اگر وہ خدا کے دین کی بات ہے تو ہمارے بزرگوں نے ہمارے ساتھ بڑی برائی کی کہ انھوں نے اس کو نہ ہمیں بتایا اورنہ اس کی جانب رغبت دلائی یہ سن کر اس رافضی نے کہا کیا مولا علیؓ کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد نہیں فرمایا ہے کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ فرمایا ہاں کہا ہے،لیکن اگر اس سے مراد خلافت اورحکومت ہوتی تو نماز روزہ حج اورزکوٰۃ وغیرہ اسلامی ارکان کی طرح اس کی بھی وضاحت اورتصریح فرمادیتے اورصاف صاف ارشاد فرماتے کہ لوگو میرے بعد یہ تمھارے ولی ہیں؛کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے خیر خواہ رسول اللہ ﷺ تھے اس لیے آپ کو ایک دینی مسئلہ میں صریح حکم دینا چاہیے تھا اگر تم لوگوں کے قول کے مطابق یہ صحیح مان لیا جائے کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے علیؓ کو خلافت اوررسول اللہ ﷺ کے بعد ان کی جانشینی کے لیے منتخب فرمایا ہے،تو ایسی صورت میں علی سب سے بڑے مجرم اورخطاکر ٹھہرتے ہیں کہ انھوں نے اس چیز کو جس کے قیام کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا چھوڑدیا۔ [2]

ابوالعباس سفاح سے تعلقات ومراسم[ترمیم]

ابوالعباس سفاح عباسی،حسن اوران کے بھائی عبد اللہ دونوں کو بہت مانتا تھا یہ دونوں طالبین (عبد المطلب کی اولاد) کی جماعت کے ساتھ اس کے پاس جاتے تھے وہ ان کی خدمت کرتا تھا،عبد اللہ پر اتنا مہربان تھا کہ دربار میں جانے کے لیے ان پر پورے لباس کی پابندی نہ تھی اور وہ بلا تکلف محض معمولی کرتا پہن کر سفاح کے سامنے چلے جاتے تھے،ان کے ساتھ یہ غیر معمولی برتاؤ دیکھ کر لوگ ان سے کہتے تھے کہ امیر المومنین تمھارے علاوہ کسی کو اس لباس میں نہیں دیکھتے تم کو انھوں نے اپنا فرزند تصور کیا ہے۔ لیکن ان تعلقات ومراسم اور اس شفقت وکرم کے باوجود سفاح کو اس کے لڑکوں محمد اورابراہیم کی جانب سے اپنی مخالفت کا بڑا خطرہ تھا،ایک دن اس نے عبد اللہ سے پوچھا کہ تمھارے دونوں لڑکے اپنے خاندان والوں کے ساتھ میرے پاس کیوں نہیں آئے،عبد اللہ خاموش رہے،سفاح نے دوبارہ پھر پوچھا،عبد اللہ نے حسن سے اس کا تذکرہ کیاا نہوں نے کہا اگر اب وہ سوال کرے تو کہہ دینا کہ ان کے چچا (یعنی خودحسن)کو ان کا حال معلوم ہے ،ان سے پوچھیے ،عبد اللہ نے کہا تم میرے لیے اتنی بڑی ذمہ داری برداشت کروگے ،انھوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ سفاح نے جب دوبارہ پھر پوچھا تو عبد اللہ نے کہہ دیا کہ امیر المومنین ان کے چچا کو ان کا علم ہے،سفاح نے حسن کو بلا کر ان سے پوچھا،انھوں نے جواب دیا کہ پہلے آپ یہ بتائیے کہ میں آپ سے کس طرح کی گفتگو کروں ،خلافت کی عظمت وجلالت کو ملحوظ رکھ کر یا چچیرے بھائی کی طرح،سفاح نے کہا بالکل بے تکلف جیسے بھائی بھائی سے کرتا ہے، حسن نے کہا میں آپ کو خدا کا واسطہ دلا کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر خدانے خلافت کا کوئی حصہ محمد اورابراہیم کے لیے مقدر کر دیا ہے تو کیا آپ اورآپ کے ساتھ ساری روئے زمین کی طاقت اورکوشش خدا کی تقدیر کو روک سکتی ہے،سفاح نے کہا نہیں، حسن نے کہا میں آپ کو خدا کا واسطہ دلاکر پوچھتا ہوں کہ اگر خدانے ان کی قسمت میں کچھ نہیں لکھا ہے توکیا وہ دونوں سارے روئے زمین کی حمایت اورکوشش سے کچھ پالیں گے، سفاح نے کہا نہیں،حسن نے کہا تو پھر آپ ان پیر مرد(عبد اللہ)کی ان نعمتوں اورالطاف وعنایات کو جو آپ ان پر کرتے ہیں بے لطف اورمکدر کیوں کرتے ہیں،حسن کی اس گفتگو کے بعد سفاح نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی ان دونوں کا تذکرہ نہ کرے گا اورمرتے وقت تک اس عہد پر قائم رہا۔

قید اوروفات[ترمیم]

لیکن اس کے جانشین منصور نے اس کا لحاظ نہیں رکھا اورمحمد اورابراہیم کے جرم میں حسن اورعبداللہ دونوں بھائیوں کو گرفتار کرکے قید کر دیا؛چنانچہ دونوں نے قید ہی میں 145ھ میں وفات پائی اوروفات کے وقت حسن کی عمر اٹھاسی سال کی تھی۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:2/263)
  2. (ابن سعد،حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب)
  3. (یہ واقعات تاریخ خطیب :7/293،294 سے ماخوذ ہیں)